70 This is one of the most difficult verses of the Qur'an as it involves the complicated syntactic question of the kind of waw that has been used in wa qil-i-hi. From the translation of Shah 'Abdul Qadir it appears that the waw here is not conjunctive but for taking oath, and is related to fa-anna yu'fakun, and the pronoun in gili-hi turns to the Holy Prophet of Allah. Therefore, the verse means this: "By this saying of the Messenger: `O my Lord, these arc a people who would not believe'": they are so utterly deluded that although they themselves admit that Allah alone is their Creator and Creator of their gods, yet they abandon the Creator and persist in worshipping His creatures." The object of swearing by this saying of the Messenger is that the conduct of the people clearly shows that they are, in fact, stubborn, for the foolishness of their attitude is apparent from their own admission, and such an irrational attitude can be adopted only by such a person, who is resolved not to believe. In other words, the oath implies: `The Messenger has rightly said so: indeed these people world not believe,"
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :70
یہ قرآن مجید کی نہایت مشکل آیات میں سے ہے جس میں نحو کا یہ نہایت پیچیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ : وَقِیْلِہ میں واؤ کیسا ہے اور اس لفظ کا تعلق اوپر سلسلہ کلام میں کس چیز کے ساتھ ہے ۔ مفسرین نے اس پر بہت کچھ کلام کیا ہے مگر کوئی تشفی بخش بات مجھے ان کے ہاں نہیں ملی ۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ صحیح بات وہی ہے جو شاہ عبدالقادر صاحب رحمہ اللہ کے ترجمے سے مترشح ہوتی ہے ، یعنی اس میں واؤ عطف کا نہیں بلکہ قسمیہ ہے ، اور اس کا تعلق : فَاَنّیٰ یُؤْفَکُوْنَ سے ہے ، اور قِیْلِہ کی ضمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرتی ہے جس پر : یَا رَبِّ اِنَّ ھٰٓؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَ کا فقرہ صریح دلالت کر رہا ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ :
قسم ہے رسول کے اس قول کی کہ اے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے ، کیسی عجیب ہے ان لوگوں کی فریب خوردگی کہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور پھر بھی خالق کو چھوڑ کر مخلوق ہی کی عبادت پر اصرار کیے جاتے ہیں ۔
رسول کے اس قول کی قسم کھانے کا مدعا یہ ہے کہ ان لوگوں کی یہ روش صاف ثابت کیے دے رہی ہے کہ فی الواقع یہ ہٹ دھرم ہیں ، کیونکہ ان کے رویے کا غیر معقول ہونا ان کے اپنے اعتراف سے ظاہر ہے ، اور ایسا غیر معقول رویہ صرف وہی شخص اختیار کر سکتا ہے جو نہ ماننے کا فیصلہ کیے بیٹھا ہو ۔ بالفاظ دیگر یہ قسم اس معنی میں ہے کہ بالکل ٹھیک کہا رسول نے ، فی الواقع یہ مان کر دینے والے لوگ نہیں ہیں ۔