Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 40

سورة الزخرف

اَفَاَنۡتَ تُسۡمِعُ الصُّمَّ اَوۡ تَہۡدِی الۡعُمۡیَ وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۴۰﴾

Then will you make the deaf hear, [O Muhammad], or guide the blind or he who is in clear error?

کیا پس تو بہرے کو سنا سکتا ہے یا اندھے کو راہ دکھا سکتا ہے اور اسے جو کھلی گمراہی میں ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Can you make the deaf to hear, or can you guide the blind or him who is in manifest error? means, `that is not up to you. All you have to do is convey the Message, but you do not have to guide them. Allah guides whomsoever He wills and sends astray whomsoever He wills, and He is Wise and Just in doing so.' Allah's Vengeance upon the Enemies of His Messenger will surely come to pass Allah further says: فَإِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُم مُّنتَقِمُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 یعنی جس کے لئے شقاوت ابدی لکھ دی گئی، وہ وعظ نصیحت کے اعتبار سے بہرہ اور اندھا ہے دعوت و تبلیغ سے وہ راہ راست پر نہیں آسکتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٠] یعنی آپ اپنی تمام تر توجہ ان لوگوں کی طرف مبذول کیجئے جو ہدایت کے خواہشمند ہیں یا جو اسلام لاچکے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو اللہ کا کلام سننا ہی نہیں چاہتے اور اندھے بہرے بنے ہوئے ہیں۔ انہیں راہ راست پر لانا یا نہ لانا آپ کا کام نہیں۔ آپ ان کی فکر چھوڑ دیجئے جو اپنے آپ کو اللہ کے عذاب کا مستحق بنا رہے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

افانت تسبح الصم …رحمن کے ذکر سے دانستہ آنکھیں بند کرنے کی سزا شیطان کو ایسے لوگوں کا ساتھی بنانے کی صورت میں دی جاتی ہے جو انھیں راہ حق سے اس طرح روکتےیں کہ وہ حق سننے سے بہرے اور اس کی نشانیاں دیکھنے سے اندھے ہوجاتے ہیں۔ اس آیت سے مقصود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ ان کافروں کے ایمان نہ لانے پر آپ غمزدہ نہ ہوں، کیونکہ ایسے لوگوں کو راست پر لے آنا آپس کے بس میں نہیں، آپ ان تک اللہ کا پیغام پہنچاتے رہیں اور ہدایت کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ اَوْ تَہْدِي الْعُمْيَ وَمَنْ كَانَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝ ٤٠ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ صمم الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی: صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ، ( ص م م ) الصمم کے معنی حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله : الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة/ 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] . الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة/ 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک عمی العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ( ع م ی ) العمی ٰ یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة/ 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ مبینبَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے محمد کیا آپ ایسے بہرے کافر کو حق و ہدایت کی بات سنا سکتے ہیں یا ایسے اندھے کافر کو کہ وہ حق و ہدایت کو دیکھے یا ایسے لوگوں کو جو صریح کفر میں گرفتار ہیں آپ ان کو ہدایت پر نہیں لاسکتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠{ اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ اَوْ تَہْدِی الْعُمْیَ وَمَنْ کَانَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ } ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) کیا آپ بہروں کو سنائیں گے یا آپ اندھوں کو راہ دکھائیں گے ‘ اور ان کو جو کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36 It means to say: "Pay attention to those who are inclined to listen and have not closed their eyes to the realities, and do not consume yourself in showing the way to the blind and making the deaf to hear, nor consume yourself with the grief as to why your near and dear ones are not coming to the right path, and why they are making themselves worthy of Allah's torment."

