Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 23

سورة الدخان

فَاَسۡرِ بِعِبَادِیۡ لَیۡلًا اِنَّکُمۡ مُّتَّبَعُوۡنَ ﴿ۙ۲۳﴾

[ Allah said], "Then set out with My servants by night. Indeed, you are to be pursued.

۔ ( ہم نے کہہ دیا ) کہ راتوں رات تو میرے بندوں کو لے کر نکل یقیناً تمہارا پیچھا کیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Depart you with My servants by night. Surely, you will be pursued. This is like the Ayah: وَلَقَدْ أَوْحَيْنَأ إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِى فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِى الْبَحْرِ يَبَساً لاَّ تَخَافُ دَرَكاً وَلاَ تَخْشَى And indeed We revealed to Musa (saying): Travel by night with My servants and strike a dry path for them in the sea, fearing neither to be overtaken nor being afraid (of drowning in the sea). (20:77) وَاتْرُكْ الْبَحْرَ رَهْوًا إِنَّهُمْ جُندٌ مُّغْرَقُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 چناچہ اللہ نے دعا قبول فرمائی اور انہیں حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو راتوں رات لے کر یہاں سے نکل جاؤ اور دیکھو ! گھبرانا نہیں، تمہارا پیچھا بھی ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] سیدنا موسیٰ کو ہجرت کا حکم اور تعاقب کی خبر :۔ بنی اسرائیل تو سب کے سب ہی آپ پر ایمان لاچکے تھے۔ گو ان میں سے اکثر اپنے ایمان کو فرعون کی ایذارسانی کے خوف سے ظاہر نہیں کر رہے تھے۔ ان کے علاوہ کچھ لوگ قوم فرعون کے بھی آپ پر ایمان لاچکے تھے۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ ان سب ایمانداروں کو ساتھ لے کر خفیہ طریقے سے مصر سے ہجرت کر جائیں۔ یہ لوگ ایک لاکھ سے زائد نفوس تھے۔ چناچہ آپ نے خفیہ طریقہ سے سب کو ہجرت کا پیغام پہنچایا اور وقت اور جگہ بھی مقرر کردی گئی جہاں وہ سب اکٹھے ہو کر ہجرت کے لیے روانہ ہوں گے۔ ساتھ ہی سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ اطلاع بھی دے دی گئی کہ فرعون اور آل فرعون تمہارا تعاقب کریں گے۔ لہذا یہ ہجرت کا سفر چاک و چوبند رہ کر اور ہر احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرنا ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فاسر بعبادی لیلاً …: موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی اور حکم ہوا کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے کر نکل جاؤ، تاکہ فرعون کو فوری خبر نہ ہو سکے اور یاد رکھو ! تمہارا تعاقب کیا جائے گا، اس لئے تمہیں ہجرت کا یہ سفر پوری احتیاط کے ساتھ ہوشیار رہ کر کرنا ہوگا۔ (٢) ” بعبادی “ (میرے بندوں) سے مراد بنی اسرائیل ہیں اور ان کے ساتھ قبطیوں کے وہ لوگ بھی جو ایمان لا چکے تھے۔ اس واقعہ کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة شعراء (٥٢ تا ٦٨ ) ، یونس (٨٨ تا ٩٢) اور سورة طہ (٧٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَسْرِ بِعِبَادِيْ لَيْلًا اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ۝ ٢٣ ۙ سری السُّرَى: سير اللّيل، يقال : سَرَى وأَسْرَى. قال تعالی: فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود/ 81] ، وقال تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء/ 1] 232- بسرو حمیر أبوال البغال به «1» فأسری نحو أجبل وأتهم، وقوله تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ [ الإسراء/ 1] ، أي : ذهب به في سراة من الأرض، وسَرَاةُ كلّ شيء : أعلاه، ومنه : سَرَاةُ النهار، أي : ارتفاعه، وقوله تعالی: قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا[ مریم/ 24] أي : نهرا يسري «2» ، وقیل : بل ذلک من السّرو، أي : الرّفعة . يقال، رجل سَرْوٌ. قال : وأشار بذلک إلى عيسى عليه السلام وما خصّه به من سروه، يقال : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي، أي : نزعته، وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس «3» ، وقیل : ومنه : رجل سَرِيٌّ ، كأنه سَرَى ثوبه بخلاف المتدثّر، والمتزمّل، والزّمّيل «4» ، وقوله : وأَسَرُّوهُ بِضاعَةً [يوسف/ 19] ، أي : خمّنوا في أنفسهم أن يحصّلوا من بيعه بضاعة، والسَّارِيَةُ يقال للقوم الذین يَسْرُونَ باللیل، وللسّحابة التي تسري، وللأسطوانة . ( س ر ی و ) السریٰ کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں اور اس معنی میں سریٰ ( ض ) واسریٰ ( افعال ) دونوں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود/ 81] تو کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو ۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء/ 1] ( وہ ذات ) پاک ) ہے جو ایک رات اپنے بندے کو لے گیا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اسریٰ ( باب افعال ) سریٰ یسری سے نہیں ہے ۔ جس کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں بلکہ یہ سراۃ سے مشتق ہے جس کے معنی کشادہ زمین کے ہیں ۔ اور اصل میں اس کے لام کلمہ میں واو ہے اور اسی سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط ) بسرو حمیر أبوال البغال بهحمیر کی کشادہ زمین میں جہاں خچروں کا پیشاب یعنی کہ سراب نظر آتے ہیں ۔ پس اسری کے معنی کشادہ زمین چلے جانا ہیں ۔ جیسے اجبل کے معنی ہیں وہ پہاڑ پر چلا گیا اور اتھم کے معنی ، وہ تہامہ میں چلا گیا ۔ لہذا آیت ؛۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ [ الإسراء/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو وسیع اور کشادہ سر زمین میں لے گیا ۔ نیز سراۃ ہر چیز کے افضل اور اعلیٰ حصہ کو بھی کہتے ہیں ۔ اسی سے سراۃ النھار ہے جس کے معنی دن کی بلندی کے ہیں ۔ اور آیت : قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا [ مریم/ 24] تمہارے پروردگار نے تمہارے سے نیچے ایک چشمہ پیدا کردیا ہے میں سری سے نہر جاری مراد ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ سرو سے مشتق ہے جس کے معنی رفعت کے ہیں اور بلند قدر آدمی کو رجل سرو ۔ کہا جاتا ہے تو لفظ سری سے عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے اس شرف کی طرف اشارہ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں خاص طور پر نوازا تھا ۔ محاورہ ہے : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي : میں نے اپنے اوپر سے کپڑا اتار دیا ۔ وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس : میں گھوڑے سے جھول اتار دیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسی سے رجل سری ۔ ہے کیونکہ بلند قدر آدمی ہوشیار رہتا ہے گویا وہ کپڑے اتارے ہوئے ہے اسکے برعکس کاہل سست اور ناتوان آدمی کو متدثر متزمل اور زمیل وغیرہ کہا جاتا ہے گویا وہ اپنے کپڑوں میں لپٹا پڑا ہے اور الساریۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جو رات کو سفر کرتی ہو اور اس کے معنی رات کے بادل اور ستون بھی آتے ہیں ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣{ فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلًا اِنَّکُمْ مُّتَّبَعُوْنَ } ” پس میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جائو ‘ آگاہ رہو کہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21 "With my servants": with aII those people who have believed, including both the Israelites and the Egyptian Copts who had become Muslims since the time of the Prophet Joseph till that of the Prophet Moses, and those also who had been influenced by the Signs shown by Moses and His preaching and accepted Islam from among the Egyptians. (For explanation, see Surah Yusuf: E.N. 68). 22 This was the initial command given to the prophet Moses for the migration. (For explanation, see Ta-Hit: 77, Ash-Shu'ara': 52-68 arid the corresponding E.N.'s).

