Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 36

سورة الشورى

فَمَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَمَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ﴿ۚ۳۶﴾

So whatever thing you have been given - it is but [for] enjoyment of the worldly life. But what is with Allah is better and more lasting for those who have believed and upon their Lord rely

تو تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے وہ زندگانی دنیا کا کچھ یونہی سا اسباب ہے اور اللہ کے پاس جو ہے وہ اس سے بدرجہ بہتر اور پائیدار ہے ، وہ ان کے لئے ہے جو ایمان لائے اور صرف اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Attributes of Those Who deserve that which is with Allah Here Allah points out the insignificance of this worldly life and its transient adornments and luxuries. فَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ... So whatever you have been given is but (a passing) enjoyment for this worldly life. means, no matter what you achieve and amass, do not be deceived by it, for it is only the enjoyment of this life, which is the lower, transient realm that will undoubtedly come to an end. ... وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَى ... but that which is with Allah is better and more lasting, means, the reward of Allah is better than this world, and it will last forever, so do not give preference to that which is transient over that which is lasting. Allah says: ... لِلَّذِينَ امَنُوا ... for those who believe, means, for those who are patient in forgoing the pleasures of this world, ... وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ and put their trust in their Lord. means, so that He will help them to be patient in doing what is obligatory and avoiding what is forbidden. Then Allah says:

درگذر کرنا بدلہ لینے سے بہتر ہے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بےقدری اور اسکی حقارت بیان فرمائی کہ اسے جمع کر کے کسی کو اس پر اترانا نہیں چاہیے کیونکہ یہ فانی چیز ہے ۔ بلکہ آخرت کی طرف رغبت کرنی چاہیے نیک اعمال کر کے ثواب جمع کرنا چاہیے جو سرمدی اور باقی چیز ہے ۔ پس فانی کو باقی پر کمی کو زیادتی پر ترجیح دینا عقلمندی نہیں اب اس ثواب کے حاصل کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں کہ ایمان مضبوط ہو تا کہ دنیاوی لذتوں کے ترک پر صبر ہو سکے اللہ پر کامل بھروسہ ہو تا کہ صبر پر اس کی امداد ملے اور احکام الٰہی کی بجا آوری اور نافرمانیوں سے اجتناب آسان ہو جائے کبیرہ گناہوں اور فحش کاموں سے پرہیز چاہیے ۔ اس جملہ کی تفسیر سورہ اعراف میں گذر چکی ہے ۔ غصے پر قابو چاہیے کہ عین غصے اور غضب کی حالت میں بھی خوش خلقی اور درگذر کی عادت نہ چھوٹے چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے نفس کا بدلہ کسی سے نہیں لیا ہاں اگر اللہ کے احکام کی بےعزتی اور بےتوقیری ہوتی ہو تو اور بات ہے اور حدیث میں ہے کہ بہت ہی زیادہ غصے کی حالت میں بھی آپ کی زبان سے اس کے سوا اور کچھ الفاظ نہ نکلتے کہ فرماتے اسے کیا ہو گیا ہے اس کے ہاتھ خاک آلود ہوں ۔ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں مسلمان پست و ذلیل ہوتا تو پسند نہیں کرتے تھے لیکن غالب آکر انتقام بھی نہیں لیتے تھے بلکہ درگذر کر جاتے اور معاف فرما دیتے ۔ ان کی اور صفت یہ ہے کہ یہ اللہ کا کہا کرتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں جس کا وہ حکم کرے بجا لاتے ہیں جس سے وہ روکے رک جاتے ہیں نماز کے پابند ہوتے ہیں جو سب سے اعلیٰ عبادت ہے ۔ بڑے بڑے امور میں بغیر آپس کی مشاورت کے ہاتھ نہیں ڈالتے ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم اللہ ہوتا ہے آیت ( وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْر ١٥٩؁ ) 3-آل عمران:159 ) یعنی ان سے مشورہ کر لیا کرو اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جہاد وغیرہ کے موقعہ پر لوگوں سے مشورہ کر لیا کرتے تاکہ ان کے جی خوش ہو جائیں ۔ اور اسی بنا پر امیر المومنین حضرت عمر نے جب کہ آپ کو زخمی کر دیا گیا اور وفات کا وقت آگیا چھ آدمی مقرر کر دئیے کہ یہ اپنے مشورے سے میرے بعد کسی کو میرا جانشین مقرر کریں ان چھ بزرگوں کے نام یہ ہیں ۔ عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد اور عبدالرحمن بن عوف رضٰی اللہ تعالیٰ عنہم ۔ پس سب نے باتفاق رائے حضرت عثمان کو اپنا امیر مقرر کیا پھر ان کا جن کے لئے آخرت کی تیاری اور وہاں کے ثواب ہیں ایک اور وصف بیان فرمایا کہ جہاں یہ حق اللہ ادا کرتے ہیں وہاں لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی کمی نہیں کرتے اپنے مال میں محتاجوں کا حصہ بھی رکھتے ہیں اور درجہ بدرجہ اپنی طاقت کے مطابق ہر ایک کے ساتھ سلوک و احسان کرتے رہتے ہیں اور یہ ایسے ذلیل پست اور بےزور نہیں ہوتے کہ ظالم کے ظلم کی روک تھام نہ کر سکیں بلکہ اتنی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں کہ ظالموں سے انتقام لیں اور مظلوم کو اس کے پنجے سے نجات دلوائیں لیکن ہاں ! اپنی شرافت کی وجہ سے غالب آکر پھر چھوڑ دیتے ہیں ۔ جیسے کہ نبی اللہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں پر قابو پا کر فرما دیا کہ جاؤ تمہیں میں کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتا بلکہ میری خواہش ہے اور دعا ہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف فرما دے ۔ اور جیسے کہ سردار انبیاء رسول اللہ احمد مجتبیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں کیا جبکہ اسی وقت کفار غفلت کا موقع ڈھونڈ کر چپ چاپ لشکر اسلام میں گھس آئے جب یہ پکڑ لئے گئے اور گرفتار ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دئیے گئے تو آپ نے ان سب کو معافی دے دی اور چھوڑ دیا ۔ اور اسی طرح آپ نے غورث بن حارث کو معاف فرما دیا یہ وہ شخص ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوتے ہوئے اس نے آپ کی تلوار پر قبضہ کر لیا جب آپ جاگے اور اسے ڈانٹا تو تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور آپ نے تلوار لے لی اور وہ مجرم گردن جھکائے آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا آپ نے صحابہ کو بلا کر یہ منظر دکھایا اور یہ قصہ بھی سنایا پھر اسے معاف فرما دیا اور جانے دیا ۔ اسی طرح لبید بن اعصم نے جب آپ پر جادو کیا تو علم و قدرت کے باوجود آپ نے اس سے درگذر فرما لے اور اسی طرح جس یہودیہ عورت نے آپ کو زہر دیا تھا آپ نے اس سے بھی بدلہ نہ لیا اور قابو پانے اور معلوم ہو جانے کے باوجود بھی آپ نے اتنے بڑے واقعہ کو جانا آنا کر دیا اس عورت کا نام زینب تھا یہ مرحب یہودی کی بہن تھی ۔ جو جنگ خیبر میں حضرت محمود بن سلمہ کے ہاتھوں مارا گیا تھا ۔ اس نے بکری کے شانے کے گوشت میں زہر ملا کر خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تھا خود شانے نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے زہر آلود ہونے کی خبر دی تھی جب آپ نے اسے بلا کر دریافت فرمایا تو اس نے اقرار کیا تھا اور وجہ یہ بیان کی تھی کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو یہ آپ کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا ۔ اور اگر آپ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے راحت حاصل ہو جائے گی یہ معلوم ہو جانے پر اور اس کے اقبال کر لینے پر بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا ۔ معاف فرما دیا گو بعد میں وہ قتل کر دی گئی اس لئے اسی زہر سے اور زہریلے کھانے سے حضرت بشر بن برا فوت ہوگئے تب قصاصاً یہ یہودیہ عورت بھی قتل کرائی گئی اور بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو درگزر کے ایسے بہت سے واقعات ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 یعنی معمولی اور حقیر ہے، چاہے قارون کا خزانہ ہی کیوں نہ ہو، اس لئے اس سے دھوکے میں مبتلا نہ ہونا کہ یہ عارضی اور فانی ہے۔ 36۔ 2 یعنی نیکیوں کا جو اجر وثواب اللہ کے ہاں ملے گا وہ متاع دنیا سے کہیں بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی، کیونکہ اس کو زوال اور فنا نہیں، مطلب ہے دنیا کو آخرت پر ترجیح مت دو ، ایسا کرو گے تو پچھتاؤ گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥١] یعنی دنیا میں جتنا بھی مال و دولت اور سامان عیش و عشرت کسی کو مل جائے۔ اس سے وہ زیادہ سے زیادہ اپنی موت تک فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بالآخر اسے بالکل خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہونا ہوگا۔ اس کے مقابلہ میں ایمانداروں کو جو آخرت میں سامان عیش و عشرت ملے گا۔ وہ سامان بھی لافانی اور لازوال ہوگا اور ایماندار لوگ ان اشیاء سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ لہذا عقلمند انسان وہ ہے جو ناپائیدار اور فنا ہونے والے سامان کے بجائے دائمی اور پائیدار زندگی اور اس کے سامان کی فکر کرے۔ [٥٢] توکل کا معنی اور یہ مومن کی اہم صفت ہے :۔ یعنی جب ظاہری اسباب مفقود نظر آرہے ہوں، حالات مایوس کن ہوں۔ اس حال میں بھی وہ مایوس اور شکستہ دل نہیں ہوجاتے بلکہ اس حال میں بھی ان کی آنکھ اللہ کی طرف لگی رہتی ہے اور وہ اللہ کے وعدہ پر پورا یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ضرور اس مشکل سے نکالنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا اور اسی کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ان کے پاس ظاہری سامان موجود بھی ہو تو وہ اس پر بھروسا نہیں کرتے بلکہ ان کا بھروسا اللہ کی ذات پر ہی ہوتا ہے۔ گویا ظاہری اسباب موجود ہوں یا مفقود، تھوڑے ہوں یا زیادہ، مومن آدمی ان اسباب کو فراہم کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے مگر اس کا ان اسباب پر تکیہ نہیں ہوتا۔ تکیہ اللہ کی ذات پر ہی ہوتا ہے گویا اللہ پر توکل ایک مومن کی نہایت اہم صفت ہے جسے اللہ نے سب سے پہلے بیان فرمایا۔ اسی طرح اللہ پر عدم توکل ایک مسلمان کی بہت بڑی کمزوری ہے۔ جنگ حنین کے موقعہ پر ہر مسلمان ظاہری اسباب اور اپنی کثرت تعداد پر نازاں ہوئے تو اللہ نے انہیں عارضی طور پر شکست سے دوچار کرکے فوراً انہیں اس کمزوری پر متنبہ کردیا۔ توکل کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ بس انسان اللہ پر توکل کرکے بیٹھ جائے۔ اور ظاہری اسباب کی فکر ہی چھوڑ دے۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ حتی الامکان ظاہری اسباب مہیا کرے اور اپنی مقدور بھر کوشش بھی کرے پھر اس کے انجام کو اللہ کے سپرد کر دے۔ چناچہ آپ نے توکل کی تعریف یوں فرمائی کہ پہلے اپنے اونٹ کا گھٹنا باندھ پھر توکل کر۔ (طبرانی۔ بروایت ابوہریرہ (رض) بحوالہ الموافقات للشاطبی، ج ١ ص ٢٩٠) اور کسی شاعر نے اس مفہوم کو یوں ادا کیا ہے : توکل کے یہ معنی ہیں کہ خنجر تیز رکھ اپنا پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فما اوتیتم من شیء فمتاع الحیوۃ الدنیا :” متاع “ وہ چیز جس سے فائدہ اٹھایا جائے، برتنے کی چیز جو جلدی ختم ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید اور قدرت و سلطنت کے دلائل مثلاً بندوں کے لئے بارش برسانے انھیں حسب حکمت رزق عطا فرمانے، آسمان و زمین کو پیدا کرنے، ان میں بیشمار جان داروں کو پھیلانے، سمندروں میں پہاڑوں جیسے بلند جہازوں کے چلنے اور انھیں پیش آنے والے احوال ذکر کرنے کے بعد دنیا کی زندگی کے ساز و سامان کے بےوقعت اور عارضی ہونے کا ذکر فرمایا، کیونکہ دنیا کی زیب و زینت ہی انسان کو دلائل پر غور و فکر کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ جب وہ اس کی حقیقت سے آگاہ ہوگا اور وہ اس کی نگاہ میں حقیر ہوگی تو اسے آخرت کی طرف توجہ کا موقع ملے گا اور وہ دلائل پر غور بھی کرے گا۔ (٢) دنیا میں انسان کو جو چیز بھی دی گی ہے، وہ خواہ کتنی زیادہ ہو یا کتنی قیمتی ہو، اس میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس پر انسان پھول جائے اور آخرت سے بےپروا ہوجائے، کیونکہ ایک تو وہ بہت تھوڑی مدت کے لئے اس کے استعملا میں آتی ہے، پھر وہ سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ یہاں سے رخصت ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ملکیت میں خواہ کتنی لمبی چوڑی جائیداد یا دولت ہو عملاً اس کے استعمال میں اس کا معمولی سا حصہ ہی آتا ہے۔ اے انسان تیرے لئے اس لمبی چوڑی جائیداد میں سے وہی ہے (ما اکلت فافنیت او لبست فابلیت ) (مسلم، الزھد و الرقائق، باب :2958)” جو تو نے کھالیا اور فنا کردیا یا جو مزید دیکھیے سورة رعد (٢٦) ۔ (٣) وما عند اللہ خیر وابقی : جو دولت و نعمت اللہ کے پاس ہے وہ ہر لحاظ سے دنیا کے ساز و سامان سے بہتر بھی ہے اور پائیدار اور لازوال بھی۔ (٤) للذین امنواو علی ربھم یتوکلون : یہاں سے ان لوگوں کی صفات بیان فرمائیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں آخرت میں ملنے والی نعمتوں کے حق دار ہوں گے۔ ان میں سب سے پہلی صفت ” امنوا “ ماضی کے صیغے کے ساتھ ہے اور ” یتوکلون “ مضارع کے صیغے کے ساتھ مطلب یہ ہے کہ وہ خوب سوچ سمجھ کر ایمان لا چکے اور ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں، اس کی تقدیر اور اس کے روز جزا پر پورا یقین آچکا ، اب ان کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے ہر کام میں ہمیشہ صرف اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں، کسی اور سے انھیں نہ نفع کی امید ہے نہ کسی نقصان کا خوف۔ ” یتوکلون “ مضارع کا صیغہ ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The above verses state the imperfection and temporary nature of the blessings of this world, as against the perfection and permanence of the blessings of the Hereafter. The most important and major condition for obtaining the heavenly blessings in the Hereafter is faith and belief, without which nobody can get them. However, if in addition to faith, one has taken full care of virtuous deeds as well, then one will get the heavenly blessings right from the beginning, otherwise one would get them after being punished for one&s sins and shortcomings. That is why the first condition stated in the above verses is belief referred to by the words, |"those who believe|". Then those particular deeds have been stated without which, according to the rule, the bounties of the Hereafter will not be obtained from the beginning, but after having been punished for one&s sins. The rule is there for application in general, but if Allah Ta’ ala wills, He may forgive all the sins of the greatest of the sinners, and give him the blessings of the Hereafter right from the beginning, He is not subject to any rule or code. Now, let us look at those particular virtues and deeds which have been mentioned with such an importance. First virtue: عَلَىٰ رَ‌بِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (and place their trust in Allah - 36,) meaning those who place their trust in Allah, under all circumstances, in all matters; they do not consider anyone else to be the real cause of anything.

خلاصہ تفسیر (اور تم اوپر سن چکے ہو کہ طالب دنیا کی ہر دنیوی تمنا پوری نہیں ہوتی اور آخرت سے محروم رہتا ہے اور طالب آخرت کو ترقی ہوتی ہے۔ نیز سن چکے ہو کہ زیادہ متاع دنیا کا انجام اچھا نہیں، اکثر اس سے اعمال مضرہ پیدا ہوتے ہیں) سو (اس سے ثابت ہوا کہ مطلوب بنانے کے قابل دنیا نہیں، بلکہ آخرت ہے، اور باقی دنیا کی چیزوں میں سے) جو کچھ تم کو دیا دلایا گیا ہے (وہ محض چند روزہ) دنیوی زندگی کے برتنے کے لئے ہے (کہ عمر کے خاتمہ کے ساتھ اس کا بھی خاتمہ ہوجائے گا) اور جو (اجر وثواب آخرت میں) اللہ کے ہاں ہے وہ بدرجہا اس سے (کیفیت کے اعتبار سے بھی) بہتر ہے اور (کمیت کے لحاظ سے بھی) زیادہ پائیدار (یعنی ہمیشہ رہنے والا ہے، پس دنیا کی طلب چھوڑ کر آخرت کی طلب کرو، مگر آخرت کے حصول کے لئے کم سے کم شرط تو ایمان لانا اور کفر کو چھوڑنا ہے، اور آخرت کے مکمل درجات کے لئے تمام واجبات و فرائض کو اختیار کرنا اور تمام گناہوں کو چھوڑنا ضروری ہے۔ اور تقرب کے درجات حاصل کرنے کے لئے نفلی طاعات کو اختیار کرنا اور خلاف اولیٰ مباحات کو ترک کرنا بھی محبوب ہے، چنانچہ) وہ (ثواب جس کی تفصیل اوپر گزری) ان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لے آئے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں اور جو کبیرہ گناہوں سے اور (ان میں) بےحیائی کی باتوں سے (بالخصوص زیادہ) بچتے ہیں اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں اور جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور وہ نماز کے پابند ہیں اور ان کا ہر (اہم) کام (جس میں اللہ کی طرف سے کوئی معین حکم نہ ہو) آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے اور ہم نے جو کچھ ان کو دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جو ایسے (منصف) ہیں کہ جب ان پر (کسی طرف سے کچھ) ظلم واقع ہوتا ہے تو وہ (اگر بدلہ لیتے ہیں تو) برابر کا بدلہ لیتے ہیں (زیادتی نہیں کرتے، اور یہ مطلب نہیں کہ معاف نہیں کرتے) اور (برابر کا بدلہ لینے کے لئے ہم نے یہ اجازت دے رکھی ہے کہ) برائی کا بدلہ برائی ہے ویسی ہی (بشرطیکہ وہ فعل بذات خود گناہ نہ ہو) پھر (انتقام کی اجازت کے باوجود) جو شخص معاف کر دے اور (باہمی معاملہ کی) اصلاح کرلے (جس سے عداوت جاتی رہے اور درستی ہوجاوے) تو اس کا ثواب (حسب وعدہ) اللہ کے ذمہ ہے (اور جو بدلہ لینے میں زیادتی کرنے لگے تو یہ سن رکھے کہ) واقعی اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا اور جو (زیادتی نہ کرے بلکہ) اپنے اوپر ظلم ہو چکنے کے بعد برابر کا بدلہ لے لے، سو ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں، الزام صرف ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں (خواہ ابتداً یا انتقام کے وقت) اور ناحق دنیا میں سرکشی اور (تکبر) کرتے (پھرتے) ہیں (اور یہی تکبر ظلم کا سبب ہوجاتا ہے۔ اور ناحق اس لئے کہا کہ سرکشی اور تکبر ہمیشہ ناحق ہی ہوتا ہے۔ آگے اس الزام کا بیان ہے کہ) ایسوں کے لئے دردناک عذاب (مقرر) ہے اور جو شخص (دوسرے کے ظلم پر) صبر کرے اور معاف کر دے، یہ البتہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے (یعنی ایسا کرنا بہتر اور اولوالعزمی کا تقاضا ہے) معارف و مسائل آیات مذکورہ میں دنیا کی نعمتوں کا ناقص ہونا اور فانی ہونا اور اس کے مقابل آخرت کی نعمتوں کا کامل بھی ہونا اور دائمی ہونا بیان فرمایا ہے۔ اور آخرت کی نعمتوں کے حصول کے لئے سب سے اہم اور بڑی شرط تو ایمان ہے کہ اس کے بغیر وہ نعمتیں وہاں کسی کو نہ ملیں گی۔ لیکن ایمان کے ساتھ اگر اعمال صالحہ کا بھی پورا اہتمام کرلیا تو آخرت کی یہ نعمتیں اول ہی مل جائیں گی۔ ورنہ اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی سزا بھگتنے کے بعد ملیں گی۔ اس لئے آیات مذکورہ میں سب سے پہلی شرط تو الذین امنوا بیان فرمائی۔ اس کے بعد خاص خاص اعمال کا ذکر فرمایا گیا جن کے بغیر ضابطہ کے مطابق آخرت کی نعمتیں شروع سے نہ ملیں گی بلکہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد ملیں گی۔ اور ضابطہ کے مطابق اس لئے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو سب گناہوں کو معاف فرما کر اول ہی آخرت کی نعمتیں بڑے سے بڑے فاسق کو دے سکتے ہیں وہ کسی قانون کے پابند نہیں۔ اب وہ اعمال وصفات دیکھئے جن کی اس جگہ اہمیت سے ذکر فرمایا ہے۔ پہلی صفت : (آیت) وَعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ ۔ یعنی ہر کام اور ہر حال میں اپنے رب پر بھروسہ رکھیں، اس کے سوا کسی کو حقیقی کار ساز نہ سمجھیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝ ٠ ۚ وَمَا عِنْدَ اللہِ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۝ ٣٦ ۚ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، متع ( سامان) وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء . ( م ت ع ) المتوع ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ بقي البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء، وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ( ب ق ی ) البقاء کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود/ 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جو کچھ تمہیں مال و متاع دیا گیا ہے وہ عارضی ہے باقی نہیں رہ سکتا ہے یعنی کہ وہ فانی ہے اور اجر وثواب بدرجہا اس متاع دنیوی سے بہتر اور دیرپا ہے اور یہ اجر وثواب ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لے آئے یعنی حضرت ابوبکر صدیق وغیرہ اور اپنے رب پر توکل اور بھروسا کرتے ہیں۔ دنیاوی مال پر کسی قسم کا بھروسا نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

گزشتہ آیات میں مکی سورتوں کے عمومی مضامین مثلاً مشرکین کے ساتھ ردوکدح ‘ آخرت کی جزا و سزا اور اللہ کی نشانیوں اور نعمتوں کا تذکرہ تھا ‘ لیکن اس کے بعد موضوع پھر سے سورت کے عمود یا مرکزی مضمون کی طرف لوٹ رہا ہے۔ چناچہ آئندہ آٹھ آیات میں وہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں جو اقامت دین کی جدوجہد کرنے والے افراد کی سیرت کے لیے ناگزیز ہیں۔ انہی اوصاف کو اپنانے سے دراصل ایک ایسے مرد مومن کے کردار کا نقشہ تیار ہوتا ہے جو اس میدانِ کارزار میں قدم رکھتے ہوئے طے کرلیتا ہے کہ : { اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } ( الانعام) ” میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے “۔ اقامت دین کی جدوجہد کے علمبردار افراد کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان اوصاف کو اپنائے بغیر ان کے کردار و عمل میں وہ مضبوط ” جان “ پیدا نہیں ہوگی جو اس ” معرکہ روح و بدن “ میں پیش کرنے کے لیے درکار ہے۔ اسی ضرورت اور شرط کو اقبال ؔنے یوں بیان کیا ہے : ؎ ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکر ِخاکی میں جاں پیدا کرے ! آئیے اب ہم ایک ایک کر کے ان اوصاف کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی ہدایت ملاحظہ ہو : آیت ٣٦ { فَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا } ” پس جو کچھ بھی تمہیں دیا گیا ہے وہ دنیا ہی کی زندگی کا سازو سامان ہے۔ “ { وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ } ” اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں اور اپنے رب پر ّتوکل کرتے ہیں۔ “ گویا اس منزل کے مسافروں کو سب سے پہلے اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی اور ایسی سوچ اپنانا ہوگی جس کے مطابق دنیا ومافیہا انہیں ہیچ نظر آئے اور اس کے مقابلے میں آخرت کی زندگی ان کا اصل مقصود و مطلوب بن جائے۔ اگر دنیا کی محبت دل کے کسی گوشے میں چھپی رہ گئی تو وہ اس میدان کے بڑے سے بڑے شہسوار کو بھی کبھی نہ کبھی ضرور اڑنگا لگا کر منہ کے بل گرائے گی۔ چناچہ آدمی سب سے پہلے یہ طے کرے کہ وہ طالب ِآخرت ہے یا طالب دنیا ؟ اقامت دین کی جدوجہد کے علمبرداروں کا پہلا وصف یہاں یہ بیان ہوا ہے کہ وہ دنیا سے بےرغبتی اختیار کر کے آخرت کو اپنا مقصود و مطلوب بنا لیتے ہیں ‘ جبکہ آیت کے اختتامی الفاظ کے مطابق ان کا دوسرا وصف یہ ہے : { وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ } یعنی وہ ہر حال اور ہر کیفیت میں اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

55. That is, it is not a thing at which man should exult whatever worldly wealth a person has in his possession, he has it only for a short time. He uses it for a few years and then leaves the world empty-handed. Then, although the amount of the wealth may be very high in the ledgers, practically only a fraction of it is used by the man himself. To exult at such wealth does not behoove a man who understands the truth about himself, about his wealth and this world itself. 56. That is, that wealth is far more superior as regards to its nature and quality and is also eternal and everlasting. 57. Here, trust (tawakkul) in Allah has been regarded as an inevitable demand of the faith and a necessary characteristic for success in the Hereafter. Tawakkul means: (1) That man should have full confidence in the guidance of Allah, and should understand that the knowledge of the truth, the principles of morality, the bounds of the lawful and the unlawful, and the rules and regulations of passing life in the world, that Allah had enjoined, are based on the truth and in following them alone lies man’s good and well being. (2) That man should not place reliance on his own powers and abilities, means and resources, plans and schemes and the help of others than Allah, but he should keep deeply impressed in his mind the fact that his success in every thing, here and in the Hereafter, actually depends on the help and succor of Allah, and that he can become worthy of Allah’s help and succor only if he works with the object of winning His approval, within the bounds prescribed by Him. (3) That man should have complete faith in the promises that Allah has made with those who would adopt the way of faith and righteousness and work in the cause of the truth instead of falsehood, and having faith in the same promises would discard all those benefits, gains and pleasures that may seem to accrue from following the way of falsehood, and endure all those losses, hardships and deprivations that may become his lot on account of following the truth steadfastly. From this explanation of the meaning of tawakkul it becomes obvious how deeply it is related with the faith, and why those wonderful results that have been promised to the believers who practice tawakkul cannot be obtained from the mere empty affirmation of the faith.

