Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 45

سورة الزخرف

وَ سۡئَلۡ مَنۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ اَجَعَلۡنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحۡمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعۡبَدُوۡنَ ﴿۴۵﴾٪  10

And ask those We sent before you of Our messengers; have We made besides the Most Merciful deities to be worshipped?

اور ہمارے ان نبیوں سے پوچھو! جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا کہ کیا ہم نے سوائے رحمٰن کے اور معبود مقرر کئے تھے جن کی عبادت کی جائے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And ask whom We sent before you of Our Messengers: "Did We ever appoint gods to be worshipped besides the Most Gracious?" means, `all the Messengers called their people to the same as that to which you are calling mankind, namely the worship of Allah Alone with no partner or associate, and they forbade the worship of idols and false gods.' This is like the Ayah: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَاجْتَنِبُواْ الْطَّـغُوتَ And verily, We have sent among every Ummah (nation) a Messenger (proclaiming): "Worship Allah, and avoid all false deities." (16:36) Mujahid said that Abdullah bin Mas`ud recited it: وَاسْأَلْ الَّذِينَ أَرْسَلْنَا إِ لَيْهِمْ قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا (And ask those whom We sent before you of Our Messengers). This was narrated by Qatadah, Ad-Dahhak and As-Suddi from Ibn Mas`ud, may Allah be pleased with him. Yet this appears to be an explanation rather than an alternate version of recitation. And Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 جواب یقینا نفی میں ہے۔ اللہ نے کسی بھی نبی کو یہ حکم نہیں دیا۔ بلکہ اس کے برعکس ہر نبی کو دعوت توحید کا حکم دیا گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٤] بعد از موت انبیاء کی زندگی کے قائلین اور ان کا رد :۔ اس آیت میں واسْئَلْ کا مطلب اکثر مفسرین نے دو طرح سے بیان کیا ہے ایک یہ کہ ان انبیاء کے وارث علماء یا علمائے بنی اسرائیل سے پوچھ لیجئے۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ ان رسولوں کی کتابوں میں تلاش کرکے دیکھو کہ ان میں کہیں یہ لکھا ہے کہ ہم نے اپنے علاوہ کچھ اور بھی الٰہ بنا دیئے ہیں جن کی عبادت کی جایا کرے۔ لیکن کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو انبیاء و اولیائے کرام کی عرصہ برزخ میں مکمل زندگی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی وہ لوگوں کی پکار سنتے بھی ہیں اور ان کا جواب بھی دیتے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی آگے ان کے تصرف کا یہ حال ہے۔ وہ پکارنے والے کی مشکل کشائی اور حاجت روائی بھی کرتے ہیں۔ چناچہ ایسے ہی ایک صاحب اس آیت کا ترجمہ کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ && اگر انبیاء کرام میں حیات نہ ہوتی۔ وہ خطاب و ندا کو نہ سمجھتے ہوتے اور جواب دینے کی قدرت ان میں نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کو انبیاء و رسل سے دریافت کرنے کا حکم نہ فرماتا && ایسے حضرات چونکہ عموماً بریلوی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا ہم یہاں ترجمہ احمد رضا خان بریلوی (کنزالایمان) پر حاشیہ نمبر ٤٥ از نعیم الدین مراد آبادی درج کرتے ہیں : && رسولوں سے سوال کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان کے ادیان و ملل کی تلاش کرو۔ کہیں بھی کسی نبی کی امت میں بت پرستی روا رکھی گئی ہے ؟ اور اکثر مفسرین نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ مومنین اہل کتاب سے دریافت کرو۔ کیا کسی نبی نے غیر اللہ کی عبادت کی اجازت دی ؟ تاکہ مشرکین پر ثابت ہوجائے کہ مخلوق پرستی نہ کسی رسول نے بتائی نہ کسی کتاب میں آئی۔ یہ بھی ایک روایت ہے کہ شب معراج سید عالم نے بیت المقدس میں تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ جب حضور نماز سے فارغ ہوئے جبرئیل نے عرض کیا کہ اے سرور اکرم ! اپنے سے پہلے انبیاء سے دریافت فرما لیجئے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کسی اور کی عبادت کی اجازت دی ؟ حضور نے فرمایا کہ اس سوال کی کچھ حاجت نہیں یعنی اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ تمام انبیاء توحید کی دعوت دیتے آئے۔ سب نے مخلوق پرستی کی ممانعت فرمائی && ( سورة زخرف کا حاشیہ نمبر ٤٥ از نعیم الدین مراد آبادی) اب دیکھئے اس حاشیہ میں جس روایت کا ذکر ہے وہ غلط معلوم ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سورة زخرف کی یہ آیت واقعہ معراج سے کافی عرصہ بعد نازل ہوئی ہے۔ سورة بنی اسرائیل جس میں واقعہ اسراء کا ذکر ہے، کا ترتیب نزول کے حساب سے نمبر ٥٠ ہے۔ جبکہ سورة زخرف کا ترتیب نزول کے حساب سے نمبر ٦٣ ہے۔ معراج کا واقعہ ہجرت سے ڈیڑھ دو سال پہلے کا ہے۔ جبکہ سورة ہذا اس وقت نازل ہوئی جبکہ کفار آپ کی جان کے درپے تھے۔ جیسا کہ اس سورة کی آیت نمبر ٧٩۔ ٨٠ سے واضح ہے۔ لہذا قبل از نزول آیت مذکورہ جبرئیل کا حضور سے یہ کہنا کہ ان رسولوں سے پوچھ لیجئے اور پھر پوری آیت پڑھ جانا کیسے ممکن ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وسئل من ارسلنا من قبلک من رسلنا…: یہاں ایک سوال ہے کہ پہلے رسول تو فوت ہوچکے، ان سے کس طرح پوچھا جاسکتا ہے ؟ جو اب اس کا یہ ہے کہ رسولوں سے پوچھنے سے مراد ان کی کتابوں سے معلوم کرنا ہے، جیسا کہ اللہ کے فرمان :(فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول) (النسائ : ٥٩) (پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لٹواؤ) کا مطلب اب یہ نہیں کہ اگر تمہارا کسی معاملے میں تنازع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کے پاس لے جاؤ، بلکہ یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف رجوع کرو۔ اسی طرح اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تمام رسولوں کی تعلیمات کا مطالعہ کر کے دیکھ لو، کیا کسی میں یہ بات ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمان کے سوا بھی کوئی ہستیاں مقرر کی ہیں کہ ان کی عبادت کی جائے اور کیا کسی بھی پیغمبر نے شرک کی اجازت دی ہے ؟ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے۔ شرک کے حق میں نہ کوئی عقل دلیل موجود ہے نقلی۔ (دیکھیے احقاف : ٤) آیت سے مقصود قریش کو باور کروانا ہے کہ تمام انبیاء اللہ واحد کی عبادت کے داعی تھے، شرک کسی بھی شریعت میں جائز نہیں رہا، جیسا کہ فرمایا :(وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون) (الانبیائ : ٢٥)” اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔ “ اور جیسا کہ فرمایا :(ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولاً ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت) (النحل : ٣٦)” اور بلاشبہ یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔ “ (٢) بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جب آپ کی انبیاء سے ملاقات ہو، جیسے معراج کی رات ہوئی تو آپ ان سے یہ سوال کریں، مگر قرآن یا حدیث میں کہیں ذکر نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج یا کسی اور موقع پر کسی پیغمبر سے یہ سوال کیا ہو۔ اگر آیت کا یہ مطلب ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے ضرور سوال کرتے۔ کسی ضعیف روایت میں اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغمبروں سے اس سوال کا ذکر مل بھی جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَاسْأَلْ مَنْ أَرْ‌سَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّ‌سُلِنَا (And ask Our messengers whom We sent before you...43:45) A question may arise here: Since all the earlier prophets (علیہم السلام) had expired at the time of the revelation of this verse, how could the Holy Prophet t ask any question from his predecessors? Some exegetes have taken the verse in the sense that if, as a miracle, Allah Ta` ala arranges