The Contempt of the Quraysh for the son of Maryam, and His true Status with Allah
Allah tells us how the Quraysh persisted in their disbelief and stubborn arguments:
وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلً إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ
And when the son of Maryam is quoted as an example, behold, your people cry aloud thereat.
Several others narrated that Ibn Abbas, m... ay Allah be pleased with him, Mujahid, Ikrimah, As-Suddi and Ad-Dahhak said,
"They laughed, i.e., they were astounded by that."
Qatadah said,
"They were repelled by that and they laughed."
Ibrahim An-Nakha`i said, "They turned away."
The reason for this was mentioned by Muhammad bin Ishaq in As-Sirah. He said,
"According to what I have heard, the Messenger of Allah sat down one day with Al-Walid bin Al-Mughirah in the Masjid, and An-Nadr bin Al-Harith came and sat down with them. There were also other men from the Quraysh in the gathering. The Messenger of Allah spoke, then An-Nadr bin Al-Harith came up to him and the Messenger of Allah spoke to him until he defeated him in argument. Then he recited to him and to them,
إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ
Certainly you and that which you are worshipping now besides Allah, are (but) fuel for Hell! (Surely) you will enter it. (21:98)
Then the Messenger of Allah got up and went to sit with Abdullah bin Al-Zab`ari At-Tamimi.
Al-Walid bin Al-Mughirah said to him, By Allah, An-Nadr bin Al-Harith could not match the son of Abd Al-Muttalib in argument. Muhammad claims that we and these gods that we worship are fuel for Hell.'
Abdullah bin Az-Zab`ari said,
`By Allah, if I meet with him I will defeat him in argument. Ask Muhammad whether everyone that is worshipped instead of Allah will be in Hell with those who worshipped him, for we worship the angels, and the Jews worship Uzayr, and the Christians worship the Messiah Isa bin Maryam.'
Al-Walid and those who were sitting with him were amazed at what Abdullah bin Az-Zab`ari said, and they thought that he had come up with a good point. He said this to the Messenger of Allah, who said:
كُلُّ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُعْبَدَ مِنْ دُونِ اللهِ فَهُوَ مَعَ مَنْ عَبَدَهُ فَإِنَّهُمْ إِنَّمَا يَعْبُدُونَ الشَّيْطَانَ وَمَنْ أَمَرَهُمْ بِعِبَادَتِه
"Everyone who likes to worship something other than Allah will be with the one whom he worshipped, for indeed they are worshipping the Shaytan and whomever told them to worship that person."
Then Allah revealed the words:
إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنَى أُوْلَـيِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ
Verily, those for whom the good has preceded from Us, they will be removed far therefrom (Hell). (21:101),
meaning that Isa , Uzayr and rabbis and monks who were also worshipped, who spent their lives in devotion towards Allah. The misguided people who came after them took them as lords instead of Allah.
Concerning the notion of worshipping the angels as daughters of Allah, the following words were revealed:
وَقَالُواْ اتَّخَذَ الرَّحْمَـنُ وَلَداً سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ
And they say: "The Most Gracious has begotten a son (or children)."
Glory to Him! They are but honored servants. (21:26)
Concerning Isa bin Maryam, the fact that he is worshipped instead of Allah, and to the amazement of Al-Walid and the others who were present at the argument, the following was revealed:
وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلً إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ
And when the son of Maryam is quoted as an example, behold, your people cry aloud thereat.
meaning, they take this argument as a basis for rejecting your message.
