Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 6

سورة حم السجدہ

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاسۡتَقِیۡمُوۡۤا اِلَیۡہِ وَ اسۡتَغۡفِرُوۡہُ ؕ وَ وَیۡلٌ لِّلۡمُشۡرِکِیۡنَ ۙ﴿۶﴾

Say, O [Muhammad], "I am only a man like you to whom it has been revealed that your god is but one God; so take a straight course to Him and seek His forgiveness." And woe to those who associate others with Allah -

آپ کہہ دیجئے! کہ میں تو تم ہی جیسا انسان ہوں مجھ پر وحی نازل کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک اللہ ہی ہے سو تم اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اس سے گناہوں کی معافی چاہو ، اور ان مشرکوں کے لئے ( بڑی ہی ) خرابی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Call to Tawhid Allah says, قُلْ ... Say, (O Muhammad, to these disbelievers and idolators), ... إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ ... I am only a human being like you. It is revealed to me that your God is One God, `not like these idols and false gods which you worship. Allah is one God,' ... فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ ... therefore take straight path to Him, means, `worship Him Alone sincerely, in accordance with what He has commanded you through His Messengers.' ... وَاسْتَغْفِرُوهُ ... and seek forgiveness of Him, means, `for your past sins.' ... وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ And woe to the polytheists. means, doom and destruction is their lot.

حصول نجات اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اللہ کا حکم ہو رہا ہے کہ ان جھٹلانے والے مشرکوں کے سامنے اعلان کر دیجئے کہ میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں ۔ مجھے بذریعہ وحی الٰہی کے حکم دیا گیا ہے کہ تم سب کا معبود ایک اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ تم جو متفرق اور کئی ایک معبود بنائے بیٹھے ہو یہ طریقہ سراسر گمراہی والا ہے ۔ تم ساری عبادتیں اسی ایک اللہ کیلئے بجا لاؤ ۔ اور ٹھیک اسی طرح جس طرح تمہیں اس کے رسول سے معلوم ہو ۔ اور اپنے اگلے گناہوں سے توبہ کرو ۔ ان کی معافی طلب کرو ۔ یقین مانو کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے ہلاک ہونے والے ہیں ، جو زکوٰۃ نہیں دیتے ۔ یعنی بقول ابن عباس لا الہ الا اللہ کی شہادت نہیں دیتے ۔ عکرمہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا Ḍ۝۽ ) 91- الشمس:9 ) یعنی اس نے فلاح پائی جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا ۔ اور وہ ہلاک ہوا جس نے اسے دبا دیا ۔ اور آیت میں فرمایا ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى 14۝ۙ ) 87- الأعلى:14 ) یعنی اس نے نجات حاصل کرلی جس نے پاکیزگی کی اور اپنے رب کا نام ذکر کیا پھر نماز ادا کی ۔ اور جگہ ارشاد ہے ( هَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰى 18؀ۙ ) 79- النازعات:18 ) کیا تجھے پاک ہونے کا خیال ہے؟ ان آیتوں میں زکوٰۃ یعنی پاکی سے مطلب نفس کو بےہودہ اخلاق سے دور کرنا ہے اور سب سے بڑی اور پہلی قسم اس کی شرک سے پاک ہونا ہے ، اسی طرح آیت مندرجہ بالا میں بھی زکوٰۃ نہ دینے سے توحید کا نہ ماننا مراد ہے ۔ مال کی زکوٰۃ کو زکوٰۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ حرمت سے پاک کر دیتی ہے ۔ اور زیادتی اور برکت اور کثرت مال کا باعث بنتی ہے ۔ اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ کی توفیق ہوتی ہے ۔ لیکن امام سعدی ، ماویہ بن قرہ ، قتادہ اور اکثر مفسرین نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ مال زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ۔ اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے امام ابن جریر بھی اسی کو مختار کہتے ہیں ۔ لیکن یہ قول تامل طلب ہے ۔ اس لئے کہ زکوٰۃ فرض ہوتی ہے مدینے میں جاکر ہجرت کے دوسرے سال ۔ اور یہ آیت اتری ہے مکے شریف میں ۔ زیادہ سے زیادہ اس تفسیر کو مان کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صدقے اور زکوٰۃ کی اصل کا حکم تو نبوت کی ابتدا میں ہی تھا ، جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے ( وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ ١٤١؀ۙ ) 6- الانعام:141 ) جس دن کھیت کاٹو اس کا حق دے دیا کرو ۔ ہاں وہ زکوٰۃ جس کا نصاب اور جس کی مقدار من جانب اللہ مقرر ہے وہ مدینے میں مقرر ہوئی ۔ یہ قول ایسا ہے جس سے دونوں باتوں میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے ۔ خود نماز کو دیکھئے کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے ابتداء نبوت میں ہی فرض ہو چکی تھی ۔ لیکن معراج والی رات ہجرت سے ڈیڑھ سال پہلے پانچوں نمازیں باقاعدہ شروط و ارکان کے ساتھ مقرر ہو گئیں ۔ اور رفتہ رفتہ اس کے تمام متعلقات پورے کر دیئے گئے واللہ اعلم ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے ۔ کہ اللہ کے ماننے والوں اور نبی کے اطاعت گزاروں کیلئے وہ اجر و ثواب ہے جو دائمی ہے اور کبھی ختم نہیں ہونے والا ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے ( مَّاكِثِيْنَ فِيْهِ اَبَدًا Ǽ۝ۙ ) 18- الكهف:3 ) وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اور فرماتا ہے ( عَطَاۗءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ ١٠٨؁ ) 11-ھود:108 ) انہیں جو انعام دیا جائے گا وہ نہ ٹوٹنے والا اور مسلسل ہے ۔ سدی کہتے ہیں گویا وہ ان کا حق ہے جو انہیں دیا گیا نہ کہ بطور احسان ہے ۔ لیکن بعض ائمہ نے اس کی تردید کی ہے ۔ کیونکہ اہل جنت پر بھی اللہ کا احسان یقینا ہے ۔ خود قرآن میں ہے ۔ ( بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 17؀ ) 49- الحجرات:17 ) یعنی بلکہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ وہ تمہیں ایمان کی ہدایت کرتا ہے ۔ جنتیوں کا قول ہے ۔ ( فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَوَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ 27؀ ) 52- الطور:27 ) پس اللہ نے ہم پر احسان کیا اور آگ کے عذاب سے بچا لیا ۔ رسول کریم علیہ افضل اصلوۃ والتسلیم فرماتے ہیں مگر یہ کہ مجھے اپنی رحمت میں لے لے اور اپنے فضل و احسان میں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی میرے اور تمہارے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے بجز وحی الہی کے پھر یہ بعد وحجاب کیوں ؟ علاوہ ازیں میں جو دعوت توحید پیش کر رہا ہوں وہ بھی ایسے نہیں کہ عقل وفہم میں نہ آسکے پھر اس سے اعراض کیوں ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] اس لیے میں نہ تو تمہارے دلوں کے پردوں کو ہٹا سکتا ہوں، نہ تمہاری ثقل سماعت کو دور کرسکتا ہوں اور جو عداوت و مخالفت کی دیوار تم نے حائل کر رکھی ہے میں اسے بھی گرا دینے کی طاقت نہیں رکھتا۔ کیونکہ میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہی ہوں اور یہ کام ایک انسان کی بساط سے باہر ہیں۔ ہاں تمہارے جیسا انسان ہونے کے باوجود میں یہ ضرور دعویٰ رکھتا ہوں کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل کی جاتی ہے۔ جس کا بنیادی مضمون یہی ہے کہ تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ بات میں کوئی وہم و گمان اور قیاس کی بنا پر نہیں کہتا بلکہ وحی جیسے یقینی علم کی بنا پر کہتا ہوں۔ اور وحی کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے سوا دوسروں میں خدائی اختیارات و تصرفات کو تسلیم کرنا چھوڑ دو ۔ اور اپنے ذہن کو ایسے مشرکانہ عقائد سے پاک صاف کرکے اپنی سب امیدیں ایک اللہ کے ساتھ وابستہ کردو۔ فریاد کے لیے پکارو تو اسی کو پکارو۔ اور پہلے جو غلط روش تم نے اختیار کر رکھی تھی اس کے لیے پروردگار سے معافی مانگو۔ ورنہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی پکارنے والوں کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) قل انما انا بشر مثلکم : یعنی مجھ سے تمہاری اس قدر دوری کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ نہ تو میں فرشتہ یا جن یا نظر نہ آنے والی کوئی اور مخلوق ہوں کہ میرے اور تمہارے درمیان کوئی پردہ جس کی وجہ سے تم مجھے دیکھ نہ سکو یا میری بات سن نہ سکو، بلکہ میں ایک بشر ہی ہوں جو تم میں پیدا ہوا، پلا بڑھا اور نبوت سے سرفراز ہوا۔ نہ یہ بات ہے کہ میری زبان تم سے مختلف ہے۔ بلکہ تمہاری طرح عرب ہوں، کھانے پینے، سونے جاگنے، تندرستی ، بیماری، شادی، غمی اور آل اولاد ، غرض تمام انسانی صفات میں تمہارے جیسا ہوں، پھر مجھ سے یہ اجتناب اور ایسی دوری کیوں ؟ (٢) یوحی الی انما الھکم الہ واحد : دوری کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ میں پانی کوئی ذاتی بات تمہارے سامنے پیش کر کے اسے منوانا چاہتا ہوں۔ ایسا بھی نہیں، بلکہ میں تمہارے پاس وحی الٰہی کی بات لے کر آیا ہوں اور یہی میرا امتیاز ہے، اور یہ بھی نہیں کہ وہ وحی الٰہی کوئی پیچیدہ یا عقل میں نہ آنے والی ہو، یا اس کے تم سے بیشمار مطالبات ہوں جنہیں پورا کرنے سے تم قاصر ہو، بلکہ وہ صاف ، سچی اور عقل کے عین مطابق ہے اور وہ ہے صرف ایک مختصر سی بات کہ تمہاری عبادت کا حق دار صرف ایک معبود ہے۔ ایسی واضح اور مختصر بات نہ سننے یا نہ سمجھنے کا اور اس کے کہنے والے کو نہ دیکھنے کا تمہارے پاس کوئی عذر نہیں ، تمہیں روکنے والی چیز صرف تمہارا کفر پر اصرار ہے۔ سو اسے چھوڑو، تاکہ تم بھی وہ حقیقت سمجھ سکو جو تمہارے جیسا ایک بشر ہو کر میں سمجھتا ہوں اور تمہیں سمجھا رہا ہوں، لہٰذا اپنا رخ اپنے واحد معبود کی طرف بالکل سیدھا کرلو۔ (٣) فاستقیموآ الیہ : استقامت کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة ہود (١١٢) ۔ یعنی جب تمہاری عبادت کا حق دار صرف ایک معبود ہے تو تمام معبود ان باطلہ سے منہ پھیر کر اپنا رخ پوری طرح اس کی طرف سیدھا کرلو اور صرف اسی کی عبادت کرو، جیسا کہ خلیل اللہ (علیہ السلام) نے کہا تھا :(انی وجھت وجھی للذی فطر السموت والارض حنیفاً وما انا من المشرکین) (الانعام : ٨٩)” بیشک میں نے اپنا چہرہ اس کی طرف متوجہ کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، ایک (اللہ کی) طرف ہو کر اور میں مشرکوں سے نہیں۔ “ (٤) واستغفروہ : یعنی اس سے پہلے اس کی جو ناشکری اور اس کیساتھ شرک کرتے رہے ہو اس کی اس سے معانی مانگو اور اس کا حق ادا کرنے میں جو کوتاہی پہلے ہوئی یا آئندہ ہوگی سب کی بخشش کی دعا کرتے رہو۔ (٥) آیت کی جو تفسیر اوپر بیان کی گئی ہے یہ بقاعی اور کچھ اور مفسرین کے مطابق ہے۔ ایک اور تفسیر یہ ہے ” میں تو تمہارے جیسا ایک انسان ہوں، تمہارے کانوں اور آنکھوں کو کھولنا اور دلوں کے پردے ادور کرنا نہ میرے اختیار میں ہے اور نہ ہی میں اس کا مکلف ہوں، میری ذمہ داری، وہ وحی الٰہی تم تک پہنچا دینا ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے میری طرف کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارا سچا معبود بس ایک ہے۔ سو اس کی طرف پوری طرح سیدھے ہوجاؤ اور پانی گزشتہ اور موجودہ نافرمانیوں اور لغزشوں کی اس سے معافی مانگو۔ “ (ابن عاشور) یہ تفسیر بھی بہت عمدہ ہے۔ (٦) و ویل للمشرکین الذین لایوتون الزکوۃ : یعنی جو لوگ اللہ واحد اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لاتے ان کے لئے بہت بڑی ہلاکت ہے۔ اگرچہ ان کی ہلاکت کے بیشمار اسباب ہیں، مگر یہاں ان میں سے تین بنیادی اسباب ذکر فرمائے، کیوں کہ سعادت کے بنیادی اسباب بھی تین ہیں، یعنی اللہ کا حق ادا کرنا، مخلوق کا حق ادا کرنا اور آخرت کا یقین رکھ کر اپنے اعمال کی کجواب دہی کے لئے تیار رکھنا۔ جس طرح سب سے اونچے اعمال یہ ہیں اسی طرح سب سے بڑی خست اور کمینگی بھی ان کا ادا نہ کرنا ہے۔ فرمایا، ان لوگوں کے لئے بہت بڑی ہلاکت ہے جو مشرک ہیں، اپنے مالک کے غدار ہیں، اللہ کی طرف سے مخلوق کے لئے عائد ہونے والا کم از کم فریضہ بھی ادا نہیں کرتے اور آخرت کے سرے ہی سے منکر ہیں جس میں حساب ہوگا اور جس کے بعد زندگی دائمی اور ابدی ہے۔ (٧) یہاں ایک سوال ہے کہ یہ سورت مکی ہے، جب کہ زکوۃ مدینہ میں فرض ہوئی۔ اس کے جواب میں بعض مفسرین نے فرمایا کہ زکوۃ کا لفظی معنی پاکیزگی ہے، اس لئے یہاں توحید کے اقرار کے ساتھ نفس کی پاکیزگی مراد ہے کہ مشرک کلمہ توحید کے ساتھ اپنے آپ کو پاک نہیں کرتے۔ مگر اس میں یہ اشکال ہے کہ اگر آیت کے الفاظ ” لایاتون الزکاۃ “ ہوتے تو اس معنی کی گنجائش تھی ” لایوتون “ میں اس کی گنجائش مشکل ہے، کیونکہ اس کا معنی ہے ” وہ زکوۃ نہیں دیتے۔ “ اس لئے طبری اور اکثر مفسرین رحمتہ اللہ نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے کہ وہ زکوۃ نہیں دیتے۔ رہا یہ سوال کہ مکہ میں تو زکوۃ فرض ہی نہیں ہوئی تھی، تو جواب اس کا یہ ہے کہ اگرچہ زکوۃ کا نصاب اور دورانیہ مدینہ میں مقرر ہوا مگر اصل زکوۃ اور اللہ کی راہمیں خرچ کرنا ابتدائے اسلام ہی میں فرض تھا۔ ہرقل نے جب ابوسفیان سے پوچھا کہ وہ نبی تمہیں کیا حکم دیتا ہے تو انہوں نے کہا تھا :(یامرنا بالصلاۃ والزکاۃ والصلۃ والعقاف) (بخاری، الزکوۃ، باب وجوب الزکوۃ ، قبل ح :1395 تعلیقاً )” وہ نبی ہمیں نماز، زکوۃ صلہ رحمی اور پاک دانی کا حکم دیتا ہے۔ “ اور ظاہر ہے کہ ابوسفیان نے وہی احاکم ذکر کئے جو مکہ میں اس نے سنے۔ علاوہ ازیں مکی سورتوں میں جا بجا صدقے، زکوۃ اور کھیتی میں سے حق ادا کرنے کا ذکر ہے، جیسا کہ فرمایا :(واتواحقہ یوم حصادہ) (لانعام :171)” اور اس کا حق اس کی کٹائی کے دن ادا کرو۔ “ اور فرمایا :(وسیحبنھا الاتقی الذی یوتی مالہ یتزکی ) (اللیل 18-18)” اور عنقریب اس سے وہ بڑا پرہیز گار دور رکھا جائے گا۔ جو اپنا مال (اس لئے) دیتا ہے کہ پاک ہوجائے۔ “ اور فرمایا :(والذین فی اموالھم حق مغلوم للسآئل و المحروم) (المعارج :25, 23) ” اور وہ جن کے مالوں میں ایک مقرر حصہ ہے۔ سوال کرنے والے کے لئے اور (اس کے لئے) جسے نہیں دیا جاتا۔ “ اور فرمایا : (والذین یوتون ما اتوا و قلوبھم وجلۃ انھم الی ربھم رجعون) (المومنون :60) ” اور وہ کہ انہوں نے جو کچھ دیا اس حال میں دیتے ہیں ہا ن کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں کہ یقیناً وہ اپنے رب ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ “ اور یہ تمام آیات مکی سورتوں کی ہیں۔ سورة مزمل ابتدا میں اترنے والی مکی سورت ہے، اس کی آخری آیت میں اس کا صراحتاً ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ کفار توحید و رسالت پر ایمان کے علاوہ زکوۃ اور دوسرے احکام پر عمل کے بھی مکلف ہیں اور ان کی عدم ادائیگی پر بھی ان کو عذاب ہوگا۔ رہی یہ بات کہ ان کی نماز اور زکوۃ تو ایمان لانے کے بعد ہی معتبر ہوگی، پہلے اس کا فائدہ ہی نہیں، تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہیں نماز یا زکوۃ کا حکم نہیں، جیسا کہ نماز اسی وقت درست ہوگی جب وضو ہوگا، مگر اس ک یہ مطلب نہیں کہ جب تک وضو نہ ہو نماز کا حکم ہی نہیں۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیے سورة مدثر (٣٩ تا ٤٨) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Prophetic reply to the Denial and Ridicule of Disbelievers The infidels saying that their hearts were covered and their ears were leaden, etc., was not because they had become deaf and bereft of intellect; rather it was a kind of ridicule and jest that they used to make. But the reply to this offensive ridicule that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was directed to give was not to be offensive in the like manner, but to express his humility that he (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is not God, having authority over everything, rather he (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is also a human being; the only difference is that his Lord has given him (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) guidance through wahy, and has supported him with miracles. It should have resulted in all of them declaring their faith in him. Even now they are advised to turn in worship and obedience to Allah only and to repent and renounce the past sins.