for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to meet the earlier prophets (علیہم السلام) ، then he should ask them about it. And it is well-established that the Holy Prophet t met all the preceding prophets (علیہم السلام) during the Night of Ascension. ` Allamah Qurtubi quotes some narrations according to which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked them this very thing after leading them in the prayers; but we could not discover the source of these narrations. Most exegetes have, therefore, explained that the verse does not mean to ask the prophets verbally. What is meant by the verse is to consult the divine Scriptures revealed to the earlier prophets, and to ask their learned scholars. And the scriptures of the prophets of Bani Isra&il which are available now, despite so many distortions, contain teachings about &tauhid& (Oneness of Allah) and condemnation of &shirk& (associating others with Allah) even today. For example, some excerpts from the Bible are quoted below: Teachings about Oneness in the Scriptures of the earlier prophets (علیہم السلام) Here are two quotations from the Scriptures claimed by Jews and Christians to be the &Pentateuch& or &Torah&: |"The Lord has shown you this, to prove to you that he alone is God and that there is no other.|" (Deuteronomy, 4:35) and |"Israel, remember this! The Lord-and the Lord alone-is our God. Love the Lord your God with all your heart.|" (Deuteronomy, 6:4) The scripture of Shi` ya (علیہ السلام) (known as Isaiah) says, |"I am the Lord; there is no other god. I will give you the strength you need, although you do not know me. I do this so that everyone from one end of the world to the other may know that I am the Lord and that there is no other god.|" (Isaiah, 45:5, 6) The books claimed by the Christians to be the Gospels contain this statement of Sayyidna Masih (علیہ السلام) (Jesus Christ): |"Listen, Israel! The Lord our God is the only Lord. Love the Lord your God with all your heart, with all your soul, with all your mind, and with all your strength.|" (Mark, 12:29, Matthew 22:36) It is narrated that once Sayyidna Masih (علیہ السلام) (Jesus Christ) said the following words during a supplication: |"And eternal life means knowing you, the only true God, and knowing Jesus Christ, whom you sent.|" (Yuhanna 17:3)[ 1] [ 1] These excerpts are taken from Good News Bible, Today&s English Version, Published by the Bible Societies in 1976. (Muhammad Tagi Usmani)

(آیت) وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ، (آپ ان سب پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے پوچھ لیجئے) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) تو وفات پاچکے، ان سے پوچھنے کا حکم کیسے دیا جا رہا ہے ؟ اس کا جواب بعض مفسرین نے تو یہ دیا ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی معجزہ کے طور پر سابقہ انبیاء (علیہم السلام) سے آپ کی ملاقات کرا دے تو اس وقت ان سے یہ بات پوچھ لیجئے، چناچہ شب معراج میں آپ کی ملاقات تمام انبیاء سے ہوئی اور علامہ قرطبی نے بعض روایات نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے انبیاء (علیہم السلام) کی امامت کرنے کے بعد ان سے یہی بات پوچھی تھی لیکن ان روایات کی سند ہمیں معلوم نہیں ہوسکی چناچہ اکثر مفسرین نے آیت کا مطلب یہ بتایا ہے کہ خود انبیاء (علیہم السلام) سے پوچھنا مراد نہیں بلکہ ان پر نازل ہونے والوں صحیفوں سے تحقیق کرنا اور ان کی امتوں کے علماء سے پوچھنا مراد ہے۔ چناچہ انبیاء بنی اسرائیل کے جو صحیفے اب بھی موجود ہیں ان میں بہت سی تحریفات کے باوجود توحید کی تعلیم اور شرک سے بیزاری کی تعلیم آج تک شامل ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ بائبل کی درج ذیل عبارتیں ملاحظہ فرمائیے۔ انبیاء کے صحیفوں میں توحید کی تعلیم :۔ موجودہ تورات میں ہے : ” تا کہ تو جانے کہ خداوند ہی خدا ہے اور اس کے سوا کوئی ہے ہی نہیں “ (استثناء ٤: ٥٣) اور، ” سن اے اسرائیل، خداوند ہمارا خدا ایک ہی خدا ہے “ (استثناء ٦: ٤) اور حضرت اشعیا (علیہ السلام) کے صحیفہ میں ہے :۔ ” میں ہی خداوند ہوں اور کوئی نہیں، میرے سوا کوئی خدا نہیں، تاکہ مشرق سے مغرب تک لوگ جان لیں کہ میرے سوا کوئی نہیں، میں ہی خداوند ہوں، میرے سوا کوئی دوسرا نہیں “ (یسیعاہ ٥٤: ٥، ٦) اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کا یہ قول موجودہ انجیلوں میں مذکور ہے : ” اے اسرائیل، سن، خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے، اور تو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی پیاری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ “ (مرقس ٢١: ٩٣ دمتیٰ ٢٢: ٦٣) منقول ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ مناجات کرتے ہوئے فرمایا : ” اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں “ (یوحنا ٧١: ٣)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِہَۃً يُّعْبَدُوْنَ۝ ٤٥ ۧ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور تم سب سے اس برتری کے شکریہ کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ اور محمد آپ ان سب پیغمبروں سے پوچھ لیجیے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم، حضرت موسی، اور حضرت عیسیٰ اور یہ گفتگو معراج کی رات میں پیش آئی جبکہ آپ نے ستر انبیاء کرام (علیہم السلام) کو نماز پڑھائی اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ آپ ان سے پوچھ لیجیے کہ کیا ہم نے اللہ مہربان کے سوا کبھی بھی دوسرے معبود ٹھہرائے تھے یا ان دوسرے معبودوں کی پرستش کا حکم دیا تھا۔ یا یہ مطلب ہے کہ آپ ان اہل کتاب سے پوچھ لیجیے جن کی طرف ہم نے آپ سے پہلے رسول بھیجے ہیں کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) توحید کے علاوہ اور کیا پیغام لے کر آئے مگر رسول اکرم نے ان سے دریافت نہیں کیا کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ وہ توحید کے علاوہ اور کوئی پیام لے کر نہیں آئے اور اللہ تعالیٰ نے اور معبود نہیں ٹھہرائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥{ وَسْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُّسُلِنَآ } ” اور آپ پوچھ لیجیے ان سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا اپنے رسولوں میں سے “ یعنی عالم ِارواح میں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات تمام انبیاء ورسل (علیہ السلام) سے رہی تھی۔ معراج کے موقع پر بھی بیت المقدس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کی امامت کرائی تھی۔ آپ ان میں سے کسی سے بھی پوچھ لیجیے۔ { اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِہَۃً یُّعْبَدُوْنَ ۔ } ” کیا ہم نے رحمان کے سوا کوئی اور بھی ایسے معبود بنائے ہیں کہ جن کی پوجا کی جائے ؟ “ آپ جس سے بھی پوچھیں گے ایسی کوئی گواہی آپ کو نہیں ملے گی اور نہ ہی کسی نبی کی تعلیمات سے ایسی کسی بات کا کہیں سراغ ملے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

40 "Ask the Messengers": Find out from the Books brought by them. Just as the meaning of: "If there arises any dispute among you about anything, refer it to Allah and His Prophet," is not that the dispute should be taken before Allah and His Messenger, but that one should turn to the Book of Allah and the Sunnah of His Messenger for a decision, so "asking the .Messengers" also does not mean that one should approach all the Messengers who have left the world and ask them, but the right meaning is: "Discover what teachings the Messengers of Allah have left in the world as to which of them taught that another than Allah also is worthy of worship and service."

