Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 57

سورة الزخرف

وَ لَمَّا ضُرِبَ ابۡنُ مَرۡیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوۡمُکَ مِنۡہُ یَصِدُّوۡنَ ﴿۵۷﴾

And when the son of Mary was presented as an example, immediately your people laughed aloud.

اور جب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو اس سے تیری قوم ( خوشی سے ) چیخنے لگی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Contempt of the Quraysh for the son of Maryam, and His true Status with Allah Allah tells us how the Quraysh persisted in their disbelief and stubborn arguments: وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلً إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ And when the son of Maryam is quoted as an example, behold, your people cry aloud thereat. Several others narrated that Ibn Abbas, m... ay Allah be pleased with him, Mujahid, Ikrimah, As-Suddi and Ad-Dahhak said, "They laughed, i.e., they were astounded by that." Qatadah said, "They were repelled by that and they laughed." Ibrahim An-Nakha`i said, "They turned away." The reason for this was mentioned by Muhammad bin Ishaq in As-Sirah. He said, "According to what I have heard, the Messenger of Allah sat down one day with Al-Walid bin Al-Mughirah in the Masjid, and An-Nadr bin Al-Harith came and sat down with them. There were also other men from the Quraysh in the gathering. The Messenger of Allah spoke, then An-Nadr bin Al-Harith came up to him and the Messenger of Allah spoke to him until he defeated him in argument. Then he recited to him and to them, إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ Certainly you and that which you are worshipping now besides Allah, are (but) fuel for Hell! (Surely) you will enter it. (21:98) Then the Messenger of Allah got up and went to sit with Abdullah bin Al-Zab`ari At-Tamimi. Al-Walid bin Al-Mughirah said to him, By Allah, An-Nadr bin Al-Harith could not match the son of Abd Al-Muttalib in argument. Muhammad claims that we and these gods that we worship are fuel for Hell.' Abdullah bin Az-Zab`ari said, `By Allah, if I meet with him I will defeat him in argument. Ask Muhammad whether everyone that is worshipped instead of Allah will be in Hell with those who worshipped him, for we worship the angels, and the Jews worship Uzayr, and the Christians worship the Messiah Isa bin Maryam.' Al-Walid and those who were sitting with him were amazed at what Abdullah bin Az-Zab`ari said, and they thought that he had come up with a good point. He said this to the Messenger of Allah, who said: كُلُّ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُعْبَدَ مِنْ دُونِ اللهِ فَهُوَ مَعَ مَنْ عَبَدَهُ فَإِنَّهُمْ إِنَّمَا يَعْبُدُونَ الشَّيْطَانَ وَمَنْ أَمَرَهُمْ بِعِبَادَتِه "Everyone who likes to worship something other than Allah will be with the one whom he worshipped, for indeed they are worshipping the Shaytan and whomever told them to worship that person." Then Allah revealed the words: إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنَى أُوْلَـيِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ Verily, those for whom the good has preceded from Us, they will be removed far therefrom (Hell). (21:101), meaning that Isa , Uzayr and rabbis and monks who were also worshipped, who spent their lives in devotion towards Allah. The misguided people who came after them took them as lords instead of Allah. Concerning the notion of worshipping the angels as daughters of Allah, the following words were revealed: وَقَالُواْ اتَّخَذَ الرَّحْمَـنُ وَلَداً سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ And they say: "The Most Gracious has begotten a son (or children)." Glory to Him! They are but honored servants. (21:26) Concerning Isa bin Maryam, the fact that he is worshipped instead of Allah, and to the amazement of Al-Walid and the others who were present at the argument, the following was revealed: وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلً إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ And when the son of Maryam is quoted as an example, behold, your people cry aloud thereat. meaning, they take this argument as a basis for rejecting your message. وَقَالُوا أَالِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلاَّ جَدَلاً بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ   Show more

قیامت کے قریب نزول عیسیٰ علیہ السلام ( یصدون ) کے معنی حضرت ابن عباس مجاہد عکرمہ اور ضحاک نے کئے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے یعنی اس سے انہیں تعجب معلوم ہوا ۔ قتادہ فرماتے ہیں گھبرا کر بول پڑے ۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے منہ پھیرنے لگے اس کی وجہ جو امام محمد بن اسحاق نے اپنی سیرت میں بیان کی ہے وہ یہ ہے...  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولید بن مغیرہ وغیرہ قریشیوں کے پاس تشریف فرما تھے جو نضر بن حارث آ گیا اور آپ سے کچھ باتیں کرنے لگا جس میں وہ لاجواب ہو گیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98؀ ) 21- الأنبياء:98 ) ، آیتوں تک پڑھ کر سنائیں یعنی تم اور تمہارے معبود سب جہنم میں جھونک دئیے جاؤ گے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے گئے تھوڑی ہی دیر میں عبداللہ بن زہیری تمیمی آیا تو ولید بن مغیرہ نے اس سے کہا نضر بن حارث تو ابن عبدالمطلب سے ہار گیا اور بالآخر ابن عبدالمطلب ہمیں اور ہمارے معبودوں کو جہنم کا ایندھن کہتے ہوئے چلے گئے ۔ اس نے کہا اگر میں ہوتا تو خود انہیں لاجواب کر دیتا جاؤ ذرا ان سے پوچھو تو کہ جب ہم اور ہمارے سارے معبود دوزخی ہیں تو لازم آیا کہ سارے فرشتے اور حضرت عزیر اور حضرت مسیح بھی جہنم میں جائیں گے کیونکہ ہم فرشتوں کو پوجتے ہیں یہود حضرت عزیر کی پرستش کرتے ہیں نصرانی حضرت عیسیٰ کی عبادت کرتے ہیں ۔ اس پر مجلس کے کفار بہت خوش ہوئے اور کہا ہاں یہ جواب بہت ٹھیک ہے ۔ لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا ہر وہ شخص جو غیر اللہ کی عبادت کرے اور ہر وہ شخص جو اپنی عبادت اپنی خوشی سے کرائے یہ دونوں عابد و معبود جہنمی ہیں ۔ فرشتوں یا نبیوں نے نہ اپنی عبادت کا حکم دیا نہ وہ اس سے خوش ۔ ان کے نام سے دراصل یہ شیطان کی عبادت کرتے ہیں وہی انہیں شرک کا حکم دیتا ہے ۔ اور یہ بجا لاتے ہیں اس پر آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ ١٠١؀ۙ ) 21- الأنبياء:101 ) ، نازل ہوئی یعنی حضرت عیسیٰ ، حضرت عزیر ، اور ان کے علاوہ جن احبار و رہبان کی پرستش یہ لوگ کرتے ہیں اور خود وہ اللہ کی اطاعت پر تھے شرک سے بیزار اور اس سے روکنے والے تھے اور ان کے بعد گمراہوں جاہلوں نے انہیں معبود بنا لیا تو وہ محض بےقصور ہیں اور فرشتوں کو جو مشرکین اللہ کی بیٹیاں مان کر پوجتے تھے ان کی تردید میں آیت ( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا 88؀ۭ ) 19-مريم:88 ) ، سے کئی آیتوں تک نازل ہوئیں اور ان کے اس باطل عقیدے کی پوری تردید کر دی اور حضرت عیسیٰ کے بارے میں اس نے جو جواب دیا تھا جس پر مشرکین خوش ہوئے تھے یہ آیتیں اتریں کہ اس قول کو سنتے ہی کہ معبودان باطل بھی اپنے عابدوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے انہوں نے جھٹ سے حضرت عیسیٰ کی ذات گرامی کو پیش کر دیا اور یہ سنتے ہی مارے خوشی کے آپ کی قوم کے مشرک اچھل پڑے اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے لگے کہ ہم نے دبا لیا ۔ ان سے کہو کہ حضرت عیسیٰ نے کسی سے اپنی یا کسی اور کی پرستش نہیں کرائی وہ تو خود برابر ہماری غلامی میں لگے رہے اور ہم نے بھی انہیں اپنی بہترین نعمتیں عطا فرمائیں ۔ ان کے ہاتھوں جو معجزات دنیا کو دکھائے وہ قیامت کی دلیل تھے حضرت ابن عباس سے ابن جریر میں ہے کہ مشرکین نے اپنے معبودوں کا جہنمی ہونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سن کر کہا کہ پھر آپ ابن مریم کی نسبت کیا کہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اب کوئی جواب ان کے پاس نہ رہا تو کہنے لگے واللہ یہ تو چاہتے ہیں کہ جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو اللہ مان لیا ہے ہم بھی انہیں رب مان لیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو صرف بکواس ہے کھسیانے ہو کر بےتکی باتیں کرنے لگے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ قرآن میں ایک آیت ہے مجھ سے کسی نے اس کی تفسیر نہیں پوچھی ۔ میں نہیں جانتا کہ کیا ہر ایک اسے جانتا ہے یا نہ جان کر پھر بھی جاننے کی کوشش نہیں کرتے ؟ پھر اور باتیں بیان فرماتے رہے یہاں تک کہ مجلس ختم ہوئی اور آپ چلے گئے ۔ اب ہمیں بڑا افسوس ہونے لگا کہ وہ آیت تو پھر بھی رہ گئی اور ہم میں سے کسی نے دریافت ہی نہ کیا ۔ اس پر ابن عقیل انصاری کے مولیٰ ابو یحییٰ نے کہا کہ اچھا کل صبح جب تشریف لائیں گے تو میں پوچھ لوں گا ۔ دوسرے دن جو آئے تو میں نے ان کی کل کی بات دہرائی اور ان سے دریافت کیا کہ وہ کونسی آیت ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں سنو ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ قریش سے فرمایا کوئی ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ کے سوا کی جاتی ہو اور اس میں خیر ہو ۔ اس پر قریش نے کہا کیا عیسائی حضرت عیسیٰ کی عبادت نہیں کرتے ؟ اور کیا آپ حضرت عیسیٰ کو اللہ کا نبی اور اس کا برگذیدہ نیک بندہ نہیں مانتے ؟ پھر اس کا کیا مطلب ہوا کہ اللہ کے سوا جس کی عبادت کی جاتی ہے وہ خیر سے خالی ہے ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ کہ جب عیسیٰ بن مریم کا ذکر آیا تو لوگ ہنسنے لگے ۔ وہ قیامت کا علم ہیں یعنی عیسیٰ بن مریم کا قیامت کے دن سے پہلے نکلنا ابن ابی حاتم میں بھی یہ روایت پچھلے جملے کے علاوہ ہے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ان کے اس قول کا کہ کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ ۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے معبود محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہترے ہیں یہ تو اپنے آپ کو پجوانا چاہتے ہیں ، ابن مسعود کی قرأت میں ( ام ھذا ) ہے ۔ اللہ فرماتا ہے یہ ان کا مناظرہ نہیں بلکہ مجادلہ اور مکابرہ ہے یعنی بےدلیل جھگڑا اور بےوجہ حجت بازی ہے خود یہ جانتے ہیں کہ نہ یہ مطلب ہے نہ ہمارا یہ اعتراض اس پر وارد ہوتا ہے ۔ اس لئے اولاً تو آیت میں لفظ ( ما ) ہے جو غیر ذوی العقول کے لئے ہے دوسرے یہ کہ آیت میں خطاب کفار قریش سے ہے جو اصنام و انداد یعنی بتوں اور پتھروں کو پوجتے تھے وہ مسیح کے پجاری نہ تھے جو یہ اعتراض برمحل مانا جائے پس یہ صرف جدل ہے یعنی وہ بات کہتے ہیں جس کے غیر صحیح ہونے کو ان کے اپنے دل کو بھی یقین ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک ہلاک نہیں ہوتی جب تک بےدلیل حجت بازی اس میں نہ آجائے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ابن ابی حاتم میں اس حدیث کے شروع میں یہ بھی ہے کہ ہر امت کی گمراہی کی پہلی بات اپنے نبی کے بعد تقدیر کا انکار کرنا ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے مجمع میں آئے اس وقت وہ قرآن کی آیتوں میں بحث کر رہے تھے ۔ آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا اس طرح اللہ کی کتاب کی آیتوں کو ایک دوسری کے ساتھ ٹکراؤ نہیں یاد رکھو جھگڑے کی اسی عادت نے اگلے لوگوں کو گمراہ کر دیا ۔ پھر آپ نے آیت ( مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا ۭ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ 58؀ ) 43- الزخرف:58 ) کی تلاوت فرمائی پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ اللہ عزوجل کے بندوں میں سے ایک بندے تھے ۔ جن پر نبوت و رسالت کا انعام باری تعالیٰ ہوا تھا اور انہیں اللہ کی قدرت کی نشانی بنا کر بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا تھا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ جو چاہے اس پر قادر ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو تمہارے جانشین بنا کر فرشتوں کو اس زمین میں آباد کر دیتے ۔ یا یہ کہ جس طرح تم ایک دوسرے کے جانشین ہوتے ہو یہی بات ان میں کر دیتے مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں یعنی بجائے تمہارے زمین کی آبادی ان سے ہوتی ہے اس کے بعد جو فرمایا ہے کہ وہ قیامت کی نشانی ہے اس کا مطلب جو ابن اسحاق نے بیان کیا ہے وہ کچھ ٹھیک نہیں ۔ اور اس سے بھی زیادہ دور کی بات یہ ہے کہ بقول قتادہ حضرت حسن بصری اور حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہہ کی ضمیر کا مرجع عائد ہے حضرت عیسیٰ پر ۔ یعنی حضرت عیسیٰ قیامت کی ایک نشانی ہیں ۔ اس لئے کہ اوپر سے ہی آپ کا بیان چلا آرہا ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ مراد یہاں حضرت عیسیٰ کا قیامت سے پہلے کا نازل ہونا ہے جیسے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا آیت ( وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا ١٥٩؀ۚ ) 4- النسآء:159 ) یعنی ان کی موت سے پہلے ایک ایک اہل کتاب ان پر ایمان لائے گا ۔ یعنی حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے قیامت کے دن یہ ان پر گواہ ہوں گے ۔ اس مطلب کی پوری وضاحت اسی آیت کی دوسری قرأت سے ہوتی ہے جس میں ہے ( وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُوْنِ ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ 61؀ ) 43- الزخرف:61 ) یعنی جناب روح اللہ قیامت کے قائم ہونے کا نشان اور علامت ہیں ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ نشان ہیں قیامت کے لئے حضرت عیسیٰ بن مریم کا قیامت سے پہلے آنا ۔ اسی طرح روایت کی گئی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ سے اور حضرت عباس سے اور یہی مروی ہے ابو لعالیہ ، ابو مالک ، عکرمہ ، حسن ، قتادہ ضحاک وغیرہ سے رحم اللہ تعالیٰ ۔ اور متواتر احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے حضرت عیسیٰ امام عادل اور حاکم باانصاف ہو کر نازل ہوں گے ۔ پس تم قیامت کا آنا یقینی جانو اس میں شک شبہ نہ کرو اور جو خبریں تمہیں دے رہا ہوں اس میں میری تابعداری کرو یہی صراط مستقیم ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان جو تمہارا کھلا دشمن ہے تمہیں صحیح راہ سے اور میری واجب اتباع سے روک دے حضرت عیسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ میں حکمت یعنی نبوت لے کر تمہارے پاس آیا ہوں اور دینی امور میں جو اختلافات تم نے ڈال رکھے ہیں ۔ میں اس میں جو حق ہے اسے ظاہر کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔ ابن جریر یہی فرماتے ہیں اور یہی قول بہتر اور پختہ ہے پھر امام صاحب نے ان لوگوں کے قول کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ بعض کا لفظ یہاں پر کل کے معنی میں ہے اور اس کی دلیل میں بعید شاعر کا ایک شعر پیش کرتے ہیں ۔ لیکن وہاں بھی بعض سے مراد قائل کا خود اپنا نفس ہے نہ کہ سب نفس ۔ امام صاحب نے شعر کا جو مطلب بیان کیا ہے یہ بھی ممکن ہے ۔ پھر فرمایا جو میں تمہیں حکم دیتا ہوں اس میں اللہ کا لحاظ رکھو اس سے ڈرتے رہو اور میری اطاعت گذاری کرو جو لایا ہوں اسے مانو یقین مانو کہ تم سب اور خود میں اس کے غلام ہیں اس کے محتاج ہیں اس کے در کے فقیر ہیں اس کی عبادت ہم سب پر فرض ہے وہ واحد لاشریک ہے ۔ بس یہی توحید کی راہ راہ مستقیم ہے اب لوگ آپس میں متفرق ہوگئے بعض تو کلمۃ اللہ کو اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہتے تھے اور یہی حق والی جماعت تھی اور بعض نے ان کی نسبت دعویٰ کیا کہ وہ اللہ کے فرزند ہیں ۔ اور بعض نے کہا آپ ہی اللہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں دعوں سے پاک ہے اور بلند و برتر ہے ۔ اسی لئے ارشاد فرماتا ہے کہ ان ظالموں کے لئے خرابی ہے قیامت والے دن انہیں المناک عذاب اور دردناک سزائیں ہوں گی ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٥] معبودوں کا جہنم میں داخلہ اور سیدنا عیسیٰ کا معاملہ :۔ جب سورة انبیاء کی یہ آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98؀) 21 ۔ الأنبیاء :98) && یعنی تم بھی اور اللہ کے سوا تم جن چیزوں کو پوجتے ہو، وہ سب جہنم کا ایندھن بنیں گے &... amp;& نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے یہ اعتراض اٹھایا کہ عبادت تو عیسیٰ (علیہ السلام) کی بھی کی جاتی ہے۔ تو کیا وہ بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے ؟ پھر اس اعتراض کا خوب پروپیگنڈا شروع کردیا۔ عبداللہ بن الزبعریٰ نے یہی سوال رسول اللہ سے کیا تو آپ خاموش رہے کیونکہ آپ خود کوئی جواب دینے کی بہ نسبت یہ بات زیادہ پسند فرماتے تھے کہ مشرکوں کے ایسے اعتراضات کے جو جواب بذریعہ وحی نازل ہوں وہی ان کو جواب دیا جائے۔ آپ کی خاموشی پر مشرکین قہق ہے لگانے اور کھل کھلا کر ہنسنے لگے جس کا مطلب یہ تھا کہ ہماری اس دلیل نے محمد کو چپ کرا دیا۔ بالفاظ دیگر ایسی مسکت دلیل پیش کرکے میدان مار لیا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ولما ضرب ابن مریم مثلاً …: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح تمام پیغمبروں کا ذکر عزت و اکرام کے ساتھ کرتے تھے، عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر بھی ہمیشہ عزت و تکریم کیساتھ کرتے اور ان کی مثال آدم (علیہ السلام) کے ساتھ دیا کرتے تھے کہ جس طرح ماں باپ کے بغیر آدم (علیہ السلام) کی پیدائش اللہ تعالی... ٰ کی قدرت کا عجیب و غریب کرشمہ ہے اسی طرح باپ کے بغیر عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش بھی اس کی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے۔ مدینہ جانے کے بعد وفد نجران کی آمد پر سورة آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون) (آل عمران : ٥٩)” بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے کہ اسے تھوڑی سی مٹی سے بنایا، پھر اسے فرمایا ہوجا، سو وہ ہوجاتا ہے۔ “ پچھلی آیات میں مشرکین مکہ کے فرشتوں کی عبادت پر رد کے بعد فرمایا تھا :(وسئل من ارسلنا من قبلک من رسلنا اجعلنا من دون الرحمٰن الھۃ یعبدون) (الزخرف : ٣٥)” اور ان سے پوچھ جنھیں ہم نے تجھ سے پہلے اپنے رسولوں میں سے بھیجا، کیا ہم نے رحمان کے سوا کوئی معبود بنائے ہیں جن کی عبادت کی جائے ؟ “ اس پر مشرکین میں سے کسی نے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کے معبود ہونے کا اعتراض جڑ دیا۔ ساتھ ہی دوسرے مشرکین نے شور مچانا شروع رک دیا کہ مسیح (علیہ السلام) کو دیکھو، نصرانی ان کی عبادت کرتے ہیں، پھر بھی مسلمان ان کا نام عزت سے لیتے ہیں۔ ہمارے بتا ور دیوی دیوتا فرشتے ہیں کیا ہمارے معبود فرشتے بہتر ہیں یا نصرانیوں کے معبود عیسیٰ (علیہ السلام) بہتر ہیں ؟ پھر ان کا نام عزت کے ساتھ کیوں لیا جاتا ہے اور ہمارے بتوں کو برا کیوں کہا جاتا ہے ؟ میں نے بہت غور و فکر اور متعدد تفاسیر کے مطالعہ کے بعد آیات کے الفاظ اور سیاق وسباق کو ملحوظ رکھ کر جو تفسیر سمجھی ہے ذکر کردی ہے۔ (واللہ اعلم) ابن عاشور نے فرمایا :” یہ مقام قرآن مجید کے مشکل ترین مقامات میں سے ہے۔ “ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں :” یعنی قرآن میں ان کا ذکر آوے تو اعتراض کرتے ہیں کہ ان کو بھی خلق پوجتے ہیں، انہیں کیوں خوبی سے یاد کرتے ہو اور ہمارے پوجوں (معبودوں، بتوں) کو برا کہتے ہو۔ “ (موضح) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَلَمَّا ضُرِ‌بَ ابْنُ مَرْ‌يَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ (And when the example of the son of Maryam was cited, your people started at once shouting at it [ in joy ]...43:57). Exegetes have narrated three events as background of the revelation of these verses. One is that once the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had addressed the tribe of Quraish and said, |"0 peo... ple of Quraish! there is no good in whatever is worshipped beside Allah.|" The polytheists responded by saying, |"The Christians worship Sayyidna ` Isa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، although you yourself say that he was a virtuous slave of Allah, and His prophet.|" These verses were then revealed in reply to this objection (Qurtubi). The second narration is that the objection of the infidels related to the following verse of the Holy Qur&an: إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ |"Surely, you and whatever you worship other than Allah are the fuel of Jahannam.|" (21:98) When this verse was revealed, &Abdullah Ibn-uz-ziba&ra claimed that he had the proper answer to this verse which was that the Christians worship Sayyidna Masih (Isa علیہ السلام) and Jews worship Sayyidna ` Uzair (علیہ السلام) ، so will they both become fuel of Hell? Upon hearing this, the polytheists of Quraish became very joyful, and Allah then revealed the following verse of the Holy Qur&an: إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ ﴿١٠١﴾ |"Surely, those for whom the good (news) from Us has come earlier shall be kept away from it.|" (21:101) The above verses of Surah Zukhruf was also revealed in this context. (Ibn Kathir, etc.,) The third narration is that once the pagans of Makkah expressed the absurd thought that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) wanted to claim godhead for himself, so that he might be worshipped like Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) is worshipped by the Christians; these verses were revealed in that context. In reality, there is no conflict between these three narrations. The infidels will have said all the three things, and in reply Allah Ta` ala revealed these verses in such a comprehensive manner that took care of all the three objections. The answer to the last objection is quite clear in these verses as to those who started worshipping Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) did not do so in obedience to any Divine command, nor had Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) ever desired it for himself, nor does the Qur&an support it. Their misconception was based on the miraculous birth of Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) without a father which was, according to them, a sign of his being god or a son of God. The Holy Qur&an has refuted this misconceived argument. How is it then possible that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) will claim Godhead in imitation of the Christians? The gist of the objection mentioned in the first and second narrations is essentially the same. The statement in the Qur&an that all those who are worshipped except Allah will become fuel for Hell or the statement of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that there is no good in whatever is worshipped except Allah, refer to the lifeless objects of worship, such as idols or those living beings who directed their followers towards their own worship, or who liked to be worshipped, such as shaitans, Fir&aun, Namrud, etc.. So Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) is obviously not included in this category, since at no stage did he like to be worshipped. Christians do not worship him because of any direction having being given by Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) ، rather they were misled and started worshipping him by deducing the wrong conclusion from his birth without a father which was a sample of Allah&s power to show to the people that Allah does not need even any apparent cause or means to create something. This worship of Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) by Christians was not only irrational, but also against his own teachings, because he had always preached &tauhid& (Oneness of Allah); his own disgust against being worshipped simply does not allow his inclusion in the ranks of false gods.  Show more

