Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 51

سورة الشورى

وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحۡیًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوۡ یُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیۡمٌ ﴿۵۱﴾

And it is not for any human being that Allah should speak to him except by revelation or from behind a partition or that He sends a messenger to reveal, by His permission, what He wills. Indeed, He is Most High and Wise.

ناممکن ہے کہ کسی بندہ سے اللہ تعالٰی کلام کرے مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے ، بیشک وہ برتر حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How the Revelation comes down Allah says, وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلاَّ وَحْيًا ... It is not given to any human being that Allah should speak to him unless (it be) by revelation, This refers to how Allah sends revelation. Sometimes He casts something into the heart of the Prophet, and he has no doubt that it is from Allah, as it was reported in Sahih Ibn Hibban that the Messenger of Allah said: إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ نَفَثَ فِي رُوعِي أَنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوتَ حَتْى تَسْتَكْمِلَ رِزْقَهَا وَأَجَلَهَا فَاتَّقُوا اللهَ وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَب Ar-Ruh Al-Qudus (i.e., Jibril) breathed into my heart that no soul will die until its allotted provision and time have expired, so have Taqwa of Allah and keep seeking in a good (and lawful) way. ... أَوْ مِن وَرَاء حِجَابٍ ... or from behind a veil -- as He spoke to Musa, peace be upon him. He asked to see Him after He had spoken to him, but this was not granted to him. In the Sahih, it recorded that the Messenger of Allah said to Jabir bin Abdullah, may Allah be pleased with him: مَا كَلَّمَ اللهُ أَحَدًا إِلاَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ وَإِنَّهُ كَلَّمَ أَبَاكَ كِفَاحًا Allah never speaks to anyone except from behind a veil, but He spoke to your father directly. This is how it was stated in the Hadith. He (Jabir's father) was killed on the day of Uhud, but this refers to the realm of Al-Barzakh, whereas the Ayah speaks of this earthly realm. ... أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاء ... or (that) He sends a Messenger to reveal what He wills by His leave. as Jibril, peace be upon him, and other angels came down to the Prophets, peace be upon them. ... إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ Verily, He is Most High, Most Wise. He is Most High, All-Knowing, Most Wise.

قرآن حکیم شفا ہے مقامات و مراتب و کیفیات وحی کا بیان ہو رہا ہے کہ کبھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں وحی ڈال دی جاتی ہے جس کے وحی اللہ ہونے میں آپکو کوئی شک نہیں رہتا جیسے صحیح ابن حبان کی حدیث میں ہے کہ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات پھونکی ہے کہ کوئی شخص بھی جب تک اپنی روزی اور اپنا وقت پورا نہ کر لے ہرگز نہیں مرتا پس اللہ سے ڈرو اور روزی کی طلب میں اچھائی اختیار کرو ۔ یا پردے کی اوٹ سے جیسے حضرت موسیٰ سے کلام ہوا ۔ کیونکہ انہوں نے کلام سن کر جمال دیکھنا چاہا لیکن وہ پردے میں تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن عبداللہ سے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی سے کلام نہیں کیا مگر پردے کے پیچھے سے لیکن تیرے باپ سے اپنے سامنے کلام کیا یہ جنت احد میں کفار کے ہاتھوں شہید کئے گئے تھے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ کلام عالم برزخ کا ہے اور آیت میں جس کلام کا ذکر ہے اس سے مراد دنیا کا کلام ہے یا اپنے قاصد کو بھیج کر اپنی بات اس تک پہنچائے جیسے حضرت جبرائیل وغیرہ فرشتے انبیاء علیہ السلام کے پاس آتے رہے وہ علو اور بلندی اور بزرگی والا ہے ساتھ ہی حکیم اور حکمت والا ہے روح سے مراد قرآن ہے فرماتا ہے اس قرآن کو بذریعہ وحی کے ہم نے تیری طرف اتارا ہے کتاب اور ایمان کو جس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہم نے اپنی کتاب میں ہے تو اس سے پہلے جانتا بھی نہ تھا لیکن ہم نے اس قرآن کو نور بنایا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے ہم اپنے ایمان دار بندوں کو راہ راست دکھلائیں جیسے آیت میں ہے ( قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ 44؀ۧ ) 41- فصلت:44 ) کہدے کہ یہ ایمان والوں کے واسطے ہدایت و شفا ہے اور بے ایمانوں کے کان بہرے اور آنکھیں اندھی ہیں پھر فرمایا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم صریح اور مضبوط حق کی رہنمائی کر رہے ہو پھر صراط مستقیم کی تشریح کی اور فرمایا اسے شرع مقرر کرنے والا خود اللہ ہے جس کی شان یہ ہے کہ آسمانوں زمینوں کا مالک اور رب وہی ہے ان میں تصرف کرنے والا اور حکم چلانے والا بھی وہی ہے کوئی اس کے کسی حکم کو ٹال نہیں سکتا تمام امور اس کی طرف پھیرے جاتے ہیں وہی سب کاموں کے فیصلے کرتا ہے اور حکم کرتا ہے وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جو اس کی نسبت ظالم اور منکرین کہتے ہیں وہ بلندیوں اور بڑائیوں والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 اس آیت میں وحی الٰہی کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں پہلی یہ کہ دل میں کسی بات کا ڈال دینا یا خواب میں بتلا دینا اور یقین کے ساتھ کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ دوسری، پردے کے پیچھے سے کلام کرنا، جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کوہ طور پر کیا گیا، تیسری، فرشتے کے ذریعے اپنی وحی بھیجنا، جیسے جبرائیل (علیہ السلام) اللہ کا پیغام لے کر آتے اور پیغمبروں کو سناتے رہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧١] وحی کے مختلف طریقے :۔ اس آیت میں لفظ وحیا اپنے لغوی معنی (سریع اور تیز اشارہ۔ یعنی القاء والہام) کے معنوں میں آیا ہے اور لفظ یوحی اپنے اصطلاحی معنوں میں (یعنی اللہ کا اپنے نبی کو فرشتہ کے ذریعہ پیغام بھیجنا) استعمال ہوا ہے۔ گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے کسی انسان سے کلام کرنے کے تین طریقے مذکور ہیں : (١) القاء یا الہام۔ اس قسم کی وحی غیر نبی کو بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے ام موسیٰ کو ہوئی تھی۔ (٢٨: ٧) بلکہ غیر انسان کی طرف بھی ہوسکتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی (١٦: ٦٨) اور ایسی وحی انبیاء کو خواب میں بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے سیدنا ابراہیم کو یہ خواب آیا تھا کہ میں اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہوں۔ (٣٧: ١٠٢) (٢) دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پردے کے پیچھے سے بات کرے اور پردہ کا مطلب ہے کہ انسان اللہ کا کلام سن تو سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکتا۔ انسان کے اس مادی جسم اور ان ظاہری حواس سے اللہ تعالیٰ کا دیدار ناممکن ہے۔ ایسی بات چیت اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سے کوہ طور کے دامن میں کی تھی۔ مگر آپ دیدارِ الٰہی کی تمنا اور سوال کے باوجود اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکے تھے۔ (٣) فرشتہ بھیجنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ جبرئیل نبی کے دل پر نازل ہو اور اسے اللہ کا پیغام پہنچائے۔ تمام کتب سماویہ کا نزول اسی طرح ہوا ہے۔ اور دوسری یہ کہ فرشتہ انسانی شکل میں سامنے آکر کلام کرے۔ جیسے فرشتے سیدنا ابراہیم اور سیدنا لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے تھے۔ اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو بیٹے اسحاق کی خوشخبری دی تھی۔ اور سیدنا لوط (علیہ السلام) کو ان کی قوم پر عذاب آنے کی خبر دی تھی اور ایسی وحی غیر نبی کی طرف بھی ہوسکتی ہے جیسے سیدنا جبرئیل (علیہ السلام) نے سیدہ مریم کے سامنے آکر بیٹے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت دی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ : کفار کا کہنا تھا :(لولا یکلمنا اللہ) (البقرۃ :118)” اللہ ہم سے (خود) کلام کیوں نہیں کرتا ؟ “ بلکہ ان کی خواہش تھی کہ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتاب عطا ہوئی ہم میں سے ہر ایک کو اسی طرح کتاب ملے، جیسا کہ فرمایا :(بل یرید کل امری منھم ان یوتی صحفاً منشرۃ) (المدثر : ٥٢)” بلکہ ان میں سے ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ اسے کھلے ہوئے صحیفے دیئے جائیں۔ “ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک سے کلام نہیں کرتا ، بلکہ وہ اس کے لئے فرشتوں اور انسانوں میں سے انتخابات کرتا ہے، فرمایا :(اللہ یصطفی من الملٓئکۃ رسلاً و من الناس ) (الحج :85)” اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے چنتا ہے اور لوگوں سے بھی ۔ “ اس نعمت سے بھی وہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے یہ نعمت کیوں نہیں ملی۔ اس آیت میں فرمایا کہ وہ اپنے ان چنے ہوئے بندوں کے ساتھ بھی آمنے سامنے کلام نہیں کرتا اور نہ ہی یہ بات دنیا میں کسی بشر کے لئے ممکن ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بندوں کے ساتھ بھی آمنے سامنے کلام نہیں کرتا اور نہ ہی یہ بات دنیا میں کسی بشر کے لئے ممکن ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (حجابہ النور و فی روایۃ ابی بکر النار، لو کشفہ لا حرفت سبحات وجھہ ما انتھی الیہ بصرہ من خلفہ) (مسلم الایمان، باب فی قولہ (علیہ السلام) ” ان اللہ لا ینام “ …: ١٨٩) ” اللہ تعالیٰ کا حجاب ” نور “ ہے۔ “ ابوبکر کی روایت میں ہے کہ ” نار “ ہے ” اگر وہ اسے ہٹا دے تو اس کے چہرے کی شعائیں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے اس کی مخلوق کو جلا دیں۔ ” ہاں آخرت میں ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة قیامہ (٢٢، ٢٣) ۔ (٢) الا وحیاً : فرمایا اللہ تعالیٰ انسانوں سے ان تین طریقوں کے علاوہ کلام نہیں کرتا، ایک وحی کے ذریعے سے، یعنی یہ کہ وہ اپنے بندے کے دل میں کسی واسطے کے بغیر کوئی بات ڈلا دے جس سے اسے یقین ہوجائے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، خواہ بیداری کی حالت میں ہو یا نیند میں، کیونکہ انبیاء کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔ دیکھیے سورة صافات (١٠٢) ۔ (٣) او من ورآی حجاب : یا یہ کہ وہ پردے کیپ یچھے سے کلام کرے، جیسے اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا، مگر جب انہوں نے دیکھنے کی درخواست کی تو وہ قبول نہیں ہوئی۔ (٤) اویرسل رسولاً : یا اللہ تعالیٰ کوئی فرشتہ بھیج کر جو بات پہنچانا چاہے پہنچا دے، جیسے جبریل (علیہ السلام) یا دوسرے فرشتوں کے ذریعے سے آپ کے پاس وحی آتی تھی۔ (٥) انہ علی حکیم : یعنی وہ اس سے بہت بلند ہے کہ کسی بشر سے رو در رو کلام کرے، یا ہر ایک اس کے کلام کا شرف حاصل کرسکے اور وہ کمال حکمت والا ہے، جس کے تحت وہ ہر بشر سے کلام نہیں کرتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The first of the above verses (51) was revealed in response to a hostile Jewish demand. As mentioned by Baghawl, Qurtubi and others, the Jews asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، |"How can we believe in you while you neither see Allah Ta’ ala, nor do you speak to Him face to face, as Sayyidna Musa (علیہ السلام) used to see and converse with Allah Ta’ ala?|" The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) told the Jews that it is wrong to say that Sayyidna Musa (علیہ السلام) has seen Allah Ta’ ala. Then this verse was revealed to announce that it is not possible for any human being to converse with Allah Ta&ala face to face in this world. Sayyidna Musa (علیہ السلام) also did not hear Allah Ta&ala face to face, but only heard the voice from behind a curtain. This verse also tells us that there are only three ways in which Allah Ta&ala speaks to a human being. One is ` wahy& which is infusion of something in the heart. It can happen while one is awake, and it can also happen during sleep in the form of a dream as stated in many ahadith that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, اُلقِیَ فی روعی (This has been infused in my heart. And the dreams of the prophets (علیہم السلام) are also a form of wahy, because Shaitan cannot find his way in them. In case of dreams, the words do not usually come from Allah Ta’ ala; only the subject matter is infused in the mind which is then rendered by the prophets in their own words. The second way in which Allah may address a person, as mentioned in the above verses, is that Allah speaks from behind a curtain, as happened to Sayyidna Musa (علیہ السلام) on Mount Tur, where he heard the speech of Allah Ta’ ala, but did not see Him. Therefore he asked Allah Ta&ala to show Himself. The reply was in negative, as mentioned by the Holy Qur&an in surah A&raf (7:143). And this curtain which prevents man from seeing Allah Ta&ala is not something which can hide Allah Ta’ ala, because nothing can hide His All-Pervasive Light. Rather, it is the weakness of man&s vision that becomes a curtain against seeing Allah. That is why when his vision would be strengthened in Paradise, every dweller of Heaven will be favoured with ability to see Allah Ta’ ala, as per the creed of Ahl-us-Sunnah wal-Jama` ah in accordance with the explanations of correct ahadith. This rule that no one can converse face to face with Allah Ta’ ala, without any curtain in-between, pertains to this world. The specific mention of ` human being& in this verse is because the intention here is to address mankind. Otherwise, apparently Allah Ta&ala does not speak face to face even with the angels, as stated by Sayyidna Jibra&i1 (علیہ السلام) in a narration of Tirmidhi, |"I had become very close, and yet there were seventy-thousand more curtains.|" And if the face to face conversation of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) with Allah Ta&ala during the Night of Ascension (Lailat-ul-mi` raj) is proved, as stated by certain learned persons, it would not negate this rule, because that conversation did not take place in this world, but in the Heavens. (Allah knows best). The third method is mentioned in the verse as أَوْ يُرْ‌سِلَ رَ‌سُولًا |"that He sends a messenger|" (42:51). The messenger could be Jibra&il (علیہ السلام) or any other angel who may carry Allah Ta’ ala&s message, and read it out to the prophet. And this has been the most common way. The whole of Glorious Qur&an has been revealed in this fashion through angels. It should be noted that the word ` wahy& has been explained above to mean infusion in mind or heart only, but this word is often used for all kinds of Divine discourses also, as narrated in a lengthy hadith of Bukhari where the message sent through an angel has also been termed as one kind of ` wahy&. And there are two forms in which the angel carries the message. Sometimes he appears in his original form, and sometimes in the human form. (Allah knows best).

خلاصہ تفسیر اور کسی بشر (کی بحالت موجودہ) یہ شان نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرماوے، مگر (تین طریق سے) یا تو الہام سے (کہ قلب میں کوئی اچھی بات ڈال دے) یا حجاب کے باہر سے (کچھ کلام سنا دے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) نے سنا تھا) یا کسی فرشتہ کو بھیج دے کہ وہ خدا کے حکم سے جو خدا کو منظور ہوتا ہے، پیغام پہنچا دیتا ہے (اس کی وجہ یہ ہے کہ) وہ بڑا عالیشان ہے (اس سے جب تک وہ خود طاقت نہ دے کوئی ہمکلام نہیں ہو سکتا، مگر اس کے ساتھ) بڑی حکمت والا (بھی) ہے (اسی لئے بندوں کی مصلحت سے اس نے کلام کے تین مذکورہ طریقے مقرر فرما دیئے ہیں) اور (جس طرح بشر کے ساتھ ہمارے ہم کلام ہونے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے) اسی طرح (یعنی اس قاعدے کے مطابق) ہم نے آپ کے پاس (بھی) وحی یعنی اپنا حکم بھیجا ہے (اور آپ کو نبی بنایا ہے، اور یہ وحی ایسا ہدایت نامہ ہے کہ آپ کے بےمثل علوم میں اسی کی بدولت ترقی ہوئی، چناچہ اس سے پہلے) آپ کو نہ یہ خبر تھی کہ کتاب (اللہ) کیا چیز ہے اور نہ یہ خبر تھی کہ ایمان (کا مکمل ترین درجہ جو اب حاصل ہے) کیا چیز ہے (گو نفس ایمان نبی کو نبوت سے پہلے بھی حاصل ہوتا ہے) لیکن ہم نے (آپ کو نبوت اور قرآن دیا اور) اس قرآن کو (آپ کے لئے اولاً اور دوسروں کے لئے ثانیاً ) ایک نور بنایا (جس سے آپ کو یہ عظیم علوم اور بلند مرتبہ احوال حاصل ہوئے اور) جس کے ذریعہ سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں (پس اس کے نور عظیم ہونے میں کوئی شبہ نہیں، اب جو اندھا ہی ہو وہ اس نور کے نفع سے محروم بلکہ اس کا منکر ہے، جیسے یہ معترضین) اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ (اس قرآن اور وحی کے ذریعہ سے عام لوگوں کو) ایک سیدھے رستہ کی ہدایت کر رہے ہیں، یعنی اس خدا کے رستہ کی کہ اسی کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے (آگے ان احکام کے ماننے اور نہ ماننے والوں کی جزا و سزا کا ذکر ہے کہ) یاد رکھو سب امور اسی کی طرف رجوع ہوں گے (پس وہ سب پر جزا و سزا دے گا) ۔ معارف و مسائل مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت یہود کے ایک معاندانہ مطالبہ کے جواب میں نازل ہوئی ہے۔ جیسا کہ بغوی اور قرطبی وغیرہ نے لکھا ہے کہ یہود نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہم آپ پر کیسے ایمان لے آئیں جبکہ آپ نہ خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہیں اور نہ اس سے بالمشافہ کلام کرتے ہیں جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کلام کرتے اور اللہ تعالیٰ کو دیکھتے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، جس کا حاصل یہ ہے کہ کسی انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بالمشافہ کلام کرنا اس دنیا میں ممکن نہیں۔ خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی بالمشافہ کلام نہیں سنا بلکہ پس پردہ صرف آواز سنی۔ اس آیت میں یہ بھی بتلا دیا گیا کہ کسی بشر سے اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے کی صرف تین صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک وحیاً یعنی کسی مضمون کو قلب میں ڈال دینا۔ یہ جاگتے ہوئے بھی ہوسکتا ہے اور نیند میں بصورت خواب بھی، جیسا کہ بہت سی احادیث میں منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، القی فی روعی۔ یعنی یہ بات میرے دل میں القاء کرگئی ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔ ان میں شیطانی تصرف نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں عموماً الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتے۔ صرف ایک مضمون قلب میں آتا ہے جس کو وہ اپنے الفاظ میں تعبیر کرتے ہیں۔ دوسری صورت : (آیت) مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ ہے، یعنی جاگتے ہوئے کوئی کلام پس پردہ سنے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر پیش آیا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام سنا مگر زیارت نہیں ہوئی اس لئے زیارت کی درخواست کی (آیت) رب ارنی انظر الیک، جس کا جواب نفی میں دیا گیا، لن ترانی۔ اور یہ حجاب جو انسان کو دنیا میں حق تعالیٰ کی زیارت سے مانع ہے وہ کوئی ایسی چیز نہیں جو حق تعالیٰ کو چھپا سکے، کیونکہ اس کے نور محیط کی کوئی شے چھپا نہیں سکتی۔ بلکہ انسان کی قوت بینائی کا ضعف ہی اس کے لئے زیارت حق کے درمیان حجاب ہوتا ہے۔ اسی لئے جنت میں جبکہ اس کی بینائی قوی کردی جائے گی تو وہاں ہر جنتی حق تعالیٰ کی زیارت سے مشرف ہوگا۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ کی تصریح کے مطابق اہل سنت وا لجماعت کا مذہب ہے۔ یہ قانون جو آیت مذکورہ میں ارشاد ہے، دنیا کے متعلق ہے کہ دنیا میں کوئی انسان اللہ تعالیٰ سے کلام مشافہتاً یعنی بےحجاب نہیں کرسکتا۔ اور انسان کی تخصیص کلام میں اس لئے ہے کہ گفتگو انسان ہی کے متعلق تھی۔ ورنہ ظاہر یہ ہے کہ فرشتوں سے بھی اللہ تعالیٰ کا کلام بالمشافہتہ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ ترمذی کی روایت میں جبرائیل (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ میں بہت قریب ہوگیا تھا اور پھر بھی ستر ہزار حجاب رہ گئے تھے۔ اور شب معراج میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق تعالیٰ سے بالمشافہ کلام اگر ثابت ہوجائے جیسا کہ بعض علماء کا قول ہے تو وہ اس کے منافی نہیں، کیونکہ وہ کلام اس عالم میں نہیں تھا، عالم سموٰت میں تھا۔ واللہ اعلم۔ تیسری صورت : اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا ہے۔ یعنی کسی فرشتہ جبرائیل وغیرہ کو اپنا کلام دے کر بھیجا جائے وہ رسول کو پڑھ کر سنا دے۔ اور یہی طریقہ عام ہے، قرآن مجید پورا اسی طرح بواسطہ ملائکہ نازل ہوا ہے۔ مذکورہ تفصیل میں لفظ وحی کو صرف القاء فی القلب کے معنی میں لیا گیا ہے مگر اکثر یہ لفظ تمام اقسام کلام ربانی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث میں جو وحی آتی ہے اس کی بھی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ کبھی تو فرشتہ اپنی اصلی ہئیت میں ہوتا ہے کبھی بشکل انسانی سامنے آتا ہے۔ واللہ سبحانہ، وتعالیٰ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِـاِذْنِہٖ مَا يَشَاۗءُ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌ۝ ٥١ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ بشر وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] ، ( ب ش ر ) البشر اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص/ 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ { هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ } ( سورة آل عمران 119) دیکھو ! تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے وراء ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی: وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] ، ( و ر ی ) واریت الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ حجب الحَجْب والحِجَاب : المنع من الوصول، يقال : حَجَبَه حَجْباً وحِجَاباً ، وحِجَاب الجوف : ما يحجب عن الفؤاد، وقوله تعالی: وَبَيْنَهُما حِجابٌ [ الأعراف/ 46] ، ليس يعني به ما يحجب البصر، وإنما يعني ما يمنع من وصول لذّة أهل الجنّة إلى أهل النّار، وأذيّة أهل النّار إلى أهل الجنّة، کقوله عزّ وجل : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ ، وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] ، وقال عزّ وجل : وَما کانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ [ الشوری/ 51] ، أي : من حيث ما لا يراه مكلّمه ومبلّغه، وقوله تعالی: حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص/ 32] ، يعني الشّمس إذا استترت بالمغیب . والحَاجِبُ : المانع عن السلطان، والحاجبان في الرأس لکونهما کالحاجبین للعین في الذّب عنهما . وحاجب الشمس سمّي لتقدّمه عليها تقدّم الحاجب للسلطان، وقوله عزّ وجلّ : كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ [ المطففین/ 15] ، إشارة إلى منع النور عنهم المشار إليه بقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] . ( ح ج ب ) الحجب والحجاب ( ن ) کسی چیز تک پہنچنے سے روکنا اور درمیان میں حائل ہوجانا اور وہ پر وہ جو دل اور پیٹ کے درمیان حائل ہے اسے حجاب الجوف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ وَبَيْنَهُما حِجابٌ [ الأعراف/ 46] اور ان دونوں ( بہشت اور دوزخ ) کے درمیان پر وہ حائل ہوگا ۔ میں حجاب سے وہ پر دہ مراد نہیں ہے جو ظاہری نظر کو روک لیتا ہے ۔ بلکہ اس سے مراد وہ آڑ ہے جو جنت کی لذتوں کو اہل دوزخ تک پہنچنے سے مانع ہوگی اسی طرح اہل جہنم کی اذیت کو اہل جنت تک پہنچنے سے روک دے گی ۔ جیسے فرمایا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ ، وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار گھڑی کردی جائے گی اس کے باطن میں رحمت ہوگی اور بظاہر اس طرف عذاب ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَما کانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ [ الشوری/ 51] ، اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اس سے بات کرے مگر الہام ( کے زریعے ) سے یا پردہ کے پیچھے سے ۔ میں پردے کے پیچھے سے کلام کرنے کے معنی یہ ہیں کہ جس سے اللہ تعالیٰ کلام کرتے ہیں وہ ذات الہی کو دیکھ نہیں سکتا اور آیت کریمہ ؛ ۔ حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص/ 32] کے معنی ہیں حتی ٰ کہ سورج غروب ہوگیا ۔ الحاجب دربان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بادشاہ تک پہنچنے سے روک دیتا ہے ۔ اور حاجبان ( تنبہ ) بھویں کو کہتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں کے لئے بمنزلہ سلطانی دربان کے ہوتی ہیں ۔ حاجب الشمس سورج کا کنارہ اسلئے کہ وہ بھی بادشاہ کے دربان کی طرح پہلے پہل نمودار ہوتا ہے اور آیت کریمۃ ؛۔ كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ [ المطففین/ 15] کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے رو ز تجلٰ الہی کو ان سے روک لیا جائیگا ( اس طرح وہ دیدار الہی سے محروم رہیں گے ) جس کے متعلق آیت کریمۃ ؛۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ أَذِنَ : والإِذنُ في الشیء : إعلام بإجازته والرخصة فيه، نحو، وَما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ [ النساء/ 64] أي : بإرادته وأمره، ( اذ ن) الاذن الاذن فی الشئی کے معنی ہیں یہ بتا دینا کہ کسی چیز میں اجازت اور رخصت ہے ۔ اور آیت کریمہ ۔ { وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ } ( سورة النساء 64) اور ہم نے پیغمبر بھیجا ہی اس لئے ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے ۔ میں اذن بمعنی ارادہ اور حکم ہے حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور کسی آدمی کی یہ شان نہیں کہ روبرو ہو کر اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمائے مگر یہ تو الہام سے خواہ خواب میں ہو یا پردے کے باہر سے جیسے موسیٰ سے کلام فرمایا تھا یا کسی فرشتہ کو بھیج دے کہ وہ اللہ کے حکم سے جو اللہ کو امر و نہی منظور ہوتا ہے وہ پیغام پہنچا دیتا ہے جیسا کہ رسول اکرم کے پاس جبریل امین کو بھیجا وہ بڑا عالی شان اور اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ { وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ } ” اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے “ اللہ تو ہرچیز پر قادر ہے ‘ وہ جو چاہے کرے ‘ مگر کسی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ اس سے ہم کلام ہو۔ { اِلَّا وَحْیًا } ” سوائے وحی کے “ یہ وحی کی پہلی قسم ہے جسے ” القاء “ یا ” الہام “ کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے براہ راست بندے تک اپنا پیغام پہنچادیتا ہے اور متعلقہ بات اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ شہد کی مکھی کی طرف وحی کرنا (النحل : ٦٩) ‘ ہر آسمان میں اس سے متعلقہ پیغام پہنچانا (حٰمٓ السجدۃ : ١٢) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں القاء کرنا (القصص : ٧) اس وحی کی مثالیں ہیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔ { اَوْ مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ } ” یا (پھر وہ بات کرتا ہے) پردے کی اوٹ سے “ یہ وحی کی دوسری قسم ہے ‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا : { وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا } ( النساء) ۔ { اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآئُ } ” یا وہ بھیجتا ہے کسی پیغام بر َ (فرشتے) کو ‘ پھر وہ وحی کرتا ہے اللہ کے حکم سے جو وہ چاہتا ہے۔ “ یہ وحی کی تیسری قسم ہے ‘ جیسے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعے سے پورا قرآن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر نازل ہوا۔ { اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ } ” وہ بہت بلند وبالا ہے ‘ کمال حکمت والا ہے۔ “ اس کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ وہ کسی انسان سے براہ راست بغیر حجاب کے کلام کرے ‘ اور وہ کمال حکمت والا ہے ‘ اس نے اپنی حکمت کے مطابق انسانوں تک پیغام رسانی (communication) کا جو طریقہ چاہا اختیار فرمایا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

78. In conclusion, the same theme with which the discourse began has been reiterated. To understand it fully, please see the( first verse of this Surah and the E.N). on it. 79. Here, wahi means to inspire somebody with something, or to show something to somebody in a vision as were the Prophets Abraham and Joseph shown (peace be upon them). See (Surah Yousuf, Ayats 4, 100); (Surah As-Saaffat, Ayat 102). 80. That is, one may hear a voice without seeing the speaker, just as it happened in the case of the Prophet Moses (peace be upon him) when he suddenly began to hear a voice from a tree on Mount Toor, while the speaker was hidden from him. See (Surah TaHa, Ayats 11-48), (Surah An- Naml, Ayats 8-12); (Surah Al-Qasas, Ayats 30 35). 81. This is the form of wahi by which all divine Scriptures have actually reached the Prophets of Allah. Some people have misinterpreted this sentence and given it this meaning Allah sends a messenger who by His command conveys His message to the common people. But the words of the Quran fa-yuhiya bi-idni-hi ma yasha (then He reveals by His command whatever He wills) show that this interpretation is absolutely wrong. The Prophets’s preaching before the common people has neither been called wahi anywhere in the Quran nor is there any room in Arabic for describing a man’s speaking to another man openly by the word wahi. Lexically, wahi means secret and swift instruction. Only an ignorant person will apply this word to the common preaching by the Prophets. 82. That is, He is far above that He should speak to a man face to face, and His wisdom is not helpless that He may adopt another method of conveying His instructions to a servant of His than of speaking to him face to face.

