Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 20

سورة الدخان

وَ اِنِّیۡ عُذۡتُ بِرَبِّیۡ وَ رَبِّکُمۡ اَنۡ تَرۡجُمُوۡنِ ﴿۫۲۰﴾

And indeed, I have sought refuge in my Lord and your Lord, lest you stone me.

اور میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں اس سے کہ تم مجھے سنگسار کر دو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And truly, I seek refuge with my Lord and your Lord, lest you should stone me. Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, and Abu Salih said, "This refers to a verbal assault, which means insults." Qatadah said, "Meaning `stoning' in the literal sense, so that the meaning is: `I seek refuge with Allah, Who created me and you, from your making any harmful words or actions reach me."' وَإِنْ لَّمْ تُوْمِنُوا لِي فَاعْتَزِلُونِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 اس دعوت و تبلیغ کے جواب میں فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کی دھمکی دی، جس پر انہوں نے اپنے رب سے پناہ طلب کی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] فرعون کا سیدنا موسیٰ کو قتل کرنے کا ارادہ :۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اندر ہی اندر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت پھیل رہی تھی۔ بنی اسرائیل کے علاوہ قوم فرعون کے بھی بہت سے آدمی درپردہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لاچکے تھے اور فرعون کو اپنی سلطنت کے چھن جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا اور اس نے اپنے درباریوں سے اور قوم کے لوگوں سے کہا تھا کہ && مجھے چھوڑو میں موسیٰ کو قتل کئے دیتا ہوں ورنہ وہ تمہارا دین بھی تباہ کر دے گا اور ملک میں سخت بدامنی پھیلا دے گا && اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اپنے پروردگار کی پناہ میں آچکا ہوں۔ لہذا تم میرا بال بھی بیکا نہ کرسکو گے۔ مجھے رجم کرنا تو دور کی بات ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وانی عذت بربی و ربکم ان ترجمون، یہ اس وقت کی بات ہے جب موسیٰ کی دعوت اندر ہی اندر دور تک پھیل گئی، حتیٰ کہ فرعون کی قوم کے کئی آدمی بھی پوشیدہ طور پر ان پر ایمان لے آئے، اس وقت فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ فرعونیوں کا ارادہ انھیں سنگسار کر کے بدترین طریقے سیق تل کرنے کا ہے، تو اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں اس بات سے اپنے اور تمہارے رب کی پناہ پکڑتا ہوں کہ تم مجھے سنگسار کرو، کیونکہ وہ میرا ہی نہیں تمہارا بھی مالک ہے، تم اس سے زبردست ہو کر مجھے رجم نہیں کرسکتے۔ سورة مومن (27, 26) میں فرعون کے قتل کے اعلان اور موسیٰ علیہ کی دعا اور اللہ کی پناہ میں جانے کا مفصل ذکر ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَإِنِّي عُذْتُ بِرَ‌بِّي وَرَ‌بِّكُمْ أَن تَرْ‌جُمُونِ |"And I have sought refuge with my Lord and your Lord, lest you stone me to death. (44:20) |" The word rajm means &to stone to death&. Another meaning of the word is &to revile or to make a verbal assault or to heap up insults&. Both senses are possible here, but it seems more likely that the word is used here in the sense of stoning to death, because Fir&aun&s people must have been threatening Prophet Musa (علیہ السلام) with death.

معارف و مسائل (آیت) وَاِنِّىْ عُذْتُ بِرَبِّيْ وَرَبِّكُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنِ (میں اپنے پروردگار اور تمہارے پروردگار کی پناہ لیتا ہوں اس سے کہ تم مجھے رجم کرو) رجم کے معنی سنگسار کرنے یعنی پتھر مار مار کردینے کے بھی آتے ہیں اور کسی کو گالی دینے اور برا بھلا کہنے کے بھی۔ یہاں دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں لیکن راجح یہ ہے کہ یہاں سنگسار کرنے کے معنی مراد ہیں کیونکہ فرعون کی قوم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل وغیرہ کی دھمکیاں دے رہی ہوگی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنِّىْ عُذْتُ بِرَبِّيْ وَرَبِّكُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنِ۝ ٢٠ ۡ عوذ العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ع و ذ) العوذ ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ رجم الرِّجَامُ : الحجارة، والرَّجْمُ : الرّمي بالرِّجَامِ. يقال : رُجِمَ فهو مَرْجُومٌ ، قال تعالی: لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء/ 116] ، أي : المقتولین أقبح قتلة، وقال : وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود/ 91] ، إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] ، ويستعار الرّجم للرّمي بالظّنّ ، والتّوهّم، وللشّتم والطّرد، نحو قوله تعالی: رَجْماً بِالْغَيْبِ وما هو عنها بالحدیث المرجّم «7» وقوله تعالی: لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] ، أي : لأقولنّ فيك ما تكره والشّيطان الرَّجِيمُ : المطرود عن الخیرات، وعن منازل الملإ الأعلی. قال تعالی: فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل/ 98] ، وقال تعالی: فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر/ 34] ، وقال في الشّهب : رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک/ 5] ( ر ج م ) الرجام ۔ پتھر اسی سے الرجیم ہے جس کے معنی سنگسار کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رجمۃ ۔ اسے سنگسار کیا اور جسے سنگسار کیا گیا ہوا سے مرجوم کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء/ 116] کہ تم ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] کیونکہ تمہاری قوم کے لوگ تمہاری خبر پائیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ پھر استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان تو ہم ، سب وشتم اور کسی کو دھتکار دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے رَجْماً بِالْغَيْب یہ سب غیب کی باتوں میں اٹکل کے تکے چلاتے ہیں ۔ (176) ، ، وماھو عنھا بالحدیث المرکم ، ، اور لڑائی کے متعلق یہ بات محض انداز سے نہیں ہے ۔ اور شیطان کو رجیم اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ خیرات اور ملائم اعلیٰ کے مراتب سے راندہ ہوا ہے قرآن میں ہے :۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل/ 98] تو شیطان مردود کے وسواس سے خدا کی پناہ مانگ لیاکرو ۔ فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر/ 34] تو بہشت سے نکل جا کہ راندہ درگاہ ہے ۔ اور شھب ( ستاروں ) کو رجوم کہا گیا ہے قرآن میں ہے :۔ رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک/ 5] ان کی شیاطین کے لئے ایک طرح کا زوبنایا ہے ۔ رجمۃ ورجمۃ ۔ قبر کا پتھر جو بطور نشان اس پر نصب کیا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠۔ ٢١) اور میں اپنے پروردگار کی اور تمہارے پروردگار کی پناہ حاصل کرتا ہوں اس سے کہ تم لوگ مجھے قتل کرو اور اگر تم میری رسالت کی تصدیق نہیں کرتے تو مجھ سے علیحدہ رہو۔ لالی ولا علی

