Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 38

سورة الشورى

وَ الَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمۡ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۪ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ۚ۳۸﴾

And those who have responded to their lord and established prayer and whose affair is [determined by] consultation among themselves, and from what We have provided them, they spend.

اور اپنے رب کے فرمان کو قبول کرتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ان کا ( ہر ) کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور جو ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے ( ہمارے نام پر ) دیتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ ... And those who answer the Call of their Lord, means, they follow His Messenger and obey His commands and avoid that which He has prohibited. ... وَأَقَامُوا الصَّلَأةَ ... and perform As-Salah, -- which is the greatest act of worship of Allah, may He be glorified. ... وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ ... and who (conduct) their affairs by mutual consultation, means, they do not make a decision without consulting one another on the matter so that they can help one another by sharing their ideas concerning issues such as wars and other matters. This is like the Ayah: وَشَاوِرْهُمْ فِى الاٌّمْرِ and consult them in the affairs, (3:159) The Prophet used to consult with them concerning wars and other matters, so that they would feel confidant. When Umar bin Al-Khattab, may Allah be pleased with him, was dying, after he had been stabbed, he entrusted the choice of the next Khalifah to six people who were to be consulted. They were Uthman, Ali, Talhah, Az-Zubayr, Sa`id and Abdur-Rahman bin Awf, may Allah be pleased with them all. Then all of the Companions, may Allah be pleased with them, agreed to appoint Uthman as their leader. ... وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ and who spend of what We have bestowed on them. this means kindly treating the creation of Allah, starting with those who are closest, then the next closest, and so on. وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنتَصِرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

38۔ 1 یعنی اس کے حکم کی اطاعت، اس کے رسول کا اتباع اور اسکے حکم کو نہ ماننے سے پرہیز کرتے ہیں 38۔ 2 نماز کی پابندی اور اقامت کا بطور خاص ذکر کیا کہ عبادت میں اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ] ٥٦] مشورہ اور اس کے متعلقات :۔ مشورہ سے متعلق قابل ذکر امور یہ ہیں : (١) مشورہ انفرادی امور میں کیا جاسکتا ہے جیسا کہ آپ نے واقعہ افک کے دوران کئی صحابہ سے مشورہ لیا اور اجتماعی امور میں بھی جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے۔ (٢) مشورہ صرف اسی سے لینا چاہئے جو مشورہ دینے کی اہلیت رکھتا ہوں۔ ہر کس و ناکس سے نہ مشورہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ کوئی لیتا ہے۔ اجتماعی امور میں مومنوں کا امیر مجلس شوریٰ منتخب کرتا ہے اور اس سے مشورہ لیتا ہے۔ (٣) مشورہ صرف ایسے امور میں کیا جاسکتا ہے۔ جہاں کتاب و سنت میں کوئی صریح حکم موجود نہ ہو۔ اور اس کا تعلق بالعموم تدبیری امور سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ آپ نے اسارٰی بدر کے معاملہ میں صحابہ سے مشورہ کیا تھا کہ انہیں قتل کردیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا جنگ احد کے متعلق یہ مشورہ کیا تھا کہ یہ جنگ مدینہ میں رہ کر لڑی جائے یعنی صرف مدافعت کی جائے یا کھلے میدان میں لڑی جائے۔ (٤) مشورہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ زیر بحث مسئلہ کے سب پہلو سامنے آجائیں۔ اور جو پہلو اقرب الی الحق ہو اسے اختیار کیا جائے۔ مختصر لفظوں میں اس کا مقصد دلیل کی تلاش ہوتا ہے۔ (٥) اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہر صاحب مشورہ کو اپنی رائے کے اظہار کی پوری آزادی دی جائے۔ (٦) یہ تشخیص کرنا کہ اقرب الی الحق کون سا پہلو ہے ؟ میر مجلس کا کام ہے۔ اس کا انحصار آراء کی کثرت اور قلت پر نہیں۔ بلکہ اگر ایک دو شخصوں کی رائے بھی اقرب الی الحق ہو تو اسے ہی اختیار کیا جائے گا۔ جیسا کہ آپ نے اساریٰ بدر کے موقعہ پر فرمایا تھا کہ اگر سیدنا ابوبکر صدیق (رض) اور سیدنا عمر دونوں ایک رائے پر متفق ہوجاتے تو میں اسی کے مطابق عمل کرتا۔ یا جنگ احد کے متعلق آپ کو یہ مشورہ دینے والے کہ جنگ کھلے میدان میں لڑی جائے چند جوشیلے نوجوان مسلمان تھے لیکن آپ نے ان کی قلت کے باوجود انہی کی رائے کو اختیار کیا۔ (٧) آخری فیصلہ کا اختیار میر مجلس کو ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا : (فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ ١٥٩۔ ) 3 ۔ آل عمران :159) جب کسی فریق کے پاس کوئی دلیل موجود نہ ہو یا دونوں طرف دلائل یکساں ہوں تو اس وقت کثرت رائے کے مطابق فیصلہ کیا جاسکتا ہے اور ایسی صورت میں کثرت ہی بذات خود ایک دلیل بن جاتی ہے۔ اس طرح قطع نزاع تو ہوجاتا ہے مگر اس صورت میں وضوح حق ضروری نہیں۔ اور اس کی مثال بالکل قرعہ اندازی کی سی ہوتی ہے۔ خ اسلام میں خلیفہ کا انتخاب :۔ رہی یہ بات کہ آیا امیر کا انتخاب بھی مشورہ سے ہوگا یا یہ معاملہ مشورہ سے باہر ہے۔ تو اکثر علماء کا خیال ہے یہ معاملہ مشورہ سے باہر ہے۔ اس پر پہلی دلیل یہ ہے کہ یہ سورة مکی ہے جبکہ مسلمانوں کی ریاست کا تصور تک نہ تھا اور دوسری دلیل یہ ہے کہ مسلمانوں کا اولین امیر خود نبی ہوتا ہے اور اس کے انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ خلفائے راشدین کا انتخاب کسی ایک مخصوص طریق پر نہیں ہوا۔ پہلے خلیفہ کا انتخاب صرف مدینہ میں بعض صحابہ کے اجتماع میں ہوا۔ سیدنا عمر نے نام پیش کرکے بیعت کی۔ پھر سب نے بیعت کرلی۔ دوسرے خلیفہ سیدنا عمر کو سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے نامزد کیا۔ تیسرے خلیفہ سیدنا عثمان (رض) کو ایک چھ رکنی کمیٹی نے منتخب کیا اور چوتھے خلیفہ کو سیدنا عثمان (رض) کے قاتلوں نے زبردستی نامزد کیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے۔ خلیفہ یا امیر المؤمنینکا سب مسلمانوں کے مشورہ کے تحت منتخب ہونا ضروری نہیں۔ مسلمانوں کا امیر جس راستے سے آئے اگر ان کو کتاب و سنت کے مطابق چلاتا ہے تو وہ ان کا فی الواقع امیر ہے، ورنہ نہیں۔ (مزید تفصیلات کے لیے میری تصنیف خلافت و جمہوریت ملاحظہ فرمائیے)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) والذین استجابوا لربھم : واجب الاجتناب چیزوں کے بعد ان اوصاف کا ذکر فرمایا جن سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔ وہ چار ہیں، جن پر عمل اتحاد امت کا اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا ضامن ہے۔ اجابت اور اسجابت دونوں کا معنی ” قبول کرنا “ ہے۔ مگر استجابت میں حروف زائد ہونے کی وجہ سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوگیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کا رب انھیں جس کام کے لئے بلاتا ہے وہ فوراً اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، نہ دیر کرتے ہیں نہ ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ ان کے رب کا ان سے تقاضا بھی یہی ہے۔ دیکھیے سورة انفال (٢٤) ۔ (٢) واقاموا الصلوۃ : ان چار اوصاف میں سے سبسے پہلے نماز قائم کرنے کا ذکر فرمایا، کیونکہ اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے پہلا اور سب سے اہم فریضہ یہی نماز قائم کرنا ہے جو سب کے سامنے مسلم و کافر کے درمیان خط امتیاز کھینچ دیتا ہے۔ دیکھیے سورة توبہ (٥، ١١) (٣) وامرھم شوریٰ بینھم :” شار یشور شوراً “ (ن) ” واشتار العسل “ چھتے سے شہد نکالنا۔ مشورے کو مشورہ اور شوریٰ اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ بہت سے لوگوں کی رائے حاصل کرنے کا نام ہے۔ یہ دوسرا وصف ہے۔ وہ کام جن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واضح احکام موجود ہیں ان میں مشورے کی ضرورت ہے نہ اجازت کی، ان میں استجابت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ ان کے علاوہ مسلمانوں کے ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ تمام لوگوں کی بہتر سے بہتر رائے سے آگاہ ہو کر بہترین بات تک پہنچ جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی شخص اپنے آپ کو عقل کل نہیں سمجھتا کہ اپنی رائے کو حرف آخر قرار دے کر اس پر اصرار کرے اور فرعون کی طرح کہے : ماریکم الا ما اری وما اھدیکم الا سبیل الرشاد) (المومن : ٢٩) ” میں تو تمہیں وہی رائے دے رہا ہوں جو خود رائے رکھتا ہوں اور میں تمہیں بھلائی کا راستہ ہی بتارہا ہوں۔ “ کیونکہ یہ رویہ کوئی متکبر شخص ہی اختیار کرتا ہے جو دوسروں کو اور ان کی رائے کو کوئی وزن نہ دے، مومن کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(تلک الدار الاخرۃ نجعلھا للذین لایریدون علوا فی الارض ولا فساداً ) (القصص : ٨٣)” یہ آخری گھر، ہم اسے ان لوگوں کے لئے بناتے ہیں جو نہ زمین میں کسی طرح اونچا ہونے کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ کسی فساد کا۔ “ مومن ہمیشہ خئاف رہتا ہے کہ اس سے فہم کی غلطی ہوجائے یا لاعلمی کی وجہ سے یا شیطان یا نفسکے دخل سے غلط فیصلہ کر بیٹھے، اس لئے وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے مشورہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اپنے صحابہ سے مشورے کا حکم دیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ ان امور میں صحابہ کرام (رض) سے مشورہ کیا جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صریح حکم نہیں تھا۔ (٤) آج کل بہت سے لوگ ” شوریٰ “ سے مراد جمہویرت اور ووٹ لیتے ہیں، حالانکہ مشورہ تو خلیفہ بھی کرتا ہے، بادشاہ بھی، جیسے ملکہ سبا نے کیا اور چھوٹے سے چھوٹے کنبے کا سربراہ بھی، کیونکہ اس کے بغیر کوئی کام درست طریقے سے چل ہی نہیں سکتا۔ اگر نہ کرنا چاہے تو جمہوری وزیر اعظم بھی مشورے کے بجائے اپنی پارٹی کے ارکان کو اپنی استبدادی رائے پر مجبور کرسکتا ہے، جیسا کہ ہم اپنے ملک میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مشورے اور جمہوریت کے فرق کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة آل عمران کی آیت (١٥٩) (وشاورھم فی الامر) کی تفسیر۔ سورة نمل کی آیت (٣٢) کی تفسیر پر بھی نظر ڈال لیں۔ (٥) ومما رزقنھم ینفقون : یہ تیسرا وصف ہے۔ تفصیل کیلئے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (٣) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Fourth virtue: وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَ‌بِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ (and those who have responded to their Lord [ in submission to Him ] and have established Salah - 38,). ` Responding to the Lord& means to accept Allah&s orders immediately, without questioning them, and get ready to obey them, irrespective of whether the order is or is not according to one&s liking. This includes carrying out all the obligatory duties and avoiding all the things considered unlawful and undesirable in Islam. But salah being the most important of all the obligations, and having the quality of enabling discharge of other duties and avoidance of unlawful things, has been mentioned prominently. The fifth virtue: وَأَمْرُ‌هُمْ شُورَ‌ىٰ بَيْنَهُمْ (whose affairs are settled with consultation between them - 38). The sense is that in all important affairs where the Shari&ah is silent, they thy consult each other. ` Affairs& have been qualified by us with the word ` important&, because the word &Amr& used in the text signifies importance in common usage. It has been clarified in the explanation of the verse (وَشَاوِرْ‌هُمْ فِي الْأَمْرِ‌) And consult them in the matter - 3:159) of surah ` Al-&Imran that important affairs include affairs of the state as well as important affairs in general. Ibn Kathir has stated that consultation in the important affairs of the state is compulsory. The selection of the head of the state through consultation, ordained by Islam, brought to an end the autocratic rule of kings of the days of ignorance who used to take the state as an inherited estate. As such, Islam laid the foundation of real democracy by ending autocracy. But Islam, unlike western democracies, has not given total authority to the public. There are certain restrictions on the members of the advisory body. So the system of government in Islam is a very moderate one, quite apart from autocracy and western democracy. Please see details in the second volume of Ma&arif ul Qur&an from page 227 to 238. Imam Jassas has stated in Ahkam-ul-Qur&an that this verse has made the importance of consultation evident, and we are under orders to consult wise and far sighted people for taking action in important matters requiring advice, and not to act hurriedly relying only on ourselves. Importance of consultation and its process Khatib Baghdadi has narrated the following statement of Sayyidna Ali (رض) asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that if, after you we face a situation about which neither the Qur&an has any specific ruling, nor have you given any direction, how should we proceed&?|" The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) replied by saying, اجمعوالہ العابدین من اُمّتی واجعلوہ بینکم شورٰی ولا تقضوا برأی واحد |"In such a case, assemble abidin (the worshipping people) of my ummah, and decide the matter by mutual consultation; do not take decision on any individual&s single opinion.|" (Ruh-ul-Ma’ ani, referring to Khatib) In some versions of this narration, the word &fuqaha& (jurists) also appears alongwith abidin (the worshipping people) which means that the jurists who have understanding of the religion and worshipers are the ones who should be consulted. The author of Ruh-ul-Ma’ ani has stated that if the above process is not followed in consultation, rather irreligious people and people without proper knowledge of religion are consulted, the ill effects would prevail upon the good in their advice. Baihaqi (رح) has narrated in Shu` ab-ul-&Iman from Sayyidna Ibn Umar (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said, |"Anyone who intends to do something, and he takes that action after consultation, Allah Ta’ ala would guide him towards the best possible option.|" It means that He will turn that person&s direction towards an option that results in his betterment. A similar hadith reported by Sayyidna Hasan (رض) has been reproduced by Bukhari in Al-Adab-ul-Mufrad, and by ` Abd Ibn Humaid in his Musnad that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، after reciting-the above verse, said: ما تشاور قوم قط الا ھدوا لأرشد أمرھم |"When a nation takes an action after mutual consultation, it is surely guided towards the correct course.|" As reported in a hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"So far as your rulers are the best among you, your rich people are generous (enough to spend in the way of Allah and on poor people) and your affairs are decided through mutual consultation, then the back of the earth would be better for you than its belly (i.e. the life would be better than death) but when your rulers are the worst from among you, your rich people are misers and your affairs are given in the charge of women, then the belly of the earth will be better for you than its back (i.e. death will be better than life). (Ruh-ul-Ma’ ani) Sixth virtue:- مِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (who spend out of what We have given to them - 38) It refers to spending for virtuous deeds, such as zakah, obligatory and optional alms. Qur&an usually mentions zakah and sadaqat (alms) immediately after salah. But the mention of mutual consultation immediately after salah and the mention of Zakah after it is perhaps to attract attention to the possibility of utilizing the five times daily salah congregation in mosques for the purpose of consultation also in matters which require mutual consultation. (Ruh-ul-Ma&ani)

چوتھی صفت : وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۠۔ استجابت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم ملے اس کو فوراً بےچون و چرا اور بےتامل قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوجائے وہ اپنی طبیعت کے مطابق ہو یا مخالف، ہر حال میں اس کی تعمیل کرے۔ اس میں اسلام کے تمام فرائض کی ادائیگی اور تمام محرمات و مکروہات سے بچنے کی پابندی شامل ہے مگر فرائض میں چونکہ نماز سب سے اہم فرض ہے۔ اور اس میں یہ خاصہ بھی ہے کہ اس پر عمل کرنے سے دوسرے فرائض کی پابندی اور ممنوع چیزوں سے بچنے کی توفیق بھی ہوجاتی ہے اس لئے اس کو ممتاز کر کے فرما دیا، واقاموا الصلوٰة یعنی یہ لوگ نماز کو اس کے تمام واجبات اور آداب کے ساتھ صحیح صحیح ادا کرتے ہیں۔ پانچویں صفت : وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ ۠۔ یعنی ان کے کام آپس میں مشورہ سے طے ہوتے ہیں۔ شوریٰ بروزن بشریٰ مصدر ہے۔ تقدیر عبارت ذو شوریٰ ہے۔ مراد یہ ہے کہ مہمات امور جن میں شریعت نے کوئی خاص حکم متعین نہیں کردیا ہے ان کو طے کرنے میں یہ باہمی مشورہ سے کام لیتے ہیں۔ مہمات امور کی قید خود لفظ امر سے مستفادہ ہے۔ کیونکہ عرف میں امر ایسے ہی کاموں کے لئے بولا جاتا ہے جن کی اہمیت ہو۔ جیسا کہ سورة آل عمران کی (آیت) وشاور ھم فی الامر کے تحت تفصیل گزر چکی ہے اس میں یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ مہمان امور میں امور مملکت و حکومت بھی داخل ہیں اور عام معاملات مہمہ بھی۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ مہمات مملکت میں مشورہ لینا واجب ہے۔ اسلام میں امیر کا انتخاب بھی مشورہ پر موقوف کر کے زمانہ جاہلیت کی شخصی بادشاہتوں کو ختم کیا ہے۔ جنہیں ریاست بطور وراثت کے ملتی تھی۔ اسلام نے سب سے پہلے اس کو ختم کر کے حقیقی جمہوریت کی بنیاد ڈالی مگر مغربی جمہوریت کی طرح عوام کو ہر طرح کے اختیارات نہیں رہتے، اہل شوریٰ پر کچھ پابندیاں عائد فرمائی ہیں۔ اس طرح اسلام کا نظام حکومت شخصی بادشاہت اور مغربی جمہوریت دونوں سے الگ ایک نہایت معتدل دستور ہے۔ اس کی تفصیل معارف القرآن جلد دوم ٥١٢ سے ص ٢٢٢ تک میں ملاحظہ فرماویں۔ امام جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس آیت سے مشورہ کی اہمیت واضح ہوگئی اور یہ کہ ہم اس پر مامور ہیں کہ ایسے مشورہ طلب اہم کاموں میں جلد بازی اور خودرائی سے کام نہ کریں۔ اہل عقل و بصیرت سے مشورہ لے کر قدم اٹھائیں۔ مشورہ کی اہمیت اور اس کا طریقہ : خطیب بغدادی نے حضرت علی مرتضیٰ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ کے بعد اگر ہمیں کوئی ایسا معاملہ پیش آئے، جس میں قرآن نے کوئی فیصلہ نہیں کیا اور آپ سے بھی اس کا کوئی حکم ہمیں نہیں ملا تو ہم کیسے عمل کریں۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اس کے لے میری امت کے عبادت گزاروں کو جمع کرلو اور آپس میں مشورہ کر کے طے کرلو۔ کسی کی تنہا رائے سے فیصلہ نہ کرو۔ اس روایت کے بعض الفاظ میں فقہاء و عابدین کا لفظ آیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ مشورہ ان لوگوں سے لینا چاہئے جو فقہاء یعنی دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور عبادت گزار ہوں۔ صاحب روح المعانی نے فرمایا کہ جو مشورہ اس طریق پر نہیں بلکہ بےعلم بےدین لوگوں میں دائر ہو اس کا فساد اس کی اصلاح پر غالب رہے گا۔ بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی کام کا ارادہ کیا اور اس میں مشورہ لے کر عمل کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ارشد امور کی طرف ہدایت فرما دے گا۔ یعنی اس کا رخ اس طرف پھیر دے گا جو اس کے لئے انجام کار خیر اور بہتر ہو۔ اسی طرح کی ایک حدیث بخاری نے الادب المفرد میں اور عبد بن حمید نے مسند میں حضرت حسن سے بھی نقل کی ہے۔ جس میں آپ نے آیت مذکورہ پڑھ کر یہ فرمایا ہے۔ ماتشاور قوم قط الاھدوا لارشد امرھم۔ جب کوئی قوم مشورہ سے کام کرتی ہے تو ضرور ان کو صحیح راستہ کی طرف ہدایت کردی جاتی ہے۔ حدیث : ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تک تمہارے امراء اور حکام وہ لوگ ہوں جو تم میں بہتر ہیں اور تمہارے مالدار لوگ سخی ہوں (کہ اللہ کی راہ میں اور غرباء پر خرچ کریں) اور تمہارے کام باہمی مشورہ سے طے ہوا کریں۔ اس وقت تک تمہارے لئے زمین کے اوپر رہنا یعنی زندہ رہنا بہتر ہے اور جب تمہارے امراء و حکام تمہاری قوم کے برے لوگ ہوجاویں اور تمہارے مالدار بخیل ہوجاویں اور تمہارے کام عورتوں کے سپرد ہوجاویں کہ وہ جس طرح چاہیں کریں۔ اس وقت تمہارے لئے زمین کی پیٹھ کی بجائے زمین کا پیٹ بہتر ہوگا یعنی زندگی سے موت بہتر ہوگی۔ (روح المعانی) چھٹی صفت : (آیت) وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ : یعنی وہ لوگ اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے نیک کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔ جس میں زکوٰة، فرض اور نفلی صدقات سب شامل ہیں۔ عام اسلوب قرآن کے مطابق زکوٰة و صدقات کا ذکر نماز کے متصل آنا چاہئے تھا، یہاں نماز کے ذکر کے بعد مشورہ کا مسئلہ پہلے بیان کر کے پھر زکوٰة کا بیان آیا۔ اس میں شاید اس طرف اشارہ ہو کہ اقامت نماز کے لئے مساجد میں پانچ وقت اجتماع ہوتا ہے۔ اس اجتماع سے مشورہ طلب امور میں مشورہ لینے کا کام بھی لیا جاسکتا ہے۔ (روح المعانی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ۝ ٠ ۠ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ۝ ٠ ۠ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝ ٣٨ ۚ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة/ 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] . ( ج و ب ) الجوب الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔ اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء/ 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء/ 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم/ 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة/ 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان/ 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر/ 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت/ 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة/ 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب/ 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ [هود/ 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان/ 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین/ 4] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء/ 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم/ 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی / مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة/ 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان/ 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر/ 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب/ 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود/ 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان/ 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین/ 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے والشُّورَى : الأمر الذي يُتَشَاوَرُ فيه . قال : وَأَمْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ [ الشوری/ 38] . بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

باہمی مشاورت کی اہمیت قول باری ہے (والذین استجابوالربھم واقاموا الصلوٰۃ وامرھم شوریٰ بینھم۔ اور جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا حکم مانا اور نماز کی پابندی کی اور ان کا (یہ اہم) کام باہمی مشورہ سے ہوتا ہے) یہ قول باری باہمی مشورہ کی عظمت اور اس کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ ایمان اور اقامت کے ساتھ اس کا ذکر ہوا ہے ۔ یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ہم باہمی مشورہ پر مامور ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جو لوگ توحید و اطاعت کی تعمیل میں اپنے رب کا کہنا مانتے ہیں اور پانچوں نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور جب کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو باہم مشورہ کر کے پھر اس پر عمل کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو مال دیا ہے اس میں سے صدقہ و خیرات کرتے رہتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ { وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ } ” اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب کی پکار پر لبیک کہا اور نماز قائم کی۔ “ یہ کون سی پکار ہے ؟ اس حوالے سے یہ اہم نکتہ ذہن میں رکھئے کہ اس سورت میں اب تک جمع کے صیغے میں فعل امر ایک ہی مرتبہ آیا ہے ‘ یعنی { اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ } اور جمع کے صیغے میں اب تک ایک ہی مرتبہ فعل نہی آیا ہے ‘ یعنی { وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ }۔ چناچہ یہی وہ پکار یا حکم ہے جس کی استجابت کا ذکر یہاں ہوا ہے ‘ یعنی : { اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِط } (آیت ١٣) ” دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو “۔ اور اسی کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیت ١٥ میں مخاطب کر کے فرمایا گیا تھا : { فَلِذٰلِکَ فَادْعُج وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَج وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ ہُمْج } کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا عمود اور مرکزی پیغام اقامت دین ہے ‘ اسی کی طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو بلانا ہے ‘ اسی کی ضرورت اور اہمیت کو ان کے اذہان میں نقش (hammer) کرنا ہے۔ یہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشن ہے اور یہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا اصل ہدف۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اسی مشن اور اسی موقف پر ڈٹے رہیے اور مخالفین کی مخالفت کی بالکل پروا نہ کیجیے۔ بلاشبہ یہ مشن بہت عظیم ہے اور اسی نسبت سے اس کی جدوجہد کے لیے خصوصی سیرت و کردار کے حامل مردانِ کار درکار ہیں۔ چناچہ آیات زیر مطالعہ میں ان اوصاف کا تذکرہ ہے جو اس مشن کے علمبرداروں کی شخصیات کے لیے ناگزیر ہیں۔ نماز کی پابندی کے بعد اگلا وصف بیان ہوا : { وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ } ” اور ان کا کام آپس میں مشورے سے ہوتا ہے۔ “ ظاہر ہے اقامت دین کی جدوجہد کے لیے اجتماعیت درکار ہے اور اجتماعی زندگی میں فیصلے کرنے اور مختلف امور نپٹانے کے لیے باہمی مشاورت بہت ضروری ہے۔ لیکن کسی اجتماعیت کے اندر اگر موثر مشاورتی نظام موجود نہیں ہوگا اور کوئی ایک فرد دوسروں پر اپنی مرضی ٹھونسنے کا طرز عمل اپنانے کی کوشش کرے گا تو اس سے نہ صرف اجتماعی جدوجہد کو نقصان پہنچے گا بلکہ خود اس اجتماعیت کا وجود ہی خطرے میں پڑجائے گا۔ جماعتی زندگی میں مشاورت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ غزوہ احد میں جن صحابہ (رض) سے درّہ چھوڑنے کی غلطی سرزد ہوئی ان کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا : { فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِج } (آل عمران : ١٥٩) کہ نہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں معاف کردیں اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں بلکہ انہیں مشورے میں بھی شامل رکھیں۔ مشاورت کے عمل سے اجتماعیت کو تقویت ملتی ہے۔ اس سے ساتھیوں کے مابین مشترکہ سوچ اور باہمی اعتماد پیدا ہوتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو جماعت کے اندر اپنی موجودگی کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے کہ اس کی بات سنی جاتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی صحابہ (رض) سے مشورے کو بہت اہمیت دیتے تھے ‘ بلکہ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی رائے پر صحابہ (رض) کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے فیصلہ صادر فرمایا۔ مثلاً غزوئہ بدر کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لشکر کے کیمپ کے لیے ایک جگہ کا انتخاب فرمایا۔ مگر جب کیمپ لگ چکا تو کچھ صحابہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے کر رائے دی کہ بعض وجوہات کی بنا پر دوسری جگہ کیمپ کے لیے زیادہ موزوں تھی۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کیمپ اکھاڑ کر صحابہ (رض) کی مجوزہ جگہ پر لگا نے کا حکم دے دیا۔ بہر حال اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف جماعت کے نظم و نسق کا تقاضا ہے کہ اس جماعت میں مشاورت کا خصوصی اہتمام رکھا جائے۔ { وَمِمَّا رَزَقْنٰـہُمْ یُنْفِقُوْنَ } ” اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ “ دعوت و اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف لوگوں کو جہاں اپنے وقت اور اپنی جانوں کی قربانی دینا پڑے گی ‘ وہاں اس راستے میں انہیں اپنا مال بھی خرچ کرنا پڑے گا۔ چناچہ متعلقہ لوگوں کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ بھی گنوا دیا گیا کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے ” انفاق “ بھی کرتے ہیں۔ قرآن کو غور سے پڑھنے والا شخص جانتا ہے کہ اس کے بہت سے مضامین ایک جیسے الفاظ کے ساتھ دہرا دہرا کر بیان ہوئے ہیں۔ خاص طور پر مکی سورتوں میں ملتی جلتی آیات مختلف اسالیب کے ساتھ بار بار آئی ہیں۔ اسی لیے قرآن کو کِتٰـباً مُتَشَابِھًا (الزمر : ٢٣) کا نام بھی دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر سورت کا ایک خاص مرکزی مضمون یا عمود بھی ہے جسے مضامین کے تنوع اور تکرار میں سے تلاش کرنے کے لیے غور و فکر اور تدبر کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سورة الشوریٰ پر اگر اس پہلو سے غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس سورت میں اگرچہ دوسری مکی سورتوں کے تمام مضامین بھی وارد ہوئے ہیں ‘ لیکن اس کا مرکزی مضمون یا عمود ” اقامت دین “ ہے۔ اور اس مضمون کے اعتبار سے اس سورت کی زیر مطالعہ آیات پورے قرآن میں منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ ان آیات کی اس اہمیت کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون سے متعلق جن نکات کا ہم اب تک مطالعہ کرچکے ہیں انہیں ایک مرتبہ پھر سے ذہن میں تازہ کرلیا جائے۔ چناچہ اعادہ کے لیے ایک دفعہ پھر آیت ١٠ کی طرف رجوع کریں جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تصور ان الفاظ میں واضح کیا گیا ہے : { وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗٓ اِلَی اللّٰہِط } یعنی تمہارے باہمی اختلافات میں حکم دینے کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے۔ یہ وہی بات ہے جو اس سے پہلے ہم سورة یوسف میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے جیل کے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا : { اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِط اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلآَّ اِیَّاہُط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ } (آیت ٤٠) یعنی حاکمیت کا اختیار صرف اور صرف اللہ کے پاس ہے ‘ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ‘ یہی دین قیم ہے۔ اس کے بعد آیت ١٣ سے لے کر آیت ٢١ تک ٩ آیات میں اقامت دین کا مضمون بہت جامع انداز میں بیان ہوا ہے۔ لیکن ان میں سے بھی پہلی تین آیات اپنی جامعیت کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ آیت ١٣ میں فرمایا گیا : { اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِط } کہ دین کو قائم کرو اور اس معاملے میں اختلاف میں نہ پڑو۔ یعنی جزئیات اور فروعات میں اختلاف کا ہونا اور بات ہے ‘ لیکن دین کی اصل وحدت اور دین کے غلبہ کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں تفرقہ بازی نہیں ہونی چاہیے۔ پھر اس کے بعد آیت ١٥ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے یہ حکم اس حوالے سے بہت اہم ہے : { وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَج وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ ہُمْج } کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے حکم کے مطابق اپنے موقف پر ڈٹے رہیے اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے۔ پھر اسی آیت کے یہ الفاظ تو گویا اس مضمون کی شہ سرخی کا درجہ رکھتے ہیں : { وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْط } کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان کردیجیے کہ میں تم لوگوں کے درمیان عدل قائم کرنے کے لیے آیا ہوں۔ میں تم لوگوں کو صرف نصیحتیں کرنے اور وعظ سنانے کے لیے نہیں آیا بلکہ معاشرے میں اجتماعی طور پر عدل و انصاف کا نظام قائم کرنا میرا فرضِ منصبی ہے۔ پھر اس سلسلے کی آخری بات آیت ٢١ میں یوں فرمائی گئی : { اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ } کہ کیا ان کے شریکوں میں بھی کوئی ایسا ہے جس نے ان کو دین عطا کیا ہے اور ان کے لیے کوئی جامع نظام اور کوئی ضابطہ حیات وضع کیا ہے ؟ یعنی وہ ذات تو صرف اللہ ہی کی ہے جس نے اپنے بندوں کو دین حق عطا کیا ہے جو ان کے لیے مکمل اور کامل ضابطہ حیات ہے۔ [ سورة المائدۃ کی آیت ٣ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی کاملیت کی سند ان الفاظ میں عطا فرمائی ہے : { اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًاط } ] پھر آیت ٣٦ سے آیت ٤٣ تک آٹھ آیات میں وہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں جو اقامت دین کی جدوجہد کے علمبرداروں کو اپنی شخصیات میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں بھی پہلی تین آیات بہت جامع اور اہم ہیں۔ ان تین آیت میں جن اہم نکات کا ابھی ہم نے مطالعہ کیا ہے ان میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اور اس کے مقابلے میں دنیا ومافیہا کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں ہے۔ چناچہ غلبہ دین کی جدوجہد کے لیے نکلنے والے ہر شخص کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ دنیا کے لیے اس کی محنت صرف بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کی حد تک محدود رہے گی ‘ جبکہ اس کا اصل مقصود و مطلوب آخرت کی زندگی اور اس زندگی کی کامیابی ہے۔ ثانیاً اس جدوجہد میں توکل صرف اور صرف اللہ کی ذات پر ہوگا۔ مادی وسائل ‘ اپنی ذہانت ‘ طاقت اور صلاحیت پر تکیہ نہیں کیا جائے گا۔ ثالثاً تقویٰ ‘ تزکیہ نفس اور اصلاحِ کردار کی طرف خصوصی توجہ دی جائے گی۔ اس کے لیے کبائر اور فواحش سے کنارہ کشی اختیار کرنی ہوگی اور غصہ سمیت تمام باطنی خبائث سے بھی اپنے سینوں کو پاک کرنا ہوگا۔ پھر جو لوگ اللہ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اقامت دین کی جدوجہد پر کمربستہ ہوجائیں ‘ انہیں اللہ تعالیٰ سے قلبی رشتہ جوڑنے اور یہ رشتہ قائم رکھنے کے لیے نماز کا التزام کرنا ہوگا۔ ان کے تمام فیصلے باہمی مشاورت سے طے ہوں گے اور اس جدوجہد میں ان کو اپنا وقت ‘ اپنا مال ‘ اپنی صلاحیتیں غرض اپنا وہ سب کچھ کھپا دینے کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہوگا جو اللہ نے انہیں دیا ہے ۔ زیر مطالعہ سورتوں میں انسانی سیرت و کردار سے متعلق جو ہدایات آئی ہیں ان کے بارے میں یہ نکتہ بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ صحابہ (رض) کے کردار کے وہ تمام پہلو جو مدنی دور میں نمایاں ہوئے ان کی تمہید مکی دور میں ہی اٹھائی گئی تھی اور مدینہ پہنچے سے پہلے ہی ان ہدایات و احکام کے ذریعے ان لوگوں کو عملی میدان کے لیے ذہنی طور پر تیار کرلیا گیا تھا۔ اب اگلی پانچ آیات میں مردانِ حق کے جس وصف کا ذکر خصوصی اہتمام سے کیا جا رہا ہے وہ ” بدلہ “ لینے کی حکمت عملی ہے۔ یہ حکمت عملی بظاہر سورة حٰمٓ السجدۃ کے اس حکم سے متضاد نظر آتی ہے جس میں لوگوں کی زیادتیوں کو برداشت کرنے اور عفو و درگزر سے کام لینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس ظاہری تضاد یا حکمت عملی کی تبدیلی کے فلسفے کو یوں سمجھیں کہ سورة حٰمٓ السجدۃ کا مرکزی مضمون ” دعوت “ ہے جبکہ سورة الشوریٰ کا مرکزی مضمون ” اقامت دین “ ہے۔ دعوت کے لیے تو ظاہر ہے خوشامد بھی کرنا پڑتی ہے ‘ لوگوں کے دروازوں پر بھی جانا پڑتا ہے اور ان کی جلی کٹی باتیں بھی سننا پڑتی ہیں۔ اس لیے سورة حٰمٓ السجدۃ میں لوگوں کی زیادتیوں کو برداشت کرنے اور گالیاں سن کر دعائیں دینے کا سبق دیا گیا ہے۔ لیکن زیر مطالعہ سورت میں اقامت دین اور عملی جدوجہد (active resistance) کے تناظر میں سختی کا جواب سختی سے دینے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ سورة حٰمٓ السجدۃ میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں دعوت کا مرحلہ کامیابی سے طے کرنے کے بعد غلبہ ٔ دین کی تحریک مسلح تصادم (armed conflict) کے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ یہ مرحلہ تیغ بکف ‘ سر پر کفن باندھ کر میدان میں اترنے اور جان ہتھیلی پر رکھ کر باطل کو للکارنے کا مرحلہ ہے۔ چناچہ اب صورت حال کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ حکمت عملی بھی بدل رہی ہے اور شمع توحید کے پروانوں کو ممکنہ حالات کے پیش نظر نئی ہدایات دی جا رہی ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

