Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 88

سورة الزخرف

وَ قِیۡلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ قَوۡمٌ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۘ۸۸﴾

And [ Allah acknowledges] his saying, "O my Lord, indeed these are a people who do not believe."

اور ان کا ( پیغمبر کا اکثر ) یہ کہنا کہ اے میرے رب! یقیناً یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And his saying: "O my Lord! Verily, these are a people who believe not!" means, Muhammad said this; he complained to his Lord about his people who did not believe in him, and said, `O Lord, these people do not believe.' This is like the Ayah: وَقَالَ الرَّسُولُ يرَبِّ إِنَّ قَوْمِى اتَّخَذُواْ هَـذَا الْقُرْءاَنَ مَهْجُوراً And the Messenger will say: "O my Lord! Verily, my people deserted this Qur'an." (25:30). This is the view of Ibn Mas`ud, may Allah be pleased with him, Mujahid and Qatadah, and this is how Ibn Jarir interpreted it. Al-Bukhari said: "`Abdullah -- meaning Ibn Mas`ud, may Allah be pleased with him -- recited (Ayah 88 of Az-Zukhruf): وَقالَ الرَّسَولُ يَارَبِّ And the Messenger will say: "O my Lord!" Mujahid said concerning the Ayah: وَقِيلِهِ يَارَبِّ إِنَّ هَوُلاَء قَوْمٌ لاَّ يُوْمِنُونَ (And his saying: "O my Lord! Verily, these are a people who believe not!") "Allah is stating what Muhammad said." Qatadah said, "These are the words of your Prophet, when he complained about his people to his Lord."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

