Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 59

سورة الزخرف

اِنۡ ہُوَ اِلَّا عَبۡدٌ اَنۡعَمۡنَا عَلَیۡہِ وَ جَعَلۡنٰہُ مَثَلًا لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ؕ۵۹﴾

Jesus was not but a servant upon whom We bestowed favor, and We made him an example for the Children of Israel.

عیسٰی ( علیہ السلام ) بھی صرف بندہ ہی ہے جس پر ہم نے احسان کیا اور اسے بنی اسرائیل کے لئے نشان قدرت بنایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَوْ نَشَاء لَجَعَلْنَا مِنكُم مَّلَيِكَةً فِي الاَْرْضِ يَخْلُفُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 ایک اس اعتبار سے کہ بغیر باپ کے ان کی ولادت ہوئی، دوسرے، خود انہیں جو معجزات دیئے گئے، احیائے موتی وغیرہ، اس لحاظ سے بھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٨] مشرکوں کو ان کی اس مسکت دلیل کا جواب :۔ اس آیت میں مشرکوں کے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) معبود نہیں تھے نہ انہوں نے کبھی اپنے معبود ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ بلکہ وہ تو اللہ کے انتہائی مخلص بندے تھے۔ ہم نے ان پر کئی قسم کے انعامات بھی کئے تھے۔ ان کی بن باپ پیدائش اللہ کی قدرت کاملہ کا ایک نمونہ تھی۔ پھر انہیں ایسے معجزات بھی دیئے تھے جو نہ پہلے کسی نبی کو دیئے گئے تھے اور نہ بعد میں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ مقام عبودیت سے بلند ہو کر معبود کے مقام پر جاپہنچے تھے۔ بلکہ وہ اللہ کے بندے ہی رہے اور تادم زیست وہ اپنے آپ کو اللہ کا بندہ ہی کہتے رہے۔ اور بنی اسرائیل کی اتباع کے لیے ایک نمونہ تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ان ھو الا عبد …: یعنی مسیح (علیہ السلام) کا اکرام ان کے معبود ہونے کی وجہ سے نہیں، کیونکہ نہ وہ رب تھے نہ رب کے بیٹے، بلکہ صرف عبد بمعنی اللہ کا غلام اور اس کی بندگی کرنے والا ہونے کی وجہ سے ہے۔ یہ قصر قلب ہے یعنی مسیح وہ کچھ نہیں جو نصاریٰ یا دوسرے مشرک کہہ رہے ہیں، بلکہ وہ صرف بندہ ہے جس پر ہم نے انعام کیا ہے۔ (٢) انعمنا علیہ : ان انعامات میں سے چند انعامات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة مائدہ کی آیات (١١٠ تا ١١٥) میں اور سورة آل عمران کی آیات (٤٥، ٤٦) میں اور دوسری آیات میں فرمایا ہے۔ (٣) وجعلنہ مثلاً بنی اسرآئیل : بنی اسرائیل کے لئے مثال بنانے سے مراد ان کے لئے نمونہ قدرت بنانا ہے کہ انہیں باپ کے بغیر پیدا کیا اور انھیں ایسے معجزات عطا فرمائے جو ان کے زمانے میں کسی کو نہیں ملے، جنہیں دیکھ کر لوگوں کو ان کی نبوت کا یقین ہوتا تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ ہُوَاِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَيْہِ وَجَعَلْنٰہُ مَثَلًا لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝ ٥٩ ۭ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

