Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 62

سورة الزخرف

وَ لَا یَصُدَّنَّکُمُ الشَّیۡطٰنُ ۚ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ﴿۶۲﴾

And never let Satan avert you. Indeed, he is to you a clear enemy.

اور شیطان تمہیں روک نہ دے یقیناً وہ تمہارا صریح دشمن ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلاَ يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطَانُ ... This is the straight path. And let not Shaytan hinder you. means, from following the truth. ... إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] یعنی جو شخص بھی قیامت کے آنے میں شک کرتا ہے وہ سمجھ لے کہ وہ شیطان کے ہتھے چڑھ چکا ہے۔ اور یہ بھی سمجھ لے کہ شیطان کی سب سے بڑی دشمنی اور سب سے بڑی گمراہی یہی ہے کہ کوئی شخص قیامت کے بارے میں شک کرنے لگ جائے۔ اور شیطان سے بچنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ انسان اللہ کی دی ہوئی ہدایات پر ناک کی سیدھ چلتا جائے۔ ادھر ادھر بالکل نہ مڑے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ولا یصدنکم الشیطن…: یعنی دیکھنا شیطان اپنے ہتھکنڈوں کے ساتھ تمہیں قیامت پر ایمان سے روک نہ دے، کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اس نے کبھی اپنی عداوت کو چھپایا نہیں، بلکہ ڈنکے کی چوٹ آدم (علیہ السلام) اور اس کی اولاد کو گمراہ کرتے رہنے کا اعلان کیا، اس لئے تم بھی اسے دشمن سمجھو اور اس سے خبر دار رہو۔ (دیکھیے فاطر : ٦۔ کہف : ٥٠) معلوم ہوا جو شخص قیامت کے بارے میں شک کرتا ہے وہ شیطان کے ہتھکے چڑھ چکا ہے۔ شیطان کی بہت بڑی دشمنی اور گمراہ کرنا یہ ہے کہ وہ کسی شخص کو قیامت پر یقین سے محروم کر دے۔ شیطان سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات پر سیدھا چلتا جائے، ادھر ادھر بالکل توجہ نہ دے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف پہلی وحی میں اللہ تعالیٰ نے انھیں قیامت کے آنے سے آگاہ کرنے کے ساتھ ہی تاکید فرمایء کہ دیکھنا، وہ لوگ جو اس پر ایمان نہیں رکھتے تمہیں اس پر ایمان سے روک نہ دیں، ورنہ انجام ہلاکت ہوگا۔ دیکھیے سورة طہ (١٥، ١٦)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ۝ ٠ ۚ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝ ٦٢ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ مبینبَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور تمہیں دین اسلام اور قیام قیامت کے یقین سے شیطان روکنے نہ پائے وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ { وَلَا یَصُدَّنَّکُمُ الشَّیْطٰنُج اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ} ” اور (دیکھو) شیطان تمہیں روک نہ دے ‘ بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ “ یعنی ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں اس صراط مستقیم کی پیروی سے روک دے جس کی طرف میں بلا رہا ہوں۔ یہ مت بھولو کہ شیطان اس صراط مستقیم پر گامزن ہونے والوں کا کھلا دشمن ہے اور انہیں گمراہ کرنے کے لیے ہر طرح کے حربے آزماتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

56 " ...... hinder you from this" : hinder you from believing in Resurrection.

