Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 51

سورة حم السجدہ

وَ اِذَاۤ اَنۡعَمۡنَا عَلَی الۡاِنۡسَانِ اَعۡرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِہٖ ۚ وَ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوۡ دُعَآءٍ عَرِیۡضٍ ﴿۵۱﴾

And when We bestow favor upon man, he turns away and distances himself; but when evil touches him, then he is full of extensive supplication.

اور جب ہم انسان پر اپنا انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور کنارہ کش ہو جاتا ہے اور جب اسے مصیبت پڑتی ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے والا بن جاتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الاْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجَانِبِهِ ... And when We show favor to man, he turns away and becomes arrogant; means, he turns away from doing acts of obedience and is too proud to obey the commands of Allah. This is like the Ayah: فَتَوَلَّى بِرُكْنِهِ But (Fir`awn) turned away along with his hosts, (51:39) ... وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ ... but when evil touches him, (means, difficulties), ... فَذُو دُعَاء عَرِيضٍ then he has recourse to long supplications. means, he asks at length for one thing. Long supplications are those which are long on words and short on meaning. The opposite is concise speech which is brief but full of meaning. And Allah says: وَإِذَا مَسَّ الاِنسَـنَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَأيِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَأ إِلَى ضُرٍّ مَّسَّهُ And when harm touches man, he invokes Us, lying on his side, or sitting or standing. But when We have removed his harm from him, he passes on as if he had never invoked Us for a harm that touched him! (10:12)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 یعنی حق سے منہ پھیر لیتا ہے اور حق کی اطاعت سے اپنا پہلو بدل لیتا ہے اور تکبر کا اظہار کرتا ہے۔ 51۔ 2 یعنی بارگاہ الہی میں تضرع وزاری کرتا ہے تاکہ وہ مصیبت دور فرما دے۔ یعنی شدت میں اللہ کو یاد کرتا ہے، خوش حالی میں بھول جاتا ہے نزول نقمت کے وقت اللہ سے فریادیں کرتا ہے، حصول نعمت کے وقت اسے وہ یاد نہیں رہتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٩] خوشحالی میں اکثر انسانوں کا اللہ کو بھول جانا :۔ یعنی جب انسان پر خوشحالی اور آسودگی کا دور آتا ہے تو پھولا نہیں سماتا اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس وقت دراصل وہ خود خدا بنا بیٹھا ہوتا ہے۔ اور اگر اسے اللہ کی آیات سنائی جائیں اور یہ بتایا جائے کہ یہ سب انعام اللہ ہی نے کیا لہذا تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اس کے حقوق ادا کرنے چاہیں اور اپنے برے انجام سے ڈرنا چاہئے تو اسے ایسی باتیں ناگوار اور تلخ محسوس ہوتی ہیں جنہیں وہ سننا بھی گوارا نہیں کرتا اور اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ لیکن جب پھر کسی بلا میں پھنس جاتا ہے تو اس وقت اسے اپنا وہ پروردگار یاد آنے لگتا ہے جس کی آیات سننے سے بھی بدکتا تھا۔ دل میں تو مایوس ہوتا ہے کیونکہ اسے اس مصیبت سے نجات کے ظاہری اسباب نظر نہیں آتے۔ مگر جب تکلیف اسے پریشان کردیتی ہے تو بےاختیار اس کے ہاتھ اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔ اور پھر وہ اللہ سے لمبی چوڑی دعائیں بھی کرتا ہے اور وعدے وعید بھی کرنے لگتا ہے۔ اور یہ حالت چونکہ اس کی اضطراری کیفیت ہوتی ہے۔ لہذا اگر اللہ اسے اس مصیبت سے نجات دے بھی دے تو بعد میں پھر وہ وہی کچھ بن جاتا ہے جو پہلے تھا۔ اِلا ماشاء اللہ تھوڑے ہی لوگ ہوتے ہیں جو بعد میں اللہ سے کئے ہوئے اس قول وقرار کو یاد رکھتے اور حقیقتاً اس کے فرمانبردار بن جاتے ہیں۔ اکثریت ایسی ہی ہوتی ہے جو خوشحالی کے دور میں اپنے پروردگار کو یکسر بھول ہی جاتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