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :21 یعنی ان سب لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں ان میں بنی اسرائیل بھی تھے اور مصر کے وہ قبطی باشندے بھی جو حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آمد تک مسلمانوں میں شامل ہو چکے تھے ، اور وہ لوگ بھی جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نشانیاں دیکھ کر اور آپ کی دعوت و تبلیغ سے متاثر ہو کر اہل مصر میں سے اسلام قبول کیا تھا ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ تفہیم القرآن جلد دوم ، یوسف ، حاشیہ٦۸ ) سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :22 یہ ابتدائی حکم ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہجرت کے لیے دیا گیا تھا ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، طہ ، حاشیہ ۵۳ ، الشعراء ، حواشی ۳۹ تا ٤۷ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:23) فاسر بعبادی لیلا : ای فقال اللّٰہ ان کان الامر کذلک فاسر بعبادی لیلا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر یہ بات ہے تو میرے بندوں کو لے کر راتوں رات چل نکلو۔ اس میں ان کان الامر کذلک جملہ شرط محذوف ہے۔ فاسر میں ف جواب شرط ہے۔ اور اسر فعل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ اسراء (افعال) مصدر سے جس کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں ب کے تعدیہ کے ساتھ بمعنی کسی کو لے کر رات کے وقت چلنا۔ یا کسی کو رات کے وقت لیجانا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی (17:1) بعبادی ب تعدیہ کے لئے ہے۔ عبادی مضاف مضاف الیہ۔ میرے بندے۔ لیلا رات کو۔ مفعول فیہ۔ پاک ہے وہ ذات جو ایک رات میں اپنے بندے کو مسجد حرام (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصی تک لے گئی۔ انکم متبعون : تمہارا ضرور تعاقب کیا جائے گا : ای یتبعکم فرعون و جنودہ اذا علموا بخروجکم یہ علت ہے اسر بعبادی کی۔ یعنی جب وہ تمہارے نکل جانے کی خبر پائیں گے تو فرعون اور اس کی فوج ضرور تمہارا تعاقب کرے گی۔ متبعون اسم مفعول جمع مذکر متبع واحد اتباع (افتعال) مصدر۔ متبع وہ شخص جس کا پیچھا کیا جائے۔ یا جس کی پیروی کی جائے۔ اس جگہ اول الذکر مراد ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کے بارے میں موسیٰ (علیہ السلام) کی بدعا قبول فرمائی اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ یاد رہے کہ ہجرت معمولی کام نہیں کہ پیغمبر کا دل اکتائے اور وہ اپنی قوم کو چھوڑ کر کہیں اور چلاجائے۔ یہ مشکل ترین کام ہے جسے انتہائی مشکل ترین حالات میں کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس پیغمبر کو بھی ہجرت کی اجازت دی گئی اس کے حالات اتنے پرکٹھن تھے کہ پیغمبر کا مزید وہاں رہنا سود مند نہیں تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبروں کو ہجرت کرنے کی اجازت دی جاتی تھی۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مصر سے ہجرت کرنے کی اجازت عطا فرمائی اور یہ ہدایت کی کہ رات کے وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکل جاؤ لیکن یاد رکھنا کہ تمہارا تعاقب ضرور کیا جائے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہجرت کی اجازت ملنے پر اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ پوری احتیاط کے ساتھ فلاں دن اور فلان وقت سمندر کے فلاں مقام پر پہنچ جائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مصر کی سرزمین چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق ان کے ساتھی ہر شہر اور علاقے سے نکل کر سمندر کے اس مقام پر پہنچے جس کی انہیں نشاندہی کی گئی تھی۔ جن کی تعداد مؤرخین نے ایک لاکھ کے قریب بتلائی ہے اتنی تعداد میں مختلف شہروں اور علاقوں سے لوگوں کا اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلنا اور ایک ہی مقام کی طرف رخ کرنا زیادہ دیر تک کس طرح خفیہ رہ سکتا تھا۔ ہجرت کرنے والوں نے بیشک پوری احتیاط کی۔ لیکن فرعون کی ایجنسیاں ان پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھیں۔ جونہی انہوں نے فرعون تک اطلاع پہنچائی تو فرعون نے انتظامیہ کو ان الفاظ میں حکم جاری کیا کہ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں۔ جنہوں نے ہمیں بہت غصہ دلادیا ہے اور ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کا شیوہ ہر وقت چوکس رہنا ہے۔ (الشعراء : ٥٤ تا ٥٦) فرعون کے حکم کے مطابق انتظامیہ کے لوگ اور بڑے بڑے لیڈر اپنے گھروں سے نکل کر اجتماعی شکل میں بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے ہیں۔ ان کے نکلنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے انھیں ان کے باغات، چشموں، خزانوں اور عمدہ مکانوں سے نکالا اور اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو ان چیزوں کا وارث بنایا۔ فرعون نے بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے وقت سرکاری طور پر جو اعلان کیا اس کے الفاظ یہ تھے کہ لوگو ! اپنے اپنے شہروں سے باہر نکلو بیشک بنی اسرائیل تھوڑے ہیں لیکن ان کا پوری طرح تعاقب کرو یہ لوگ جانے نہ پائیں۔ انتظامی نقطہ نظر سے چاہیے تو یہ تھا کہ فو ج کے چند دستے اور سول انتظامیہ کی بھاری نفری بھیج کر نہتے اسرائیلیوں کو گرفتار کرلیا جاتا یا پھر مار مار کر ملک کی سرحد سے باہر نکال دیا جاتا۔ لیکن فرعون نے طیش میں آکر سول انتظامیہ اور فوج کے ساتھ وزیروں، مشیروں اور ملک بھر سے بڑے بڑے پارٹی لیڈروں کو اکٹھا کر کے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا۔ ان کے اس طرح نکلنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرماکر ثابت کیا ہے کہ یہ ہماری منشاء کے مطابق ہوا تاکہ ہم انھیں ان کے باغات، چشموں، خزانوں اور ان کے محلاّت سے بےدخل کریں اور دوسری قوم کو ان کی تمام چیزوں کا وارث بنائیں۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں نے فرعون اور اس کے لشکر و سپاہ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو وہ پکار اٹھے کہ ہم تو مارے گئے۔ (فَلَمَّا تَرَاءَ الْجَمْعَانِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰی اِِنَّا لَمُدْرَکُوْنَقَالَ کَلَّا اِِنَّ مَعِی رَبِّی سَیَہْدِیْنِی ) [ الشعراء : ٦١، ٦٢] ” جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰ کے ساتھی چیخ اٹھے کہ ہم تو پکڑے گئے۔ موسیٰ نے فرمایا ہرگز نہیں میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا۔ “ (فَاَوْحَیْنَا اِِلٰی مُوْسٰی اَنْ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ ) [ الشعراء : ٦٣] ” ہم نے موسیٰ کو وحی کے ذریعہ حکم دیا کہ سمندر پر اپنا عصا مار تو یکایک سمندر پھٹ گیا۔ اور اس کی ہر لہر بہت بڑے پہاڑ کی طرح کھڑی ہوگئی۔ “ ادھر موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی سمندر عبور کررہے تھے دوسری طرف فرعون اپنے ساتھیوں سمیت سمندر میں انہی راستوں سے داخل ہوا جہاں سے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی گزر چکے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) چاہتے تھے کہ ایک دفعہ پانی پر عصا مار کر راستے بند کردئیے جائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر روک دیا کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو سمندر میں داخل ہونے دیں۔ جونہی وہ سمندر میں داخل ہوں تو اپنا عصا سمندر پر ماریں تاکہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا جائے موسیٰ (علیہ السلام) نے اس طرح ہی کیا۔ جس کے نتیجے میں پہاڑوں کی طرح ٹھہری ہوئی لہریں چل پڑیں۔ فرعون اور اس کے ساتھی غرق کردئیے گئے۔ اس طرح فرعون اور اس کے ساتھی مہکتے ہوئے باغ، جاری چشمے، لہلہاتی ہوئی کھیتیاں، پُرشکوہ محلات اور بیش بہا عیش و عشرت کا سامان چھوڑ کر سمندر میں غرق ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری قوم کو ان کا وارث بنایا اور ان کے ڈوب مرنے پر نہ زمین کو رونا آیا اور نہ ہی آسمان نے آنسو بہائے اور نہ ہی انہیں مہلت دی گئی۔ ان آیات میں فرعون کی ترقی اور ان کی عیش و عشرت کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اور یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی بھی ان پر رونے کے لیے تیار نہ ہوا۔ جو لوگ فرعون اور اس کے وزیروں، مشیروں کی تعریفیں کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے اور ان کے استقبال کے لیے پہروں کھڑے رہتے تھے اور فرعون کے سامنے سرجھکاتے تھے۔ ان میں ایک نفس بھی ایسا نہیں تھا جس نے افسوس کا اظہار کیا ہو۔ جس کے لیے یہ الفاظ کہے گئے کہ ان پر نہ زمین روئی اور نہ آسمان کو افسوس ہوا۔ یہ ایک حقیقت ہونے کے ساتھ ہر زبان میں محاورہ بھی ہے کہ جب بدترین شخص دنیا سے جاتا ہے تو اس پر افسوس کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ جہاں تک قوم فرعون کے بعد مصر کی سرزمین کے وارث بننے والوں کا تعلق ہے اس میں اہل علم کے دو آراء ہیں۔ بے شک تاریخ سے بنی اسرائیل کا آل فرعون کے محلاّت اور باغات کا مالک ہونا ثابت نہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قرآن مجید نے یہاں دوسری قوم کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں لیکن سورة الشعراء میں کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ ہم نے آل فرعون کو غرق کیا اور بنی اسرائیل کو ان کے باغوں، چشموں اور محلّات کا مالک بنا یا۔ (الشعراء : ٥٩) اس وضاحت کے بعد تاریخ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟ جب کہ تاریخی ریکارڈ تسلسل کے ساتھ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل فلسطین کے ساتھ مصر کے بھی مالک ہوئے اور انہیں وہ سب کچھ ملا جو آل فرعون کے پاس ہوا کرتا تھا۔ حضرت عمر (رض) کا بیت المقدس کی فتح کے موقع پر ان آیات کی تلاوت کرنا : حضرت عمر (رض) جب بیت المقدس شہر کے قریب پہنچے تو ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ القدس کا دلفریب منظر اور شاندار مکانات سامنے تھے۔ دل پر ایک خاص اثر ہوا۔ عبرت کے لہجہ میں یہ آیت پڑھی۔ (کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَعُیُوْنٍ ) [ الدخان : ٢٥] َُْْمسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قبل از وقت بتلا دیا گیا کہ فرعون تمہارا تعاقب کرے گا۔ ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے رات کے وقت ہجرت کی۔ ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دوبارہ عصا مارنے پر سمندر کا پانی پہلے کی طرح ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ ٤۔ فرعون اور اس کے ساتھی غرق کردئیے گئے۔ ٥۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی امن وامان کے ساتھ سمندر پار کرگئے۔ ٦۔ فرعون اور ان کے ساتھی اپنے باغات، بہتے ہوئے چشمے، لہلہاتی ہوئی کھیتیاں، بڑے بڑے محلات اور عیش و عشرت کا سامان چھوڑ کر سمندر میں غرق ہوئے۔ ٧۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں پر کوئی ایک شخص بھی رونے کے لیے تیارنہ ہوا۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ نے مصر پر دوسری قوم کو اقتدار اور اختیار بخشا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ جسے چاہے زمین کا وارث بناتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حق کی تکذیب کرنے والوں کو ہلاک کر کے دوسری قوم کو وارث بنایا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ اے ایمان والو ! اگر تم دین سے مرتد ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا۔ (المائدۃ : ٥٤) ٣۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں فنا کردے اور نئی مخلوق لے آئے۔ یہ اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ (ابراہیم : ١٩۔ ٢٠) ٤۔ اگر اللہ چاہے تو تم کو فنا کر کے دوسری مخلوق لے آئے یہ اللہ کے لیے مشکل نہیں۔ (فاطر : ١٦۔ ١٧) ٥۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے۔ (النساء : ١٢٣) ٦۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہارے بعد جسے چاہے لے آئے۔ (الانعام : ١٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(23) اس پر ارشاد ہوا موسیٰ میرے بندوں کو راتوں رات لے کر نکل جا بلا شبہ تمہارا تعاقب اور تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