Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 70

سورة الزخرف

اُدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ اَنۡتُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ تُحۡبَرُوۡنَ ﴿۷۰﴾

Enter Paradise, you and your kinds, delighted."

تم اور تمہاری بیویاں ہشاش بشاش ( راضی خوشی ) جنت میں چلے جاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ادْخُلُوا الْجَنَّةَ ... Enter Paradise, means, they will be told to enter Paradise. ... أَنتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ ... you and your wives, means, your counterparts ... تُحْبَرُونَ in happiness (Tuhbarun). means, in delight and joy.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

70۔ 1 اَ زْوَاجُکُمْ سے بعض نے مومن بیویاں، بعض نے مومن ساتھی اور بعض نے جنت میں ملنے والی حورعین بیویاں مراد لی ہیں۔ یہ سارے ہی مفہوم صحیح ہیں کیونکہ جنت میں یہ سب کچھ ہی ہوگا۔ تُحْبَرُونَ حَبْر سے ماخوذ ہے یعنی وہ فرحت و مسرت جو انہیں جنت کی نعمت و عزت کی وجہ سے ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٧] ازواج کا ایک مطلب تو ترجمہ سے واضح ہے اور اس کا دوسرا مطلب تمہاری ہی طرح کے تمہارے دوسرے ساتھی اور دوست، جن کی دنیا میں دوستی کی بنیاد محض تقویٰ پر تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ادخلوا الجنۃ انتم وازواجکم :” ازواجکم “ کی تفسیر میں دو وجہیں ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو دنیا میں ان کے ہم مشرب اورس ا تھی رہے۔ دوسری یہ کہ مراد ان کی بیویاں ہیں جنہوں نے نیک اعمال میں ان کا ساتھ دیا تھا۔ دونوں بیک وقت بھی مراد ہوسکتے ہیں، مگر بیویاں مراد لینا زیادہ قریب ہے، کیونکہ قرآن مجید میں ان کا بار بار ذکر ہے اور ان کے ساتھ مل کر جانے میں جو لذت اور خوشی ہے وہ دوسرے ہم مشرب ساتھیوں کے ساتھ نہیں۔ دیکھیے سورة یٰسین (٥٥، ٥٦) ، دخان (٥٤) ، واقعہ (٢٢، ٢٣) ، رحمان (٧٠ تا ٧٢) ، صافات (٤٨) اور سورة ص (٥٢) ، (٢) تحبرون : اس کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة روم کی آیت (١٥) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ اَنْتُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُوْنَ۝ ٧٠ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔ حبر الحِبْرُ : الأثر المستحسن، ومنه ما روي :«يخرج من النّار رجل قد ذهب حبره وسبره» أي : جماله وبهاؤه، ومنه سمّي الحبر، وشاعر مُحَبِّر، وشعر مُحَبَّر، وثوب حَبِير : محسّن، ومنه : أرض مِحْبَار والحبیر من السحاب، وحَبِرَ فلان : بقي بجلده أثر من قرح، والحَبْر : العالم وجمعه : أَحْبَار، لما يبقی من أثر علومهم في قلوب الناس، ومن آثار أفعالهم الحسنة المقتدی بها، قال تعالی: اتَّخَذُوا أَحْبارَهُمْ وَرُهْبانَهُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ [ التوبة/ 31] ، وإلى هذا المعنی أشار أمير المؤمنین رضي اللہ عنه بقوله :( العلماء باقون ما بقي الدّهر، أعيانهم مفقودة، وآثارهم في القلوب موجودة) وقوله عزّ وجلّ : فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ [ الروم/ 15] ، أي : يفرحون حتی يظهر عليهم حبار نعیمهم . ( ح ب ر ) الحبر ۔ وہ نشان جو عمدہ اور خوبصورت معلوم ہو حدیث میں ہے کہ آگ سے ایک آدمی نکلے گا جس کا حسن و جمال اور چہرے کی رونق ختم ہوچکی ہوگی اسی سے روشنائی کو حبرۃ کہا جاتا ہے ۔ شاعر محتبر عمدہ گو شاعر شعر محبر عمدہ شعر ۔ ثوب حبیر ملائم اور نیا کپڑا ۔ ارض محبار جلد سر سبز ہونے والی زمین ( الجمع محابیر ) الحبیر ( من اسحاب ) خوبصورت بادل ۔ حبر فلان اس کے جسم پر زخم کا نشان باقی ہے ۔ الحبر عالم کو کہتے ہیں اسلئے کہ لوگوں کے حلوں پر اس کے علم کا اثر باقی رہتا ہے ۔ اور افعال حسنہ میں لوگ اس کے نقش قدم پر چلتے ہیں اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت علیٰ نے فرمایا کہ علماء تاقیامت باقی رہیں گے اگرچہ ا ن کی شخصیتیں اس دنیا سے فنا ہوجاتی ہیں لیکن ان کا آثار لوگوں دلوں پر باقی رہتے ہیں حبر کی جمع اجار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اتَّخَذُوا أَحْبارَهُمْ وَرُهْبانَهُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ [ التوبة/ 31] انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ کو اللہ کے سوا خدا بنالیا ہے ۔ اور آیت کریمہ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ [ الروم/ 15] کے معنی یہ ہیں کہ وہ جنت میں اس قدر خوش ہوں گے کہ وہاں کی نعمتوں کی ترو تازگی کا اثر ان کے چہروں پر ہویدا ہوگا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٠۔ ٧١) یعنی وہ بندے جو کہ رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور توحید و عبادت میں مخلص تھے تم اور تمہاری بیویاں جنت میں خوشی کے ساتھ داخل ہوجاؤ کہ تحائف کے ساتھ وہاں تمہیں عزت دی جائے گی اور تم جنت کی نعمتوں سے فائدہ حاصل کرو گے۔ اور ان کے پاس سونے کی پلیٹیں جو کھانے کی چیزوں سے بھری ہوں گی اور گول بغیر کنارے کے گلاس لائے جائیں گے جو مشروبات سے بھرے ہوں گے اور جنت میں وہ چیزیں ملیں گی جن کو جی چاہے گا اور جن کو دیکھنے سے آنکھوں کو فرحت و سرور حاصل ہوگا اور تم جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہو گے نہ وہاں موت آئے گی اور نہ وہاں سے نکالے جاؤ گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ { اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ اَنْتُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ تُحْبَرُوْنَ } ” داخل ہو جائو جنت میں تم بھی اور تمہاری بیویاں بھی ‘ تمہارا اعزازو اکرام کیا جائے گا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

