Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 13

سورة الدخان

اَنّٰی لَہُمُ الذِّکۡرٰی وَ قَدۡ جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۙ۱۳﴾

How will there be for them a reminder [at that time]? And there had come to them a clear Messenger.

ان کے لئے نصیحت کہاں ہے؟ کھول کھول کر بیان کرنے والے پیغمبر ان کے پاس آچکے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَّجْنُونٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

انی لھم الذکری وقد جآء ھم رسول مبین …: یعنی انھیں دھوئیں کے عذاب کی دلیل سے نصیحت کیسے ہوگی جب کہ ان کے پاس اس سے بہت ہی بڑی دلیل پہلے آچکی اور وہ ہے رسول مبین، جس کا رسول ہونا بالکل واضح ہے اور جس نے ہر بات کھول کر بیان کردی ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے منہ موڑ لیا اور کہنے لگے کہ یہ کسیک ا سکھایا ہوا ہے، دیوانہ ہے۔” ثم “ (پھر) کا لفظ ان کے حال پر تعجب کے اظہار کے لئے ہے کہ رسول مبین کا آنا اس قدر واضح اور روشن نشانی تھی کہ اسے نہ ماننے کی گنجائش ہی نہ تھی، پھر بھی انہوں نے اس پر معلم اور مجنون کا بہتان لگا کر ایمان لانے سے اناکر کردیا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے کلام مختصر کردیا ہے، ورنہ یہ ایک شخص یا ایک مجلس کی بات نہیں بلکہ کسی شخص نے معلم کہا اور کسی نے مجنون، کسی مجلس میں ایک تہمت جڑی گئی تو کسی میں دوسری۔ کفار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ تہمت لگاتے تھے کہ کوئی آدمی آپ کو یہ قرآن سکھا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمایا۔ (دیکھیے نحل :103 ۔ فرقان : ٤ تا ٦) انھیں اس شخص کو دیوانہ کہتے ہوئے حیا نہیں آتی تھی جو اس سے پہلے چالیس برس ان میں رہا اور وہ اسے صادق اور امین کہتے رہے۔ پھر وہ ایسیک تاب لے کر آیا جس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کا جواب لانے سے بھی وہ عاجز رہے اور رہیں گے۔ بھلا دیوانے ایسے ہوتے ہیں ! ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَنّٰى لَہُمُ الذِّكْرٰى وَقَدْ جَاۗءَہُمْ رَسُوْلٌ مُّبِيْنٌ۝ ١٣ ۙ أنى أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين «4» ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران/ 37] ، أي : من أين، وكيف . ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ { أَنَّى لَكِ هَذَا } ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ مبینبَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

حالانکہ ان کے پاس رسولا کرم تشریف لاچکے ہیں جو ان کو ایسی زبان میں سمجھاتے ہیں جسے یہ سمجھتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ { اَنّٰی لَہُمُ الذِّکْرٰی وَقَدْ جَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ } ” کہاں ہے ان کے لیے یاد دہانی کی استعداد ‘ جبکہ آچکا ہے ان کے پاس ایک واضح کردینے والا رسول ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 Rasul-i-mubin has two meanings: (1) His being a Messenger is quite evident from his character, his morals and his works; and (2) he has made every effort to make the truth plain and clear.

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :11 رسولِ مُبین کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا رسول ہونا اس کی سیرت ، اس کے اخلاق و کردار اور اس کے کارناموں سے بالکل عیاں ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس نے حقیقت کو کھول ، کھول کر بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:13) انی لہم الذکری : انی اسم ظرف ہے زمان و مکان دونوں کے لئے آتا ہے ظرف زمان ہو تو بمعنی متی (جب ، جس وقت) ظرف مکان ہو تو بمعنی این (جہاں، کہاں) اور استفہامیہ ہو تو بمعنی کیف (کیسے، کیونکر) آتا ہے۔ الذکری نصیحت کرنا۔ ذکر کرنا۔ یاد۔ پند۔ موعظت۔ یہ ذکر یذکر (باب نصر) کا مصدر ہے۔ کثرت ذکر کے لئے ذکری بولا جاتا ہے یہ ذکر سے زیادہ بلیغ ہے۔ یہاں مراد ایمان ہے۔ ایمان کا ذکری سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں ایمان پیدا ہوتا ہے اس علم بیان میں تسمیۃ الشیء باسم سببہ کہتے ہیں ان لہم الذکر ان کے لئے ایمان کیونکر ۔ یہ استفہام انکاری ہے مطلب یہ کہ ان کے لئے ایمان نہیں ہے (اس چھوٹی سی بات پر ایمان ان کے نصیب میں کہاں یہ اس سے بڑھ کر نشانیاں دیکھ چکے ہیں اور ایمان نہیں لائے) وقد جاء ہم رسول مبین۔ جملہ حالیہ ہے : حالانکہ اس سے پہلے ان کے پاس کھول کر بیان کرنے والا پیغمبر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیا۔ (لیکن انہوں نے اس کی نصیحت کو نہ مانا اور نہ ایمان لائے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” انی لہم الذکری “ مشرکین کے نفاق اور ان کی دروغ گوئی کا بیان ہے۔ یعنی وہ جھوٹا عہد کر رہے ہیں اس سے ان کا مقصود صرف عذاب ہٹوانا ہے۔ صرف اتنی سی بات سے وہ کس طرح نصیحت حاصل کریں گے حالانکہ ان کے پاس مسئلہ توحید کو کھول کھول کر بیان کرنے والا رسول آچکا ہے۔ وہ اس کے وعظ و ارشاد سے متاثر نہیں ہوئے، بلکہ اس سے اعراض کیا اور کبھی کہتے ہیں وہ کسی سے سیکھ کر آتا ہے اور کبھی اسے دیوانہ کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں ہی غلط ہیں۔ ایسے معاندین سے راہ راست پر آنے کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ ” انا کاشفوا العذاب “ اچھا ہم کچھ وقت کے لیے عذاب اٹھا لیتے ہیں لیکن تم حسب وعدہ ایمان نہیں لاؤ گے، بلکہ کفر ہی پر قائم رہو گے، چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاء سے بارش ہوئی اور قحط دور ہوگیا، لیکن مشرکین ایمان نہ لائے۔ ” یوم نبطش الخ “ یہ دنیوی عذاب کے آخری فیصلے کا اعلان ہے اور اس سے یوم بدر کا عذاب مراد ہے۔ (مدارک، بحر وغیرہ) یعنی بدر کے دن جب ہم ان کو بڑی سخت گرفت میں لیں گے اس دن ان سے انتقام لے کر چھوڑیں گے۔ ” یوم نبطش “ کا ناصب مقدر ہے۔ ای ننتقم جس پر انا منتقمون قرینہ ہے۔ یوم نبطش ظرف لفعل دل علیہ انا منتقمون (بیضاوی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) ان کو نصیحت کہاں ملے اور بھلا ان کو نصیحت کہاں ہوتی ہے حالانکہ ان کے پاس ایک رسول آچکا جس کی شان رسالت نمایاں ہے ایسارسول جو صاف صاف بیان کرنے والا ہے۔ یعنی ان کو نصیحت کہاں میسرہوسکتی ہے جن کی حالت یہ ہے کہ ان کے پاس ایک ایسا رسول آیا جو واضح البیان اور اپنی شان میں نمایاں اور ظاہر ہے۔