Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 46

سورة الزخرف

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ فَقَالَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۶﴾

And certainly did We send Moses with Our signs to Pharaoh and his establishment, and he said, "Indeed, I am the messenger of the Lord of the worlds."

اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے امراء کے پاس بھیجا تو ( موسیٰ علیہ السلام نے جاکر ) کہا کہ میں تمام جہانوں کے رب کا رسول ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Musa was sent with the Message of Tawhid to Fir`awn and His Chiefs Allah tells, وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِأيَاتِنَا إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَيِهِ فَقَالَ إِنِّي رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ فَلَمَّا جَاءهُم بِأيَاتِنَا إِذَا هُم مِّنْهَا يَضْحَكُونَ

قلاباز بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کو جناب باری نے اپنا رسول و نبی فرما کر فرعون اور اس کے امراء اور اس کی رعایا قبطیوں اور بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تاکہ آپ انہیں توحید سکھائیں اور شرک سے بچائیں آپ کو بڑے بڑے معجزے بھی عطا فرمائے جیسے ہاتھ کا روشن ہو جانا لکڑی کا اژدھا بن جانا وغیرہ ۔ لیکن فرعونیوں نے اپنے نبی کی کوئی قدر نہ کی بلکہ تکذیب کی اور تمسخر اڑایا ۔ اس پر اللہ کا عذاب آیا تاکہ انہیں عبرت بھی ہو ۔ اور نبوت موسیٰ پر دلیل بھی ہو پس طوفان آیا ٹڈیاں آئیں جوئیں آئیں ، مینڈک آئے اور کھیت ، مال ، جان اور پھل وغیرہ کی کمی میں مبتلا ہوئے ۔ جب کوئی عذاب آتا تو تلملا اٹھتے حضرت موسیٰ کی خوشامد کرتے انہیں رضامند کر تے ان سے قول قرار کرتے آپ دعا مانگتے عذاب ہٹ جاتا ۔ یہ پھر سرکشی پر اتر آتے پھر عذاب آتا پھر یہی ہوتا ساحر یعنی جادوگر سے وہ بڑا عالم مراد لیتے تھے ان کے زمانے کے علماء کا یہی لقب تھا اور انہی لوگوں میں علم تھا اور ان کے زمانے میں یہ علم مذموم نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا پس ان کا جناب موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کہہ کر خطاب کرنا بطور عزت کے تھا اعتراض کے طور پر نہ تھا کیونکہ انہیں تو اپنا کام نکالنا تھا ہر بار اقرار کرتے تھے کہ مسلمان ہو جائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کر دیں گے پھر جب عذاب ہٹ جاتا تو وعدہ شکنی کرتے اور قول توڑ دیتے ۔ اور آیت ( فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْاقَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ ١٣٣؁ ) 7- الاعراف:133 ) میں اس پورے واقعہ کو بیان فرمایا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٥] یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر اس نسبت سے آیا ہے کہ فرعون بھی اپنے مقابلہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو حقیر سمجھتا تھا۔ جس طرح کہ قریش مکہ اپنے سرداروں کے مقابلہ میں رسول اللہ کو حقیر سمجھ رہے تھے اور انہیں بتایا یہ جارہا ہے کہ بالآخر فرعون اللہ کے عذاب سے تباہ ہوا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نجات اور کامیابی عطا فرمائی۔ تم اگر سمجھو تو تمہارا بھی ایسا ہی حشر ہونے والا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ولقد ارسلنا موسیٰ با یتنا الی فرعون وملائہ : یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر کی مناسبت کئی طرح سے ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے سے پہلے رسولوں سے سوال کا حکم دیا کہ کیا اس نے اپنے سوا کوئی معبود مقرر کئے ہیں جن کی عبادت کی جائے، تو جن رسولوں کی کتابوں یا پیروکاروں سے یہ معلومات حاصل کی جاسکتی تھیں ان میں سب سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) تھے، کیونکہ ان کی کتاب موجود تھی اور ان کی امت کے لوگ بھی موجود تھے۔ دوسری مناسبت یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرنے والے قوم کے سردار تھے، جو حق واضح ہونے کے باوجود اپنے مال و جاہ کی وجہ سے آپ کو حقیر کہہ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسالت کا اہل ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دلانے کے لئے یہ واقعہ ذکر فرمایا کہ یہی معاملہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کا تھا۔ فرعون نے بھی معجزات دیکھنے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت دل سے ماننے کے باوجود ملک مصر کا مالک ہونے پر فخر کیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ذلیل و حقیر قرار دے کر ان پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں وہ اللہ کے غضب کا نشانہ بنا اور اپنے لشکروں سمیت سمندر میں غرق کردیا گیا۔ مقصد قریش اور عربوں کو فرعون جیسے برے انجام سے ڈرانا ہے۔ (٢) بایتنآ “ میں آیات سے مراد عصا اور ید بیضا ہیں، کیونکہ سب سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے پاس گئے تو ان کے پاس یہی نشانیاں تھیں۔ (٣) فقال الی رسول رب العلمین : موسیٰ (علیہ السلام) نے وہ نشانیاں پیش کر کے فرعون کو رب ہونے کے دعوے سے منع کیا، اسے تمام پیغمبروں کی طرح توحید کی دعوت دی اور اکیلے رب العالمین پر ایمان لانے کا حکم دیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Incidents related to Sayyidna Musa (علیہ السلام) have been stated by the Qur&an at many places repeatedly, and the incidents referred to in the present verses have been described in detail in Surah Al-A` raf. The reason for reminding these incidents here is to show that the objection of the infidels of Makkah that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is not a wealthy man is not a new objection; Fir&aun had expressed the same doubt against Sayyidna Musa (علیہ السلام) and his prophethood. His contention was that being the ruler of Egypt, and owner of the palaces and rivers flowing beneath them, how could Musa (علیہ السلام) claim to be a prophet against him. But just as Fir&aun&s disbelief could be of no avail to him, and he got drowned along with his people, this objection of &kuffar& of Makkah, too, will not save them from the divine punishment in this world, or in the Hereafter.