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :55 یعنی یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر آدمی پھول جائے ۔ بڑی سے بڑی دولت بھی جو دنیا میں کسی شخص کو ملی ہے ، ایک تھوڑی سی مدت ہی کے لیے ملی ہے ۔ چند سال وہ اس کو برت لیتا ہے اور پھر سب کچھ چھوڑ کر دنیا سے خالی ہاتھ رخصت ہو جاتا ہے ۔ پھر وہ دولت بھی چاہے بہی کھاتوں میں کتنی ہی بڑی ہو ، عملاً اس کا ایک قلیل سا حصہ ہی آدمی کے اپنے استعمال میں آتا ہے ۔ اس مال پر اترانا کسی ایسے انسان کا کام نہیں ہے جو اپنی اور اس مال و دولت کی ، اور خود اس دنیا کی حقیقت کو سمجھتا ہو ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :56 یعنی وہ دولت اپنی نوعیت و کیفیت کے لحاظ سے بھی اعلیٰ درجے کی ہے ، اور پھر وقتی و عارضی بھی نہیں ہے بلکہ ابدی اور لازوال ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٦۔ ٤٣۔ دنیا کی کسی چیز کو قیام نہیں جتنی دنیا کی راحت کی چیزیں ہیں ان کے پیچھے ایک مصیبت لگی ہوئی ہے زندگی کے پیچھے موت لگی ہوئی ہے صحت کے پیچھے بیماری فراغت کے پیچھے تنگ دستی خوشی کے پیچھے رنج جوانی کے پیچھے بڑھاپا لگا ہوا ہے عقبیٰ کی جتنی راحت کی چیزیں ہیں ان کو ہمیشگی اور قیام ہے وہاں کی جوانی کو بڑھاپا نہیں صحت کو بیماری نہیں خوشی کو رنج نہیں دنیا کی ناپائیدار چیزوں میں اس طرح انسان کو گرفتار نہیں ہونا چاہئے جس سے عقبیٰ کی ہمیشہ کی راحت میں خلل پڑجائے اس لئے فرمایا کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ چند روزہ ہے اور عقبیٰ میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے وہ ہمیشہ کے لئے راحت کی چیزیں ہیں یہ قرآن کی آیتوں میں جھگڑے نکالنے والوں کو سمجھایا گیا ہے کہ چند روزہ زندگی اور مالداری کے غرور میں ہمیشہ کی راحت کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے۔ صحیح بخاری ١ ؎ وغیرہ میں حضرت عبد اللہ (رض) بن عمر کی حدیث مشہور ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ (رض) بن عمر کے دونوں بازو پکڑ کے بہت بڑی نصیحت کی ہے اس نصیحت کا ایک ٹکڑا یہ ہے کہ زندگی کے زمانہ میں ایسا کام کرنا چاہئے جو موت کے بعد کام آئے اور بیماری کے زمانہ میں آدمی کی طاقت گھٹ جاتی ہے اور نیک کام کرنے کا موقع اس کو کم ملتا ہے اس واسطے صحت کے زمامنہ کو غنیمت جان کر آدمی کو چاہئے کہ جو نیک کام کرنا ہو وہ صحت کے زمانہ میں کرلیں اور موت کے بعد آدمی کا نیک عمل بند ہوجاتا ہے اس لئے زندگی کے زمانہ کے اکثر حصہ زندگی کو نیک کاموں میں صرف کرنا چاہئے۔ مستدرک ٢ ؎ حاکم وغیرہ حضرت عبد اللہ بن عباس سے جو ایک روایت ہے وہ بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح نصیحت کی ہے غرض یہ آیت اور دنیا کی مذمت کی جو آیتیں قرآن شریف میں اور ہیں ان حدیثوں کو اور اسی قسم کی اور حدیثوں کو ان آیتوں کی تفسیر سمجھنا چاہئے جس تفسیر کا حاصل مطلب یہی ہے کہ دنیا کی جس چیز یا جس شغل سے دین میں خلل پڑے وہ قابل مذمت ہے کیونکہ ناپائیدار چیز کی حرص میں پائیدار چیز کو ہاتھ سے دینا قابل مذمت بات ہے وہاں دنیا کی جس چیز یا مشغلہ سے دین کا نفع آدمی کو حاصل ہو تو یہ ایک بڑے نفع کی تجارت ہے کس لئے کہ ناپائیدار چیز کے عوض میں پائیدار چیز کا حاصل ہونا سراپا نفع کی بات ہے۔ اب آگے فرمایا کہ یہ عقبیٰ کا ہمیشہ کا عیش ان لوگوں کے لئے ہے جو ایماندار ہیں اور اپنے ہر کام کا بھروسہ اللہ پر رکھتے ہیں اور کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں احکام الٰہی کو مانتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ دیتے رہتے ہیں اور غصہ کے وقت یا تو درگزر کرتے ہیں یا اگر بدلہ لیتے ہیں تو بدلہ کی حد سے نہیں گزرتے علما کا مشہور قول کبیرہ کے باب ١ ؎ میں یہ ہے کہ جس گناہ پر شریعت میں عذاب کا (١ ؎ مرعاۃ المفاتیح جلد اول باب الکبائر ص ٧٣۔ ) وعدہ آیا ہے یا لعنت آئی ہے یا قرآن یا حدیث میں جتلایا ہے کہ یہ کبیرہ گناہ ہے وہ کبیرہ گناہ ہے اور یہی کبیرہ گناہ اکبر الکبائر ہوجاتا ہے جب کہ شریعت کا عذاب کا وعدہ اور سخت ہوجائے مثلاً مطلق زنا کبیرہ گناہ ہے اور پڑوس کی عورت کے ساتھ اکبر الکبائر ہے کہ اس پر عذاب کا وعدہ سخت ہے اور اسی اکبر الکبائر کبیرہ گناہ کو فاحشہ بھی کہتے ہیں اگرچہ ایک قول یہ بھی ہے کہ جس گناہ پر حد شرعی ہے وہ کبیرہ گناہ ہے لیکن اس قول پر علما نے یہ اعتراض کیا ہے کہ جھوٹی قسم کھانے پر اور جھوٹی گواہی دینے پر حد شرعی نہیں ہے حالانکہ صحیح حدیثوں میں ایٓا ہے کہ یہ کبیرہ گناہ ہیں کبھی صغیرہ گناہ کبیرہ ہوجاتے ہیں جس طرح نصاب سے کم مال کی چوری صغیرہ گناہ ہے اگر یہی چوری ایسے شخص کے گھر میں کی جائے کہ جس کے پاس سوا اس کے مال کے اور مال نہ ہو تو یہ چوری کبیرہ گناہ ہے کیونکہ اس چوری سے مال والے کا دب بہت دکھے گا معتبر سند سے شعب الایمان ٢ ؎ بیہقی میں حضرت عبد اللہ (رض) بن عباس سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو ہر کام میں مشورہ لے کر کام کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور یہ فرمایا ہے کہ مشورہ لے کر کام کرنے سے اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے آیتوں میں مشورہ لے کر کام کرنے والوں کی جو تعریف ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آپس کا مشورہ اللہ کی رحمت کا سبب ہے اب یہ ظاہر بات ہے کہ جس کام میں اللہ کی رحمت شامل حال ہوگی اس کا انجام ضرور اچھا ہوگا۔ صحیح ٣ ؎ مسلم اور ترمذی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص بدلہ لینے کی جگہ معافی سے کام لے گا تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی عزت بڑھا دے گا۔ صحیح بخاری ٤ ؎ و مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی دوسری حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا غصہ کے وقت اپنے دل کو قابو میں رکھنا بڑی جوانمردی کا کام ہے ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بدلا لینے کے وقت دل کو قابو میں رکھ کر جو شخص معافی سے کام لے گا تو وہ بڑا صاحب ہمت ہے اور نتیجہ اس عالی ہمتی کا یہ ہے کہ اس ظاہری ہتک کے معاوضہ میں اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی عزت کو لوگوں کی نظروں میں بڑھا دے گا۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کن فی الدنیا کانک غریب ص ٩٤٩ ج ٢۔ ) (٢ ؎ الترغیب والترہیب ص ٤٦٤ ج ٤۔ ) (٢ ؎ فتح القدیر ص ٣٦٢ ج ١۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم باب استحباب العفور التواضح ص ٣٢١ ج ٢) (٤ ؎ صحیح بخاری باب الحذر من الخضب ص ٩٠٣ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:36) فما اوتیتم من شیء ف عاطفہ۔ ما موصولہ متضمن یہ شرط فمتاع الحیوۃ الدنیا میں ف جواب شرط کے لئے ہے جملہ اول شرط ۔ جملہ ثانی جواب شرط۔ پس جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ دنیوی زندگی کا (ناپائدار) سامان ہے۔ وما عند اللّٰہ خیر وابقی : واؤ عاطفہ۔ ماعند اللّٰہ ما موصولہ بمع صلہ۔ دونوں مل کر مبتدا خیر وابقی خبر۔ اور (آخرت میں) جو (ثواب) اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے اور سدا رہنے والا ہے۔ ابقی بقاء (باب سمع) سے افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ دیر تک رہنے والا جب یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو اس کا معنی ” سدا رہنے والا “ ہوگا۔ للذین امنوا۔ خبر مبتدا محذوف : ای ذلک للذین امنوا۔ یہ ثواب ان کے لئے ہے جو ایمان لائے۔ وعلی ربھم یتوکلون ۔ اس کا عطف الذین امنوا پر ہے۔ یتوکلون مضارع جمع مذکر غائب۔ توکل (تفعل) مصدر۔ وہ بھروسہ رکھتے ہیں ۔ وہ توکل کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے پاکر انسان اخروی زندگی سے بےپروا ہوجائے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اور خاتمہ عمر کے ساتھ اس کا بھی خاتمہ ہوجاوے گا۔ 6۔ پس دنیا کی طلب چھوڑ کر آخرت کی طلب کرو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ اپنے رب کے احکام اور ارشادات کے بارے میں بحث و تکرار کرتے ہیں انہیں جان لینا چاہیے کہ دنیا کی زندگی اور اس کا سازو سامان قلیل اور عارضی ہے۔ اس لیے ” اللہ “ کے نیک بندے کبیرہ گناہوں اور بےحیائی سے اجتناب کرتے ہیں اور جب انہیں غصہ آتا ہے تو دوسرے کو معاف کردیتے ہیں۔ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے کی تلقین کے ساتھ معاف کردینے کا اس لیے ذکر کیا ہے کیونکہ انسان غصے کی حالت میں دوسرے پر زیادتی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ قتل نفس کا واقعہ بھی پیش آجاتا ہے جو کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔ جس دنیا کے اسباب و وسائل پر لوگ اتراتے اور اپنے رب کے احکام کے بارے میں بحث و تکرار کرتے ہیں۔ اس دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے اسباب و وسائل تھوڑے اور نہ پائیدار ہیں۔ یہاں تک کہ انسان کی زندگی بھی تھوڑی اور عارضی ہے۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو کچھ تیار کر رکھا ہے وہ دنیا ومافیہا سے بہت بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ ہمیشہ کی بقا اور خیر کثیران لوگوں کو حاصل ہوگی جو اپنے رب پر سچا اور پکا ایمان رکھتے ہیں اور دنیا کے اسباب وسائل پر بھروسہ کرنے کی بجائے مسبب الاسباب پر توکل اور بھروسہ کرتے ہیں۔ توکل کا یہ معنٰی نہیں کہ انسان وسائل کو استعمال کرنے سے اجتناب کرے اور ان پر ایک حد تک اعتماد کرنے کی بجائے بےاعتمادی کا شکار رہے۔ بےاعتمادی کا شکار آدمی نہ دشمن کے مقابلے میں کامیاب ہوسکتا ہے اور نہ ہی منزل مقصود پاسکتا ہے۔ توکل کا معنٰی ہے کہ اپنی محنت اور وسائل پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی رحمت پر بھروسہ کرے۔ کیونکہ وہی وسائل دینے والا ہے اور اسی نے وسائل کو بروئے کار لانے کی توفیق دینے کے ساتھ انہیں مؤثر بناتا ہے۔ ایماندار لوگوں کے اوصاف میں نمایاں وصف یہ ہیں۔ 1 اللہ اور اس کے رسول کے بتلائے ہوئے کبیرہ جرائم سے بچتے ہیں۔ کبیرہ گناہوں سے اس لیے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک تو نافرمانی کے اعتبار سے یہ بڑے گناہ ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو کبیرہ گناہ سے بچا لیتا ہے اسے چھوٹے گناہ چھوڑنے مشکل نہیں رہتے۔ 2 اللہ پر ایمان اور توکل رکھنے والے لوگ ہر قسم کی بےحیائی سے اجتناب کرتے ہیں۔ فواحش سے مراد ہر وہ بری حرکت ہے جو شریف معاشرے میں ایک شریف انسان کو زیب نہیں دیتی۔ اس میں بھی وہی فلسفہ پنہاں ہے جس بنا پر بڑے گناہوں سے روکا گیا ہے۔ کیونکہ جو شخص بڑی بےحیائی سے بچتا ہے اس کے لیے چھوٹی بےحیائی سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی بدکاری سے نفرت کرتا ہے تو اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ غیر محرم عورت کو اشارے کرے یا اس کے ساتھ آنکھ لڑانے کی کوشش کرے۔ کبیرہ گناہ : ” فرما دیجیے کہ آؤ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جو تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی اور ہر قسم کی بےحیائی کے قریب نہ جاؤ جو ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں اور ناحق کسی جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے۔ یہ اللہ نے تمہیں وصیت کی ہے تاکہ تم سمجھ جاؤ۔ “ (الانعام : ١٥١) (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْکَبَاءِرُ الإِشْرَاک باللَّہِ ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ ، وَقَتْلُ النَّفْسِ ، وَالْیَمِینُ الْغَمُوسُ )[ رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔ “ 3 جب انہیں غصہ آتا ہے تو بدلہ اور انتقام لینے کی بجائے ایک دوسرے کو معاف کردیتے ہیں۔ غصہ انسان کی فطری کمزوری بھی ہے اور اس کی ضرورت بھی۔ کیونکہ غصہ کے بغیر انسان اپنی عزت، جان اور آبرو کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ اس لیے کلّی طور پر غصہ کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔ البتہ اس میں یہ بات ضرور ہونی چاہیے کہ جب کوئی صالح شخص غیر ارادی طور پر زیادتی کربیٹھے تو بدلہ لینے کی بجائے اسے معاف کردینا اللہ کے بندوں کا شیوہ ہونا چاہیے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غصہ پر قابو پانے کے لیے یہ طریقہ اور ذکر بتلایا ہے۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ ۔۔ إِنَّ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لنَا إِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ وَہُوَ قَاءِمٌ فَلْیَجْلِسْ فَإِنْ ذَہَبَ عَنْہُ الْغَضَبُ وَإِلاَّ فَلْیَضْطَجِعْ ) [ رواہ احمد : مسند ابی ذر الغفاری ] ” حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا کہ جب تم میں سے کسی کو کھڑے ہونے کی حالت میں غصہ آئے تو وہ بیٹھ جائے اگر غصہ چلا جائے تو ٹھیک ورنہ لیٹ جائے۔ “ (عن سُلَیْمَان بن صُرَدٍ (رض) قَالَ اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَنَحْنُ عِنْدَہٗ جُلُوسٌ وَأَحَدُہُمَا یَسُبُّ صَاحِبَہٗ مُغْضَبًا قَدْ اِحْمَرَّ وَجْہُہٗ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنِّی لَأَعْلَمُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَہَا لَذَہَبَ عَنْہُ مَا یَجِدُ لَوْ قَالَ أَعُوذ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیمِ فَقَالُوا للرَّجُلِ أَلَا تَسْمَعُ مَا یَقُول النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنِّی لَسْتُ بِمَجْنُونٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب ] ” حضرت سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں دو آدمیوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں آپس میں گالی گلوچ کی اور ہم آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں ایک شدید غصے میں تھا وہ دوسرے کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ایسی بات جانتا ہوں اگر وہ اسے پڑھ لے تو اس کا غصہ جاتا رہے۔ : ” أَعُوذ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیمِ “” میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے۔ “ صحابہ کرام (رض) نے اس شخص سے کہا کیا تو نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نہیں سنا ؟ اس نے کہا میں پاگل تو نہیں ہوں۔ (یعنی میں نے سنا ہے اور اسے پڑھتا ہوں) “ مسائل ١۔ لوگوں کو دنیا میں جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ تھوڑا اور ناپائیدا رہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے صاحب ایمان لوگوں کے لیے جو کچھ تیار کر رکھا ہے وہ ہمیشہ رہنے والا اور دنیا سے بیش بہا بہتر ہے۔ ٣۔ اللہ کے بندے ہر حال میں اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ کے بندوے بڑے گناہوں، ہر قسم کی بےحیائی سے بچتے اور ایک دوسرے کو معاف کردیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن توکل اور اس کے فوائد : ١۔ رسول کریم کو اللہ پر تو کل کرنے کی ہدایت۔ (النمل : ٧٩) ٢۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم۔ (المجادلۃ : ١٠) ٣۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف : ٦٧) ٤۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبۃ : ١٢٩) ٦۔ اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٣٦ تا ٤٣ اس سورت میں اس سے قبل قرآن مجید نے انسانیت کی حالت کی تصویر کشی کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اہل کتاب نے علم آجانے کے باوجود باہم اختلافات کئے اور یہ اختلافات غلط فہمی اور جہالت پر مبنی نہ تھے۔ حالانکہ ان کے پاس کتاب الٰہی صاف صاف آگئی تھی۔ بلکہ انہوں نے باہم یہ تفرقہ حسد اور دشمنی کی وجہ سے کیا۔ اور یہ بھی بتا دیا گیا کہ عہد نوح ، ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) سے لوگوں کے لئے وہ آسمانی دین اور ایک منہاج اور نظام زندگی مقرر کردیا گیا تھا۔ اور یہ وصیت بھی کی گئی تھی کہ اسے قائم کرو۔ اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ جن لوگوں نے حسد اور دشمنی کی وجہ سے منہاج الٰہی میں اختلاف کیا ان کے بعدجب کوئی کتاب ان کی اگلی نسلوں کو ملی تو ان اختلافات کی وجہ سے وہ سرے سے کتابوں کے بارے میں شک میں پڑگئے۔ جب اہل کتاب اور اہل دین سماوی کا یہ حال ہوگیا تھا تو جن اقوام کے پاس کوئی کتاب یا کوئی دین ہی نہ تھا ، ظاہر ہے کہ ان کی حالت تو ان سے بھی بدتر ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ انسانیت کو ایک صالح قیادت کی ضرورت تھی تا کہ وہ انسانوں کو ان اندھی جاہلیتوں سے نکالے اور ان کی رہنمائی کر کے ان کو ایک مضبوط رسی میں باندھ دے۔ اور ان کی رہنمائی ایک ایسے راستے کی طرف کرے جو اللہ تک پہنچاتا ہو جو اس وجود کا رب ہے۔ اس لیے اللہ نے یہ آخری کتاب عربی زبان میں اپنے آخری نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتاری تا کہ ام القریٰ ، مکہ مکرمہ اور اس کے ماحول میں رہنے والوں سے دعوت کا آغاز کرے اور ان کے اندر وہی دین قائم کرے جس کی سخت تاکید حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) کو کی گئی تھی تا کہ تمام ادیان حقہ کی کڑیاں باہم مل جائیں اور آغاز تاریخ سے لے کر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک ایک ہی نہج ، ایک منہاج ، ایک ہی دین اور ایک ہی شریعت ہو اور ایک ایسی جماعت یہاں قائم کی جائے جو اس تاریخی دعوت کی محافظ ہو ، اس کی قیادت کرے اور اس کرۂ ارض پر اس دعوت کو اللہ کی منشا کے مطابق برپا کر کے یہاں اس منہاج کو قائم کرے۔ اور یہ کام اس شکل و صورت میں ہو جو اللہ کو پسند ہو۔ لہٰذا زیر بحث آیات میں اس جماعت کے خدوخال بیان ہو رہے ہیں۔ جس نے یہ عظیم فریضہ سر انجام دینا ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ آیات مکی ہیں اور مدینہ میں اسلامی نظام حکومت کے قیام سے پہلے نازل ہوئی ہیں۔ لیکن ہم مکہ میں بھی تحریک اسلامی کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت دیکھتے ہیں۔ وامرھم شوری بینھم (٤٢ : ٣٨) “ اور اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں ”۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشاورت کا قیام اسلامی سوسائٹی اور مسلمانوں کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ اسلامی جماعت کی بنیادی خصوصیت ہے۔ جماعتی نظام شوریٰ پر قائم ہوتا ہے۔ یہی نظام جماعت سے آگے بڑھ کر پھر مملکت کا حصہ بن جاتا ہے۔ یعنی اسلامی معاشرے کی جان شورائیت ہے اور یہ اس کے اندر پھیلتی جاتی ہے۔ اس طرح اس جماعت کی دوسری خصوصیت یہ بتائی گئی ہے۔ والذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون (٤٢ : ٣٩) “ جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو وہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں ”۔ باوجود اس کے کہ مکہ میں حکم یہی تھا کہ صبر کرو ، اور زیادتی کا بدلہ زیادتی سے نہ دو ، اور یہ حکم اس وقت تک کے لئے تھا جب ہجرت کے بعد قتال کی اجازت دے دی گئی اور یہ کہا گیا ۔ اذن للذین ۔۔۔۔۔ نصرھم لقدیر (٢٢ : ٣٩) “ اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور یقیناً اللہ ان کی مدد پر قادر ہے ”۔ تو اس صفت کا ان مکی آیات میں ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ تحریک اسلامی کا مزاج یہی ہے کہ وہ زیادتی کے خلاف سینہ سپر ہوجاتی ہے اور اس سے پہلے اور بعد کے جو احکام ہیں وہ صبر کرنے اور رکے رہنے کے لئے ہیں۔ اور استثنائی احکام ہیں اور ایک متبعین وقت تک کے لئے ہیں۔ یہاں اس مکی سورت میں چونکہ جماعت مسلمہ کی بنیادی صفات قلم بند کی جا رہی تھیں اس لیے یہاں ذکر کردیا کہ اگرچہ فی الوقت انتصار کی ممانعت تھی لیکن یہ صفت اہل ایمان کی بنیادی صفات میں سے ہے۔ بہرحال جماعت مسلمہ کی صفات کے ضمن میں ایسے امور کا ذکر جن پر عمل نہ ہو رہا تھا اور نہ جماعت کے ہاتھ میں کسی ملک کی عملی قیادت تھی اور جماعت ابھی مکہ میں مصائب برداشت کر رہی تھی ، یہ اس لیے ہوا کہ اس جماعت نے پوری انسانیت کی قیادت کرنی تھی اور اسے اس لیے برپا کیا گیا تھا کہ وہ پوری انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر نور اسلام میں لائے گی۔ لہٰذا جماعت مسلمہ کے اندر ان صفات کا پیدا ہونا اور جماعت کے لئے ان مقاصد کے لئے تیار کرنا ضروری تھا۔ یہاں ان باتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے تا کہ جب اس کے ہاتھ میں اقتدار آئے تو وہ اس کی اہل ہو۔ لہٰذا ان صفات پر گہرے غوروفکر کی ضرورت ہے کہ یہ کیا ہیں ؟ ان کی حقیقت کیا ہے ؟ اور انسانی معاشرے میں ان کی اہمیت کیا ہے۔ یہ ہیں ایک اسلامی جماعت کی صفات۔ ایمان ، توکل ، اجتناب کبائر اور فواحش ، غصے کے وقت معافی ، اللہ کی پکار پر لبیک کہنا ، اقامت صلوٰۃ ، ہر معاملے میں مشاورت ، انفاق فی سبیل اللہ ، ظلم و زیادتی کا مقابلہ ، عفو ، اصلاح اور صبر۔ یہ کیا ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے ؟ اور ان کی اہمیت کیا ہے۔ مناسب ہے کہ ان صفات کو قرآنی ترتیب کے مطابق بیان کریں۔ قرآن کریم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طے کردہ ، مستحکم اور دائمی میزان کے سامنے کھڑا کردیتا ہے تا کہ وہ دائمی اور مستقل قدروں اور عارضی اور بدلنے والے حالات کے درمیان فرق و امتیاز کرسکیں۔ اور ان کی سوچ میں فرق نہ ہو ورنہ ان کی نگاہ میں ہر چیز کی حقیقی قدرو قیمت صحیح نہ رہے گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مومنین کی صفات کے بیان سے پہلے ایک مستقبل میزان اور پیمانہ بیان کردیا کہ ایک مسلم جماعت کی صفات کے لئے یہ پیمانہ ہے۔ فما اوتیتم من ۔۔۔۔۔ خیر وابقیٰ (٤٢ : ٣٦) “ جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سروسامان ہے اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی اور پائیدار بھی ”۔ اس زمین کا سازو سامان بہت ہی پرکشش اور زرق وبرق ہے۔ کھانے پینے کے سامان ، اولاد ، شہوات ، لذائذ ، مرتبہ اور اقتدار وغیرہ اور بعض نعمتیں وہ ہیں جو اللہ نے اپنے بندوں کو زمین میں بطور مہربانی دی ہیں اور یہ اللہ کی جانب سے خالص بخشش ہیں۔ ان کو اللہ نے اس دنیا میں معصیت اور طاعت پر موقوف نہیں کیا ہے۔ اگرچہ اطاعت شعار کی اس قلیل بخشش میں برکت ہوتی ہے اور بدکار کے ہاتھ میں اگر بہت کچھ ہو تب بھی اس سے برکت چھن جاتی ہے۔ لیکن یہ سب امور باقی اقدار نہیں ہیں۔ یہ متاع اور اس زندگی کا سروسامان ہے۔ یہ سرو سامان محدود وقت کے لئے ہے۔ یہ نہ کسی کا مرتبہ بلند کرتا ہے ، نہ گراتا ہے۔ یہ اللہ کے نزدیک نہ شرافت و عزت کی دلیل ہے اور نہ کراہت اور ناپسندیدگی کی دلیل ہے۔ نہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایسے شخص سے اللہ راضی ہے اور نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے اللہ ناراض ہے۔ بس یہ اس زندگی ، فانی زندگی کا سامان ہے اور اس کے مقابلے میں۔ وما عند اللہ خیر وابقی (٤٢ : ٣٦) “ جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی ”۔ بہتر ہے اپنی قیمت کے اعتبار سے اور پائیداریوں کہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ لہٰذا اس فانی دنیا کا سازو سامان بمقابلہ آخرت کچھ بھی نہیں ہے۔ بہت ہی محدود اور کم قیمت ہے اور چند روزہ ہے۔ ایک فرد کے لئے صرف اسی کی زندگی میں کار آمد ہے اور پھر ہر شخص سوچ لے کہ وہ کتنی عمر لے کر آیا ہے اور کتنی رہ گئی ہے۔ اور بمقابلہ ایام اللہ یہ تو بہت کم بلکہ لمحات ہیں جس طرح چشم زدن۔ اس تمہیدی بیان اور اصل معیار نیک و بد کے بیان کے بعد اب اللہ ان مومنین کی صفات بیان فرماتا ہے جن کے لئے اللہ نے بہتر اور پائیدار انجام اپنے ہاں تیار کر رکھا ہے۔ وما عند اللہ خیر وابقی للذین امنوا (٤٢ : ٣٦) “ اور اللہ کے ہاں جو ہے وہ بہتر اور پائیدار ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ہیں ”۔ ایمان وہ حقیقت ہے کہ جب یہ ذہن میں بیٹھ جائے تب ہی جا کر اس کے ذریعہ انسانوں کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ وہ اس کائنات کی ہر چیز کی اصل “ قدر ” معلوم کرسکیں۔ صرف ایمان کے ذریعہ ہم اس کائنات کی حقیقت کا ادراک کرسکتے ہیں کہ اس کائنات کو الٰہ العالمین نے بتایا ہے۔ اس حقیقت کے ادراک کے بعد ہی کوئی شخص اس کائنات کے ساتھ کوئی معاملہ کرسکتا ہے۔ اس طرح انسان اس کی حقیقت کو معلوم کرلیتا ہے۔ اس کے اندر پائے جانے والے قوانی قدرت کا حقیقی ادراک کرسکتا ہے اور اس طرح یہ انسان اپنی حرکت کو اس کائنات کی حرکت کے ساتھ ہم آہنگ کرسکتا ہے۔ پھر انسان اس کائنات کے کلی قوانین قدرت سے انحراف نہ کرے گا کیونکہ اس طرح یہ ہم آہنگی ختم ہوجائے گی اور یہ ہم آہنگی اس قدر اہم ہے کہ اس کے ساتھ انسان اس دنیا میں بھی اچھی زندگی بسر کرسکے گا۔ اور اس عظیم وجود کے ساتھ مل کر اپنے باری تعالیٰ اور خالق کی اطاعت اور تابعداری میں زندگی بسر کرسکے گا۔ یہ صفت ہر انسان کے لئے لازمی صفت ہے کہ وہ مومن ہو ، لیکن جس جماعت نے پوری انسانیت کے اس سفر کی قیادت کرنی ہے اور جس نے پوری انسانیت کو خالق کائنات تک پہنچا نا ہے اس کے اندر اس صفت کا بدرجہ اتم موجود ہونا ضروری ہے۔ اس ایمان کے نتائج کیا نکلتے ہیں ؟ مومن کو نفسیاتی اطمینان اور نصب العین کا تعین حاصل ہوجاتا ہے۔ تردد ، حیرت ، خوف اور مایوسی اس کے قریب نہیں لگتی اور اس کرۂ ارض پر عام زندگی گزارنے کے لئے بھی یہ صفات اشد ضروری ہیں۔ لیکن یہ صفات اس جماعت کے لئے تو لابدی ہیں جس نے اس کٹھن راہ میں دوسرے انسانوں کی رہنمائی کرنی ہے۔ ایمان کو اہم قدروں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مومن خواہشات نفسانیہ ، ذاتی اغراض ، ذاتی مصلحتوں ، مفادات کے حصول سے پاک ہو۔ تب جا کر وہ کسی اونچے مقاصد کے لئے کام کرسکے گا۔ اور یہ سوچے گا کہ اس کام میں اس کی ذات کی کوئی حصہ داری نہیں ہے۔ یہ تو صرف دعوت الی اللہ کی ڈیوٹی ہے۔ یہ عند اللہ اجر پا چکا ہے۔ اللہ کے ساتھ سودا ہوچکا ہے اور یہ شعور اس شخص کے لئے تو بہت ہی لازمی ہے جو قائد تحریک ہو ، تا کہ وہ اس وقت مایوس نہ ہو جب ایک خود سر گروہ اس سے الگ ہوجائے یا اسے دعوت کی وجہ سے ایذا دی گئی ہو ، اور اگر تمام عوام اس کے گرویہ ہوجائیں اس کے مطیع ہوجائیں تو وہ مغرور نہ ہوجائے کیونکہ وہ تو ایک مزدور ہے ، اس نے اجرت اللہ سے پہلے ہی لے لی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا پہلا گروہ ، جماعت صحابہ کے اندر اس قسم کا ایمان پیدا ہوگیا تھا۔ ان کے ایمان نے ان کے نفوس ، ان کے اخلاق ، ان کے طرز عمل میں ایک عجیب انقلاب پید کردیا تھا۔ ان کے دور میں پوری انسانیت کے اندر ایمان کی شکل ہی بگڑ گئی تھی۔ ایمان دب گیا تھا ، بلکہ ایمان کا لوگوں کے اخلاق ، ان کے طرزعمل اور ان کی نفسیات پر کوئی اثر ہی نہ رہا تھا۔ جب اسلام آیا تو اس نے ایمان کی ایک زندہ ، موثر ، فعال صورت دی۔ اور اس نے صحابہ کرام (رض) کی ایک ایسی جماعت پیدا کردی جنہوں نے اسلامی انقلاب کا بیڑا اٹھایا۔ ٭٭٭ سید ابو الحسن علی ندوی اپنی کتاب “ مسلمانوں کے زوال کے عالمی اثرات ” میں فرماتے ہیں : “ یہ ہے وہ ایمان جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور اس میں ایمان کو اس جماعت کی صفت اول بتایا گیا ہے جو پوری انسانیت کی قیادت کے لئے اٹھائی گئی ہے جو اپنے ایمان کی وجہ سے انسانیت کی قیادت کرتی ہے۔ اس ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مومن صرف اللہ پر توکل کرے ”۔ لیکن قرآن مجید تو کل علی اللہ کو بطور ایک مستقل عنوان ذکر کرتا ہے۔ وعلی ربھم یتوکلون (٤٢ : ٣٦) “ اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ”۔ یہاں سیدھے سارے فقرے یتوکلون علی ربھم کی بجائے وعلی ربھم یتوکلون (٤٢ : ٣٦) کہا۔ یعنی بعد کے الفاظ کو مقدم یعنی جار مجرور کو مقدم کرنے سے حصر کے معنی پیدا ہوئے یعنی صرف اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں اور کسی پر نہیں کرتے۔ یہ بھی عقیدۂ توحید ہے اور عقیدۂ توحید کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ان کا اللہ پر بھروسہ ہو۔ مومن کا اللہ کی ذات اور صفات پر ایمان ہوتا ہے۔ اس کا یقین ہوتا ہے کہ اس کائنات میں کوئی شخص اپنی مشیت سے کوئی کام نہیں کرسکتا۔ کوئی کام یہاں اللہ کے اذن کے بغیر واقع ہی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا مومن صرف اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔ کسی کام کے کرنے یا کسی کام کے نہ کرنے میں مومن صرف اللہ پر توکل کرتا ہے۔ ہر شخص کے لئے یہ شعور اس کی عملی زندگی میں لابدی ہے ۔ کیونکہ اس طرح وہ ہر کسی کے سامنے سر اٹھا کے چلے گا۔ اور اس کا سر کسی کے سامنے نہ جھکے گا۔ وہ بہت مطمئن ہوگا ، نہ کسی سے کوئی امید رکھے گا نہ اسے کسی کا خوف ہوگا اگر مشکلات آجائیں تو پرجوش اور ثابت قدم ہوگا اور اچھے دن ہوں تو سنجیدہ رہے گا۔ نہ خوشحالی اور نہ ہی بدحالی اسے اپنی جگہ سے ہلا سکے گی۔ لیکن یہ شعور اسلامی انقلاب کے قائد کے لئے بہت ہی ضروری ہے کہ وہ اس راہ کے نشیب و فراز میں جم جانے اور اسلامی انقلاب لانے والی جماعت کے ہر فرد میں بھی یہ صفت ضروری ہے۔ والذین یجتنبون کبئر الاثم والفواحش (٤٢ : ٣٧) “ جو بڑے گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں ” ۔ قلب کی طہارت ، طرز عمل کا شفاف ہونا ، خصوصاً بڑے گناہوں اور فحاشی کے کاموں سے ، اسلامی معاشرے کی اساسی خصوصیت ہے اور یہ ایمان کے نمایاں آثار میں سے ہے۔ اور کسی صحیح قائد اور خصوصاً اسلامی دعوت کے لئے اٹھنے والی جماعت کے لئے تو یہ بہت ہی ضروری صفت ہے۔ کوئی دل اور شفاف نہیں رہ سکتا ، اگر وہ گناہوں کا ارتکاب کر رہا ہو اور فحاشی کے کاموں میں حصہ دار ہو اور ان چیزوں سے اجتناب کرنے والا نہ ہو ، اور کوئی فرد اور کوئی جماعت قیادت کے قابل نہیں ، اگر اس کا دل صاف نہ ہو ، اور معصیت اور فحاشی نے اس کے ایمان کو خود ختم کردیا ہو اور اس کی شکل ہی بگڑی ہوئی ہو۔ پہلی جماعت مسلمہ کے دل میں ایمان اس قدر تیز احساس کے ساتھ ، اس درجے تک بلند ہوگیا تھا ، جس کی طرف محولہ بالا ص میں ٢٢ میں اشارہ کیا گیا اور اس طرح اس جماعت کو اس کے ایمان نے انسانی قیادت کے منصب پر فائز کردیا تھا۔ اور انہوں نے ایسی قیادت کی کہ اس کی مثال نہ سابقہ قدیم تاریخ میں ملتی ہے اور نہ نئی تاریخ میں۔ اس قیادت کی مثال ایسی ہے جس طرح ایک تیز ہو اور جو ستارے کی طرف اشارہ کرتا ہو ، اس جہان میں جہاں خواہشات کی جنگ برپا ہو اور نفسا نفسی کا عالم ہو۔ اللہ اس انسانی مخلوق کی کمزوریوں سے خوب واقف ہے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قیادت کے لئے شرائط بھی معقول حد کے اندر رکھی ہیں۔ جن پر کوئی قیادت عمل کرسکے اور اس پر وہ اللہ کے ہاں موہود اجر پاسکے۔ اللہ نے جو معیار تجویز فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی جماعت اور اس کی لیڈر شپ کبائر گناہوں اور فواحش سے مجتنب ہو۔ رہے چھوڑے گناہوں کا ارتکاب تو وہ اللہ معاف کر دے گا۔ کیونکہ اللہ انسانوں کی طاعت کی حدود وقیود سے خوب واقف ہے۔ یہ اللہ کا فضل ، اس کی مہربانی اور رحمت ہے ، جو اس نے اس انسان پر کیا۔ مناسب ہے کہ ہم اللہ سے شرم کریں کیونکہ مہربانی سے انسان کے اندر حیا کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور عفو درگزر کی وجہ سے عزت و احترام پیدا ہوتا ہے۔ واذا ما غضبوا ھم یغفرون (٤٢ : ٣٧) “ اور اگر غصہ آجائے تو درگزر کر جاتے ہیں ” ۔ یہ صفت اس کے بعد متصلا آئی جب اس سے قبل اشارہ کردیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے چھوٹے گناہ معاف کر کے درگزر فرماتا ہے۔ لہٰذا بندوں کو بھی چاہئے کہ وہ آپس میں مہربانی اور درگزر کا سلوک روا رکھیں۔ چناچہ مومنین کی صفات میں اس بات کو شامل کیا گیا کہ جب ان کو غصہ آئے تو وہ ایک دوسرے کو معاف کریں۔ اس معاملے میں بھی اسلام نفس انسانی کے ساتھ نہایت ہی احسان کرتا ہے۔ اسلام انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اللہ کو تو معلوم تھا کہ غصہ ایک ایسا انسانی رد عمل ہے جو انسان کی فطرت سے اٹھتا ہے۔ اور یہ غصہ سرا سر شر بھی نہیں ہے۔ اللہ کے لئے ، اللہ کے دین کی خاطر ، سچائی کے لئے اور انصاف کی خاطر تو غصہ مطلوب ہے۔ اور اس میں خیر ہے۔ لہٰذا اسلام نفس غصے کو جرم قرار نہیں دیتا۔ نہ اسے غلطی قرار دیتا ہے بلکہ اسلام انسانی مزاج اور فطرت میں غصے کو قبول کرتا ہے۔ اس لیے اسلام انسان اور اس کی فطرت کے درمیان کسی دینی حکم کی وجہ سے جدائی اور تفریق نہیں کرتا۔ ہاں اسلام یہ ہدایت ضرور دیتا ہے کہ انسان کو اپنے غصے پر قابو پانا چاہئے۔ اسے چاہئے کہ حتی الوسع عفو و درگزر سے کام لے اور یہ اس کی ایمانی صفات میں سے ایک مثالی صفت ہوگی۔ اس سلسلے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ بات منقول ہے کہ آپ کبھی بھی ذاتی معاملات میں غصہ نہیں ہوئے۔ آپ کا غصہ اللہ کے لئے ہوتا تھا اور پھر آپ کے غصے کے سامنے کوئی طاقت ٹھہر نہ سکتی تھی۔ خیر یہ تو مقام محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درجات و کمالات ہیں۔ عام مسلمانوں کو اللہ ان کی طاقت کے مطابق ہی حکم دیتا ہے ۔ اگرچہ وہ اس میں ان کو آزماتا ہے اور صرف یہ حکم دیتا ہے کہ اگر غصہ آجائے تو معاف کردیں ، اور اگر ممکن ہو سکے تو معاف کردیں اور انتقام کے جذبات پر قابو پالیں بشرطیکہ معاملہ ذاتی حدود کے اندر ہو۔ اور دو افراد کے درمیان ہو۔ والذین استجابوا لربھم (٤٢ : ٣٨) “ جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں ”۔ وہ اپنے اور رب کے درمیان حائل ہونے والی رکاوٹوں کو دور کرتے ہیں اور نفس انسانی سے وہ باتیں محو کرتے ہیں جو توجہ الی اللہ سے مانع ہوں ، یہ رکاوٹیں نفسانی خواہشات ، جذبات و میلانات اور وہ رکاوٹیں جو انسان کے وجود اور اس کی ذات سے لگی ہوئی ہیں ، جب انسان ذاتی خواہشات پر قابو پالے اور شخصی رکاوٹوں کو دور کرے تو پھر اس کے اور اس کے رب کے درمیان راستہ صاف ہوجاتا ہے ۔ اور پھر یہ رب کے ہر حکم کی تعمیل کے لئے ہر وقت تیار ہوتا ہے اور اللہ کے حکم کے سامنے ذاتی خواہشات کی کوئی رکاوٹ ، رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اللہ کے احکام پر عمل کرنے کی یہ عمومی صفت ہے لیکن احکام الٰہی میں سے بعض کا یہاں خصوصی ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ واقاموا الصلوٰۃ (٤٢ : ٣٨) “ نماز قائم کرتے ہیں ”۔ اسلام میں نماز کو ایک بہت بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ کلمہ طیبہ کے اقرار کے بعد پہلا حکم نماز کا آتا ہے۔ گویا نماز اللہ کے احکام کی پیروی کا آغاز ہوتا ہے۔ بندے اور اس کے رب کے درمیان تعلق کا نام نماز ہے۔ پھر یہ اس بات کا اظہار ہے کہ اسلام میں محمود وایاز ایک ہی صفت میں کھڑے ہوں گے۔ کسی کا سر دوسرے کے مقابلے میں بلند نہ ہوگا ، کوئی کسی سے آگے نہ ہوگا۔ اور یہی پہلو ہے یعنی مساوات کا پہلو کہ نماز کے بعد بالعموم زکوٰۃ کا ذکر آتا ہے لیکن یہاں زکوٰۃ سے پہلے وامرھم شوری (٤٢ : ٣٨) کا ذکر کیا تا کہ معلوم ہو کہ رائے ہر شخص کی برابر شمار ہوگی۔ وامرھم شوریٰ بینھم (٤٢ : ٣٨) “ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں ”۔ انداز بیان ایسا ہے کہ ان کے تمام امور مشورے کے نتیجے میں ہوتے ہیں گویا ان کی پوری زندگی مشورے کے رنگ میں رنگی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے کہا یہ ایک مکی آیت ہے اور یہ حکم اسلامی حکومت کے قیام سے بھی پہلے کا ہے۔ یہ رنگ گویا صرف حکومتی امور کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ایک اسلامی سوسائٹی کا عمومی طرز عمل ہے۔ اگرچہ حکومت اس وقت قائم ہی نہ ہوئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں حکومت کی تنظیم دراصل اسلامی سوسائٹی کے خدو خال کا ایک منظم ظہور ہی ہے اور اسلامی سوسائٹی میں اسلامی حکومت بھی آتی ہے۔ لہٰذا اسلامی سوسائٹی ، اسلامی حکومت کو بھی اسی نہج پر چلاتی ہے۔ جس طرح اس کے عمومی امور چلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں آغاز ہی سے مشورے کا عمل جاری تھا۔ اور اس مشورے کا دائرہ حکومت اور حکومتی احکام سے بہت زیادہ وسیع تھا۔ یہ دراصل اسلامی سوسائٹی کی صفت ہے اور اس جماعت کی تو ممتاز صفات میں سے ہے جسے اللہ نے پوری انسانیت کی قیادت کے لئے برپا کیا ہے۔ اور قیادت کے لئے تو یہ بہت ہی اہم ہے۔ شوریٰ کی شکل و صورت کیا ہونی چاہئے تو اسلام نے اس کے لئے کوئی فولادی قالب نہیں تیار کیا۔ ہر زمان و مکان کے حالات میں اس کی مختلف شکل و صورت تیار ہو سکتی ہے تا کہ یہ صفت یعنی شو رائیت اسلامی سوسائٹی میں بھی رائج ہو۔ اسلامی اداروں میں بھی مروج ہو ، لیکن اس کی کوئی جامد شکل نہ ہو بلکہ شوریٰ کی روح ہر جگہ موجود ہو۔ یعنی یہ شورائیت دراصل الفاظ اور اشکال کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک صفت ہے جو ایمان کے نتیجے میں اسلامی سوسائٹی میں شورائی شعور اور طرز عمل پیدا کرتی ہے۔ بعض لوگ ایسے اسلامی اداروں کی بات کرتے ہیں جن کی تہہ میں ایمان نہ ہو یا ایمان کا ہونا ضروری نہ ہو تو وہ ایک فضول کام کر رہے ہیں۔ اور یہ کوئی سطحی بات نہیں ہے جس طرح پہلی نظر میں نظر آئے گی اور خصوصاً ان لوگوں کو نظر آئے گی جنہوں نے اسلامی نظریہ حیات میں ایمان کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔ کیونکہ اسلامی نظریہ حیات اداروں اور تنظیمات میں منتقل ہونے سے قبل ، اس کے اندر ایسی عقلی اور نفسیاتی حقیقتیں ہوتی ہیں جو انسانی سوچ اور انسان کی ذات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اور اس کے بعد اسلام کے اجتماعی اداروں میں وہ اصول بن کر ایک متبعین شکل اختیار کر کے سامنے آتی ہیں اور اس کے بعد پھر نصوص آتے ہیں اور وہ ان اشکال اور حالات کی طرف اشارہ کردیتے ہیں ۔ نصوص ان اصولوں کو منظم کردیتے ہیں ، ان کی تخلیق نہیں کرتے ، ان کی تخلیق تو ایمان کی وجہ سے ہوچکی ہوتی ہے۔ لہٰذا اسلامی نظریہ حیات کی کسی شکل و صورت کے ظہور کے لئے کسی ملک میں اسلامی سوسائٹی اور مسلمانوں کا وجود ضروری ہے۔ اور ان مسلمانوں کا ایمان فعال اور بااثر ہو۔ اگر مسلمانوں کا وجود ہی نہ ہو تو محض اداروں کے قیام سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ محض ادارے ضروریات پوری نہ کرسکیں گے اور اس صورت میں کوئی ایسا نظام وجود میں نہ آسکے گا جسے اسلامی کہا جاسکے۔ جب مسلمان صحیح معنوں میں پائے جائیں گے اور ایمان اپنی حقیقت کے اعتبار سے وجود میں آجائے گا تو اسلامی نظام بذات خود وجود میں آجائے گا اور اس کی ایک اداراتی شکل خودبخود وجود میں آجائے گی جو ان مسلمانوں کی ضرورت ہوگی اور ان کی سوسائٹی کی ضرورت ہوگی اور صرف اس طرح اسلامی اصولوں کے خواب کی سچی تعبیر وجود میں آسکے گی۔ ومما رزقنھم ینفقون (٤٢ : ٣٨) “ اور ہم نے ان کو جو رزق دیا اس سے خرچ کرتے ہیں ” یہ آیت بھی حکم فرضیت زکوٰۃ سے پہلے دور سے تعلق رکھتی ہے۔ زکوٰۃ دو ہجری میں فرض ہوئی لیکن انفاق فی سبیل اللہ عام حکم اسلامی جماعت کے لئے پہلے سے تھا۔ بلکہ اسلامی سوسائٹی کی تشکیل کے ساتھ ہی یہ حکم وجود میں آگیا تھا۔ دعوت اسلامی کے عمل کے لئے مال کی ضرورت ہے اور یہ مال بذریعہ انفاق حاصل ہوگا۔ انفاق کے ذریعہ انسانوں کے دل کنجوسی کی بری خصلت سے پاک ہوتے ہیں جب انسانی جذبہ مال پر قابو پا لیتا ہے اور اپنی مملوکات کی بجائے اللہ پر بھروسہ کرنا سیکھنا ہے ، ایمان کے مفہوم کے نکھار کے لئے یہ سب امور ضروری ہیں۔ اور یہ بات تو اپنی جگہ ہے کہ انفاق کے بغیر کوئی اجتماعی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ دعوت تو ایک جدو جہد ہے اور جدو جہد میں کارکنوں کی کفالت ضروری ہے تا کہ اجماعی ضروریات پوری ہوں اور نتائج برآمد ہوں۔ بعض اوقات یہ تکافل ہمہ گیر ہوجاتا ہے کہ کیس کے لئے انفرادی دولت رکھنے کی اجازت ہی نہیں ہوتی۔ جب مہاجرین مکہ سے نکلے اور مدینہ میں انصار کے ساتھ مل کر جو نظام قائم ہوا یہ سب اسی اصول کے تحت تھا لیکن جب حالات معمول پر آگئے تو پھر زکوٰۃ کو رائج کر کے موافات کے نظام کو منسوخ کردیا گیا جو کلی تکافل تھا۔ بہرحال انفاق فی سبیل اللہ اس جماعت کی ممتاز خصوصیت ہے جسے اس مقصد کے لئے چنا گیا ہو یا اسے اس مقصد کے لئے قائم کیا گیا ہو کہ وہ کسی خطے میں اسلامی انقلاب برپا کرے۔ والذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون (٤٢ : ٣٩) “ اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں ”۔ مکی سورتوں میں اس صفت کا ذکر اپنے اندر خاص معنی رکھتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اسلامی جماعت مسلمہ کے اندر یہ طبیعی صفت ہوتی ہے کہ وہ زیادتی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ برائی کا مقابلہ کرنا ایک اہم فریضہ ہے کیونکہ اگر کوئی ظالم کے سامنے ہتھیار ڈال دے تو ظالم اور جری ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ظالم کا مقابلہ کرنا بہت ضروی ہے۔ اور ایک ایسی ملت جسے اٹھایا ہی اس لیے گیا ہو کہ لوگوں کے حقوق کی پاسبانی کرے ، امر بالمعروف اس کا مشن ہو اور “ نہی عن المنکر اس کا فریضہ ہو ، اس کے لئے تو برائی کا مقابلہ کرنا بہت ہی اہم ہے کیونکہ امت مسلمہ اور جماعت مسلمہ کا نصب العین یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی پر چھا جانے اور اس کے اندر سچائی کے ساتھ عدل و انصاف قائم کرے۔ وللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین “ اور عزت اللہ ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کے لئے ہے ”۔ لہٰذا اسلامی جماعت کا مزاج ، اس کے فرائض کی نوعیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ زیادتی کا مقابلہ کرے اور اس پر جو دست درازیاں کی جا رہی ہیں ان کی مدافعت کرے۔ مکہ میں حکم یہ تھا کہ رک جاؤ اور ہاتھ روک لو اور صبر کرو۔ نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو ، وہاں یہ احکام مکہ کے مخصوص حالات کی وجہ سے تھے اور ابتدائے عرب مسلمانوں کی قدرے تربیت بھی مطلوب تھی کیونکہ عرب مزاجاً منتقم المزاج تھے ، یہ اسلامی جماعت اور اسلامی سوسائٹی کے لئے مستقل احکام نہ تھے۔ مکہ میں بعض خصوصی اسباب کی وجہ سے یہ حکم دیا گیا تھا کہ ہر قیمت پر بقائے باہمی کے لئے امن اور سلامتی کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔ ١۔ اس لیے کہ مسلمانوں کے خلاف سختی اور زیادتی کسی منظم حکومت ادارے کی طرف سے نہ تھی جو اس وقت کی جماعت پر حکمران ہو ، کیونکہ جزیرۃ العرب کی سیاسی صورت حال غیر منظم قبائل انداز کی تھی۔ وہاں مسلمانوں پر جو تشدد کیا جاتا ہے تھا ، اگر کوئی مسلمان کسی قبیلے کا فرد تھا تو اس پر یہ تشدد قبیلہ کرتا تھا اور قبیلے میں بھی اس کے قریبی رشتہ دار کے علاوہ کوئی جرات نہ کرسکتا تھا۔ مسلمانوں پر بحیثیت جماعت کوئی تشدد نہ ہوتا تھا۔ بعض اوقات آقا اپنے مسلمان غلاموں پر تشدد کرتے تھے اور مسلمان انہیں خرید کر آزاد کردیتے تھے۔ اس لیے کوئی بھی اپنے غلاموں پر زیادہ تشدد کی جرات نہ کرتا تھا ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ چاہتے تھے کہ مکہ میں گھر گھر کے اندر لڑائی شروع ہوجائے۔ ایک ہی گھر کے جو لوگ مسلمان ہوگئے ہیں وہ غیر مسلموں سے لڑنا شروع کردیں۔ پھر مکہ میں نرمی دوسرے لوگوں کے دلوں کو زیادہ نرم کردیتی تھی بسنبت سختی کے۔ پھر عرب معاشرہ ایک خوددار اور جوانمرد معاشرہ تھا۔ اس میں مظلوم کی تمایت میں لوگ اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ مسلمان جب اذیت برداشت کرتے تھے اور اپنے عقیدے پر جم جاتے تھے تو عربوں کی جوانمردی کے جذبات ان کے حق میں اٹھتے تھے۔ شعب ابی طالب میں محصوری کے دوران بالعموم اسی جذبے نے مسلمانوں کی مدد کی ، جس میں بنی ہاشم سب محصور کر دئیے گئے تھے۔ اس محاصرے کے خلاف لوگوں کی ہمدردیاں ، مسلمانوں کے حق میں ہوگئیں اور لوگوں نے اس معاہدے کے پرزے پرزے کر دئیے جو صحیفے میں تھا اور یوں یہ ظالمانہ معاہدہ ختم ہوا۔ پھر عربوں کے اندر یہ رواج تھا کہ وہ بات بات پر تلوار سونت لیتے تھے۔ وہ بڑے جذباتی تھے اور کسی نظم و نسق کے پابند نہ تھے ۔ اسلامی جماعت میں جو تنظیم مطلوب تھی اس کا تقاضا تھا کہ اس جذباتیت کو ذرا دبایا جائے اور اسے کسی ہدف کا پابند کیا جائے۔ اور لوگوں کو اعصابی ضبط اور صبر کا عادی بنایا جائے۔ اور لوگوں کے اندر یہ شعور پیدا کیا جائے کہ نظریہ اور نصب العین ہر جذبے اور ہر مفاد پر مقدم ہیں۔ لہٰذا مکہ میں صبر اور مسلسل صبر کی تلقین کرنا اسلام کے منہاج تربیت کے لیے بہت ضروری تھا۔ اس طرح ایک مسلم کی شخصیت میں مطلویہ توازن پیدا ہوگیا اور وہ صبر وثبات کے ساتھ اپنے مقصد کے لئے آگے بڑھتے رہے۔۔۔۔ غرض یہ اور اس طرح کے دوسرے اسباب تھے جن کو اللہ اور رسول جانتے ہیں۔ ان کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں ، صبر کی تلقین ہوتی رہی لیکن اصلی ہدف تحریک اسلامی کا یہی تھا۔ والذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون (٤٢ : ٣٩) “ وہ لوگ جب ان پر زیادتی ہو تو وہ مقابلہ کرتے ہیں ”۔ اس اصول کو زندگی کا ایک دوسرا اصول عملاً رائج کرتا ہے ، وہ ہے : وجذء سیئۃ سیئۃ مثلھا (٤٢ : ٤٠) “ برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے ”۔ سزا کا یہ اصول ہے کہ جیسا جرم ہو ، ویسی ہی سزا دی جائے تا کہ سرکشی اختیار نہ کرے۔ اگر کسی سرکش انسان کو کوئی روکنے والا نہ ہو تو وہ سر کشی اور ظلم میں بڑے اطمینان سے بہت آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہ تو ہے مظلوم کا حق اور اصول عامہ۔ لیکن اگر کوئی اپنے اصلاح نفس یا جزائے خیر اور اخروی اجر کے لئے کسی کو معاف کرتا ہے یا جماعت مسلمہ کے خلاف اٹھنے والے جذبات کی وجہ سے معاف کرتا ہے تو اس قاعدے میں استثناء موجود ہے۔ لیکن معافی کو اس وقت معانی تصور کیا جائے گا جب کوئی شخص برائی کا جواب برائی کے ساتھ دینے پر قدرت رکھتا ہو۔ اس وقت عفو کا وزن بھی ہوگا اور دست درازی کرنے والے کی اصلاح بھی ہوگی کیونکہ دست درازی کرنے والا جب یہ سوچے گا کہ عفو اور در گزر محض احسان کی وجہ سے ہوئی ہے اور اس میں معاف کرنے والے کی کوئی کمزوری نہیں ہے۔ تو اس صورت میں وہ شرمندگی محسوس کرے گا ، نادم ہوگا اور آئندہ حیا کرے گا۔ اور یہ سوچے گا کہ میرے مخالف نے میرے ساتھ شریفانہ سلوک کیا ہے۔ وہ اونچا آدمی ہے اور جو شخص انتقام لینے پر قادر ہو اور معاف کر دے تو اس کا دل بھی صاف ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ایسے حالات میں عفو و درگزر دونوں کے لئے مفید ہوتی ہے۔ لیکن اگر ایک شخص انتقام لینے سے عاجز ہو اور معاف کردے تو پھر صورت یہ ہوگی ، گداگر تواضع کند خوئے اوست۔ لہٰذا ایسے عفو کو عفو کہنا ہی نہیں چاہئے کیونکہ وہاں عفو نہیں ہے ، مجبوری ہے۔ اور یہ صورت حال ایک شر انگیز صورت حال ہے ۔ اس کے نتیجے میں ظلم کرنے والا اور جری ہوتا ہے۔ اور فساد اور پھیلتا ہے ، یہ آیت مفہوم ۔ فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ (٤٢ : ٤٠) “ پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ پر ہے ”۔ انہ لا یحب الظلمین (٤٢ : ٤٠) “ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ”۔ یہ پہلے قاعدے کی تاکید ہے کہ “ برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے ”۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ یا تو معاف کر دو یا اگر بدلہ لینا ہے تو برابر بدلہ لو اس میں حدت نہ بڑھو۔۔۔۔ ایک دوسری تاکید اسی قاعدے گی : ولمن انتصر بعد ۔۔۔۔۔ من سبیل (٤٢ : ٤٢) انما السبیل علی الذین ۔۔۔۔۔۔ عذاب الیم (٤٢ : ٤٢) “ اور جو لوگ ظلم کے بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں کی جاسکتی۔ ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے ”۔ لہٰذا جو شخص ظلم کے بعد مدافعت کرتا ہے اور برائی کا بدلہ اس کے مساوی لینا ہے ، تعدی نہیں کرتا تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ وہ تو اپنا قانون حق استعمال کرتا ہے۔ لہٰذا اس کے خلاف کسی کے پاس کوئی حجت نہیں ہے۔ نہ کسی کے لئے جائز ہے کہ اس کی راہ روکے۔ راہ تو ان لوگوں کی روکنی چاہئے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں ، اور زمین میں بغیر استحقاق کے زیادتیاں کرتے ہیں۔ کیونکہ کسی ایسے ملک کی اصلاح نہیں ہو سکتی جب اس میں ایک ظالم لوگوں پر ظلم کر رہا ہو اور اس کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہ ہو۔ اس میں باغی ہو جو لوگوں پر مظالم ڈھا رہا ہو اور کوئی قوت ایسی نہ ہو جو اس کا ہاتھ روکے یا اس سے قصاص دلواسکے۔ اللہ تعالیٰ بہرحال اس قسم کے ظالموں کو عذاب الیم کی دھمکی دیتا ہے۔ لیکن یہ لوگوں کا بھی فریضہ ہے کہ وہ ظالم کا ہاتھ پکڑیں۔ آخر میں پھر انفرادی حالات اور طاقت انتقام کے باوجود ، تو ازن ، اعتدال ، ضبط نفس ، صبر اور احسان کا رویہ اپنانے پر متوجہ کیا جاتا ہے۔ جب صبر اور احسان فی الواقعہ ایک درگزر ہو ، ذلت نہ ہو ، کوئی احسان ہو ، مجبور نہ کردیا گیا ہو۔ ولمن صبر وغفر ان ذلک لمن عزم الامور (٤٢ : ٤٣) “ البتہ جو صبر سے کام لے اور درگزر کرے تو یہ بڑی اولو العزمی کے کاموں میں سے ہے ”۔ اس پیراگراف کی تمام ہدایات و احکام نہایت ہی اعتدال اور میانہ روی پر مبنی ہیں۔ نفس انسانی کو ایک طرف کینہ اور غصے سے بچانے کی سعی کی گئی ہے ، اور دوسری جانب کمزوری ، ذلت اور ظلم و زیادتی سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور ہر حال میں اللہ کی رضا مندی کو پیش نظر رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اور یہ بتایا گیا ہے کہ صبر بہرحال زاد راہ ہے۔ اور مومنین کی جو صفات یہاں دی گئی ہیں وہ اس انقلابی جماعت کی خصوصیات ہیں ، جس نے پوری انسانیت کی قیادت کرنی ہے ، اور جس کے پیش نظر انعام اخروی اور رضائے الٰہی ہے اور یہ ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائیں اور رب پر توکل کریں۔ یہ بیان کرنے کے بعد کہ صفات مومنین یہ ہیں اور ان کے لئے جو اخروی اجر ہے ، وہ بہت بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ اب بطور تقابل تصویر کا دوسرا رخ بعض ظالموں کا انجام بھی یہاں دے دیا جاتا ہے۔ اور ان کے لئے ذلت اور خسران کا اعلان کیا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے دنیاوی زندگی کا سامان ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے اہل ایمان اور اہل توکل کے لیے بہتر ہے ان آیات میں دنیا کے بےثباتی بتائی ہے اور آخرت کے اجور اور ثمرات کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ بہتر ہیں اور زیادہ باقی رہنے والے ہیں اور یہ بھی بتایا کہ یہ اجور وثمرات اہل ایمان کو ملیں گے پھر اہل ایمان کے اوصاف بیان فرمائے (١) یہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں (٢) کبیرہ گناہوں سے اور فحش باتوں اور فحش کاموں سے پرہیز کرتے ہیں (٣) اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں (٤) اور یہ لوگ اپنے رب کا حکم مانتے ہیں یعنی دل و جان سے قبول کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں (٥) اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے امور آپس میں باہمی مشورہ سے طے ہوتے ہیں (٦) انہیں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (٧) اور جب ان پر کوئی ظلم ہوتا ہے تو وہ بدلہ لے لیتے ہیں (ظلم نہیں کرتے جتنا ہوا اسی قدر بدلہ لیتے ہیں) یہ ایسے امور ہیں جن کا پابند ہونا اور زندگی بھر نباہتے چلے جانا اہم کام ہے ان میں توکل کرنا بھی اور گناہوں اور فحش کاموں سے بچنا بھی، اور غصہ آجائے تو معاف کرنا بھی اور مشورے سے کاموں کو انجام دینا بھی ہے صحیح طریقے پر نماز ادا کرنا ﴿وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ ١۪﴾ اور مالی فرائض اور واجبات ادا کرنا ﴿وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَۚ٠٠٣٨﴾ میں بیان فرما دیا ایسے جامع الاوصاف اہل ایمان کے لیے آخرت کے اجر وثواب کا خیر ہونا اور باقی ہونا ظاہر ہے۔ دنیا کے بارے میں یہ جو فرمایا کہ تمہیں جو کوئی چیز دی گئی ہے وہ دنیا کی زندگی میں کام آنے والی ہے اس میں دو باتوں کی طرف اشارہ فرمایا اول یہ کہ جو لوگ دنیا میں جیتے اور بستے ہیں ان میں مومن بھی ہیں اور کافر بھی ہیں دنیا سے فائدہ حاصل کرنے میں مومن یا کافر اور نیک و بد کی کوئی تخصیص نہیں سب اس سے متمتع اور مستفید ہوتے ہیں اور دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ دنیا میں جسے جو کچھ ملا ہو وہ دنیا کی حد تک ہے جب دنیا سے چلے جائیں گے سب یہیں دھرا رہ جائے گا ہاں جو کچھ اللہ کے لیے خرچ کیا اس کا ثواب وہاں مل جائے گا جسے ﴿وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَۚ٠٠٣٨﴾ میں بتادیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31:۔ ” وما عنداللہ “ یہ بشارت اخرویہ ہے اور یہاں ان تین امور کا بیان بھی ہے جو عذاب خداوندی سے بچاتے ہیں (1) شرک نہ کرو۔ (2) ظلم نہ کرو اور (3) اھسان کرو۔ اللہ کی توحید پر ایمان لانے والوں، شرک نہ کرنے والوں اور ہر معاملے میں اپنے خدا پر بھروسہ کرنے والوں کے لیے اللہ کے یہاں جو اجر وثواب اور انعام وعطاء محفوط ہے وہ دنیوی ساز و سامان سے کہیں بہتر اور پائیدار ہے۔ اس میں عذاب سے بچنے کیلئے امر اول کا بیان ہے۔ ” والذین یجتنبون الخ “ ان کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ کبائر و فواحش سے اجتناب کرتے ہیں۔ ظلم بھی کبیر گناہ ہے اور ان کی تیسری صفت یہ ہے کہ جب ان کو غصہ آجائے تو احسان کرتے اور درگذر کرتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(36) سو تم لوگوں کو جو کچھ دیا گیا وہ محض دنیوی زندگی کے لئے برتنا ہے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے وہ بدرجہا اس سے بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ یعنی یہاں جو کچھ عطا ہوا ہے وہ عارضی زندگی کا عارضی سامان ہے اور اللہ رب العزت کے ہاں جو سامان اہل ایمان اور اہل توکل کو ملنے والا ہے وہ ہر اعتبار سے بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے اوپر دنیا کی کھیتی اور آخرت کی کھیتی کا ذکر آیا تھا یہ اسی کا شاید تتمہ ہو دنیوی مال ومتاع کی اور یہاں کے فوائد جس میں مومن اور منکر دونوں برابر ہیں بلکہ منکر کچھ زائد ہیں اس کی تفصیل ظاہر کی کہ یہاں کی نعمتوں کا کوئی اعتبار نہیں آخرت کی نعمتیں بہتر بھی ہیں اور پائیدار بھی۔