Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 23

سورة الزخرف

وَ کَذٰلِکَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ اِلَّا قَالَ مُتۡرَفُوۡہَاۤ ۙ اِنَّا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤی اُمَّۃٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤی اٰثٰرِہِمۡ مُّقۡتَدُوۡنَ ﴿۲۳﴾

And similarly, We did not send before you any warner into a city except that its affluent said, "Indeed, we found our fathers upon a religion, and we are, in their footsteps, following."

اسی طرح آپ سے پہلے بھی ہم نے جس بستی میں کوئی ڈرانے والا بھیجا وہاں کے آسودہ حال لوگوں نے یہی جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ( ایک راہ پر اور ) ایک دین پر پایا اور ہم تو انہی کے نقش پا کی پیروی کرنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And similarly, We sent not a warner before you to any town (people) but the luxurious ones among them said: "We found our fathers following a certain way and religion, and we will indeed follow their footsteps." Then He says: قَالَ أَوَلَوْ جِيْتُكُم بِأَهْدَى مِمَّا وَجَدتُّمْ عَلَيْهِ ابَاءكُمْ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] تقلید آباء کے مؤید مترفین کا طبقہ ہوتا ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تقلید آباء کے سب سے زیادہ مؤید اور اس پر اصرار کرنے والے کھاتے پیتے لوگ ہوتے ہیں یعنی جو آسودہ حال اور چودھری قسم کے لوگ ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ رسول کی بات مان لیں تو انہیں اپنی اس چودھراہٹ کے منصب سے نیچے اتر کر عام لوگوں کی صف میں شامل ہونا اور رسول کا مطیع بن کر رہنا پڑتا ہے۔ اور اس کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ رسول ان کے کسب معاش کے طریقوں پر بھی کئی طرح کی پابندیاں لگاتا ہے۔ مال و دولت کے کمانے پر بھی اور اس کے خرچ کرنے پر بھی۔ اگر یہ پابندیاں گوارا کرلیں تو ان کی آسودہ حالی ہی خطرہ میں پڑجاتی ہے۔ لہٰذاوہ اپنی عاقبت اسی میں سمجھتے ہیں کہ تقلید آباء پر ڈٹ جائیں اور عوام کو اپنے ساتھ ملائے رکھیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وکذلک ما ارسلنا من قبلک فی قریۃ…: اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ اس سفاہت و حماقت میں یہی لوگ مبتلا نہیں، بلکہ ان سے پہلے لوگ بھی اپنے رسولوں کو یہی کہتے چلے آئے ہیں، اس لئے آپ ان کی باتوں پر صبر کریں۔ (٢) مفسر کیلانی لکھتے ہیں :” اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تقلید ابٓاء کے سب سے زیادہ موید اور اس پر اصرار کرنے والے کھاتے پیتے یعنی آسودہ حال اور چودھری قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ رسول کی بات مان لیں تو انھیں اپنی اس چودھراہٹ کے منصب سے نیچے اتر کر عام لوگوں کی صف میں شامل ہونا اور رسول کا مطیع بن کر رہنا پڑتا ہے اور اس کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ رسول ان کے کسب معاش کے طریقوں پر بھی کئی طرح کی پابندیاں لگاتا ہے، مال و دولت کمانے پر بھی اور اس کے خرچ کرنے پر بھی۔ اگر وہ یہ پابندیاں قبول کرلیں تو ان کی آسودہ حلای ہی خطرے میں پڑجاتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنی عاقبت اس میں سمجھتے ہیں کہ تقلید آباء پر ڈٹ جائیں اور عوام کو اپنے ساتھ ملائے رکھیں۔ “ (تیسیرا القرآن)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ قَرْيَۃٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْہَآ۝ ٠ ۙ اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ۝ ٢٣ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ ترف التُّرْفَةُ : التوسع في النعمة، يقال : أُتْرِفَ فلان فهو مُتْرَف . أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون/ 33] ، وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود/ 116] ( ت ر ف) الترفۃ ۔ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ اترف فلان فھو مترف وہ آسودہ حال اور کثرت دولت کی وجہ سے بدمست ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون/ 33] اور دنیا کی زندگی میں ہم نے اس کو آسودگی دی رکھی تھی ۔ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود/ 116] اور جو ظالم تھے و ہ ان ہی باتوں کے پیچھے لگے رہے ۔ جن میں عیش و آرام تھا ۔ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جیسا کہ آپ کی قوم کہہ رہی ہے اسی طرح ہم نے کسی بستی والوں کے پاس کوئی نبی نہیں بھیجا مگر وہاں کے خوش حال سرکشوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے بڑوں کو اسی طریقے پر پایا ہے اور ہم ان کے طریقے اور ان کے پیچھے پیچھے چلے جارہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ { وَکَذٰلِکَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّذِیْرٍاِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْہَآ } ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) اسی طرح ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کسی بستی میں کسی خبردار کرنے والے کو مگر اس کے خوشحال لوگوں نے یہی کہا “ { اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَآئَ نَا عَلٰٓی اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ } ” کہ ہم نے پایا ہے اپنے آباء و اَجداد کو ایک راستے پر اور اب ہم ان ہی کے نقش ِقدم کی اقتدا کر رہے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 Here, the point worth consideration is why the well-to-do people of every community only have resisted the Prophets and upheld the imitation of their forefathers in every age. Why have they alone been in the forefront to oppose the Truth and to endeavor to maintain the established falsehood and to beguile and incite the common people against them ? Its basic causes were two: (1) The well to-do and affluent people are so absorbed in making and enjoying the world of their own that they are not inclined to bother themselves about the useless debate (as they assume it to be) between the Truth and falsehood. Their love of ease and mental lethargy renders them so heedless of religion and conservative that they want the established order, no matter whether it is based on truth or falsehood, to retrain in force so that they do not have to take the trouble of thinking about the new order at all for themselves. (2) Their interests become so dependent on the established order that when they get the first glimpse of the order presented by the Prophets they start feeling that if it came, it would not only put an end to their leadership but also would deprive them of the freedom to consume the lawful and commit the unlawful. (For further details, sec AI-An`am: 103; Al-A'raf: 66-70. 75, 88 109, 127; Hud: 27-28; Bani Isra`il : 16; AI-Mu'minun: 24-33, 46; Saba: 34 and the corresponding E.N.'s).

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :23 یہ بات قابل غور ہے کہ انبیاء کے مقابلے میں اٹھ کر باپ دادا کی تقلید کا جھنڈا بلند کرنے والے ہر زمانے میں اپنی قوم کے کھاتے پیتے لوگ ہی کیوں رہے ہیں ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ وہی حق کی مخالفت میں پیش پیش اور قائم شدہ جاہلیت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں سرگرم رہے ، اور وہی عوام کو بہکا اور بھڑکا کر انبیاء علیہم السلام کے خلاف فتنے اٹھاتے رہے ؟ اس کے بنیادی وجوہ دو تھے ۔ ایک یہ کہ کھاتے پیتے اور خوشحال طبقے اپنی دنیا بنانے اور اس سے لطف اندوز ہونے میں اس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ حق اور باطل کی ، بزعم خویش ، دور از کار بحث میں سر کھپانے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ ان کی تن آسانی اور ذہنی کاہلی انہیں دین کے معاملے میں انتہائی بے فکر ، اور اس کے ساتھ عملاً قدامت پسند ( Conservative ) بنا دیتی ہے تاکہ جو حالت پہلے سے قائم چلی آ رہی ہے وہی ، قطع نظر اس سے کہ وہ حق ہے یا باطل ، جوں کی توں قائم رہے اور کسی نئے نظام کے متعلق سوچنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے ۔ دوسرے یہ کہ قائم شدہ نظام سے ان کے مفاد پوری طرح وابستہ ہو چکے ہوتے ہیں ، اور انبیاء علیہم السلام کے پیش کردہ نظام کو دیکھ کر پہلی ہی نظر میں وہ بھانپ جاتے ہیں کہ یہ آئے گا تو ان کی چودھراہٹ کی بساط بھی لپیٹ کر رکھ دی جائے گی اور ان کے لیے اکل حرام اور فعل حرام کی بھی کوئی آزادی باقی نہ رہے گی ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، الانعام ، حاشیہ ۹۱ ، جل دوم ، الاعراف ، حواشی ٤٦ ۔ ۵۳ ۔ ۵۸ ۔ ۷٤ ۔ ۸۸ ۔ ۹۲ ، ہود ، حواشی ۳۱ ، ۳۲ ، ٤۱ ، بنی اسرائیل ، حاشیہ۱۸ ، جلدسوم ، المومنون ، حواشی ۲٦ ۔ ۲۷ ۔ ۳۵ ۔ ۵۹ ، جلد چہارم ، سبا ، آیت ۳٤ ، حاشیہ۵٤ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:23) وکذلک۔ واؤ عاطفہ ک حرف تشبیہ ذلک اسم اشارہ واحد مذکر ۔ اشارہ ہے آباء پرستی۔ جمود اور تقلید پسندی کی طرف۔ نذیر۔ صفت مشبہ مجرور۔ نکرہ ۔ ڈرانے والا۔ نذر جمع۔ نذر۔ نذر باب سمع مصدر۔ قرآن مجید میں نذیر (ڈرانے وال) سے مراد ہے نافرمانوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا۔ مترفوھا : مترفوا اصل میں مترفون تھا۔ اضافت کی وجہ سے نون اعرابی گرگیا۔ مضاف ہے ھا ضمیر واحد مؤنث غائب مضاف الیہ۔ ھا کا مرجع قریۃ ہے۔ مترفون جمع مذکر اسم مفعول۔ وہلوگ جن کو عیش و آرام اور فراغت زندگی دی گئی۔ امیر اور فارغ البال۔ اتراف (افعال) مصدر۔ عیش دینا۔ آرام دینا۔ مقتدون : اسم فاعل جمع مذکر۔ مقتدی واحد۔ اقتداء (افتعال) مصدر پیروی کرنے والے۔ پیچھے پیچھے چلنے والے۔ نقل کرنے والے۔ اقتداء کرنے والے۔ مقتدی جس کی پیروی کی جائے۔ نیز ملاحظہ ہو آیت 22 متذکرۃ الصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 باطل اور ناحق باتوں ( رسوم و بدعات) میں بڑوں اور بزرگوں کی اقتدار کو دلیل بنانا وہ گمراہی ہے جو قدیم زمانے سے چلی آتی ہے اور کفار کا شیوہ رہا ہے کہ وہ انبیا ( علیہ السلام) کے مقابلہ میں اس کو بطور دلیل پیش کرتے چلے آئے ہیں۔ قرآن نے متعدد آیات میں اس کی مذمت کی ہے۔ معلوم ہوا کہ جس بات میں اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی سند نہ ہو اس میں باپ دادا یا کسی بزرگ کی تقلید کرنا اور یہ کہنا کہ ہمارے بزرگ چونکہ ایسا کرتے ہی چلے آئے ہیں ہم بھی اسی راہ پر چلیں گے، سراسر باطل ہے۔ (فتح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح کے بہانے مشرکین مکہ پیش کرتے تھے۔ اسی طرح کے بہانے پہلے لوگوں نے اپنے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے سامنے پیش کیے۔ بہانے پیش کرنے والوں میں سر فہرست ان کا مال دار طبقہ تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کے اطمینان کی خاطر بتلایا گیا کہ آپ سے پہلے جس بستی میں بھی رسول مبعوث کیا گیا وہاں کے سرمایہ دار طبقہ نے اپنے نبی کے سامنے یہی بہانہ پیش کیا کہ ہم اسی راستے پر چلتے رہیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ہم اپنے بزرگوں کا مذہب اور کلچر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہر قوم کے نبی نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے بہترین راہنمائی لایا ہوں۔ کیا پھر بھی تم اپنے باپ دادا کے دین اور رسم و رواج کو اپنائے رکھو گے ؟ ان لوگوں نے کھلے الفاظ میں کہا ہاں ہم تمہاری بات اور طریقے کا انکار ہی کرتے رہیں گے۔ جب یہ لوگ ایک حد سے آگے بڑھ گئے اور انہوں نے اپنے پیغمبر کا رہنا سہنا محال کردیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بغاوت کا انتقام لیا۔ تاریخ کے اوراق اور ان قوموں کے آثار دیکھو ! انبیاء ( علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ ان آیات میں یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ ہر قوم کے مال دار طبقہ کی اکثریت ایسی ہی ہوتی ہے جو باطل تحریکوں اور تنظیموں کی اس لیے بشت پنا ہی کرتی ہے تاکہ وہ اپنے سے پہلے لوگوں کی تہذیب اور رسومات کا بہانہ بنا کر اپنی عیش و عشرت کو جاری رکھ سکیں یہی کچھ اہل مکہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کررہے تھے اور یہی ہر دور میں ہوتا آرہا ہے۔ مسائل ١۔ مال دار طبقہ کی اکثریت نے ہر دور کے نبی کی مخالفت کی ہے۔ ٢۔ بالخصوص مال دار طبقہ باطل تحریک اور تہذیب و تمدن کی حمایت کرتا ہے۔ ٣۔ بڑے لوگوں کی اکثریت نے ہمیشہ سے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا انکار کیا ہے۔ ٤۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں سے اللہ تعالیٰ نے انتقام لیا۔ تفسیر بالقرآن بے دین مال دار طبقہ کا کردار اور انجام : ١۔ مالدار بخل کو اپنے لیے اچھا خیال کرتے ہیں حالانکہ وہ ان کے لیے برا ہے۔ (آل عمران : ١٨٠) ٢۔ جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ کسی بستی کو ہلاک کریں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر وہ اس میں فسق و فجور کرتے ہیں تو اس بستی پر بات ثابت ہوجاتی ہے پھر ہم اسے بری طرح برباد کردیتے ہیں۔ (بنی اسرائیل : ١٦) ٣۔ جب بھی ہم نے کسی بستی میں رسول بھیجا تو مالدار لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے۔ (الزخرف : ٢٣) ٤۔ کبھی ایسا نہیں ہوا ہم نے کسی بستی میں رسول بھیجا ہو اور اس کو مالدار طبقے نے نہ جھٹلایا ہو۔ ( سبا : ٣٤) ٥۔ جو کچھ زمین میں ہے وہ باعث آزمائش ہے۔ (الکہف : ٧) ٦۔ دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلے میں قلیل اور حقیر ہے۔ (التوبۃ : ٣٨) ٧۔ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا ہے۔ (العنکبوت : ٦٤) ٨۔ دنیا کی زندگی دھوکے کا سامان ہے۔ (آل عمران : ١٨٥) ٩۔ لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے ہیں حالانکہ دنیا کی زندگی معمولی فائدہ ہے۔ (الرعد : ٢٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” وکذلک ما ارسلنا۔ الایۃ “ یہ متعلق بہ شکوی ہے اور تخویف دنیوی کی تمہید ہے۔ گذشتہ امتوں کا حال بعینہ مشرکین مکہ کی طرح ہے کہ ان کے پاس جو بھی اللہ کی طرف سے اللہ کی توحید کا داعی آیا، اسے یہی جواب دیا گیا۔ جب اللہ کا پیغمبر انہیں توحید کی دعوت دیتا اور اس کے عذاب سے ڈراتا، تو دولت و طاقت کے نشے میں مست، سرکش اور معاند طبقہ ان کی دعوت کے جواب میں کہتا، تیری بات تو ہم ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں، ہم نے اپنے باپ دادا کو جس دین اور طریقے پر پایا ہے ہم اسی کی پیروی کریں گے اور اسی راہ پر گامزن رہیں گے۔ ” قال اولو جئتکم “ اس کے جواب میں پیغمبر (علیہ السلام) انہیں کہتے : میں تمہارے سامنے ایک ایسا دین پیش کر رہا ہوں جو تمہارے باپ دادا کے دین سے اچھا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت و رہنمائی کے عین مطابق ہے، تو کیا پھر تم اس کے مقابلے میں اپنے باپ دادا کے جھوٹے دین ہی کو مانو گے ؟ تو اس کے جواب میں مشرکین نہایت سرکشی اور بیباکی سے کہتے جو دین تم لے کر آئے ہو اس کو ہم کسی حال میں بھی نہیں مانیں گے اور اس کا تو ہم انکار ہی کریں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(23) اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے خوش عیش لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک راہ پایا ہے اور ہم بھی انہی کے نشانہائے قدم پر ان کی پیروی اور اقتداء کررہے ہیں۔ یعنی یہ بات جو کفار مکہ کہہ رہے ہیں یہ اوپر سے ہوتی چلی آئی ہے جب آپ سے پہلے کسی بستی میں کوئی پیغمبر ہم نے بھیجا ت وہاں کے مرفہ الحال لوگوں نے پہلے اور ان کو دیکھا دیکھی ان کے ماتحت لوگوں نے یہی کہا کہ ہمارے باپ دادا جو کرتے تھے ہم انہی کے نشانہائے قدم کی پیروی کرتے رہیں گے اس پر ہر آنے والے پیغمبر نے ان کو سمجھایا۔