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :36 مطلب یہ ہے کہ جو سننے کے لیے تیار ہوں اور جنہوں نے حقائق کی طرف سے آنکھیں بند نہ کر لی ہوں ، ان کی طرف توجہ کرو ، اور اندھوں کو دکھانے اور بہروں کو سنانے کی کوشش میں اپنی جان نہ کھپاؤ ، نہ اس غم میں اپنے آپ کو گھلاتے رہو کہ تمہارے یہ بھائی بند کیوں راہ راست پر نہیں آتے اور کیوں اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:40) افانت۔ استفہام انکاری تعجبی ہے اس کی تین صورتیں بیان کی ہیں :۔ (1) افانت تسمع الصم کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں ؟ (2) افانت تھدی العمی کیا آپ اندھوں کو راہ دکھا سکتے ہیں ؟ (3) افانت تھدی من کان فی ضلل مبین : کیا آپ ان کو راہ راست دکھا سکتے ہیں جو صریح گمراہی میں ہیں (ومن کان کا عطف العمی پر ہے کیونکہ نابینا ہونا اور گمراہ ہونا دو صفتیں الگ الگ ہیں) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اس سے مقصود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ ان کافروں کے ایمان نہ لانے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غمزدہ نہ ہوں کیونکہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لے آنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بس میں نہیں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان تک اللہ کا پیغام پہنچاتے رہیں اور ہدایت کا معاملہ خود اللہ پر چھوڑدیں۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی ان کی ہدایت آپ کے اختیار سے خارج ہے، آپ درپے نہ ہوں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس شخص پر شیطان مسلّط کردیا جائے وہ برائی کو اچھائی سمجھنے کی وجہ سے اندھا اور بہرا ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقت بڑی واضح ہے کہ جو شخص برائی کو اچھائی سمجھ کر کرتا ہے اسے جس طرح بھی سمجھایا جائے وہ نہ صرف اچھی بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا بلکہ اسے سننا بھی گوارا نہیں کرتا۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ دل کے اندھے پن کی وجہ سے وہ اچھی بات پر غور کرنا اور اسے توجہ کے ساتھ سننا اپنے لیے بوجھ سمجھتا ہے۔ یہی صورت حال اہل مکہ اور اہل کتاب کی غالب اکثریت کی تھی۔ اہل مکہ دین ابراہیم (علیہ السلام) کے نام پر شرک و بدعات کرتے اور اہل کتاب اپنے آپ کو اہل حق سمجھتے تھے۔ ان لوگوں کو جب بھی سمجھایا جاتا تو ان کا رد عمل اندھے اور بہرے لوگوں جیسا ہوتا۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ کیا آپ بہرے شخص کو سنا سکتے ہیں اور اندھے کو راستہ دکھا سکتے ہیں اور اس شخص کو ہدایت دے سکتے ہیں جو پوری طرح گمراہ ہوچکا ہے ؟ گمراہ شخص کی صورت حال بیان کرنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ اگر ہم آپ کو فوت کرلیں تو ان سے ضرور بدلہ لیں گے یا آپ کی زندگی میں وہ کردکھائیں گے جس کا ان کے ساتھ ہم وعدہ کرتے تھے۔ ہم ان سے انتقام لینے پر پوری طرح قدرت رکھتے ہیں۔ اہل مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باربار مطالبہ کرتے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے وہ اب تک کیوں نازل نہیں ہوا ؟ اس کا جواب اس موقع پریوں دیا گیا کہ ہم چاہیں تو آپ کی موت کے بعدان سے بدلہ لیں اور اگر چاہیں تو آپ کی زندگی میں انہیں عذاب میں مبتلا کریں گے۔ دونوں صورتوں میں ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں کیونکہ ہم ان پر ہر اعتبار سے اقتدار اور اختیار رکھتے ہیں۔ ہدایت کے لیے لازم ہے کہ انسان عقل وفکر سے کام لے : (اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ) [ قٓ: ٣٧] ” جو شخص دل سے اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے سنتا ہے اس کے لیے اس میں نصیحت ہے۔ “ (اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَھُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِھَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَا فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِے الصُّدُوْرِ ) [ الحج : ٤٦] ” کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے ؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر سینوں میں دل اندھے ہوجاتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بہرے کو سنا اور اندھے کو راستہ نہیں دکھا سکتے تھے۔ ٢۔ یہاں بہرے اور اندھے سے پہلی مراد سچائی سننے سے بہرا ہونا اور ہدایت پانے سے اندھا ہونا ہے۔ ٣۔ جو شخص برائی کو اچھائی سمجھتا ہے وہ گمراہ ہوچکا ہوتا ہے۔ ٤۔ موت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی مقدر تھی اس لیے آپ وفات پاچکے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو عذاب دینے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو وعدہ فرمایا اسے آپ کی زندگی میں ہی پورا کردیا۔ ٦۔ مشرک اور کافر کو اس کی موت کے بعد بھی سخت عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے قادر مطلق ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن : ٢٩) ٢۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائیگا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ : ١٤٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے معاف کردے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ : ٢٨٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ تمہارا خیر خواہ اور ذمہ دار ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (الشورٰی : ٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ ہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ( الروم : ٥٠) ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (البقرۃ : ٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٤٠ تا ٤٥ قرآن کریم میں یہ مثال باربار دہرائی جاتی ہے۔ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لئے آتی ہے ۔ اور اس کے ذریعہ ہدایت و ضلالت کی حقیقت بھی بتائی جاتی ہے اور اس سلسلے میں اللہ کی مشیت اور قضا و قدر کا جو نظام ہے اس کی طرف بھی اشارہ کردیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ کسی بھی رسول کے فرائض میں یہ شامل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت پر لے آئے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ انسانوں میں سے ایک اعلیٰ ترین جدو جہد کرنے والے انسان یعنی رسول کے کام کی حدود کہاں ختم ہوتی ہیں اور قدرت الٰہیہ اور نظام معیشت کہاں تک ہے۔ اور اس سے عقیدہ توحید کی طرف اشارہ ، بہت ہی لطیف اشارہ کہ وہی کچھ ہوتا جو منظور خدا ہوتا ہے۔ افانت تسمع الصم او تھدی العمی ومن کان فی ضلل مبین (٤٣ : ٤٠) “ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، کیا تم بہروں کو سناؤ گے ، یا اندھوں اور صریح گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کو راہ راست دکھاؤ گے ؟” وہ تو نہ بہرے تھے اور اندھے تھے لیکن بہروں اور اندھوں کی طرح تھے اور گمراہی میں دور چلے گئے تھے ، اور ان پر دعوت اور پکار کا کوئی اثر نہ ہو رہا تھا۔ نہ وہ دلائل ہدایت کو سمجھتے تھے حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ڈیوٹی تو یہ تھی کہ جو سنتا ہے اسے سمجھائیں اور جو دیکھنا چاہے اسے راہ راست دکھائیں۔ جب انہوں نے اپنے یہ اعضا ہی معطل کر دئیے ہیں اور انہوں نے اپنے دل و دماغ کی آنکھیں ہی بند کردی ہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو ہدایت کس طرح دے سکتے ہیں۔ پھر اگر یہ گمراہ ہوتے ہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیا ذمہ داری ہے۔ آپ نے اپنا فرض ادا کردیا۔۔۔۔ اب اللہ کا کام ہے کہ ادائیگی فرض کے بعد ان کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ فاما نذھبن بک فانا منھم متقمون (٤٣ : ٤١) او نرینک الذی ۔۔۔۔۔ علیھم مقتدرون (٤٣ : ٤٢) “ اب تو ہمیں ان کو سزا دینی ہے ، خواہ تمہیں دنیا سے اٹھا لیں ، یا تم کو آنکھوں سے ان کا وہ انجام دکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے ، ہمیں ان پر پوری قدرت حاصل ہے ”۔ بہرحال ان دونوں صورتوں میں سے ایک ضرور پیش آئے گی۔ اگر اللہ نے نبی کو اٹھا لیا تو اللہ اس کے مکذبین سے انتقام لے گا اور اگر آپ کے ہوتے ہوئے وہ بات وجود میں آگئی جس سے ان کو ڈرایا جا رہا ہے تو اللہ اس پر قادر ہے کہ جس بات سے وہ ڈرا رہا ہے ، اس کو وجود میں لائے ۔ وہ تو اللہ کو کسی صورت میں شکست نہیں دے سکتے۔ دونوں حالات میں معاملہ اللہ کی قدرت اور مشیت کے اختیار میں ہے ، اللہ ہی اس دعوت کا مالک ہے۔ رسول تو پیغام پہنچانے والا ہے۔ فاستمسک بالذی اوحی الیک انک علی صراط مستقیم ( ٤٣ : ٤٣) “ تم بہرحال اس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعہ سے تمہارے پاس بھیجی گئی ہے ، یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو ” ۔ آپ جس کام میں لگے ہوئے ہیں ، اس پر جم جائیں اور اپنے راستے پر چلیں ان لوگوں نے جو رویہ اختیار کیا یا آئندہ کریں گے اس کی کوئی پرواہ نہ کریں۔ اپنے راستے پر پوری طرح مطمئن ہو کر چلیں۔ آپ تو یقیناً سیدھے راستے پر ہیں۔ یہ راستہ آپ کو نہ ادھر ادھر لے جائے گا ، نہ اس میں ٹیٹرھ ہے اور نہ وہ اپنی منزل سے دور لے جاتا ہے۔ پھر جس عقیدے اور نظریہ کی آپ تبلیغ کرتے ہیں وہ اس پوری کائنات کی حقیقت کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اللہ اس عام قانون کے ساتھ ہم آہنگ ہے جس پر یہ پوری کائنات قائم ہے۔ یہ نظریہ اس کائنات کے ناموس اکبر کی لائن پر ہے۔ اس سے جدا نہیں ہوتا اور نہ اس سے منقطع ہوتا ہے۔ اور یہ راستہ اپنے راہ رو کو ٹھیک اپنے خالق تک پہنچاتا ہے اور یہ اس قدر سیدھا ہے کہ سفر بھی نہایت ہی خوشگوار رہتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تاکید کی جاتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حقیقت پر جمے رہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے جو داعی ہوں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل ان کے لئے مشعل راہ ہوگا اگرچہ اس راہ کے منحرفین کے ہاتھوں ان کو اذیتیں کیوں نہ مل رہی ہوں۔ وانہ لذکر لک ولقومک وسوف تسئلون (٤٣ : ٤٤) “ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمہارے لیے اور تمہاری قوم کے لئے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم لوگوں کو اس کی جوابدہی کرنی ہو گی ”۔ یہاں اس آیت کے دو مفہوم ہیں کہ یہ قرآن تمہارے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے اور تم سے جلد ہی قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔ لہٰذا اس نصیحت اور یاد دہانی کے بعد تمہارے پاس کوئی حجت نہ رہے گی۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ یہ قرآن تمہارے اور تمہاری قوم کے لئے ایک شرف اور شہرت ہے اور یہ وہ مفہوم ہے جو واقع ہوگیا۔ جہاں تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق ہے تو اربوں ہونٹ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود وسلام بھیجتے ہیں اور رات دن اور صبح و شام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عاشقانہ انداز میں یاد کرتے ہیں اور اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے لے کر قیامت تک اربوں لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود وسلام پڑھتے رہیں گے۔ رہی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم تو جب قرآن آیا تو دنیا میں ان کا نام و نشان نہ تھا۔ اور اگر کچھ تھا تو زندگی کی کتاب پر ایک حاشیے کی شکل میں ، ایک کونے میں۔ یہ یہی قرآن ہے جس کے ذریعے انسانی تاریخ میں عربوں کا ایک عظیم کردار متعین ہوا۔ یہ قرآن ہی تھا جس کی وجہ سے ربع مسکوں ان کے زیر نگیں رہا۔ جب تک انہوں نے قرآن کو سینے سے لگا رکھا تھا اور جب انہوں نے قرآن کو چھوڑا تو دنیا نے ان کو چھوڑ دیا ، وہ دوبارہ حقیر ہوگئے اور پھر ان کو قافلہ انسانیت کی لائن میں سب سے پیچھے پھینک دیا۔ لیکن جب قرآن انہوں نے سینے سے لگایا ہوا تھا تو وہ قافلہ سالار تھے۔۔۔۔ اور یہ ایک عظیم ذمہ داری تھی ، ۔۔۔۔۔ انسانیت کی ذمہ داری اور اس کے بارے میں اللہ عنقریب تم سے جواب دہی کرے گا کہ کیوں تم نے اس منصب کو چھوڑا۔ وسوف تسئلون (٤٣ : ٤٤) “ اور جلد ہی تم سے پوچھا جائے گا ”۔ یہ آخری مفہوم زیادہ جامع و مانع ہے۔ میں اسی کی طرف مائل ہوں۔ وسئل من ارسلنا ۔۔۔۔۔۔ یعبدون (٤٣ : ٤٥) “ تم سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے تھے ان سب سے پوچھ دیکھو کیا ہم نے خدائے رحمٰن کے سوا کچھ دوسرے معبود کئے کہ ان کی بندگی کی جائے ؟ ” اس حقیقت کو قرآن یہاں نہایت ہی منفرد انداز میں پیش کرتا ہے۔ اس صورت میں کہ رسول اللہ سابقہ رسولوں سے پوچھ لیں۔ اجعلنا من دون الرحمن الھۃ یعبدون (٤٣ : ٤٥) “ کیا ہم نے خدائے رحمٰن کے سوا کچھ دوسرے معبود بھی مقرر کئے تھے کہ ان کی بندگی کی جائے ”۔ اور پھر اس سوال کا جواب ہر رسول کی طرف سے قطعی انکار ہے۔ استفہام انکاری کی یہ وصیت نہایت ہی عجیب اور موثر ہے۔ اور یہ اسلوب نہایت ہی پر تاثیر ہے ، یعنی تاریخ سے پوچھو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور انبیائے سابقین کے درمیان تو زمان و مکان کے طویل فاصلے ہیں۔ پھر موت وحیات کے فاصلے بھی بہت طویل ہیں ، آب زندہ ہیں اور انبیائے سابقہ فوت ہوگئے ہیں لیکن یہ تمام فاصلے مٹ جاتے ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ پوری انسانی تاریخ میں رسالت تو ایک ہے ، پیغام ایک ہے اور کلمہ توحید بھی ایک ہے۔ اگرچہ زمان و مکان بعید ہیں۔ حیات اور موت کے درمیان دبیز پردے ہیں لیکن وحدت نبوت ان تمام دوریوں اور پردوں کو مٹا دیتی ہے۔ مردے اور زندہ ایک ہوجاتے ہیں۔ ماضی وحال ایک ہوجاتے ہیں۔ یہ ہے قرآن کریم کا انداز تعبیر جو لطیف اور عجیب ہے۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے برادر دیگر انبیائے کرام اور اللہ کے ساتھ ان کے ربط کو دیکھا جائے تو یہاں قریب و بعید کے فاصلے ختم ہوجاتے ہیں۔ اللہ کے ہاں یہ پردے چشم زدن میں دور ہوجاتے ہیں اور تمام رکاوٹیں اور فاصلے دور ہو کر حقیقت آشکارا ہوجاتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر سوال کرتے ہیں اور انبیاء جواب دیتے ہیں جیسا کہ لیلۃ المعراج میں ہوا۔ ایسے مقامات پر چاہئے کہ ہم اپنی زندگی کے معمولات اور عادات کو اہمیت نہ دیں کیونکہ یہ مالوفات جو ہم دیکھتے ہیں کہ سبب کے بعد مسبب آتا ہے۔ یہ اللہ کے حوالے سے کوئی کلی قواعد نہیں ہیں۔ ہم تو اس کائنات کے بعض آثار ہی کو دیکھ سکتے ہیں اور اس کائنات کے طبیعی حالات کے بھی ایک نہایت ہی معمولی حصے تک پہنچ سکے ہیں۔ کئی ایسے حقائق ہیں جو ہماری ساخت ، ہمارے حواس اور ہمارے مرتب کردہ نتائج سے وراء ہیں۔ جب نفس انسانی ان مالوفات اور طبیعات کے دائرے سے نکل جاتا ہے اور اسے تجرد حاصل ہوجاتا ہے تو پھر ایک مجرد حقیقت تک انسان کا پہنچنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ یہ ادراک پھر اس سے آسان تر ہوتا ہے جس طرح کوئی اپنے ہی جسم سے کسی دوسرے جسم کو چھو کر ادراک کرے۔ ٭٭٭ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے حوالے سے کہ کبرائے قریش نے آپ کی نبوت پر اعتراض کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیوں منتخب کیا گیا ہے ۔ اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتخاب پر ان کا اعتراض صرف دنیا کی کھوٹی اور جھوٹی قدروں کی بنا پر کیا گیا ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حصے کی ایک کڑی لائی جاتی ہے جس میں یہ بتایا گیا کہ آپ کی قوم نے جس طرح اپنے آپ کو بڑا سمجھا ، اسی طرح فرعون نے بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا سمجھا تھا۔ جس طرح انہوں نے کہا۔ لو لا نزل ۔۔۔۔۔۔ عظیم (٤٣ : ٣١) “ یہ قرآن ان دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نہیں اتارا کیا ”۔ اسی طرح فرعون نے بھی اپنی قوت ، حکومت اور مال و دولت پر گھمنڈ کیا تھا اور نہایت فخریہ انداز میں پوچھا تھا : الیس لی ملک ۔۔۔۔۔ تبصرون ( ٤٣ : ٥١) “ لوگو ، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے ، اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آتا ”۔ اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتا تھا وہ محض اپنے دنیاوی مرتبہ و مقام کی بنا پر اور مال و دولت کی بنا پر تھا حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے برگزیدہ بندے اور نبی تھے۔ لیکن وہ دنیاوی اعتبار سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتا تھا : ام انا ۔۔۔۔۔ ولا یکادیبین (٤٣ : ٥٢) “ میں بہتر ہوں یا یہ شخص جو ذلیل و حقیر ہے اور اپنی بات بھی کھول کر بیان نہیں کر سکتا ”۔ اور فرعون کی تجویز اور اہل قریش کی تجویز کس قدر مماثل ہیں۔ فلو لا القی ۔۔۔۔۔۔ مقترنین (٤٣ : ٥٣) “ کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن نہ اتارے گئے یا فرشتوں کا ایک دستہ اس کی اردلی میں نہ آیا ”۔ یہ ایک نسخہ ہے جو بار بار پیغمبروں کے خلاف آزمایا جا رہا ہے۔ بنی بنائی دلیل ہے۔ جو ہر نبی کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ اس کے بعد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ عوام جن کو فرعون نے ذلیل کر کے رکھا ہوا تھا اور پوری طرح دھوکے میں رکھا ہوا تھا ، کس طرح فرعون کی بات پر لبیک کہتے ہیں۔ حالانکہ عوام اور فرعون کے سامنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حیران کن معجزات پیش کئے تھے۔ پھر ان لوگوں پر اور آزمائشیں بھی آئی تھیں اور یہ لوگ دوڑ کر آتے تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کراتے تھے اور اللہ ان مصیبتوں سے ان کو نجات دیتا تھا۔ جب معجزات اور تبلیغ کے ذریعہ ان پر حجت تمام ہوگئی تو ان کا انجام یہ ہوا۔ فلما اسفونا ۔۔۔۔ اجمعین (٤٣ : ٥٥) فجعلنھم سلفنا ۔۔۔۔۔ للاخرین (٤٣ : ٥٦) “ آخر کار جب انہوں نے ہمیں غضبناک کردیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو اکٹھا غرق کردیا اور بعد والوں کے لئے پیش رو اور نمونہ عبرت بنا کر رکھ دیا ”۔ اور دیکھئے ، یہ ہیں بعد میں آنے والے ، نہ عبرت پکڑتے اور نہ نصیحت لیتے ہیں۔ اس پیراگراف کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسالت اور دعوت ایک رہی ہے۔ تمام رسولوں کا منہاج کار ایک رہا ہے ، راستہ ایک رہا ہے۔ اس طرح سرکشوں اور کبراء زمانہ کا رویہ بھی سچائی کے رد عمل میں ایک ہی رہا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ دنیا کی کھوٹی اور جھوٹی قدروں کے زاویہ سے پیغمبروں کو دیکھا اور ہمیشہ جمہور عوام کا رویہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے جن کو کبرا ذلیل کر کے رکھتے ہیں اور پوری انسانی تاریخ اس کی داستان ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ ﴾ (الآیۃ) کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں یا اندھوں کو راہ پر لاسکتے ہیں جو صریح گمراہی میں ہیں اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ جو لوگ بہرے اور اندھے ہیں اور صریح گمراہی میں ہیں آپ انہیں ہدایت پر نہیں لاسکتے یعنی ان کو ہدایت دینا آپ کے اختیار سے خارج ہے اور آپ اپنی دعوت کا کام جاری رکھیں آپ کی اتنی ہی ذمہ داری ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26:۔ ” افانت نسمع “ الایۃ۔ یہ زجر ہے حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کو توحید کی کی دعوت دینے میں انتہائی کوشش فرماتے اور افہام و تفہیم کا ہر ممکن طریقہ اختیار کرتے مگر ان کی طرف سے انکار و جحود کے سوا کچھ بھی ظاہر نہ ہوتا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو لوگ حق سے اعراض کی انتہا کو پہنچ چکے ہوں جن سے مہر جباریت کی وجہ سے حق سمجھنے کی صلاحیتیں ہی سلب کرلی گئی ہوں اور وہ کھلی اور خود اختیار کردہ گمراہی میں مستغرق ہوں، کیا آپ ان کو راہ راست پر لاسکتے ہیں ؟ استفہام انکاری ہے۔ یہ لوگ حق سننے سے بہرے اور دیکھنے سے اندھے ہوچکے ہیں، اس لیے وہ ہدایت کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(40) سو اے پیغمبر کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں یا آپ اندھوں کو اور ان کو جو کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں راہ پر لاسکتے ہیں۔ یعنی جو سماع قبول نہیں رکھتے اور جو ہیے کے اندھے ہیں صریح گمراہی سے وہ لوگ مراد ہیں جن کا گمراہ رہنا مرتے دم تک اللہ کے علم میں ہے۔