عیسیٰ بن مریم تو محض ہمارے ایک بندے ہیں ہم نے ان پر رسالت کے ذریعے سے فضل کیا ہے وہ نعوذ باللہ ان کے بتوں کی طرح نہیں ہیں اور بنی اسرائیل کے لیے ہم نے ان کو ایک نمونہ بنایا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ { اِنْ ہُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْہِ وَجَعَلْنٰہُ مَثَلًا لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ } ” وہ تو بس ہمارا ایک بندہ تھا جس پر ہم نے خاص انعام فرمایا اور ہم نے اس کو ایک نشانی بنا دیا بنی اسرائیل کے لیے ۔ “ بنی اسرائیل کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بہت سی نشانیاں تھیں۔ آپ ( علیہ السلام) بن باپ کے پیدا ہوئے اور اپنی پیدائش کے فوراً بعد پنگھوڑے میں ہی آپ ( علیہ السلام) نے باتیں کرنا شروع کردیں۔ اس کے علاوہ آپ کو خلق ِحیات اور احیائِ موتی ٰ سمیت اور بھی بہت سے معجزات عطا ہوئے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53 "Making an example of Our power" implies causing the Prophet Jesus to be born without a father, and then granting him such miracles as had not been granted to anyone before him nor to anyone after him. He would make a bird of clay and then breathe into it and it would become a living bird; he would give sight to those born blind; he would cure the lepers; so much so that he would raise the dead back to life. What Allah means to say is: "It is wrong to worship him as son of God and regard him as above servitude only because of his extraordinary birth and the great miracles granted to him. He was no more than a mere servant, whom We had blessed and made an example of Our power." (For details, see Al`Imran: 42-49, 59; An-Nisa: 156; Al-Ma`idah: 17, 110; Maryam: 17-35; AIAnbiya`: 91, Al-Mu'minun: SO).

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :53 قدرت کا نمونہ بنانے سے مراد حضرت عیسیٰ کو بے باپ کے پیدا کرنا ، اور پھر ان کو وہ معجزے عطا کرنا ہے جو نہ ان سے پہلے کسی کو دیے گئے تھے نہ ان کے بعد ۔ وہ مٹی کا پرندہ بناتے اور اس میں پھونک مارتے تو وہ جیتا جاگتا پرندہ بن جاتا ۔ وہ مادر زاد اندھے کو بینا کر دیتے ۔ وہ کوڑھ کے مریض کو تندرست کر دیتے ۔ حتیٰ کہ وہ مردے جِلا دیتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ محض اس غیر معمولی پیدائش اور ان عظیم معجزات کی وجہ سے ان کو بندگی سے بالا تر سمجھنا اور خدا کا بیٹا قرار دے کر ان کی عبادت کرنا غلط ہے ۔ ان کی حیثیت ایک بندے سے زیادہ کچھ نہ تھی جسے ہم نے اپنے انعامات سے نواز کر اپنی قدرت کا نمونہ بنا دیا تھا ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، آل عمران ، حواشی٤۲تا ٤٤ ، النساء ، ۱۹ ، المائدہ ، حواشی ٤۰ ۔ ٤٦ ۔ ۱۲۷ ، جلد سوم ، مریم ، حواشی ۱۵ تا ۲۲ ، الانبیاء ، حواشی ، ۸۸ تا ۹۰ ، المومنون ، حاشیہ ٤۳ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:59) ان ھو : ان نافیہ ھو ضمیر واحد مذکر غائب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے ان ھو الا عبد یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بیٹے نہیں تھے بلکہ اس کے بندے تھے۔ انعمنا علیہ : ہم نے اس کو نعمتیں عطا کیں یعنی نبوت اور قرب کی نعمت سے ان کو نوازا تھا یا جیسا کہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ واذ قال اللّٰۃ یعیسی ابن مریم اذکر نعمتی علیک وعلی والدتک اذایدتک بروح القدس تکلم الناس فی المھد وکھلا واذ علمتک الکتاب والحکمۃ والتورتہ والانجیل واذ تخلق من الطین کھیئۃ الطیر باذنی فتنفخ فیہا فتکون طیرا باذنی وتبری الاکمہ والابرص باذنی واذ کففت بنی اسرائیل عنک اذجئتھم بالبینت (5:110) (وہ وقت یاد میں رکھو) جب خدا (عیسیٰ سے) فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم ۔ میرے ان احسانوں کو یاد کرو۔ جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کئے جب میں نے روح القدس (جبرائیل) سے تمہاری مدد کی تم جھولے میں اور جو ان ہوکر (ایک ہی نسق پر) لوگوں سے گفتگو کرتے تھے اور جب میں نے تم کو کتاب اور دانائی اور توراۃ و انجیل سکھائی اور جب تم میرے حکم سے مٹی کا جانور بنا کر اس میں پھونک مار دیتے تھے تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتا تھا۔ اور مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کردیتے تھے۔ اور مردے کو (زندہ کرکے قبر سے) میرے حکم سے نکال کھڑا کرتے تھے اور جب میں نے بنی اسرائیل (کے ہاتھوں) کو روک دیا۔ جب تم ان کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے۔ وغیرہ ذلک من الایات فی القرآن المجید۔ وجعلنہ مثلا : ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں) ۔ مثلا منصوب بوجہ مفعول ہے۔ یعنی ہم نے ان کو عجیب انسان بنایا کہ دوسری کہاوتوں کی طرف ان کا قصہ بھی عجیب ہوا۔ اور ضرب المثل کے طور پر بیان کیا جانے لگا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 قدرت کا نمونہ بنانے سے مراد یہ ہے کہ انہیں بن باپ پیدا کیا اور انہیں ایسے معجزے دیئے جو ان کے زمانہ میں کسی اور کو نہیں ملے۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ ﴾ (عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) محض ایک ایسے بندے ہیں جن پر ہم نے انعام کیا) یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) پر ہم نے انعام کیا انہیں نبوت سے سرفراز کیا نبی تو اس لیے آتے تھے کہ وہ اللہ کی توحید کی دعوت دیں نہ یہ کہ وہ اپنی عبادت یا کسی بھی غیر اللہ کی طرف بلائیں جن لوگوں نے ان کی عبادت کی وہ ان کی حماقت ہے ان کے اعمال کی سزا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کیوں ملنے لگی ؟ جنہوں نے ان کی عبادت کی وہی دوزخ میں جانے والے ہیں اور جن بتوں کی عبادت کی گئی وہ بھی دوزخ میں داخل ہوں گے عیسیٰ (علیہ السلام) دیگر انبیائے کرام کی طرح اللہ کے نزدیک منعم و مکرم ہیں۔ ﴿ وَ جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَؕ٠٠٥٩﴾ (اور ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کے لیے ایک نمونہ بنا دیا تھا) انہیں بغیر باپ کے پیدا کیا جس سے اللہ تعالیٰ شانہٗ کی قدرت کاملہ کا لوگوں کو علم ہوگیا کہ وہ بغیر باپ کے بھی پیدا فرمانے پر قدرت رکھتا ہے۔ قال القرطبی ای ایة وعبرةً یستدل بھا علی قدرة اللّٰہ تعالیٰ فان عیسیٰ کان من غیراب

