Commentary The first of the above verses (51) was revealed in response to a hostile Jewish demand. As mentioned by Baghawl, Qurtubi and others, the Jews asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، |"How can we believe in you while you neither see Allah Ta’ ala, nor do you speak to Him face to face, as Sayyidna Musa (علیہ السلام) used to see and converse with Allah Ta’ ala?|" The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) told the Jews that it is wrong to say that Sayyidna Musa (علیہ السلام) has seen Allah Ta’ ala. Then this verse was revealed to announce that it is not possible for any human being to converse with Allah Ta&ala face to face in this world. Sayyidna Musa (علیہ السلام) also did not hear Allah Ta&ala face to face, but only heard the voice from behind a curtain. This verse also tells us that there are only three ways in which Allah Ta&ala speaks to a human being. One is ` wahy& which is infusion of something in the heart. It can happen while one is awake, and it can also happen during sleep in the form of a dream as stated in many ahadith that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, اُلقِیَ فی روعی (This has been infused in my heart. And the dreams of the prophets (علیہم السلام) are also a form of wahy, because Shaitan cannot find his way in them. In case of dreams, the words do not usually come from Allah Ta’ ala; only the subject matter is infused in the mind which is then rendered by the prophets in their own words. The second way in which Allah may address a person, as mentioned in the above verses, is that Allah speaks from behind a curtain, as happened to Sayyidna Musa (علیہ السلام) on Mount Tur, where he heard the speech of Allah Ta’ ala, but did not see Him. Therefore he asked Allah Ta&ala to show Himself. The reply was in negative, as mentioned by the Holy Qur&an in surah A&raf (7:143). And this curtain which prevents man from seeing Allah Ta&ala is not something which can hide Allah Ta’ ala, because nothing can hide His All-Pervasive Light. Rather, it is the weakness of man&s vision that becomes a curtain against seeing Allah. That is why when his vision would be strengthened in Paradise, every dweller of Heaven will be favoured with ability to see Allah Ta’ ala, as per the creed of Ahl-us-Sunnah wal-Jama` ah in accordance with the explanations of correct ahadith. This rule that no one can converse face to face with Allah Ta’ ala, without any curtain in-between, pertains to this world. The specific mention of ` human being& in this verse is because the intention here is to address mankind. Otherwise, apparently Allah Ta&ala does not speak face to face even with the angels, as stated by Sayyidna Jibra&i1 (علیہ السلام) in a narration of Tirmidhi, |"I had become very close, and yet there were seventy-thousand more curtains.|" And if the face to face conversation of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) with Allah Ta&ala during the Night of Ascension (Lailat-ul-mi` raj) is proved, as stated by certain learned persons, it would not negate this rule, because that conversation did not take place in this world, but in the Heavens. (Allah knows best). The third method is mentioned in the verse as أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا |"that He sends a messenger|" (42:51). The messenger could be Jibra&il (علیہ السلام) or any other angel who may carry Allah Ta’ ala&s message, and read it out to the prophet. And this has been the most common way. The whole of Glorious Qur&an has been revealed in this fashion through angels. It should be noted that the word ` wahy& has been explained above to mean infusion in mind or heart only, but this word is often used for all kinds of Divine discourses also, as narrated in a lengthy hadith of Bukhari where the message sent through an angel has also been termed as one kind of ` wahy&. And there are two forms in which the angel carries the message. Sometimes he appears in his original form, and sometimes in the human form. (Allah knows best).
