Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 22

سورة الشورى

تَرَی الظّٰلِمِیۡنَ مُشۡفِقِیۡنَ مِمَّا کَسَبُوۡا وَ ہُوَ وَاقِعٌۢ بِہِمۡ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیۡ رَوۡضٰتِ الۡجَنّٰتِ ۚ لَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَضۡلُ الۡکَبِیۡرُ ﴿۲۲﴾

You will see the wrongdoers fearful of what they have earned, and it will [certainly] befall them. And those who have believed and done righteous deeds will be in lush regions of the gardens [in Paradise] having whatever they will in the presence of their Lord. That is what is the great bounty.

آپ دیکھیں گے کہ یہ ظالم اپنے اعمال سے ڈر رہے ہونگے جن کے وبال ان پر واقع ہونے والے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے وہ بہشتوں کے باغات میں ہوں گے وہ جو خواہش کریں اپنے رب کے پاس موجود پائیں گے یہی ہے بڑا فضل ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

تَرَى الظَّالِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا ... You will see the wrongdoers fearful of that which they have earned, means, in the arena of Resurrection. ... وَهُوَ وَاقِعٌ بِهِمْ ... and it will surely befall them. means, the thing that they fear will undoubtedly happen to them. This is how they will be on the Day of Resurrection; they will be in a state of utter fear and t... error. ... وَالَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ لَهُم مَّا يَشَاوُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ... But those who believe and do righteous deeds (will be) in the flowering meadows of the Gardens. They shall have whatsoever they desire with their Lord. What comparison can there be between the former and the latter How can the one who will be in the arena of resurrection in a state of humiliation and fear, deserving it for his wrongdoing, be compared with the one who will be in the gardens of Paradise, enjoying whatever he wants of food, drink, clothing, dwellings, scenery, spouses and other delights such as no eye has seen, no ear has heard, and has never crossed the minds of men. Allah says: ... ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الكَبِيرُ That is the supreme grace. means, the ultimate victory and complete blessing.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 یعنی قیامت والے دن۔ 22۔ 2 حالانکہ ڈرنا بےفائدہ ہوگا کیونکہ اپنے کئے کی سزا تو انہیں بہرحال بھگتنی ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) تری الظلمین مشفقین مما کسبوا…:” الظلمین “ سے یہاں بھی وہی ظالم یعنی کافر و مشرک مراد ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے، کیونکہ اسم معروف باللام ہو کر دوبارہ آئے تو اس سے پہلا ہی مراد ہوتا ہے اور اس لئے کہ ان کے مقابلے میں ایمان اور عمل صالح والے لوگوں کا ذکر آرہا ہے، یعنی ” والذین امنوا و عملوا الصلحت …... “ اس آیت میں قیامت کے دن ان مشرکین کی حلات کا نقشہ کھینچا ہے۔ عذاب سے پہلے اس کا شدید خوف بجائے خود ایک بڑا عذاب ہے، پھر ہر حال میں ان کے کفر و شرک کا وبال ان پر آکر رہنے والا ہے، خواہ ڈریں یا نہ ڈریں۔ دنیا میں کفار قیامت سے بےخوف تھے اور اس کا مذاق اڑاتے تھے، جیسا کہ پیچھے گزرا ہے، (یستعجل بھا الذین لایومنون بھا) (الشوریٰ :18)” اسے وہ لوگ جلدی مانگتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے “ تو قیامت کے دن وہی کافر سخت خوف زدہ ہوں گے۔ ان کے برعکس ایمان والے دنیا میں قیامت سے سخت خوف زدہ رہتے تھے، جیسا کہ پہلے گزرا ہے :(والذین امنوا مشفقون منھا) (الشوریٰ :18)” اور وہ لوگ جو ایمان لائے، وہ اس (قیامت) سے ڈرنے والے ہیں “ سو اب وہ جنتوں کے باغوں میں بےخوف ہوں گے۔ (٢) والذین امنوا و عملوا اصلحت فی روضت الجنت…:” روضۃ ‘ کا معنی ہے ” الموضع النزہ الکثیر ، الخصرۃ “ کہ نہایت صاف ستھری اور بہت سرسبز جگہ۔ ” روضت الجنت “ سے ظاہر ہے کہ جنتیں بھی بہت سی ہیں اور روضات بھی بہت سے ہیں۔ یعنی (ممون کسی درجے کے بھی ہوں جنت میں ہوں گے، مگر) ایمان اور عمل صالح والے جنت کے بھی پاکیزہ ترین اور سب سے سرسبز مقامات میں ہوں گے۔ جن میں سب سے علای مقام رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہوگا، جیسا کہ سمرہ بن جندب (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک طویل خواب روایت کیا ہے، جس میں ہے کہ دو فرشتوں نے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مختلف گناہوں کے عذاب کا منظر دکھایا، اس کے بعد ان دونوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگے چلنے کے لئے کہا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(فانطلقنا حتی انتھینا الی روضۃ خضراء فیھا شجرۃ عظیمۃ ، وفی اصلھا شیخ وصبیان واذا رجل قریب من الشجرۃ بین یدیہ نار یوقدھا فصعدا بی فی الشجرۃ واد خلانی دار لم قط احسن منھا، فیھا رجال شیوخ وشباب ، و نساء وصیبان ثم اخر جانی منھا فصعدا بی الشجرۃ فاد خلانی داراھی احسن و افضل، فیھا شیوخ و شباب، فقلت طوفتمانی اللیلۃ، فاخبرانی عما رایت ؟ قالا نعم، (فذکر الحدیث حتی قال) والشیخ فی اضل الشجرۃ ابراہیم (علیہ السلام) و الصبیان حولہ فاولاد الناس، والذی یوقد النار مالک خازن النار، والدار، الاولی التی دخلت ، دار عامۃ الممنین ، واما ھذہ الدار، فدار الھشدائ، وانا جبریل و ھذا میکائیل، فارفع راسک ، فرفعت راسی ، فاذا فوقی مثل السحاب، قالا ذالک منزلک ، قلت دعانی ادخل منزلی، قالا انہ بقی لک عمر لم تستکملہ، فلواستکملت اتیت منزلک ) (بخاری، الجنائر، باب ماقبل فی اولاد المشرکین :1386)” پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ ہم ایک سرسبز روضہ (باغ) میں پہنچے جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا، اس کی جڑ (تنے) کے پاس ایک بزرگ اور کچھ بچے تھے اور اس درخت کے قریب ایک آدمی تھا جس کے سامنے آگ تھی، جسے وہ بھڑکا رہا تھا، پھر وہ دونوں مجھے لے کر درخت پر چڑھ گئے اور مجھے ایک ایسے گھر کے اندر لے گئے جس سے خوبصورت گھر میں نے نہیں دیکھا، اس میں کچھ بزرگ اور جوا ن آدمی اور عورتیں اور بچے تھے، پھر انہوں نے مجھے اس گھر سے نکالا اور مجھے لے کر اس درخت کے اور اوپر چڑھے اور ایک گھر کے اندر لے گئے جو پہلے سے زیادہ خوبصورت اور برتر تھا، اس میں کچھ بزرگ تھے اور کچھ جوان۔ میں نے کہا : ” تم دونوں نے آج رات مجھے خوب گھمایا ہے۔ اب جو کچھ میں نے دیکھا ہے مجھے اس کی حقیقت بتاؤ ؟ “ تو انہوں نے کہا :” ہاں، ٹھیک ہے (پھر انہوں نے عذاب والے مناظر کی حقیقت بتانے کے بعد کہا) اور درخت کی جڑ کے پاس جو بزرگ تھے وہ ابراہیم (علیہ السلام) تھے اور ان کے اردگرد بچے لوگوں کی اولاد تھے اور جو آگ بھڑکا رہا تھا وہ آگ کا خازن مالک تھا اور پہلا گھر جس میں آپ داخل ہوئے عام ایمان والوں کا گھر تھا۔ رہا یہ گھر تو یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبریل ہوں اور یہ مکائیل ہے، اب سر اٹھاؤ ! “ میں نے سر اٹھایا تو اچانک میرے اوپر بادل کی طرح کی چیز تھی۔ دونوں نے کہا :” وہ تمہارا گھر ہے۔ “ میں نے کہا :” مجھے چھوڑو میں اپنے گھر جاؤں۔ “ انہوں نے کہا :” آپ کی کچھ عمر باقی ہے جو آپ نے پوری نہیں کی، اگر پوری کرلو گے تو اپنے گھر میں آجاؤ گے۔ “ اس حدیث سے ” روضت الجنت “ کا مفہوم بھی اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے اور یہ بھی کہ ” روضت الجنت “ میں سب سے اعلیٰ ” روضہ الجنۃ “ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے خاص ہے۔ (٣) ان آیات میں متعدد وجہوں سے مومنوں ک وملنے والے ثواب کی عظمت بیان کی گئی ہے، ایک یہ کہ وہ ” روضت الجنت “ میں ہوں گے۔ دوسری یہ کہ ” لھم مایشآء ون “ یعنی انھیں وہاں جو چاہیں گے ملے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انھیں حاصل ہونے والی نعمتوں کی انتہا نہیں ہوگی، کیونکہ آدمی ہر نعمت کے بعد اس سے اعلیٰ نعمت کا خواہشمند ہوتا ہے۔ تیسری ” عند ربھم “ کہ ان کی رہئاش گاہیں ان کے رب کے پڑوس میں ہوں گی۔ یہ وہ چیز ہے جس کی دعا فرعون کی بیوی نے کی تھی۔ (رب ابن لی عندک بیتا فی الجنۃ) (التحریم : ١١)” اے میرے رب ! میرے لئے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا۔ “ چوتھی یہ کہ انھیں عطا ہونے والی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ نے فضل کبیر قرار دیا ہے، فرمایا :(ذلک ھو الفضل الکبیر) پھر جسے اللہ تعالیٰ اکبر اور کبیر قرار دے اس کی عظمت کا کیا ٹھکانا ہوگا۔ پانچویں وجہ سے انھیں ملنے والے ثواب کی عظمت کا بیان اگلی آیت میں ہے۔ (٤) ذلک ھو الفضل الکبیر : اس سے معلوم ہوا کہ جنت محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، اس پر کسی کا حق واجب نہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تَرَى الظّٰلِـمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا كَسَبُوْا وَہُوَوَاقِـــعٌۢ بِہِمْ۝ ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِيْ رَوْضٰتِ الْجَـنّٰتِ۝ ٠ ۚ لَہُمْ مَّا يَشَاۗءُوْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْفَضْلُ الْكَبِيْرُ۝ ٢٢ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی...  النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ شفق الشَّفَقُ : اختلاط ضوء النّهار بسواد اللّيل عند غروب الشمس . قال تعالی: فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق/ 16] ، والْإِشْفَاقُ : عناية مختلطة بخوف، لأنّ الْمُشْفِقَ يحبّ المشفق عليه ويخاف ما يلحقه، قال تعالی: وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء/ 49] ، فإذا عدّي ( بمن) فمعنی الخوف فيه أظهر، وإذا عدّي ب ( في) فمعنی العناية فيه أظهر . قال تعالی: إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور/ 26] ، مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری/ 18] ، مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری/ 22] ، أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة/ 13] . ( ش ف ق ) الشفق غروب آفتاب کے وقت دن کی روشنی کے رات کی تاریکی میں مل جانے کو شفق کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق/ 16] ہمیں شام کی سرخی کی قسم ۔ الاشفاق ۔ کسی کی خیر خواہی کے ساتھ اس پر تکلیف آنے سے ڈرنا کیونکہ مشفق ہمیشہ مشفق علیہ کو محبوب سمجھتا ہے اور اسے تکلیف پہنچنے سے ڈرتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء/ 49] اور وہ قیامت کا بھی خوف رکھتے ہیں ۔ اور جب یہ فعل حرف من کے واسطہ سے متعدی تو اس میں خوف کا پہلو زیادہ ہوتا ہے اور اگر بواسطہ فی کے متعدی ہو تو عنایت کے معنی نمایاں ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور/ 26] اس سے قبل ہم اپنے گھر میں خدا سے ڈرتے رہتے تھے ۔ مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری/ 18] وہ اس سے ڈرتے ہیں ۔ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری/ 22] وہ اپنے اعمال ( کے وبال سے ) ڈر رہے ہوں گے ۔ أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ ۔۔۔ پہلے خیرات دیا کرو ڈر گئے ہو ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ وقع الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] ، ( و ق ع ) الوقوع کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔ إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ روض الرَّوْضُ : مستنقع الماء، والخضرة، قال : فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ [ الروم/ 15] ، وباعتبار الماء قيل : أَرَاضَ الوادي، واسْتَرَاضَ ، أي : كثر ماؤه، وأَرَاضَهُمْ : أرواهم . والرِّيَاضَةُ : كثرة استعمال النّفس ليسلس ويمهر، ومنه : رُضْتُ الدّابّة . وقولهم : افعل کذا ما دامت النّفس مُسْتَرَاضَةً أي : قابلة للرّياضة، أو معناه : متّسعة، ويكون من الرّوض