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :39 یعنی اس سے بڑھ کر کسی شخص کی کوئی خوش قسمتی نہیں ہو سکتی کہ تمام انسانوں میں سے اس کو اللہ اپنی کتاب نازل کرنے کے لیے منتخب کرے اور کسی قوم کے حق میں بھی اس سے بڑی کسی خوش قسمتی کا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کی دوسری سب قوموں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اس کے ہاں اپنا نبی پیدا کرے اور اس کی زبان میں اپنی کتاب نازل کرے اور اسے دنیا میں پیغام خداوندی کی حامل بن کر اٹھنے کا موقع دے ۔ اس شرف عظیم کا احساس اگر قریش اور اہل عرب کو نہیں ہے اور وہ اس ناقدری کرنا چاہتے ہیں تو ایک وقت آئے گا جب انہیں اس کی جواب دہی کرنی ہو گی ۔ سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :40 رسولوں سے پوچھنے کا مطلب ان کی لائی ہوئی کتابوں سے معلوم کرنا ہے ۔ جس طرح : فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی معاملہ میں اگر تمہارے درمیان نزاع ہو تو اسے اللہ اور رسول کے پاس لے جاؤ ، بلکہ یہ ہے کہ اس میں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی طرف رجوع کرو ، اسی طرح رسولوں سے پوچھنے کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ جو رسول دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں ان سب کے پاس جا کر دریافت کرو ، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ خدا کے رسول دنیا میں جو تعلیمات چھوڑ گئے ہیں ان سب میں تلاش کر کے دیکھ لو ، آخر کس نے یہ بات سکھائی تھی کہ اللہ جل شانہ کے سوا بھی کوئی عبادت کا مستحق ہے ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: یعنی ان پر جو آسمانی کتابیں نازل ہوئی تھیں، ان میں دیکھ لو کہ ان کو کیا تعلیم دی گئی تھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:45) اسئل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر سؤال (باب فتح) تو سوال کرلے تو پوچھ لے۔ تو دریافت کرلے۔ من اسم موصول۔ ارسلنا من قلبلک من رسلنا اس کا صلہ۔ اور آپ ان سب پیغمبروں سے جن کو آپ سے پہلے ہم نے بھیجا تھا پوچھ لیجئے۔ اجعلنا۔ ہمزہ استفہام انکاری ہے ۔ کیا ہم نے بنایا۔ مقرر کیا۔ الہۃ۔ بہت سے معبود۔ الہ کی جمع ۔ منصوب بوجہ مفعول جعلنا۔ یعبدون : مضارع مجہول جمع مذکر غائب ۔ عبادۃ (باب نصر) مصدر۔ ان کی پرستش کی جاتی ہے۔ کیا ہم نے خدائے رحمن کے سوا اور معبود مقرر کر رکھے ہیں کہ ان کی عبادت کی جاتی ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی ان کی لائی ہوئی کتابوں سے یا ان کی امت کے لوگوں سے ( جامع) بعض علمائے تفسیر نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ جب انبیاء ( علیہ السلام) سے ملاقات ہو، جیسے شب معراج میں ہوئی تو ان سے دریافت کرلیجئے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت نہیں کیا۔ علامہ قرطبی نے اس دوسرے مطلب کو ترجیح دی ہے اور شاہ صاحب (رح) نے اپنی توضیح میں دونوں احتمال یکساں ذکر کردیئے ہیں۔ چناچہ لکھتے ہیں :” پوچھ دیکھ یعنی جس وقت ان کے ارواح سے ملاقات ہو یا ان کے احوال کتابوں میں دریافت کر۔ ( موضح) 13 ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ شرک کسی مذہب میں روا نہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