منکرین کے انکار و استہزاء کا پیغمبرانہ جواب : کفار نے جو اپنے دلوں پر پردے، کانوں میں بوجھ وغیرہ کا اقرار کیا، یہ تو ظاہر ہے اس سے مراد یہ نہ تھا کہ ان میں عقل نہیں یا بہرے ہیں بلکہ ایک قسم کا استہزاء و تمسخر تھا۔ مگر اس ظالمانہ جرأت و استہزاء کا جو جواب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین کیا گیا وہ یہ تھا کہ ان کے مقابلہ میں کوئی تشدد کی بات نہ کریں، بلکہ اپنی تواضع کا اظہار کریں کہ میں خدا نہیں جو ہر کام کا مالک و مختار ہوں بلکہ تم ہی جیسا ایک انسان ہوں۔ فرق صرف اس کا ہے کہ مجھے میرے رب نے وحی بھیج کر ہدایت کی، اس کی تائید کے لئے معجزات دیئے۔ جس کا اثر یہ ہونا چاہئے تھا کہ تم سب مجھ پر ایمان لاتے۔ اور اب بھی میں تمہیں یہی وصیت کرتا ہوں کہ اپنا رخ عبادت وطاعت میں صرف ایک اللہ کی طرف کرلو اور پچھلے گناہوں سے توبہ کرلو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِيْمُوْٓا اِلَيْہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ۝ ٠ ۭ وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ۝ ٦ۙ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ بشر وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] ، ( ب ش ر ) البشر اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص/ 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سيدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ ويل قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر . ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية/ 7] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا [ مریم/ 37] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ، وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ، يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] . ( و ی ل ) الویل اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ان پر افسوس ہے اس لئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ ۔ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] سو لوگ ظالم ہیں ان کی خرابی ہے ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ تول میں کمی کر نیوالا کے لئے کر ابی ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52]( اے ہے) ہماری خواب گا ہوں سے کسی نے ( جگا ) اٹھایا ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ہائے شامت بیشک ہم ظالم تھے ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] ہائے شامت ہم ہی حد سے گبڑھ گئے تھے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦۔ ٧) سو آپ اپنے دین پر اپنے اللہ سے ہماری ہلاکت کی تدبیر کیجیے ہم اپنے طریقہ پر اپنے معبودوں سے درخواست کر رہے ہیں۔ محمد آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں بھی تم ہی جیسا انسان ہوں میرے پاس بذریعہ قرآن کریم جبریل امین یہ وحی لائے تاکہ میں تمہیں باخبر کردوں کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ تو شرک سے توبہ کر کے اسی کی طرف رجوع کرو اور اسی کی توحید کا اقرار کرلو سو ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔ جو کلمہ لا الہ الا اللہ کا اقرار نہیں کرتے اور موت کے بعد جی اٹھنے اور جنت و دوزخ کے منکر ہیں ان کے لیے جہنم میں خون اور پیپ کی ایک وادی ہے اسے ویل بھی کہا جاتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ { قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ } ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ میں تو بس ایک انسان ہوں تمہاری طرح کا “ مخالفین کی طرف سے چیلنج کا گستاخانہ انداز دیکھئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب ملاحظہ فرمائیے۔ یعنی میں نے تم لوگوں کے سامنے نہ تو خدائی کا دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی میں نے کہا ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو بس ایک انسان ہوں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میرے پاس اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے۔ { یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ} ” میری طرف وحی کی جا رہی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے “ ان سورتوں کا مرکزی مضمون چونکہ توحید ہے ‘ اس لیے سورت کے آغاز میں ہی اس مضمون کو نمایاں کیا جا رہا ہے۔ { فَاسْتَقِیْمُوْٓا اِلَیْہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ } ” تو اسی کی طرف سیدھا رکھو اپنے رخ کو اور اس سے استغفار کرو۔ “ جو خطائیں اور غلطیاں اس سے پہلے ہوچکی ہیں ان کی معافی مانگو اور کفر و شرک کے عقائد سے توبہ کرو۔ { وَوَیْلٌ لِّلْمُشْرِکِیْنَ } ” اور بڑی تباہی اور ہلاکت ہوگی مشرکین کے لیے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 That is, "It is not in my power to remove the covering that envelops your hearts, open your ears, and tear away the curtain which you have drawn between me and yourselves, I am only a tnan: I can make only him understand who is inclined to listen, and can only meet him who is ready to meet me." 6 That is. "You may if you so like put coverings on your hearts and make your ears deaf, but the fact is that you don't have many gods: then is only One God, whose servants you are. And this is no philosophy, which I might have thought out myself, and which might have equal probability of being true or false, but this reality has been made known to me through revelation, which cannot admit of any likelihood of error. " 7 That is, "Do not make any other your God: do not serve and worship any other deity: do not invoke and bow to any other for help: and do not obey and follow the customs and laws and codes made and set by others. " 8 "Ask for His forgiveness": Ask for His forgiveness for the unfaithfulness that you have been showing so far towards Him, for the shirk and disbelief and disobedience that you have been committing till now, and for the sins that you happened to comfit due to forgetfulness of God.