خلاصہ تفسیر (ایک مرتبہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ کے سوا جتنوں کی ناحق عبادت کی جاتی ہے ان میں کسی میں کوئی خیر نہیں۔ اس پر قریش کے بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ نصرانی لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں مگر ان کے بارے میں آپ بھی مانتے ہیں کہ ان م... یں خیر ہی خیر تھی اس کے جواب میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں) اور جب (عیسیٰ ) ابن مریم (علیہ السلام) کے متعلق (ایک معترض کی طرف سے) ایک عجیب مضمون بیان کیا گیا (عجیب اس لئے کہ سرسری نظر ہی سے اس کا بطلان خود ان کو معلوم ہوسکتا تھا، پس عقل رکھ کر ایسا اعتراض کرنا بہت عجیب تھا، غرض جب یہ اعتراض کیا گیا) تو یکایک آپ کی قوم کے لوگ اس (اعتراض کے سننے) سے (مارے خوشی کے) چلانے لگے اور (اس معترض کے ساتھ متفق ہو کر) کہنے لگے کہ (بتلائیے آپ کے نزدیک) ہمارے معبود زیادہ بہتر ہیں یا عیسیٰ (علیہ السلام بہتر ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ آپ عیسیٰ (علیہ السلام) کو تو یقینا بہتر سمجھتے ہیں حالانکہ آپ نے جو یہ کہا تھا کہ اللہ کے سوا جتنوں کی ناحق عبادت کی جاتی ہے ان میں کوئی خیر نہیں، اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) میں بالکل بھلائی نہ ہو اس سے ایک تو آپ کا یہ قول (معاذ اللہ) درست نہیں رہا۔ دوسرے معلوم ہوا کہ جن کو آپ خیر کہتے ہیں خود ان کی بھی عبادت ہوئی ہے، اس لئے اس سے شرک کی صحت ثابت ہوگئی۔ آگے اس اعتراض کا جواب ہے، پہلے اجمالاً پھر تفصیلاً ، اجمالاً تو یہ ہے کہ) ان لوگوں نے جو یہ ( عجیب اعتراض) آپ سے بیان کیا ہے تو محض جھگڑنے کی غرض سے (نہ کہ طلب حق کے لئے) ورنہ خود ان پر اس اعتراض کی لغویت پوشیدہ نہ رہتی اور ان لوگوں کا جھگڑنا کچھ اسی اعتراض کے ساتھ مخصوص نہیں) بلکہ یہ لوگ (اپنی عادت سے) ہیں ہی جھگڑالو (کہ اکثر حق باتوں میں جھگڑے نکالتے ہیں۔ آگے تفصیلی جواب ہے یعنی) یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) تو محض ایک ایسے بندے ہیں جن پر ہم نے (مقبولیت اور کمالات نبوت دے کر اپنا) فضل کیا اور ان کو بنی اسرائیل کے لئے (اولاً اور دوسروں کیلئے بھی ثانیاً ) ہم نے (اپنی قدرت کا) ایک نمونہ بنایا تھا (تا کہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ خدا تعالیٰ کو اس طرح بغیر باپ کے پیدا کرنا بھی کچھ مشکل نہیں۔ اس سے ان کے دونوں اعتراضات کا جواب نکل آیا جس کی تشریح معارف و مسائل میں آئے گی) اور (ہم تو اس سے زیادہ عجیب و غریب امور پر قادر ہیں، چنانچہ) اگر ہم چاہتے تو ہم تم سے فرشتوں کو پیدا کردیتے (جس طرح تم سے تمہارے بچے پیدا ہوتے ہیں) کہ وہ زمین پر (انسان کی طرح) یکے بعد دیگرے رہا کرتے (یعنی پیدائش بھی آدمیوں کی طرح ہوتی اور موت بھی۔ پس بغیر باپ کے پیدا ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور اس کے زیر قدرت نہیں رہے۔ لہٰذا یہ امر حضرت عیسیٰ کے معبود ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ اس طرح پیدا کرنے میں بعض حکمتیں تھیں جن میں سے ایک تو اوپر بیان ہوئی کہ انہیں اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنانا تھا) اور (دوسری حکمت یہ تھی کہ) وہ (یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) اس طرح پیدا ہونے میں امکان) قیامت کے یقین کا ذریعہ ہیں (اس طرح کہ قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے میں اس سے زیادہ اور کیا بعد ہے کہ دوبارہ زندگی خلاف عادت ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر باپ کے ہونے سے ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ خلاف عادت امور کے صادر کرنے پر قادر ہے۔ پس اس سے قیامت و آخرت کے عقیدے کا صحیح ہونا ثابت ہوگیا اور جب تم نے عقیدہ آخرت کی یہ دلیل سن لی) تو تم لوگ اس (کی صحت) میں شک مت کرو، اور (توحید اور آخرت وغیرہ عقائد میں) تم لوگ میرا اتباع کرو، یہ (مجموعہ جس کی طرف میں تم کو بلاتا ہوں) سیدھا رستہ ہے اور تم کو شیطان (اس راہ پر آنے سے) روکنے نہ پاوے وہ بیشک تمہارا صریح دشمن ہے اور (جہاں تک تو کفار کے مذکورہ اعتراض کا جواب تھا، آگے خود عیسیٰ (علیہ السلام) کے مضمون دعوت سے توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال کی تائید ہے یعنی) جب عیسیٰ (علیہ السلام کھلے کھلے) معجزے لے کر آئے تو انہوں نے (لوگوں سے) کہا کہ میں تمہارے پاس سمجھ کی باتیں لے کر آیا ہوں (تا کہ تمہارے عقائد کی اصلاح کروں) اور تاکہ بعض باتیں (منجملہ اعمال حلال و حرام کے) جن میں تم اختلاف کر رہے ہو تم سے بیان کر دوں (جس سے اختلاف و اشتباہ رفع ہوجاوے، جب میں اس طرح آیا ہوں) تو تم لوگ اللہ سے ڈرو (اور میری نبوت کا انکار نہ کرو، کیونکہ یہ خدا کی مخالفت ہے) اور میرا کہا مانو (کیونکہ نبوت کی تصدیق کے لئے یہ ضروری ہے اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی کہا کہ) بیشک اللہ ہی میرا بھی رب ہے، اور تمہارا بھی رب ہے سو (صرف) اسی کی عبادت کرو (اور) یہی (توحید) سیدھا رستہ ہے سو (باوجود عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس واشگاف بیان توحید کے پھر بھی) مختلف گروہوں نے (اس بارے میں) باہم اختلاف ڈال لیا (یعنی توحید کے خلاف طرح طرح کے مذاہب ایجاد کر لئے، چناچہ توحید میں نصاریٰ و غیر نصاریٰ کا اختلاف بھی معلوم ہے) سو ان ظالموں (یعنی مشرکین اہل کتاب و غیر اہل کتاب) کیلئے ایک پر درد دن کے عذاب سے بڑی خرابی (ہونے والی) ہے (پس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس دعوت سے خود توحید کی تائید ہوگئی، لہٰذا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ناحق عبادت سے شرک کی صحت پر استدلال مدعی سست گواہ چست کی مثال ہے) ۔ معارف و مسائل وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ ، ان آیات کے شان نزول میں مفسرین نے تین روایتیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک مرتبہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ قریش کے لوگوں سے خطاب کر کے ارشاد فرمایا تھا، ” یا معشر قریش لا خیر فی احد یعبد من دون اللہ “ یعنی ” اے قریش کے لوگو، اللہ کے سوا جس کسی کی عبادت کی جاتی ہے اس میں کوئی خیر نہیں “ اس پر مشرکین نے کہا کہ نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں لیکن آپ خود مانتے ہیں کہ وہ اللہ کے نیک بندے اور اس کے نبی تھے۔ ان کے اس اعتراض کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ (قرطبی) دوسری روایت یہ ہے کہ جب قرآن کریم کی ( آیت) انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم (بلاشبہ اے مشرکو، تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے) نازل ہوئی تو اس پر عبداللہ بن الزبعری نے جو اس وقت کافر تھے، یہ کہا کہ اس آیت کا تو میرے پاس بہترین جواب موجود ہے، اور وہ یہ کہ نصاریٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں اور یہود حضرت عزیز (علیہ السلام) کی، تو کیا یہ دونوں بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے ؟ یہ بات سن کر قریش کے مشرکین بہت خوش ہوئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ایک تو یہ آیت نازل فرمائی کہ (آیت) ان الذین سبقت لہم منا الحسنیٰ اولئک عنھا مبعدون، اور دوسرے سورة زخرف کی مذکورہ بالا آیات۔ (ابن کثیر وغیرہ) تیسری روایت یہ ہے کہ ایک مرتبہ مشرکین مکہ نے یہ بےہودہ خیال ظاہر کیا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدائی کا دعویٰ کرنا چاہتے ہیں، ان کی مرضی یہ ہے کہ جس طرح نصاریٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو پوجتے ہیں اس طرح ہم بھی ان کی عبادت کیا کریں، اس پر مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں۔ اور درحقیقت تینوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں، کفار نے تینوں ہی باتیں کہیں ہوں گی جن کے جواب میں اللہ تعالٰ نے ایسی جامع آیات نازل فرما دیں جن سے ان کے تینوں اعتراضات کا جواب ہوگیا۔ اس آخری اعتراض کا جواب تو مذکورہ آیات میں بالکل واضح ہے کہ جن لوگوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی عبادت شروع کردی ہے انہوں نے نہ کسی خدائی حکم سے ایسا کیا، نہ خود حضرت مسیح (علیہ السلام) کی یہ خواہش تھی اور نہ قرآن ان کی تائید کرتا ہے انہیں تو حضرت عیسیٰ کے باپ کے بغیر پیدا ہونے سے مغالطہ لگا تھا اور قرآن اس مغالطہ کی تردید کرتا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (معاذ اللہ) عیسائیوں کی دیکھا دیکھی اپنی خدائی کا دعویٰ کر بیٹھیں۔ اور پہلی اور دوسری روایتوں میں کفار کے اعتراض کا حاصل تقریباً ایک ہی ہے۔ ان کا جواب مذکورہ آیات سے اس طرح نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا تھا کہ اللہ کے سوا جتنوں کو لوگوں نے معبود بنا رکھا ہے وہ جہنم کا ایندھن ہوں گے۔ یا حضور نے جو فرمایا تھا کہ ان میں خیر نہیں، اس سے مراد وہ معبود تھے جو یا تو بےجان ہوں جیسے پتھر کے بت، یا جاندار ہوں مگر خود اپنی عبادت کا حکم دیتے یا اسے پسند کرتے ہوں جیسے شیاطین، فرعون اور نمرود وغیرہ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں جبکہ وہ کسی بھی مرحلہ پر اپنی عبادت کو پسند نہیں کرتے تھے۔ نصاریٰ ان کی کسی ہدایت کی بنا پر ان کی عبادت نہیں کرتے، بلکہ انہیں ہم نے اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنا کر بغیر باپ کے پیدا کیا تھا تاکہ لوگوں پر یہ واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی تخلیق میں اسباب کے کسی واسطے کی ضرورت نہیں لیکن نصاریٰ نے اس کا غلط مطلب لے کر انہیں معبود بنا لیا، حالانکہ ان کا یہ معبود بنانا عقلاً بھی غلط تھا اور خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کے بھی بالکل خلاف تھا۔ کیونکہ انہوں نے ہمیشہ توحید کی تعلیم دی تھی۔ غرض حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی عبادت سے بیزار ہونا اس بات سے مانع ہے کہ انہیں دوسرے باطل معبودوں کی صف میں شامل کیا جائے۔ اس سے کفار کا یہ اعتراض بھی ختم ہوگیا جس کا ذکر خلاصہ تفسیر میں آیا ہے کہ جن کو آپ خود خیر کہتے ہیں (یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام) ان کی بھی عبادت ہوئی ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کی عبادت کچھ بری بات نہیں۔ مذکورہ آیات میں اس کا جواب واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی جو عبادت ہوئی، وہ اللہ کی مرضی کے بھی خلاف تھی اور خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کے بھی۔ لہٰذا اس سے شرک کی صحت پر استدلال نہیں کیا جاسکتا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