60. Literally: “Who answer the call of their Lord”, that is they hasten to do whatever Allah enjoins them to do, and accept whatever Allah invites them to accept. 61. This thing has been counted here as the best quality of the believers and has been enjoined in( Surah Aal-Imran, Ayat 159). On this basis, consultation is an important pillar of the Islamic way of life, and to conduct the affairs of collective life without consultation is not only the way of ignorance but also an express violation of the law prescribed by Allah. When we consider why consultation has been given such importance in Islam, three things become obvious: First, that it is injustice that a person should decide a matter by his personal opinion and ignore others when it involves the interests of two or more persons. No one has a right to do, as he likes in matters of common interest. Justice demands that all those whose interests are involved in a matter be consulted, and if it concerns a large number of the people, their reliable representatives should be made a party in consultation. Second, that a man tries to do what he likes in matters of common interest either because he wants to usurp the rights of others for selfish ends, or because he looks down upon others and regards himself as a superior person. Morally both these qualities are equally detestable, and a believer cannot have even a tinge of either of these in himself. A believer is neither selfish so that he should get undue benefits by usurping the rights of others, nor he is arrogant and self-conceited that he should regard himself as all-wise and all-knowing. Third, that it is a grave responsibility to give decisions in matters that involve the rights and interests of others. No one who fears God and knows what severe accountability for it he will be subjected to by his Lord, can dare take the heavy burden of it solely on himself. Such a boldness is shown only by those who arc fearless of God and heedless of the Hereafter. The one who fears God and has the feeling of the accountability of the Hereafter, will certainly try that in a matter of common interest he should consult all the concerned people or their authorized representatives so as to reach, as far as possible, an objective and right and equitable decision, and if there occurs a mistake one man alone should not be held responsible for it. A deep consideration of these three things can enable one to fully understand that consultation is a necessary demand of the morality that Islam has taught to man, and departure from it is a grave immorality which Islam does not permit. The Islamic way of life requires that the principle of consultation should be used in every collective affair, big or small. If it is a domestic affair, the husband and the wife should act by mutual consultation, and when the children have grown up, they should also be consulted. If it is a matter concerning the whole family, the opinion of every adult member should be solicited. If it concerns a tribe or a fraternity or the population of a city, and it is not possible to consult all the people, the decision should be taken by a local council or committee, which should comprise the trustworthy representatives of the concerned people according to an agreed method. If the matter concerns a whole nation, the head of government should be appointed by the common consent of the people, and he should conduct the national affairs in consultation with the leaders of opinion whom the people regard as reliable, and he should remain at the helm of affair only as long as the people themselves want him to remain in that position. No honest man can try to assume the headship of a nation by force, or desire to continue in that position indefinitely, nor can think of coming into power by deception and then seek the people’s consent by coercion, nor can he devise schemes so that the people may elect representatives to act as his advisers not by their own free choice but according to his will. Such a thing can be desired only by the one who cherishes evil intentions, and such a fraud against the Islamic principle of consultation can be practiced only by him who does not feel any hesitation in deceiving both God and the people whereas the fact is that neither can God be deceived nor the people be so blind as to regard the robber, who is committing robbery in the bright day light openly, as their well wisher and servant. The principle of consultation as enshrined in amru-hum shura baina-hum by itself demands five things: (1) The people whose rights and interests relate to collective matters, should have full freedom to express their opinion and they should be kept duly informed of how their affairs are being conducted. They should also have the full right that if in the conduct of the affairs they see an error, a weakness or a deficiency, they can check it and voice a protest, and if they do not see any change for the better, they can change their rulers. To conduct the people’s affairs by keeping them silent and un-informed is sheer dishonesty which no one can regard as adherence to the principle of consultation in Islam. (2) The person who is to be entrusted with the responsibility of conducting the collective affairs, should be appointed by the people’s consent, and this consent should be their free consent, which is not obtained through coercion, temptation, deception, and fraud, because in that case it would be no consent at all. A nation’s true head is not he who becomes its head by trying every possible method, but he whom the people make their head by their own free choice and approval. (3) The people who are appointed as advisers to the head of the state should be such as enjoy the confidence of the nation, and obviously the people who win representative positions by suppression or by expending wealth, or by practicing falsehood and fraud, or by misleading the people cannot be regarded as enjoying the confidence in the real sense. (4) The advisers should give opinion according to their knowledge and faith and conscience and they should have full freedom of such expression of opinion. Wherever this is not the case, wherever the advisers give advice against their own knowledge and conscience, under duress or temptation, or under party discipline, it will be treachery and dishonesty and not adherence to the Islamic principle of consultation. (5) The advice that is given by a consensus of the advisers, or which has the support of the majority of the people, should be accepted, for if a person (or a group of persons) behaves independently and acts on his own whims, even after hearing the advice of others, consultation becomes meaningless. Allah does not say: They are consulted in their affairs, but says: They conduct their affairs by mutual consultations. This instruction is not implemented by mere consultation, but for its sake it is necessary that the affairs be conducted according to what is settled by consensus or by majority opinion in consultation. Along with this explanation of the Islamic principle of consultation, this basic thing also should be kept in view that this consultation is not independent and autocratic in conducting the affairs of the Muslims, but necessarily subject to the bounds that Allah Himself has set by His legislation, and is subject to the fundamental principle: It is for Allah to give a decision in whatever you may differ, and if there arises any dispute among you about anything, refer it to Allah and the Messenger. According to this general principle, the Muslims can hold consultations in Shariah matters with a view to determining the correct meaning of a text or verse and to find out the ways of implementing it so as to fulfill its requirements rightly but they cannot hold consultations in order to give an independent judgment in a matter which has already been decided and settled by Allah and His Messenger. 62. It has three meanings: (1) They spend only out of what lawful provisions We have given them, they do not touch unlawful things for supplementing their expenditure. (2) They do not set aside the provisions granted by us, but spend them. (3) They spend out of what they have been given in the cause of Allah also, they do not reserve everything for personal use only. The first meaning is based on this that Allah calls the lawful and pure provisions only as the provisions granted by Him. He does not call the provisions earned in impure and unlawful ways His provisions. The second meaning is based on that whatever Allah provides for man is provided so that he may spend it and not that he may set it aside and hoard it up like a miser. The third meaning is based on that according to the Quran, spending does not mean spending merely on his own self and for his personal needs, but it also contains the meaning of spending for the sake of Allah in His way. On account of these three reasons Allah here is counting spending of wealth among the best qualities of the believers because of which the blessings of the Hereafter have been reserved only for them.

