Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 12

سورة الزخرف

وَ الَّذِیۡ خَلَقَ الۡاَزۡوَاجَ کُلَّہَا وَ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡفُلۡکِ وَ الۡاَنۡعَامِ مَا تَرۡکَبُوۡنَ ﴿ۙ۱۲﴾

And who created the species, all of them, and has made for you of ships and animals those which you mount.

جس نے تمام چیزوں کے جوڑے بنائے اور تمہارے لئے کشتیاں بنائیں اور چوپائے جانور ( پیدا کیے ) جن پر تم سوار ہوتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِي خَلَقَ الاْاَزْوَاجَ كُلَّهَا ... And Who has created all the pairs? meaning, of everything that grows in the earth, all kinds of plants, crops, fruits, flowers, etc., and all different kinds of animals. ... وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْفُلْكِ ... and has appointed for you ships, (or vessels), ... وَالاْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُونَ and cattle on which you ride. means, He has subjugated them to you and made it easy for you to eat their meat, drink their milk and ride on their backs. Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) والذی خلق الازواج کلھا : تفسیر کے لئے دیکھیے سورة یٰسین کی آیت (٣٦) کی تفسیر۔ (٢) وجعل لکم من الفلک و الانعام ما ترکبون : اس سے پہلے زمین میں راستے بنانے کا ذکر فرمایا ہے جن کے ذریعے سے لوگ مختلف جگہوں کی طرف اپنی ضروریات کے لئے سفرک رتے ہیں، اب یہ نعمت یاد دلائیک ہ شہروں، میدانوں ، صحراؤں اور پہاڑوں میں سفر کے لئے اللہ تعالیٰ نے چوپائے پیدا فرمائے اور سمندروں میں قریب و دور سفروں کیلئے کشتیاں اور بڑے بڑے جہاز بنائے۔ بقاعی نے ” خلق الازواج کلھا “ کے ساتھ چوپاؤں اور کشتیوں کے ذکر کی بھی ایک مناسبت ذکر فرمائی ہے کہ ” الازواج “ سے ذہن مختلف جوڑوں کی طرف منتقل ہوتا ہے، مثلاً نر اور مادہ، اس لئے یہ واضح کرنے کے لئے کہ ” الازواج “ سے مراد صرف جوڑے ہی نہیں بلکہ وہ تمام اصناف ہیں جن کیا کید وسرے سے مناسبت یا موافقت یا مخالفت ہوتی ہے، جیسے زمین و آسمان، شب و روز، نیک و بد اور جنت و جہنم وغیرہ، اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں اور کشتیوں کا ذکر فرمایا کہ دونوں کی بناوٹ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے، مگر مقصود دونوں سے ایک ہے ” ماترکبون “ یعنی انسان کے لئے بحر و بر میں سواری مہیا کرنا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْ‌كَبُونَ (and has made for you the boats and the cattle that you ride, - 12). There are two kinds of means of transport employed by man - one those vehicles which are made by man himself, and two the animals in whose creation human effort is not involved at all. &Boats& include all kinds of man-made vehicles, and &cattle& include all the animals used for riding. Both these means of transport are great blessings of Allah Ta’ ala. That cattle are Allah&s great blessings is obvious, because despite their being many times stronger than man, Allah Almighty has made them so submissive to him that even a child leads them to wherever he wants through a hatter or mor-string. Similarly the man made vehicles, right from the bicycles to the aeroplanes and the space-crafts are also great blessings of Allah Almighty, because they are, though, made by man apparently, there is no other than Allah Ta’ ala who has provided man with ability and techniques to manufacture them? Allah Almighty, the All-Powerful is the One Who has endowed the human intellect with the power that moulds iron like wax. And besides, all the raw materials used in their manufacturing and their properties are direct creations of Allah Almighty.