60 The word azwaj as used in the original can be used both for the wives and for those people who are a person's close associates, friends and peers. This comprehensive word has been used so as to cover both the meanings. The believers will be accompanied both by their believing wives and by their believing friends in Paradise.

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :60 اصل میں ازواج کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بیویوں کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے بھی جو کسی شخص کے ہم مشرب ، ہم جولی ، اور ہم جماعت ہوں ۔ یہ وسیع المعنی لفظ اسی لیے استعمال کیا گیا ہے تاکہ اس کے مفہوم میں دونوں داخل ہو جائیں ۔ اہل ایمان کی مومن بیویاں بھی ان کے ساتھ ہوں گی اور ان کے مومن دوست بھی جنت میں ان کے رفیق ہوں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:70) تحبرون مضارع مجہول جمع مذکر حاضر حبر (باب نصر) مصدر جس کے معنی زینت کرنے اور خوشی و مسرت کے آثار ظاہر ہونے کے ہیں حال ہے ضمیر انتم سے۔ دراں حالیکہ تم خوش کر دئیے جاؤ گے۔ تمہیں مزین کردیا جائے گا۔ خوشی اور مسرت کے آثار تمہارے چہروں پر ظاہر و عیاں ہوں گے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے فاما الذین امنوا وعملوا الصلحت فہم فی روضۃ یحبرون ۔ (30:15) جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ جنت میں اس قدر خوش ہوں گے کہ وہاں کی نعمتوں کی تروتازگی کا اثر ان کے چہروں پر عیاں ہوگا۔ بطور فعل مضارع صرف انہی دو جگہ آیا ہے اور فعل مجہول آیا ہے۔ روشنائی کو بھی حبر کہتے ہیں اسی سے علماء کو بھی احبار کہتے ہیں کہ ان کے نقش لوگوں کے دلوں پر روشنائی کے نقوش کی طرح دیر تک رہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللّٰہ (9:31) انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو اللہ کے سوا خدا بنا لیا ہے۔ صاحب تفسیر مظہری لکھتے ہیں :۔ تحبرون۔ یعنی اتنی خوشی پاؤ گے کہ اس کا اثر چہروں سے نمودار ہوگا۔ اس مطلب پر تحبرون حبار سے مشتق ہوگا۔ اور حبار کا معنی ہے اثر، نشان یا تحبرون کا معنی ہے تم آراستہ کئے جاؤ گے۔ اس وقت اس کا مادہ حبر ہوگا۔ اور حبر کا معنی ہے زینت، خوبصورتی یا اس کا ترجمہ ہے تمہاری پوری پوری عزت افزائی کی جائے گی۔ آیت میں خطاب عبادی سے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ازواج سے مراد بیویاں بھی ہیں۔ یعنی وہ جنہوں نے نیک اعمال میں ان کا ساتھ دیا تھا اور ایسے لوگ جو دنیا میں ان کے ساتھی اور ہم مشرب رہے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(70) جائو تم اور تمہاری بیویاں جنت میں داخل ہوجائو خوش مسرور۔ حبرکہتی میں جس کے چہرے پر آثار خوشی نمایاں ہوں۔