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :56 یعنی قیامت پر ایمان لانے سے روک دے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٢۔ ٦٧۔ اوپر عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمین پر آنے کو قیامت کی نشانی فرما کر یہ فرمایا تھا کہ قیامت ایک دن ضرور آنے والی ہے ان آیتوں میں فرمایا آدم (علیہ السلام) کے قصہ سے یہ تو تمام بنی آدم کو معلوم ہوچکا ہے کہ شیطان بنی آدم کا قدیمی کھلا کھلا دشمن ہے وہ اللہ تعالیٰ کے رو برو قسم کھاچکا ہے کہ جہاں تک اس سے ہو سکے گا وہ ہر طرح بنی آدم کو نیک راستہ سے روکے گا۔ مسند امام ٢ ؎ احمد اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے ابو سعید (رض) خدری کی معتبر روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے روبرو شیطان بنی آدم کو ہر طرح سے بہکانے اور نیک راستہ سے روکنے کی قسم کھاچکا ہے۔ یہ حدیث گویا اس بات کی تفسیر ہے کہ شیطان بنی آدم کا ایسا کھلا دشمن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے روبرو قسم کھا کر وہ اس دشمنی کا اقرار کرچکا ہے اب بنی آدم میں سے جو شخص اپنے ایسے بڑے دشمن کو دشمن نہ سمجھے اور اس دشمن کے کہنے میں آجائے وہ بڑا نادان ہے اسی واسطے فرمایا ہر شخص کو خوب ہوشیار رہنا چاہئے کہ شیطان اسکو نیک راستہ سے نہ روکے۔ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں یونانی حکیموں کا بڑا زور تھا اس واسطے اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو مردہ کے زندہ کرنے کا اور مادر زاد اندھے کے اور کوڑھی کے اچھے کرنے کا معجزہ دیا جس سے اس وقت کے یونانی حکیم حیران ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ان ہی معجزات کو نشانیاں فرمایا۔ تفسیر سدی میں جو سلف کے قول ہیں ان کے موافق یہاں حکمت کے معنی نبوت ٣ ؎ کے ہیں۔ تورات کے بعض احکام میں یہود نے جو اختلاف ڈال رکھا تھا عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس اختلاف کو رفع کردیا تھا مثلاً ہفتہ کے دن کی تعظیم میں جو یہود کا اختلاف تھا عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو رفع کرکے دن کی بہت سی تعظیم باتوں کو کم کردیا۔ چناچہ انجیل یوحنا کے پانچویں باب میں لکھا ہے کہ اس اختلاف کے رفع کردینے پر یہود عیسیٰ (علیہ السلام) کے دشمن ہوگئے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہود کے بہت سے اختلاف جو رفع کئے ان آیتوں میں اس کا ذکر ہے اب آگے عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی جو نصتحن کی ہے اس کا ذکر ہے اور یہ ذکر ہے کہ بنی اسرائیل میں سے یہود تو عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور انجیل کے بالکل منکر ہوگئے اور نصاریٰ نے ایک دا کے کئی خدا ٹھہرا دیئے اور ایک انجیل کی کئی انجیلیں بنا دیں پھر فرمایا ایسے لوگوں کو قیامت کے دن کا انتظار کرنا چاہئے کہ اس دن یہ لوگ اپنے اعمال کا خمیازہ بھگت لیں گے قیامت کے انتظار کا یہ مطلب ہے کہ قیامت سے پہلے جو لوگ مرجائیں گے ان کی قیامت تو مرنے کے ساتھ ہی گویا قائم ہوجائے گی کیونکہ مرنے کے ساتھ ہی جنت کے قابل شخص کو جنت کا اور دوزخ کے قابل شخص کو دوزخ کا ٹھکانہ دکھا کر فرشتے یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس ٹھکانہ میں رہنے کے لئے تم کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ چناچہ مسند ١ ؎ امام احمد کے حوالہ سے حضرت عائشہ کی صحیح حدیث اس مضمون کی اوپر گزر چکی ہے۔ علاوہ ان کے آخری زمانہ میں وہ لوگ ہوں گے جو صور کی آواز سن کر مرجائیں گے جن کا ذکر صحیح ٢ ؎ مسلم کی عبد اللہ بن عمر کی روایت سے ایک جگہ گزر چکا ہے غرض موت کا وقت یا صور کا وقت کسی کو معلوم نہیں اس واسطے فرمایا کہ قیامت نے خبری میں اچانک آجائے گی اب آگے قیامت کے دن کی نفسانفسی کا ذکر فرما کر کہ اس دن خدا سے ڈرنے والی قوم کے سوا اور سب قوموں کی آقس کی دوستی دشمنی سے بدل جائے گی اب دنیا میں تو بہکنے والے اور بہکانے والے آپس میں دوست بنے ہوئے ہیں قیامت کے دن جس طرح یہ ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ اس کا ذکر سورة ابراہیم سورة صبا اور سورة حم السجدہ میں گزر چکا ہے صحیح بخاری ٣ ؎ و مسلم میں ابو سعید (رض) خدری کی ایک بہت بڑی حدیث شفاعت کے باب میں ہے جس میں اللہ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز روزہ کے ساتھی مسلمان دوست اپنے گناہ گار دوستوں کو بڑی گہری شفاعت کے بعد عذاب دوزخ سے نجات دلوائیں گے جن سورتوں کی آیتوں کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے ان آیتوں اور ابو سعید (رض) خدری کی اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ قیامت کے دن خدا سے ڈرنے والے لوگوں کے سوا اور سب لوگوں کی دوستی دشمنی سے بدل جائے گی۔ (٢ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف باب الاستغفار والتوبۃ الفصل الثانی ص ٢٠٤۔ ) (١ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا صفحہ گزشتہ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب ذکر الدجال ص ٤٠٣ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح باب اثبات رویۃ المومنین بھم الخ ص ١٠٣ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:62) لایصدنکم : فعل نہی بتاکید نون ثقیلہ صیغہ واحد مذکر غائب۔ صد باب نصر کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر تم کو نہ روک دے عدو مبین : موصوف و صفت، کھلا ہوا دشمن۔ صریح و چٹاننگا دشمن۔ مبین ابانۃ سے باب افعال مصدر۔ اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر : ب ی ن مادہ۔ مادہ ب ی ن سے باب افعال ابانۃ باب تفعیل تبیین باب تفعل تبین اور باب استفعال استبانۃ لازم بھی آتے ہیں اور متعدی بھی۔ ظاہر ہونا ظاہر کرنا اس لئے بین کا معنی ظاہر بھی ہے اور ظاہر کرنے والا بھی ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ وَ لَا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ ١ۚ﴾ (اور تمہیں ہرگز شیطان صراط مستقیم سے نہ روک دے) ﴿ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ٠٠٦٢﴾ (بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے۔ اِتَّبِعُوْن سے پہلے لفظ قل مقدر ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(62) اور شیطان کو اس سیدھی راہ سے روک نہ دے کیونکہ وہ تمہارا دشمن ہے۔ یعنی جو باتیں توحید کی بیان ہوئیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا منعم علیہ ہونا مذکور ہوا اس سے شیطان تم کو روک نہ دے آگے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جو کچھ قوم سے فرمایا اور بنی اسرائیل کو جو تلقین فرمائی اس کا ذکر ہے، چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