واذا انعمنا علی الانسان اعرض و نابجانبہ :” نای ینای نایاً “ (ف) دور ہونا۔ یہ فعل لازم ہے، ” بجانیہ “ پر آنے والی ” بائ “ کے ساتھ متعدی ہوگیا ، اس لئے ” نابجانبہ “ کا معنی ہے اپنا پہلو دور کرلیتا ہے۔ پچھلی آیت میں کافر انسان کا قول بیان ہوا ہے، اس آیت میں اس کا حال بیان ہوا ہے۔ اس آیت کی تفسیر کیلئے دیکھیے سورة یونس (١٢) ، ہود (١٠، ١١) اور سورة زمر (٤٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary فَذُو دُعَاءٍ عَرِ‌يضٍ (he is full of broad prayers - 51.) The nature of an infidel is being stated here that when Allah Almighty bestows upon him the good things: wealth, honor and peace, the infidel gets so involved in them and so intoxicated with them that he becomes even more distant from the true Benefactor, Allah Almighty, and his pride and heedlessness increase even more. But when he faces some distress, then he starts long and lengthy supplications to Allah Almighty. Here the Qur&an has used the word ` broad& to describe their lengthy supplications, because what is wider will automatically be longer too. That is why, when describing the span of Paradise, Allah Almighty has used the word عَرْ‌ضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْ‌ضُ (a paradise the width of which spans the heavens and the earth - 3: 133) Lengthy supplications in themselves are praiseworthy and desirable as is proved by authentic ahadith about the etiquettes of supplication where it is mentioned that, while praying to Allah Ta’ ala, beseeching tearfully and repeatedly is desirable. (Bukhari and Muslim) Therefore, the denunciation of the infidel is actually not for lengthy supplications, but for his mean disposition that when Allah blesses him with His bounties, he gets intoxicated with arrogance and pride, and when he faces distress, he keeps on praying in a way of wailing and complaining about his difficulties, as is the habit of heedless people; the intent is not to supplicate, but to wail about his misfortunes and to keep on telling the people about it. (Allah knows best).

معارف ومسائل فَذُوْ دُعَاۗءٍ عَرِيْضٍ ۔ مقصود یہ ہے کہ کافر انسان کی خصلت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس کو کوئی نعمت دولت وعزت و عافیت دیتے ہیں تو ان میں مگن اور مست ہو کر منعم حقیقی اللہ تعالیٰ سے اور بھی زیادہ دور ہوجاتا ہے اور اس کا تکبر اور غفلت بڑھ جاتی ہے اور جب کوئی مصیبت پیش آتی ہے تو اللہ تعالیٰ سے لمبی لمبی دعائیں مانگنے لگتا ہے۔ لمبی دعا کو اس جگہ عریض یعنی چوڑی سے تعبیر فرمایا جس میں زیادہ مبالغہ ہے۔ کیونکہ جس چیز کا عرض بڑا ہو اس کا طول اس سے زیادہ بڑا ہونا خود بخود معلوم ہے۔ اسی لئے جنت کی وسعت بیان فرمانے میں بھی حق تعالیٰ نے فرمایا (آیت) عرضھا السموٰت والارض۔ یعنی جنت اتنی وسیع ہے کہ اس کے عرض میں سب آسمان و زمین سما جائیں۔ اور طویل دعائیں مانگنا اگرچہ فی نفسہ امر محمود و مستحسن ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں دعا کے آداب میں ذکر کیا گیا ہے کہ دعاء میں الحاح وزاری اور بار بار تکرار کرنا بہتر ہے۔ (کما اخرجہ البخاری و مسلم و عامة المحدثین) لیکن اس جگہ اس کافر انسان کی جو مذمت کی گئی ہے وہ درحقیقت طول دعا پر نہیں بلکہ اس کی اس مجموعی مذموم خصلت پر ہے کہ جب اس پر اللہ تعالیٰ نعمت کی روانی فرما دیں تو تکبر اور غرور میں مدہوش ہوجاوے اور جب مصیبت آوے تو اپنی پریشانی کو بار بار پکارتا اور کہتا پھرے جیسا غافل لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اللہ سے دعا کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اپنا دکھڑا رونا اور لوگوں سے کہتے رہنا مقصود ہوتا ہے۔ واللہ سبحانہ، وتعالیٰ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَي الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِہٖ۝ ٠ ۚ وَاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَاۗءٍ عَرِيْضٍ۝ ٥١ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ نأى يقال : نأى بجانبه . قال أبو عمرو : نأى يَنْأَى نَأْياً ، مثل : نعی: أعرض، وقال أبو عبیدة : تباعد «1» . وقرئ : نَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء/ 83] «2» مثل : نعی. أي : نهض به، عبارة عن التکبر کقولک : شمخ بأنفه، وازورّ بجانبه «3» . وانتأى افتعل منه، والمنتأى: الموضع البعید، وقرئ : ناء بجانبه [ الإسراء/ 83] «4» أي : تباعد . ومنه : النُّؤي : لحفیرة حول الخباء تباعد الماء عنه . والنيّة تکون مصدرا، واسما من : نویت، وهي توجّه القلب نحو العمل، ولیس من ذلک بشیء . ( ن و ء ) ناء بجانبہ ینوء ویناء کے معنی پہلو پھیر لینے کے ہیں ۔ ابوعبیدہ کے نزدیک ناء مثل ناع کے ہے جس کے معنی اٹھنے کے ہیں اور آنائہ کے معنی اٹھانے کے قرآن پاک میں ہے : ما إِنَّ مَفاتِحَهُ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص/ 76] کہ ان کی کنجیاں ایک طاقت ور جماعت کو اٹھانی مشکل ہوتیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ نَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء/ 83] اور پہلو پھیر لیتا ہے ۔ میں ایک قرات ناء بروز ن ناع ہے جس کے معنی پہلو اٹھانا کے ہیں اور یہ تکبر سے کنایہ ہوتا ہے جیسا کہ شمخ بانفہ وازورجانبہ کا محاورہ ہے ۔ ابو عمر کا قول ہے ۔ کہ نای بروزن فعٰی کے ہے جس کے معنی اعراض کرنے کے ہیں اور ابو عبیدہ کے نزدیک تای نیای کے معنی دور ہونے کے ہیں اور اسی سے انتاء یٰ بروزن افتعل ہے اور منتای کے معنی مکان بعید کے ہیں ۔ اور اسی سے نوئ ہے جس کے معنی خیمے کے گردا گرد گڑھے کے ہیں جو بارش کے پانی کو اس سے دور رکھتا ہے ۔ اور نای بجانبہ کے معنی پہلو تہی کرنے کے ہیں ۔ النیتہ ۔ یہ نویت کا مصدر ہے اور کبھی بطور اسم بھی استعمال ہوتا ہے اور اسکے معنی کسی کام کی جانب دل سے متوجہ ہونیکے ہیں ۔ یہ نای کے باب سے قطعا نہیں ہے / جنب أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال، ( ج ن ب ) الجنب اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی شر الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ عرض أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة/ 31] ، ( ع ر ض ) العرض اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة/ 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جس وقت ہم کافر کو مال و دولت دیتے ہیں تو اس کے شکر سے منہ پھیرتا ہے اور ایمان سے دور بھاگ جاتا ہے اور جب فاقہ کی مصیبت میں گرفتار کردیتے ہیں تو خاص طور پر یہ عتبہ مال و اولاد کی زیادتی کی خوب لمبی لمبی دعائیں مانگنے لگتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١{ وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِہٖ } ” اور جب ہم انسان پر نعمتوں کی بارش کردیتے ہیں تو وہ رخ پھیر لیتا ہے اور اپنا پہلو بدل لیتا ہے۔ “ { وَاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَآئٍ عَرِیْضٍ } ” اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بڑی لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