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ { وَاِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنِ } ” اور میں نے پناہ پکڑ لی ہے اپنے اور تمہارے رب کی اس بات سے کہ تم مجھے سنگسار کرو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی دعوت کے جواب میں قتل کی دھمکیاں دی تھیں۔ یہ ان کا جواب ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:20) عذت۔ ماضی واحد متکلم عذت اصل میں عوذت تھا۔ عوذ باب نصر مصدر سے َ واؤ متحرک ماقبل مفتوح واؤ کو الف سے بدلا گیا۔ الف اجتماع ساکنین کی وجہ سے گرگیا ، پھر واؤ کی رعایت سے عین کو ضمہ دیا۔ میں نے پناہ لی۔ میں نے پناہ پکڑی میں نے پناہ مانگی۔ وربکم ای وبربکم (میں نے پناہ لے لی) اپنے رب کی اور تمہارے رب کی۔ ان ترجمون : ان مصدریہ۔ ترجمون اصل میں ترجموننی تھا۔ ترجمون مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ رجم (باب نصر) مصدر۔ سنگسار کرنا۔ نون وقایہ اور ی ضمیر واحد متکلم۔ محذوف ہے۔ کہ تم مجھے سنگسار کر، ترجمون سے مراد پتھر مارنا بھی ہے اور بدکلامی کرنا بھی۔ رجم باب نصرپتھر برسانا۔ الرجام پتھر کو کہتے ہیں ۔ لیکن استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان۔ تو ہم۔ سب وشتم، اور کسی کو دھتکارنا کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلا اور جگہ قرآن مجید میں ہے رجما بالغیب (18:22) یہ سب غیب کی باتوں میں اٹکل کے تکے چلاتے ہیں۔ یا فاخرج منھا فانک رجیم (38:77) تو بہشت سے نکل جا کہ تو راندہ درگاہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آچکا ہوں جو میرا ہی نہیں تمہارا بھی مالک ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں۔ شاید وہ ڈراتے ہونگے اس سے ( موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” وانی عذت “ اس سے پہلے ادماج ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا سرکشی نہ کرو تو انہوں نے ان کو قتل کرنے کی دھمکی دی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا۔ میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ لیتا ہوں کہ تم مجھے سنگسار کرسکو۔ مطلب یہ ہے کہ میں اپنے رب کی حفاظت میں ہوں۔ تم مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتے۔ لما قال ان لا تعلوا علی اللہ، توعدوہ بالقتل، فقال ذلک (روح) وان لم تؤمنوا الخ اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے ہو تو مجھ سے الگ ہوجاؤ اور میرے ساتھ کوئی سر و کار نہ رکھو اور میری ایذاء رسانی سے باز آجاؤ یہانتک کہ اللہ تعالیٰ خود ہی حق و باطل کا فیصلہ فرما دے۔ کیا ایک ناصح مہربان کی یہی جزا ہے کہ اسے ستایا جائے کونوا بمعزل منی وانا بمعزل منکم الی ان یحکم اللہ بیننا (قرطبی ج 16 ص 135) ولا تتعرضوا لی بشرکم واذاکم فلیس جزاء من دعا کم الی ما فیہ فلاحکم ذلک (مدارک ج 4 ص 98) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) اور میں اپنے پروردگار اور تمہارے پروردگار کی اس بات سے پناہ پکڑتا ہوں کہ تم مجھ کو سنگسار کرو۔ تمہارا اور میرا پروردگار یعنی جو حقیقتاً ایک ہی ہے یہ اس لئے فرمایا کہ وہ موسیٰ کے رب کو اپنا رب نہیں سمجھتے تھے بلکہ فرعون کو رب کہا کرتے تھے۔ رحم اور سنگساری کا مطلب یہ ہے کہ تم مجھ کو قتل کرو اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتا ہوں کہ تم کو مجھ پر قابو حاصل ہوسکے اور پتھروں سے مار کر یا کسی اور طریقے سے قتل کردو جیسا کہ سورة مومن کے تیسرے رکوع میں گزر چکا ہے۔ ذرونی اقتل موسیٰ ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں شاید وہ ڈراتے ہوں گے اس سے۔