Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 30

سورة الدخان

وَ لَقَدۡ نَجَّیۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مِنَ الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ ﴿ۙ۳۰﴾

And We certainly saved the Children of Israel from the humiliating torment -

اور بیشک ہم نے ( ہی ) بنی اسرائیل کو ( سخت ) رسوا کن سزا سے نجات دی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مِن فِرْعَوْنَ إِنَّهُ كَانَ عَالِيًا مِّنَ الْمُسْرِفِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ولقد نجینا بنی اسرآئیل من العذاب المھین : موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں فرعون اور آل فرعون کو غرق کرنے کا ذکر کرنے کے بعد بنی اسرائیل پر انے انعامات کا ذکر فرمایا۔ اس میں قریش کے جباروں کو فرعون اور آل فرعون کے انجام سے ڈرایا گیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلی دی گی ہے کہ نہ کفر کے یہ سردار فرعون جیسی قوت و شوکت کے مالک ہیں نہ مسلمان بنی اسرائیل جتنے مظلوم اور بےبس۔ تو جب فرعون کی قوت و شوکت کا یہ حال ہوا تو یہ بےچارے کیا حیثیت رکھتے ہیں اور جب بنی اسرائیل جیسے بےبس اور مظلوم ظلم سے نجات پاسکتے ہیں تو مسلمانوں کو بھی اس کی امید رکھنی چاہیے۔ ” لام “ اور ” قد “ تاکید کے لئے قسم کا مفہوم رکھتے ہیں۔ یقین دلانے کے لئے قسم کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی کسی بات کا منکر ہو، یہاں یہ بات اتنی تاکید کے ساتھ اس لئے فرمائی کہ ماننے میں نہیں آتا کہ ظلم میں اس قدر جکڑی ہوئی قوم جن کے لڑکے ذبح کئے جا رہے ہوں، لڑکیوں کو زندہ رکھ کر ان سے ہر خدمت لی جا رہی ہو اور وہ اف تک نہ کرسکتے ہوں اور دنیا میں کہیں سے انھیں مدد مل سکتی ہو نہ کوئی ان کے حق میں آواز اٹھانے والا ہو، انھیں بھی اتنی ذلت سے نجات مل سکتی ہے ؟ فرمایا، ہاں، ہاں ! ایسا ہوا ہے اور یقینا ہوا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو ذلیل کرنے والے عذاب سے نجات دی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَــقَدْ نَجَّيْنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُہِيْنِ۝ ٣٠ ۙ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا هين الْهَوَانُ علی وجهين : أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن» الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل . ( ھ و ن ) الھوان اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٠۔ ٣١) اور ہم نے بنی اسرائیل کو سخت عذاب یعنی فرعون اور اس کی قوم سے نجات، کیونکہ وہ ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور ان کی عورتوں کو غلام بنایا کرتا تھا۔ حقیقتا فرعون بڑا سخت دشمن اور سرکش اور شرک میں حد سے نکل جانے والوں میں سے تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ { وَلَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُہِیْنِ } ” اور ہم نے نجات دے دی بنی اسرائیل کو ذلت آمیز عذاب سے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :26 یعنی فرعون بجائے خود کے لیے ذلت کا عذاب تھا اور دوسرے تمام عذاب اسی ایک عذاب مجسم کے شاخسانے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٠۔ ٣٦۔ اوپر فرعون کے ڈوب کر ہلاک ہونے کا ذکر تھا ان آیتوں میں اس کے نتیجہ کا ذکر فرما کر کہ فرعون اپنے جیتے جی بنی اسرائیل کو طرح طرح کی تکلیفیں جو دیتا تھا ان کے لڑکوں کو قتل کراتا تھا ان سے ذلت کے کام لیتا تھا اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کرکے بنی اسرائیل کی یہ سب تکلیفیں رفع کردیں پھر فرعون کا ذکر فرمایا کہ وہ حد سے بڑھ کر سرکشی کرنے لگا تھا اس لئے اس کو سزا دی گئی ‘ فرعون یوں تو دہریہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا منکر تھا لیکن اس میں یہ بات دہریوں سے بڑھ کر تھی کہ وہ گمراہی کے سب سے اپنے آپکو خدا کہلاتا تھا۔ سورة الشعراء میں گزر چکا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا تو فرعون نے صاف کہہ دیا کہ فرعون کے سوا کوئی دوسرا خدا تم قرار دو گے تو تم کو قیدا کرا دیا جائے گا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ملعون اس قدر خدا کی ہستی کا منکر تھا کہ خدا کے نام لینے کو بھی قید کے قابل جرم گنتا تھا۔ سورة والنازعات میں آئے گا کہ اس ملعون نے اپنی تمام قوم کو جمع کرکے ڈھنڈورا پٹوا دیا تھا کہ جن بتوں کو قوم کے لوگ پوجتے ہیں وہ چھوٹے خدا ہیں اور فرعون سب سے بڑا خدا ہے۔ ناقابل اعتراض سند سے تفسیر ابن مردویہ میں حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ اس ڈھنڈورے کے تھوڑے عرصہ کے بعد فرعون پر عذاب آگیا اور ڈوب کر ہلاک ہوگیا حاصل کلام یہ ہے کہ فرعون کی ایسی ہی باتوں کو فرمایا کہ وہ حد سے بڑھ کر سرکشی کرنے لگا تھا ‘ حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس کی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ڈھنڈورا پٹوانے کی فرعون کی سرکشی ایسی بڑھی تھی کہ اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد اس پر عذاب آگیا ‘ اب آگے بنی اسرائیل کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو توراۃ کے علم کے لئے پسند کیا جس کے سبب سے ان کو اس زمانہ کے لوگوں پر فضیلت تھی اس زمانہ کے مشرک عمالقہ قوم کے لوگ پارسی لوگ سب یہود کو اہل کتاب جانتے اور ان کی عزت کرتے تھے ‘ سورة بقر میں گزر چکا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے مابین میں ایک ہزار نو سو پچیس برس تک کتاب تو وہی توراۃ رہی مگر زکریا (علیہ السلام) دائود (علیہ السلام) سلیمان (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل میں کے اور نبی اللہ تعالیٰ نے توراۃ کے احکام قائم رکھنے کے لئے بھیجے اور قوم عمالقہ میں کے بادشاہ جالوت کی شکست کے بعد بادشاہت بھی دائود (علیہ السلام) کے خاندان میں آگئی انہی باتوں کو شکر گزاری اور ناشکر گزاری کے جانچنے کی نشانیاں فرمایا ‘ اس سے قریش کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ یہود جب تک شکر گزاری کے طور پر توراۃ کو مانتے رہے ان کی سب طرح کی عزت قائم رہے گی اور جب انہوں نے توراۃ کے برخلاف کچھ باتیں نکال لیں اور بنی اسرائیل کے جن انبیاء نے یہود کو ان باتوں سے روکا اور ان کو توراۃ کا پابند کرنا چاہا تو ان انبیاء کے ساتھ یہود نے طرح طرح کی بدسلوکیاں کیں جس کی سزا میں یہود کی وہ عزت و راحت سب خاک میں گئی اگر قریش بھی قرآن کے برخلاف باتوں پر جمے رہیں گے اور اللہ کے رسول سے بدسلوکی کریں گے تو ان کا بھی یہی نتیجہ ہوگا ‘ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے فتح بدر اور فتح مکہ کے وقت اسی وعدہ کا جو ظہور ہوا اس کا ذکر صحیح روایتوں کے حوالہ سے کئی جگہ گزر چکا ہے اب آگے مشرکین مکہ کا ذکر فرمایا کہ یہ لوگ حشر کے منکر ہیں اللہ کے رسول