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :5 یعنی میرے بس میں یہ نہیں ہے کہ تمہارے دلوں پر چڑھے ہوئے غلاف اتار دوں ، تمہارے بہرے کان کھول دوں ، اور اس حجاب کو پھاڑ دوں جو تم نے خود ہی میرے اور اپنے درمیان ڈال لیا ہے ۔ میں تو ایک انسان ہوں ۔ اسی کو سمجھا سکتا ہوں جو ملنے کے لیے تیار ہو ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :6 یعنی تم چاہے اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لو اور اپنے کان بہرے کر لو ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تمہارے بہت سے خدا نہیں ہیں بلکہ صرف ایک ہی خدا ہے جس کے تم بندے ہو ۔ اور یہ کوئی فلسفہ نہیں ہے جو میں نے اپنے غور و فکر سے بنایا ہو ، جس کے صحیح اور غلط ہونے کا یکساں احتمال ہو ، بلکہ یہ حقیقت مجھ پر وحی کے ذریعہ سے منکشف کی گئی ہے جس میں غلطی کے احتمال کا شائبہ تک نہیں ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :7 یعنی کسی اور کو خدا نہ بناؤ ، کسی اور کی بندگی و پرستش نہ کرو ، کسی اور کو مدد کے لیے نہ پکارو ، کسی اور کے آگے سر تسلیم و اطاعت خم نہ کرو ، کسی اور کے رسم و رواج اور قانون و ضابطہ کو شریعت واجب الاطاعت نہ مانو ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :8 معافی اس بے وفائی کی جو اب تک تم اپنے خدا سے کرتے رہے ، اس شرک اور کفر اور نافرمانی کی جس کا ارتکاب تم سے اب تک ہوتا رہا ، اور ان گناہوں کی جو خدا فراموشی کے باعث تم سے سرزد ہوئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:6) قل : ای قل یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ انما : بےشک، تحقیق ، بجز اس کے نہیں۔ ان حرف مشبہ بالفعل اور ما کافہ ہے حصر کے معنی دیتا ہے اور ان کو عمل سے روکتا ہے ، یعنی ان یا ان کا اسم بجائے منصوب ہونے کے مرفوع ہوگا اور اس طرح ان یا ان کا عمل کہ اپنے اسم کو نصب دیتا ہے رک جائے گا۔ جیسے انما الصدقت للفقراء (9:60) تحقیق صدقات (یعنی زکوۃ و خیرات) مفلسوں کے لئے ہے۔ انما۔ وہی معانی ہیں جو اوپر انما کے بیان ہوئے ہیں۔ فائدہ : ان اور ان کے استعمال میں فرق یہ ہے کہ ان (مکسورہ) صدر کلام میں آتا ہے اور اپنے اسم و خبر سے مل کر کلام تام بن جاتا ہے۔ جیسے ان زیدا قائم اس جگہ ان اپنے اسم و خبر سے مل کر کلام تام بن جاتا ہے۔ جیسے ان زیدا قائم اس جگہ ان اپنے اسم و خبر سے مل کر جملہ اسمیہ ہے ان وسط کلام میں آتا ہے اور اپنے اسم و خبر سے مل کر مفرد کے حکم میں ہوتا ہے اور ایک فعل یا اسم کا اس سے پہلے آنا ضروری ہے۔ جس کا یہ ان فاعل یا مفعول یا کوئی اور جز و جملہ بن سکے۔ جیسے بلغی ان زیدا قائم ان کے مابعد کا جملہ (اسم اور خبر سے مل کر) بلغ کا فاعل ہے مفرد کے معنی میں ہے۔ مجھے زید کے قیام کی خبر پہنچی۔ یا ۔ علمت ان زیدا فاضل اس میں ان زیدا فاضل، ان بمعنی اپنے اسم اور خبر کے مل کر علمت کا مفعول ہے اور مفرد کے حکم میں ہے ۔ استقیموا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر استفہامۃ (اسفتعال) مصدر ۔ تم سیدھے رہو۔ تم سیدھا راستہ اختیار کرو۔ استقام الی (گنہگار کا اللہ کی طرف) رجوع کرنا قوم مادہ۔ فاستقیموا الیہ۔ سو تم اسی کی طرف سیدھ باندھے رکھو۔ استغفروہ : امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ استغفار (استفعال) مصدر۔ تم اسی سے بخشش (گناہوں کی مغفرت) طلب کرو۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع الہکم ہے۔ ویل اسم مرفوع، ہلاکت۔ عذاب۔ دوزخ کی ایک وادی کا نام۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی میں تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں اور وحی کے ذریعہ تمہیں توحید کی طرف دعوت دیتا ہوں اور وہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے عقل انسانی سمجھنے سے قاصر ہو۔ میری دعوت میں کوئی ایسی چیز ہے۔ تفرقہ ڈالتی ہو بلکہ یہ تو قومی یک جہتی ہو ہم رنگی پیدا کرنے کا موثر ذریعہ ہے۔4” لہٰذا اسی کو پکارو اور اسی سے حاجتیں طلب کرو “۔5” زکوٰۃ “ کے لفظی معنی ” پاکیزگی “ کے ہیں اور صدقہ کو زکوٰۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس سے آدمی کا مال پاک ہوجاتا ہے۔ یہ آیت چونکہ مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت مدینہ میں ہوئی۔ اس لئے یہاں زکوٰۃ سے مراد صدقہ و خیرات بھی لیا گیا ہے اور اقرار توحید کے ذریعہ نفس کی پاکیزگی بھی۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی میں صاحب وحی ہوں، جس کی تصدیق معجزات سے ہوچکی ہے، جن میں اعظم قرآن ہے، جس کا اوپر بیان ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کو اپنے لیے بوجھ قرار دینے والوں کو نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب۔ جو شخص گمراہی اور اپنی جہالت کا اعتراف کرنے کے باوجود اس پر اترائے۔ اس کے ساتھ جھگڑنے یا اس پر مزید وقت صرف کرنے کی بجائے اس سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے۔ اسی کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں سے فرما دیں کہ بحیثیت انسان میں بھی تمہارے جیسا ایک بشر ہوں۔ فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول منتخب کیا اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم پر واضح کروں کہ ہر قسم کی عبادت کے لائق صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔ اس کا حکم ہے کہ ادھر ادھر کے راستوں کو چھوڑ کر صرف اسی کے راستے پر پکے ہوجاؤ۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگو ! اور کفر و شرک سے تائب ہوجاؤ ! یاد رکھو ! کہ مشرکین کے لیے ویل ہے۔ ویل سے مراد افسوس اور جہنّم ہے۔ ان کے لیے بھی ویل ہے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ جو ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے ان کے لیے ایسا اجر ہے جو نہ کم ہوگا اور نہ ہی ختم ہوگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کی بشریت کا اعلان کروانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ نبی کا کام حق بات پہنچانا ہے منوانا نہیں کسی کو ہدایت دینا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا اگر تم نے اپنے لیے گمراہی کو پسند کرلیا ہے تو پھر میں کیا کرسکتا ہوں ؟ بحیثیت انسان میرے ذمّہ حق بات پہنچانا ہے کسی کو ہدایت دینا میرے بس کی بات نہیں۔ البتہ یہ بات یادرکھو کہ مشرک اور وہ لوگ بھی جہنّم میں جائیں گے جو زکوٰۃ اور آخرت کے منکر ہیں۔ اکثر اہل علم نے یہاں لفظ زکوٰۃ کا معنٰی شرک سے پاک ہونا مراد لیا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) یَبْلُغُ بِہِ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَامِنْ رَجُلٍ لَا یُؤَدِّيْ زَکَاۃَ مَالِہٖ إِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِيْ عُنُقِہٖ شُجَاعًا ثُمَّ قَرَأَ عَلَیْنَا مِصْدَاقَہُ مِنْ کِتَاب اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ (وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ) الآیۃَ ) [ رواہ الترمذی : کتاب : تفسیر القرآن، باب ومن سورة آل عمران ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اس بات کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا مال اس کی گردن میں گنجا سانپ بنا کر ڈالے گا۔ پھر آپ نے کتاب اللہ سے اس آیت کی تلاوت کی (وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ) ۔ “ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشر تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرا کوئی الٰہ نہیں۔ ٣۔ جو لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی کا خیال نہیں رکھتے یقیناً وہ آخرت کے انکاری ہیں۔ ٤۔ ایمان لانے اور صالح اعمال کرنے والوں کے لیے دائمی اجر وثواب ہے۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیاء (علیہ السلام) بشر تھے : ١۔ انبیاء ( علیہ السلام) کا اقرار کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم : ١١) ٣۔ ہم نے آدمیوں کی طرف وحی کی۔ (یوسف : ١٠٩) ٢۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے وہ بشر ہی تھے۔ (النحل : ٤٣) ٤۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا کہ تو ہماری طرح بشر ہے اور ہم تجھے جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (الشعراء : ١٨٦) ٥۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر اور یہ تم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ (المومنون : ٢٤) ٦۔ نہیں ہے تو مگر ہمارے جیسا بشر کوئی نشانی لاؤ اگر تو سچا ہے۔ (الشعراء : ١٥٤) ٧۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر جیسا تم کھاتے ہو، ویسا وہ کھاتا ہے۔ (المومنون : ٣٣) ٨۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان فرمائیں کہ میں تمہارے جیسا انسان ہوں۔ (الکہف : ١١٠) ٩۔ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں۔ (حٰمٓالسجدۃ : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آپ فرما دیجیے میں تمہارے ہی جیسا بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے، مشرکین کے لیے ہلاکت ہے اور اہل ایمان کے لیے ثواب ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا قرآن کے مخاطبین جو یہ کہتے تھے کہ ہم تمہیں کیسے اللہ کا نبی مانیں تم تو ہماری ہی طرح کے آدمی ہو اس کا جواب دے دیا کہ میں ہوں تو تمہارے ہی جیسا آدمی لیکن مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی فضیلت اور خصوصیت عطاء فرمائی ہے جو تم میں نہیں ہے اور وہ یہ کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت سے نوازا ہے چونکہ میں اللہ تعالیٰ کا پیغمبر ہوں اس لیے میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی بات پہنچاتا ہوں تمہارا معبود ایک ہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ شانہٗ جس نے سب کو پیدا فرمایا عقل صحیح کا بھی تقاضا ہے کہ خالق تعالیٰ شانہٗ کی طرف متوجہ ہوں اور اس کے حکموں کو مانیں اور ہر طرح کی کجی اور بےراہی اور ٹیڑھے پن سے دور رہا جائے تم سیدھی راہ چلو اللہ تعالیٰ کو واحد مانو اور صحیح طریقہ پر اس کا دین اختیار کرو اور یہ نہ سمجھو کہ ہماری بخشش کیسے ہوگی، شرک اور کفر ہے تو بہت بڑی بغاوت لیکن جب کوئی کافر اور مشرک توبہ کرلے یعنی کفر اور شرک کو چھوڑ کر ایمان قبول کرلے تو پچھلا سب کچھ معاف ہوجاتا ہے لہٰذا تم ایمان قبول کرو اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔ اس کے بعد مشرکین کی ہلاکت اور بربادی بیان فرمائی (وَوَیْلٌ لِّلْمُشْرِکِیْنَ ) اور بربادی ہے مشرکوں کے لیے

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” قل انما انا بشر “ یہ مشرکین کے قول ” ومن بیننا وبینک حجاب “ یعنی ہمارے اور تیرے درمیان پردہ حائل ہے کا جواب ہے۔ فرمایا کہ اس کے جواب میں کہہ دو کہ میں کوئی فرشتہ یا جن نہیں ہوں کہ جس سے افہام و تفہیم میں دشواری ہو، بلکہ میں تو ایک بشر اور انسان ہوں جس کی بات تم آسانی سے سمجھ سکتے ہو۔ اگر ایک بار بات سمجھ میں نہ آئے، تو بار بار دریافت کر کے اطمینان کرسکتے ہو۔ لست ملکا ولا جن یا لایمکنکم التلقی منہ وھو رد لقولہم بیننا وبینک حجات (روح ج 24 ص 97) ۔ ” یوحی الی انما الہکم الہ واحد “ یہ مشرکین کے قول ” قلوبنا فی اکنۃ الخ “ ، کا جواب ہے یعنی میں تمہیں کسی ایسی بات کی دعوت نہیں دے رہا جو عقل وفہم سے بالا تر ہو بلکہ میں تو تمہیں اللہ کی توحید کی طرف دعوت دیتا ہوں جو دلائل عقل نقل سے ثابت ہے۔ ای ولا ادعوکم الی ماتنبو عنہ العقل وانما ادعوکم الی التوحید الذی دلت علیہ دلائل العقل و شہدت لہ شواھد السبع وھذا جواب عن قولہم قلوبنا فی اکنۃ مما تدعونا الیہ وفی اذاننا وقر (روح) اس لیے تم توحید اور اخلاص عبادت کے ساتھ سیدھے اللہ کی طرف چلو۔ اس سیدھی راہ سے دائیں بائیں نہ جھکو، غیر اللہ کو معبود اور کارساز نہ بناؤ۔ اور شرک کی خدا سے معافی مانگو۔ فاستو وا الیہ بالتوحید واخلاص العبادۃ غیر ذاھبین یمینا وشمالا ولا ملتفتین الی ما یسول لکم الشیطان من اتخاذ الاولیاء والشفعاء (مدارک ج 4 ص 67) ۔ 5:۔ ” وویل للمشرکین۔ الایتین “ شکوی اولی کے بعد تخویف اخروی ہے۔ جو لوگ اللہ کی طرف سیدھے نہ چلیں، بلکہ راہ توحید کو چھوڑ دیں وہ مشرک ہیں اور ان مشرکین کے لیے ہلاکت اور بربادی ہے جو اللہ کی توحید کو نہیں مانتے اور آخرت کا بھی انکار کرتے ہیں۔ یہ سورت مکی ہے اور زکوۃ مدینہ میں ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوئی۔ اس لیے یہاں زکوۃ سے زکوۃ مال نہیں بلکہ زکوۃ نفس مراد ہے یعنی شرک اور تمام رذائل و اخلاق سے نفس کو پاک رکھنا۔ حضرت ابن عباس اور عکرمہ فرماتے ہیں یعنی الذین لا یشہدون ان لا الہ الا اللہ (ابن کثیر ج 4 ص 92، خازن و معالم ج 6 ص 104، قرطبی ج 15 ص 340، روح ج 24 ص 98) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) اے پیغمبر آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تو بس تم ہی جیسا ایک آدمی ہوں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میری طرف یہ وحی بھیجی جاتی ہے اور مجھ کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ بس تمہارا حاکم اور تمہارا معبود حقیقی ایک ہی ہے سو تم اسی کی طرف سیدھا باندھے چلے جائو اور سیدھے رہو اور اسی کی طرف سیدھے متوجہ رہو اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی اور بخشش طلب کرتے رہو اور ان مشرکوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو زکوٰۃ نہیں ادا کرتے یعنی کار خیر میں روپیہ خرچ کرنے سے بخل کرتے ہیں۔