88۔ 1 اللہ کے پاس ہی قیامت اور اپنے پیغمبر کے شکوہ کا علم ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٠] ایسا وقت غالباً سب پیغمبروں پر آتا ہے۔ جب وہ اپنی قوم کو سمجھانے میں اپنی جان تک کھپا دیتے ہیں۔ پھر بھی اکثر لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں تو پیغمبروں کی بات سمجھنے کی بجائے ان کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ تو اس وقت پیغمبر ایسی قوم کے ایمان لانے سے سخت مایوس ہوجاتے ہیں اور ان کی زبان سے بےساختہ ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) نے بھی اسی طرح مایوس ہو کر دعا کی تھی کہ : && یا اللہ ! اب ان کافروں میں سے کسی ایک کو زندہ نہ چھوڑ۔ کیونکہ ان بدبختوں کے ہاں جو اولاد ہوگی مجھے ان سے بھی ایمان لانے کی توقع نہیں رہی۔ ان کی اولاد بھی فاسق اور کافر ہی پیدا ہوگی && (٧١: ٢٧) کچھ ایسی صورت حال رسول اللہ کی بھی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی اس مخلصانہ التجا اور درد بھری آواز کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ بہرحال نہ ماننے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں۔ لہذا اللہ اپنے رسول کی ضرور مدد کرے گا اور اپنی رحمت سے ان کو غالب اور اپنے کلمہ کو سربلند کرے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وقیلہ یرب ان ھولآء …:” قیل ، قال “ اور ” قول “ تینوں ’ قال یقول “ کے مصدر ہیں، معنی ہے کہنا۔” قتیلہ “ میں ضمیر ” ہ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اس آیت کی متعدد تفسیریں کی گئی ہیں، ان میں سب سے واضح تین ہیں ۔ پہلی یہ کہ ” وقیلہ یرب “ قسم ہے : ای اقسم بقولہ یا رب “ اور ” ان ھولآء قوم لایومنون “ جواب قسم ہے۔ یہ تفسیر زمخشری نے کی ہے اور ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں رسول کے ” یا رب یا رب “ کہنے کی قسم کھاتا ہوں کہ یقیناً یہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان نہیں لائیں گے۔ اگلی آیت میں فرمایا :(فاصفح عنھم و قل سلم) اس لئے ان سے درگزر کر اور کہہ سلام ہے، پس عنقریب وہ جان لیں گے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہ ساری آیت قسم ہے، جواب اس کا محذوف ہے جو قرینے سے معلوم ہو رہا ہے۔ قرینے کے پیش نظر قسم کا جواب حذف کرنا کلام عرب میں عام ہے۔ یعنی میں رسول کے ” اے میرے رب ! یہ تو ایسے لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہی نہیں “ کہنے کی قسم کھاتا ہوں کہ میں ضرور کافروں کے اس رویے کے خلاف اس کی مدد کروں گا۔ قرینہ اگلی آیت ہے کہ پس تو ان سے درگزر کر اور کہہ سلام ہے، کیونکہ وہ بہت جلد جان لیں گے کہ رسول کی مدد کیسے ہوتی ہے اور ان لوگوں سے انتقام کیسے لیا جاتا ہے۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ واؤ بمعنی ” رب “ ہے جو حرف جا رہے،” قیلہ “ اس کے ساتھ مجرور ہے۔ یعنی کئی دفعہ رسول کا حسرت و افسوس کے ساتھ کہنا یہ ہوتا ہے کہ اے میرے رب ! یہ تو ایسے لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہی نہیں۔ ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ” وقیلہ “ میں ” قیل “ کا عطف اوپر گزری ہوئی آیت ” عندہ علم الساعۃ “ میں لفظ ” الساعۃ “ پر ہے، یعنی ” وعندہ علم الساعۃ و علم قیلہ یا رب ھولا قوم لایومنون “ یعنی ” اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور رسول کے اس قول کا بھی کہ اے میرے رب ! یہ تو ایسے لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔ “ مگر معطوف علیہ اور معطوف کے درمیان اتنا لمبا فاصلہ بعید بات ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَقِيلِهِ يَا رَ‌بِّ إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُونَ (And [ Allah has the knowledge ] of His prophet&s saying, |"0 my Lord, these are a people who do not believe.|" 43:88) The point made by this sentence is that there are very serious reasons for Allah&s wrath descending upon these infidels. On the one hand, there are their severe crimes themselves, and on the other when the Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، who has been sent as a |"blessing for the world|" and |"interceder for the sinners|", himself complains against them and says that these people do not believe, despite repeated good counsels given to them, it indicates that they must have agonized the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to an extreme extent, otherwise |"the blessing for the worlds|" would not have made such a plaint merely on an ordinary hurt. It should be noted that the present verse has been construed in different ways. The above translation is based on the construction adopted by Maulana Ashraf ` Ali Thanawi (رح) . Various other constructions are given in Ruh-ul-Ma` ani.

(آیت) وَقِيْلِهٖ يٰرَبِّ اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُوْنَ ۔ یہ جملہ اس بات کو واضح کرنے کے لئے لایا گیا ہے کہ ان کافروں پر غضب خداوندی نازل ہونے کے کتنے شدید اسباب موجود ہیں۔ ایک طرف تو ان کے جرائم فیہ نفسہ سخت ہیں، دوسری طرف وہ رسول جو رحمتہ للعالمین اور شفیع المذنبین بنا کر بھیجے گئے ہیں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب خود ان لوگوں کی شکایت کریں اور یہ فرمائش کہ یہ لوگ بار بار فہمائش کے باوجود ایمان نہیں لاتے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس قدر اذیت پہنچائی ہوگی، ورنہ معمولی تکلیف پر رحمت للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ سے ایسی پردرد شکایت نہ فرماتے۔ اس تفسیر کے مطابق وقیلہ ایک آیت پہلے کے لفظ الساعة پر معطوف ہے، اس آیت کی اور بھی متعدد تفسیریں کی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہاں واؤ عطف کی نہیں بلکہ قسم کی ہے۔ یا رب ” قیل “ کا مقولہ ہے اور ان ھولاء الخ جواب قسم ہے۔ ان تفسیروں کی تفصیل اہل علم روح المعانی وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقِيْلِہٖ يٰرَبِّ اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُوْنَ۝ ٨٨ ۘ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اس کو رسول اکرم کی اس درخواست کی بھی خبر ہے کہ اے پروردگار یہ لوگ تجھ پر اور قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے سو ان کے بارے جو کرنا ہے وہ کیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٨ { وَقِیْلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَ } ” اور قسم ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کی کہ اے میرے رب ! یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لا رہے۔ “ یہ اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کا انداز ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہاں نقل ہوا ہے کہ اے میرے پروردگار ! میری یہ قوم ہٹ دھرمی اور ضد پر اترآئی ہے۔ نہ تو یہ لوگ میری باتوں کو سنتے ہیں اور نہ ہی بطور نبی کے میری تصدیق کرنے کو تیار ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