شان نزول : وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ (الخ) امام احمد نے سند صحیح کے ساتھ اور امام طبرانی نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم نے قریش سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس کی عبادت کی جائے اس میں کوئی بھلائی نہیں اس پر ان لوگوں نے کہا کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ نبی اور نیک بندے تھے ... حالانکہ ان کی بھی اللہ کے علاوہ عبادت کی گئی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ { وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّوْنَ } ” اور جب (قرآن میں) ابن ِمریم کی مثال بیان کی جاتی ہے تو اس پر آپ کی قوم چلانے ّلگتی ہے۔ “ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر پر مشرکین ِمکہ ّکی چیخ و پکار ایک تو سورة الانبیاء کی اس آیت کے حوالے سے تھی : { اِنَّکُمْ ... وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَط اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ ۔ } ” یقینا تم لوگ اور جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو ‘ سب جہنم کا ایندھن ہیں۔ تمہیں اس میں پہنچ کر رہنا ہے “۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ کے سوا جتنے معبود لوگوں نے بنا رکھے ہیں اگر وہ سب جہنم کا ایندھن بنیں گے تو پھر عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ بھی تو ان ہی میں شامل ہوں گے ‘ کیونکہ انہیں بھی تو دنیا میں پوجا گیا ہے۔ حالانکہ اللہ کے مقابلے میں اگر فرشتوں ‘ اللہ کے مقرب بندوں ‘ ِجنات ّاور ُ بتوں وغیرہ کی پرستش کی گئی ہے تو جہنم میں جھونکے جانے کا مصداق ملائکہ ‘ انبیاء اور اولیاء اللہ تو نہیں ٹھہرتے۔ ظاہر ہے جو باطل ہوگا وہی جہنم میں جھونکا جائے گا۔ البتہ مشرکین مکہ اسی دلیل کی بنیاد پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر پر شدت کے ساتھ چیخنا چلانا شروع کردیتے تھے۔ دوسری طرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر پر مشرکین مکہ کے مخصوص رد عمل کا باعث ان کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ موقف بھی تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کی تعریف و توصیف کے پردے میں نصرانیت کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا دعویٰ یہ تھا کہ جس طرح ہم لات و ُ عزیٰ ّوغیرہ کی پوجا کرتے ہیں اسی طرح عیسائی حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو پوجتے ہیں۔ تو ایسا کیوں ہے کہ عیسائیوں کے معبود کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعریف کرتے ہیں اور ہمارے معبودوں کی مذمت ؟ اس وجہ سے وہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عیسائیت کو قبول کرلینے اور عیسائیت کی تبلیغ کرنے کے الزامات لگاتے تھے۔ بلکہ جب مکہ میں مسلمانوں نے نماز پڑھنا شروع کی تو مشرکین ِمکہ ّنے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر یہ الزام بھی لگادیا کہ یہ لوگ ” صابی “ ہوگئے ہیں۔ صابی لوگ عراق میں آباد تھے اور وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے پیروکاروں کی نسل میں سے تھے۔ اگرچہ انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اصل دین کو تو بگاڑ دیا تھا لیکن ” نماز “ کسی نہ کسی شکل میں ان کے ہاں موجود تھی۔ چناچہ نماز کی اس مشابہت کے باعث مشرکین مکہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صابی ہونے کا الزام بھی لگایا تھا۔ بہر حال مذکورہ دو وجوہات کی بنا پر مشرکین مکہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کے ذکر پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے تھے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: جب سورۃ انبیاء کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں بت پرستوں کو خطاب کر کے فرمایا گیا تھا کہ یقین رکھو کہ تم اور جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو، وہ سب جہنم کا ایندھن ہیں : 98۔ تو ایک کافر نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بھی عبادت کرتے ہیں، اس لیے اس آیت کا ... تقاضا یہ ہے کہ (معاذ اللہ) وہ بھی جہنم کا ایندھن بنیں، حالانکہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے۔ اس کی یہ بات سن کر دوسرے کافروں نے خوب شور مچایا کہ واقعی اس شخص نے بہت زبردست اعتراض کیا ہے۔ حالانکہ اعتراض بالکل لغو تھا، کیونکہ اس آیت میں بت پرستوں سے خطاب تھا، عیسائیوں سے نہیں، اور اس میں بتوں کے علاوہ وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے لوگوں کو اپنی عبادت کا حکم دیا ہو۔ لہذا اس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے داخل ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ یہ آیتیں اس موقع پر نازل ہوئی تھیں۔ اس آیت کے شان، نزول میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ کافر لوگوں میں سے کسی نے یہ کہا تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی وقت اپنے آپ کو اسی طرح خدا کا بیٹا قرار دیں گے جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دیا تھا، اس پر بھی دوسرے مشرکین نے اس کی تعریف میں خوشی سے شور مچایا، اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ دونوں روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ دونوں واقعے پیش آئے ہوں، اور اللہ تعالیٰ نے دونوں کا جامع جواب اس آیت کے ذریعے نازل فرما دیا ہو۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٧۔ ٦٠۔ مسند امام احمد ٢ ؎ اور طبرانی وغیرہ میں حضرت عبد اللہ (رض) بن عباس کی روایت سے جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز سورة الانبیا کی آیت انکم و ما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم کے موافق یہ فرمایا کہ مشرک جن چیزوں کو پوجتے ہیں وہ ... اور مشرک دونوں قیامت کے دن دوزخ میں جھونکے جائیں گے۔ اس پر عبد اللہ (رض) بن زبعری ایک شخص نے کہا کہ نصاریٰ لوگ حضرت عیسیٰ کو پوجتے ہیں اور تم عیسیٰ کو نبی اور ہمارے بتوں سے ضرور اچھا گنتے ہوں گے اس لئے جو حال ہمارے بتوں کا ہوگا وہی حال حضرت عیسیٰ کا ہوگا عبد اللہ (رض) بن زبعری کے اس جواب کو مشرک لوگوں نے بڑا شافی جواب جانا اور سب خوش ہوئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرما دیا کہ حضرت عیسیٰ اللہ کے ان بندوں میں ہیں جن پر اللہ نے اپنا فضل کیا ہے یہ مشرک جن شیاطینوں کی پوجا کرتے ہیں وہ شیاطین مشرکوں کی پوجا سے خوش ہیں اور جو لوگ حضرت عیسیٰ کی پوجا کرتے ہیں حضرت عیسیٰ ان کی صورت سے بیزار ہیں اس لئے ان مشرکوں نے حضرت عیسیٰ کی مثال شیاطینوں سے جو ملائی ہے وہ بالکل غلط ہے ان آیتوں میں یہ فرمایا کہ حضرت عیسیٰ قیامت کی ایک نشانی ہیں اس کی تفسیر بعض مفسروں نے اگرچہ یہ قرار دی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مردوں کو جو زندہ کرتے تھے یہ ان کا معجزہ ایک قیامت کی نشانی تھا کیونکہ جس طرح وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے اسی طرح قیامت کے دن مردے زندہ ہوں گے لیکن صحیح تفسیر وہی ہے جس کا ذکر صحیحین ١ ؎ وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) کی روایت میں ہے کہ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے زمین پر آئیں گے اور دجال کو قتل کریں گے اسی واسطے ان کو قیامت کی نشانی فرمایا ہے۔ اس شان نزول کی حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کی سند میں ایک راوی عاصم (رض) بن بہدلہ کو اگرچہ نسائی دار قطنی وغیرہ نے ضعیف کہا ہے لیکن امام احمد ابو زرعہ نے عاصم کو ثقہ قرار دیا ہے اور ابو حاتم نے بھی ان عاصم کو معتبر ٹھہرایا ہے سات قاری جو مشہور ہیں ان میں یہ ایک عاصم بھی ہیں۔ امام احمد (رح) ان ہی عاصم کی قرأت کے موافق قرآن شریف پڑھا کرتے تھے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ یہ شان نزول کی روایت معتبر ہے۔ یہ عبد اللہ (رض) بن زبعری قریش کے مشہور شاعروں میں ہیں اسلام لانے سے پہلے اسلام کی اکثر ہجو کیا کرتے تھے لیکن فتح مکہ کے بعد اسلام میں داخل ہوگئے سورة الانبیا کی آیت میں خاص مشرکین مکہ کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا تھا کہ تم اور تمہارے بت قیامت کے دن دوزخ کا ایندھن قرار دیئے جائیں گے آیت کے اس مضمون میں عیسیٰ (علیہ السلام) کو شامل کرنا زبردستی کا ایک جھگڑا تھا اسی واسطے عبد اللہ بن زبعری اور ان کے ساتھیوں کو جھگڑالو فرمایا۔ مشرکین مکہ فرشتوں کی مورتوں کو پوجنے کا بڑا فخر کرتے تھے اس کے جواب میں فرمایا کہ آسمان پر رہنے سے فرشتے معبود نہیں ہوسکتے۔ اگر اللہ چاہے تو بنی آدم کی طرح فرشتوں کو زمین پر بسا دیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو قیامت کی نشانی فرما کر فرمایا اے رسول اللہ کے ان لوگوں سے کہہ دیا جائے کہ ان دن کی آفتوں سے بچنے کے لئے خالص اللہ کی عبادت کا سیدھا راستہ جو تم لوگوں کو بتایا جاتا ہے وہ راستہ چلو کیونکہ قیامت کے آنے میں تم لوگوں کو شیطان نے دھوکہ دے رکھا ہے۔ اس دھوکے سے قیامت کا آنا ٹل نہیں سکتا اصلی قیامت تو اپنے وقت پر آئے گی لیکن جس طرح تمہارے بڑے بوڑھے مرگئے اسی طرح تم بھی مر جاؤگے اور مرنے کے باتھ ہی تم میں سے ہر شخص کی قیامت کا نتیجہ اس کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا۔ جس نتیجہ کو دیکھ کر پھر پچھتانے سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ مسند امام ١ ؎ احمد کے حوالہ سے حضرت عائشہ کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ منکر نکیر کے سوال کے بعد اچھے لوگوں کو جنت کا اور برے لوگوں کو دوزخ کا ٹھکانا دکھا کر فرشتے یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس ٹھکانے میں رہنے کے لئے ہر شخص کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا اس حیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ مرنے کے ساتھ ہی ہر شخص کا قیامت کا نتیجہ اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ (٢ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٢٠ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب نزول عیسیٰ بن مریم الخ ص ٨٧ ج ١۔ ) (١ ؎ الترغیب و الترہیب باب الترغیب فی زیارۃ الرجال القبور الخ ص ٦٩٨ ج ٤۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:57) ولما۔ واؤ عاطفہ ہے اور لما کلمہ ظرف ہے۔ جب ضرب ابن مریم مثلا : ضرب بیان کرنا۔ جب ابن مریم (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کو بیان کیا گیا بطور مثال کے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے ضرب لکم مثلا من انفسکم (30:28) وہ تمہارے لئے تم میں سے ہی ایک مثال بیان کرتا ہے۔ اذا : مفاجائیہ ہے تو یکایک۔ قومک تیر... ی قوم ، اہل قریش، آیت ہذا میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب ہے۔ یصدون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ صدید (باب ضرب) مصدر۔ حیرت و تعجب کے باعث ہنسنا۔ (استغرب ضحکا) دوسرا معنی اس کا شور و غل مچانا۔ چیخنا چلانا ہے۔ منہ ای من المثل۔ اس مثال سے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی قرآن میں ان کا ذکر آوے تو اعتراض کرتے ہیں کہ ان کو بھی خلق پوجتے ہیں انہیں کیوں خوبی سے یاد کرتے ہو اور ہمارے پوجون (بتوں) کو برا کہتے ہو۔ ( موضح) قتادہ (رح) اور مجاہد (رح) کہتے ہیں کہ جب اس سورة کی آیت 45 نازل ہوئی۔ یعنی ” واسئل من ارسلنا “ تو مشرکین حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے معاملے کو...  لے بیٹھے کہ نصاری ان کی عبادت کرتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ( قرطی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 57 تا 67 : خصمون ( وہ جھگڑتے ہیں) یخلفون (وہ قائم مقام ہوتے ہیں) لا تمترن ( تم ہرگز نہ کرو گے) لا یصدن ( ہرگز نہ روکنے پائے) الاحزاب ( جماعتیں ، فرقے ، گڑھے) الاخلائ (سارے دوست) تشریح : آیت نمبر 57 تا 67 : ایک مشہور مثال ہے کہ ” بد فطرت انسان کے لئے ایک بہانہ کافی ہوتا ہے “ یعنی...  جن لوگوں کی عقلیں اوندھی ہوجاتی ہیں اور وہ ہر نیک عمل کی توفیق سے محروم ہوجاتے ہیں وہ اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ کوئی ایسی بات لگ جائے جسے لے کر وہ اپنی انا کی تسکین کرسکیں ۔ کفار و مشرکین کا بھی یہی حال تھا وہ ہر وقت اس ٹوہ میں لگے رہتے تھے کہ ان کے ہاتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی ایسی بات یا کمزوری آجائے جس کو لے کر وہ پروپیگنڈا کرسکیں چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود بنا رکھا ہے وہ معبود اور ان کی بندگی کرنے والے دونوں جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا تھا کہ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کی عبادت و بندگی کرتے ہیں اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔ مقصد یہ تھا کہ اللہ کے ساتھ جنہیں شریک کیا گیا ہے وہ قیامت کے دن ان کے کام نہ آسکیں گے اور پتھرکے بےجان بت یا وہ جان دار جو اپنی عبادت کا حکم دیتے اور اس کو پسند کرتے ہوں کہ ان کی عبادت کی جائے جیسے شیاطین ، فرعون اور نمرود وغیرہ یہ سب جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔ کفار و مشرکین نے اس سچائی کو ایک غلط رنگ دے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، آپ پر ایمان لانے والوں اور دین اسلام کے متعلق پروپیگنڈے کا ایک طوفان کھڑا کردیا ۔ کہنے لگے کہ اگر ہم اپنے بتوں کو عبادت و بندگی کرتے ہیں اور ان کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے تو نصاری بھی تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ( یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ، کفار مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کو) معبود کا درجہ دیتے ہیں تو کیا ( نعوذباللہ) یہ بھی جہنم کا ایندھن بن جائیں گے۔ جب کفار و مشرکین نے یہ بات سنی تو وہ خوشی سے چلانے اور شور مچانے لگے کہ اب اس کا جواب دیا جائے کہ ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ ( عیسیٰ (علیہ السلام) بہتر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس جاہلانہ بات کا جواب دینے سے پہلے یہ بتا دیا کہ ایسی لغو اور فضول باتیں وہی کرسکتے ہیں جن کا کام صرف فساد کرنا اور جھگڑے پیدا کرنا ہے ورنہ وہ اتنی عقل تو رکھتے ہی ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے پیغمبر ہیں جن کی پاکیزہ زندگی کا ہر تصور بہت واضح ہے جن کا وجود قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ( کیونکہ اللہ کے حکم سے وہ آسمانوں پر اٹھا لئے گئے ہیں قیامت کے قریب دنیا میں دوبارہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے۔ دجال کو قتل کریں گے ، صلیب کو توڑ ڈالیں اور پھر قیامت قائم ہوگی) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) زندگی بھر توحید کی تعلیم دیتے رہے اور جب وہ آسمان سے دوبارہ آئیں گے اس وقت بھی وہ اسی توحید کی تعلیم دیں گے لہٰذا جو لوگ زبردست غلط فہمی کی وجہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبادت و بندگی کر رہے ہیں ان کی غلط سوچ ، ذاتی رائے اور ان کا اپنا ذاتی فعل ہے اس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ان کی پوری زندگی گواہ ہے کہ انہوں نے نہ تو ایسا کرنے کا حکم دیا نہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی خواہش اور مرضی تھی نہ اللہ کا کلام اس کی تائید کرتا ہے۔ اگر موجودہ انجیلوں کا دیانت دار سے مطالعہ کیا جائے تو انہوں نے صرف ایک ہی بات فرمائی کہ لوگو ! تم اللہ سے ڈرو، اس کے سوا کسی سے نہ ڈرو ، صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کرو اور زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کے رسول کی پیروی کرو۔ اس بنیادی عقیدے کے خلاف جنہوں نے عقیدت و محبت اور عبادت زندگی کے بیشمار طریقے نکال رکھے ہیں وہ من گھڑت ہیں جب تک وہ انہیں نہ چھوڑیں گے اس وقت تک وہ دین کی اصل روح تک نہ پہنچ سکیں گے۔ فرمایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مسیح اللہ کے محبوب بندوں میں سے ہیں جنہیں بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی کے لئے بھیجا گیا تھا تا کہ عقیدے کی جن گندگیوں میں وہ زندگی گزار رہے ہیں ان کی اصلاح کردی جائے۔ لیکن بنی اسرائیل نے ان سے ہدایت حاصل کرنے کے بجائے خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کو معبود کا درجہ دیدیا ۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے وہ مردوں کو زندہ کردیتے ہیں ، مٹی کا پرندہ بنا کر جب وہ پھونک مارتے ہیں تو وہ جیتا جاگتا پرندہ بند جاتا ہے، پیدائشی نابینا کی آنکھوں پر دم کرتے ہیں تو اس کو بینائی مل جاتی ہے، جب وہ کسی کوڑھی کے بدن پر ہاتھ پھیرتے ہیں تو وہ بھلا چنگا ہوجاتا ہے۔ یہ اور اس قسم کی چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ ( نعوذ باللہ) وہ اللہ کے بیٹے اور معبود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو اس میں کوئی تعجب یا حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی حضرت حوا کو اللہ نے بغیر ماں اور باپ کے پیدا کیا ہے یہ تو صرف اسی کی قدرت ہے وہ جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے ۔ فرمایا کہ اگر ہم چاہتے تو فرشتوں کو بھی انسانوں سے پیدا کرسکتے تھے پھر ان کے ہاں بھی اولاد کا سلسلہ ہی قائم ہوجاتا جیسا کہ انسانوں میں جاتا ہے۔ فرمایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے اس طرح معجزات دیئے تھے جس طرح ان سے پہلے پیغمبروں کو یا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معجزات عطاء کئے گئے تھے۔ وہ یہ سارے کام اللہ کے حکم سے کرتے تھے۔ مردوں کو زندہ کرنا ، نابینا کو آنکھیں دینا ، کوڑھی کو صحت مند بنانا یہ سب اللہ کی قدرت کے نمونے تھے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں سے ظاہر ہوئے۔ فرمایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بالکل واضح ، صاف صاحف اور دو ٹوک الفاظ میں اس اعلان کردیا تھا کہ میرا اور تمہارا رب صرف ایک اللہ ہی ہے اور وہی ہر طرح کی عبادت و بندگی کا مستحق ہے۔ اگر کچھ لوگوں نے ان کا معبود کا درجہ دیدیا ہے تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ قصور تو ان لوگوں کا ہے جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بندہ تصور کرنے کے بجائے ان کو معبود کا درجہ دیدیا ہے۔ فرمایا کہ ان ظالموں کو عقل سے کام لینا چاہیے کیونکہ اس دنیا کی زندگی بڑی مختصر ہے جب زندگی کا دھارا رک جائے گا یعنی مومت آجائے گی تو قیامت قائم ہوگی اس وقت یہ دنیا کے اسباب اور ساتھ دینے والے دوست احباب ان کا ساتھ نہ دے سکیں گے۔ آج کفار و مشرکین کی آواز میں آواز ملانے والے قیامت میں ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ لیکن ان کے بر خلاف جن لوگوں نے اپنے دلوں میں توحید اور ایمان کی شمع روشن کر رکھی ہوگی وہ بہت جلد بلند ، کامیاب اور با مراد ہوں گے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو ان کے بعد آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان بنایا اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اہل مکہ اور دیگر لوگوں کے لیے قدرت کا نمونہ اور مثال بنایا ہے۔ اسی سورت کی آیت ٤٥ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ اپنے سے پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) س... ے پوچھیں۔ انبیاء ( علیہ السلام) سے پوچھنے سے مراد ان کی کتابیں اور اہل کتاب کے منصف مزاج اہل علم سے پوچھنا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے علاوہ کوئی معبود اور مشکل کشا بنایا ہے ؟ جس کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں۔ ظاہربات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کسی کو معبود نہیں بنایا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کے سامنے ان آیات کی تلاوت تو وہ کھل کھلا کر ہنسنے اور چلّانے لگے کہ کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا عیسیٰ ( علیہ السلام) بہتر ہیں ؟ حقیقت یہی ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) بہتر تھے اور بہتر ہیں۔ اس پر انہوں نے یہ دلیل لی کہ اگر عیسیٰ ( علیہ السلام) جہنم میں جائیں گے (نعوذ باللہ) تو ہم اور ہمارے معبود بھی جہنّم میں جانے کے لیے تیار ہیں۔ حالانکہ عیسیٰ ( علیہ السلام) صرف ایک ” اللہ “ کی عبادت کا حکم دیا کرتے تھے جس کا ذکر اگلی آیات میں کیا گیا ہے، جہاں تک ان لوگوں کا جہنم میں داخل ہونے کا معاملہ ہے ان میں وہ پیر اور لوگ جہنم میں پھینکیں جائیں گے۔ جنہوں نے شرک کی تعلیم دی یا ایسا ماحول دیا کہ لوگ ان کی یا دوسروں کی عبادت کرنے لگے ان سب کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ عیسیٰ ( علیہ السلام) اللہ کے بندے تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے بڑا انعام فرمایا اور انہیں بنی اسرائیل کے لیے نمونہ قراردیا۔ جہاں تک مشرکین کی دلیل کا تعلق ہے بحث و تکرار اور جھگڑے کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ کیونکہ عیسیٰ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کو شرک و خرافات سے روکتے رہے۔ جس کا ثبوت دو آیات کے بعد دیا جارہا ہے۔ عیسیٰ ( علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے جو انعامات فرمائے ان کا اختصار یہ ہے۔ 1 اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کی والدہ حضرت مریم [ کو بڑی عزت عطا فرمائی ہے۔ 2 اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا فرما کر اپنی قدرت کا نشان قرار دیا ہے۔ 3 اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بڑے بڑے معجزات عطا فرمائے۔ 4 اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو وجیہ اور معزز بنایا۔ 5 اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو جسم سمیت آسمان پر اٹھالیا۔ 6 اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو قیامت کی نشانی قرار دیا۔ 7 اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو صاحب کتاب نبی بنایا۔ مسائل ١۔ مشرک اپنے شرک کی تائید میں خواہ مخواہ بہانے تلاش کرتا ہے۔ ٢۔ مشرک کے پاس علم اور حقیقت پر مبنی دلیل نہیں ہوتی اس لیے وہ بحث و تکرار اور جھگڑا کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) پر بہت زیادہ فضل و کرم فرمایا تھا۔ تفسیر بالقرآن حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا عقیدہ اور دعوت : ١۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ (المائدۃ : ٧٢) ٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے تورات کی تصدیق کی۔ (آل عمران : ٥٠) ٣۔ عیسیٰ نے اپنی والدہ کی گود میں اپنی نبوت اور بندہ ہونے کا اعلان فرمایا۔ (مریم : ٢٩، ٣٠) ٤۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا بیشک میرا اور تمہارا پروردگار ” اللہ “ ہے بس اسی کی عبادت کرو۔ (مریم : ٣٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٢٣٣ ایک نظر میں یہ اس سورت کا آخری سبق ہے اور اس کا موضوع بھی عربوں کے افسانوی عقائد ہیں ، یہ کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ، اس لیے ہم ان کی بندگی کرتے ہیں ، یہاں ایک استدلال نقل کیا جاتا ہے جو مشرکین مکہ اپنے واہی تباہی عقائد کی مدافعت میں پیش کیا کرتے تھے۔ یہ استدلال وہ اس نیت سے نہ کرتے...  تھے کہ وہ سچائی کے متلاشی تھے ، یہ محض دکھاوا اور دھوکہ تھا۔ جب ان سے کہا گیا کہ تم اور جن بتوں کی تم بندگی کرتے ہو ، وہ جہنم کا ایندھن ہوں گے۔ مراد تو یہ تھی کہ جن بتوں کی پوجا کرتے ہو ، خواہ وہ فرشتوں کے نام سے ہیں یا کسی اور کے نام کے۔ مراد یہ نہ تھی کہ جن کے نام سے تم بتوں کو منسوب کرتے ہو ، وہ بھی جہنم میں ہوں گے۔ غرض ان سے جب یہ کہا گیا کہ عابدو معبود دونوں جہنم میں ہوں گے۔ جب ان سے یہ کہا گیا تو بعض لوگوں نے عیسیٰ ابن مریم کی مثال دی کہ بعض گمراہ عیسائی ان کی بندگی کرتے تھے۔ یہ ان کی طرف سے محض ایک کج بحثی تھی۔ پھر وہ کہتے تھے کہ جب اہل کتاب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بندگی کرتے ہیں تو ان سے ہم بہتر ہیں کہ ہم فرشتوں کی بندگی کرتے ہیں۔ یہ استدلال بناء الباطل علی الباطل کی بہترین مثال تھا۔ اس بنا پر یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کی ایک کڑی لائی جاتی ہے۔ اس میں بتایا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حقیقت کیا ہے۔ آپ کی دعوت کیا تھی۔ اور ان سے پہلے بنی اسرائیل میں کیا اختلافات تھے اور ان کے بعد کیا اختلافات پیدا ہوئے۔ اس کے بعد تمام بد عقیدہ اور مشرکانہ خیالات رکھنے والوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ اچانک قیامت آجائے گی اور پھر حالت کیا ہوگی ؟ اس کے بعد قیامت کے مناظر میں سے ایک طویل منظر پیش کیا جاتا ہے جس میں ایک جھلک ان نعمتوں کی ہے جو متقین کے لئے تیار کی گئی ہیں اور ایک جھلک اس دردناک عذاب کی ہے جو مجرمین کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ اس سبق میں فرشتوں کے بارے میں عربوں کے اس افسانے کو بھی رد کیا جاتا ہے کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اللہ پاک ان باتوں سے بری ہے جو یہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اس مناسب سے اللہ کی بعض صفات کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ زمین و آسمان اور دنیا و آخرت کا مطلق مالک ہے اور سب لوگوں نے اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اور آخر میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ آپ ان کو نظر انداز کردیں ، ان سے منہ پھیر لیں اور ان کو کرتے دیں جو کرتے ہیں۔ عنقریب ان کو اپنا انجام معلوم ہوجائے گا اور یہ ایک ایسی بالواسطہ دھمکی ہے جو ان لوگوں کے لئے مناسبت ہے جو محض دکھاوے کے لئے کٹ حجتی کرنے میں ، احقاق حق کے لئے بات نہیں کرتے۔ ٭٭٭ درس نمبر ٢٣٣ تشریح آیات ٥٧ ۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ ٨٩ آیت نمبر ٥٧ تا ٦٥ ابن اسحاق نے سیرۃ میں لکھا ہے کہ جس طرح مجھ تک یہ بات پہنچی ، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرم میں ولید ابن مغیرہ کے پاس بیٹھے تھے ، نضر ابن الحارث بھی آیا اور وہ بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ مجلس میں قریش کے کئی اور لوگ بھی بیٹھے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ بات کی۔ نضر ابن حارث نے کچھ اعتراض کیا ، تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو خاموش کرا دیا۔ اس کے بعد ان پر یہ آیت پڑھی۔ انکم وما تعبدون ۔۔۔۔۔۔ لھا واردون (٢١ : ٩٨) ” تم اور جن بتوں کو تم پوجا کرتے ہو ، جہنم کا ایندھن ہیں۔ تم اس جہنم میں پہنچنے والے ہو۔۔۔۔ “۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مجلس سے اٹھ گئے اور عبد اللہ ابن الزیعری تمیمی آیا اور مجلس میں بیٹھ گیا تو ولید ابن مغیرہ نے کہا : ” خدا کی قسم نضر ابن الحارث کا کھڑا ہونا تھا کہ عبد المطلب کے بیٹے اٹھ کر چلے گئے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خیال یہ ہے کہ ہم اور ہمارے سب معبود جہنم کا ایندھن ہیں۔ اس پر عبد اللہ ابن الزیعری نے کہا ، خدا کی قسم اگر مجھے ملے تو میں اس کے ساتھ جھگڑا کروں گا۔ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھو کیا وہ تمام معبود جن کی عبادت کی جاتی ہے ، اپنے عبادت کرنے والوں کے ساتھ جہنم میں ہوں گے۔ ہم تو ملائکہ کی عبادت کرتے ہیں۔ یہودی عزیر کی عبادت کرتے ہیں اور نصاریٰ مسیح ابن مریم کی عبادت کرتے ہیں تو ولید اور اہل مجلس ، عبد اللہ ابن زیعری کی بات سے بےحد متاثر ہوئے۔ انہوں نے سمجھا کہ اس نے خوب دلیل پیش کی اور مباحثہ کیا۔ یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” جس نے اس بات کو پسند کیا کہ وہ اللہ کے سوا پوجا جائے تو بیشک وہ ان لوگوں کے ساتھ جہنم میں ہوگا جنہوں نے اسے پوجا۔ یہ لوگ دراصل شیطان کی عبادت کرتے ہیں جس نے ان کو ان بزرگوں کی بندگی کا حکم دیا ہے “۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ان الذین سبقت ۔۔۔۔۔ مبعدون (٢١ : ١٠١) ” رہے وہ لوگ جن کے بارے میں ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہوگا تو وہ یقیناً اس سے دور رکھے جائیں گے “۔ یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت عزیر (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ پوجے جانے والے دوسرے احبار اور رہبان ۔ جو اللہ کی عبادت پر قائم رہے اور ان کی وفات کے بعد لوگوں نے ان کی عبادت شروع کردی اور ان کو ارباب من دون اللہ بنا دیا۔ اور یہ جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے سلسلے میں بات کی گئی کہ ان کو بھی من دون اللہ عبادت کی جاتی ہے اور ولید اور دوسرے اہل مجلس اس سے متاثر ہوئے تو اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ولما ضرب ۔۔۔۔۔۔۔ منہ یصدون (٤٣ : ٥٧) ” جب ان مریم کی مثال دی گئی تو تمہاری قوم نے اچانک غل مچا دیا “۔ یصدون کے معنی ہیں یصدون عن امرک یعنی تمہاری دعوت سے روکتے رہیں۔۔۔۔ “۔ علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں لکھا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کے سامنے یہ آیت پڑھی انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم (٢١ : ٩٨) ” تم اور تمہارے معبود جہنم کا ایندھن ہوں گے اور سب نے اس میں جانا ہے “۔ تو اس پر اہل قریش سخت برہم ہوئے ۔ عبد اللہ ابن زیعری نے پوچھا محمد ، یہ حکم صرف ہمارے معبدوں اور ہمارے بارے میں ہے یا دوسری ملتوں کے بارے بھی ہے ۔ آپ نے فرمایا ” یہ تمہارے لیے تمہارے الہوں کے لئے اور تمام اقوام کے لئے ہے “۔ تو اس نے کہا ، رب کعبہ کی قسم میں نے تمہیں شکست دے دی۔ کیا تم یقین نہیں کرتے کہ عیسیٰ ابن مریم نبی ہیں اور تم ان کے اور ان کی والدہ کے بارے میں اچھی باتیں کرتے ہو ، اور تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ نصاری ان کی عبادت کرتے ہیں اور عزیر کی بھی یہودی بندگی کرتے ہیں ، ملائکہ کی بھی بندگی کی جاتی ہے۔ اگر یہ سب لوگگ جہنم میں خاموش ہو تو اپنے الہوں کے ساتھ جہنم میں جانے کے لئے تیار ہیں۔ اس پر وہ بہت ہنسے اور خوش ہوئے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے۔ اس پر یہ آیت نال بات ہوئی : ان الذین سبقت لھم منا الحسنی (٢١ : ١٠١) ” رہے وہ لوگ جن کے بارے میں ہمارے طرف سے بھلائی کا فیصلہ ہوچکا ہوگا “۔ اور یہ آیت بھی نازل ہوئی جس کے معنی یہ ہیں کہ جب عبد اللہ ابن الزیعری نے عیسیٰ بن مریم کی مثال دی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مباحثہ کیا کہ نصاریٰ بھی تو عیسیٰ کی عبادت کرتے ہیں تو اچانک تمہاری قوم اہل قریش نے شوروغل مچانا شروع کردیا۔ اور یہ انہوں نے اس لیے کیا کہ وہ اس دلیل پر بہت خوش ہوئے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زیعری نے خاموش کردیا تھا۔ جس طرح بعض اوقات بےدلیل لوگ جب بحث میں ہار جاتے ہیں اور اچانک ان کو کوئی دلیل مل جاتی ہے تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ لفظ یصدون کے معنی تو ہیں شور کرنا۔ لیکن جنہوں نے اسے یصدون (حرف صاد پر پیش کے ساتھ ) پڑھا ہے تو اس کے معنی ہوں گے کہ وہ حق سے منہ موڑتے ہیں ، اعراض کرتے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ یصدون الصدید سے ہے جس کے معنی مقابلہ اور کٹ جانے کے ہیں۔ یصدون اور یصدون دونوں طرح آتا ہے جس طرح یعکف اور یعکف آتا ہے۔ وقالواء الھتنا خیر ام ھو (٤٣ : ٥٧) ” ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ ”۔ مطلب یہ ہے کہ کیا تمہارے نزدیک ہمارے الٰہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے اچھے اور بہتر نہیں ؟ اگر عیسیٰ (علیہ السلام) جہنم کا ایندھن ہیں تو پھر ہمارے الہٰوں کا معاملہ آسان ہے۔ یہ تھی صاحب کشاف کی روایت ، معلوم نہیں انہوں نے کس سے اخذ کی ہے لیکن اپنے عمومی مضمون میں یہ ابن اسحاق کی روایت کے ساتھ متفق ہے۔ دونوں روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس جدل وجدال میں محض ظاہری اور لفظی کج بحثی سے کام لیتے تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کہتا ہے۔ بل ھم قوم خصمون (٤٣ : ٥٨) ” حقیقت یہ ہے کہ یہ ہیں ہی جھگڑالو لوگ “ ۔ یہ جھگڑتے ہیں اور تنقید کرنے میں بہت ماہر ہیں ، مناظرہ باز ہیں۔ ان کو پہلے سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد کیا ، اس کے بعد وہ مفہوم کو توڑ مروڑ کر اپنی مراد پر لاتے ہیں اور پھر اعتراض کرتے ہیں اور الفاظ کے عموم کو لے کر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ ان کے اندر وہ پورے قرآن کی تعلیمات سے خود اختصاص پیدا کرسکتے تھے اور اس قسم کے عمومی اعتراضات وہی عائد کرتا ہے جو مخلص نہ ہو اور پوری طرح چالاک ہو ، جس کی سوچ درست نہ ہو ، مکابرہ کرنے والا ہو اور ہر وقت شبہات ، الفاظ کے ہیر پھیر اور کسی جگہ پر نقب زنی کرنے کا متلاشی ہو۔ اس لیے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ ایسی گفتگو سے منع فرمایا ہے جس میں محض دکھاوا ہو ، حقیقت نہ ہو ، اور جس میں صاحب کلام ہر صورت میں کلام ہر صورت میں اپنی بات کو غالب کرنا چاہتا ہو۔ ابن جریر نے ، ابو کریب سے انہوں نے احمد ابن عبد الرحمٰن سے انہوں نے عبادہ ابن عبادہ سے انہوں نے جعفر سے انہوں نے قاسم سے اور انہوں نے حضرت ابو امامہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے نکلے اور لوگ قرآن کریم میں مباحثہ اور مناظرہ کر رہے تھے۔ آپ کو بہت شدید غصہ آیا۔ گویا آپ کے چہرۂ مبارک پر سرکہ ڈال دیا گیا ہو۔ (ترشہ روئی کا اظہار کیا) اس کے بعد آپ نے فرمایا ” قرآن کے بعض حصوں کو بعض دوسرے حصوں سے نہ ٹکراؤ، کیونکہ لوگ گمراہ تب ہوئے جب ان کے اندر مذہبی جھگڑے اور اختلافات شروع ہوگئے “۔ اس کے بعد آپ نے پڑھا۔ ما ضربوہ لک الا جدلا بل ھم قوم خصمون (٤٣ : ٥٨) ” یہ مثال وہ تمہارے سامنے محض کج بحثی کے لئے لائے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت ہی جھگڑالو لوگ ہیں “۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک دوسرا احتمال بھی ہے۔ وقالواء الھتنا خیر ام ھو (٤٣ : ٥٧) ” اور وہ کہنے لگے کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ ؟ “ میں یہ اشارہ ہے کہ ان کے افسانوی عقائد کے مطابق وہ ملائکہ کی پوجا کرتے تھے ان کا خیال یہ تھا کہ ان کی یہ پوجا نصاریٰ کی جانب سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پوجا سے بہتر ہے۔ کیونکہ ملائکہ اپنے مزاج کے اعتبار سے اور ان کے افسانوی خیال کی رو سے خدا کے زیادہ قریب ہیں۔ اس پر یہ تبصرہ ۔ ما ضربوہ لک الا جدلا بل ھم قوم خصمون (٤٣ : ٥٨) ” یہ مثال وہ تمہارے سامنے محض کج بحثی کے لئے لائے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت ہی جھگڑالو لوگ ہیں “۔ اور جس طرح پہلے گزرا یہ ابن الزیعری پر رد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نصاریٰ کی عبادت مسیح کی مثال لانا یہاں باطل ہے۔ نصاریٰ کا عمل حجت نہیں ہے کیونکہ وہ تو توحید سے پھرگئے ہیں جس طرح مشرکین توحید سے پھرگئے ہیں۔ لہٰذا دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کے سب گمراہ ہیں۔ بعض مفسرین نے اس طرف اشارہ کیا ہے اور یہ بھی ایک قریب الفہم تفسیر ہو سکتی ہے۔ اور اس کے بعد حضرت عیسٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جامع تبصرہ ۔ ان ھو الا عبد انعمنا علیہ وجعلنہ مثلا لبنی اسرائیل (٤٣ : ٥٩) ” ابن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا اور بنی اسرائیل کے لئے اسے اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنا دیا “۔ اور وہ الٰہ نہیں جس کی عبادت کی جائے ، جس طرح نصاریٰ کا ایک گروہ گمراہ ہوا اور اس نے ان کی بندگی شروع کردی۔ وہ تو ایک بندۂ خدا ہیں ان پر اللہ کا انعام ہوگیا ، اور اگر بعض لوگوں نے ان کی بندگی کی ہے تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے ان کو رسالت اور معجزات دے کر بنی اسرائیل کے لئے نمونہ قدرت الٰہیہ بنا گیا گیا تھا اور بنی اسرائیل کو چاہئے تھا کہ وہ ان کی پیروی کرتے اور ہدایت حاصل کرتے مگر وہ گمراہ ہوگئے۔ اب بات ان کے عقائد بابت ملائکہ کے موضوع کی طرف آتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ فرشتے تو تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اس زمین میں تمہارا جانشین فرشتوں کو بنا دیں یا بعض لوگوں کو فرشتے بنا دیں جو زمین میں جانشین ہوجائیں۔ ولو نشاء ۔۔۔۔۔ یخلفون (٤٣ : ٥٠) ” اگر اللہ چاہتا تو ملائکہ کو تمہارا خلیفہ بنا دیتا “ ۔ یہ سارے معاملات اللہ کی مشیت پر موقوف ہیں۔ اپنی مخلوق کے بارے میں جو چاہے ، کر دے لیکن مخلوق میں سے کوئی اللہ سے نسب نہیں جوڑ سکتا۔ اور نہ اللہ سے مل سکتا ہے سوائے خالق و مخلوق کے تعلق سے یا عہد و معبود کے تعلق سے یا غلام اور مالک کے تعلق سے۔ اس کے بعد کچھ فیصلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق کہ وہ ایک تو قیامت کی نشانی ہیں۔ اس قیامت کی جس کی یہ تکذیب کرتے ہیں یا ان کو اس کے آنے میں شک ہے۔ وانہ لعلم ۔۔۔۔۔۔ صراط مستقیم (٤٣ : ٦١) ولا یصدنکم ۔۔۔۔۔۔ مبین (٤٣ : ٦٢) ” اور ابن مریم دراصل قیامت کا علم ہے بس تم اس میں شک نہ کرو ، اور میری بات مان لو۔ یہی سیدھا راستہ ہے ، ایسانہ ہو کہ شیطان تم کو اس سے روک دے ، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے “۔ قیامت سے قبل نزول عیسیٰ (علیہ السلام) کے موضوع پر کئی احادیث آئی ہیں۔ یہ قیامت سے قدرے پہلے زمین پر اتریں گے۔ اور اس آیت میں اسی طرف اشارہ ہے۔ وانہ لعلم للساعۃ (٤٣ : ٦١) ” اور وہ قیامت کا علم ہے “۔ یعنی ان کے آنے سے قرب قیامت کا علم ہوجائے گا اور دوسری قرات یہ ہے۔ وانہ لعلم للساعۃ (٤٣ : ٦١) ” اور وہ قیامت کی نشانی ہے “ ۔ دونوں معنی صحیح ہیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ قریب ہے کہ تمہارے اندر ابن مریم بطور ایک منصف حاکم نازل ہوں ، وہ صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کردیں گے ، لوگوں پر جزیہ عائد کریں گے اور مال تقسیم کریں گے یہاں تک کہ کوئی لینے والا نہ ہوگا ، حالت یہ ہوگی کہ ایک سجدہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا (متفق علیہ ، ابو داؤد ، مالک) ۔ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، میری امت میں سے ایک گروہ قیامت تک حق پر لڑتا رہے گا اور قیامت تک غالب رہے گا یہاں تک کہ عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے ، مسلمانوں کے امیر ان سے کہیں گے ، آپ ہمیں نماز پڑھائیں ، وہ کہیں گے ، نہیں۔ تم میں سے بعض بعض کے امراء ہوں گے ، اللہ نے اس امت کو یہ اعزاز بخشا ہے “۔ (مسلم ) یہ ایک غیب ہے ، اور اس کی اطلاع ہمیں صادق و امین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی ہے اور اس طرف قرآن کریم نے بھی اشارہ کیا ہے ، لہٰذا اس بات میں کوئی انسان کوئی اور بات نہیں کرسکتا صرف وہی بات حق ہے جو ان دو سچے ذرائع سے آئی ہے اور ہمارے لیے سچے مصادر قیامت تک یہی ہیں۔ فلا تمترن بھا واتبعون ھذا صراط مستقیم (٤٣ : ٦١) ” پس تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مانو ، یہی سیدھا راستہ ہے “۔ یہ لوگ قیامت میں شک کرتے تھے۔ قرآن کریم انہیں دعوت دیتا ہے کہ اس پر یقین کرو ، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ان کو دعوت یقین دی جاتی ہے کہ تم میری اطاعت کرو اور میں تمہیں سیدھا راستہ دکھاؤں گا۔ جو بالکل سیدھا اور منزل مقصود تک پہنچنے والا ہے۔ اور اس پر چلنے والے کبھی گمراہ نہیں ہوتے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ جو لوگ صراط مستقیم سے ادھر ادھر ہوجاتے ہیں اور راندۂ درگاہ ہوتے ہیں ، وہ شیطان کے اثر سے ہوتے ہیں ، لہٰذا شیطان کے مقابلے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ آپ کی اطاعت کی جائے۔ ولا یصدنکم الشیطن انہ لکم عدو مبین (٦٣ : ٦٢) ” ایسا نہ ہو کہ شیطان تم کو اس سے روک دے ، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے “۔ قرآن کریم اس مسلسل معرکہ کی طرف بار بار اشارہ کرتا ہے جو اولاد آدم اور شیطان کے درمیان حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانے سے جاری ہے۔ یہ معرکہ جنت سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ اور اس شخص سے بڑا احمق اور غافل اور کون ہوسکتا ہے جسے بار بار متنبہ کیا جائے کہ گھات میں دشمن بیٹھا ہے اور اس نے تمہارا ارادہ کر رکھا ہے اور یہ شخص اس کے برعکس دشمن کا مطیع فرمان بن جائے۔ اسلام نے تو انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنی پوری زندگی میں شیطان کے خلاف اس دوامی جنگ میں برسر پیکار رہے اور اس کے ساتھ اس قدر عظیم مال غنیمت کا وعدہ کیا ہے جو کسی بشر کے تصور سے باہر ہے۔ اسلام نے انسانی جنگ کا رخ اس معرکہ خیر و شر کی طرف پھیر دیا جس کی وجہ سے انسان صحیح انسان بنتا ہے اور جس کی وجہ سے تمام مخلوقات میں سے انسان کو ایک ممتاز مخلوق بنایا گیا ہے اور ایک خاص مزاج دیا گیا ہے اور یہاں انسان کا سب سے بڑ انصب العین یہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے کھلے دشمن شیطان پر غالب آجائے ، یوں وہ شر ، خباثت اور ہر قسم کی گندگی پر غالب آجائے اور زمین میں خیر کی بنیادیں رکھ دے جن میں لوگ ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوں گے اور پاکیزہ زندگی گزاریں گے۔ اس نصیحت کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں مزید معلومات کہ وہ کیا پیغام لے کر آئے تھے اور ان سے پہلے نبی اسرائیل کے باہم اختلافات کیا تھا اور بعد میں کیا ہوتا رہا۔ ولما جاء عیسیٰ ۔۔۔۔۔۔ واطیعون (٤٣ : ٦٣) ان اللہ ھو ۔۔۔۔۔۔ صراط مستقیم (٤٣ : ٦٤) فاختلف الاحزاب ۔۔۔۔ یوم الیم (٤٣ : ٦٥) ” اور جب عیسیٰ صریح نشانیاں لیے ہوئے آیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض ان باتوں کی حقیقت کھول دوں جن میں اختلاف کر رہے ہو ، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی میرا رب بھی ہے اور تمہارا بھی۔ اس کی تم عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے مگر گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ پس تباہی ہے ان لوگوں لیے جنہوں نے ظلم کیا ایک درد ناک دن کے عذاب کی “۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لوگوں کے سامنے واضح نشانیاں لے کر آئے تھے۔ یہ نشانیاں وہ معجزات بھی تھے جس صدور آپ کے ہاتھوں پر ہوا۔ اور وہ کلمات اور تقاریر بھی تھیں جو آپ نے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے کیں۔ آپ نے اپنی قوم سے کہا : قد جئتکم بالحکمۃ (٤٣ : ٦٣) ” میں تم لوگوں کے پاس حکمت لے کر آیا ہوں “ اور جسے حکمت دی گئی وہ گویا خیر کثیر کا مالک بن گیا ۔ وہ لغزش اور بےراہ روی سے امن میں ہوگیا۔ تفریط اور تقصیر سے محفوظ ہوگیا ۔ اور صحیح راستے پر اس کے قدم نہایت ہی توازن اور روشنی میں اٹھنے لگے اور آپ ان کے پاس اس لیے بھی خصوصی طور پر آئے تھے کہ اس وقت مذہبی گروہوں میں جو بہت بڑا تفرقہ پیدا ہوگیا تھا آپ اسے دور کریں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں ان کے فقہاء نے بےحد اختلاف شروع کردیا تھا۔ وہ فرقے فرقے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے تھے۔ آپ نے قوم کو اس طرف بلایا کہ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور آپ نے عقیدۂ توحید تو بڑی وضاحت ، بلاریب اور بغیر کسی التباس اور پیچیدگی کے بیان کیا۔ ان اللہ ھو ربی وربکم فاعبدوہ (٤٣ : ٦٤) ” بیشک اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے لہٰذا اسی کی بندگی کرو “ نہ آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ آپ الٰہ ہیں اور نہ یہ دعویٰ کیا کہ آپ ابن اللہ ہیں اور آپ نے اپنے کلام میں کسی جگہ ماسوائے تعلق رب اور بندہ اور خالق و مخلوق ، اللہ کے ساتھ کسی اور تعلق کا اشارہ تک نہیں کیا۔ صرف یہی کہا کہ میں رسول ہوں ، صراط مستقیم دے کر بھیجا گیا ہوں ، جس میں کوئی ٹیٹرھ نہیں ہے ، نہ کوئی پھسلن ہے اور نہ کج روی۔ لیکن جو لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آئے وہ بھی اسی طرح ٹکڑے اور پارٹیاں بن گئے جس طرح آپ سے پہلے کے لوگ ٹکڑے اور پارٹیاں تھے۔ یہ اختلاف انہوں نے محض ظلم کرتے ہوئے کئے ، اختلافات کے لئے نہ کوئی جواز تھا ، اور نہ شبہ تھا۔ فویل للذین ظلموا من عذاب یوم الیم (٤٣ : ٦٥) ” پس تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے ظلم کیا ایک درد ناک دن کے عذاب کی “۔ حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کی رسالت بنی اسرائیل کے لئے تھی۔ اس دور میں بنی اسرائیل رومیوں کے غلام تھے ، ان کو انتظار تھا کہ نجات دہندہ آئے گا اور ہمیں چھڑائے گا لیکن جب وہ آیا تو انہوں نے اسے پہچاننے سے انکار کردیا اور اس کی دشمنی پر اتر آئے اور انہوں نے اسے سولی پر چڑھانے کی سعی کی۔ جب آپ تشریف لائے تو اس وقت بنی اسرائیل ٹکڑے ٹکڑے تھے ، اہم فرقے چار تھے : ١۔ صدوقی فرقہ : یہ صدوق کی طرف منسوب تھے ، وہ اور اس کے خاندان کے لوگ ہیکل سلیمانی کے کاہن تھے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہما السلام) کے زمانے سے وہ اس منصب پر تھے۔ شریعت کے مطابق ضروری تھا کہ ان کا نسب ہارون (علیہ السلام) تک پہنچے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی پیغمبر تھے کیونکہ ہارون (علیہ السلام) کی اولاد ہی ہیکل کی متولی تھی۔ یہ لوگ اپنے فرائض کے مطابق عبادات کی ظاہری صورت پر بہت زور دیتے تھے۔ اور کسی قسم کی بدعت کے سخت مخالف تھے جبکہ اپنی شخصی زندگی میں بہت عیاش تھے اور زندگی کے مزے لیتے تھے اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ قیامت نہیں ہے۔ ٢۔ فرسیوں کا فرقہ : یہ صدوقیوں کے سخت خلاف تھے۔ ان کو اعتراض یہ تھا کہ یہ لوگ مذہبی رسومات اور عبادات کی ظاہری شکل پر بہت زور دیتے ہیں اور قیامت اور حساب و کتاب کے منکر ہیں۔ یہ نہایت ہی متقی اور صوفی قسم کے لوگ تھے۔ اگرچہ بعض کے اوپر علمی غرور چھایا ہوا تھا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کا علمی غرور پسند نہ تھا۔ نیز آپ کو ان کی لفاظی بھی پسند نہ تھی۔ ٣۔ تیسرا فرقہ سامریوں کا تھا : یہ فرقہ یہودیوں اور اشوریوں پر مشتمل تھا۔ اور یہ عہد قدیمہ کی صرف پانچ کتابوں کو مانتا تھا۔ باقی کتب کو بعد کے اضافے سمجھتا تھا۔ یہ پانچ کتابیں موسوی کتب کے نام سے مشہور ہیں جبکہ دوسرے فرقے ساری کتب کو مانتے تھے۔ ٤۔ ان کو آسین یا اسینین کہتے تھے۔ یہ لوگ بعض فلسفیانہ افکار سے متاثر تھے۔ اور یہ لوگ دوسرے فرقوں سے علیحدہ رہتے تھے۔ اور اپنے آپ کو نہایت سختی اور تقشف میں رکھتے تھے اور ان کی جماعت بھی تنظیم میں بہت سخت تھی۔ ان چار مشہور فرقوں کے علاوہ بھی بہت سے انفرادی فرقے تھے۔ غرض بنی اسرائیل کے اندر نظریات اور طرز عمل کا سخت اختلاف و انتشار تھا۔ جن پر رومی شہنشاہیت کا سخت دباؤ تھا۔ اور پوری قوم سخت ذلت اور غلامی کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ یہ منظر تھا جس میں ایک نجات دہندہ کی پیشین گوئی کتابوں کی گئی تھی کہ وہ آئے گا اور ہمیں نجات دلائے گا۔ جب حضرت مسیح عقیدۂ توحید کے ساتھ بھیجے گئے اور انہوں نے اعلان کردیا۔ ان اللہ ھو ربی وربکم فاعبدوہ (٤٣ : ٦٣) ” کہ اللہ میرا بھی رب ہے ، اور تمہارا بھی رب ہے ، لہٰذا اس کی عبادت کرو “۔ اور اس کے ساتھ انہوں نے ایسی شریعت پیش کی جس میں رواداری اور روحانی اصلاح پر اور عبادات کی ظاہری صورت کی بجائے عبادات کے روحانی پہلو پر زور دیا گیا تھا تو ان فقہاء اور فرسیوں نے آپ کا مقابلہ کیا کیونکہ یہ لوگ عبادات کی ظاہری شکلوں ہی پر زور دیتے تھے۔ ان لوگوں کے بارے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جو کچھ کہا ، ان میں سے آپ کے بعض اقوال نہایت ہی موثر ہیں مثلاً ” یہ لوگ بڑے بڑے بھاری بوجھ باندھتے ہیں اور لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کو اپنے کاندھوں پر اٹھائیں اور خود اپنی انگلی بھی آگے نہیں بڑھاتے کہ اس بوجھ کو جگہ سے ہلا دیں۔ وہ جو کام بھی کرتے ہیں ، اس لیے کرتے ہیں کہ لوگ اسے دیکھیں۔ اور اپنے کپڑوں کے دامن لمبے کرتے ہیں اور دعوتوں میں اول مقام پر بیٹھتے ہیں اور جلسوں میں پہلی جگہ پر بیٹھنا پسند کرتے ہیں اور بازاروں میں پھر کر سلام وصول کرتے ہیں اور یہ پسند کرتے ہیں کہ انہیں پکارا جائے ، ” سیدی سیدی “ کہ کر جہاں بھی وہ جائیں “۔ اور فرسیوں اور فقیہوں سے کہتے ہیں ” اے اندھے قائدین ! تم مچھر چھانتے ہو اور اونٹ نگل جاتے ہو ، تم پیالے اور تھالی کے ظاہری حصے کو خوب صاف کرتے ہو لیکن ان کے اندر گندگی اور بدکاری ہوتی ہے ، اے لکھنے والے مفتیان کرام اور دھاوا کرنے والے فقہاء ، تمہاری مثال یوں ہے جس طرح ایک چونا گچ کی سفید قبر ، جس کا ظاہری حصہ خوبصورت اور ملمع شدہ ہے اور اندر بوسیدہ ہڈیاں ہیں “۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ان کلمات کو پڑھو اور خود اپنے دور کے علماء اور مفتیان کرام کو دیکھو ، کیا یہی الفاظ ان پر صادق نہیں آتے ، دین کی تحریف کرنے والے ، رسومات کے پجاری ، ظاہر پرست اور دکھاوا کرنے والے۔ اس کے بعد حضرت مسیح اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ اس طرح آپ کے پیرو کاروں کے اندر اختلافات پیدا ہوگئے۔ یہ اس طرح فرقے فرقے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ۔ بعض نے خود ان کو الٰہ بنا دیا۔ بعض نے اللہ کا بیٹا بنا لیا۔ بعض نے ثالث ثلاثہ کہا اور وہ کلمہ توحید ان سے گم ہوگیا جس کی دعوت لے کر آپ اس لیے تشریف لائے تھے کہ یہ لوگ اپنے رب کی طرف لوٹ آئیں اور دین اللہ کے لئے خالص کردیں۔ فاختلف الاحزاب ۔۔۔۔۔۔ یوم الیم (٤٣ : ٦٥) ” مگر گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا پس تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے ظلم کیا ایک دردناک عذاب کے دن کی “۔ مشرکین عرب آئے اور انہوں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں مجادلہ شروع کردیا۔ اس وجہ سے کہ پیروکار ان مسیح نے آپ کے بعد گل کھلائے تھے اور آپ کے بارے میں بیشمار افسانے گھڑ لیے تھے۔ ٭٭٭  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قریش مکہ کی ایک جاہلانہ بات کی تردید، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات گرامی کا تعارف، اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت ہی صراط مستقیم ہے تفسیر قرطبی میں لکھا ہے کہ قریش نے عبد اللہ بن زبعری سے کہا (اس وقت اس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا) کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سناتے ہیں : ﴿اِنَّكُمْ وَ مَا تَ... عْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ١ؕ﴾ بلاشبہ تم لوگ اور وہ جن کی اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو دوزخ کا ایندھن ہو (یہ سورة الانبیاء کی آیت ہے) تو عبد اللہ بن زبعری یہ سن کر کہنے لگا کہ میں موجود ہوتا تو اس کی تردید کردیتا قریش نے کہا کہ تو کیا کہتا، اس پر عبد اللہ نے کہا کہ میں یوں کہتا کہ یہ مسیح (عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں جن کی نصاریٰ عبادت کرتے ہیں اور یہ عزیر ہیں جن کی یہود عبادت کرتے ہیں تو کیا یہ دونوں دوزخ کا ایندھن ہیں قریش کو یہ بات پسند آئی اور انہوں نے خیال کیا کہ یہ لاجواب کرنے والا سوال ہے یہ بات سن کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے اور خوشی کے مارے چیخنے لگے سورة الانبیاء میں ان لوگوں کا جواب گزر چکا ہے ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤى١ۙ اُولٰٓىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ٠٠١٠١﴾ (بلاشبہ جن کے لیے ہماری طرف سے بھلائی مقدر ہوچکی ہے وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔ ) اور ایک روایت میں یوں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن یوں فرمایا یَا مَعْشَرَ قُرَیشٍ لا خیر فی احدٍ یُعبد من دون اللّٰہِ (اے قریش کی جماعت ! اس میں کوئی خیر نہیں ہے اللہ کے سوا جس کی عبادت کی جاتی ہو) یہ سن کر قریش کہنے لگے کیا آپ یہ نہیں فرماتے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نبی تھے اور عبد صالح تھے آپ کے کہنے کے مطابق یہ بھی دوزخ میں جانے والوں میں شمار ہوئے کیونکہ ایک جماعت نے ان کی عبادت کی ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ اللہ کے سوا جن لوگوں کی عبادت کی گئی، اگر وہ سب دوزخ میں ہوں گے تو ہم اس پر راضی ہیں کہ ہمارے معبود بھی عیسیٰ اور عزیر اور ملائكہ کے ساتھ ہوجائیں یعنی ان حضرات کا جو انجام ہوگا وہی ہمارے معبودوں کا ہوجائے گا۔ ان لوگوں کا مقصد صرف جھگڑنا اور الزام دینا تھا حق اور حقیقت سے انہیں کچھ واسطہ نہ تھا یہ تو ایک سیدھی بات ہے کہ جو حضرات اللہ تعالیٰ کے محبوب و مقرب ہیں وہ دوزخ میں کیوں جانے لگے ؟ لیکن محض جھگڑے بازی کے لیے انہوں نے ایسی بات کہی، اس کو سامنے رکھ کر اب پہلی دو آیتوں کا مطلب سمجھ لیں ﴿ وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ ﴾ اور جب ابن مریم یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق ایک اعتراض کرنے والے نے ایک عجیب مضمون بیان کیا یعنی یوں کہا کہ ہمارے معبودوں میں ہوں گے اور عیسیٰ بھی دوزخ میں ہوں گے تو اس بات کو سن کر قریش مکہ خوشی میں چیخنے لگے اور حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہنے لگے کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا عیسیٰ ؟ ان کا مطلب یہ تھا کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) خیر ہیں حالانکہ ان کی عبادت کی گئی تو ہمارے جو دوسرے معبود ہیں وہ خیر ہوں یہ کیوں نہیں ہوسکتا ان لوگوں کا چونکہ صرف جھگڑنا ہی مقصود تھا اسی لیے فرمایا ﴿ مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا﴾ کہ ان لوگوں نے جو آپ کے سامنے ابن مریم کی بات بیان کی ہے یہ محض جھگڑے کی غرض سے ہے ﴿ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ ٠٠٥٨﴾ یعنی ان کا جھگڑنا کچھ اسی مضمون کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ لوگ جھگڑالو ہیں، ان کا طریقہ یہ ہے کہ حق باتوں میں جھگڑتے رہتے ہیں۔ حضرت ابو امامہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ہدایت کے بعد جن لوگوں نے بھی گمراہی اختیار کی انہیں جھگڑے بازی دے دی گئی یعنی ان کا مزاج جھگڑے بازی کا بن گیا اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت ﴿ مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًاؕ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ ٠٠٥٨﴾ تلاوت فرمائی۔ (رواہ الترمذی)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35:۔ ” ولما ضرب ابن مریم مثلا “ تا ” من عذاب یوم الیم “ ” یصدون “ یصیحون و یضحکون (بحر، جلالین) ۔ یعنی شور مچاتے ہیں اور ہنستے ہیں۔ جب عیسیٰ ابن مریم کی مثال بیان کی جاتی ہے، تو آپ کی قوم یعنی مشرکین قریش مارے خوشی کے آپ سے باہر ہوجاتے ہیں ہنستے اور شور مچاتے ہیں۔ ان آیتوں کا ماقبل سے ربط چار طرح پر...  ہے۔ سب سے زیادہ مناسب شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) کا قول ہے، کیونکہ اس کے مطابق اس آیت کا ماقبل سے ربط واضح تر ہے۔” واسئل من ارسلنا من قبلک الخ “ سے ثابت ہوگیا کہ کسی پیغمبر کی شریعت میں غیر اللہ کی عبادت کی اجازت نہیں تھی، کیونکہ اللہ کے سوا کوئی معبود (لائق عبادت) نہیں۔ اس پر مشرکین نے اعتراض کیا کہ نصاری عیسیٰ (علیہ السلام) کی پرستش کرتے ہیں، اگر حقیقت میں وہ بھی عبادت کے لائق نہیں تھے، جیسا کہ ہمارے معبودوں کے بارے میں تم کہتے ہو تو ہم راضی ہیں کہ ہمارے معبود اور عیسیٰ (علیہ السلام) ایک ہی جگہ میں ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے شب ہے کا ازالہ فرمایا (فتح الرحمن) ۔ جواب شبہہ آگے آرہا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی عبادت کا کسی کو حکم نہیں دیا تھا، بعد میں باغیوں نے ان کی عبادت کا کسی کو حکم نہیں دیا تھا، بعد میں باغیوں نے ان کی عبادت شروع کردی۔ دوم یہ ہے کہ جب آیت ” انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم انتم لھا واردون “ (انبیاء رکوع 7) نازل ہوئی، تو عبداللہ بن الزبعری نے کہا اگر یہ صحیح ہے کہ تمام معبود غیر اللہ بھی جہنم میں جائیں گے، تو نصاری عیسیٰ (علیہ السلام) کی اور یہود عزیر (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں تو کیا وہ بھی دوزخ میں جائیں گے ؟ اس تمثیل پر مشرکین بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے ہمارے معبود اچھے ہیں یا عیسیٰ (علیہ السلام) اور اگر عیسیٰ عمبود ہونے کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے (عیاذا باللہ) تو ہمارے معبود اگر جہنم میں چلے گئے تو کوئی بات نہیں ہمیں منظور ہے ای الھتنا خیر عندک ام عیسیٰ علیہ السلام، فان کان فی النار تلتکن الھتنا معہ (بیضاوی) ۔ اس کا جواب سورة انبیاء کی محولہ بالا آیات کے متصل بعد ہی مذکور ہے کما مر ملاحظہ ہو تفسیر سورة انبیاء کی محولہ بالا آیات کے متصل بعد ہی مذکور ہے کما مر ملاحظہ ہو تفسیر سورة انبیا ص 725 حاشیہ 71 ۔ مشرکین نے یہ تمثیل حق سمجھنے اور حق و باطل میں تمیز کرنے کے لیے نہیں بیان کی، بلکہ محض جدال و مخاصمت کی غرض سے بیان کی ہے اور یہ لوگ ہیں ہی نہایت جھگڑالو۔ ” ان ھو الا عبد الخ “ عیسیٰ (علیہ السلام) ہمارے نہایت ہی عظیم المرتبت رفیع المنزلت بندے ہیں جن پر بڑے بڑے احسانات اور ان کو بغیر باپ پیدا کر کے بنی اسرائیل کے لیے ان کی ذات کو ایک اعجوبہ روزگار اور ضرب المثل بنا دیا مگر اس کے باوجود وہ معبودیت کے مستحق نہیں۔ تھے فھو مرفوع المنزلۃ علی القدر لکن لیس لہ من استحقاق المعبودیۃ من نصیب (روح ج 25 ص 93) ۔ سوم مشرکین کہتے ہیں ہم تو فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں اور ہمارے معبود فرشتے ہیں تو کیا ہمارے معبود اچھے ہیں یا عیسیٰ ؟ اتو اگر وہ معبود اور ابن اللہ ہوسکتا ہے تو ہمارے معبود بطریق اولی خدا کی بیٹیاں ہیں۔ اٰلھتنا الملائکۃ خیر ام عیسیٰ (علیہ السلام) فاذا جاز ان یعبدو یکون ابن اللہ کانت الھتنا اولی بذلک (بیضاوی) اس کا جواب دیا گیا کہ ” ول نشاء لجعلنا۔ الایۃ “ یعنی فرشتہ ہونا یا فرشتوں کے بعض آثار کا حامل ہونا تو معبود ہونے کی کوئی دلیل نہیں اگر ہم چاہیں تو تمہیں ہلاک کر کے زمین میں تمہاری جگہ فرشتے پیدا کردیں۔ ” منکم “ بدلکم (مدارک) ۔ اس صورت میں یہ تخویف دنیوی ہے یا اگر چاہیں تو تمہاری نسل سے فرشتے پیدا کردیں۔ موضح قرآن میں ” یعنی عیسیٰ میں آثار فرشتوں کے سے تھے، اس سے معبود نہیں ہوتا، اگر چاہیں تمہاری نسل سے ایسے لوگ پیدا کیریں “ لجعلنا منکم ای لخلقنا منکم ای من الانس (مظیر ج 8 ص 359) ۔ فرشتے بھی چونکہ مخلوق ہی ہیں، اس لیے معبود نہیں ہوسکتے۔ چہارم شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) فرماتے ہیں۔ مشرکین نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے کہ تم ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہو، لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر آتا ہے تو ان کو خوبی سے یاد کرتے ہو حالانکہ لوگ (انصاری) ان کی بھی پوجا کرتے ہیں۔ اس کا جواب دیا گیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے لوگوں کو اپنی عبادت کا حکم نہیں دیا وہ تو توحید ہی کی تعلیم دیتے تھے اور قابل مذمت وہ معبود ہے جو اپنی عبادت آپ کرائے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(57) اور جب ابن مریم (علیہ السلام) کے متعلق بعض معترضین نے ایک مضمون بیان کیا تب ہی آپ کی قوم کے لوگ اس مضمون پر خوشی کے مارے شور مچانے لگے۔ چونکہ قرآن میں اکثر بتوں کی برائی اور غیر اللہ کی پرستش کے مضامین بیان ہوتے تھے اس لئے دین حق کے منکر اس فکر میں رہتے تھے کہ کوئی ایسی بات نکال کر لائو جو ہمار... ے بتوں کا الزام اور ان کی برائی ہلکی ہو۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی موقعہ پر یہ بھی فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ پوجا جائے اس میں خیر نہیں یا ایک موقعہ پر سورة انبیاء کی آیت انکم وماتعبدون من دون اللہ حصب جھنم یعنی جن چیزوں کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجتے ہو وہ جہنم کا ایندھن ہیں۔ اسی قسم کے اور مضامین جن میں عمومی طور پر معبودان غیر اللہ کی مذمت ہوئی تھی اس پر عبداللہ بن زبعری یا کسی دوسرے شخص نے یہ بات کہی کہ جب آپ معبود ان غیر اللہ میں خیر نہیں پاتے اور ان کو دوزخ کا ایندھن کہتے ہیں تو اس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور عزیر (علیہ السلام) اور بہت سے فرشتے بھی سب خیر سے خالی ہوئے اور اگر ان میں خیر ہے تو پھر ہمارے اصنام ہی کا کیا قصور ہے کہ ان میں خیر نہ ہو یہ اعتراض جب کیا گیا تو دین حق کے منکر اس پر خوشی کے مارے شور مچانے لگے اور قہق ہے لگانے لگے۔ عبداللہ بن زبعری نے جو اعتراض کیا یا جو معاوضہ کیا اس کا منشا صرف یہ تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابطال شرک کا جواب دیا جائے اور توحید تو غلط بتایا جائے اور شرک کی صحت کو ثابت کیا جائے کہ جب عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کو بھی لوگ پوجتے ہیں تو بس شرک کرنا اللہ کے ساتھ صحیح ہے۔ بہرحال ! آگے کی آیتوں میں عبداللہ بن زبعری کے انہی شبہات کا جواب ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی قرآن میں ان کا ذکر آوے تو اعتراض کرتے ہیں کہ ان کو بھی خلق پوجتے ہیں۔ انہیں کیوں خوبی سے یاد کرتے ہو اور ہمارے پوجوں کو برا کہتے ہو۔ خلاصہ : یہ کہ معبود بغیر اللہ سب ہی برے ہونے چاہئیں ہمارے بتوں کو برا کہتے ہو اور مسیح (علیہ السلام) کی تعریف کرتے ہو ابن مریم کو برا کیوں نہیں کہتے۔  Show more