والْإِرَاضَةِ. وقوله : فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ [ الروم/ 15] ، فعبارة عن رِيَاضِ الجنة، وهي محاسنها وملاذّها . وقوله : فِي رَوْضاتِ الْجَنَّاتِ [ الشوری/ 22] ، فإشارة إلى ما أعدّ لهم في العقبی من حيث الظاهر، وقیل : إشارة إلى ما أهّلهم له من العلوم والأخلاق التي من تخصّص بها، طاب قلبه . ( ر و ض ) الروض اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی جمع ہو اور سرسبز بھی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ [ الروم/ 15] باغ بہشت میں ان کی خاطر داریاں ہو رہی ہوں گی ۔ اور پانی کے جمع ہونے کے اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ أَرَاضَ الوادي، واسْتَرَاضَ : وادی میں پانی وافر ہوگیا اور اراضھم کے معنی ہیں اس نے لوگوں کو سیراب کردیا ۔ الریاضۃ کسی سے بکثرت کوئی کام لینا تاکہ اسے اس میں سدھاؤ اور مہارت پیدا ہوجائے اسی سے رضت الدابۃ ہے یعنی سواری کو سدھانا اور مطیع کرنا افعل کذا ما دامت النّفس مُسْتَرَاضَة ۔ کے معنی ہیں کہ اس وقت تک یہ کام کرو جب تک نفس محنت کے قابل رہے یا اس میں وسعت رہے اور یہ اراضۃ یا روض سے مشتق ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ [ الروم/ 15] میں روضۃ سے جنت کے سبزہ زار یعنی اس کے محاسن اور لذات مراد ہیں اور آیت فِي رَوْضاتِ الْجَنَّاتِ [ الشوری/ 22] میں ( صیغہ جمع سے ) ان ظاہری نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جو آخرت میں اصحاب جنت کے لئے تیار کی گئیں ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ان علوم واخلاق کی طرف اشارہ ہے جن میں تخصیص حاصل کرلینے سے انسان کا دل پاکیزہ ہوجاتا ہے ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ قیامت کے دن ان کافروں کو دیکھیں گے کہ اپنے اعمال و اقوال کفریہ کے وبال سے ڈر رہے ہوں گے اور جس سے ڈر رہے ہیں وہ ان پر ضرور ہوگا اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے یعنی حضرت ابوبکر صدیق وہ جنت کے باغوں میں ہوں گے اور وہ جنت میں جس چیز کی خواہش و تمنا کریں گے وہ ان کو ملے گی یہی جنت بہ... ت بڑا احسان ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ { تَرَی الظّٰلِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا کَسَبُوْا } ” تم دیکھو گے ان ظالموں کو کہ وہ اپنے کرتوتوں کے سبب ڈر رہے ہوں گے “ قیامت کے دن کفار و مشرکین اپنے غلط عقائد اور برے اعمال کے سبب خوف زدہ ہوں گے۔ دراصل نیکی و بدی کے بارے میں انسان کا ضمیر بہت حساس ّہے : { بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِ... ہٖ بَصِیْرَۃٌ۔ (القیامۃ) ” بلکہ انسان اپنے نفس پر خود گواہ ہے “۔ یہ آیت بہت واضح انداز میں ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی ضمیر اپنے اندر کی گہرائیوں میں جھانک کر بغیر کسی مصلحت اور تعصب کے غلط اور درست کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چناچہ قیامت کے دن تمام غلط کار انسان اپنے اعمال کو دیکھتے ہوئے حساب و کتاب سے پہلے ہی خوف سے کانپ رہے ہوں گے۔ { وَہُوَ وَاقِعٌم بِہِمْْط } ” اور وہ ان کے اوپر پڑنے والا ہوگا۔ “ ان کے عقائد و افعال کا وبال ان کے سروں پر گرنے والا ہوگا۔ لیکن دوسری طرف اہل ِایمان کی کیفیت اس کے برعکس ہوگی : { وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیْ رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِ } ” اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ پر کاربند رہے وہ جنتوں کے باغات میں ہوں گے۔ “ { لَہُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْط ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ } ” ان کے لیے ان کے رب کے پاس وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے۔ یہی (ان کے لیے) بہت بڑی فضیلت ہوگی۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:22) مشفقین : اسم فاعل جمع مذکر ڈرنے والے (ملاحظہ ہو آیت 18 متذکرۃ الصدر۔ تری کا مفعول ثانی ہے۔ مما کسبوا۔ مما۔ من اور ما سے مرکب ہے۔ ما موصولہ کسبوا صلہ ہے اپنے موصول کا ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے کسب (باب ضرب) مصدر۔ جو انہوں نے کھایا۔ (جو کام شرک و معاصی کے انہوں نے کئے ہوں گے) ۔ وھو واق... ع بھم۔ جملہ حالیہ ہے ھو کی ضمیر ماکسبوا کی طرف راجع ہے حال یہ کہ وہ ان پر پڑ کر ہی رہیگا۔ یعنی ان کے کئے کا وبال۔ روضت الجنت : مضاف مضاف الیہ۔ جنتوں کے باغات۔ الروض اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں کہ جہاں پانی جمع ہو اور سبزہ بھی ہو۔ باغ۔ مایشاء ون : جو وہ چاہیں گے۔ ما موصولہ ۔ یشاء ون مضارع جمع مذکر غائب مشیۃ (باب فتح) مصدر۔ ذلک : یعنی جنت کی یہ نعمت جس کا ذکر کیا گیا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 دنیا کے عیش و آرام کی اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ نہ وہ جو دنیا میں عیش و عشرت موجود ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ظالموں کی سزا اور نیک لوگوں کی جزا کا ذکر۔ قرآن مجید یہاں بھی اپنے اسلوب کے مطابق ظالموں کی سزا کا تذکرہ کرنے کے بعد جنتیوں کی جزا کا ذکر کرتا ہے لہٰذا ارشاد ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظالموں کو دیکھیں گے کہ جوں ہی وہ جہنم کا عذاب دیکھیں گے جو ان پر وارد ہونے والا...  ہوگا تو اپنے اعمال کے انجام پر خوف زدہ ہوں گے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے وہ جنت کے لہلہاتے اور مہکتے ہوئے باغات میں ہوں گے اور جو چاہیں گے پائیں گے یہ ان کے رب کا ان پر بڑا فضل ہوگا۔ مسائل ١۔ جہنّم کا عذاب دیکھ کر ظالم اپنے انجام سے خوف زدہ ہوں گے۔ ٢۔ صالح اعمال کرنے والے ایماندار جنت کے باغات میں رہیں گے اور جو چاہیں گے پائیں گے۔ ٣۔ جنتیوں کو ان کے اعمال سے زیادہ عطا کیا جائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جنتیوں پر بڑا فضل فرمائیں گے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ ” والذین امنوا “ تا ” ومعلوا الصالحات “ یہ ایمان والوں کے لیے بشارت اخرویہ ہے۔ قیامت کے دن وہ جنت کے باغوں میں خوش وخرم ہوں گے، جنت میں وہ جو چاہیں گے، انہیں پروردگار کی طرف سے ملے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا فضل و احسان ہے کہ حد بیان سے باہر ہے۔ یہ ہے اس کا فضل و احسان اور انعام و اکرام جس ... کی وہ اپنے ان بندوں کو خوشخبری دیتا ہے، جو اس کی توحید پر اور تمام اعتقادیات پر ایمان لائیں اور اس کے شرائع و احکام کی پیروی کریں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) اے پیغمبر آپ ان ظالموں کو دیکھیں گے کہ یہ اپنے اعمال کے وبال اور اپنی کمائی کے نکال سے ڈر رہے ہوں گے۔ حالانکہ وہ ان کی کمائی کا وبال ان پر پڑنے والا ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کے پابند رہے وہ بہشت کے باغوں میں ہوں گے ان کو ان کے پروردگار کے ہاں ہر وہ چیز ملے گی اور میسر ہوگی جس کی و... ہ خواہش کریں گے اور جو چاہیں گے وہ حاصل ہوگا، یہ ہر خواہش کریں گے اور جو چاہیں گے وہ حاصل ہوگا۔ یہ ہر خواہش کا پورا ہونا ہی بڑی بزرگی اور بڑا انعام ہے۔ آج تو یہ مشرک قیامت کی اور اس عذاب کی جلدی کررہے ہیں لیکن اس دن آپ ان کو دیکھیں کے کہ جب ان کی کمائی اور ان کے کسب کا وبال ان کے سامنے آئے گا تو خوف زدہ ہورہے ہوں گے اور سہمے جاتے ہوں گے کہ کہیں وہ وبال اور عذاب ان کو پکڑ نہ لے حالانکہ وہ ان پر ضرور واقع ہوکر رہے گا۔ پھر ان کے مقابلے میں اہل ایمان کا ذکر فرمایا کہ وہ لوگ بہشت کے باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے وہاں ہر چیز جو یہ چاہئیں گے ان کو میسر ہوگی یہ بہت بڑا انعام ہے۔ چاہت پر ہر چیز کا ملنا ایسا ہی ہے جیسا آج دنیامیں ہر چیز کا تصور بآسانی کرسکتے ہیں لیکن اس چیز کو وجود خارجی نہیں دے سکتے یعنی انگور اور سیب کا مثلا تصور کرسکتے ہو لیکن خارج میں اس کو نہیں لاسکتے جنت میں یہ قوت عطا ہوگی کہ تصور کے ساتھ ہی وہ شے خارج میں بھی موجودہوجائے گی۔ ھوالفضل الکبیر۔  Show more