Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 75

سورة الزخرف

لَا یُفَتَّرُ عَنۡہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡہِ مُبۡلِسُوۡنَ ﴿ۚ۷۵﴾

It will not be allowed to subside for them, and they, therein, are in despair.

یہ عذاب کبھی بھی ان سے ہلکا نہ کیا جائے گا اور وہ اسی میں مایوس پڑے رہیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لاَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ ... Verily, the criminals will be in the torment of Hell to abide therein forever. It will not be lightened for them, meaning, not even for one moment. ... وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ and they will be plunged into destruction with deep regrets, sorrows and in despair therein, means, they will despair of any goodness. وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِن كَانُوا هُمُ الظَّالِمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 یعنی نجات سے مایوس۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٠] یُفَتَّرُ فتر بمعنی کسی چیز کی قوت یا رفتار میں بتدریج کمی واقع ہوتے جانا۔ قوت کے بعد کمزوری، تیز رفتاری کے بعد آہستہ آہستہ رفتار سست ہوتے جانا اور فتور کے معنی تیزی کے بعد سستی یا ٹھہراؤ۔ گویا اہل دوزخ کو جو عذاب دیا جائے گا اس میں نہ تو کمی واقع ہوگی اور نہ ہی کبھی کوئی وقفہ پڑے گا۔ مدت ہائے مدید جب ان پر ایسا سخت عذاب ہی ہوتا رہے گا اور اس میں کوئی کمی یا وقفہ نہ آئے گا تو ایسی کمی یا وقفہ سے وہ بالآخر مایوس ہوجائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) لایفثر عنھم :” فتور “ کسی چیز میں وقفہ یا ٹھہراؤ آنا، یا اس کی قوت یا رفتار میں آہستہ آہستہ کمی آتے جانا، جیسے کہا جاتا ہے :” فترب الحثمی “ بخار میں کمی یا وقفہ آگیا۔ “” لایفثر “ (باب تفعیل) کا مطلب یہ ہے کہ ان کے عذاب میں کسی قسم کا وقفہ یا کمی نہیں آنے دی جائے گی۔ (٢) وھم فیہ نبلسون : مصیبت سے نجات کی امید بھی کچھ نہ کچھ راحت کا باعث ہوتی ہے، یہ کہہ کر امید کی بھی نفی فرما دی کہ وہ اسی جہنم میں مایوس اور ناامید ہو کر رہنے والے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا يُفَتَّرُ عَنْہُمْ وَہُمْ فِيْہِ مُبْلِسُوْنَ۝ ٧٥ ۚ فتر الفُتُورُ : سکون بعد حدّة، ولین بعد شدّة، وضعف بعد قوّة . قال تعالی: يا أَهْلَ الْكِتابِ قَدْ جاءَكُمْ رَسُولُنا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلى فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ [ المائدة/ 19] ، أي : سکون حال عن مجیء رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم، وقوله : لا يَفْتُرُونَ [ الأنبیاء/ 20] ، أي : لا يسکنون عن نشاطهم في العبادة . وروي عن النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أنه قال : «لكلّ عالم شرّة، ولكلّ شرّة فَتْرَةٌ ، فمن فَتَرَ إلى سنّتي فقد نجا وإلّا فقد هلك» «1» فقوله :«لكلّ شرّة فترة» فإشارة إلى ما قيل : للباطل جولة ثمّ يضمحلّ ، وللحقّ دولة لا تذلّ ولا تقلّ. وقوله : «من فَتَرَ إلى سنّتي» أي : سکن إليها، والطّرف الفَاتِرُ : فيه ضعف مستحسن، والفِتْرُ : ما بين طرف الإبهام وطرف السّبّابة، يقال : فَتَرْتُهُ بِفِتْرِي، وشبرته بشبري . ( ف ت ر ) الفتور کے معنی تیزی کے بعد ٹھہر نے سختی کے بعد نرم اور قوت کے بعد کمزور پڑجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ يا أَهْلَ الْكِتابِ قَدْ جاءَكُمْ رَسُولُنا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلى فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ [ المائدة/ 19] اے اہل کتاب پیغمبروں کے آنے کا سلسلہ جو ایک عرصہ تک منقطع رہا تو اب تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آگئے ہیں ۔ یعنی سلسلہ رسالت کے منقطع اور ماند پڑجانے کے بعد آنحضرت تشریف لے آئے ہیں آیت کریمہ : ۔ لا يَفْتُرُونَ [ الأنبیاء/ 20] کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ عبادت میں سر گرم رہتے ہیں اور کبھی سست نہیں پڑتے اور ایک روایت میں ہے کہ ہر عالم میں تیری ہوتی ہے اور ہر تیزی کے بعد فترۃ یعنی سکون ہوتا ہے تو جو شخص میری سنت سے سکون حاصل کریگا وہ نجات یافتہ ہے ورنہ نہ وہ ہلاک ہوگا پس بکل شرۃ فترۃ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ باطن میں پہلے پہل تو جوش ہوتا ہے مگر جلدی ہی مضمحل ہوجاتا ہے اور حق کی سلطنت کبھی ذلیل یا کمزور نہیں ہوتی ۔ اور من الیٰ سنتی کے معنی سنت نبوی کی پناہ میں سکون حاصل کرنے کے ہیں ۔ الطراف الفاتر لگاہ مست اور یہ اچھی صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ الفتر انگشت شہادت اور انگوٹھے کے درمیان کا فاصلہ اور شبرتہ بشیری کی طرح فترتہ بفرتی کا محاورہ ہے جس کے معنی انگوٹھا اور انگشت شہادت کے ساتھ کسی چیز کو ناپنے کے ہیں بلس الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] ، وقال تعالی: أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» . ( ب ل س ) الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے ب کے ہیں ۔ بلست الناقۃ فھی مبلاس آواز نہ کرو ناقہ زغایت خواہش کش اور کلاس بمعنی ٹاٹ فارسی پل اس سے معرب ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٥۔ ٧٦) اور نہ وہ عذاب ان سے ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی دور کیا جائے گا اور وہ اسی عذاب میں اس کے ختم ہونے اور ہر قسم کی بھلائی سے مایوس پڑے رہیں گے اور ہم نے ان کو ہلاک کر کے اور عذاب نازل کر کے ان پر ظلم نہیں کیا مگر خود انہوں نے کفر و شرک کر کے خود ظلم کرلیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٥ { لَا یُفَتَّرُ عَنْہُمْ وَہُمْ فِیْہِ مُبْلِسُوْنَ } ” وہ ان سے ہلکا نہ کیا جائے گا اور وہ اسی میں پڑے رہیں گے بالکل ناامیدہو کر۔ “ انہیں جہنم سے چھٹکارا پانے کا کوئی امکان نظر نہیں آئے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:75) لایفتر مضارع منفی مجہول واحد مذکر غائب تفتیر (تفعیل) مصدر کم نہیں کیا جائے گا۔ ہلکا نہیں کیا جائے گا۔ الفتور کے معنی تیزی کے بعد ٹھہرنے ، سختی کے بعد نرمی اور قوت کے بعد کمزور پڑجانا کے ہیں چناچہ قرآن مجید میں ہے یاہل الکتاب قد جاء کم رسولنا یبین لکم علی فترۃ من الرسل (5:19) اے اہل کتاب پیغمبروں کے آنے کا سلسلہ جو ایک عرصہ تک منقطع رہا تو اب تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آگئے ہیں۔ اور جگہ کلام باری تعالیٰ ہے یسبحوں الیل والنھار لایفترون (21:20) وہ سب رات دن (اس کی) تسبیح کرتے رہتے ہیں (نہ تھکتے ہیں نہ تھمتے ہیں) ۔ مبلسون : اسم فاعل جمع مذکر مرفوع ۔ مبلس واحد۔ غمگین ، مایوس، پشیمان، متحیر، خاموش، جن کو کوئی بات بن نہ پڑتی ہو۔ اس کا مادہ بلس ہے یہ ثلالثی مجرد سے افعال مستعمل نہیں ۔ ثلاثی مزید میں باب افعال اپنے تمام مشتقات کے ساتھ مستعمل ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے ویوم تقوم الساعۃ یبلس المجرمون (30:12) اور جس دن قیامت برپا ہوگی گنہگار (مایوس اور مغموم ہوجائیں گے) عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموش اور دلیل سے عاجز آنے کے ہیں۔ اور ابلس من رحمۃ اللّٰۃ کے معنی ہیں وہ اللہ کی رحمت سے ناامید ہوگیا۔ چونکہ شیطان بھی رحمت حق سے مایوس و ناامید ہے اس لئے اسے ابلیس کہا گیا ہے۔ وہم فیہ : ای فی عذاب جھنم۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 نا امیدہونے سے مراد نجات سے ناامید ہونا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(75) ان پر سے کسی وقت بھی وہ عذاب ہلکا اور سست نہیں کیا جائے گا اور وہ اسی عذاب میں مایوس اور ناامید پڑے رہیں گے۔