Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 5

سورة الزخرف

اَفَنَضۡرِبُ عَنۡکُمُ الذِّکۡرَ صَفۡحًا اَنۡ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا مُّسۡرِفِیۡنَ ﴿۵﴾

Then should We turn the message away, disregarding you, because you are a transgressing people?

کیا ہم اس نصیحت کو تم سے اس بنا پر ہٹا لیں کہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Shall We then take away the Reminder (this Qur'an) from you, because you are a people excessive. means, `do you think that We will forgive you and not punish you, when you do not do as you have been commanded?' This was the view of Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, Abu Salih, Mujahid and As-Suddi, and was the view favored by Ibn Jarir. أَفَنَضْرِبُ عَنكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا ... Shall We then take away the Reminder (this Qur'an) from you? Qatadah said, "By Allah, if this Qur'an had been taken away when the first generations of this Ummah rejected it, they would have been doomed, but Allah by His mercy persisted in sending it and calling them to it for twenty years, or for as long as He willed." What Qatadah said is very good, and his point is that Allah, by His grace and mercy towards His creation, did not stop calling them to the truth and to the wise Reminder, i.e., the Qur'an, even though they were heedless and turned away from it. Indeed, He sent it so that those who were decreed to be guided might be guided by it, and so that proof might be established against those who were decreed to be. Consolation to the Prophet for the Disbelief of Quraysh Then Allah consoles His Prophet for the disbelief of his people, and commands him to bear it with patience. وَكَمْ أَرْسَلْنَا مِن نَّبِيٍّ فِي الاَْوَّلِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 اس کے مختلف معنی کئے گئے ہیں مثلاً 1۔ تم چونکہ گناہوں میں بہت بڑھ چکے ہو اور ان پر مصر ہو، اس لئے کہ یہ گمان کرتے ہو کہ ہم وعظ و نصیحت کرنا چھوڑ دیں گے ؟ 2۔ یا تمہارے کفر اور اسراف پر ہم تمہیں کچھ نہ کہیں گے اور تم سے درگزر کرلیں گے 3۔ یا تمہیں ہلاک کردیں گے اور کسی چیز کا تمہیں حکم دیں نہ منع کریں، 4۔ چونکہ تم قرآن پر ایمان لانے والے نہیں ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] یعنی اے کفار مکہ ! اگر تم اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے۔ قرآن کی آیات کا مذاق اڑاتے ہو، کبھی اسے پہلوں کی کہانیاں قرار دیتے ہو، کبھی اسے بندوں کا کلام کہتے ہو۔ تو کیا ہم تمہاری ایسی شرارتوں کی وجہ سے خلقت کی رہنمائی کا کام چھوڑ دیں گے اور قرآن کو نازل کرنا بند کردیں گے ؟ اس کے نزول کے دو فائدے تو بہرحال ہو ہی رہے ہیں ایک یہ کہ بہت سی سعید روحیں اس سے مستفید ہو رہی ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ تم لوگوں پر حجت پوری ہو رہی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) افنضرب عنکم الذکر صفحاً :” ضرب “ کا صلہ جب ” عن “ آئے تو اس کا معنی ” صرف عنہ “ عنکم الذکر صفحاً “ کی کئی ترکیبیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ یہ مصدر مفعول مطلق ہے تاکید کے لئے، کیونکہ ” افنضرب عنکم “ کا معنی بھی اعراض کرنا ہے اور ” صفحاً “ کا بھی یہی معنی ہے۔ گویا یہ مصدر مفعول مطلق فعل کے ہم معنی لفظ کے ساتھ ہے، جیسے ” فعدث جلوساً ) ہے۔ معنی یہ ہوگا کہ ” کیا ہم یہ نصیحت تم سے ہٹا لیں، بالکل ہٹا لینا ؟ “ اور ایک یہ کہ ” صفحاً “ مفعول لہ یا حال ہے، یعنی ” کیا ہم تم سے یہ نصیحت اپنے اعراض کی وجہ سے یا اعراض کرتے ہوئے ہٹالیں ؟ “ (٢) ان کنتم قوماً مسرفین :” ان “ سے پہلے لام جارہ محذوف ہے اور ” کنتم “ میں استمرار ہے :” ای لان کنتم “ ” اس لئے کہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ چلے آئے ہو۔ “ آیت کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اتنا بلند متربہ قرآن تمہاری زبان میں تمہارے سمجھانے کے لئے نازل کیا، مگر تم زیادتی اور اسراف پر ڈٹے رہے اور مسلسل انکار کرتے رہے، تو کیا تمہارے اس مسلسل اسراف و انکار کی وجہ سے ہم اعراض کرتے ہوئے تم سے سے اسے نصیحت کو ہٹا لیں اور تمہیں سمجھانا چھوڑ دیں ڈ یعنی ہم ایسا نہیں کریں گے اور نہ یہ ہماری رحمت کا تقاضا ہے، کیونکہ تمہارا اسراف اور گمراہی تو قرآن اتارے جانے کا اصل سبب ہے۔ چناچہ ان کے انکار کے باوجود قرآن تئیس برس تک اترتا رہا، بیشمار سعید روحیں اس پر ایمان لائیں اور جو کفر پر ڈٹے رہے ان پر حجت قائم ہوگئی اور ان کی پشتوں سے بھی لاتعداد لوگ اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

A Preacher must not give up his preaching due to disappointment أَفَنَضْرِ‌بُ عَنكُمُ الذِّكْرَ‌ صَفْحًا أَن كُنتُمْ قَوْمًا مُّسْرِ‌فِينَ (Shall we remove the advice away from you because you are a transgressing people? - 43:5) The meaning is that We will not give up advising you through the Qur&an, no matter how rebellious and disobedient you may become. This tells us that the person who is engaged in preaching and inviting others towards Islam should carry the message to everybody; he must not give up preaching to some people or any group simply because they are non-believers, highly irreligious, sinners and transgressors.

مبلغ کو مایوس ہو کر نہیں بیٹھنا چاہئے : (کیا ہم تم سے اس نصیحت کو اس بات پر ہٹا لیں گے کہ تم حد سے گزرنے والے ہو ؟ ) مطلب یہ ہے کہ تم اپنی سرکشی اور نافرمانی میں خواہ کتنے ہی حد سے گزر جاؤ لیکن ہم تمہیں قرآن کے ذریعہ نصیحت کرنا نہیں چھوڑیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دعوت و تبلیغ کا کام کرتا ہو اسے ہر شخص کے پاس پیغام حق لے کر جانا چاہئے اور کسی گروہ یا جماعت کو تبلیغ کرنا محض اس بنا پر نہیں چھوڑنا چاہئے کہ وہ تو انتہا درجے کے ملحد بےدین یا فاسق و فاجر ہیں انہیں کیا تبلیغ کی جائے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا اَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِيْنَ۝ ٥ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) ضرب الضَّرْبُ : إيقاعُ شيءٍ علی شيء، ولتصوّر اختلاف الضّرب خولف بين تفاسیرها، كَضَرْبِ الشیءِ بالید، والعصا، والسّيف ونحوها، قال : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال/ 12] ، فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد/ 4] ، فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة/ 73] ، أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف/ 160] ، فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات/ 93] ، يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد/ 27] ، وضَرْبُ الأرضِ بالمطر، وضَرْبُ الدّراهمِ ، اعتبارا بِضَرْبِ المطرقةِ ، وقیل له : الطّبع، اعتبارا بتأثير السّمة فيه، وبذلک شبّه السّجيّة، وقیل لها : الضَّرِيبَةُ والطَّبِيعَةُ. والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] ، ومنه : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] ، وضَرَبَ الفحلُ الناقةَ تشبيها بالضَّرْبِ بالمطرقة، کقولک : طَرَقَهَا، تشبيها بالطّرق بالمطرقة، وضَرَبَ الخیمةَ بضرب أوتادها بالمطرقة، وتشبيها بالخیمة قال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران/ 112] ، أي : التحفتهم الذّلّة التحاف الخیمة بمن ضُرِبَتْ عليه، وعلی هذا : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران/ 112] ، ومنه استعیر : فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] ، وقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] ، وضَرْبُ العودِ ، والناي، والبوق يكون بالأنفاس، وضَرْبُ اللَّبِنِ بعضِهِ علی بعض بالخلط، وضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا [ الزخرف/ 57] ، ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف/ 58] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الكهف/ 45] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] . والمُضَارَبَةُ : ضَرْبٌ من الشَّرِكَةِ. والمُضَرَّبَةُ : ما أُكْثِرَ ضربُهُ بالخیاطة . والتَّضْرِيبُ : التّحریضُ ، كأنه حثّ علی الضَّرْبِ الذي هو بعد في الأرض، والاضْطِرَابُ : كثرةُ الذّهاب في الجهات من الضّرب في الأرض، واسْتِضَرابُ الناقةِ : استدعاء ضرب الفحل إيّاها . ( ض ر ب ) الضرب کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر واقع کرنا یعنی مارنا کے ہیں اور مختلف اعتبارات سے یہ لفظ بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے (1) ہاتھ لاٹھی تلوار وغیرہ سے مارنا ۔ قرآن میں ہے : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال/ 12] ان کے سر مارکراڑا دو اور ان کا پور پور مارکر توڑدو ۔ فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد/ 4] تو انکی گردنین اڑا دو ۔ فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة/ 73] تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا سا ٹکڑا مقتول کو مارو أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف/ 160] اپنی لاٹھی پتھر پر مارو ۔ فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات/ 93] پھر ان کو داہنے ہاتھ سے مارنا اور توڑنا شروع کیا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد/ 27] ان کے مونہوں ۔۔۔۔ پر مارتے ہیں ۔ اور ضرب الارض بالمطر کے معنی بارش پر سنے کے ہیں ۔ اور ضرب الدراھم ( دراہم کو ڈھالنا ) کا محاورہ الضرب بالمطرقۃ کی مناسبت سے استعمال ہوتا ہے ۔ اور نکسال کے سکہ میں اثر کرنے کے مناسبت سے طبع الدرھم کہاجاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر انسان کی عادت کو ضریبۃ اور طبیعۃ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔ ضرب الفحل ناقۃ ( نرکا مادہ سے جفتی کرنا ) یہ محاورہ ضرب بالمطرقۃ ( ہتھوڑے سے کوٹنا) کی مناسبت سے طرق الفحل الناقۃ کا محاورہ بولا جاتا ہے ۔ ضرب الخیمۃ خیمہ لگانا کیونکہ خیمہ لگانے کیلئے میخوں کو زمین میں ہتھوڑے سے ٹھونکاجاتا ہے اور خیمہ کی مناسبت سے آیت : ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران/ 112] اور آخر کار ذلت ۔۔۔۔۔۔ ان سے چمٹا دی گئی۔ میں ذلۃ کے متعلق ضرب کا لفظاستعمال ہوا ہے جس کے معنی کہ ذلت نے انہیں اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا جیسا کہ کیس شخص پر خیمہ لگا ہوا ہوتا ہے اور یہی معنی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران/ 112] اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے ۔ کے ہیں اور آیت : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] تو ہم نے غارکئی سال تک ان کے کانوں پر نیند کا پردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ نیز آیت کر یمہ : ۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائیگی ۔ میں ضرب کا لفظ ضرب الخیمۃ کے محاورہ سے مستعار ہے ۔ ضرب العود والنای والبوق عود اور نے بجان یا نر سنگھے میں پھونکنا ۔ ضرب اللبن : اینٹیں چننا، ایک اینٹ کو دوسری پر لگانا ضرب المثل کا محاورہ ضرب الدراھم ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں : کسی بات کو اس طرح بیان کرنا کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا[ الزخرف/ 57] اور جب مریم (علیہ السلام) کے بیٹے ( عیسٰی کا حال بیان کیا گیا ۔ ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف/ 58] انہوں نے عیسٰی کی جو مثال بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الكهف/ 45] اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] بھلا ( اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوے لوگ ہو ) ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ المضاربۃ ایک قسم کی تجارتی شرکت ( جس میں ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے اور نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں ) المضربۃ ( دلائی رضائی ) جس پر بہت سی سلائی کی گئی ہو ۔ التضریب اکسانا گویا اسے زمین میں سفر کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ الا ضطراب کثرت سے آنا جانا حرکت کرنا یہ معنی ضرب الارض سے ماخوذ ہیں ۔ استضرب الناقۃ سانڈھے نے ناقہ پر جفتی کھانے کی خواہش کی ۔ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] ، وقوله : هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] ، أي : شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] ، أي : الکتب المتقدّمة . وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه . وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) . ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] ، وقوله : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔ صفح صَفْحُ الشیءِ : عرضه وجانبه، كَصَفْحَةِ الوجهِ ، وصَفْحَةِ السّيفِ ، وصَفْحَةِ الحَجَرِ. والصَّفْحُ : تركُ التّثریب، وهو أبلغ من العفو، ولذلک قال : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة/ 109] ، وقد يعفو الإنسان ولا يَصْفَحُ. قال : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] ، وصَفَحْتُ عنه : أولیته مني صَفْحَةٍ جمیلةٍ معرضا عن ذنبه، أو لقیت صَفْحَتَهُ متجافیا عنه، أو تجاوزت الصَّفْحَةَ التي أثبتّ فيها ذنبه من الکتاب إلى غيرها، من قولک : تَصَفَّحْتُ الکتابَ ، وقوله : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] ، فأمر له عليه السلام أن يخفّف کفر من کفر کما قال : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل/ 127] ، والمُصَافَحَةُ : الإفضاء بِصَفْحَةِ الیدِ. ( ص ف ح ) صفح ۔ کے معنی ہر چیز کا چوڑا پہلو یا جانب کے مثلا صفحۃ السیف ( تلوار کا چوڑا پہلو ) صفحتہ الحجر ( پتھر کی چوڑی جانب وغیرہ ۔ الصفح ۔ ( مصدر ) کے معنی ترک ملامت اور عفو کے ہیں مگر یہ عفو سے زیادہ بلیغ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة/ 109] تو تم معاف کرو داور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا دوسرا حکم بھیجے ۔ میں عفو کے بعد صفح کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات انسان عفو یعنی درگزر تو کرلیتا ہے لیکن صفح سے کا م نہیں لیتا یعنی کسی سے اس قدر درگزر کرنا کہ اسے مجرم ہی نہ گروانا جائزنیز فرمایا : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اس لئے درگذر کرو اور اسلام کہہ دو ۔ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] تو تم ان سے اچھی طرح درگزر کرو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] بھلا اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوئے لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ صفحت عنہ (1) میں نے اس سے درگذر کرتے ہوئے اسے صفح جمیل کا والی بنایا یعنی اسکے جرم سے کلیۃ اعراض برتا (2) اس سے دور ہوتے ہوئے ایک جانب سے ملا (3) میں نے کتاب کے اس صفحہ سے تجاوز کیا جس میں اس کا جرم لکھ رکھا تھا ۔ اس صورت میں یہ تصفحت الکتاب سے ماخوذ ہوگا ۔ جس کے معنی کتاب کے صفحات کو الٹ پلٹ کردیکھنے کے ہیں قرآن میں ہے : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] اور قیامت توضرور آکر رہے گی لہذا تم ( ان سے ) ا چھی طرح سے درگذر کرو ۔ اس آیت میں آنحضرت کو حکم دیا گیا ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے غم کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل/ 127] اور ان کے بارے میں غم نہ کرو اور جو یہ بد اندیش کر رہے ہیں اس سے تنگ دل نہ ہو ۔ المصافحۃ مصافحہ کرنا ۔ ہاتھ ملانا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] سرف السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] ، أي : المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة . ( س ر ف ) السرف کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جہنوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥۔ ٧) اے مکہ والو کیا ہم تم سے وحی اور رسول کو محض اس بات پر اٹھا لیں گے یا تمہیں یوں ہی بغیر کسی امر و نہی کے رہنے دیں گے کہ تم مشرک ہو اور کسی بات کو نہیں مانتے اور ہم پچھلی قوموں میں آپ سے پہلے انبیاء کرام بھیجتے رہے ہیں۔ حالانکہ ہمیں معلوم تھا کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے مگر پھر بھی ہم نے ان میں کتاب اور رسول کے بھیجنے کو موقوف نہیں کیا اور ان لوگوں کے پاس جو بھی نبی آیا انہوں نے اس کے ساتھ مذاق کیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ { اَفَنَضْرِبُ عَنْکُمُ الذِّکْرَ صَفْحًا اَنْ کُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِیْنَ } ” کیا ہم اس ذکر کا رخ تمہاری طرف سے اس لیے پھیر دیں کہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو ! “ ہم نے اپنی یہ کتاب ہدایت ایک عظیم الشان نعمت کے طور پر تمہاری طرف نازل کی ‘ جو نصیحت و یاد دہانی پر مشتمل ہے ‘ مگر تم نے اس کی ناقدری کرتے ہوئے اس کی طرف سے روگردانی کی ہے۔ تو کیا ہم تمہارے اس رویے ّکی وجہ سے اپنی اس نعمت کو ہی اٹھا لیں ؟ نہیں ! ابھی ہم تم لوگوں کو مزید مہلت دینا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ابھی یہ کتاب تمہیں پڑھ کر سنائی جاتی رہے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4 In this one sentence the whole history that had taken place since the time the Holy Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace) had proclaimed to be a Prophet till the revelation of these verses during the past few years has been compressed. This sentence depicts the following picture: A nation has been involved in ignorance, backwardness and depravity for centuries. Suddenly, Allah looks at it with favour. He raises in it an illustrious guide and sends down His own Word to take it out of the darkness of ignorance so that it is aroused from slumber, it gives up superstitions of ignorance and it becomes aware of the truth and adopts the right way of life. But the ignorant people of the nation and the tribal chiefs turn hostile to the guide, and try their utmost to defeat him and his mission. With the passage of time their hostility and mischief go on increasing; so much so that they make up their mind to kill him. At this, it is being said: "Should We stop making any efforts to reform you because you are proving to be un-worthy people? Should We withhold sending down this Admonition, and leave you lying in the same wretched state in which you have been lying since centuries ? Do you really think that should be the demand of Our Mercy ? Have you ever considered what doom you would meet when you have turned down the bounty of Allah and persisted in falsehood after the truth has come before you?"