67 That is, "He turns away from Our obedience and worship, and thinks it is below his dignity to bow to Us. " 68 For other verses on this subject, see Yunus: 12, Bani Isra'il: 83, ArRum: 33-36, Az.Zumar: 8-9, 49 and the E.N.'s.

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :67 یعنی ہماری اطاعت و بندگی سے منہ موڑتا ہے اور ہمارے آگے جھکنے کو اپنی توہین سمجھنے لگتا ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :68 اس مضمون کی متعدد آیات اس سے پہلے قرآن مجید میں گزر چکی ہیں ۔ اس کو پوری طرح سمجھنے کے لیے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : تفہیم القرآن جلد دوم ، یونس ، حاشیہ ۱۵ ، ہود ، حاشیہ ۱۰ ، بنی اسرائیل ، حاشیہ ۱۰۲ ۔ جلد سوم ، الروم ، حواشی ۵۲ تا ۵٦ ، جلد چہارم ، الزمر آیات ۸ ۔ ۹ ۔ ٤۹ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:51) اعرض : ماضی واحد مذکر غائب اعراض (افعال) مصدر اس نے منہ پھیرلیا۔ اس نے کنارہ کیا۔ العرض (کسی چیز کی چوڑائی) یہ الطول کا ضد ہے اصل میں اس کا استعمال اجسام کے لئے ہوتا ہے اس کے بعد غیر اجسام کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ مثلا اسی آیت میں آگے آتا ہے فذو دعاء عریض : تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ اور عرض خاص کر ایک جانب اور کنارہ کو کہتے ہیں جیسے عرض الشیء اس کی ایک جانت ظاہر ہوگئی۔ یہ لفظ متعدد المعانی ہے اور قرآن مجید میں بھی مختلف مقامات پر مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً (1) بمعنی پیش کرنا۔ جیسے ثم عرضہم علی الملئکۃ (2:31) پھر اس نے ان کو فرشتوں کے سامنے رکھا۔ (2) بمعنی آڑ جیسے تجعلوا اللّٰہ عرضۃ لایمانکم (2:224) اور خدا کے نام کو اپنی قسموں کے لئے آڑ مت بناؤ۔ اور (3) بمعنی عرض طول کی ضد جیسے وجنۃ عرضھا السموت والارض (3:132) اور بہشت جس کا عرض وسماء کے برابر ہے وغیرہ نا ماضی واحد مذکر غائب ۔ نأی ینأی نای (باب فتح) مادہ ن و ی مصدر دور ہونا۔ آیت ہذا میں یہ متعدی بالباء ہے اس لئے ترجمہ ہوگا۔ اس نے اپنے پہلو کو دور کر لیان۔ اس نے پہلو پھیرلیا۔ اس نے روگردانی کی۔ بعض قرأتوں میں ناء بجانبہ آیا ہے اس صورت میں اس کا مادہ ن و ء ہوگا۔ اور ناء ینوء (باب نصر) سے مصدر۔ نوء و تنواء ہوگا۔ جس کے معنی مشقت و تکلیف سے اٹھنا کے ہیں۔ اور باء کے تعدیہ کے ساتھ بمعنی بوجھ کو مشکل سے اٹھانا۔ المفردات میں ہے :۔ ایک قرأت میں ناء بروزن ناع ہے جس کے معنی پہلو اٹھانا ہے اور یہ تکبر سے کنایہ ہے۔ مصدر تنواء سے قرآن مجید میں آیا ہے :۔ ما ان مفاتحہ لتنوء بالعصبۃ اولی القوۃ (28:76) کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانا مشکل ہوتیں۔ جانبہ : مضاف مضاف الیہ۔ اس کا بازو۔ اس کی جانب۔ اس کا پہلو۔ یہی آیت 17:83 میں آئی ہے۔ فذودعاء عریض : ف جواب شرط کے لئے ہے (ذو بمعنی والا۔ صاحب۔ اسم ہے) محاورہ عرب میں عریض بمعنی کثیر مستعمل ہے۔ اس میں کثرت و وسعت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ کیونکہ طول نام ہے سب سے بڑی مسافت و امتداد کا اور جب دوسرا امتداد یعنی عرض بھی اتنا ہی ہو (یعنی شکل مرجع بن جائے) تو پھر اس کی وسعت کا کیا کہنا۔ اسی لئے جنت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا عرضھا السموت والارض۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی اینٹھ جاتا ہے اور حق کے سامنے سرنگوں ہونے کو اپنی کسر شان سمجھنے لگتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اور یہ غایت درجہ کا شر و بطر ہے۔ 4۔ اور یہ غایت درجہ کی بےصبری اور حب دنیا میں انہماک ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد انسان کے مزاج کی ایک حالت بتائی اور وہ یہ کہ جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں یعنی جب اسے نعمتیں دیتے ہیں تو تکبر کے انداز میں ایک طرف کو دور چلا جاتا ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار نہیں ہوتا یہ مال اور نعمتیں جو موجب شکر تھیں ان کو تکبر کا ذریعہ بنا لیتا ہے نعمتوں کے زمانے میں اس کا یہ حال ہوتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچ جاتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں (١) کرنے لگتا ہے انسانوں کا جو حال ان آیات میں بیان فرمایا ہے عموما مشاہدہ میں آتا رہتا ہے۔ (١) صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ دعا کی جو صفت بیان کی گئی ہے اس سے لازم آتا ہے کہ دعا لمبی بھی ہو کیونکہ دعا طویل جب ہی ہوتی ہے جبکہ وہ چوڑائی سے زیادہ لمبی بھی ہو ورنہ تو طویل طویل نہ ہوگی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50:۔ ” واذا انعمنا “ یہ انسان کافر کا حال ہے۔ جب ہم اس کو دنیا میں انعام و راحت سے نوازتے ہیں تو شکر کرنے کے بجائے وہ حق سے اعراض کرتا اور تکبر و غرور سے اتراتا ہے۔ لیکن اس حال پر بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ انعام و راحت کے بعد اگر اس پر کوئی مصیبت آجائے تو اس کی ساری شیخی دھری کی دھری رہ جاتی ہے، اور گڑ گڑا کر خدا سے دعائیں مانگنے لگتا ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ” واذا مسکم الضر فی البحر ضل من تدعون الا ایاہ “ (بنی اسرائیل رکوع 7) ۔ فاذا رکبوا فی الفلک دعو وا اللہ مخلصین لہ الدین (عنکبوت رکوع 7) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(51) اور جب ہم انسان کو اپنے انعام سے نوازتے ہیں اور اپنی کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو مونہہ موڑتا اور اپنا پہلو پھیر لیتا ہے اور جب اسی انسان کو کوئی برائی اور سختی پہنچتی ہے تو ہاتھ پھیلا پھیلا کر لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ منکر اور کافر کے افعال کا ذکر فرمایا۔ مال پر حرص حب دنیا میں انہماک عیش میں خدا کو بھول جانا اترانا اینٹہنا مصیبت میں جزع اور فزع وغیرہ نہ سختی میں صبر نہ نعمت میں شکر یہ منکرین کی جبلت ہے اور مسلمان کی طبیعت اور عادت ان تمام باتوں سے بالا تر ہے۔