وَقَالُوا أَالِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلاَّ جَدَلاً
بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ
Show more
قیامت کے قریب نزول عیسیٰ علیہ السلام
( یصدون ) کے معنی حضرت ابن عباس مجاہد عکرمہ اور ضحاک نے کئے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے یعنی اس سے انہیں تعجب معلوم ہوا ۔ قتادہ فرماتے ہیں گھبرا کر بول پڑے ۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے منہ پھیرنے لگے اس کی وجہ جو امام محمد بن اسحاق نے اپنی سیرت میں بیان کی ہے وہ یہ ہے... کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولید بن مغیرہ وغیرہ قریشیوں کے پاس تشریف فرما تھے جو نضر بن حارث آ گیا اور آپ سے کچھ باتیں کرنے لگا جس میں وہ لاجواب ہو گیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98 ) 21- الأنبياء:98 ) ، آیتوں تک پڑھ کر سنائیں یعنی تم اور تمہارے معبود سب جہنم میں جھونک دئیے جاؤ گے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے گئے تھوڑی ہی دیر میں عبداللہ بن زہیری تمیمی آیا تو ولید بن مغیرہ نے اس سے کہا نضر بن حارث تو ابن عبدالمطلب سے ہار گیا اور بالآخر ابن عبدالمطلب ہمیں اور ہمارے معبودوں کو جہنم کا ایندھن کہتے ہوئے چلے گئے ۔ اس نے کہا اگر میں ہوتا تو خود انہیں لاجواب کر دیتا جاؤ ذرا ان سے پوچھو تو کہ جب ہم اور ہمارے سارے معبود دوزخی ہیں تو لازم آیا کہ سارے فرشتے اور حضرت عزیر اور حضرت مسیح بھی جہنم میں جائیں گے کیونکہ ہم فرشتوں کو پوجتے ہیں یہود حضرت عزیر کی پرستش کرتے ہیں نصرانی حضرت عیسیٰ کی عبادت کرتے ہیں ۔ اس پر مجلس کے کفار بہت خوش ہوئے اور کہا ہاں یہ جواب بہت ٹھیک ہے ۔ لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا ہر وہ شخص جو غیر اللہ کی عبادت کرے اور ہر وہ شخص جو اپنی عبادت اپنی خوشی سے کرائے یہ دونوں عابد و معبود جہنمی ہیں ۔ فرشتوں یا نبیوں نے نہ اپنی عبادت کا حکم دیا نہ وہ اس سے خوش ۔ ان کے نام سے دراصل یہ شیطان کی عبادت کرتے ہیں وہی انہیں شرک کا حکم دیتا ہے ۔ اور یہ بجا لاتے ہیں اس پر آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ ١٠١ۙ ) 21- الأنبياء:101 ) ، نازل ہوئی یعنی حضرت عیسیٰ ، حضرت عزیر ، اور ان کے علاوہ جن احبار و رہبان کی پرستش یہ لوگ کرتے ہیں اور خود وہ اللہ کی اطاعت پر تھے شرک سے بیزار اور اس سے روکنے والے تھے اور ان کے بعد گمراہوں جاہلوں نے انہیں معبود بنا لیا تو وہ محض بےقصور ہیں اور فرشتوں کو جو مشرکین اللہ کی بیٹیاں مان کر پوجتے تھے ان کی تردید میں آیت ( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا 88ۭ ) 19-مريم:88 ) ، سے کئی آیتوں تک نازل ہوئیں اور ان کے اس باطل عقیدے کی پوری تردید کر دی اور حضرت عیسیٰ کے بارے میں اس نے جو جواب دیا تھا جس پر مشرکین خوش ہوئے تھے یہ آیتیں اتریں کہ اس قول کو سنتے ہی کہ معبودان باطل بھی اپنے عابدوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے انہوں نے جھٹ سے حضرت عیسیٰ کی ذات گرامی کو پیش کر دیا اور یہ سنتے ہی مارے خوشی کے آپ کی قوم کے مشرک اچھل پڑے اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے لگے کہ ہم نے دبا لیا ۔ ان سے کہو کہ حضرت عیسیٰ نے کسی سے اپنی یا کسی اور کی پرستش نہیں کرائی وہ تو خود برابر ہماری غلامی میں لگے رہے اور ہم نے بھی انہیں اپنی بہترین نعمتیں عطا فرمائیں ۔ ان کے ہاتھوں جو معجزات دنیا کو دکھائے وہ قیامت کی دلیل تھے حضرت ابن عباس سے ابن جریر میں ہے کہ مشرکین نے اپنے معبودوں کا جہنمی ہونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سن کر کہا کہ پھر آپ ابن مریم کی نسبت کیا کہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اب کوئی جواب ان کے پاس نہ رہا تو کہنے لگے واللہ یہ تو چاہتے ہیں کہ جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو اللہ مان لیا ہے ہم بھی انہیں رب مان لیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو صرف بکواس ہے کھسیانے ہو کر بےتکی باتیں کرنے لگے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ قرآن میں ایک آیت ہے مجھ سے کسی نے اس کی تفسیر نہیں پوچھی ۔ میں نہیں جانتا کہ کیا ہر ایک اسے جانتا ہے یا نہ جان کر پھر بھی جاننے کی کوشش نہیں کرتے ؟ پھر اور باتیں بیان فرماتے رہے یہاں تک کہ مجلس ختم ہوئی اور آپ چلے گئے ۔ اب ہمیں بڑا افسوس ہونے لگا کہ وہ آیت تو پھر بھی رہ گئی اور ہم میں سے کسی نے دریافت ہی نہ کیا ۔ اس پر ابن عقیل انصاری کے مولیٰ ابو یحییٰ نے کہا کہ اچھا کل صبح جب تشریف لائیں گے تو میں پوچھ لوں گا ۔ دوسرے دن جو آئے تو میں نے ان کی کل کی بات دہرائی اور ان سے دریافت کیا کہ وہ کونسی آیت ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں سنو ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ قریش سے فرمایا کوئی ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ کے سوا کی جاتی ہو اور اس میں خیر ہو ۔ اس پر قریش نے کہا کیا عیسائی حضرت عیسیٰ کی عبادت نہیں کرتے ؟ اور کیا آپ حضرت عیسیٰ کو اللہ کا نبی اور اس کا برگذیدہ نیک بندہ نہیں مانتے ؟ پھر اس کا کیا مطلب ہوا کہ اللہ کے سوا جس کی عبادت کی جاتی ہے وہ خیر سے خالی ہے ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ کہ جب عیسیٰ بن مریم کا ذکر آیا تو لوگ ہنسنے لگے ۔ وہ قیامت کا علم ہیں یعنی عیسیٰ بن مریم کا قیامت کے دن سے پہلے نکلنا ابن ابی حاتم میں بھی یہ روایت پچھلے جملے کے علاوہ ہے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ان کے اس قول کا کہ کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ ۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے معبود محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہترے ہیں یہ تو اپنے آپ کو پجوانا چاہتے ہیں ، ابن مسعود کی قرأت میں ( ام ھذا ) ہے ۔ اللہ فرماتا ہے یہ ان کا مناظرہ نہیں بلکہ مجادلہ اور مکابرہ ہے یعنی بےدلیل جھگڑا اور بےوجہ حجت بازی ہے خود یہ جانتے ہیں کہ نہ یہ مطلب ہے نہ ہمارا یہ اعتراض اس پر وارد ہوتا ہے ۔ اس لئے اولاً تو آیت میں لفظ ( ما ) ہے جو غیر ذوی العقول کے لئے ہے دوسرے یہ کہ آیت میں خطاب کفار قریش سے ہے جو اصنام و انداد یعنی بتوں اور پتھروں کو پوجتے تھے وہ مسیح کے پجاری نہ تھے جو یہ اعتراض برمحل مانا جائے پس یہ صرف جدل ہے یعنی وہ بات کہتے ہیں جس کے غیر صحیح ہونے کو ان کے اپنے دل کو بھی یقین ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک ہلاک نہیں ہوتی جب تک بےدلیل حجت بازی اس میں نہ آجائے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ابن ابی حاتم میں اس حدیث کے شروع میں یہ بھی ہے کہ ہر امت کی گمراہی کی پہلی بات اپنے نبی کے بعد تقدیر کا انکار کرنا ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے مجمع میں آئے اس وقت وہ قرآن کی آیتوں میں بحث کر رہے تھے ۔ آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا اس طرح اللہ کی کتاب کی آیتوں کو ایک دوسری کے ساتھ ٹکراؤ نہیں یاد رکھو جھگڑے کی اسی عادت نے اگلے لوگوں کو گمراہ کر دیا ۔ پھر آپ نے آیت ( مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا ۭ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ 58 ) 43- الزخرف:58 ) کی تلاوت فرمائی پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ اللہ عزوجل کے بندوں میں سے ایک بندے تھے ۔ جن پر نبوت و رسالت کا انعام باری تعالیٰ ہوا تھا اور انہیں اللہ کی قدرت کی نشانی بنا کر بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا تھا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ جو چاہے اس پر قادر ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو تمہارے جانشین بنا کر فرشتوں کو اس زمین میں آباد کر دیتے ۔ یا یہ کہ جس طرح تم ایک دوسرے کے جانشین ہوتے ہو یہی بات ان میں کر دیتے مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں یعنی بجائے تمہارے زمین کی آبادی ان سے ہوتی ہے اس کے بعد جو فرمایا ہے کہ وہ قیامت کی نشانی ہے اس کا مطلب جو ابن اسحاق نے بیان کیا ہے وہ کچھ ٹھیک نہیں ۔ اور اس سے بھی زیادہ دور کی بات یہ ہے کہ بقول قتادہ حضرت حسن بصری اور حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہہ کی ضمیر کا مرجع عائد ہے حضرت عیسیٰ پر ۔ یعنی حضرت عیسیٰ قیامت کی ایک نشانی ہیں ۔ اس لئے کہ اوپر سے ہی آپ کا بیان چلا آرہا ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ مراد یہاں حضرت عیسیٰ کا قیامت سے پہلے کا نازل ہونا ہے جیسے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا آیت ( وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا ١٥٩ۚ ) 4- النسآء:159 ) یعنی ان کی موت سے پہلے ایک ایک اہل کتاب ان پر ایمان لائے گا ۔ یعنی حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے قیامت کے دن یہ ان پر گواہ ہوں گے ۔ اس مطلب کی پوری وضاحت اسی آیت کی دوسری قرأت سے ہوتی ہے جس میں ہے ( وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُوْنِ ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ 61 ) 43- الزخرف:61 ) یعنی جناب روح اللہ قیامت کے قائم ہونے کا نشان اور علامت ہیں ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ نشان ہیں قیامت کے لئے حضرت عیسیٰ بن مریم کا قیامت سے پہلے آنا ۔ اسی طرح روایت کی گئی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ سے اور حضرت عباس سے اور یہی مروی ہے ابو لعالیہ ، ابو مالک ، عکرمہ ، حسن ، قتادہ ضحاک وغیرہ سے رحم اللہ تعالیٰ ۔ اور متواتر احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے حضرت عیسیٰ امام عادل اور حاکم باانصاف ہو کر نازل ہوں گے ۔ پس تم قیامت کا آنا یقینی جانو اس میں شک شبہ نہ کرو اور جو خبریں تمہیں دے رہا ہوں اس میں میری تابعداری کرو یہی صراط مستقیم ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان جو تمہارا کھلا دشمن ہے تمہیں صحیح راہ سے اور میری واجب اتباع سے روک دے حضرت عیسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ میں حکمت یعنی نبوت لے کر تمہارے پاس آیا ہوں اور دینی امور میں جو اختلافات تم نے ڈال رکھے ہیں ۔ میں اس میں جو حق ہے اسے ظاہر کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔ ابن جریر یہی فرماتے ہیں اور یہی قول بہتر اور پختہ ہے پھر امام صاحب نے ان لوگوں کے قول کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ بعض کا لفظ یہاں پر کل کے معنی میں ہے اور اس کی دلیل میں بعید شاعر کا ایک شعر پیش کرتے ہیں ۔ لیکن وہاں بھی بعض سے مراد قائل کا خود اپنا نفس ہے نہ کہ سب نفس ۔ امام صاحب نے شعر کا جو مطلب بیان کیا ہے یہ بھی ممکن ہے ۔ پھر فرمایا جو میں تمہیں حکم دیتا ہوں اس میں اللہ کا لحاظ رکھو اس سے ڈرتے رہو اور میری اطاعت گذاری کرو جو لایا ہوں اسے مانو یقین مانو کہ تم سب اور خود میں اس کے غلام ہیں اس کے محتاج ہیں اس کے در کے فقیر ہیں اس کی عبادت ہم سب پر فرض ہے وہ واحد لاشریک ہے ۔ بس یہی توحید کی راہ راہ مستقیم ہے اب لوگ آپس میں متفرق ہوگئے بعض تو کلمۃ اللہ کو اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہتے تھے اور یہی حق والی جماعت تھی اور بعض نے ان کی نسبت دعویٰ کیا کہ وہ اللہ کے فرزند ہیں ۔ اور بعض نے کہا آپ ہی اللہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں دعوں سے پاک ہے اور بلند و برتر ہے ۔ اسی لئے ارشاد فرماتا ہے کہ ان ظالموں کے لئے خرابی ہے قیامت والے دن انہیں المناک عذاب اور دردناک سزائیں ہوں گی ۔ Show more