Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
أَبْرَمَ |
يُبْرِمُ |
أَبْرِمْ |
مُبْرِم |
مُبْرَم |
إِبْرَام |
اَلْاِبْرَامُ: کے معنی کسی معاملہ کو محکم اور مضبوط کرنا کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (اَمۡ اَبۡرَمُوۡۤا اَمۡرًا فَاِنَّا مُبۡرِمُوۡنَ ) (۴۳:۷۹) کیا انہوں نے کوئی بات ٹھہرا رکھی ہے تو ہم بھی کچھ ٹھہرانے والے ہیں۔ یہ اصل میں اِبْرَامُ الْحَبْلِ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی رسی کو مضبوط بٹنے کے ہیں، شاعر نے کہا ہے(1) (طویل) (۵۰) عَلٰی کُلِّ حَالٍ مِّنْ سَحِیْلٍ وَّمُبْرَم یعنی ہر حالت میں (تم قابل ستائش ہو) ۔ اَلْبَرِیْمُ: بمعنی مُبْرَم ہے یعنی مضبوط بٹی ہوئی رسی محاورہ ہے: اَبْرَمْتُہٗ فَبَرمَ فَھُوَ بَرِیْمٌ۔ اسی بنا پر کنجوس آدمی کو جو جوا نہ کھیلتا ہو بَرَمٌ کہا جاتا ہے جیساکہ بخیل کو مغلول الید کہتے ہیں۔ اور مُبْرِمُ الْحَبَلِ کے ساتھ تشبیہ دے کر ہر اس آدمی کو جو کسی معاملہ میں مصر اور بضد ہو اسے اَلْمُبْرِمْ کہا جاتا ہے یعنی معنی اَلْبَرَم کے ہیں اور جو آدمی دو دو کھجوریں ملا کر کھاتا ہو اسے بھی بَرَمٌ کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں سختی کے ساتھ کھانا کے معنی پائے جاتے ہیں۔ اور رسی کبھی دو رنگ پر ہوتی ہے، اس لیے ہر سیاہ سفید پر مشتمل لشکر اور بکریوں کے ملے جلے ریوڑ کو بَرِیْمٌ کہا جاتا ہے۔ اَلْبُرْمَۃُ اصل میں پتھر کی ہنڈیا کو کہتے ہیں۔ ج: بِرَامٌ۔ جیسے حُضرۃ کی جمع حِضار اور یہ ضُحکَۃٌ وَھُزْئَ ۃِکی طرح مفعول کے اوزان سے ہے۔
Surah:43Verse:79 |
انہوں نے مقرر کیا
have they determined
|