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :60 لفظی ترجمہ ہو گا اپنے رب کی پکار پر لبیک کہتے ہیں یعنی جس کام کے لیے بھی اللہ بلاتا ہے اس کے لیے دوڑ پڑتے ہیں ، اور جس چیز کی بھی اللہ دعوت دیتا ہے اسے قبول کرتے ہیں ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :61 اس چیز کو یہاں اہل ایمان کی بہترین صفات میں شمار کیا گیا ہے ، اور سورہ آل عمران ( آیت 159 ) میں اس کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس بنا پر مشاورت اسلامی طرز زندگی کا ایک اہم ستون ہے ، اور مشورے کے بغیر اجتماعی کام چلانا نہ صرف جاہلیت کا طریقہ ہے بلکہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے ضابطے کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ مشاورت کو اسلام میں یہ اہمیت کیوں دی گئی ہے؟ اس کے وجوہ پر اگر غور کیا جائے تو تین باتیں واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں ۔ ایک یہ کہ جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو ، اس میں کسی ایک شخص کا اپنی رائے سے فیصلہ کر ڈالنا اور دوسرے متعلق اشخاص کو نظر انداز کرینا زیادتی ہے ۔ مشترک معاملات میں کسی کو اپنی من مانی چلانے کا حق نہیں ہے ۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ایک معاملہ جتنے لوگوں کے مفاد سے تعلق رکھتا ہو اس میں ان سب کی رائے لی جائے ، اور اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمد علیہ نمائندوں کو شریک مشورہ کیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ انسان مشترک معاملات میں اپنی من مانی چلانے کی کوشش یا تو اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اغراض کے لیے دوسروں کا حق مارنا چاہتا ہے ، یا پھر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے ۔ اخلاقی حیثیت سے یہ دونوں صفات یکساں قبیح ہیں ، اور مومن کے اندر ان میں سے کسی صفت کا شائبہ بھی نہیں پایا جا سکتا ۔ مومن نہ خود غرض ہوتا ہے کہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کر کے خود ناجائز فائدہ اٹھانا چاہے ، اور نہ وہ متکبر اور خود پسند ہوتا ہے کہ اپنے آپ ہی کو عقل کل اور علیم و خبیر سمجھے ۔ تیسرے یہ کہ جن معاملات کا تعلق دوسروں کے حقوق اور مفاد سے ہو ان میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔ کوئی شخص جو خدا سے ڈرتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ اس کی کتنی سخت جواب دہی اسے اپنے رب کے سامنے کرنی پڑے گی ، کبھی اس بھاری بوجھ کو تنہا اپنے سر لینے کی جرأت نہیں کر سکتا ۔ اس طرح کی جرأتیں صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے فکر ہوتے ہیں ۔ خدا ترس اور آخرت کی باز پرس کا احساس رکھنے والا آدمی تو لازماً یہ کوشش کرے گا کہ ایک مشترک معاملہ جن جن سے بھی متعلق ہو ان سب کو ، یا ان کے بھروسے کے نمائندوں کو اس کا فیصلہ کرنے میں شریک مشورہ کرے ، تاکہ زیادہ سے زیادہ صحیح اور بے لاگ اور مبنی بر انصاف فیصلہ کیا جا سکے ، اور اگر نادانستہ کوئی غلطی ہو بھی جائے تو تنہا کسی ایک ہی شخص پر اس کی ذمہ داری نہ آ پڑے ۔ یہ تین وجوہ ایسے ہیں جن پر اگر آدمی غور کرے تو اس کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آ سکتی ہے کہ اسلام جس اخلاق کی انسان کو تعلیم دیتا ہے ، مشورہ اس کا لازمی تقاضا ہے اور اس سے انحراف ایک بہت بڑی بد اخلاقی ہے جس کی اسلام کبھی اجازت نہیں دے سکتا ۔ اسلامی طرز زندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے ۔ گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور بچے جب جوان ہو جائیں تو انہیں بھی شریک مشورہ کیا جائے ۔ خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی رائے لی جائے ۔ ایک قبیلے یا برادری یا بستی کے معاملات ہوں اور سب لوگوں کا شریک مشورہ ہونا ممکن نہ ہو ، ان کا فیصلہ کوئی ایسی پنچایت یا مجلس کرے جس میں کسی متفق علیہ طریقے کے مطابق تمام متعلق لوگوں کے معتمد علیہ نمائندے شریک ہوں ۔ ایک پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کے چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے ، اور وہ قومی معاملات کو ایسے صاحب رائے لوگوں کے مشورے سے چلائے جن کو قوم قابل اعتماد سمجھتی ہو ، اور وہ اسی وقت تک سربراہ رہے جب تک قوم خود اسے اپنا سربراہ بنائے رکھنا چاہے ۔ کوئی ایماندار آدمی زبردستی قسم کا سربراہ بننے اور بنے رہنے کی خواہش یا کوشش نہیں کر سکتا ، نہ یہ فریب کاری کر سکتا ہے کہ پہلے بزور قوم کے سر پر مسلط ہو جائے اور پھر جبر کے تحت لوگوں کی رضامندی طلب کرے ، اور نہ اس طرح کی چالیں چل سکتا ہے کہ اس کو مشورہ دینے کے لیے لوگ اپنی آزاد مرضی سے اپنی پسند کے نمائندے نہیں بلکہ وہ نمائندے منتخب کریں جو اس کی مرضی کے مطابق رائے دینے والے ہوں ۔ ایسی ہر خواہش صرف اس نفس میں پیدا ہوتی ہے جو نیت کی خرابی سے لوث ہو ، اور اس خواہش کے ساتھ : اَمْرُھُمْ شُوْریٰ بَینَھُمْ کی ظاہری شکل بنانے اور اس کی حقیقت غائب کر دینے کی کوششیں صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے خدا اور خلق دونوں کو دھوکا دینے میں کوئی باک نہ ہو ، حالانکہ نہ خدا دھوکا کھا سکتا ہے ، اور نہ خلق ہی اتنی اندھی ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص دن کی روشنی میں علانیہ ڈاکہ مار رہا ہو اور وہ سچے دل سے یہ سمجھتی رہے کہ وہ ڈاکہ نہیں مار رہا ہے بلکہ لوگوں کی خدمت کر رہا ہے ۔ اَمْرُھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ کا قاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت کے لحاظ سے پانچ باتوں کا تقاضا کرتا ہے : اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہیں انہیں اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو ، اور وہ اس بات سے پوری طرح باخبر رکھے جائیں کہ انکے معاملات فی الواقع کس طرح چلا ئے جا رہے ہیں ، اور انہیں اس امر کا بھی پورا حق حاصل ہو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں ، احتجاج کر سکیں ، اور اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں ۔ لوگوں کا منہ بند کر کے اور ان کے ہاتھ پاؤں کس کر اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بد دیانتی ہے جسے کوئی شخص بھی : اَمْرُھُمْ شُوریٰ بَینَھُمْ کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا ۔ دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضامندی سے مقرر کیا جائے ، اور یہ رضامندی ان کی آزادانہ رضامندی ہو ۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی ، یا تحریص و اطماع سے خریدی ہوئی ، یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوٹی ہوئی رضامندی درحقیقت رضامندی نہیں ہے ۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا جو ہر ممکن طریقہ سے کوشش کر کے اس کا سربراہ بنے ، بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں ۔ سوم یہ کہ سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ لوگ مقرر کیے جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو ، اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیے جاسکتے جو دباؤ ڈال کر ، یا مال سے خرید کر ، یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر ، یا لوگوں کو گمراہ کر کے نمائندگی کا مقام حاصل کریں ۔ چہارم یہ کو مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیں ، اور اس طرح کے اظہار رائے کی انہیں پوری آزادی حاصل ہو ۔ یہ بات جہاں نہ ہو ، جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر ، یا کسی جتھہ بندی میں کسے ہوئے ہونے کی وجہ سے خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف رائے دیں ، وہاں در حقیقت خیانت اور غداری ہو گی نہ کہ : اَمْرُھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ کی پیروی ۔ پنجم یہ کہ جو مشورہ اہل شوریٰ کے اجماع ( اتفاق رائے ) سے دیا جائے ، یا جسے ان کے جمہور ( اکثریت ) کی تائید حاصل ہو ، اسے تسلیم کیا جائے ۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما رہا ہے کہ ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں ۔ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہوجاتی ، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں ۔ اسلام کے اصول شوریٰ کی اس توضیح کے ساتھ یہ بنیادی بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ شوریٰ مسلمانوں کے معاملات چلانے میں مطلق العنان اور مختار کل نہیں ہے بلکہ لازماً اس دین کے حدود سے محدود ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تشریع سے مقرر فرمایا ہے ، اور اس اصل الاصول کی پابند ہے کہ تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے ، اور تمہارے درمیان جو نزاع بھی ہو اس میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو ۔ اس قاعدہ کلیہ کے لحاظ سے مسلمان شرعی معاملات میں اس امر پر تو مشورہ کر سکتے ہیں کہ کسی نص کا صحیح مفہوم کیا ہے ، اور اس پر عمل در آمد کس طریقہ سے کیا جائے تاکہ اس کا منشا ٹھیک طور سے پورا ہو ، لیکن اس غرض سے کوئی مشورہ نہیں کر سکتے کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول نے کر دیا ہو اس میں وہ خود کوئی آزادانہ فیصلہ کریں ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :62 اس کے تین مطلب ہیں : ایک یہ کہ جو رزق حلال ہم نے انہیں دیا ہے اسی میں سے خرچ کرتے ہیں ، اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مال حرام پر ہاتھ نہیں مارتے ۔ دوسرے یہ کہ ہمارے دیے ہوئے رزق کو سَینت کر نہیں رکھتے بلکہ اسے خرچ کرتے ہیں ۔ تیسرے یہ کہ جو رزق انہیں دیا گیا ہے اس میں سے راہ خدا میں بھی خرچ کرتے ہیں ، سب کچھ اپنی ہی ذات کے لیے وقف نہیں کر دیتے ۔ پہلے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف رزق حلال و طیب ہی کو اپنے دیے ہوئے رزق سے تعبیر فرماتا ہے ۔ ناپاک اور حرام طریقوں سے کمائے ہوئے رزق کو وہ اپنا رزق نہیں کہتا ۔ دوسرے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو رزق انسان کو دیتا ہے وہ خرچ کرنے کے لیے دیتا ہے ، سینت سَینت کر رکھنے اور اس پر مارزر بن کر بیٹھ جانے کے لیے نہیں دیتا ۔ اور تیسرے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ خرچ کرنے سے مراد قرآن مجید میں محض اپنی ذات پر اور اپنی ضروریات پر ہی خرچ کر دینا نہیں ہے ، بلکہ اس کے مفہوم میں انفاق فی سبیل اللہ بھی شامل ہے ۔ انہی تین وجوہ سے اللہ تعالیٰ خرچ کرنے کو یہاں اہل ایمان کی ان بہترین صفات میں شمار فرما رہا ہے جن کی بنا پر آخرت کی بھلائیاں انہی کے لیے مختص کی گئی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:38) والذین استجابوا۔ معطوف ہے الذین پر۔ استجابوا ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ استجاب (استفعال) مصدر۔ جوب مادہ۔ انہوں نے مانا ۔ انہوں نے قبول کیا۔ اور جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں۔ واقاموا الصلوۃ۔ اور نماز قائم کرتے ہیں۔ معطوف ہے الذین امنوا پر۔ وامرھم شوری بینھم : شوری مشورہ کرنا۔ یہ باب مفاعلۃ سے مصدر ہے جیسے بشری و ذکری۔ یہ جملہ بھی معطوف ہے الذین امنوا۔ اور ان کے سارے کام باہمی مشورے سے ہوتے ہیں۔ ومما رزقنھم ینفقون : معطوف علی الذین امنوا۔ مما : من حرف جار اور ما موصولہ سے مرکب ہے۔ اس میں سے جو (رزق ہم نے عطا کیا) ۔ ینفقون مضارع جمع مذکر غائب انفاق (افعال) مصدر۔ وہ خرچ کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی وہ اپنے تمام اجتماعی، سیاسی مسائل آپس کے صلاح و مشورہ سے طے کرتے ہیں اور اس چیز کو اسلامی نظام اجتماعی کی ہم امتیازی خصوصیت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ سورة آل عمران ( آیت 159) میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احکام منصوصہ کے سوا ہر قسم کے مصالح ملکی کے بارے میں صحابہ (رض) سے مشورہ کرتے اور ان کے مشورے قبول فرمایا کرتے تھے اور بعد میں خلافت راشدہ کی بنیاد ہی شوری پر رکھی گئی اور حضرت ابوبکر (رض) کا انتخاب بھی اسی اصل کے تحت ہوا۔ موجود دور کی جمہوریت اور اسلامی شورائی نظام میں اہم بنیادی فرق یہ ہے کہ جدید جمہوریت میں نمائندگان جمہور قانون سازی کے غیر محدود اختیارات رکھتے ہیں، لیکن اسلام میں کتاب و سنت کے نصوص کی موجودگی میں خلیفہ کو مشاورت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جب کسی امر کے متعلق کتاب و سنت کا فیصلہ نہ ملتا ہو تو پھر پیش آمدہ اجتماعی امور میں ” مجلس مشاورت “ مجاز ہے کہ کوئی فیصلہ کرے۔ 7 یعنی فرض زکوٰۃ اور نفلی صدقات ادا کرتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ ہر کام سے مراد ہر مہتم بالشان کام ہے، اس لئے کہ معمولی کاموں میں مشورہ منقول نہیں، جیسے دو وقت کا کھانا کھانا وغیرہ۔ اور نص نہ ہونے کی قید اس لئے کہ منصوصات متعینہ میں بھی مشورہ نہیں، جیسے یہ مشورہ کہ پانچ وقت کی نماز پڑھا کرو یا نہ پڑھا کرو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ کے نیک بندوں کے مزید اوصاف۔ مشاورت کی اہمیت اور اس کی غرض وغایت : قرآن پاک نے مسلمانوں کو مشاورت کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ مسلمان اجتماعی مسائل کو اجتماعی انداز میں حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرز عمل کے بیک وقت کئی فوائد ہیں۔ ایک طرف اہل دانش کی دلجوئی ہے اور دوسری جانب ان کی صلاحیتوں سے اجتماعی فائدہ اٹھانا اور ان کی انفرادی فکر کو اجتماعی سوچ میں ڈھالنا اور باہمی فکرو عمل کا موقع فراہم کرنا ہے۔ یہ ایسا خیرو برکت سے بھرپور عمل ہے جس سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔ حالانکہ آپ مسلسل اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور ہدایات میں زندگی گزارتے ہوئے لوگوں کی راہنمائی فرما رہے تھے۔ آپ کی ذات گرامی کو حکم ہوا۔ (وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ ےُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِےْنَ ) [ آل عمران : ١٥٩] ” اور معاملات میں ان کو شریک مشورہ رکھا کرو، پھر جب آپ کا عزم کسی رائے پر پختہ ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ “ اس عمل کی اہمیت کو اجاگر اور ممتاز کرنے کے لیے پانچ رکوع پر مشتمل اس سورة کا نام ہی الشّورٰی رکھ دیا گیا تاکہ مسلمان مشاورت کے اصولوں کو اپناتے ہوئے اجتماعی زندگی بسر کرتے رہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حکم کے نزول سے قبل بھی صحابہ (رض) سے مشورہ فرماتے تھے لیکن نزول حکم کے بعد تو یہ حالت ہوگئی کہ آپ ہر کام میں صحابہ سے مشورہ فرماتے تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مشورہ کن امور میں کرنا چاہیے ؟ مشاورت کا حدود اربعہ کیا ہے ؟ بدر، احد، خندق غرضیکہ ہر اہم معاملہ میں آپ نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ جنگ سے پہلے مشاورت کا مقصد یہ نہیں تھا کہ جہاد کرنا چاہیے یا نہیں۔ اللہ کے واضح احکامات آجانے کے بعد ان کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں مشورہ کرنا تو درکنار، سوچنا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ مشاورت تو اس بات پر کرنی ہے کہ دشمن پر فوری حملہ کرنا ہے یا کہ موسم، وقت، میدان جنگ کا انتخاب، اپنی اور دشمن کی جنگی تیاریوں کا پورا پورا اندازہ کرکے کرنا ہے۔ ان امور کو اللہ تعالیٰ نے امت کے ذمہ داران پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ دیانت داری اور غیر جذباتی فضا میں تجزیہ کریں کہ ہم نے آگے بڑھ کر یلغار کرنی ہے یا صرف دفاع کرنا ہے اور کس وقت یہ اقدام اٹھانا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور مبارک میں مجلس شوریٰ کے اجلاس اور ان کا ایجنڈا نماز باجماعت کے لیے مشورہ : انس بن مالک (رض) اور ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ مدنی دور کی ابتدا میں لوگ نماز کے اوقات اپنے اپنے اندازے سے متعین کرتے تھے۔ ایک دن جماعت کے لیے مشورہ کیا گیا۔ کسی نے یہود کے بوق کی تجویز پیش کی اور کسی نے نصاریٰ کے ناقوس بجانے کے لیے کہا۔ حضرت عمر (رض) نے یہ رائے دی کہ ایک شخض کو مقرر کیا جائے جو نماز کے اوقات میں بلند آواز سے لوگوں کو بلائے۔ بالآخر اسی پر فیصلہ ہوا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کام پر حضرت بلال (رض) کو مقرر فرمایا۔ حضرت بلال (رض) نماز کے اوقات میں بلند آواز سے الصلوۃ جامعۃ کہا کرتے تھے۔ یعنی لوگو ! نماز کے لیے جماعت تیار ہے لیکن بعد میں حضرت عبداللہ بن زید (رض) نے خواب میں اذان کے مروجہ الفاظ سنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیان کیے آپ نے انہیں حکم دیا کہ یہ الفاظ بلال کو سکھلاؤ پھر بلال (رض) کو انہی الفاظ کے ساتھ اذان کہنے کا حکم دیا حضرت عمر (رض) نے اذان سنی تو دوڑتے ہوئے آئے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی کہ اللہ کی قسم میں نے یہی الفاظ خواب میں سنے ہیں۔ (رواہ ابوداؤد : باب کَیْفَ الأَذَانُ ) بعد ازاں وحی بھی اسکی تائید میں آگئی۔ ابن حجر (رض) فرماتے ہیں۔ (مَبْدَاءُ الْاَذَانِ کَانَ عَنْ مَشْوَرَۃٍ اَوْقَعَھَا النَّبِیُّ بَےْنَ اَصْحَابِہِ حَتّٰی اِسْتَقَرَّ بِرُؤْےَا بَعْضُھُمْ وَفِےْہِ مَشْرُوْعِیَّۃٌ تَشَاوِرُ فِی الْاُمُوْرِ الْمُھِمَّۃِ ) ” اذان کا آغاز مشاورت سے ہوا تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ (رض) کے ساتھ کی تھی۔ بعد میں بعض صحابہ (رض) کے خواب کے ذریعے اذان مقرر ہوئی۔ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اہم امور میں مشاورت کرنا شرعی طریقہ ہے۔ “ غزوہ بدر کے بارے میں مشاورت : انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ بدر کے موقع پر صحابہ (رض) سے مشورہ کیا۔ ابوبکر (رض) اور عمر (رض) نے اپنی رائے دی مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انصار کی رائے حاصل کرنے کے لیے خاموش رہے۔ انصار کے سردار سعد بن عبادہ انصاری (رض) نے اٹھ کر عرض کیا : اگر آپ حکم دیں تو ہم برک الغماد (یمن) تک گھوڑے دوڑانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ اس کے بعد روانگی کا حکم ہوا اور فوج مقام بدر پر مورچہ زن ہوگئی۔ کفار سے معاہدہ کرنے کے بارے میں مشورہ : غزوہ خندق کے موقع پر جب محاصرہ سخت ہوگیا تو رسول اللہ نے بنو غطفان کے لیڈروں عیینہ بن حصن اور حارث بن عوف کے ساتھ مدینہ منورہ کے باغات کے پھلوں کا ٣؍١ (ثلث) دے کر مصالحت کی بات کی تاکہ یہ دونوں سردار قریش کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی رائے یہ تھی کہ مصالحت ہوجائے لیکن آخری فیصلہ کرنے سے قبل مشورہ کرنا ضروری سمجھا۔ انصار کے رہنماؤں میں سے سعد بن معاذ (رض) اور سعد بن عبادہ (رض) نے عرض کیا کہ اگر یہ ” اللہ “ کا حکم ہے تو ہمیں تسلیم ہے۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالات کی وجہ سے حکم دینا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں تسلیم نہیں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر یہ اللہ کا حکم ہوتا تو میں آپ سے مشورہ نہ کرتا۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خیال پر شوریٰ کی رائے کو ترجیح دی اور مصالحت کی بات ختم کردی۔ سفر جاری رکھنے یا واپس پلٹنے کے بارے میں مشاورت : حدیبیہ کے سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غدیر الاشطاط کے مقام پر پہنچے تو مسلمانوں کے مخبر نے اطلاع دی کہ قریش مکہ نے اپنے حلیف قبائل کو جمع کرلیا ہے جو آپ کو بیت اللہ سے روکنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمانو ! مجھے مشورہ دو کہ اب کیا اقدام کیا جائے۔ کیا یہ مناسب ہے کہ قریش کے ان دوستوں (احابیش) کے گھروں پر حملہ کیا جائے۔ ابوبکر (رض) نے رائے دی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کی زیارت کی غرض سے آئے ہیں۔ پس آپ اسی غرض کے لیے آگے بڑھیں جو ہمیں روکے گا ہم اس سے لڑیں گے لیکن بعد میں معاہدہ صلح حدیبیہ طے پا گیا۔ جنگی قیدیوں کے بارے میں مشورہ : بدر کے قیدیوں کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) سے مشورہ کیا اور فرمایا قیدیوں کے بارے تمہاری کیا رائے ہے ؟ ابوبکر (رض) نے عرض کیا کہ فدیہ لے کر چھوڑ دے ئے جائیں۔ لیکن عمر (رض) نے فرمایا، ان کی گردنیں اڑا دی جائیں اس لیے کہ یہ کفر کے امام اور دشمن قوم کے سردار ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کی رائے کے مطابق فدیہ لے کر قیدیوں کو آزاد کردیا۔ غزوہ حنین میں بنو ہوازن کے ٦ ہزار قیدی اور بہت سارا مال ہاتھ آیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جعرانہ کے مقام پر کچھ دن انتظار کیا اس خیال سے کہ اگر یہ لوگ ایمان لے آئیں تو ان کا مال اور قیدی دونوں واپس کر دے ئے جائیں۔ لیکن حنین والوں نے آنے میں دیر کی تو مال غنیمت تقسیم کردیا گیا۔ بعد میں جب یہ لوگ پشیمان ہو کر آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو بلایا اور فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ان کے قیدی رہا کر دے ئے جائیں تم میں سے جو خوشی سے اپنا قیدی آزاد کرنا چاہے تو بہتر ہے ورنہ ہم اسے معاوضہ دے کر اس سے قیدی آزاد کرا لیں گے۔ کچھ لوگوں نے کہا ہم بخوشی آزاد کرتے ہیں کچھ نے انکار کیا۔ صورتحال واضح نہ ہوسکی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم واپس جا کر اپنے نمائندوں (عرفاء) کو اپنی رائے دو ۔ نمائندوں نے آکر کر رپورٹ دی کہ سب کے سب راضی ہیں۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام قیدی رہا کر دے ئے۔ تفصیل کے لیے میری کتاب (اتحاد امت اور نظم جماعت) ملاحظہ فرمائیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32:۔ ” والذین استجابوا “ اس میں دوسرے عنوان سے امور ثلاثہ کا اعادہ کیا گیا ہے برائے تاکید۔ اپنے رب کا حکمنامہ قبول کرتے ہیں اور شرک نہیں کرتے۔ نماز قائم کرتے ہیں اور اپنے تمام امور باہمی مشورے سے طے کرتے ہیں۔ یہ امر اول ہے اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور لوگوں پر احسان کرتے ہیں۔ یہ امر ثانی ہے اور جب ان پر کوئی زیادتی کرتے تو وہ صرف زیادتی کا بدلہ ہی لیتے ہیں لیکن اپنی طرف سے ظلم زیادتی نہیں کرتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(38) اور وہ اپنے پروردگار کا حکم مانتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ان کا ہر کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یعنی اپنے پروردگار کا جو حکم ہوا اس کو قبول کرتے ہیں جیسے مدینے کے انصار اور نماز کے پابند رہتے ہیں اور ہر اہم کام میں آپس میں مشورہ کرنے کے بعد کرتے ہیں اور جو روزی ہم نے ان کو دی ہے اس کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ حضرت حسن بصری کا مشہور قول ہے کہ جس قوم نے باہم مشورے سے کام کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی فرمائی۔ حضرت علی (رض) مرفوعاً فرماتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض دفعہ ہم کو ایسے امور اور حوادثات پیش آتے ہیں کہ قرآن کریم میں ان کے متعلق کوئی حکم نہیں ہوتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی ایساحادثہ پیش آئے تو میری امت میں سے عبادات گزار لوگوں کو جمع کرکے مشورہ کرلینا اور اس مشورے پر عمل کرلینا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے بھی مرفوعاً ایسا ہی منقول ہے کہ اہل عقل سے مشورہ کرلیا کرو تم راہ پائو گے اور مشورے سے جو بات طے ہوجائے اس کی مخالفت نہ کرو ورنہ ندامت اٹھائو گے۔ خرچ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طاعت میں خرچ کرتے ہیں حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں مشورے سے کام کرنا پسند ہے دین کا ہو یا دنیا کا۔