Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 49

سورة الزخرف

وَ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَ السّٰحِرُ ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنۡدَکَ ۚ اِنَّنَا لَمُہۡتَدُوۡنَ ﴿۴۹﴾

And they said [to Moses], "O magician, invoke for us your Lord by what He has promised you. Indeed, we will be guided."

اور انہوں نے کہا اے جادو گر! ہمارے لئے اپنے رب سے اس کی دعا کر جس کا اس نے تجھ سے وعدہ کر رکھا ہے یقین مان کہ ہم راہ پر لگ جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالُوا ... And they said (to Musa): Every time one of these signs came to them, they would go and implore Musa, saying, ... يَا أَيُّهَا السَّاحِرُ ... "O you sorcerer!..." meaning, expert or knowledgeable one -- this was the view of Ibn Jarir. The scholars of that time were the sorcerers or magicians, and magic was not regarded as something reprehensible by them at that time, so this was not a slight on their part. They were in a state of need, so it would not have been appropriate for them to insult him. This was a way of honoring him, as they thought. ... ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِذَا هُمْ يَنكُثُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 ' اپنے رب سے ' کے الفاظ اپنی مشرکانہ ذہنیت کی وجہ سے کہے کیونکہ مشرکوں میں مختلف رب اور اللہ ہوتے تھے، موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے یہ کام کروا لو ! 49۔ 2 یعنی ہمارے ایمان لانے پر عذاب ٹالنے کا وعدہ۔ 49۔ 3 اگر عذاب ٹل گیا تو ہم تجھے اللہ کا سچا رسول مان لیں گے اور تیرے ہی رب کی عبادت کریں گے لیکن ہر دفعہ وہ اپنا یہ عہد توڑ دیتے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے اور سورة اعراف میں بھی گزرا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٨] سیدنا موسیٰ کو قوم کی طرف سے ایذا دہی :۔ اس آیت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً (١) فرعون اور آل فرعون کو یہ پوری طرح معلوم ہوچکا تھا کہ آپ جادوگر نہیں بلکہ فی الواقع اللہ کے رسول ہیں۔ اور اللہ ان کی دعا سنتا ہے اور اسے قبول بھی کرتا ہے۔ اسی لیے وہ عذاب اور مصیبت کے وقت آپ کی طرف رجوع کرتے اور دعا کی درخواست کرتے تھے۔ (٢) ان کی اکڑ کا یہ عالم تھا کہ التجا کے وقت بھی وہ آپ کو && ساحر && ہی کہتے تھے۔ جیسا کہ تمام انبیاء کو اس لقب سے نوازا جاتا رہا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ انہوں نے اپنی قوم کو مطمئن رکھنے اور الو بنانے کے لیے && ساحر && کے طور پر ہی مشہور کر رکھا تھا۔ یہی وہ باتیں تھیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ && ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو موسیٰ کو دکھ پہنچاتے رہے && (٣٣: ٦٩) (٣) جس طرح دوسرے انبیاء کو یہ حکم تھا کہ وہ کافروں کی باتوں کو صبر و تحمل سے برداشت کریں۔ اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی یہی حکم تھا اور یہ پے در پے عذاب چونکہ اللہ کی طرف سے تنبیہات تھیں لہذا سیدنا موسیٰ اپنی اس توہین کو بھی برداشت کرتے۔ پھر اللہ کے حکم کے تحت ان کے لیے عذاب کے دور ہونے کی دعا بھی کرتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وقالوا یا یہ السحر ادع لنا ربک …: یہاں یہ بات اختصار کے ساتھ ذکر ہوئی ہے، سورة اعراف میں تفصیل کے ساتھ ہے، فرمایا (ولما وقع علیھم الرجز قالوا یموسی ادع لنا ربک بما عھد عندک لئن کشفت عذا الرجز لنومنن لک ولنرسلن معک بنی اسرآئیل (الاعراف : ١٣٣)” اور جب ان پر عذاب آتا تو کہتے اے موسیٰ ! اپنے رب سے ہمارے لئے اس عہد کے واسطے سے دعا کر جو اس نے تیرے ہاں دے رکھا ہے، یقینا اگر تو ہم سے یہ عذاب دور کر دے تو ہم ضرور ہی تجھ پر ایمان لے آئیں گے اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو ضروری بھیج دیں گے۔ “ (٢) یہاں ایک سوال ہے کہ اتنی مشکل گھڑی میں جب وہ عذاب میں گرفتار تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کی درخواست کر رہے تھے اس وقت بھی وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو ” یا یہ السحر “ (اے جادوگر ! ) کے ساتھ مخاطب کر رہے ہیں، حالانکہ اس وقت تو انہیں کسی اچھے لفظ سے مخاطب کرنا چاہیے تھا۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) پر صریح بہتان سن کر بھی انہیں کچھ نہیں کہتے، بلکہ ان کے لئے دعا کر کے انھیں عذاب سے نجات دلواتے ہیں۔ مفسرین نے اس کے کئی جواب دیئے ہیں، یہاں ان میں سے دو جواب ذکر کئے جاتے ہیں۔ ابن کثیر نے فرمایا :” ساحر سے مراد عالم ہے، یہی ابن جریر نے فرمایا ہے۔ ان کے زمانے کے علماء جادوگر ہی تھے اور ان کے ہاں جادو بری چیز نہ تھا، اس لئے انہوں نے یہ الفاظ تنقیص کے لئے نہیں کہے، کیونکہ ان کی مجبوری کی حلات اس سے مناسبت نہیں رکھتی، بلکہا ن کے گمان کے مطابق یہ تعظیم کا لفظ تھا۔ “ (ابن کثیر) دوسرا جواب یہ ہے کہ انہوں نے خطاب ” یا موسیٰ “ کے الفاظ کے ساتھ ہی کیا تھا، جیسا کہ سورة اعراف کی آیت (١٣٤) میں ہے، مگر وہ دل سے انھیں جادوگر سمجھتے تھے اور وہ جادو اور جادوگروں کو مذموم ہی سمجھتے تھے، جیسا کہ اس سے پہلے فرعون اور اس کے درباریوں نے صاف الفاظ میں کہا تھا :(فقالوا سحر کذاب) (المومن : ٢٧)” تو انہوں نے کہا جادوگر ہے۔ بہت جھوٹا ہے۔ “ اب ان کا حال دیکھیے کہ وہی شخص جسے وہ جادوگر سمجھتے تھے نہایت عاجزی کے ساتھ اسی سے دعا کی درخواست کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی درخواست کا ذکر فرماتے ہوئے ان کے دل کی حالت کا ذکر اپنے الفاظ میں فرمایا ہے۔ مقصود ان پر طعن ہے کہ جب جادوگر سمجھتے ہو اور ہمیشہ اسے اسی لفظ سے یاد کرتے ہو تو اس سے دعا کی درخواست کیسی ؟ اور اگر مستحاب الدعاء کہتے ہو تو جادوگر کیوں سمجھتے ہو ؟ یہ ایسے ہی ہے کہ قریش جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادو گر کہتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑاتے تھے، مشکل وقت میں وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعا کی درخواست بھی کیا کرتے تھے، جیسا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے ان کا حال بیان کیا ہے، فرماتے ہیں :(وان قریشا ابطؤا عن الاسلام فدعا علیھم النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال الھھم اعنی علیھم بسبع کسبع یوسف، فاخذتھم سنۃ حتی ھلکوا فیھا، واکلوا المیتۃ والعظام و یری الرجل ما بین السماء والارض کھیئۃ الدخان، فجاء ہ ابوسفیان فقال یا محمدً ! جئت تامرنا بصلۃ الرحیم، و ان قومک قد ھلکوا فاد اللہ) (بخاری، التفسیر، سورة الروم :3883)” قریش نے اسلام قبول کرنے میں دیر کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر بد دعا کی :” اے اللہ ! ان کے خلاف یوسف (علیہ اسلام) کے قحط والے سات سالوں جیسے سات سالوں کے ساتھ میری مدد فرما۔ “ تو انہیں قحط نے آلیا، یہاں تک کہ وہ اس میں برباد ہوگئے اور مردار اور ہڈیاں کھا گئے اور آدمی کو آسمان و زمین کے درمیان دھواں سا نظر آتا تھا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ابوسفیان آیا اور کہنے لگا : ” اے محمد ! آپ ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور حال یہ ہے کہ آپ کی قوم برباد ہوگئی ہے، اس لئے اللہ سے دعا کیجیے۔ “ اس حدیث میں ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے قحط دور ہوا تو پھر منکر ہوگئے۔ مجھے یہ دوسرا جواب بہتر معلوم ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا يٰٓاَيُّہَ السّٰحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَہِدَ عِنْدَكَ۝ ٠ ۚ اِنَّنَا لَمُہْتَدُوْنَ۝ ٤٩ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ عهد العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً. قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] ( ع ھ د ) العھد ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله : الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة/ 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] . الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة/ 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩۔ ٥٠) انہوں نے کہا اے جادوگر یعنی عالم کیونکہ ان کے یہاں جادوگر کا درجہ بڑا تھا اس لیے یہ لفظ خودبخود نکل جاتا تھا۔ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے دعا کردیجیے جس کا اس نے آپ سے عہد کر رکھا ہے اور موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر یہ لوگ ایمان لے آئے تو ان سے ع ذاب کو دور کردیا جائے گا، اسی لیے اس عہد کو یاد دلا کر کہا کہ ہم ضرور آپ پر اور جس چیز کو آپ لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لے آئیں گے، چناچہ جب ہم نے ان سے اس عذاب کو ہٹا دیا تو انہوں نے اپنا عہد توڑ دیا اور ایمان نہیں لائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ { وَقَالُوْا یٰٓاَیُّہَ السّٰحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنْدَکَ } ” اور (ہر عذاب کے موقع پر) وہ کہتے : اے جادوگر ! تم اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کرو اس عہد کی بنا پر جو اس نے تم سے کر رکھا ہے۔ “ سورة الاعراف میں یہ واقعات تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ جب وہ لوگ ایک عذاب سے تنگ آجاتے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کی درخواست کرتے اور وعدہ کرتے کہ اگر ہماری یہ تکلیف دور ہوگئی تو : { اِنَّنَا لَمُہْتَدُوْنَ } ” ہم ضرور ہدایت پر آجائیں گے۔ “ سورة الاعراف میں ان کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : { لَئِنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَکَ بَنِیْٓ اِسْرَٓائِ یْلَ ۔ } ” اگر تم نے ہم سے اس عذاب کو ہٹا دیا تو ہم لازماً تمہاری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی لازماً تمہارے ساتھ بھیج دیں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:49) ادع : امر کا صیغہ واحد مذکر غائب دعوۃ (باب نصر) مصدر۔ تو مانگ ، تو دعا کر۔ ای تدعوا لنا فیکشف عنا العذاب۔ ہمارے لئے دعا کر کہ ہم پر سے عذاب ہٹ جائے۔ بما عھد عندک ب سببیہ ہے ما موصولہ عھد عندک صلہ اللہ نے تمہارے ساتھ عہد کیا ہے۔ یعنی تم نے ہم سے کہا ہے کہ تم اگر دعا کرو گے تو تمہارا رب عذاب دور کر دے گا۔ اس نے تم سے اس کا وعدہ کرلیا ہے۔ اس بہ سبب اس عہد کے تم اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ ہمارا عذاب دور کر دے۔ اننا لمھتدون : ای اننا لمؤمنون۔ بیشک ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ ایمان کو ہدایت سے تعبیر کیا ہے اسے علم بیان میں تسمیۃ السبب باسم المسبب کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں اور جگہ ارشاد الٰہی ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں :۔ ولما وقع علیہم الرجز قالوا یموسی ادع لنا ربک بما عھد عندک لئن کشفت عنا الرجز لنؤمنن لک ولنرسلن معک بنی اسرائیل (7:134) اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا تو کہتے اے موسیٰ ہمارے لئے اپنے پروردگار سے دعا کرو جیسا کہ اس نے تم سے عہد کر رکھا ہے اگر تم ہم سے عذاب کو ٹال دو گے تو ہم ضرور تم پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی تمہارے ساتھ جانے (کی اجازت) دیدیں گے۔ اس کا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے : بیشک ہم ضرور ہدایت یافتہ ہوجائیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 کہ جب لوگ ایمان لے آئیں تو میں عذاب اٹھالوں گا۔ یا تیرے ملک نے جو عہد منصب نبوت تجھے دیا ہے اس کے واسطہ سے ( بما عھد عندک) کے یہ دونوں مطلب ہوسکتے ہیں۔ بعض نے اس کے یہ معنی کہے ہیں ” اس واسطے کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے کہ تیری دعا قبول کروں گا۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31:۔ ” وقالوا یا ایہا اساحر۔ الایۃ “۔ ان کے عناد و استکبار کی تنہاء تھی کہ جب وہ کسی عذاب میں مبتلا ہوجاتے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر کہہ کر پکارتے اور کہتے اپنے رب کو پکار کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے کہ اگر یہ ایمان لے آئیں تو ان سے عذاب ہٹا لیا جائیگا۔ اس لیے اللہ سے دعا مانگ کہ اس عذاب کو ہٹا لے تو ہم پختہ عہد کرتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئیں گے اور ہدایت قبول کرلیں گے۔ ای بما اخبرنا عن عہدہ الیک انا ان امنا کشف عنا، فسلہ یشف عنا (اننا لمھتدون) ای فیما یستقبل (قرطبی ج 16 ص 68) فلما کشفنا عنہم۔ الایۃ “ یہ بار بار ان کی عہد شکنی کا بیان ہے۔ ہر عذاب کے بعد وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے پختہ عہد کرتے کہ اگر یہ عذاب ہم سے اٹھا لیا جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے، لیکن جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے اللہ تعالیٰ عذاب کو اٹھا لیتا تو وہ اپنا عہد پورا نہ کرتے اور ایمان لانے کے بجائے اپنے گذشتہ کفر و طغیان پر قائم رہتے۔ ” ینکثون “ ینقضون العہد بالایمان ولا یفون بہ (مدارک ج 4 ص 92) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(49) اور ان فرعونیوں نے ہر موقعہ پر موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اے جادو گر تو اپنے پروردگار سے اس عہد کی بنا پر جو اس نے تجھ سے کررکھا ہے ہمارے لئے دعا کردے ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہم ضرور راہ پر آجائیں گے۔