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :4 اس ایک فقرے میں وہ پوری داستان سمیٹ دی گئی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے وقت سے لے کر ان آیات کے نزول تک پچھلے چند برس میں ہو گزری تھی ۔ یہ فقرہ ہمارے سامنے یہ تصویر کھینچتا ہے کہ ایک قوم صدیوں سے سخت جہالت ، پستی اور بدحالی میں مبتلا ہے ۔ یکایک اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت اس پر ہوتی ہے ۔ وہ اس کے اندر ایک بہترین رہنما اٹھاتا ہے اور اسے جہالت کی تاریکیوں سے نکالنے کے لیے خود اپنا کلام نازل کرتا ہے ، تاکہ وہ غفلت سے بیدار ہو ، جاہلانہ اوہام کے چکر سے نکلے اور حقیقت سے آگاہ ہو کر زندگی کا صحیح راستہ اختیار کر لے ۔ مگر اس قوم کے نادان لوگ اور اس کے خود غرض قبائلی سردار اس رہنما کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں اور اسے ناکام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں ۔ جوں جوں سال پر سال گزرتے جاتے ہیں ، ان کی عداوت اور شرارت بڑھتی چلی جاتی ہے ، یہاں تک کہ وہ اسے قتل کر دینے کی ٹھان لیتے ہیں ۔ اس حالت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ کیا تمہاری اس نالائقی کی وجہ سے ہم تمہاری اصلاح کی کوشش چھوڑ دیں ؟ اس درس نصیحت کا سلسلہ روک دیں ؟ اور تمہیں اسی پستی میں پڑا رہنے دیں جس میں تم صدیوں سے گرے ہوئے ہو ؟ کیا تمہارے نزدیک واقعی ہماری رحمت کا تقاضا یہی ہونا چاہیے ؟ تم نے کچھ سوچا بھی کہ خدا کے فضل کو ٹھکرانا اور حق سامنے آ جانے کے بعد باطل پر اصرار کرنا تمہیں کس انجام سے دوچار کرے گا ۔ ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا ہے کہ جو لوگ نافرمانی میں حد سے گذر گئے ہوں، ان کو بھی ہدایت کا راستہ دکھایا جاتا ہے اور مطلب یہ ہے کہ تم پسند کرو یا ناپسند، ہم تمہیں ہدایت کا راستہ بتا کر نصیحت کرنا نہیں چھوڑ سکتے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:5) افنضرب عنکم الذکر صفحا : ہمزہ استفہام انکاری کا ہے ف عطف کے لئے۔ نضرب عن : جب کوئی شخص کسی چیز سے منہ پھیر لے اور اسے نظر انداز کر دے۔ تو عرب کہتے ہیں کہ ضربت عنہ میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ میں اس سے رک گیا۔ صفحا : صفح کا معنی ہے گردن کا ایک پہلو کسی کی طرف کردینا۔ (یعنی گردن پھیرلینا) صفحا مفعول مطلق من غیر لفظہ ہے۔ پہلو پھیرنا۔ دور ہوجانا۔ روگردان ہونا۔ یا صفحا مفعول مطلق ہے نضرب کا۔ جیسے قعدت جلوسا ہے۔ راغب نے لکھا ہے کہ صفح باب فتح کے معنی ترک تثریب۔ یعنی الزام یا اولاہنا چھوڑ دینے کے ہیں اور یہ فعو سے زیادہ بلیغ ہے جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے فاعفوا واصفحوا حتی یاتی اللّٰۃ بامرہ (2:109) سو تم درگزر کرو اور خیال میں نہ لاؤ جب تک بھیجے اللہ اپنا حکم ۔ اور یہ امر واقعہ ہے کہ کبھی انسان معاف تو کردیتا ہے لیکن الزام دینے نہیں چھوڑتا۔ الذکر : ذکر کے معنی پندو نصائح الذکر سے یہاں مراد قرآن اور اس کے پند و نصائح ہیں۔ ان کنتم قوما مسرفین : ان مصدریہ ہے مسرفین اسم فاعل جمع مذکر اسراف (افعال) سے جس کے معنی ہیں حد اعتدال سے تجاوز کرنا۔ مطلب یہ کہ :۔ تمہارے ایک حد سے تجاوز کرنے والی قوم ہونے پر کیا ہم تم کو نظر انداز کردیں گے اور قرآن عظیم اور اس میں مذکور فرائض و واجبات جن کی تعمیل تم پر لازمی ہے ان سے تم کو مطلع نہیں کریں گے۔ (ہمزہ استفہام انکاری کے داخل ہونے سے مطلب یہ ہوگیا کہ :۔ نہیں ہم تمہیں نظر انداز نہیں کریں گے اور اس ذکر عظیم (قرآن مجید) اور اس کے احکام سے تم کو ضرور مطلع کرتے رہیں گے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1” اور قرآن اتارنا موفوف کردیں “ ؟ ایسا خیال مت کرو کیونکہ تمہاری شرارت اور گمراہی تو قرآن کے اتارے جانے کا اصل سبب ہے تم اگر نہیں مانو گے تو تمہاری نسلوں میں ایسے نیک بخت لوگ پیدا ہوں گے جو اس پر ایمان لائیں گے اور دنیا کے ہادی و رہنما بنیں گے۔ بعض علماء علمائے تفسیر (رح) نے اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے ” کیا تمہارا گمان ہے کہ تم سے در گزر کریں گے اور عذاب نہیں دینگے اور حال یہ ہے کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو اور ہمارے حکم کے مطابق نہیں چلتے ہو، اس صورت میں ” الذکر “ بمعنی عذاب ہوگا۔ ابن جریر (رح) نے انہی معنی کو ترجیح دی ہے ( ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی خواہ تم مانو یا نہ مانو، مگر نصیحت تو برابر کی جائے گی، اور یہ فیض کامل ہو کر رہے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اگر لوگوں کا ایک طبقہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں تو کیا ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی راہنمائی نہ کرے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا وہ مہربان ہے اور اس کی مہربانی کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کی راہنمائی کرے جس کے لیے اس نے قرآن مجید نازل کیا ہے۔ قرآن مجید پہلی کتب آسمانی کا ترجمان، ان کے مضامین کا محافظ، پُر حکمت، عالی مرتبت اور عربی زبان میں ہے۔ اس کے باوجود اہل مکہ اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ ہر صورت قرآن مجید کی آوازکو دبا دیا جائے۔ اسی بنیاد پر وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانی دشمن ہوچکے تھے۔ وہ کسی طرح بھی گوارہ نہیں کرتے تھے کہ ان کی قوم کے سامنے قرآن مجید کی دعوت پیش کی جائے۔ اس پر انہیں سمجھایا گیا ہے کہ کیا تمہاری ہٹ دھرمی اور مخالفت کی وجہ سے ہم قرآن کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کرنا اور لوگوں کی راہنمائی کرنا چھوڑ دیں ؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ تم سے پہلے بھی ہم نے بہت سے رسول مبعوث کیے۔ لوگوں کے پاس کوئی نبی نہیں آیا مگر وہ اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ جس کی پاداش میں ہم نے ان کو ہلاک کردیا۔ حالانکہ وسائل واسباب، قوت وسطوت کے اعتبار سے وہ تم سے بڑھ کر تھے۔ اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ وہ چند باغیوں کی خاطر اپنے بندوں پر کرم فرمانا ترک نہیں کرتا۔ وہ ” اَلرَّحْمٰنُ ‘ اور ” اَلْحَکِیْمُ “ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ سرکشی چھوڑ کر اس کی غلامی میں زندگی بسر کریں تاکہ انہیں دنیا اور آخرت میں اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے۔ وہ حکیم ہے۔ حکیم کا کام ہے کہ وہ پر حکمت طریقہ کے ساتھ بگاڑ کا سدھار کرے۔ حکیم مریض کی خیر خواہی کی خاطر اس کی غلطی اور غفلت سے درگزر کرتے ہوئے اس کا علاج جاری رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حکیم اور سب کچھ جانتا ہے۔ اس لیے اس نے ایک عرصہ تک مکہ میں نزول قرآن کا سلسلہ جاری رکھا تاکہ چند سرداروں کو چھوڑ کر باقی لوگ اس سے ہدایت پائیں۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ کچھ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت سے پہلے اور باقی فتح مکہ کے موقع پر قرآن مجید کی نصیحت سے سرفراز ہوئے اور دنیا و آخرت میں کامیاب ٹھہرے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ” رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ وَرَضُوْعَنْہٗ “ کے عظیم ترین اعزاز سے سرفراز فرمایا۔ لغت میں ذکر کے معنٰی یاد کرنا، کسی کی بزرگی بیان کرنا، یاد رکھنا، بات سمجھنا، سمجھانا، نصیحت کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ہے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیحت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ چند ظالموں کی وجہ سے اپنے بندوں پر رحم کرنا نہیں چھوڑتا۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث کیے گئے ان سب کے ساتھ ان کی قوم نے مذاق کیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے ظالم قوموں کو ہلاک کردیا جو مکہ والوں سے قوت و سطوت میں کہیں زیادہ تھے۔ تفسیر بالقرآن اقوام کا اپنے انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ سلوک : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گذرتے تھے تو ان سے مذاق کرتے۔ (ہود : ٣٨) ٢۔ یہ مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مذاق کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (التوبۃ : ٧٩) ٣۔ وہ تعجب کرتے اور مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفٰت : ١٢) ٤۔ جب وہ ہماری نشانی دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفٰت : ١٤) ٥۔ جب بھی ان کے پاس رسول آیا تو انہوں نے اس سے مذاق کیا۔ (الحجر : ١١) ٦۔ ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا مگر وہ اس کے ساتھ استہزاء کرتے تھے۔ (الزخرف : ٧) ٧۔ لوگوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس جب کبھی رسول آئے تو انہوں نے ان کے ساتھ استہزاء کیا۔ (یٰس : ٣٠) ٨۔ جب بھی ان کے پاس آپ سے پہلے رسول آئے انہوں نے انہیں جادو گر اور مجنوں قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٩۔ کفار کہتے تھے کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو تم چاہتے ہو کہ ہم اپنے آباء و اجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ (ابراہیم : ١٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” افنضرب عنکم۔ الایۃ “ یہ زجر ہے اور الذکر سے یا قرآن مراد ہے یا دعوت توحید یا تذکرہ و تخویف (کبیر، بحر) اور صفحا، نضرب کا مفعول مطلق ہے من غیر لفظہ قالہ الشیخ (رح) تعالیٰ ۔ وکذا فی الروایۃ کنتم سے پہلے لام اجلیہ مقدر ہے ای لان کنتم (بیضاوی) ۔ مطلب یہ ہے کہ کیا ہم قرآن کا نازل کرنا بند کردیں اور تمہیں توحید کی دعوت دینا چھوڑ دیں محض اس وجہ سے کہ تم انصاف کی حدوں کو پھاند چکے ہو اور ضد وعناد پر اتر آئے ہو اور خداوندِ قادر وقیوم کے لیے نائب تجویز کرنے لگے ہو ؟ یا ” صفحا “ مفعول لہ ہے۔ مفعول لہ علی معنی افنعزل عنکم انزال القران والزام الحجۃ بہ اعراضا عنکم (بحر ج 8 ص 6) اور استفہام انکار ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہوسکتا، بلکہ ہم تمہیں توحید کی دعوت دینگے اور نہ ماننے کی صورت میں سزا بھی دیں گے۔ وھذا استفہام علی سبیل الانکار یعنی نا لانترک ھذا الاعذار والانذار بسبب کو کم مسرفین۔ بل نلزمکم العمل وندعوکم الی الدین ونواخذکم متی اخللتم بالواجب وقد متم علی القبیح (کبیر ج 7 ص 430) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) پھر بھلا کیا اس وجہ سے کہ تم حد سے نکل جانے والے لوگ ہو ہم اس قرآن کا رخ تم سے پھیر دیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اسی سبب سے کہ تم نہیں مانتے کیا بھیجنا موقوف رکھیں گے حکم کا۔ خلاصہ : یہ کہ تم لوگ چونکہ اطاعت اور فرمانبرداری کی حدود سے نکل جانے والے ہو ہم قرآن کے نزول کو بند کردیں گے اور ایک حق بات کو کہنا چھوڑ دیں گے اگر ایک خاص طبقہ اپنی ہٹ دھرمی کے باعث نہ مانے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ دوسرے بھی عام فیض سے محروم رکھے جائیں تمہاری مخالفت سے قرآن کا نزول بند نہیں ہوگا چونکہ اس میں تمام مخلوق کے لئے رشد و ہدایت ہے اس لئے یہ نازل ہوکر رہے گا اور چند سر پھروں کی وجہ سے ہم عام مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی سے دست کش نہیں ہوں گے۔