Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 68

سورة الزخرف

یٰعِبَادِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ تَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚ۶۸﴾

[To whom Allah will say], "O My servants, no fear will there be concerning you this Day, nor will you grieve,

میرے بندو! آج تم پر کوئی خوف ( و ہراس ) ہے اور نہ تم ( بد دل اور ) غمزدہ ہوگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

My servants! No fear shall be on you this Day, nor shall you grieve. Then He will give them the glad tidings: الَّذِينَ امَنُوا بِأيَاتِنَا وَكَانُوا مُسْلِمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

68۔ 2 یہ قیامت والے دن ان متقین کو کہا جائے گا جو دنیا میں صرف اللہ کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے۔ جیسا کہ حدیث میں بھی اس کی فضیلت ہے۔ بلکہ اللہ کے لئے بغض اور اللہ کے لئے محبت کو کمال ایمان کی بنیاد بتلایا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٦] یعنی وہ لوگ جنہوں نے تقویٰ کی بنا پر دوستی رکھی ہوگی۔ نیکی کے کاموں پر ایک دوسرے سے تعاون کیا ہوگا۔ اللہ کے دین کے قیام کی خاطر آپس میں مشترکہ کوششیں کی ہوں گی۔ دین کے رشتہ کو سب رشتوں اور محبتوں سے مقدم سمجھا ہوگا۔ ایسے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان عام ہوگا۔ کہ آج قیامت کے دن تمہیں کسی پریشانی کا خوف نہیں رکھنا چاہئے اور انہیں اپنی سابقہ زندگی پر کچھ ملال بھی نہ ہوگا۔ اس لیے کہ انہوں نے دنیا میں اپنی زندگی اللہ کی فرمانبرداری میں گزاری تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یعباد لاخوف علیکم الیوم…: قیامت کے دن باہمی محبت کرنے والے متقین کو ملنے والی نعمتوں کا ذکر ہے، جن میں سے سب سے پہلی اللہ تعالیٰ کا ” اے میرے بندو ! “ کہہ کر محبت سے خطاب ہے، پھر خوف اور غم سے مکمل نجات ہے۔ دیکھیے سورة یونس (٦٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ۝ ٦٨ۚ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٨۔ ٦٩) سوائے ان حضرات کے جو کہ کفر و شرک اور ہر قسم کی برائیوں سے ڈرنے اور بچنے والے ہیں۔ جیسا کہ خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام وہ اس طرح پر نہ ہوں گے جس وقت ان کے علاوہ اور لوگوں کو خوف و غم نہ ہوگا تو اللہ کی جانب سے ان کو پکارا جائے گا کہ اے میرے بندو آج کوئی خوف نہیں اور نہ تم غمگین ہوگے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٨ { یٰـعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ } ” (اُن سے کہا جائے گا : ) اے میرے بندو ! آج تم پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی تم رنجیدہ ہوگے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٨۔ ٧٣۔ قتادہ کا قول ہے کہ قیامت کے دن نیک لوگوں سے فرشتے پکار پکار کر یہ کہیں گے جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے کہ اسے ایماندار بندوں تم آج کے دن ہر طرح کے ڈر اور غم سے بچے ہوئے ہو تم اپنی نیک بیبیوں کو ساتھ لے کر جنت میں چلے جاؤ پھر جنتیوں کی نعمتوں کا ذکر فرمایا کہ وہاں سونے کے برتنوں میں کھانے کی چیزیں اور سونے کے آب خوروں میں پینے کی چیزیں لے کر خدمت گار حاضر اور کثرت سے طرح طرح کے میوے موجود ہوں گے اور ہر طرح کا راحت و آرام کا سامان مہیا ہوگا۔ ابن ١ ؎ ماجہ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے واسطے ایک مکان جنت میں اور ایک دوزخ میں بنایا ہے قیامت کے دن جو لوگ ہمیشہ کے لئے دوزخی قرار پائیں گے ان کے جنت میں کے خالی مکانوں کا وارث اہل جنت کو ٹھہرایا جائے گا۔ آیتوں میں جنت کے جن مکانوں کو میراث کے طور پر فرمایا ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اچھے نیک عمل لوگوں کو ان کے ذاتی مکانوں کے علاوہ ان خالی مکانوں کا بھی وارث ٹھہرایا جائے گا۔ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابو سعید (رض) خدری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ جنتیوں کے جنت اور دوزخیوں کے دوزخ میں چلے جانے کے بعد جنت اور دوزخ کے مابین میں موت کو ذبح کیا جا کر اہل جنت سے فرشتے پکار کر کہہ دیں گے کہ اب تم موت سے نہ ڈرو اور راحت سے ہمیشہ جنت میں زندگی بسر کرو یہ حدیث وانتم فیھا خلدون کی گویا تفسیر ہے صحیح بخاری ٣ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نیک لوگوں کے لئے جنت میں جو نعمتیں پیدا کی گئی ہیں وہ نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھیں نہ کان سے سنیں نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزر سکتا ہے۔ اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ قرآن اور حدیث کے ذریعہ سے جنت کی جو نعمتیں کانوں سے سنی گئی ہیں ان کے علاوہ جنت کی اور نعمتیں ایسی بھی ہیں جو اب تک کانوں سے نہیں سنی گئی ہیں۔ (١ ؎ ابن ماجہ باب صفۃ الجنۃ ص ٣٣٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب جھنم اعاذنا اللہ منھا ص ٣٨٢ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری با ماجاء فی صفۃ الجنۃ ص ٤٦٠ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:68) یعباد یا حرف ندا ہے عبادی مضاف مضاف الیہ منادی ی ضمیر واحد متکلم محزوف ہے عباد جمع ہے عبد کی۔ اے میرے بندو۔ یعباد سے کلام مستانفہ شروع ہوتا ہے اس سے قبل عبارت یقول اللّٰہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ یا ینادون فیقال لہم۔ ان کو پکارا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا ۔ محذوف ہے یعنی اللہ تعالیٰ تقویٰ رکھنے والے دوستوں سے فرمائے گا۔ منادی سے مراد المتقین ہیں جو اوپر مذکور ہوئے (ملاحظہ ہو بیضاوی) تفسیر ماجدی میں ہے :۔ یہ نداء حشر میں مؤمنین کو حق تعالیٰ کی طرف سے دی جائے گی۔ خوف۔ آئندہ کی کسی تکلیف کا اندیشہ کرنا خوف ہے اور ماضی کی تکالیف کو یاد کرکے جو کیفیت غم دل میں پیدا ہوتی ہے حزن کہلاتی ہے۔ لا تحزنون مضارع منفی کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ باب سمع سے مصدر نہ تم غمگین ہوگے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٦٨ تا ٨٩۔ اسرار ومعارف۔ اور جو ایک دوسرے کی نیکیوں کی اور نیکی کی طرف دعوت کی شہادت دیں گے انہیں اللہ کریم کی طرف سے بھی ارشاد ہوگا کہ اے میرے بندو آج کے دن تم ہر خوف سے آزاد ہو نہ کفار کا اندیشہ اور نہ عذاب کی فکر اور تمہیں کچھ کھونے کا غم کہ کافر کو تو دنیا کے کھونے کا رنج ہوگامگر مومن اس سے کہیں زیادہ اور حقیقی نعمتیں حاصل کرے گا کہ یہ وہ لوگ تھے جو ایمان لائے اللہ کی اطاعت کی اور اس کے احکام کو تسلیم کیا۔ آج کے روز جنت میں داخل ہوجاؤ تم اور تمہارے گھر والے یعنی جو دن کفار ک لیے انتہائی سخت ہوگاوہی مومنین کے لیے کامیابی کا دن ہوگا اور وہ جنت میں بہت عزت سے داخل ہوں گے جہاں ان کے لیے خدا سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا اور پینے کی چیزیں پیش کریں گے ہر وہ نعمت جس کی وہ خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں نیز یہ عارضی انعامات نہ ہوں گے بلکہ وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور فرمادیاجائے گا کہ یہ جنت تمہاری ہے جیسے وارث کو میراث ملا کرتی ہے کہ تم نے اللہ کی اطاعت کی اور اس کے رسول کا اتباع کیا اور ان کی نصرت کی اس میں سدا بہار پھل اور بےحسابات نعمتیں ہیں جو تمہاری ہی خاطر ہیں اور دوسری طرف اللہ کے مجرم اس کے دین اور نبی کی مخالفت کرنے والے دوزخ کے عذاب میں ہوں گے جہاں انہیں بھی ہمیشہ رہنا ہوگا وہاں سے نکلنا تو کیا کفار پر عذاب بھی ہلکا نہ ہوگا بلکہ جس درجے میں یوم حشر ڈال دئیے گئے اسی میں رہیں گے اور ہم نے انکے ساتھ یہ زیادتی نہیں کی کہ بلکہ خود انہوں نے کفر اختیار کرکے اپنے ساتھ ظلم کیا حالانکہ داروغہ جہنم جس کا نام مالک ہے اس کو بھی پکار کر کہیں گے کہ ہماری دعا توسنی نہیں جاتی آپ ہمارے لیے دعا کرو شاید آپ کا رب آپ کی بات تو سن لے کہ ہم نے تو رب ماننے سے انکار کیا تھا آج وہ ہماری بات سننے سے انکار کرتا ہے مگر آپ دعا کرو کہ اللہ ہمیں فنا کردے اور اس عذاب سے ہماری جان چھوٹ جائے تو وہ جواب دے گا کہ ایسا ممکن نہیں بلکہ فیصلہ ہوچکا اور تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ ہم نے تو تمہارے پاس سچا دین پہنچایا اللہ کی خالص توحید اس کی ذات وصفات کا علم اس کی اطاعت کا طریقہ اور سلیقہ رسول برحق نے اللہ کی کتاب لاکر اور اس کی وضاحت زبانی بھی اور عملی بھی کرکے دکھادی مگر تمہاری بدبختی کہ تمہیں کھری بات پسند ہی نہیں بلکہ الٹا آپ کو نقصان پہنچانے کی تدبیر کرنے لگے چناچہ ہم نے بھی تدبیر کی کہ آپ کا تو کچھ نہ بگاڑ سکے اور خود بر میں ہلاک ہوگئے اور آخر شرک کانشان تک مٹ گیا اور وہ شہر عظیم ہمیشہ کے لیے دین کامرکز بن گیا۔ یہ کیا سمجھ رہے تھے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں اور سرگوشیوں کو نہیں سنتے بھلا ہماری ذات سے کیا چھپا ہے جبکہ ان کی خفیہ باتیں تو ان فرشتوں نے بھی لکھ رکھی ہے جو ہم نے اس کام پر مقرر کیے ہیں آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ کریم کی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلا شخص ہوتا جو اس کی عبادت کرتا یعنی میں تمہاری ضد کی وجہ سے ایسا نہیں کہہ رہا کہ اللہ کی کوئی اولاد نہیں بلکہ یہ حق ہے اور اس کی ذات ان باتوں سے پاک ہے ۔ وہ تو رب ہے بنانے والا اور قائم رکھنے والا ، آسمانوں اور زمینوں اور عرش عظیم کا اس کی شان ان کی باتوں سے بہت بلند ہے وہ ساری مخلوق کا خالق ہے اگر انہیں یہی ضد ہے تو آپ انہیں چھوڑ دیجئے کہ اس طرح کی خرافات میں لگے رہین اور رسومات یعنی کھیل تماشے میں کھوئے رہین حتی کہ وہ دن آجائے جس کا وعدہ کیا گیا ہے یعنی موت اور پھر قیامت تو حقیقت خود بخود سمجھ لیں گے اللہ کی عظمت تو یہ ہے کہ آسمان میں بھی صرف وہی اکیلامعبود ہے سب اس کی عبادت کرتے ہیں اور زمین میں بھی عبادت اسی کو سزاوار ہے کہ وہ حکمت والا بھی ہے اور ہر شے کو ہر آن جانتا ہے بہت بڑی برکت والی ہے اس کی ذات جس کی حکومت آسمانوں اور زمینوں اور ان میں کی ہرچیز پر ہے اور وہی خوب جانتا ہے کہ قیامت کب قائم فرمائے گا اور سب کو لوٹ کر اسی کی بارگاہ میں جانا ہے اور یہ لوگ جن کو معبود بنائے ہوئے ہیں اور اللہ کی علاوہ جن کی عبادت کرتے ہیں وہ تو اس قابل بھی نہ ہوں گے کہ ان کی سفارش ہی کرسکیں کہ سفارش کی اجازت بھی اللہ کی طرف سے ان ہستیوں کو ہوگی جو لوگوں کو حق کی طرف بلاتے تھے اور ان کو خبر تھی کہ ان کا ایمان تھا کہ یہ دن آئے گا وہ بھی اہل ایمان کی سفارش کریں گے جنہوں نے حق قبول کیا۔ ان سے پوچھیے بھلا ان کو کس نے پیدا کیا تو لامحالہ کہیں گے اللہ نے تو پھر اس کی اطاعت سے روگردانی کیا معنی اور آپ کی اس بات کی قسم یعنی آپ کا یہ فرمانا کہ اے اللہ میں نے بہت کوشش کی مگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے بھی ان کی سزا کے لیے ایک ٹھوس گواہی کی حیثیت رکھتا ہے سو آپ ان سے رخ انور پھیر لیجئے انہیں چھوڑ دیجئے عنقریب ان کو خود پتہ چل جائے گا یہاں سلام کہنے سے مراد السلام علیکم کہنا نہیں نہ یہ کافر کے لیے جائز ہے بلکہ مراد اچھے طریقے سے الگ ہوجانا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 68 تا 78 : تحبرون ( تم خوش کئے جائو گے) صحاف ( پلٹیں، رکابیاں) لا یفتر (ہلکا نہ کیا جائے گا) مبلسون ( ناامید ہوجانے والے) ما کثون (ٹھہرنے والے ، رکنے والے) تشریح : آیت نمبر 67 تا 78 : جو لوگ دنیا میں تقویٰ ، پرہیز گاری اور اللہ کی اطاعت و فرماں برداری میں اس کے بندے بن کر رہے تھے قیامت کے دن ان سے ارشاد فرمایا جائے گا کہ اے میرے بندو ! آج تمہارے لئے نہ تو ماضی کا خوف ہوگا اور نہ مستقبل کا رنج و غم ، تم اور تمہاری بیویاں اس جنت کے مستحق بنا دیئے گئے ہیں جن میں تمہاری ایسی خاطر تواضع کی جائے گی جس سے تم خوش ہو جائو گے اور خوشی کے آثار تمہارے چہروں پر نمایاں ہوں گے وہاں نو عمر خادم سونے کی پلٹیں اور گلاس لئے گھوم رہے ہوں گے۔ اور ان جنتوں میں ہر وہ چیز عطاء کی جائے گی جس سے دلوں کو چین اور آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوگی اور یہ سب کچھ تھوڑی سی مدت اور وقت کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہوگی ۔ اللہ کی طرف سے اعلان کیا جائے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس میں تمہارے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) کو رکھا گیا تھا۔ لیکن ایک بھول کی وجہ سے جب ان کو جنت سے نکالا گیا تو یہ کہہ دیا گیا تھا کہ اگر دنیا میں جا کر تم نے اللہ کی ہدایت کے مطابق بہترین اعمال سر انجام دیئے تو پھر سے تمہیں اس جنت میں داخل کیا جائے گا ۔ چونکہ تم نے دنیا میں رہ کر ہمارے سارے حکم مانے اور ہمارے رسولوں کی پیروی کی اس لئے اب یہ جنت تمہیں پھر سے مل گئی ہے ۔ تم ان جنت کی راحتوں سے جتنا فائدہ چاہو اٹھا لو ، کھائو ، پیو تمہارے لئے ہر طرف ہر طرح کی نعمتیں بکھیر دی گئی ہیں۔ اس کے بر خلاف وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کرتے کرتے مجرم بن گئے تھے ان کو ایسی جہنم اور اس کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکا جائے گا جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ نہ تو ان پر سے کسی عذاب کو ہلکا کیا جائے گا اور نہ کسی قسم کی رعایت کی جائے گی جس سے وہ مایوسی کی انتہاؤں پر پہنچ جائیں گے۔ وہ نہایت مایوسی اور نا امیدی کے ساتھ جہنم کے ایک فرشتے جس کا نام مالک ہوگا اس سے چلا چلا کر یہ کہیں گے کہ تم اپنے پروردگار سے یہ دعا کرو کہ وہ ہمیں جہنم کی اس شدید ترین تکلیف سے نجات کے لئے ہم پر موت طاری کر دے تا کہ اس اذیت سے ہم بچ سکیں گے۔ جہنم کا یہ فرشتہ یا داروغہ ان کے رونے چلانے کا سنتا رہے گا اور ایک ہزار سال کے بعد یہ جواب دے گا کہ تم دنیا اور اس کی لذتوں میں الجھے رہے اور تمہیں آخرت کا کبھی خیال تک نہ آیا اب تم ہمیشہ کے لئے اسی حالت میں رہو گے نہ مرو گے نہ جیو گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آج اگر یہ لوگ یہ لوگ اس حالت کو پہنچے ہیں تو اس میں ان کا اپنا قصور ہے اللہ نے ان پر ظلم و زیادتی نہیں کی بلکہ انہوں نے خود ہی اس راستے کو منتخب کیا تھا جس کی سزا آج یہ بھگت رہے ہیں ۔ فرمایا جائے گا کہ ہم نے اپنے رسولوں کے ذریعہ حق و صداقت کی بات کو پہنچا دیا تھا مگر جب بھی ان سے اس سچائی پر چلنے اور ماننے کے لئے کہا تو انہوں نے اس سے منہ پھیرا اور نفرت کا اظہار کیا

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

41:۔ ” یعباد لا خوف “ تا ” تاکلون “ بشارت اخرویہ ہے۔ قیامت کے دن جب میدان حشر میں سب لوگ جمع ہوں گے تو سب پریشان اور گھبرائے ہوں اس وقت اللہ کی طرف سے منادی کرنے والا اعلان کرے گا کہ اے میرے بندو ! تم پر آج کوئی کونہیں اور نہ تمہیں کوئی غم ہوگا، آج تم ہر قسم کے خوف و ہراس اور غم واندوہ سے آزاد ہو۔ یہ اعلان سن کر کافر بھی اس کے امیدواروں میں شامل ہوجائیں گے اس کا دوسرا اعلان ہوگا۔ ” الذین امنوا بایاتنا وکانوا مسلمین “ یعنی میرے وہ بندے خوف و غم سے آزاد ہیں جو دنیا میں میری وحدانیت اور تمام ایمانیات پر ایمان لائے اور میرے فرمانبردار رہے۔ یہ اعلان سن کر کفار مایوس ہوجائیں گے اور ایمان والے اللہ کی رحمت کے امیدوار ہوں گے۔ اس وقت انہیں حکم ہوگا۔ ” ادخلوا الجنۃ۔ الایۃ “ تم اور تمہاری مومن بیویاں خوش و خرم جنت میں داخل ہوجاؤ (کبیر، خازن، مدارک) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(68) اے میرے بندو ! آج نہ تم پر کوئی خوف ہے اور نہ تم غمگین ہوگے۔ یہ خطاب اہل ایمان کو حق تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