70 This is one of the most difficult verses of the Qur'an as it involves the complicated syntactic question of the kind of waw that has been used in wa qil-i-hi. From the translation of Shah 'Abdul Qadir it appears that the waw here is not conjunctive but for taking oath, and is related to fa-anna yu'fakun, and the pronoun in gili-hi turns to the Holy Prophet of Allah. Therefore, the verse means this: "By this saying of the Messenger: `O my Lord, these arc a people who would not believe'": they are so utterly deluded that although they themselves admit that Allah alone is their Creator and Creator of their gods, yet they abandon the Creator and persist in worshipping His creatures." The object of swearing by this saying of the Messenger is that the conduct of the people clearly shows that they are, in fact, stubborn, for the foolishness of their attitude is apparent from their own admission, and such an irrational attitude can be adopted only by such a person, who is resolved not to believe. In other words, the oath implies: `The Messenger has rightly said so: indeed these people world not believe,"

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :70 یہ قرآن مجید کی نہایت مشکل آیات میں سے ہے جس میں نحو کا یہ نہایت پیچیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ : وَقِیْلِہ میں واؤ کیسا ہے اور اس لفظ کا تعلق اوپر سلسلہ کلام میں کس چیز کے ساتھ ہے ۔ مفسرین نے اس پر بہت کچھ کلام کیا ہے مگر کوئی تشفی بخش بات مجھے ان کے ہاں نہیں ملی ۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ صحیح بات وہی ہے جو شاہ عبدالقادر صاحب رحمہ اللہ کے ترجمے سے مترشح ہوتی ہے ، یعنی اس میں واؤ عطف کا نہیں بلکہ قسمیہ ہے ، اور اس کا تعلق : فَاَنّیٰ یُؤْفَکُوْنَ سے ہے ، اور قِیْلِہ کی ضمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرتی ہے جس پر : یَا رَبِّ اِنَّ ھٰٓؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَ کا فقرہ صریح دلالت کر رہا ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ : قسم ہے رسول کے اس قول کی کہ اے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے ، کیسی عجیب ہے ان لوگوں کی فریب خوردگی کہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور پھر بھی خالق کو چھوڑ کر مخلوق ہی کی عبادت پر اصرار کیے جاتے ہیں ۔ رسول کے اس قول کی قسم کھانے کا مدعا یہ ہے کہ ان لوگوں کی یہ روش صاف ثابت کیے دے رہی ہے کہ فی الواقع یہ ہٹ دھرم ہیں ، کیونکہ ان کے رویے کا غیر معقول ہونا ان کے اپنے اعتراف سے ظاہر ہے ، اور ایسا غیر معقول رویہ صرف وہی شخص اختیار کر سکتا ہے جو نہ ماننے کا فیصلہ کیے بیٹھا ہو ۔ بالفاظ دیگر یہ قسم اس معنی میں ہے کہ بالکل ٹھیک کہا رسول نے ، فی الواقع یہ مان کر دینے والے لوگ نہیں ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: یہ جملہ یہ واضح کرنے کے لیے لایا گیا ہے کہ ان کافروں پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہونے کے کتنے شدید اسباب موجود ہیں۔ ایک طرف تو ان کے جرائم بذات خود بڑے سخت ہیں، اور دوسری طرف حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو رحمۃ للعالمین اور شفیع المذنبین ہیں، وہ ان کی سفارش کے بجائے ان کی شکایت کریں تو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے آپ کو کتنی اذیتیں پہنچائی ہوں گی، ورنہ معمولی بات پر آپ جو سراپا رحمت ہیں ایسی پر درد شکایت نہ فرماتے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:88) وقیلہ۔ واؤ عاطفہ ہے قیلہ مضاف مضاف الیہ (قیل قول ہی کی طرح ہے اور مصدر ہے اور اس کے مرادف ہے اس کا عطف الساعۃ پر ہے یعنی اللہ کو قیامت کا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کا علم ہے کہ اے میرے رب مکہ کے یہ کافر ایمان نہیں لاتے ۔ بعض کے نزدیک یہ مجرور ہے اور حرف قسم مضمر ہے اور تقدیر کلام ہے واقسم بقیلہ معنی یہ ہوں گے مجھے اس کے (یعنی رسول کے) یہ کہنے کی قسم کہ اے رب یہ قوم ایمان نہیں لاتی۔ جواب قسم محذوف ہے ای لننصرنہ ہم ضرور اس کی (یعنی رسول کی) مدد کریں گے۔ یرب ان ھؤلاء قوم لا یؤمنون ۔ یہ مقولہ ہے۔ قیلہ کی تعریف : اے میرے پروردگار یہ ایسے لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی ہم پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس درد بھری شکایت کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ کافروں کے مقابلہ میں اس کی ضرور مدد کی جائیگی۔ یہ مطلب اس صورت میں ہے جب وقیلہ میں وائو کو قسمیہ مانا جائے۔ بعض مفسرین (رح) نے اسے برائے عطف مانتے ہوئے آیت کا تعلق ( وعندہ علم الساعۃ) سے قرار دیا ہے۔ یعنی اس کے پاس قیامت کا علم بھی ہے اور پیغمبر کے اس کہنے کا بھی کہ۔۔۔۔۔ واللہ اعلم ( ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٨٨ تا ٨٩ اس انداز تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فریاد دور رس ہے ، اس کے گہرے نتائج نکلنے والے ہیں ، اسے سن لیا گیا ، اور عالم بالا اس کے نتیجے میں کچھ عظیم اقدامات کر رہا ہے۔ لہٰذا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیں اور ان کی کاروائیوں اور ریشہ دوانیوں کی کوئی پرواہ نہ کریں ، مطمئن رہیں ، نہایت امن سلامتی اور شرافت کے ساتھ اپنی راہ پر چلتے رہیں ۔ اس میں بھی درپردہ ایمان نہ لانے والوں کو سخت دھمکی دی جارہی ہے۔ اس دن کے سلسلے میں جب سب چھپے ظاہر ہوں گے۔ “ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے درگزر کرو اور کہہ دو سلام ہے تمہیں ، عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا ”۔ ٭٭٭٭٭٭

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سورت کے ختم پر فرمایا ﴿وَ قِيْلِهٖ يٰرَبِّ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُوْنَۘ٠٠٨٨﴾ اس میں لفظ قیلہ قول سے لیا گیا ہے یعنی قاف کے کسرہ کی وجہ سے واؤ یا سے بدل گیا ہے حضرت امام عاصم کی قرات میں وَ قِيْلِهٖ جر کے ساتھ ہے کہ ضمیر مجرور مضاف الیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح راجع ہے صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ یہ ﴿ وَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ﴾ میں لفظ ﴿السَّاعَةِ ﴾ (مضاف الیہ مجرور) ہے اس پر عطف ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قیامت کے وقت کا بھی علم ہے اور وہ اپنے رسول کی اس بات کو بھی جانتا ہے کہ جو انہوں نے اپنے مخاطبین کا حال بتاتے ہوئے عرض کیا کہ اے میرے رب یہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