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :78 تقریر ختم کرتے ہوئے اسی مضمون کو پھر لیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوا تھا ۔ بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اس سورہ کی پہلے آیت اور اس کے حاشیے پر دوبارہ ایک نگاہ ڈال لیجیے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :79 یہاں وحی سے مراد ہے القاء ، الہام ، دل میں کوئی بات ڈال دینا ، یا خواب میں کچھ دکھا دینا ، جیسے حضرت ابراہیم اور حضرت یوسف علیہم السلام کو دکھایا گیا ( یوسف ، آیات 4 ۔ 100 ۔ الصافات 102 ) ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :80 مراد یہ ہے کہ بندہ ایک آواز سنے ، مگر بولنے والا اسے نظر نہ آئے ، جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا کہ طور کے دامن میں ایک درخت سے یکایک انہیں آواز آنی شروع ہوئی مگر بولنے والا ان کی نگاہ سے اوجھل تھا ( طٰہٰ ، آیات 11 تا 48 ۔ النمل ، آیات 8 تا 12 ۔ القصص ، آیات 30 تا 35 ) سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :81 یہ وحی آنے کی وہ صورت ہے جس کے ذریعہ سے تمام کتب آسمانی انبیاء علیہم السلام تک پہنچی ہیں ۔ بعض لوگوں نے اس فقرے کی غلط تاویل کر کے اس کو یہ معنی پہنائے ہیں کہ اللہ کوئی رسول بھیجتا ہے جو اس کے حکم سے عام لوگوں تک اس کا پیغام پہنچاتا ہے ۔ لیکن قرآن کے الفاظ : فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہ مَا یَشَآءُ ( پھر وہ وحی کرتا ہے اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے ) ان کی اس تاویل کا غلط ہونا بالکل عیاں کر دیتے ہیں ۔ عام انسانوں کے سامنے انبیاء کی تبلیغ کو وحی کرنے سے نہ قرآن میں کہیں تعبیر کیا گیا ہے اور نہ عربی زبان میں انسان کی انسان سے علانیہ گفتگو کو وحی کے لفظ سے تعبیر کرنے کی کوئی گنجائش ہے ۔ لغت میں وحی کے معنی ہی خفیہ اور سریع اشارے کے ہیں ۔ انبیاء کی تبلیغ پر اس لفظ کا اطلاق صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو عربی زبان سے بالکل نابلد ہو ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :82 یعنی وہ اس سے بہت بالا و بر تر ہے کہ کسی بشر سے رو در رو کلام کرے ، اور اس کی حکمت اس سے عاجز نہیں ہے کہ اپنے کسی بندے تک اپنی ہدایات پہنچانے کے لیے رو برو بات چیت کرنے کے سوا کوئی اور تدبیر نکال لے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: اس دنیا میں کسی انسان سے اللہ تعالیٰ روبرو ہو کر ہم کلام نہیں ہوتا، البتہ تین طریقوں سے کوئی طریقہ اختیار فرماتا ہے، ایک کو وحی سے تعبیر فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بات فرمانا چاہتا ہے، وہ کسی کے دل میں ڈال دیتا ہے، دوسرے کو پردے کے پیچھے سے تعبیر فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی صورت نظر آئے بغیر کوئی بات کانوں کے ذریعے ہی سنادی جاتی ہے، جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہوا تھا، اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنا کلام کسی فرشتے کے ذریعے کسی پیغمبر کے پاس بھیجاجاتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥١۔ ٥٣۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر لوگوں کے بہکانے کے لئے اعتراض کیا کرتے تھے کہ اگر یہ نبی ہوتے تو اللہ تعالیٰ سے بلاواسطہ فرشتے کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح ہم کلام ہوتے اگرچہ یہ آیت مکی ہے لیکن مدینہ میں ہجرت سے پہلے جب آنحضرت کی نبوت کا شہرہ ہوا اس وقت یہود حسد کے سبب سے یہ اعتراض کیا کرتے تھے ان کے اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے جس طرح سورة نسا کی مدنی آیت میں دیا ہے کہ انا اوحینا الیک کما او حینا الی نوح والنبیین من بعدہ الایۃ اسی طرح اس مکی آیت میں جواب دیا ہے حاصل جواب کا یہ ہے کہ بلا پردہ کی آڑ کے تو نہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور نہ کسی بشر کی طاقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دنیا کی آنکھوں سے دیکھ سکے ہاں پچھلے تمام انبیاء میں جو وحی کا طریقہ تھا کہ خواب میں کوئی بات معلوم ہوجاتی تھی یا غیب سے ایک بات جاگتے میں دل میں پڑجاتی تھی یا آڑ میں سے اللہ تعالیٰ سے باتیں ہوجاتی تھیں یا فرشتہ آ کر اللہ کا حکم پہنچا جاتا تھا یہ سب طریقے وحی کے ان نبی میں بھی موجود ہیں شب معراج میں ان نبی سے اور اللہ سے باتیں بھی ہوئیں سچے خواب بھی ان کو ہوتے ہیں غیب سب باتیں بھی ان کے دل میں پڑتی ہیں ہر روز اللہ کے فرشتہ بھی ان کے پاس اللہ کے حکم لے کر آتا ہے پھر ان کی نبوت سے انکار کیونکر ہوسکتا ہے پھر آگے اسی جواب کی تائید میں فرمایا کہ ان پڑھ نبی کو پچھلے انبیا کی طرح سب احکام شریعت کا معلوم ہوجانا یہ تائید غیبی اور اللہ کی وحی نہیں تو پھر کیا ہے صحیح بخاری ٢ ؎ میں عبد اللہ (رض) بن عمر اور عبد اللہ بن عباس کی روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھوں میں دو سونے کے کڑے دیکھے پھر خواب میں ہی آپ کو یہ جتلایا گیا کہ ان دونوں کڑوں کو پھونک ماری جائے آپ نے جب پھونک ماری تو وہ دونوں کڑے اڑ گئے اس خواب کی تعبیر آپ نے یہ فرمائی کہ یہ دونوں کڑے اسود عنسی اور مسیلمہ دو شخص ہیں جو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کریں گے اس تفسیر میں ایک جگہ گزر چکا ہے کہ اسود عنسی اللہ کے رسول کی حایت میں مارا گیا اور مسیلمہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت میں مارا گیا۔ صحیح ١ ؎ بخاری میں حضرت عائشہ کی حدیث ہے جس میں بغیر واسطے فرشتہ کے اور فرشتہ کے واسطے سے جو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی آتی تھی ان قسموں کا ذکر تفصیل سے ہے صحیح ٢ ؎ بخاری و مسلم میں ابوذر کی معراج کی حدیث ہے جس میں پردہ کے پیچھے سے پچاس نمازوں کی بابت میں اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے باتیں کرکے پچاس نمازوں میں سے ٤٥ معاف کرائیں اور پانچ باقی رہیں اس پر جو ذکر تھا کہ ان آیتوں میں وحی کے جن طریقوں کا تذکرہ ہے وہ سب طریقے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں موجود تھے اس کا مطلب ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ (٢ ؎ صحیح بخاری باب اذا طار الشیء فی المنام ص ١٠٤١ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی الخ ص ٢ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب الا سراء برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ص ٩٢ ج ١۔ و صحیح بخاری باب کفل فرضت الصلاۃ ص ٥٠ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:51) وما کان لبشر۔ اور کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ (ضیاء القرآن) اور کسی بشر کا مقدرو نہیں (حقانی) اور یہ کسی بشر کا مرتبہ نہیں (تفسیر ماجدی) ۔ ان یکلمہ اللّٰہ الا وحیا : ان مصدریہ۔ یکلم مضارع منصوب (بوجہ عمل ان) واحد مذکر غائب ۔ کہ کلام کرے وہ۔ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع بشر ہے اور یہ کسی بشر کا یہ مرتبہ نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے۔ الا۔ حرف استثنائ۔ جس کی مندرجہ ذیل صورتیں بیان فرمائی گئی ہیں : (1) وحیا۔ یعنی بطریق وحی۔ یعنی عام قدرتی ذرائع ابلاغ کے واسطہ کے بغیر دل میں کوئی بات ڈال دی جائے ۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں :۔ (ا) بحالت بیداری جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں حضرت موسیٰ کو دریا میں ڈال دینے کے متعلق الہام ہوتا تھا۔ اذ اوحینا الی امک ما یوحی ان اقذفیہ فی التابوت فاقذفیہ فی الیم (20:38:39) جب کہ ہم نے تمہاری ماں کو وہ بات الہام کی جو الہام کئے جانے ہی کے قابل تھی (یعنی) یہ کہ (موسیٰ کو) ایک صندوق میں رکھ کر پھر اسے دریا میں ڈال دو ۔ (ب) بحالت خواب : جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بحالت منام القاء فی القلب ہوا۔ قال یبنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ما ذا تری : (37:102) کہا (ابراہیم نے ) کہ اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔ (سو تم بھی سوچ لو کہ) تمہاری کیا رائے ہے ؟ (2) او من ورای حجاب۔ یا کسی پردے کے پیچھے سے : ورای اصل میں مصدر ہے لیکن اس کا معنی ہے آڑ۔ حد فاصل۔ کسی چیز کا آگے ہونا۔ پیچھے ہونا۔ علاوہ۔ سوا ہونا فصل اور حد بندی پر دلالت کرتا ہے اس لئے سب معنی میں مستعمل ہے۔ حجاب۔ پردہ ۔ اوٹ۔ ملنے سے روکنا۔ مصدر ہے ۔ یہاں پردہ سے مرد وہ پردہ ہے جو رویت سے مانع ہو۔ مثال اس حضرت موسیٰ کا خدا سے کلام ہے : ولما جاء موسیٰ لمیقاتنا وکلمہ ربہ قال رب ارنی انظر الیک قال لن ترانی (7:143) اور جب (حضرت ) موسیٰ ہمارے وقت (موعود) پر آگئے اور ان سے ان کا پروردگار ہمکلام ہوا۔ موسیٰ بولے اے پروردگار مجھے اپنے کو دکھلا دیجئے (کہ) میں آپ کو ایک نظر دیکھ لوں ( اللہ نے ) فرمایا کہ تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ (3) او یرسل رسولا فیوحی باذنہ ما یشائ۔ یا کسی قاصد (فرشتہ) کو بھیج دے۔ سو وہ وحی پہنچا دے اللہ کے حکم سے جو وہ (یعنی اللہ) چاہتا ہے۔ وما کان وائو عاطفہ۔ ما نافیہ، کان فعل ناقص ۔ لبشر، خبر کان۔ ان مصدریہ یکلمہ اللہ جملہ ب تاویل مصدر اسم کان۔ کسی انسان کا یہ مقام نہیں کہ اللہ اس سے روبرو بالمشافہ کلام کرے۔ الا وحیا۔ استثناء منقطع۔ ای الا (ان یوحی الیہ) وحیا۔ مگر یہ کہ اس پر وحی نازل کی جائے۔ (2) او من ورای حجاب۔ ای ان یکلمہ اللہ من ورای حجاب، یا یہ کہ پردہ کے پیچھے سے اللہ اس سے کلام کرے۔ (3) او یرسل رسولا۔ ای او ان یرسل رسولا۔ یا یہ کہ وہ (خدا) بھیجے (اس کی طرف اپنا کوئی) پیغمبر (فرشتہ) ۔ فیوحی باذنہ ما یشاء : ف ترتیب کا ہے۔ یوحی مضارع واحد مذکر غائب ضمیر فاعل کا مرجع رسول (فرشتہ) ہے باذنہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب اور یشاء میں ضمیر فاعل واحد مذکر غائب کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے۔ ما موصولہ ہے اور یشاء اس کا صلہ۔ اور وہ (فرشتہ) اس (اللہ کے ) حکم سے اس کی منشاء کے مطابق وحی کرتا ہے۔ علی۔ بلند مرتبہ۔ سب سے اوپر ۔ عالی شان، برتر۔ علاء سے بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ امام راغب فرماتے ہیں۔ علی کے معنی ہیں رفیع القدر۔ بلند مرتبت۔ یہ علی سے ہے۔ اور جب یہ اللہ تعالیٰ کی صفت واقع ہو جیسے ھو العلی الکبیر تو اس کے معنی ہوں گے وہ ذات پاک جو اس سے کہیں برتر ہے کہ وصف بیان کرنے والوں کا وصف بلکہ عالموں کا علم بھی اس کا احاطہ نہ کرسکے۔ حکیم بروزن فعیلصفت مشبہ کا صیغہ ہے حکمت والا۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے کیونکہ اصل حکمت اسی کی حکمت ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 کسی کی مجال نہیں کہ اس کے فیصلہ کو نافذ ہونے سے روک سکے یا اس کی تخلیق و تقسیم پر حرف گیری کرسکے۔ 2 یعنی اس طرح کہ دل میں کوئی بات ڈال دے یا خواب میں کچھ دکھا دے جیسے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) اور حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو خواب دکھایا گیا۔ ( الصافات :103، یوسف 4) ایک حدیث میں ہے کہ ” روح القدس ( جبریل ( علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ کوئی جان اس وقت تک نہ جائے گی جب تک اپنا رزق پورا نہ کرے اور اس کی ہوئی اجل نہ آجائے اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی آنے کی ابتداء سچے خوابوں سے ہوئی۔ ( ابن کثیر) ۔ 3 یعنی اس طرح کہ بندہ آواز سنے مگر بولنے والانظر نہ آئے، جیسے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو کوہ طور کے دامن میں ایک درخت سے آواز سنائی دی مگر بولنے والا اللہ تعالیٰ ان کی نگاہ سے اوجھل تھا۔ (طہٰ 11، 48 النمل :8، 12 قصص، 3، 35) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں ” حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے کلام ہوئے ہیں پردہ کے پیچے سے “۔ ( موضح) 4 یہ وحی آنے کی وہ صورت ہے جو انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ مخصوص ہے اور جس کے ذریعہ تمام آسمانی کتابیں انبیاء (علیہم السلام) تک پہنچتی ہیں اور فرشتہ کبھی غیر مرثی شکل میں آتا ہے اور کبھی انسانی شکل میں۔ جیسا کہ احادیث میں ہے کہ حضرت جبریل ( علیہ السلام) وحیہ کلبی کی شکل میں آئے اور ایک مرتبہ ایک اعرابی کی شکل میں آئے اور امور ایمان کے متعلق سوال کیا جن کے چلے جانے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( جاء یعلمکم دینکم) بہر حال آیت میں وحی کی تمام صورتوں کا احصاء مذکور نہیں ہے۔ الا بتکلف واللہ اعلم۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 51 تا 53 یکلم (وہ کلام کرتا ہے) وراء حجاب (پردے کے پیچھے) روح ( جان ( فرشتہ) ماتدری (تو نہیں جانتا) تصیر الامور (کاموں کو لوٹنا) تشریح : آیت نمبر 51 تا 53 : قرآن کریم میں متعد مقامات پر کفار و مشرکین کے وہ بہت سے اعتراضات نقل کر کے ان کے جوابات دیئے گئے ہیں جو وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کرتے تھے ان ہی میں سے یہ اعتراض بھی تھا کہ آپ جس کلام کو اللہ کا کلام کہہ کر پیش کر رہے ہیں ہم کیسے یقین کرلیں کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بالکل سچ ہے۔ کفار کہتے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نے اس کلام کو خود سے گھڑ لیا ہے کیونکہ نہ تو آپ نے اللہ کو دیکھا نہ وہ آپ کے پاس آتا ہے نہ آپ اس کے پاس جاتے ہیں پھر وہ کون سا ذریعہ ہے کہ آپ کے پاس اللہ کا کلام آتا ہے۔ وہ کہتے کہ اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو فرشتے خود آ کر یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اگر ایسا ہوگا تو ہم یقین کرلیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جاہلانہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ ہمارا کلام ہے۔ ہم نے ہی اسکو نازل کیا ہے۔ یہی وہ نور ہے جس کے ذریعہ لوگوں کو راہ ہدایت دکھائی جاتی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس کلام کو پیش کر رہے ہیں وہ ان کا نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے کیونکہ اس کلام کے نازل ہونے سے پہلے ان کے ذہن کے کسی گوشے میں اس کا تصور اور خیال تک موجود نہ تھا کہ آپ کو کوئی کتاب ملنے والی ہے ۔ اور وہ اللہ پر ایمان رکھنے کے باوجود ایمان کی تمام کیفیات سے بھی پوری طرح واقف نہ تھے لہٰذا اس کے کلام اللہ ہونے میں کسی طرح کا شک و شبہ کرنا پر لے درجہ کی جہالت ہے۔ فرمایا کہ آخرت میں تو انسان کی آنکھوں میں وہ طاقت و قوت آجائے گی جس سے وہ اللہ کو کھلی آنکھوں سے دیکھ سکے گا لیکن اس دنیا میں اصولی طور پر کوئی اس کو دیکھ نہیں سکتا ۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دیدار الٰہی کی درخواست کی تو اللہ نے فرمایا تھا ” لن ترانی “ اے موسیٰ آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے۔ اس جگہ یہ فرمایا گیا کہ کسی بشر کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ سے براہ راست بات کرے ۔ اگر وہ کلام کرتا ہے تو اس کے تین طریقے ہیں۔ (1) بغیر کسی ذریعہ کے اللہ کا کلام دل پر القاہو جائے یا خواب میں اشارہ کردیا جائے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی ابتداء خوابوں کے ذریعہ ہوئی ہے ( بخاری و مسلم) اسی طرح بہت سی احادیث میں بھی وحی کی ابتداء خوابوں سے بیان کی گئی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر براہ راست بغیر کسی واسطے کے بہت سی باتیں القاء کی گئی ہیں جن میں آپ یہ فرماتے ہیں کہ فلاں فلاں بات اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔ ایسی احادیث کو احادیث قدسیہ کہا جاتا ہے جن کی تعداد چھ سو تک پہنچتی ہے۔ ظاہر ہے جس بات میں آپ یہ فرما دیں کہ یہ اللہ نے فرمائی ہے وہ یقینا اللہ کی طرف سے ہے لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ وہ باتیں اللہ نے براہ راست آپ کے قلب پر نازل فرمائی ہیں اس کو القاء کہتے ہیں ۔ اگر یہی باتیں حضرت جبرئیل یا کسی اور واسطے سے ہوتیں تو وہ قرآن کریم کہلاتیں۔ (2) وحی کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پردے کے پیچھے سے آواز تو سنائی دے لیکن شکل نظر نہ آئے جس طرح وادی مقدس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا جہاں ان کو چاروں طرف سے آتی ہوئی آواز سنائی دے رہی تھی یا جس طرح شب معراج نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ نے پردے کے پیچھے سے کلام فرمایا اور اگر بعض حضرات کی یہ بات مان لی جائے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کا دیدار کیا ہے یعنی اپنی کھلی آنکھوں سے اللہ کا دیدار کیا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں دیکھنے نہ دیکھنے کا ذکر اس دنیا کے متعلق آ رہا ہے اگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کا دیدار فرمایا ہے تو وہ اس دنیا میں نہیں بلکہ اللہ کے دربار میں دیدار فرمایا ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے۔ (3) وحی کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ اپنا پیغام اپنے خاص فرشتے ( حضرت جبرئیل امین) کے ذریعہ بندوں تک پہنچائے۔ جس طرح تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اور خاص طور پر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تئیس سال تک حضرت جبرئیل اللہ کی وحی کو لاتے رہے۔ ان تین صورتوں کے علاوہ دنیا کے متعلق یہ قانون ہے کہ کوئی انسان اللہ تعالیٰ سے بالمشافہ کلام نہیں کرسکتا لہٰذا کفار کا یہ اعتراض نہایت لغو اور فضول ہے کہ ہم کیسے مان لیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے جب کہ آپ نے نہ تو اللہ کو دیکھا ہے نہ اس سے ملاقات ہوئی ہے اور نہ وہ آپس کے پاس آتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ اپنا کلام اسی طرح سارے نبیوں پر بھیجتا رہا ہے اور آخر میں اللہ نے اپنے آخری نبی و رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی اپنا کلام حضرت جبرئیل کے واسطے سے بھیجا ہے جو بھی اس کتاب ہدایت پر ایمان لائے گا وہ زندگی کا سیدھا سچا راستہ پالے گا ورنہ زندگی بھر اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا ۔ فرمایا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب کا سب اسی کی ملکیت ہے ۔ اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے اور اسی کا بتایا ہوا راستہ صراط مستقیم ہے۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔ ۔۔ ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی قلب میں کوئی اچھی بات بلا واسطہ مدرکات طبعیہ کے ڈال دے، خواہ وہ الہام قطعی ہو جیسا انبیاء کا یا غیر قطعی ہو جیسا غیر انبیاء کا۔ 2۔ یہ حجاب کوئی جسم حائل نہیں اور نہ یہ حجاب حق تعالیٰ کی ذات و نور کو مخفی کرسکتا ہے بلکہ حقیقت اس حجاب کی بشر کا ضعف اداراک ہے۔ اور یہی حجاب تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) کو رویت سے مانع ہوا تھا، اور یہی مانع جنت میں مرتفع ہوجاوے گا یعنی رویت کی قوت اور عمل دیدیا جاوے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انسان ہی نہیں بلکہ انسانوں کے سردار اور اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین بندے انبیائے کرام (علیہ السلام) بھی کوئی اختیارات نہیں رکھتے تھے۔ یہاں تک وہ اللہ تعالیٰ سے برائے راست بات بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس سورة مبارکہ کا آغاز توحید و رسالت سے ہوا ہے۔ اس کا اختتام بھی توحید و رسالت کے عنوان پر ہورہا ہے۔ عام انسان نہیں بلکہ انسانوں کے سردار جنہیں نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا۔ ان کی بےاختیاری کا عالم یہ تھا کہ وہ بھی اللہ جلّ جلالہٗ سے براہ راست بات کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی کسی انسان میں یہ سکت ہے کہ وہ بلاواسطہ اپنے رب کے ساتھ ہم کلام ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ نے جس کے ساتھ بھی کلام فرمایا اس پر وحی نازل فرمائی یا نور کے حجاب کے پیچھے اس سے کلام کیا یا فرشتہ بھیج کر اس تک اپنا پیغام پہنچایا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بہت ہی بلند وبالا اور حکمت والا ہے۔ اس ارشاد میں اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے کلام کرنے کے تین طریقے ارشاد فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نینبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تینوں طریقوں کے ساتھ ہی اپنے ارشادات سے سرفراز فرمایا۔ وحی کا لغوی معنٰی الہام، لکھا ہواپیغام، اشارہ کرنا، چھپا کر بات کرنا اور کسی بات پر آمادہ کرنا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ أَنَّہَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِءَ بِہِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنَ الْوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ فِی النَّوْمِ ۔۔ ) [ رواہ البخاری : باب بدء الوحی ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کی ابتدا نیند میں سچے خوابوں سے ہوئی۔ “ 2 حجاب کا یہ معنٰی نہیں کہ اللہ تعالیٰ حجاب میں رہتا ہے۔ اس کا معنٰی ہے کہ اللہ اور نبی کے درمیان حجاب ہوتا ہے۔ (وَعَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھَلْ رَاَیْتَ رَبَّکَ قَالَ نُوْرٌ اَنّٰی أرَاہُ ) [ رواہ مسلم : باب قولہ (علیہ السلام) (نُوْرٌ اَنّٰی أرَاہُ )] حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کیا آپ نے (معراج کی رات) اپنے پروردگار کو دیکھا تھا ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا تھا ؟ 3 تیسری قسم کے بارے میں قرآن شہادت دیتا ہے کہ قرآن مجید جبرائیل امین کے ذریعے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچایا گیا ہے۔ ” بلاشک جبرائیل (علیہ السلام) نے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر اللہ کے حکم سے کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور مومنوں کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے۔ “ ( البقرۃ : ٩٧) ” یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ اسے امانت دارفرشتہ لے کر آیا اور اس نے اسے آپ کے دل پر اتارا ہے۔ تاکہ آپ ان لوگوں میں شامل ہوں جو ڈرانے والے ہیں۔ یہ قرآن واضح عربی زبان میں ہے۔ “ (الشعراء : ١٩٢ تا ١٩٥) کفار کا مطالبہ تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے بات کرتا ہے ہم سے کیوں بات نہیں کرتا، اس کا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر عیرے غیرے کے ساتھ بات نہیں کرتا وہ نبی کے ساتھ بھی براۂ راست بات کرنے کی بجائے صرف تین صورتوں میں بات کرتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کسی بشر کے ساتھ براہ راست بات نہیں کرتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں کسی کو بھی القاء کرسکتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ساتھ وحی کے ذریعے بات کرتا تھا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ساتھ پردے میں گفتگو فرمائی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ملائکہ کے ذریعے انبیائے کرام (علیہ السلام) تک اپنا پیغام پہنچاتا تھا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے بلندوبالا اور حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن وحی کے مختلف طریقے : ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ پردے میں بات کرتا تھا۔ ( الشورٰی : ٥١) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کی طرف القاء کیا کہ پہاڑوں اور درختوں پر اپنے گھر بنائے۔ ( النحل : ٦٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دودھ پلائے۔ ( القصص : ٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے اپنا پیغام انبیاء تک پہنچایا۔ (الشعراء : ١٩٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس آیت میں یہ بات قطعی انداز میں کہہ دی گئی ہے کہ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ آمنے سامنے ہو کر بات نہیں کرسکتا۔ حضرت عائشہ (رض) سے یہ مروی ہے : “ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے بہت پر افترا باندھا ” (متفق علیہ ) خدا کا مکالمہ بندوں کے ساتھ تین طریقوں سے سر انجام پاتا ہے۔ بذریعہ وحی ، یہ وحی قلب نبی پر براہ راست ہوتی ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ یہ وحی ہے ، یا پردے کے پیچھے سے ، جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مکالمہ ہوا۔ لیکن جب آپ نے اللہ کو دیکھنے کی درخواست کی تو اس درخواست کو قبول نہ کیا گیا۔ اور پہاڑ نے بھی تجلیات الہٰیہ کو برداشت نہ کیا۔ وخر موسیٰ صعقاً ۔۔۔۔۔ اول المومنین (٧ : ١٤٣) “ اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑا جب ہوش آیا تو بولا : پاک ہے تیری ذات میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والوں میں سے ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والوں میں سے ہوں ”۔ یا پھر یہ طریقہ ہے کہ ایک پیغام لانے والا بھیج دے اور یہ فرشتہ ہوتا ہے جو اللہ کے حکم سے جو چاہے وحی کر دے۔ اور اس کی تفصیلات حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بتا دی ہیں۔ پہلا طریقہ یہ کہ فرشتہ آپ کے دل میں بات ڈال دے ماسوائے اس کے کہ آپ فرشتے کو دیکھیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا “ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات پھونک دی کہ ہرگز کوئی نفس نہ مرے گا قبل اس کے کہ وہ اپنا رزق مکمل نہ کردے ، لہٰذا اللہ سے ڈرو اور نہایت ہی خوبصورت طریقے سے رزق کی تلاش کرو ”۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ فرشتہ ایک انسان کی شکل میں آپ سے بات کرتا اور آپ اس کی بات کو سمجھ لیتے۔ تیسری صورت یہ کہ وحی آپ پر گھنٹی کی آواز کی طرح آتی اور یہ طریقہ آپ کے لئے بہت سخت ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ سخت سردی کے دنوں میں بھی آپ کے ماتھے سے پسینہ ٹپکتا اور ایسی حالت میں اگر آپ سواری پر ہوتے تو اس پر اس قدر بوجھ ہوتا کہ سواری بیٹھ جاتی۔ آپ پر ایک بار ایسی حالت میں وحی آئی اور آپ کا سر مبارک زید ابن ثابت کی ران پر تھا۔ اس پر یہ اس قدر بھاری ہوگیا کہ قریب تھا کہ اس سے ان کی ران چورہ چورہ ہوجاتی۔ چوتھی صورت یہ تھی کہ آپ فرشتے کو ایسی شکل میں دیکھتے جس میں اللہ نے اسے پیدا کیا ہے۔ اس وقت وہ جو چاہتا ، وحی کرد یتا۔ اور اس شکل میں فرشتہ صرف دوبارآیا ہے۔ جیسا کہ سورت نجم میں ذکر ہوا ( زاد العماد ، ابن قیم الجوزیہ) یہ ہیں وحی کی صورتیں ، اور ان کے مطابق اللہ کے ساتھ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رابطہ ہوتا رہا ہے۔ انہ علی حکیم (٤٢ : ٥١) “ اللہ برتر اور حکیم ہے ”۔ وہ اپنی بلندیوں سے وحی کرتا ہے اور وہ اپنی حکمت سے جسے چاہتا ہے ، چن لیتا ہے۔ میں یہاں ضرور کہوں گا کہ جب بھی میں نے کسی ایسی آیت یا حدیث پر غور کیا ہے جس میں بندے اور رب کے درمیان رابطے کا ذکر ہو ، تو میرا رواں رواں کانپ اٹھا ہے کہ ایک ازلی ابدی ذات جو لازمان اور لامکان ہے ، جس کو کسی جگہ میں محدود نہیں کیا جاسکتا ، جس کی مثل کائنات میں کوئی چیز نہیں ہے اور فانی بندے کے درمیان اتصال کس طرح واقع ہو سکتا ہے جبکہ انسان ایک جگہ میں محدود ہے ، ایک زمان تک محدود ہے۔ اور مخلوقات کی دوسری حدود کا پابند ہے۔ پھر یہ رابطہ معانی اور کلمات کی شکل کس طرح اختیار کرتا ہے اور ایک فانی محدود ذات کے اندر یہ قوت کس طرح ودیعت کردی جاتی ہے کہ وہ ازلی و ابدی اور لامکان ذات کا کلام پا سکے۔ جس کی کوئی مثال نہیں ہے ، یہ کس طرح ممکن ہوا ۔ کیونکر ہوا ؟ لیکن میں نے پھر لوٹ کر اپنے آپ سے پوچھا تم کیف سے سوال کرتے ہو ؟ لیکن خود تمہارا یہ کیف بھی محدود ، فانی ، قاصر اور ایک حدود کے اندر ہے۔ لیکن یہ حقیقت تو واقع ہوچکی ہے ۔ اور اس نے ایک شکل بھی اختیار کرلی۔ اس کا ایک وجود ہمارے سامنے آگیا ہے اور تم اسے پا رہے ہو۔ لیکن اس کے باوجود یہ اچنبھا ، یہ گھبراہٹ اور یہ خوف موجود ہے۔ یہ نبوت تو بہت ہی عظیم امر ہے۔ اور اس پیغام کے وصول کرنے کا وقت تو بہت ہی عظیم ہے۔ ایک انسانی ذات ایک ذات عالی مقام کا پیغام وصول کرتی ہے۔ بھائی ! تم یہ کلمات پڑھتے ہو کیا تم میرے اس تصور میں میرے ساتھ شریک ہو ؟ کیا تم میرے ساتھ اس امر عظیم کو سوچ رہے ہو ؟ کہ یہ وحی وہاں سے آرہی ہے۔ نہیں میں کہتا ہوں کیا میں کہہ سکتا ہوں کہ “ وہاں ” سے اس دربار عالی میں تو “ یہاں ” اور “ وہاں ” نہیں ہے۔ یہ نزول تو غیر مکان اور لازمان سے واقع ہے۔ یہ تو جگہ مکان اور حدود سے پاک ہے۔ جہت اور طرف تو اس بارگاہ میں نہیں۔ انتہائی مطلق ، ازلی ابدی ذات ہے ، اللہ ذوالجلال ہے۔ دوسری طرف ایک انسان ہے ، نبی ہے ، رسول ہے لیکن انسان ہے۔ وہ حدود وقیود رکھتا ہے۔ یہ وحی ! یہ ایک عجیب رابطہ ہے۔ معجزانہ رابطہ ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو اسے ایک حقیقت واقعہ بنا سکتا ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ یہ واقعہ کیسے متحقق ہوا۔ بھائی ! تم یہ کلمات پڑھ رہے ہو کیا تم ان خیالات کو پا رہے ہو جو میرے دل میں آتے ہیں اور میں انہیں کلمات کی شکل دے رہا ہوں ۔ میرا پورا وجود جس قدر رعب ، کپکپی محسوس کرتا ہے اور میں اسے کلمات میں منتقل کر رہا ہوں ، میں نہیں جانتا کہ اس کے لئے میں کیسے کلمات لا سکتا ہوں۔ یہ واقعہ تو اپنی ماہیت کے اعتبار سے بہت ہی عظیم عجیب اور خارق عادت ہے۔ جن صورتوں میں بار بار واقعہ ہوا۔ لوگوں نے اسے محسوس کیا اور بارہا اس کے مناظر بھی دیکھے ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں آپ کے ساتھیوں نے۔ حضرت عائشہ (رض) انسانی تاریخ کے اس عظیم واقعہ کو دیکھ رہی ہیں۔ اور روایت کر رہی ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے عائشہ ! یہ ہیں جبرئیل ، تم پر سلام کہتے ہیں۔ آپ فرماتی ہیں وعلیہ السلام۔ آپ فرماتے ہیں وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ سکتیں۔ یہ ہیں زید ابن ثابت (رض) ۔ اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سرمبارک ان کی ران پر ہے۔ وحی آتی ہے ، قریب ہے کہ ان کی ران کو پیس ڈالے۔ اور یہ دوسرے صحابہ کرام بار ہا اس واقعہ کر دیکھتے ہیں ، اور پہچان جاتے ہیں آپ کے چہرۂ مبارک پر آثار وحی۔ آپ کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں کہ وحی کی تلقی کا عمل پورا ہوجائے۔ آپ بھی واپس آتے ہیں اور وہ بھی واپس آتے ہیں۔ یہ کیا شخصیت ہے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو ذات علوی کے ساتھ یہ رابطہ رکھتے ہیں ؟ آپ کو جو ہر کیا ہے ؟ آپ کی روح کیسی ہے کہ ایک ابدی کے ساتھ ازلی کے ساتھ آپ رابطہ ہوجاتا ہے۔ یہ اختلاط کیسے ہوتا ہے۔ یہ مسائل ہیں لیکن یہ حقیقت ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ واقعات ہمارے ادراک کے آفاق سے بہت دور ہیں ، بہت بلند ہیں۔ ہمارے نبی کی روح کی ایک انسانی روح ہے۔ یہ انسانی اور فانی روح کس طرح وحی اخذ کرتی ہے۔ تلقی اور ادراک کے دروازے کس طرح کھل جاتے تھے ؟ کس طرح ان پر یہ فیضان ہوتا تھا۔ ان عجیب لمحات میں وجود رسول اور وجود کائنات کس طرح محسوس کرتا تھا۔ جس میں اللہ کی تجلیات آتی تھیں۔ اور یہ تجلیات کلمات کی شکل اختیار کرتی تھیں۔ پھر اللہ کی نگہبانیاں ، اللہ کی مہربانیاں اور اللہ کی عزت افزائیاں تو دیکھو ! اللہ بہت ہی بلند ، بہت ہی بڑا اور وہ اس نہایت ہی چھوٹی ، کمزور اور بےبس مخلوق پر رحمتیں نازل کرتا ہے۔ یہ وحی اس کی اصلاح کے لئے ہے۔ اس کی راہ روشن کرنے کے لئے ہے۔ ان میں سے جو بےراہ ہوگئے۔ حیران ہیں ان کی راہنمائی کے لئے۔ انسان جو اللہ کے لئے اس سے بھی کم قیمت ہے جس طرح انسانوں کے لئے ایک مچھر۔ وہ اللہ کی مملکت میں اسی طرح ہے جس طرح پوری زمین کے مقابلے میں ایک مچھر۔ یہ ایک عظیم حقیقت ہے لیکن یہ انسان کی قوت مدرکہ کے تصورات بہت ہی بلند وبالا ہے ۔ ہم صرف اللہ کی اس افق عالی کی طرف دیکھ سکتے ہیں۔ وکذلک اوحینا الیک ۔۔۔۔۔ الی صراط مستقیم (٤٢ : ٥٢) صراط اللہ الذی ۔۔۔۔۔ تصیر الامور (٤٢ : ٥٣) “ اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے۔ تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے ، مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں۔ یقینا ً تم سیدھے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو ، اس خدا کے راستے کی طرف جو زمین بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں۔ یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو ، اس خدا کے راستے کی طرف جو زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کی مالک ہے ۔ خبردار رہو ، سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں ”۔ وکذلک (اسی طرح) اس عجیب رابطے کے ذریعے اوحینا الیک (٤٢ : ٥٢) “ ہم نے تمہاری طرف وحی کی ” ۔ گویا وحی مذکور طریقے سے ہوئی۔ کوئی نئی بات نہ تھی۔ اور روحا من امرنا ( ٤٢ : ٥٢) “ اپنے حکم سے ایک روح ” ۔ ہم نے تمہاری طرف وحی کی۔ یہ ایک روح ہے ، اس میں زندگی ہے ۔ یہ انسانوں کو زندگی عطا کرتی ہے۔ یہ انسانوں کو آگے بڑھاتی ہے ، حرکت دیتی ہے اور نشوونما عطا کرتی ہے ، دلوں کو زندہ کرتی ہے اور عملی زاویہ سے لوگوں کو زندہ کرتی ہے۔ ما کنت تدری ما الکتب ولا الایمان ( ٤٢ : ٥٢) “ تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے ”۔ یوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذہنی کیفیت کی تصویر اللہ کھینچتا ہے۔ اور اللہ آپ کے بارے میں زیادہ علم رکھتا ہے۔ یہ اس وحی کے نزول و وصول سے پہلے کی بات ہے۔ اس نزول وحی سے قبل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتابوں کے بارے میں بھی سنا ہوا تھا۔ اور ایمان کے بارے میں بھی سنا ہوا تھا ۔ اور جزیرۃ العرب میں یہ بات مشہور تھی کہ وہاں اہل کتاب ہیں اور ان کے پاس کتاب الٰہی ہے ، اور ان کا یہ عقیدہ ہے۔ لہٰذا مراد یہ نہیں ہے کہ آپ نہ کتاب کو جانتے تھے اور نہ ایمان کو جانتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے ضمیر کے اندر وحی کتاب اور ایمان کا وہ شعور نہ پاتے تھے۔ وحی الٰہی سے قبل آپ کے شعور میں یہ باتیں نہ تھیں جو وحی کے ذریعہ اب آپ لوگوں کو بتا تے ہیں۔ ولکن جعلنہ نورا نھدی بہ من نشاء (٤٢ : ٥٢) “ مگر اس کو ہم نے روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں ”۔ یہ ہے اس وحی کی ماہیت اور اس کی ذاتی خصوصیت۔ یہ روح ، یہ وحی ، یہ کتاب دراصل ایک نور ہے ۔ یہ نور جب قلب کا حصہ بن جاتا ہے تو پھر رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن یہ نور اسی شخص کے دل میں داخل ہوتا ہے جس کے بارے میں اللہ کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس کے دل میں راہ پا سکتا ہے۔ اور یہ شخص اس کی طرف مائل ہے۔ وانک لتھدی الی صراط مستقیم (٤٢ : ٥٢) “ یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہو ”۔ یہاں تاکید کے ساتھ وحی کی رہنمائی کی حیثیت کو واضح کیا جاتا ہے کہ یہ ایک عملی رہنمائی کا پرو گرام ہے۔ اور ہدایت بھی اسی کو ملتی ہے جس شخص کے بارے میں اللہ کی مشیت ہو۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ جس کے مقدر میں چاہے ، لکھ دے ۔ اور اللہ ہر مقدر اپنے پیشگی علم کی وجہ سے تحریر کرتا ہے۔ یہ علم صرف اللہ ہی کو ہوتا ہے۔ رسول کو بھی اس کا علم نہیں ہوتا۔ رسول تو حکم الٰہی سے تبلیغ پر مامور ہے۔ وہ کسی کے دل میں ہدایت نہیں ڈال سکتا۔ آپ اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ کی مشیت کام کرتی ہے۔ وانک لتھدی الی صراط مستقیم (٤٢ : ٥٢) “ یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہو ”۔ یہاں تا کید کے ساتھ وحی کی رہنمائی کی حیثیت کو واضح کیا جاتا ہے کہ یہ ایک عملی رہنمائی کا پروگرام ہے۔ اور ہدایت بھی اسی کو ملتی ہے۔ جس شخص کے بارے میں اللہ کی مشیت ہو۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ جس کے مقدر میں چاہے ، لکھ دے ۔ اور اللہ ہر مقدر اپنے پیشگی علم کی وجہ سے تحریر کرتا ہے۔ یہ علم صرف اللہ ہی کو ہوتا ہے۔ رسول کو بھی اس کا علم نہیں ہوتا۔ رسول تو حکم الٰہی سے تبلیغ پر مامور ہے۔ وہ کسی کے دل میں ہدایت نہیں ڈال سکتا۔ آپ اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ کی مشیئت کام کرتی ہے۔ وانک لتھدی الی صراط مستقیم (٤٢ : ٥٢) صراط اللہ ۔۔۔۔۔۔ فی الارض (٤٢ : ٥٣) “ یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو ، اس خدا کے راستے کی طرف جو زمین و آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے ”۔ یہ وحی ہدایت ہے اللہ کے راستے کی طرف۔ جہاں تمام راستے آ کر ملتے ہیں اور یہ مالک کا راستہ ہے جو زمین و آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے جو اس راتے پر آگیا۔ اسے اس کائنات کے قوانین فطرت کی راہ بھی معلوم ہوگئی۔ اسے زمین و آسمان کی قوتوں کا پتہ بھی چل گیا ، اسے آسمانوں اور زمینوں کی ارزاق کا بھی پتہ چل گیا۔ اسے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ زمین و آسمان سب اللہ کی راہ پر چل رہے ہیں۔ اللہ ہی ان کا مالک ہے ، یہ سب اس کی طرف متوجہ ہیں اور تمام امور اسی کی طرف مڑتے ہیں۔ الا الی اللہ تصیر الامور (٤٢ : ٥٣) “ خبردار رہو ، سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں ”۔ سب چیزیں اللہ پر جا کر منتہی ہوتی ہیں ، وہاں سب امور جمع ہوں گے اور ان کے فیصلے ہوں گے۔ اور یہ نور اس راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو اللہ نے بندوں کے لئے پسند کیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ جڑنے کے لئے اس کی طرف آئیں اور اس کے نشانات پر مطیع فرمان ہو کر چلیں۔ یوں اس سورت کا خاتمہ ہوتا ہے ۔ اس کا آغاز وحی پر بات سے ہوا ، اس کا آخری مضمون اور محور وحی تھا۔ ابتدائی نبوتوں سے لے کر اس نے تمام نبوتوں کو لیا اور بتایا کہ یہ ایک ہی سلسلہ ہے۔ ایک ہی نظام اور منہاج کی طرف دعوت ہے ، راستہ بھی ایک ہے ، طریقہ بھی ایک ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت نے تمام انسانیت کی رہنمائی کرنی ہے اور اس کی قیادت جماعت مومنہ نے کرنی ہے۔ اس نے لوگوں کو راہ راست پر لانا ہے۔ یہ اس ذات کا راستہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے ۔ پھر اس سورت نے اس ابتدائی جماعت کی خصوصیات بھی بتا دیں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائی اور جس نے بھی یہ کام کرنا ہو ، اس کے اندر یہ خصوصیات لازمی ہیں۔ ان خصوصیات کے بغیر نہ قیادت ممکن ہے اور نہ اس امانت کا حق ادا کیا جاسکتا ہے۔ یہ امانت جو اس منہاج کے مطابق آسمانوں سے زمین پر اتاری گئی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بندے اللہ تعالیٰ سے کیسے ہم کلام ہوسکتے ہیں ؟ معالم التنزیل ج، ص ١٣٢ میں لکھا ہے کہ یہودیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اگر آپ نبی ہیں تو آپ اللہ سے بات کیوں نہیں کرتے اور اللہ کو دیکھتے کیوں نہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کو دیکھا آپ کی تائید میں یہ آیت نازل ہوئی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کسی بشر کے لیے یہ بات حاصل نہیں کہ اللہ سے بات کرے بجز تین طریقوں کے، ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو الہام فرما دے یعنی قلب میں کوئی بات ڈال دے یا خواب میں کوئی بات بتادے (مفسرین نے وحیاً کا مصداق بتاتے ہوئے یہ دو صورتیں لکھی ہیں) یا اللہ تعالیٰ پردہ کے پیچھے سے کلام فرمائے جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کوہ طور پر کلام فرمایا تھا یا کسی فرشتہ کو بھیج دے جو اللہ کا پیغام لے کر آجائے اور اللہ کے حکم سے اللہ کی مشیت کے مطابق کسی رسول کو بطور وحی پیغام پہنچا دے یہ تین صورتیں اس دنیا میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کی ہیں۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) وحی لے کر خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے تھے ﴿اِنَّهٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌ٠٠٥١﴾ (بیشک اللہ برتر ہے) مخلوق کو اس سے بات کرنے کا معائنہ کے طور پر تحمل نہیں ہے اور وہ حکیم بھی ہے اپنی حکمت کے مطابق مذکورہ تین طریقوں میں سے اس نے جس طرح چاہا کلام فرمایا۔ فائدہ 1 وَحْيًا کی تفسیر منام اور الہام سے جو کی گئی ہے اس میں یہ تفصیل ہے کہ حضرات انبیاء کرام کا منام اور الہام تو قطعی ہے اور انبیائے کرام کے علاوہ دوسروں کو جو خواب میں بتایا گیا یا بطور الہام دل میں ڈالا گیا ہو وہ ظنی ہے اور کسی کو اس پر شریعت کے خلاف عمل کرنا اور دوسروں سے عمل کرانا جائز نہیں ہے۔ فائدہ 2 آیت کریمہ میں جو ﴿اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ ﴾ فرمایا ہے اس سے نورانی حجاب مراد ہے صحیح مسلم میں ہے : حجابہ النور (اس کا پردہ نور ہے) لو کشفہ لا حرقت سبحات وجھھہ ما انتھیٰ الیہ بصرہ من خلقہ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢١) اگر وہ اسے کھول دے تو اس کی وجہ کریم کے انوار اس کی مخلوق کو وہاں تک جلا دیں جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پردہ کے پیچھے سے کلام کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کا تحمل نہیں دیا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیں اور دیکھنے کی حالت میں بات چیت کرلیں جنت میں اللہ تعالیٰ شانہٗ قوت برداشت عطا فرما دے گا وہاں اللہ کو دیکھیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(51) اور کسی بشر کے لئے یہ ممکن نہیں اور کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام کرے مگر یہ کہ یا تو الہام اور اشارے کے ذریعہ سے یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتے کو بھیج دے کہ وہ خدا کے حکم سے جو منظور ہوتا ہے وہ پیغام پہنچا دیتا ہے بلا شبہ وہ بڑا عالیشان بڑی حکمت والا ہے بعض کفار کہا کرتے تھے کہ اگر یہ اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ خود ہم سے کہے کہ یہ ہمارے رسول ہیں اور بھی ہر موقعہ پر اللہ تعالیٰ کے روبرو آنے اور اس سے کلام کرنے اور فرشتوں کے سامنے آنے کی خواہش کیا کرتے تھے جیسا کہ انیسویں پارے میں گزر چکا ہے۔ اسی پر یہ بات فرمائی کہ کسی بشر کی یہ طاقت نہیں کہ اس سے موجودہ حالت میں کلام کرے یعنی دنیا میں بات چیت کرے مگر ہاں اس کے کلام کرنے کے تین طریقے ہیں یا تو اشارے سے کوئی بات فرمادے ۔ اشارے سے مراد ہے الہام یا خواب ، خواب میں کوئی چیز دکھادی جائے یا قلب میں کوئی بات ڈال دی جائے جیسا حدیث میں نفث فی روعی آتا ہے یا حضرت ابراہیم نے فرمایا تھا انی اری فی المنام ایک طریقہ تو یہ ہوا۔ دوسرا طریقہ یہ فرمایا کہ پردے کے پیچھے سے یعنی آواز سنائی دے لیکن کوئی چیز نظر نہ آئے جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جو کلام ہوا۔ تیسرا طریقہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی پیغام فرشتہ لے کر آئے اور اس کے حکم سے وہ پیغام پہنچادے موجودہ حالت میں اللہ تعالیٰ کا کسی بشر سے کلام کرنا ان تین طریقوں سے ہی ہوسکتا ہے ان کے علاوہ ممکن نہیں۔ من وراء حجاب کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ پردے میں ہوتا ہے بلکہ خود بات کرنے والا پردے میں ہوتا ہے یعنی بات کرنے والے کے ادراک کا ضعف اس کے لئے پردہ بن جاتا ہے اور حدیث میں جو فاذانا بربی تبارک وتعالیٰ آتا ہے وہاں بھی نورانی حجاب کے ساتھ گفتگو ہے موجودہ جسد عنصری اور قوائے بشریٰ حضرت حق تعالیٰ کا معائنہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ پہلا طریقہ جو اشارے اور الہام کا فرمایا وہ ظاہر ہے کہاگرنبی ہو خواہ یقظہ میں خواہ منام میں تو وہ بمزلہ وحی کے ہے اور اگر غیر نبی کو ہو یعنی ولی کو تو وہ ظنی ہے قطعی نہیں یہ منکر چونکہ کفر میں مبتلا ہیں اس لئے ان کے لئے پہلی صورت بھی ہیں ہوسکتی کیونکہ یہ اس کے اہل ہی نہیں۔ بہرحال دنیا میں حضرت حق تعالیٰ کے کلام فرمانے کے یہ تین طریقے ہیں جو آیت میں مذکور ہوئے اور ان لوگوں کو ناامید کردیا گیا جو بڑھ بڑھ کر حضرت حق تعالیٰ کو دیکھنا اور اس سے کلام کرنا چاہتے تھے۔