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(59) وہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) محض ایک ایسا بندہ ہے جس پر ہم نے اپنا انعام اور فضل کیا تھا اور بنی اسرائیل کے لئے اس کو ایک نمونہ قدرت بنایا تھا۔ اورر جو بندہ ہمارا منعم علیہ ہو ظاہر ہے کہ وہ خیر ہونے سے خالی نہ ہوگا۔ بخلاف اصنام اور شیاطین کے کہ ان میں یہ خیرت نہیں اور خاص طور پر شیاطین میں تو ایک اور بھی مانع خیرت موجود ہے اور وہ ان کا کفر ہے پس ابن مریم (علیہ السلام) چونکہ اللہ تعالیٰ کے منعم علیہ ہیں اس لئے ان کے خیر ہونے پر ان کا معبود من غیر اللہ ہونا موثر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابن مریم (علیہ السلام) میں اور دوسرے اصنام اور شیاطین میں فرق ہے اور آپ کی قوم کا خوش ہوکر غل مچانا اور یہ سمجھنا کہ ہم نے محمد کو لاجواب کردیا محض جہالت اور ناسمجھی ہے اور یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابن مریم یا حضرت عزیر یا جلیل القدر فرشتے ان سب میں خیر ہے اور دوسرے اصنام اور شیاطین وغیرہ میں خیر نہیں۔ باقی انکم وماتعدون۔ پر جو اعتراض تھا اس کا جواب سورة انبیاء میں گزر چکا ہے۔ ہماری اس مختصر تفصیل کے بعد ہم کو امید ہے کہ عبداللہ ابن زبعری اور اس کے ساتھیوں کے اعتراض اور اس کا جواب سمجھ میں آگیا ہوگا بنی اسرائیل کے نمونہ قدرت کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء بنی اسرائیل کے لئے اور بعد میں تمام امتوں کے لئے ان کی ذات گرامی ایک نمونہ قدرت تھی اور ہم تو اگر چاہیں تو اس سے بھی زیادہ اپنی قدرت کے کرشموں کا اظہار کرسکتے ہیں وہ یہ کہ۔