اور مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد جینا سچ ہے تو ہمارے بڑوں میں سے کسی کو زندہ کیا جا کر ہم سے اس کو ملا دو مشرکین مکہ کی اس بات کا جواب اللہ تعالیٰ نے آگے کی آیتوں میں دیا جس کا حاصل یہ ہے کہ نیک و بد کی جزا و سزا کے فیصلہ کے لئے ان مشرکوں کو اور ان کے بڑوں کے وقت مقررہ پر قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا قیامت سے پہلے دوبارہ زندہ کرنے کا ذکر قرآن میں کہیں نہیں ہے اس لئے ان لوگوں کا یہ اعتراض بالکل غلط ہے کہ مرنے کے بعد جینا سچ ہے تو ان کے بڑوں کو قیامت سے پہلے زندہ کیا جائے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:30) نجینا۔ ماضی جمع متکلم۔ تنجیۃ (تفعیل) مصدر۔ ن ج و مادہ۔ ہم نے نجات دی۔ ہم نے بچایا۔ العذاب المھین موصوف و صفت۔ ذلیل و خوار کرنے والا عذاب۔ مھین اسم فاعل ۔ واحد مذکر اھانۃ (افعال) مصدر۔ مھین ذلیل و خوار، حقیر ماء مھین حقیر پانی۔ ناپاک پانی۔ یعنی نطفہ۔ یہاں العذاب المھین سے مراد فرعون کا غلم و استبداد ہے۔ بنی اسرائیل کے لڑکوں کا قتل کرنا اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دینا۔ بنی اسرائیل کو غلام بنا کر ان سے حقارت آمیز کام لینا۔ ان کو محنت و مشقت میں ان کی استعداد سے بڑھ کر دبائے رکھنا۔ وغیرہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ذلت کے عذاب سے مراد غلامی کی کیفیت ہے اور یہ کہ فرعون ان کے لڑکوں کو مار ڈالتا اور لڑکیوں کو لونڈیاں بنانے کے لئے زندہ رکھتا… آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے ” اور ہم بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب، فرعوکن سے نجات دے چکے ہیں۔ “ گویا فرعون خود ان کے لئے ذلت کا عذاب تھا کیونکہ وہی اس عذاب کا سرچشمہ تھا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٣٠ تا ٤٢۔ اسرار ومعارف۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے اس عذاب سے جس میں فرعون نے انہیں مبتلا کررکھا تھا نجات دی ، کہ فرعون بہت ہی سرکش تھا اور تمام حدود عبور کرجانے والوں میں سے تھا ، نیز ہم نے انہیں اپنے علم کے مطابق اس دور کے تمام لوگوں پہ فضیلت بخشی اور ہم نے انہیں اپنی عظمت کی نشانیاں عطا کیں۔ مادی اور ظاہری بھی کہ فرعون سے نجات اور باطنی بھی علوم نبوت اور معجزات کا ظہور جو اللہ کی طرف سے انعام بھی تھیں اور آزمائش کا سبب بھی۔ یہ لوگ ان اقوام کے حالات سے سبق حاصل نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ صرف یہی دنیا کی زندگی ہے اور یہی ایک بات موت ہے ہمیں دوبارہ زندہ نہیں ہوناچاہیے ، اور دلیل یہ دیتے ہیں ہ اگر دوبارہ زندگی ہے تو ہمارے آباؤاجداد کو زندہ کرکے لائیں حالانکہ دوبارہ اٹھنا قیامت کے لیے اور اعمال کا بدلہ پانے کے لیے ہے کوئی لوٹ کر دنیا میں تو نہ آئے گا اور ان کا یہ خیال کہ ان کا کچھ نہ بگڑ سکے گا بھی باطل ہے اور ان سے بہت ہی طاقتور قوم جو تبع کی قوم تھی اور جس کی عظمت کی داستانیں بکھری پڑی ہیں اور ان سے پہلے ہلاک اور برباد ہوچکی اس لیے کہ انہوں نے بھی گناہ کا راستہ اختیار کیا تھا۔ قوم تبع۔ تبع یمن کے ان بادشاہوں کالقب تھا جنہوں نے بہت حکومت کی اور مغربی یمن کو دارالخلافہ قرار دے کر افریقی ممالک اور عرب شام عراق تک سلطنت کی حدود وسیع کیں جس تبع کا ذکر آتا ہے یہ سب سے بہادر بھی تھا اور اس کا عرصہ حکومت بھی سب سے دراز رہا اس کی فتوحات سمرقند تک جاپہنچی تھیں مگر یہ خود یہودی علماء کے کہنے پر دین موسوی پر ایمان لایا قوم بھی مسلمان ہوگئی مگر اس کے بعد پھر گمراہ ہوگئے اور بت پرستی میں مبتلا ہوکرتباہ ہوئے حالانکہ اپنے عہد کی طاقتور ترین قوم تھی اور عرب میں ان کے احوال مشہور تھے نیز ارض وسما کو کائنات کو محض کھیل تماشا پیدا نہیں کیا گیا کہ آخرت نہ ہو اور نیک وبد کو بدلہ نہ ملے بلکہ ان کی تخلیق کی بنیاد حق پر ہے اور اسی حق کا تقاضا ہے کہ ہر کوئی اپنے کردار کے انجام کو ضرور پہنچے لیکن ان میں کے اکثر نہیں سمجھتے اس کا علم ہی نہیں رکھتے۔ یقینا یوم حشر ان سب کے جمع ہونے اور فیصلہ پانے کا دن ہے جس دن کسی دوست کی دوستی کوئی کام نہ آئے گی اور نہ کوئی کسی کی مدد کرسکے گا سوائے اس کے کہ کسی پر اللہ رحم فرمائے جس سے کافر قطعی محروم ہوگا چناچہ وہ دوستی جو محض اللہ کے لیے ہو یا وہ رشتے جو رحمت الٰہی کا سبب بنیں ہی کام آئیں گے ورنہ کچھ بھی کام نہ آئے گا ، کہ اللہ ہی غالب ہے اسی کے فیصلے لاگو ہوں گے اور وہ بہت رحم کرنے والا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کا اذیت ناک عذاب سے نجات پانا ہے۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کا غرق ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو سمندر میں غرقاب کیا کیونکہ وہ بڑا ہی عالی اور غالی انسان تھا۔ دنیا میں بڑے بڑے باغی اور سرکش انسان گزرے ہیں مگر کسی نے رب الاعلیٰ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ فرعون ایساغالی اور متکبر انسان تھا کہ اس نے رب الاعلیٰ ہونے کا دعویٰ کیا اور لوگوں کو جبراً اپنے سامنے جھکا یا کرتا تھا۔ وہ بنی اسرائیل کو اذیت ناک سزائیں دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ جنہیں بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کی بےمثال جدوجہد کے نتیجے میں نجات عطا فرمائی۔ جس کے بارے میں عذاب مھین کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور اسے جنت بڑی آزمائش قرا ردیا۔ اس ذلت ناک سزا کا تذکرہ قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ (وَ اِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمْوْنَکُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَ کْمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَ کُمْ وَفِیْ ذٰلِکُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ)[ البقرۃ : ٤٩] ” اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بد ترین عذاب دیتے تھے۔ وہ تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔ “ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی نعمتوں کا احساس، آخرت کا خوف اور ان کے ماضی کے الم ناک دور کا حوالہ دیتے ہوئے سمجھایا ہے کہ آج تم کمزور اور بےخانماں مسلمانوں پر ظلم کررہے ہو تمہیں وہ وقت بھی یاد رکھنا چاہیے جب فرعون تمہارے جوانوں اور نونہالوں کو سر عام ذبح کرتا تھا اور تمہاری ماؤں اور بہو ‘ بیٹیوں کو باقی رہنے دیتا تھا۔ قرآن مجید نے اسے بلائے عظیم قرار دے کر ان تمام مضمرات کی طرف اشارہ کیا ہے جو مظلوم اور غلام قوم کو پیش آیا کرتے ہیں۔ ظالم لوگ مغلوب اور مظلوم قوم کی بہو بیٹیوں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھتے ہیں جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اے بنی اسرائیل ! اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان عظیم کرتے ہوئے ان مظالم سے تمہیں نجات دلائی اور تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہارے بد ترین دشمن کو ذلت کی موت دیتے ہوئے ہمیشہ کے لیے اسے نشان عبرت بنا دیا۔ اس سے دنیا میں تمہاری عظمت و سچائی اور بزرگی کی دھوم مچ گئی کہ بنی اسرئیل کے لیے دریا رک گیا اور ان کی آنکھوں کے سامنے بد ترین مغروروسفّاک، خدائی اور مشکل کشائی کا دعوی کرنے والا ڈبکیاں لیتے ہوئے دہائی دیتا رہا کہ لوگو ! میں موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے خدا پر ایمان لاتا ہوں لیکن آواز آئی کہ تیرا ایمان ہرگز قبول نہیں ہوگا اب تجھے آئندہ نسلوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔[ یونس : ٩١] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ذلت آمیز سزاؤں سے نجات دی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ذلت کی موت مارا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو پوری دنیا پر فضیلت اور عظمت عطا فرمائی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے بنی اسرائیل پر انعامات : ١۔ اے بنی اسرائیل میری نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام فرمائیں۔ (البقرۃ : ٤٠) ٢۔ بنی اسرائیل کو ساری دنیا پر فضیلت دی گئی۔ (البقرۃ : ٤٧) ٣۔ بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو پھاڑا گیا۔ ( البقرۃ : ٠ ٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آل فرعون سے نجات دی۔ (البقرۃ : ٤٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے بارہ چشمے جاری فرمائے۔ (الاعراف : ١٦٠) ٦۔ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے بادلوں کا سایہ کیا اور من وسلویٰ نازل فرمایا۔ (البقرۃ : ٥٧) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے مقتول کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ : ٧٣) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ : ٢٤٣) ٩۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (القصص : ٥) ١٠۔ ہم نے بنی اسرائیل کوا ذیت ناک عذاب سے نجات دی۔ (الدخان : ٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ ” ولقد نجینا “ فرعون اور اس کی قوم کو ہلاک کر کے ہم نے بنی اسرائیل کو اس رسوا کن اور ذلت آمیز عذاب سے نجات دی جو وہ فرعون کے ہاتھوں برداشت کرتے تھے۔ بیشک فرعون نہایت سرکش، مغرور اور حد سے زیادہ ظالم و جائر تھا۔ من فرعون کا متعلق محذوف ہے اور یہ ماقبل سے ھال ہے۔ حال من المھین بمعنی واقعا من جبھتہ (بیضاوی) ۔ ” ولقد اخترنہم الخ “ اور ہم نے بنی اسرائیل کو اس وقت کی تمام اقوام پر شرف و فضیلت عطا فرمائی، ان کو یہ امتیاز ان کے ایمان وعمل اور صبر و استقلال کی وجہ سے حاصل ہوا۔ ” علی علم “ یعنی ہم نے ان کو مستحق جان کر یہ شرف عطا کیا۔ ” واتیناہم الخ “ یہ مزید انعامات کا ذکر ہے جو بنی اسرائیل پر کیے گئے۔ ہم نے بنی اسرائیل کو ایسے نشانات دئیے جن میں انعام و احسان کا پہلو نمایاں اور امتحان و ابتلاء کی صورت واضح تھی مثلاً دریا میں راستے بنانا۔ بادلوں کا ان پر سایہ کرنا، من وسلوی کا اتارنا وغیرہ یہ انعامات تھے اور ان میں ان کا امتحان بھی مقصود تھا کہ وہ کس طرح ان کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ” بلاء مبین “ نعمۃ ظاھرۃ او اختیار ظاھر لننظر کیف تعملون “ (مدارک ج 4 ص 99) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) اور بلا شبہ ہم نے بنی اسرائیل کو اس ذلیل کن عذاب سے نجات دی۔