29:۔ ” واسئل من ارسلنا۔ الایۃ “ دلیل نقلی تفصیلی کے دلیل نقلی اجمالی ہے از جملہ انبیاء سابقین علیہم الصلوہ والسلام یعنی اپنے جد اعلی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا حال تو تم نے سن لیا کہ وہ توحید کے بہت بڑے داعی تھے۔ اب یہ بتاؤ کیا دیگر انبیاء سابقین (علیہم السلام) میں سے کسی کو ہم نے غیر اللہ کی عبادت اور پکار کا حکم دیا تھ ؟ یعنی ہم نے تو اس کا حکم نہیں دیا تاھ پھر تم نے یہ مسئلہ کہاں سے نکال لیا ؟ انبیاء (علیہم السلام) سے سوال کرنے سے حقیقۃ سوال کرنا مراد نہیں، بلکہ مجازاً ان سے سوال کرنا مراد ہے جس کی دو صورتیں ہیں۔ اول یہ کہ ان کی اصل اور غیر محرف کتابوں اور ان کے صحیفوں کی روشنی میں ان کے ادیان کی تحقیق و جستجو کرو۔ کیا ان میں کہیں غیر اللہ کی عبادت اور پکار کا کوئی حکم یا جواز موجود ہے ؟ لیس المراد بسوؤال الرسل حقیقۃ السؤوال ولکنہ مجاز عن النظر فی ادیانہم والفحص عن مللھم ھل جاءت عبادۃ اولاوثان قط فی ملت من ملل الابیاء (مدارک ج 4 ص 91) ۔ دوم یہ کہ گذشتہ پیغمبروں کی امتوں اور ان کے انصاف پسند علماء (مؤمنین اہل کتاب) سے دریافت کیا کرو ان کے دینوں میں غیر اللہ کی عبادت اور پکار کی اجازت ہے ؟ وقال اکثر المفسرین معناہ واسئل امم من ارسلنا من قبلک وعلماء دینہم یعنی مومنی اھل الکتاب وھذا قول ابن عباس فی سائر الروایات ومجا اھد وقتادۃ والضحاک والسدی والحسن والمقاتلین (مطہری ج 8 ص 353) ۔ اس سے اہل بدعت کا استدلال باطل ہوگیا کہ اس آیت میں تمام انبیاء (علیہم السلام) سے سوال کرنے کا حکم ہے اور سوال اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ سب آپ کے پاس موجود ہوں تو اس سے ثابت ہوا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) سے سوال کرنے حکم ہے اور سوال اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ سب آپ کے پاس موجود ہوں تو اس سے ثابت ہوا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) حاضر و ناظر تھے۔ گذشتہ تفصیل سے اس استدلال کا بطلان ظاہر ہے کیونکہ اس آیت میں انبیاء (علیہم السلام) سے حقیقۃ سوال کرنا مقصود نہیں بلکہ ان کی غیر محرف کتابوں اور ان کی امتوں کے حق پسند علماء سے تحقیق کرنا مقصود ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(45) اور آپ ان سب پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے پوچھ دیکھئے کہ کیا ہم نے خدائے رحمان کے علاوہ اور دوسرے معبود مقرر کئے تھے کہ ان کی پرستش کی جائے اور ان کو پوجا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ اس مسئلے کی تحقیق کی جائے کہ کیا سابقہ پیغمبروں کے زمانہ میں بھی کبھی کسی پیغمبر کے وقت میں ہم نے سوائے رحمان کے کسی دوسرے معبود کو مقرر کرنے اور پوجنے کا حکم دیا ہے یعنی اگرچہ رسول اس وقت نہیں ہیں ان کی کتابوں کو دیکھ کر بتائو کہ کسی نبی نے آج تک شرک کی تعلیم دی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی کسی دین میں شرک روا نہیں رکھا اور پوچھ دیکھ یعنی جس وقت ان کی ارواح سے ملاقات ہو یا ان کے احوال کی کتابوں سے تحقیق کر۔ ان سے پوچھا مجاز ہے ان کتابوں کی تحقیق کرنے میں۔