خلاصہ تفسیر اور کسی بشر (کی بحالت موجودہ) یہ شان نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرماوے، مگر (تین طریق سے) یا تو الہام سے (کہ قلب میں کوئی اچھی بات ڈال دے) یا حجاب کے باہر سے (کچھ کلام سنا دے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) نے سنا تھا) یا کسی فرشتہ کو بھیج دے کہ وہ خدا کے حکم سے جو خدا کو منظور ہوتا ہے، پیغام پہنچا دیتا ہے (اس کی وجہ یہ ہے کہ) وہ بڑا عالیشان ہے (اس سے جب تک وہ خود طاقت نہ دے کوئی ہمکلام نہیں ہو سکتا، مگر اس کے ساتھ) بڑی حکمت والا (بھی) ہے (اسی لئے بندوں کی مصلحت سے اس نے کلام کے تین مذکورہ طریقے مقرر فرما دیئے ہیں) اور (جس طرح بشر کے ساتھ ہمارے ہم کلام ہونے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے) اسی طرح (یعنی اس قاعدے کے مطابق) ہم نے آپ کے پاس (بھی) وحی یعنی اپنا حکم بھیجا ہے (اور آپ کو نبی بنایا ہے، اور یہ وحی ایسا ہدایت نامہ ہے کہ آپ کے بےمثل علوم میں اسی کی بدولت ترقی ہوئی، چناچہ اس سے پہلے) آپ کو نہ یہ خبر تھی کہ کتاب (اللہ) کیا چیز ہے اور نہ یہ خبر تھی کہ ایمان (کا مکمل ترین درجہ جو اب حاصل ہے) کیا چیز ہے (گو نفس ایمان نبی کو نبوت سے پہلے بھی حاصل ہوتا ہے) لیکن ہم نے (آپ کو نبوت اور قرآن دیا اور) اس قرآن کو (آپ کے لئے اولاً اور دوسروں کے لئے ثانیاً ) ایک نور بنایا (جس سے آپ کو یہ عظیم علوم اور بلند مرتبہ احوال حاصل ہوئے اور) جس کے ذریعہ سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں (پس اس کے نور عظیم ہونے میں کوئی شبہ نہیں، اب جو اندھا ہی ہو وہ اس نور کے نفع سے محروم بلکہ اس کا منکر ہے، جیسے یہ معترضین) اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ (اس قرآن اور وحی کے ذریعہ سے عام لوگوں کو) ایک سیدھے رستہ کی ہدایت کر رہے ہیں، یعنی اس خدا کے رستہ کی کہ اسی کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے (آگے ان احکام کے ماننے اور نہ ماننے والوں کی جزا و سزا کا ذکر ہے کہ) یاد رکھو سب امور اسی کی طرف رجوع ہوں گے (پس وہ سب پر جزا و سزا دے گا) ۔ معارف و مسائل مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت یہود کے ایک معاندانہ مطالبہ کے جواب میں نازل ہوئی ہے۔ جیسا کہ بغوی اور قرطبی وغیرہ نے لکھا ہے کہ یہود نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہم آپ پر کیسے ایمان لے آئیں جبکہ آپ نہ خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہیں اور نہ اس سے بالمشافہ کلام کرتے ہیں جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کلام کرتے اور اللہ تعالیٰ کو دیکھتے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، جس کا حاصل یہ ہے کہ کسی انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بالمشافہ کلام کرنا اس دنیا میں ممکن نہیں۔ خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی بالمشافہ کلام نہیں سنا بلکہ پس پردہ صرف آواز سنی۔ اس آیت میں یہ بھی بتلا دیا گیا کہ کسی بشر سے اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے کی صرف تین صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک وحیاً یعنی کسی مضمون کو قلب میں ڈال دینا۔ یہ جاگتے ہوئے بھی ہوسکتا ہے اور نیند میں بصورت خواب بھی، جیسا کہ بہت سی احادیث میں منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، القی فی روعی۔ یعنی یہ بات میرے دل میں القاء کرگئی ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔ ان میں شیطانی تصرف نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں عموماً الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتے۔ صرف ایک مضمون قلب میں آتا ہے جس کو وہ اپنے الفاظ میں تعبیر کرتے ہیں۔ دوسری صورت : (آیت) مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ ہے، یعنی جاگتے ہوئے کوئی کلام پس پردہ سنے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر پیش آیا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام سنا مگر زیارت نہیں ہوئی اس لئے زیارت کی درخواست کی (آیت) رب ارنی انظر الیک، جس کا جواب نفی میں دیا گیا، لن ترانی۔ اور یہ حجاب جو انسان کو دنیا میں حق تعالیٰ کی زیارت سے مانع ہے وہ کوئی ایسی چیز نہیں جو حق تعالیٰ کو چھپا سکے، کیونکہ اس کے نور محیط کی کوئی شے چھپا نہیں سکتی۔ بلکہ انسان کی قوت بینائی کا ضعف ہی اس کے لئے زیارت حق کے درمیان حجاب ہوتا ہے۔ اسی لئے جنت میں جبکہ اس کی بینائی قوی کردی جائے گی تو وہاں ہر جنتی حق تعالیٰ کی زیارت سے مشرف ہوگا۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ کی تصریح کے مطابق اہل سنت وا لجماعت کا مذہب ہے۔ یہ قانون جو آیت مذکورہ میں ارشاد ہے، دنیا کے متعلق ہے کہ دنیا میں کوئی انسان اللہ تعالیٰ سے کلام مشافہتاً یعنی بےحجاب نہیں کرسکتا۔ اور انسان کی تخصیص کلام میں اس لئے ہے کہ گفتگو انسان ہی کے متعلق تھی۔ ورنہ ظاہر یہ ہے کہ فرشتوں سے بھی اللہ تعالیٰ کا کلام بالمشافہتہ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ ترمذی کی روایت میں جبرائیل (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ میں بہت قریب ہوگیا تھا اور پھر بھی ستر ہزار حجاب رہ گئے تھے۔ اور شب معراج میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق تعالیٰ سے بالمشافہ کلام اگر ثابت ہوجائے جیسا کہ بعض علماء کا قول ہے تو وہ اس کے منافی نہیں، کیونکہ وہ کلام اس عالم میں نہیں تھا، عالم سموٰت میں تھا۔ واللہ اعلم۔ تیسری صورت : اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا ہے۔ یعنی کسی فرشتہ جبرائیل وغیرہ کو اپنا کلام دے کر بھیجا جائے وہ رسول کو پڑھ کر سنا دے۔ اور یہی طریقہ عام ہے، قرآن مجید پورا اسی طرح بواسطہ ملائکہ نازل ہوا ہے۔ مذکورہ تفصیل میں لفظ وحی کو صرف القاء فی القلب کے معنی میں لیا گیا ہے مگر اکثر یہ لفظ تمام اقسام کلام ربانی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث میں جو وحی آتی ہے اس کی بھی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ کبھی تو فرشتہ اپنی اصلی ہئیت میں ہوتا ہے کبھی بشکل انسانی سامنے آتا ہے۔ واللہ سبحانہ، وتعالیٰ اعلم۔