51:۔ ” وقیلہ “ واؤ بمعنی ” رُبَّ “ ہے یعنی بہت بار پیغمبر (علیہ السلام) کا یہ کلمہ کہنا ہوا ” ان ھؤلاء قوم لا یؤمنون “ مشرکین کے ایمان سے مایوس ہو کر آپ سے اللہ کی مشرکین کی شکایت کر تھے کہ میرے پروردگار یہ قوم ایسی سرکش ہوچکی ہے کہ اب وہ ایمان نہیں لائیگی۔ قال ابن عباس شکا الی اللہ تعالیٰ تخلف قوما عن الایمان وقال قتادۃ ھذا نبیکم یشکوا قومہ الی ربہ (خازن ج 6 ص 191) ۔ حضرت شیخ (رح) فرماتے ہیں قسم ہے اس کے کہنے کی یعنی، اس کے یہ کہنے اور دعاء مانگنے کے سبب سے میں ان کو سزا دوں گا۔ تائید : ” فدعا ربہ ان ھؤلاء قوم مجرمون “ یا واؤ قسمیہ ہے اور ان ” ھؤلاء قوم الخ “ جواب قسم ہے یعنی مجھے پیغمبر کے ” یارب “ کہنے اور مجھ سے دعاء مانگنے کی قسم یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے اور پیغمبر (علیہ السلام) کی دعا کی وجہ سے میں انہیں سزا دوں گا۔ کانہ قیل واقسم بقیلہ یا رب، ان ھؤلایؤمنون (مدارک) ۔ ” فاصفح عنہم الخ “ اس میں مشرکین سے اعراض کرنے اور ضمنًا بد دعا نہ کرنے کا حکم ہے، گویا وہ اپنے اعمال کی وجہ سے عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں بد دعا کرنے کی ضرورت ہی نہیں، عنقریب ہی وہ اپنا انجام بد دیکھ لیں گے۔ چناچہ جلد ہی جنگ بدر میں انہوں نے اپنا انجام دیکھ لیا۔ اور سلام سے سلام متارکت مراد ہے جو تمام تعلقات منقطع کرلینے پر دلالت کرتا ہے۔ امرہ بان یصفح عنہم وفی ضمنہ منعہ من ان یدعو علیہم بالعذاب والصفح ھو الاعراض ثم قال وقل سلام قال سیبویہ انما معناہ المتارکۃ (کبیر ج 7 ص 462) ۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔ سورة زخرف میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1 ۔ ” ولئن سالتہم “ تا ” ماترکبون “ (رکوع 1) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 2 ۔ ” وجعلوا لہ من عبادہ جزءا “ تا ” وانا علی اثارہم مھتدون “ (رکوع 2) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 3 ۔ ” واذ قال ابراہیم “ تا ” لعلہم یرجعون “ (رکوع 3) نفی شرک فی العبادۃ والدعاء۔ 4 ۔ ” واسئل من ارسلنا من قبلک من رسلنا۔ الایۃ “ (رکوع 4) ۔ کسی پیغمبر کی شریعت میں غیر اللہ کی عبادت اور پکار کو جائز نہیں رکھا گیا۔ 5 ۔ ” ان اللہ ربی و ربکم فاعبدوہ، ھذا صراط مستقیم “ (رکوع 6) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم یہ تھی کہ صرف اللہ کی عبادت کرو، انہوں نے اپنی عبادت کا حکم نہیں دیا تھا۔ 6 ۔ ” وھو الذی فی السماء الہ “ تا ” والیہ ترجعون “ (رکوع 7) ۔ نفی شرک فی العبادۃ والتصرف ونفی شرک فی العلم۔ 7 ۔ ” ولا یملک الذین یدعون من دونہ۔ الایۃ “ (رکوع 7) ۔ نفی شفاعت قہریہ ونفی شفاعت بحق مشرکین۔ سورة زخرف ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(88) اور قسم ہے رسول کے اس کہنے کی کہ اے میرے پروردگار یہ کفار قریش ایک ایسی قوم ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