(آیت) وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ (اور تمہارے لئے وہ کشیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہو) انسان کی سواریاں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ سواریاں جنہیں انسان اپنی صنعت و حرفت کے ذریعہ خود بناتا ہے اور دوسرے وہ حیوانات جن کی تخلیق میں انسانی صنعت کا کوئی دخل نہیں۔ کشتیاں بول کر سواریوں کی پہلی قسم مراد ہے اور چوپائے سے دوسری قسم۔ بہرحال مقصد یہ ہے کہ انسانی استعمال کی تمام سواریاں، خواہ ان کی تیاری میں انسانی صنعت کو دخل ہو یا نہ ہو، اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ چوپایوں کا نعمت ہونا تو بالکل ظاہر ہے کہ وہ انسان سے کئی گنا زائد طاقتور ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں انسان کے آگے ایسا رام کردیا ہے کہ ایک بچہ بھی ان کے منہ میں لگام یا ناک میں نکیل ڈال کر جہاں چاہتا ہے انہیں لے جاتا ہے۔ اسی طرح وہ سواریاں بھی اللہ کی بڑی نعمت ہیں جن کی تیاری میں انسانی صنعت کو دخل ہے، ہوائی جہاز سے لے کر معمولی سائیکل تک یہ ساری سواریاں اگرچہ بظاہر انسان نے خود بنائی ہیں لیکن ان کی صنعت کے طریقے سمجھانے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے ؟ یہ وہ قادر مطلق ہی تو ہے جس نے انسانی دماغ کو وہ طاقت عطا کی ہے جو لوہے کو موم بنا کر رکھ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی صنعت میں جو خام مواد استعمال ہوتا ہے وہ اس کے خواص و آثار تو براہ راست اللہ تعالیٰ ہی کو تخلیق ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّہَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ۝ ١٢ ۙ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔ فلك الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر . قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع . ( ف ل ک ) الفلک کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔ نعم ( جانور) [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . ( ن ع م ) نعام النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔ ركب الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل/ 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ ) رک ب ) الرکوب کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل/ 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت/ 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢۔ ١٤) اور جس نے نر و مادہ سے تمام اصناف بنائیں اور تمہارے لیے سمندروں میں چلنے کے لیے کشتیاں بنائیں اور چوپائے جیسا کہ اونٹ بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو تاکہ تم ان جانوروں کی پیٹھ پر جم کر بیٹھ جاؤ اور جب تم ان جانروں پر جم کر بیٹھ جاؤ تو اپنے پروردگار کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے ان کو تمہارے لیے مسخر کردیا اور زبان سے کہو کہ وہ ذات پاک ہے جس نے ان چیزوں کو ہمارے بس میں کردیا۔ اور ہم تو ایسے طاقتور نہ تھے جو ان کو اپنے بس میں کرلیتے اور مرنے کے بعد ہم سب کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ { وَالَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّہَا } ” اور وہ کہ جس نے بنائے ہیں تمام مخلوقات کے جوڑے “ { وَجَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الْفُلْکِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْکَبُوْنَ } ” اور تمہارے لیے بنائی ہیں کشتیاں بھی اور چوپائے بھی جن پر تم سواری کرتے ہو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 Pairs here does not imply only pairs of men and women among human beings and of males and females among animals and vegetation, but there are countless other things which the Creator has made as matching partners of each other and by whose coming together and combination new and ever new things come into being in the world. For example, among the elements, some can be combined with others and some cannot be. The combination of these which can combine is resulting into various compositions, e.g. the negative and positive charges in electricity are the matching partners of each other and their mutual attraction is causing wonderful things to happen in the world. If man considers the structure and the mutual relationships and the different forms of cooperation and the results of the combination of this and other countless pairs which Allah has created among countless of His creations. He cannot help testifying to the truth that this great workshop of the world is the creation of one and only one Almighty, AlI-Wise Designer, and is functioning only under His care and control, Only a man of mean intelligence could suppose that all this happened, and is happening, without a Wise Being, or there is the possibility in it of the agency and interference of more gods than one.