خلاصہ تفسیر اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام کو) اپنے دلائل (یعنی معجزات عصا اور یدبیضا) دے کر فرعون کے اور اس کے امراء کے پاس بھیجا تھا، سو انہوں نے (ان لوگوں کے پاس آ کر) فرمایا کہ میں رب العالمین کی طرف سے (تم لوگوں کی ہدایت کے لئے) پیغمبر (ہو کر آیا) ہوں (مگر فرعون و اہل فرعون نے نہیں مانا) پھر (ہم نے دوسرے دلائل سزاؤں کے رنگ میں ان کی نبوت ثابت کرنے کے لئے ظاہر کئے، یعنی قحط سالیاں وغیرہ مگر ان لوگوں کی پھر بھی یہ حالت رہی کہ) جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس ہماری (وہ) نشانیاں لے کر آئے (جو آیات تسعہ کہلاتی ہیں) تو وہ یکایک ان (معجزات) پر لگے ہنسنے (کہ یہ کیا اچھے معجزے ہیں، محض معمولی واقعات و حوادث ہیں کیونکہ قحط وغیرہ ویسے بھی ہوجاتا ہے مگر یہ ان کی حماقت تھی کیونکہ دوسرے قرائن سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ یہ واقعات غیر معمولی ہیں اور معجزہ کے طور پر ہو رہے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے ان پر جادو کی تہمت لگائی تھی جیسا کہ سورة اعراف میں لتسحرنا بھا کے الفاظ اس پر شاہد ہیں) اور (ان نشانیوں کی کیفیت یہ تھی کہ) ہم ان کو جو نشانی دکھلاتے تھے وہ دوسری نشانی سے بڑھ کر ہوتی تھی (مطلب یہ کہ سب نشانیاں بڑی ہی تھیں اور یہ مطلب نہیں کہ ہر نشانی ہر نشانی سے بڑی تھی، یہ ایک محاورہ ہے جب کئی چیزوں کا کمال بیان کرنا چاہتے ہیں تو یوں ہی بولتے ہیں کہ ایک سے ایک بڑھ کر۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ واقعتاً بھی ہر آنیوالی نشانیاں پچھلی نشانی سے کچھ فضیلت رکھتی ہو) اور ہم نے (ان نشانیوں کے واقع کرنے سے) ان لوگوں کو عذاب میں پکڑا تھا تاکہ وہ (اپنے کفر سے) باز آ جاویں (یعنی وہ نشانیاں نبوت کی دلیل بھی تھیں اور ان کے لئے سزا بھی تھیں مگر وہ لوگ باز نہ آئے، باوجودیکہ ہر نشای کے وقوع پر اس کا چند بار عہد بھی کیا) اور انہوں نے (موسیٰ (علیہ السلام) سے ہر نشانی پر یہ) کہا کہ اے جادوگر (یہ لفظ حسب عادت سابقہ فرط بدحواسی سے ان کے منہ سے نکل جاتا ہوگا، ورنہ ایسی عاجزانہ درخواست کے موقع پر شرارت کا لفظ بولنا مستبعد معلوم ہوتا ہے، بہرحال مطلب یہ تھا کہ اے موسیٰ ) ہمارے لئے اپنے رب سے اس بات کی دعا کر دیجئے جس کا اس نے آپ سے عہد کر رکھا ہے (اور وہ بات ہے ہمارے باز آجانے پر قہر کا دور کردینا، ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اگر آپ اس عذاب کو دور کرا دیں تو) ہم ضرور راہ پر آ جاویں گے، پھر (جب) ہم نے وہ عذاب ان سے ہٹا دیا تب ہی انہوں نے (اپنا) عہد توڑ دیا (ان نو نشانیوں کا بیان سورة اعراف میں آ چکا ہے) اور فرعون نے (غالباً اس خیال سے کہ کہیں معجزات دیکھ کر عام لوگ مسلمان ہوجاویں) اپنی قوم میں منادی کرائی (اور اس منادی میں) یہ بات کہی (یعنی کہلوائی) کہ اے میری قوم کیا مصر (مع توابع) کی سلطنت میری نہیں ہے اور (دیکھو) یہ نہریں میرے (محل کے) پائیں میں بہہ رہی ہیں کیا تم (یہ چیزیں) دیکھتے نہیں ہو (اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس کچھ بھی سامان نہیں تو بتلاؤ میں افضل اور قابل اتباع ہوں یا موسیٰ علیہ السلام) بلکہ میں (ہی) افضل ہوں اس شخص سے (یعنی موسیٰ (علیہ السلام) سے) جو کہ (با عتبار مال وجاہ کے) کم قدر (آدمی) ہے اور قوت بیانیہ بھی نہیں رکھتا (اور اگر یہ شخص اپنے آپ کو پیغمبر بتاتا ہے) تو اس کے (ہاتھوں میں) سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے (جیسے شاہان دنیا کی عادت ہے کہ جب کسی پر خاص عنایت کرتے ہیں تو اس کو عام دربار میں سونے کے کنگن پہناتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر اس شخص کو نبوت عطا ہوتی تو خدا کی طرف سے اس کے ہاتھ میں سونے کے کنگن ہوتے) یا فرشتے اس کے جلو میں پرا باندھ کر آئے ہوتے (جیسا کہ خاص امراء شاہی کا جلوس اس طرح نکلتا ہے) غرض اس نے (ایسی باتیں کر کے) اپنی قوم کو مغلوب (العقل) کردیا اور وہ اس کے کہنے میں آگئے (اور) وہ لوگ (کچھ پہلے بھی) شرارت کے بھرے تھے (اس وجہ سے فرعون کی باتوں کا ان پر زیادہ اثر ہوا) پھر جب ان لوگوں نے (برابر کفر وعناد پر اصرار کر کے) ہم کو غصہ دلایا تو ہم نے ان سے بدلہ لیا اور ان سب کو ڈبو دیا اور ہم نے ان کو آئندہ آنے والوں کے لئے خاص طور کے متقدمین اور نمونہ (عبرت) بنادیا (خاص طور کے متقدمین بنانے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ ان کا قصہ یاد کر کے عبرت دلاتے ہیں کہ دیکھو متقدمین میں ایسے ایسے ہوئے ہیں اور ان کا ایسا ایسا حال ہوا) معارف و مسائل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ پیچھے بار بار گزر چکا ہے اور ان آیات میں ان کے جن واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ تفصیل کے ساتھ سورة اعراف میں آئے ہیں، یہاں ان کا واقعہ یاد دلانے سے مقصد یہ ہے کہ کفار مکہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر آپ کے مالدار نہ ہونے سے جو شبہ کر رہے ہیں یہ کوئی نیا شبہ نہیں، بلکہ فرعون اور اس کی قوم نے یہی شبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر کیا تھا۔ فرعون کا کہنا یہ تھا کہ میں ملک مصر کا مالک ہوں اور میرے محلات کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اس لئے میں موسیٰ علی السلام سے (معاذ اللہ) افضل ہوں، پھر میرے مقابلے میں انہیں نبوت کیونکر مل سکتی ہے ؟ لیکن جس طرح اس کا یہ شبہ اس کے کچھ کام نہ آسکا اور وہ اپنی قوم سمیت غرق ہو کر رہا، اسی طرح کفار مکہ کا یہ اعتراض بھی انہیں دنیا و آخرت کے وبال سے نہ بچا سکے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہٖ فَقَالَ اِنِّىْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٤٦ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ ملأ المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] ، وقالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ [ الأعراف/ 60] ، إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ [ القصص/ 20] ، قالَتْ يا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتابٌ كَرِيمٌ [ النمل/ 29] ، وغیر ذلک من الآیات . يقال : فلان مِلْءُ العیونِ. أي : معظّم عند من رآه، كأنه ملأ عينه من رؤيته، ومنه : قيل شابّ مَالِئُ العینِ «3» ، والملأ : الخلق المملوء جمالا، قال الشاعر : فقلنا أحسني مَلَأً جهيناومَالَأْتُهُ : عاونته وصرت من ملئه . أي : جمعه . نحو : شایعته . أي : صرت من شيعته، ويقال : هو مَلِيءٌ بکذا . والمَلَاءَةُ : الزّكام الذي يملأ الدّماغ، يقال : مُلِئَ فلانٌ وأُمْلِئَ ، والمِلْءُ : مقدار ما يأخذه الإناء الممتلئ، يقال : أعطني ملأه ومِلْأَيْهِ وثلاثة أَمْلَائِهِ. ( م ل ء ) الملاء ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ وقالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ [ الأعراف/ 60] اور قوم فرعون میں جو سر دور تھے کہنے لگے ۔ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ [ القصص/ 20] کہ شہر کے رئیس تمہارے بارے میں صلاحیں کرتے ہیں ۔ قالَتْ يا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتابٌ كَرِيمٌ [ النمل/ 29] وہ کہنے لگی کہ اے اہل در بار میری طرف ایک نامہ گرامی ڈالا گیا ہے ۔ ان کے علاوہ بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ محاورہ ہے : ۔ فلان ملاء العیون یعنی سب اسے عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں گویا اس نے ان کی نظروں کو اپنے جلوہ سے بھر دیا ہے ۔ اسی سے کہا گیا ہے ۔ شاب مللی العین اپنی خوبصورتی سے آنکھ کو بھر دینے والا نوجوان ۔ الملاء اخلاق جو حسن سے بھر پور ہوں کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ( 412 ) فقلنا احسنی ملاء جھینا تو ہم نے کہا کہ اسے چھینہ اپنے اخلاق درست کرو ۔ مالا تہ کے معنی کسی کا معاون بننے اور اس کے گردہ میں شامل ہونے کے ہیں ۔ جیسا کہ شایعتہ کے معنی کسی طرف دراوں میں داخل ہونے کے آتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ ھو ملی بکذا ینعی وہ فلاں چیز سے پر ہے ۔ الملاء زکام جو فضلہ سے دماغ کو بھر دے اور ملی فلان فلان واملا کے معنی زکام زدہ ہونے کے ہیں المل کسی چیز کی اتنی مقدار جس سے کوئی بر تن بھر جائے محاورہ ہے : ۔ اعطنی ملاءہ وملاء بہ وثلاثۃ املائہ مجھے ایک ، دو ، تین پیمانے بھر کر دو ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] . العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٦۔ ٤٧) چناچہ ہم نے موسیٰ کو عصا اور ید بیضا کا معجزہ دے کر فرعون اور اس کی قبطی قوم کی طرف بھیجا، چناچہ انہوں نے کہا میں تمہاری طرف اللہ کی جانب سے بھیجا گیا رسول ہوں مگر وہ ہماری ان نشانیوں پر تعجب کرنے لگے اور مذاق اڑانے لگے اور ایمان نہیں لائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ { وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلاَ ئِہٖ } ” اور ہم نے بھیجا تھا موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف “ ان سے مراد وہ ابتدائی نشانیاں ہیں جنہیں لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے دربار میں گئے تھے ‘ یعنی عصا اور ید ِبیضا۔ { فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } ” تو اس نے کہا کہ (دیکھو) میں تمام جہانوں کے پروردگار کا بھیجا ہوا ہوں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41 This story has been narrated here for three objects: (1) That when Allah sends His Prophet to a country and nation and affords it the opportunity which He has now given to the Arabs by appointing the Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace) to Prophet hood, and it, instead of taking advantage of it, commits the folly of Pharaoh and his people, it meets the same. fate which has become an object lesson in history. (2) That just as Pharaoh also on account of his arrogance and pride of kingdom and grandeur and wealth and possessions had belittled the Prophet Moses as mean and contemptible, so the unbelieving Quraish now are regarding Muhammad (upon whom be Allah's peace) as insignificant as against their chiefs. But God's judgment was different which ultimately proved who was really great. (3) That to mock Allah's Revelations and show stubbornness against His warnings is not a mere joke, but a very serious sin. If you do not learn a lesson from the fate of those who have been doomed on account of this, you also would go to your doom on account of the same." 42 This implies the signs with which the Prophet Moses had gone to the court of Pharaoh, i.e. the Signs of the staff and the shining hand. (For explanation, see AI-A'raf: 107-108, Ta Ha: 20-22, Ash-Shu'ara: 32-33, AnNaml: 10-12, Al-Qasas: 31-32).

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :41 یہ قصہ یہاں تین مقاصد کے لیے بیان کیا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ملک اور کسی قوم میں اپنا نبی بھیج کر اسے وہ موقع عطا فرماتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اب اہل عرب کو اس نے عطا فرمایا ہے ، اور وہ اس کی قدر کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اس حماقت کا ارتکاب کرتی ہے جس کا ارتکاب فرعون اور اس کی قوم نے کیا تھا تو پھر اس کا وہ انجام ہوتا ہے جو تاریخ میں نمونہ عبرت بن چکا ہے ۔ دوسرے یہ کہ فرعون نے بھی اپنی بادشاہی اور اپنی شوکت و حشمت اور دولت و ثروت پر فخر کر کے موسیٰ علیہ السلام کو اسی طرح حقیر سمجھا تھا جس طرح اب کفار قریش اپنے سرداروں کے مقابلے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیر سمجھ رہے ہیں ۔ مگر خدا کا فیصلہ کچھ اور تھا جس نے آخر بتا دیا کہ اصل میں حقیر و ذلیل کون تھا ۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ مذاق اور اس کی تنبیہات کے مقابلے میں ہیکڑی دکھانا کوئی سستا سودا نہیں ہے بلکہ یہ سودا بہت مہنگا پڑتا ہے ۔ اس کا خمیازہ جو بھگت چکے ہیں ان کی مثال سے سبق نہ لو گے تو خود بھی ایک روز وہی خمیازہ بھگت کر رہو گے ۔ سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :42 ان سے مراد وہ ابتدائی نشانیاں ہیں جنہیں لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے دربار میں گئے تھے ، یعنی عصا اور ید بیضا ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، ھواشی ۸۷ تا ۸۹ ، جلد سوم ، طہ ، حواشی ۱۲ ۔ ۱۳ ۔ ۲۹ ۔ ۳۰ ، الشعراء ، حواشی ۲٦ تا ۲۹ ، النمل ، حاشیہ ۱٦ ، القصص ، حواشی ٤٤ ۔ ٤۵ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٦۔ ٥٦۔ اوپر اس بات کا ذکر گزر چکا ہے کہ قرآن شریف میں جگہ جگہ پچھلے انبیاء اور پچھلی امتوں کا جو تذکرہ آتا ہے اس تذکرہ سے ہر ایک مقام پر ایک خاص اور نیا فائدہ منظور ہوتا ہے۔ چناچہ ان آیتوں میں اللہ نے یہ فرمایا تھا کہ قریش اگر اپنی غفلت اور نافرمانی سے باز نہ آئیں گے تو بہت جلد اللہ تعالیٰ ان سے ان کی غفلت اور نافرمانی کا بدلہ لے گا ان آیتوں میں پچھلی قوموں میں سب سے اخیر فرعون اور اس کی قوم کو جو اللہ تعالیٰ نے نافرمانی کے بدلہ میں ہلاک کیا تھا اس کا ذکر فرمایا تاکہ قریش کو یہ معلوم ہوجائے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کے بدلہ لینے کا وقت مقررہ آجاتا ہے تو فوج حکومت ثروت کوئی چیز کام نہیں آتی فرعون کے پاس لاکھوں فوج تھی اور حکومت اور ثروت ایسی تھی کہ جس کا دنیا میں شہرہ تھا اس حکومت اس ثروت پر ایک دم میں پانی پھر گیا اور نہایت ذلت اور خرابی سے سب کے سب غرق ہوگئے قریش کے پاس نہ فوج ہے نہ ان کی وہ حکومت نہ وہ ثروت پھر یہ کس برتے پر اللہ تعالیٰ کے رسول کی نافرمانی کرتے ہیں۔ بہت قریب زمانہ گزرا کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے نافرمان لوگ باوجود اس ثروت اور حکومت کے جو اس طرح ذلت اور خواری سے نیست اور نابود ہوگئے ان کا خیال یاد کرکے قریش کو ذرا خواب غفلت سے بیدار ہونا چاہئے چناچہ اسی فائدہ کے لئے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے غرق ہوجانے کا ذکر فرما کر اخیر کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فجعلنھم سلفا و مثلا للاخرین حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے جس طرح قریش کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے تم کو رسول بنا کر بھیجا ہے اسی طرح فرعون اور اس کی قوم کی ہدایت کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا گیا تھا اور جس طرح قریش تمہاری نصیحت کو مسخرا پن میں اڑاتے ہیں اسی طرح فرعون اور اس کی قوم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی نصیحت کو مسخرا پن میں اڑایا۔ قحط پیداوار کا نقصان طوفان ٹڈیاں مینڈکوں کی طرح طرح کی آفتوں میں اگرچہ فرعون اور اس کی قوم کو پکڑا گیا لیکن ہر آفت کے وقت فرمانبرداری کا عہد کرکے آفت کے ٹل جانے کے بعد وہ لوگ اپنے عہد پر قائم نہ رہے فرعون نے اپنی فارغ البالی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی تنگ دستی جتا کر اپنی قوم کو یہ دھوکا دیا کہ ایسا تنگ دست شخص اللہ کا رسول نہیں ہوسکتا ان لوگوں کی ایسی باتوں پر جب اللہ تعالیٰ کو غصہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کو دریائے قلزم میں ڈبو کر ہلاک کردیا جس کے ڈوبنے کا قصہ اوروں کے لئے عبرت کی نشانی ہے صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو راہ راست پر آنے کی مہلت دیتا ہے جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ راہ راست پر نہیں آتے تو پھر ان کو بالکل برباد کردیتا ہے۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کو پوری مہلت دی اور اس مہلت کے زمانہ میں چھوٹے چھوٹے عذاب بھیج کر ان لوگوں کو ڈرایا لیکن جب یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو ایک دفعہ ہی ان کو بڑے عذاب میں پکڑ لیا اور دریائے قلزم میں ڈبو کر سب کو ہلاک کردیا۔ (١ ؎ صحیح بخاری شریف باب وکذلک اخذربک اذا اخذ القرے الایۃ ص ٦٧٨ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:46) بایتنا : باء تعدیہ کا ہے ایتنا مضاف مضاف الیہ ۔ ہماری آیات۔ ہماری نشانیاں۔ یہاں نشانیوں سے مراد معجزات جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خدا نے دے کر فرعون کے پاس بھیجا۔ وہ نشانیاں یہ تھیں۔ عصا۔ یدبیضاء وغیرہ۔ ملائہ مضاف مضاف الیہ۔ اس کے سردار ملأ اسم جمع ہے۔ ملأ اصل میں ملأ یملأ (باب فتح) کا مصدر ہے بمعنی بھر دینا کسی چیز کو کسی چیز سے۔ قوم کے سردار اور اہل الرائے اشخصاص اپنی خوبی اور ذاتی محاسن سے لوگوں کی خواہش کو بھر دیتے ہیں یا آنکھوں میں روشنی اور دلوں میں ہیبت بھر دیتے ہیں اسی لئے ان کو ملأ کہتے ہیں۔ م ل ء مادہ۔ فقال : ای قال موسیٰ لہم۔ رسول رب العلمین : رب العالمین مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف رسول مضاف الیہ۔ رب العالمین کا فرستادہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 14 نشانیوں سے مراد نشانیاں ہیں جن کا ذکر سورة اعراف ( آیت 133) میں گزر چکا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٤٦ تا ٥٦۔ اسرار ومعارف۔ ان کفار کی مثال جو دولت کو معیار بنا رہے ہیں ایسی ہے جیسے ہم نے موسیٰ کو معجزات اور دلائل دے کر فرعون اور اس کے عمائدین سلطنت کی طرف بھیجا اگرچہ قوم کی طرف بھیجے گئے مگر حکمران چونکہ قوم کے نمائندہ ہوتے ہیں اس لیے ان کا ذکر فرمایا۔ انہوں نے بتایا کہ میں اس پروردگار کا رسول ہوں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے اور ان پر معجزات پیش فرمائے تو انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کا مذاق اڑایا حالانکہ ہر وہ دلیل جو وہ دیتے اور ہر معجزہ جو ظاہر ہوتا وہ پہلے سے بڑھ کرہوتا مگر وہ نہ مانے تو اللہ کی طرف سے ان پر مختلف عذاب اور بیماریاں بھیج دی گئیں کہ یہ دکھ ان کے لیے توبہ کا سبب بن جائیں تب انہوں نے کہا کہ ہم آپ کا جادو مان گئے اب جیسا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کا رب ہے تو اسے عرض کریں ہم سے یہ مصیبت دور کردے ہم آپ کی بات مان لیں گے اور ہدایت کا راستہ اختیار کریں گے مگر جب ہم نے موسیٰ کی دعا سے ان سے عذاب ہٹادیا تو انہوں نے وعدہ توڑ دیا اور ہدایت قبول نہ کی بلکہ فرعون نے بودے دلائل سے قوم کو بیوقوف بنایا اور کہا دیکھتے نہیں ہو کہ میرے پاس مصر کی سلطنت ہے اور عالی شان محلات جن کے باغوں میں نہریں جاری ہیں اور میں کسی قدر مرتبے اور شان کا مالک ہوں میں ہر صورت موسیٰ (علیہ السلام) سے بہتر ہوں جس کا کوئی مرتبہ ووقار نہیں اور نہ ہی کوئی بات درست طریقے سے کرسکتا ہے یعنی کوئی مضبوط دلیل نہیں یا زبان میں لکنت ہے۔ اگرچہ لکنت ان کی دعا سے دور ہوگئی تھی اور دلائل بھی روشن تھے مگر انکار کرنے کے لیے جھوٹ بولا اور کہا بھلا انہوں نے سونے کے کنگن کیوں نہ پہن رکھے ہوتے اگر اللہ کے رسول ہیں تو اللہ کے پاس دولت نہیں ہے یا ان کے ہمراہ فرشتوں کا لشکر کردیا ہوتا کہ پتہ چلتا انہیں اللہ نے بھیجا ہے اور اس کی قوم بیوقوف بن گئی انہوں نے اس کی بات مان لی کہ دراصل وہ قوم ہی بدکار تھی اور بدکاری کا یہ اثر بھی ہوا ہے کہ برائی کی بات قبول کرلی جاتی ہے مگر جب ہمارا غضب بھڑکا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان سب کو غرق کرکے نابود کردیا کہ محض قصہ پارینہ بن کر رہ گئے اور بعدوالوں کے لیے عبرت کا سبب۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 46 تا 56 : یضحکون ( وہ مذاق اڑاتے ہیں ، ہنستے ہیں) اخت (بہن ، جنس) ینکثون (وہ توڑ ڈالتے ہیں) مھین (جس کی کوئی عزت نہ ہو) اسورۃ ( سوار) (کنگن ، پہننے کا زیور) مقترنین ( مقترن) (ملے ہوئے ، جڑے ہوئے) استخفف ( اس نے ہلکا کیا ، ذلیل کیا) اسفوا ( انہوں نے بھڑکایا) سلف (گزرے ہوئے) تشریح : آیت نمبر 46 تا 56 : زیر مطالعہ آیات سے پہلے بتا دیا گیا تھا کہ جتنے پیغمبر بھی بھیجے گئے تھے انہوں نے اپنی اپنی امتوں کو توحید کی تعلیم دے کر ان کے سامنے اس حقیقت کو پیش کیا تھا کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور وہی ہر طرح کی عبادت و بندگی کا مستحق ہے۔ وہ خود بھی توحید پر عمل کرتے رہے اور انہوں نے زندگی بھر اللہ کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہیں کی ۔ جن سعادت مندوں نے ان کی اطاعت کی وہ بھی اللہ کی توحید اور اس کی بندگی کرتے رہے۔ وہی کامیاب و با مراد ہوئے لیکن جنہوں نے توحید کا راستہ چھوڑ کر اللہ کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کر کے ان کی عبادت و پرستش کی ان کو بار بار آگاہ کیا گیا کہ وہ اپنے اس طرز عمل سے توبہ کرلیں لیکن انہوں نے پیغمبروں کی بات کو سمجھنے کی کوشش نہ کی ۔ جب ان کی مہلت کی مدت ختم ہوگئی تو ان پر اتنے شدید عذاب آئے کہ ان کی تہذیب ، ترقیات اور خود ان کا اپنا وجود بھی تہس نہس کردیا گیا ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اسی صراط مستقیم پر ہیں جس پر اللہ کے تمام پیغمبر چلتے آئے ہیں لہٰذا آپ کسی کی پرواہ کئے بغیر اللہ کے دین کو پھیلانے کی جدوجہد کرتے رہیے۔ اللہ آپ کو اسی طرح مدد کرے گا جس طرح اس نے اپنے پیغمبروں کی مدد کی تھی ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کر کے سمجھایا گیا ہے کہ جس طرح اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مدد کی تھی جب فرعون اور اس کی فوج کو سمندر میں غرق کردیا گیا تھا۔ پھر کوئی اس کی مدد کو نہ آسکا تھا ۔ فرمایا کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے بھرے دربار میں اس بات کا اعلان کیا کہ مجھے اللہ نے بھیجا ہے تا کہ اے فرعون تو اور تیری قوم جس گمراہی میں مبتلا ہوگئے ہو اس سے توبہ کرلو ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا اور ید بیضا کے معجزات دکھائے تو پوری قوم اس سے متاثر ہونا شروع ہوگئی۔ فرعون اور اس کے خوشامدی درباریوں نے پہلے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مذاق اڑانا شروع کیا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ لوگوں کے دلوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عزت و عظمت بڑھتی جا رہی ہے تو انہیں فکر پیدا ہوگئی۔ انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں کو یوں ہی چھوڑ دیا گیا تو ان کی حکومت و سلطنت اور اقتدار و اجارہ داری کا رعب لوگوں کے دلوں سے نکل جائے گا ۔ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اثرات کو مٹانے کی بھر پور کوششیں شروع کردیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کی مسلسل نا فرمانیوں کی وجہ سے ان پر نو ایسے چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجے تا کہ بڑے عذاب سے پہلے ان کو آگاہ اور خبردار کردیا جائے۔ سورة اعراف میں اس کی تفصیل آ چکی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سلطنت فرعون میں شدید قحط پڑگیا اتنی شدید بارشیں ہوئیں کہ جن سے بستیاں اور کھیتیاں تباہ و برباد ہو کر رہ گئیں ۔ ٹڈی دل نے اتنا شدید حملہ کیا کہ ان کے کھیت اور کھلیانوں کو چٹ کر گئے ۔ پوری سلطنت میں جوئیں اور سرسریاں پیدا ہونا شروع ہوئیں جن سے انسان ، ان کے مویشی اور غلے کے گودام تک متاثر ہونا شروع ہوگئے۔ مینڈکوں کا ایک سیلاب سا آگیا جس سے پوری قوم کا چلنا پھرنا دشوار ہوگیا۔ پھر خون کا عذاب بھی نازل ہوا جس سے ان کی نہریں ، تالاب ، چشمے اس طرح متاثر ہوئے کہ پوری قوم ایک ہفتے تک صاف پانی سے محروم ہوگئی۔ یہ وہ مسلسل عذاب کی شکلیں تھیں جن سے پوری قوم شدید مشکلات کا شکار ہوگئی تھیں ۔ ان پر جب بھی کوئی عذاب آتا تو وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آ کر درخواست کرتے کہ اے جادوگر ! اگر یہ عذاب ہم سے ٹل گیا تو ہم آپ کی ہر بات مانیں گے۔ جب وہ عذاب ٹل جاتا تو وہ پھر سے اپنی نا فرمانیوں میں لگ جاتے تھے ۔ ان کی جہالت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اے جادوگر ! کہہ کر پکارتے تھے ، کیونکہ اس زمانہ میں جادو میں کمال ، علم کا کمال شمار ہوتا تھا لیکن در حقیقت وہ اس لفظ سے احترام کے پردے میں صرف اپنا کام نکالنا چاہتے تھے یعنی ان کے نزدیک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حیثیت ایک جادوگر یا عالم کی تھی مگر وہ ان کو نبی ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے منافقین جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں آتے اور کوئی بات دوبارہ سمجھنا چاہتے تھے تو کہتے تھے ” راعنا “ یعنی ہماری رعایت کیجئے لیکن وہ اس لفظ کو اس طرح زبان دبا کر ادا کرتے تھے کہ جس کے معنی چرواہے اور جاہل و احمق کے ہوجاتے تھے۔ سننے والے یہ سمجھتے کہ وہ ” راعنا “ کہہ رہے ہیں لیکن در حقیقت وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ” تبرا “ کرتے تھے یہ الفاظ کے کھلاڑی دنیا میں ہمیشہ یہی طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ فرعون نے ایک دن درباریوں سے کہا ۔ یا ملک بھر میں اپنے نمائندے بھیج کر کہلا دیا کہ کیا میں پوری سلطنت کا مالک نہیں ہوں ؟ کیا میرے نیچے ( دریائے نیل سے) نہریں نہیں بہہ رہی ہیں جن سے ہر طرف سر سبزی و شادابی ہے ؟ اور قوم ترقی کر رہی ہے ؟ اس نے کہا کیا تم یہ نہیں دیکھ رہے ہو کہ میری سلطنت کا رعب ہر شخص کے دل پر چھایا ہوا ہے ؟ اس نے پوچھا کہ یہ بتائو میں بہتر ہوں یا موسیٰ اور ان کے ساتھ بہتر ہیں ؟ جن کا یہ حال ہے کہ نہ تو ان کے پاس حکومت و سلطنت ہے نہ رعب ہے نہ مال و دولت کی کثرت ہے بلکہ ( نعوذ باللہ) وہ ایک معمولی سے آدمی ہیں جو اس طرح باتیں کرتے ہیں کہ ان کی دلیلوں میں کوئی جان نہیں ہوتی ۔ اگر واقعی موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں تو ان کی سلطنت کا رعب کہاں ہے کیا وہ اس زمانہ کے دستور کے مطابق سونے کے کنگن اور لشکر کے ساتھ نکلتے ہیں ۔ اگر موسیٰ (علیہ السلام) سچے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن اور چاروں طرف ان کے فرشتوں کی فوج ہونا چاہیے تھی ۔ چونکہ فرعون نے دنیا داروں کے سامنے یہ دنیاوی موثر انداز اختیار کیا تو لوگوں نے اس کی بات کو مان لیا کیونکہ زبردست زر پرستوں کی باتوں کو خوب سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک مال و دولت ہی سب کچھ ہوتا ہے وہ اسی زبان کو سمجھتے ہیں ۔ چونکہ پوری قوم دولت پرست ، اللہ کی نافرمان اور سر کش تھی اس لئے فرعون کی باتوں نے ان پر بہت اثر کیا اور اس طرح پوری قوم ایک مرتبہ پھر فرعون کے مکرو فریب اور چکر میں آگئی۔ چونکہ پوری قوم نے توبہ کرنے کے بجائے نافرمانی اور گناہوں کا راستہ اختیار کرلیا تھا اس لئے اللہ نے ساری نافرمان قوم اور فرعون کو پانی میں ڈبو کر ختم کردیا اور ان کی زندگیوں کو ہر ایک کے لئے نشان عبرت بنا دیا ۔ اور وہ بنی اسرائیل جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان لے آئے تھے اللہ نے ان کو نجات عطاء فرما کر عظمتیں عطاء فرما دیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ غرور اور تکبر کی بنا پر نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس لیے اس موقع پر موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان ہونے والی کشمکش کا کچھ حصہ بیان کیا جاتا ہے۔ تاکہ مکہ والوں اور دوسرے لوگوں کو معلوم ہو کہ فرعون نے تکبر کی بنیاد پر موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کی تھی جس بنا پر اس کا بدترین انجام ہوا۔ اے مکہ والو ! تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کر رہے ہو لہٰذا اپنا انجام سوچ لو۔۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غلام قوم کے ایک فرد تھے۔ جب جوان ہوئے تو ان کے ہاتھوں سرکاری پارٹی کا ایک آدمی سہواً قتل ہوا جس بنا پر موسیٰ (علیہ السلام) مدین کی طرف ہجرت کرگئے۔ مدین میں ایک عرصہ گزارنے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر واپس آرہے تھے تو راستہ میں انہیں نبوت عطا ہوئی۔ نبوت ملنے کے ساتھ دو معجزات بھی عطا کیے گئے۔ حکم ہوا کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کے پاس جاؤ اور انہیں اپنے رب کی توحید سمجھاؤ ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور یہ درخواست کی کہ میری معاونت کے لیے میرے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبی بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی درخواست قبول فرمائی اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو ان کا معاون بنایا۔ حضرت موسیٰ ، ہارون کے ساتھ فرعون اور ان کے وزیروں کے پاس گئے اور انہیں اللہ کی توحید کا پیغام سنایا اور اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ نہ معلوم ! موسیٰ (علیہ السلام) نے کتنی مدت تک جدوجہد جاری رکھی۔ اس دوران جادوگروں کے ساتھ معرکہ پیش آیا جس میں موسیٰ (علیہ السلام) کامیاب ہوئے اور جادوگر موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی۔ لیکن فرعون اور اس کے ساتھی موسیٰ کے معجزات دیکھنے کے باوجود بھی ایمان نہ لائے۔ نہ صرف ایمان نہ لائے بلکہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے بار بار مطالبہ کرتے رہے کہ تیرے کہنے کے باوجودہم پر عذاب نازل کیوں نہیں ہوتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو پانچ سخت اور ذلیل کردینے والے عذاب دیے۔ سیلاب : ١۔ بارش انسانی صحت اور ہر چیز کی نشوونما کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر زمین مردہ اور ہر چیز مرجھا جاتی ہے۔ بشرطیکہ یہ مناسب مقدار میں ہو۔ اگر بارش غیر معمولی ہو تو اس سے ہر چیز تباہ ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون پر غیر معمولی بارشیں نازل کیں۔ جس سے ان کی فصلیں تباہ، جانور بدحال اور مکانات گرگئے۔ باد و باراں کے طوفان اس لیے نازل کیے گئے تاکہ یہ لوگ توبہ و استغفار کریں۔ لیکن توبہ کرنے کے بجائے یہ لوگ تکبرّاور نافرمانی میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ اس کے بعد ٹڈیوں کا عذاب نازل ہوا۔ ٹڈیوں کے جھنڈ : ٢۔ ٹڈیوں کے دل کے دل امڈ آئے اور انہوں نے سیلاب سے بچ جانے والی فصلوں کو تباہ کیا بلکہ درختوں کی ٹہنیاں تک چبا ڈالیں۔ جوؤں کی بہتات : ٣۔ آل فرعون کے لباس اور جسم کے ایک ایک روؤگٹے میں اس قدر جوئیں پیدا ہوئیں کہ ان کا رات کا سونا اور دن کا سکون غارت ہوگیا۔ لوگوں نے خارش کر کر کے اپنے جسم لہولہان کرلیے مگر ایمان نہ لائے۔ مینڈکوں کی بہتات : ٤۔ جوؤں کے بعد مینڈکوں کا اتنا شدید سیلاب آیا کہ مینڈکوں کے ڈَل کے ڈَل ان کے کھیتوں، کھلیانوں اور گھروں میں اس طرح گھس آئے کہ ان کے لیے چار پائی پر سونا بھی حرام ہوگیا۔ خوفناک شکل اور بھاری بھرکم مینڈک ملک میں اس طرح پھیل گئے کہ ہر شخص خوف کے مارے چھپتا پھرتا تھا۔ خون ہی خون : ٥۔ ہر کھانے پینے والی چیز میں خون ہی خون پیدا ہوا، یہاں تک کہ آل فرعون خواتین کی چھاتیوں میں دودھ کی بجائے خون اتر آیا حتیٰ کہ آل فرعون میں سے کوئی کسی اسرائیلی سے پانی طلب کرتا تو جونہی پانی کو پینے لگتا تو وہ بھی گندے خون میں تبدیل ہوجاتا۔ بعض مفسرین نے یہاں تک لکھا ہے کہ آل فرعون کی ایک عورت نے انتہائی قلق کی حالت میں اپنی پڑوسن اسرائیلی عورت کو کہا کہ پانی کی ایک کلی میرے منہ میں ڈال دے تاکہ مجھے سکون حاصل ہو۔ جب اس کی پڑوسن نے ایسا کیا تو پانی کی کلی آل فرعون کی عورت کے منہ میں جا کر خون میں تبدیل ہوگئی۔ نہ معلوم فرعون نے پہلے پہل ان عذابوں کے بارے میں عوام میں کیا تاثر دیا ہوگا اور ان کے مقابلہ میں سرکاری سطح پر کیا کیا جتن کیے ہوں گے لیکن جب اس کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں تو وہ ہر عذاب کے بعد مجبور ہو کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہو کر انتہائی عاجزی کے ساتھ پختہ وعدہ کرتے ہوئے کہتا کہ اے موسیٰ ! اپنے رب کے حضور دعا کیجیے کہ یہ عذاب ہم سے ٹل جائے۔ اس عذاب سے نجات ملے گئی تو ہم آپ پر ایمان لاکر بنی اسرائیل کو آزاد کردیں گے۔ لیکن جونہی موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے عذاب ٹلتا تو وہ عہد شکنی کرتے ہوئے پہلے سے زیادہ شرک و کفر کرتے اور بنی اسرائیل کو اذیتیں دیتے۔ قرآن و حدیث میں ان عذابوں کے دورانیہ کی وضاحت نہیں ملتی تاہم تفسیر روح المعانی اور قرطبی کے مؤلفین نے بنی اسرائیل کی روایات کو بنیاد بنا کر لکھا ہے کہ ہر عذاب کا دورانیہ ایک ہفتہ پر محیط ہوتا تھا۔ اور اس کے بعد ایک مہینہ کی مہلت دی جاتی تھی جب کہ لوگ کچھ آسودہ حال ہوتے تو پہلے سے زیادہ کفر و شرک اور مظالم کا ارتکاب کرتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے فرعون ہر مشکل موقع پر فریاد کرتا مگر اس کی رعونت کا حال یہ تھا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جادو گر کہہ کر پکارتا تھا۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) اپنے عظیم حوصلہ اور قوم کی خیرخواہی کی خاطر یہ گستاخی برداشت کرتے کہ شاید ان میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئیں۔ فرعون اور اس کے ساتھی ہر بار عہد شکنی کرتے تھے۔ ایک موقعہ پر فرعون نے یہاں تک ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 46 تا ٤٧ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان یہ پہلی ملاقات ہے اور اس کا ذکر بطور تمہید ہوا۔ اصل مقصد یہ ہے کہ اس قصے کا متعلقہ حصہ پیش کیا جائے ، متعلقہ حصہ یہ ہے کہ جس طرح قریش نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراضات کئے ، ویسے ہی فرعون نے بھی کئے تھے ، جس طرح یہ اعتراضات دنیائے ونی کے جھوٹے معیار کے حوالے سے تھے اسی طرح فرعون نے بھی اپنی برتری کے لئے دنیاوی معیار پیش کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی کہا کہ میں رب العالمین کا رسول ہوں اور تمام رسولوں نے کہا کہ ہم رسول ہیں ، یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کی طرف اور ان کے مقابلے میں فرعونیوں کے رد عمل کی طرف بھی صریح اشارہ۔ اذاھم منھا یضحکون (٤٣ : ٤٨) “ وہ ٹھٹھے مارنے لگے ”۔ اور ہمیشہ جاہلوں کا یہی انداز ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان آزمائشوں کی طرف اشارہ آتا ہے ، جن کی تفصیلات دوسری سورتوں میں دے دی گئی ہیں۔ یہ آزمائشیں پے در پے ان پر آئیں اور یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاں فریادی ہوئے اور آپ ؐ کی دعاؤں سے وہ آزمائشیں دور ہوئیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قوم فرعون کے پاس پہنچنا اور ان لوگوں کا معجزات دیکھ کر تکذیب اور تضحیک کرنا، فرعون کا اپنے ملک پر فخر کرنا اور بالآخر اپنی قوم کے ساتھ غرق ہونا ان آیات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت و رسالت اور فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں اور چودھریوں کی تکذیب پھر ہلاکت اور تعذیب کا ذکر ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور اس کے اشراف قوم کے پاس اللہ تعالیٰ کی نشانیاں یعنی معجزات لے کر پہنچے تو ان لوگوں نے ان کا مذاق بنایا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی کو ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ اژدھا بن گئی تو فرعون اور اس کے درباریوں نے کہا کہ اجی یہ کیا معجزہ ہے یہ تو جادو کا کرشمہ ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں نے جادو گر بلائے ان سے مقابلہ کرایا جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ڈالیں جو حاضرین کو دیکھنے میں دوڑتے ہوئے سانپ معلوم ہو رہی تھیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا ڈالا تو وہ ان کے بنائے ہوئے دھندے کو چٹ کرنے لگا اس پر جادوگر ہار مان گئے جس کا واقعہ سورة الاعراف، سورة طٰہٰ اور سورة الشعراء میں مذکور ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا دوسرا معجزہ ید بیضا تھا اس کا مقابلہ کرنے کی تو ہمت ہی نہ ہوئی اور نہ ہوسکتی تھی، کیونکہ وہ امر غیر اختیار تھا ان کے علاوہ اور بھی معجزات تھے جو فرعونیوں کے لیے بھیجے گئے تھے، جن کا ذکر سورة اعراف میں یوں بیان فرمایا ہے ﴿فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ﴾ یعنی ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون بھیج دیا) (توضیح و تشریح کے لیے آیت بالا کی تفسیر ملاحظہ کرلی جائے) یہ چیزیں ان پر عذاب کے طور پر تھیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعدد معجزات تھے جب کوئی نشانی ظاہر ہوتی تھی تو وہ اپنی ساتھ والی دوسری نشانی سے بڑھ چڑھ کر ہوتی تھی عذاب آتا تھا تو کہتے تھے کہ ہم تو اسے جادو ہی سمجھ رہے ہیں تم کہتے ہو یہ میرے رب کی طرف سے ہے جو مجھے بطور معجزہ عطاء کیا ہے اور تم یہ بھی کہتے ہو کہ اگر تم ایمان لے آؤ گے تو میرا رب تمہارے اس عذاب کو ہٹا دے گا ہماری سمجھ میں یہ بات آتی تو نہیں ہے ہم تو تمہیں جادوگر ہی سمجھ رہے ہیں لیکن اگر تمہارے رب نے ہمارا عذاب ہٹا دیا تو