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :12 جوڑوں سے مراد صرف نوع انسانی کے زن و مرد ، اور حیوانات و نباتات کے نر و مادہ ہی نہیں ہیں ، بلکہ دوسری بے شمار چیزیں بھی ہیں جن کو خالق نے ایک دوسرے کا جوڑ بنایا ہے اور جن کے اختلاط یا امتزاج سے دنیا میں نئی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں ۔ مثلاً عناصر میں بعض سے جوڑ لگتا ہے اور بعض کا بعض سے نہیں لگتا ۔ جن کا جوڑ ایک دوسرے سے لگتا ہے ، ان ہی کے ملنے سے طرح طرح کی ترکیبیں واقع ہو رہی ہیں ۔ یا مثلاً بجلی میں منفی اور مثبت بجلیاں ایک دوسرے کا جوڑ ہیں اور ان کی باہمی کشش ہی دنیا میں عجیب عجیب کرشموں کی موجب بن رہی ہے ۔ یہ اور دوسرے ان گنت جوڑے جو قسم قسم کی مخلوقات کے اندر اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں ، ان کی ساخت ، اور انکی باہمی مناسبتوں ، اور ان کے تعامل کی گوناگوں شکلوں ، اور ان کے ملنے سے پیدا ہونے والے نتائج پر اگر انسان غور کرے تو اس کا دل یہ گواہی دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ سارا کارخانہ عالم کسی ایک ہی زبردست صانع حکیم کا بنایا ہوا ہے ، اور اسی کی تدبیر سے یہ چل رہا ہے ۔ صرف ایک عقل کا اندھا ہی یہ فرض کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی حکیم کے بغیر ہوا اور ہو رہا ہے ، یا اس میں ایک سے زیادہ خداؤں کی دخیل کاری کا کوئی امکان ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: انسان جن سواریوں پر سواری کرتا ہے، وہ دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ سواریاں جن کے بنانے میں انسان کا کچھ نہ کچھ دخل ہوتا ہے۔ کشتیوں سے اس قسم کی سواریوں کی طرف اشارہ ہے، اور دوسری قسم کی سواریاں وہ ہیں جن کے بنانے میں انسان کا کوئی دخل ہی نہیں ہے، جیسے گھوڑے، اونٹ اور سواری کے دوسرے جانور، چوپایوں سے ان کی طرف اشارہ ہے۔ اور آیت کریمہ کا مقصد یہ ہے کہ دونوں قسم کی سواریاں اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں۔ سواری کے جانور اگرچہ انسان سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں انسان کے اس طرح قابو میں دے دیا ہے کہ ایک بچہ بھی ان کو لگام دے کر جہاں چاہے لیے پھرتا ہے۔ اور جن سواریوں کی صنعت میں انسان کا کچھ دخل ہے۔ مثلاً کشتیاں، جہاز، کاریں، ریلیں وغیرہ، ان کا خام مواد بھی اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی نے انسان کو اتنی سمجھ دی ہے کہ وہ یہ سواریاں بنانے کے قابل ہوا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:12) والذی خلق الازواج کلہا۔ ازواج ، جوڑے۔ ہم مثل چیزیں۔ زوج کی جمع۔ حیوانات کے جوڑے میں سے نر ہو یا مادہ ہر ایک زوج کہتے ہیں اور اسی طرح غیر حوانات میں ہر اس شے کو جو کہ دوسری شے کے قرین ہو خواہ مماثل ہو یا متضاد زوج کہتے ہیں۔ زوج کے معنی یہاں صنف اور نوع کے ہیں۔ الزوج تطلقہ العرب علی الصنف (اضواء البیان) عرب زوج کا اطلاق صنف پر کرتے ہیں۔ الازواج میں اصناف نباتات، نبی آدم اور دیگر مخلوق جس کا علم صرف خدا تعالیٰ ہی کو ہے۔ سب شامل ہیں۔ اور جگہ فرمایا :۔ سبحان الذی خلق الازواج کلہا مما تنبت الارض ومن انفسھم ومما لا یعلمون (36:26) وہ خدا پاک ہے جس نے بنائے جوڑے سب چیز کے اس قسم سے جسے زمین اگاتی ہے اور ان کے اپنے میں سے اور ان چیزوں میں سے جن کا انہیں علم نہیں ہے۔ کلہا : کل منصوب (بوجہ الازواج کی صفت ہونے کے) مضاف ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع الازواج ہے۔ مضاف الیہ۔ سب۔ تمام۔ فائدہ : مخلوقات کی تنویع، تقسیم، تزویج سب اس کے تحت میں آگئی۔ وجعل لکم اور بنائی تمہارے لئے من الفلک کشتی کی قسم سے یعنی کشتیاں جہاز وغیرہ۔ والانعام اور چوپاؤں کی قسم سے یعنی اونٹ ، گھوڑے، گائے وغیرہ۔ ما موصولہ ترکبون مضارع جمع مذکر حاضر۔ رکوب (باب سمع) سے مصدر۔ تم سواری کرتے ہو ۔ تم سوار ہوتے ہو۔ فائدہ : اس میں دریائی زمینی جتنی بھی سواریاں ہیں سب اسی میں داخل ہیں۔ سب کو شامل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5” ازواج ‘ کے معنی جوڑے بھی ہوسکتے ہیں۔ جیسے آدمی اور جانوروں اور درختوں کے جوڑے یعنی نر اور مادہ اور صنفیں بھی جیسے رات اور دن سردی اور گرمی آسمان اور زمین جنت اور دوزخ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے انسان کے عمومی احوال مراد ہوں جیسے خیر و شر، ایمان و کفر نفع و نقصان فقر و غنی اور صحت و سقم وغیرہ

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو ذات حق قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرے گی اسی نے ہی ساری مخلوق کے جوڑے پیدا فرمائے ہیں۔ جوڑوں کا ذکر فرما کر اشارہ دیا کہ جس طرح ہر چیز کے جوڑے ہیں اسی طرح زندگی کے بعد موت اور موت کے بعد زندگی ہے۔ یعنی دنیا کے بعد آخرت ہے۔ قیامت کے دن زندہ ہونے کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ جس ذات نے مردوں کو زندہ کرنا ہے اسی ذات نے ہر چیز کا جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے اور اسی نے انسانوں کے لیے کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر انسان سواری کرتے ہیں۔ اس کا حکم ہے کہ جب تم سواریوں پر سوار ہو تو اپنے رب کے اس انعام کو یاد کرو کہ اسی نے چوپاؤں اور کشتیوں کو تمہارے تابع کیا ہے۔ جب تم ان پر اچھی طرح بیٹھ جاؤ تو یہ دعا پڑھو ! وہ ذات ہر قسم کے شرک اور کمزوریوں سے پاک ہے جس نے ہمارے لیے انہیں مسخر کردیا ہے ورنہ انہیں تابع کرنا ہمارے بس کی بات نہ تھی۔ اور یقیناً ہم اپنے رب کی طرف ہی منتقل ہونے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب سے انسان کو تخلیق فرمایا ہے اس وقت سے ہی اس کی آمدروفت اور باربرداری کے لیے چوپاؤں کو پیدا کیا اور پھر انسان کو کشتی بنانے کا شعور بخشا۔ ابتداء آفرینش سے لے کر اب تک ذرائع مواصلات میں سب سے آسان ذریعہ چوپائے ہیں۔ جن پر نہ صرف انسان سواری کرتا ہے بلکہ ان کے گوشت سے دیگر فوائد بھی حاصل کررہا ہے۔ چوپاؤں پر غور فرمائیں ! کہ اونٹ اپنی قدو قامت اور جسامت کے اعتبار سے انسان سے کتنا بڑا ہے مگر ایک چھوٹا سا بچہ اسے نکیل ڈالے جہاں چاہتا ہے لیے پھرتا ہے۔ سینکڑوں اونٹوں پر مشتمل ریوڑ کو ایک دو آدمی جہاں چاہتے ہیں ہانک کرلے جاتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں کے ذہنوں میں انسان کی برتری اور تابعداری پیدا کردی ہے۔ ہاتھی کو دیکھیں ! کتنا بڑا جانور، کس قدر لمبی سونڈ ہے مگر ایک فیل بان بیشک وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو ہاتھی کو ادھراُدھر لیے پھرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انہیں انسان کے تابع نہ کرتا تو دس آدمی مل کر بھی ہاتھی پر قابو نہ پاسکتے تھے۔ پھر غور کیجیے ! کہ سائیکل سے لے کر ہوائی جہاز کی تکنیک انسان کے شعور میں کس نے پیدا کی ؟ نہ معلوم ! قیامت تک اللہ تعالیٰ انسان کے ذریعے کون کونسی ایجادات معرض وجود میں لائے گا۔ انسان کو چاہیے کہ جونہی سواری پر براجمان ہو تو وہ سنت نبوی کے مطابق دعائیں پڑھے۔ جس میں رب کا شکر بھی ہے اور اس کی طرف سے حفاظت کا بندوبست بھی۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بسم اللہ کہہ کر رکاب میں پاؤں رکھا، پھر سوار ہونے کے بعد فرمایا ” اَلْحَمْدُ الِلّٰہِ ، سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِےْنَ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ پھر تین مرتبہ ” اَلْحَمْدُ الِلّٰہِ “ اور تین دفعہ ” اَللّٰہُ اَکْبَرُ “ کہا، پھر فرمایا ” سُبْحَانَکَ “ لَااِلٰہَ اِلَّا اَ نْتَ “ قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ “ اس کے بعد آپ ہنس دئیے، میں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کس بات پر ہنسے ہیں ؟ فرمایا، بندہ جب ” ربِّ اغْفِرْلِیْ “ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت اچھی لگتی ہے وہ فرماتا ہے کہ میرا یہ بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا اسے کوئی بخشنے والا نہیں۔ (رواہ الترمذی : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَکِبَ النَّاقَۃَ ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے کشتیاں اور چوپائے اس لیے بنائے تاکہ لوگ ان پر سوار ہوسکیں۔ ٣۔ سواری پر بیٹھ کر اپنے رب کو یاد کرنا چاہیے اور یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ ٤۔ ہر کسی نے اپنے رب کے پاس جانا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر قسم کے نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں کے شرک سے پاک اور برتر ہے۔ (النحل : ١) ٢۔ اللہ نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ شریکوں سے بلند وبالا ہے۔ (النمل : ٣) ٣۔ اللہ غائب اور حاضر کو جاننے والا ہے اور وہ شریکوں کی شراکت سے بلند وبالا ہے۔ (المومنون : ٩٢) ٤۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ اللہ تعالیٰ مشرکوں کے شرک سے بالا تر ہے۔ (النمل : ٦٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا ﴿ وَ الَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا ﴾ (اور وہی ذات ہے جس نے مخلوق میں طرح طرح کے انواع و اقسام پیدا فرما دئیے) مذکر بھی ہیں مونث بھی ہیں میٹھی چیزیں بھی ہیں اور کھٹی بھی، سفید بھی ہیں اور سیاہ بھی، اوپر بھی ہیں اور نیچے بھی، دائیں جانب بھی ہیں اور بائیں جانب بھی وغیرہ وغیرہ۔ ﴿وَ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَ الْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَۙ٠٠١٢﴾ (اور اس نے کشتیاں اور سواریاں پیدا فرمائیں جن پر تم سوار ہوتے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” والذی خلق الازواج۔ الایۃ “ اسی ہی نے مخلوق کی یہ تمام انواع و اقسام پیدا کی ہیں، جو رنگ میں، بو میں، ذائقے میں اور جنس میں مختلف اور گوناگوں ہیں۔ قال ابن عباس جانور پید اکیے تاکہ تم خشکی اور تری کا سفر آرام اور آسانی سے کرسکو۔ ان تمام افعال وصفات میں اللہ تعالیٰ یکتا اور منفرد ہے اور وہی تنہا متصرف و کارساز ہے، اس لیے کوئی اس کا نائب نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) اور جس نے تمام چیزوں کی مختلف قسمیں بنائیں اور ہر چیز کے جوڑے بنائے اور تمہارے لئے وہ کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ یعنی حیوانات میں اور نباتات میں جوڑے یعنی اصناف اور ایک دوسرے کا جواب اور کشتی اور بڑے چوپائے جو سواری کے کام آتے ہیں۔