ہم ضرور راہ پر آجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب ہٹا دیا جاتا تھا تو اپنا عہد توڑ دیتے تھے اور کافر کے کافر ہی رہتے تھے فرعون کو فکر لگی ہوئی تھی کہ یہ شخص بڑے بڑے معجزات دکھاتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ میری قوم کے لوگ اس بات کو قبول کرلیں اور میری حکومت اور سلطنت جاتی رہے اور یہی بڑا بن جائے لہٰذا اس نے اپنی قوم میں ایک منادی کرادی اور اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے کہا کہ دیکھو میں مصرکا بادشاہ ہوں میرے نیچے نہریں بہتی ہیں میں اس شخص سے بہتر ہوں جو نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے یہ میرے مقابلے میں ذلت والا ہے اس کی مالی حیثیت بھی نہیں اور یہ اور اس کا بھائی اس قوم میں سے ہے جو ہمارے خدمت گزار ہیں فرمانبردار ہیں ﴿فَقَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَ قَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَۚ٠٠٤٧﴾ یہ اول تو دنیاوی اعتبار سے مجھ سے کم ہے اس کی کچھ حیثیت نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ اچھی طرح بیان بھی نہیں کرسکتا (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں جو لکنت تھی اس کی طرف اشارہ کیا) اور تیسری بات یہ ہے کہ اگر یہ شخص نبی ہے تو بہت بڑا مالدار ہونا چاہیے اگر نبی ہوتا تو اس پر سونے کے کنگن ڈالے جاتے اور چوتھی بات یہ ہے کہ اس کی تائید کے لیے فرشتے آنے چاہئیں تھے جو لگا تار صفیں بنا کر آجاتے اس کی تائید اور مدد کرتے۔ ہر قوم کے چھوٹے لوگ بڑے لوگوں کی طرف دیکھا کرتے ہیں بڑے لوگ فرعون کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے ان کی دیکھا دیکھی قوم کے دوسرے لوگ بھی مغلوب ہوگئے اور موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ لائے فرعون کی اطاعت کا دم بھرتے رہے اس کی قوم کے چھوٹے بڑے لوگ فاسق اور نافرمان تھے شرارت سے بھرے ہوئے تھے انہوں نے کفر پر رہنے کا فیصلہ کیا سمجھانے سے باز نہ آئے، موسیٰ (علیہ السلام) کی اور معجزات کی بےادبی کی اور معجزات کو جادو بتایا یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کا غضب نازل کرنے والی تھیں، اللہ تعالیٰ نے ان سے بدلہ لے لیا اور ان سب کو ڈبو دیا غرق کرنے تک کا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا ﴿ فَجَعَلْنٰهُمْ سَلَفًا﴾ کہ ہم نے انہیں بعد میں آنے والوں کے لیے سلف یعنی پہلے گزر جانے والا نمونہ بنا دیا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا میں پہلے آئے سرکشی کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوئے ڈبو دئیے گئے بعد میں آنے والوں کے لیے ان کا واقعہ عبرت اور نصیحت ہے قصص الاولین مواعظا للاخرین، پہلے لوگوں کے واقعات جنہیں سلف کہا جاتا ہے بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت ہوتے ہیں اور اس بات کا نمونہ بن جاتے ہیں کہ جو قوم ان کی طرح اعمال کرے گی ان کے ساتھ پرانے لوگوں جیسا معاملہ کیا جائے گا۔ قولہ تعالیٰ ﴿اَمْ اَنَا خَيْرٌ ﴾ قال ابو عبیدة ام بمعنی بل لیس بحرف عطفٍ ، وقال الفراء ان شئت جعلتھا من الاستفھام وان شئت جعلتھا من النسق علی قولہ ﴿اَلَيْسَ لِيْ مُلْكُ مِصْرَ ﴾ وقیلھی زائدة وقولہ مقترنین معناہ قال ابن عباس (رض) یعاونونہ علی من خالفہ وقال قتادة متتابعین قال مجاھد یمشون معہ والمعنی ھل ضم الیہ الملائكة التی یزعم انھا عند ربہ حتی یتکثربھم یصرفھم علی امرہ ونھیہ فیکون ذلک اھیب فی القلوب۔ وقولہ تعالیٰ ﴿فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ ﴾ قال ابن الاعرابی المعنی فاستجھل قومہ لنخفة احلامھم وقلة عقولھم، وقیل استخف قومہ قھرھم حتی اتبعوہ یقال استخفہ خلاف استثقلہ واستخف بہ اھانہ۔ قولہ تعالیٰ ﴿ فَلَمَّاۤ اٰسَفُوْنَا ﴾ عن ابن عباس ای غاظونا واغضبونا والغضب من اللّٰہ اما ارادة العقوبة فیکون من صفات الذت اما عین العقوبة فیکون من صفات الفعل۔ (من القرطبی ص ١٠١: ج ١٦) ارشاد الٰہی ﴿اَمْ اَنَا خَيْرٌ ﴾ ابو عبیدہ (رض) نے کہا ام، بل کے معنی میں ہے، حرف عطف نہیں ہے، فراء کہتے ہیں اگر چاہو تو استفہام کے لیے سمجھو چاہو تو ﴿اَلَيْسَ لِيْ مُلْكُ مِصْرَ ﴾پر عطف مان لو، بعض نے کہا زائد ہے۔ ﴿مُقْتَرِنِيْنَ ﴾ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں : اس کا معنی ہے وہ مخالفوں کے خلاف اس کی مدد کرتے، قتادہ (رض) کہتے ہیں اس کا معنی ہے متتابِعِیْنَ یعنی اس کی پیروی کرتے، مجاہد کہتے ہیں اس کے ساتھ چلتے مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ فرشتے ہوتے جو اس بات کی دلیل ہوتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ یہاں تک کہ وہ ان فرشتوں سے کثرت حاصل کرتا اور امر ونہی کا ان پر تصرف کرتا تو اس سے دلوں میں رعب پڑتا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30:۔ ” ولقد ارسلنا موسیٰ “ یہ دوسری دلیل نقلی تفصیلی ہے۔ از موسیٰ (علیہ السلام) اور ” لولانزل ھذا القران الخ “ سے متعلق ہے۔ جس طرح مشرکین عرب آپ پر ازراہ عناد و مکابرہ اعتراض کرتے ہیں، اسی طرح کے اعتراضات فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) پر کیے تھے۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دلائل و معجزات دے کر فرعون اور اس کے ارکانِ سلطنت کے پاس بھیجا، جب وہ ہماری آیت کے ساتھ ان کے پاس آئے تو وہ ان کو دیکھتے ہی استہزاء و تمسخر کے انداز میں ہنسنے لگے اور معجزات کو جادو کہنے لگے ” وما نریہم من ایۃ الخ “ ہم نے ان کو ایک سے ایک بڑھ کر اپنے نشانات اور معجزات دکھائے اور انہیں مختلف اقسام عذاب میں گرفتار کیا تاکہ وہ انکار وجحود سے باز آجائیں۔ والمراد وصف الکل بالکبر کقولک رایت رجالا بعضہم افضل من بعض (بیضاوی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(46) اور بلا شبہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا سو موسیٰ نے کہا کہ میں رب العالمین کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں۔ یعنی عصا اور یدبیضا لے کر آئے اور اس کے دربار میں اپنے رسول ہونے کا اعلان کیا مگر اس نے نہیں مانا اور ان کے فرستادہ خدا ہونے کو تسلیم نہیں کیا۔