Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 36

سورة الدخان

فَاۡتُوۡا بِاٰبَآئِنَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۳۶﴾

Then bring [back] our forefathers, if you should be truthful."

اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادوں کو لے آؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then bring back our forefathers, if you speak the truth! This is false evidence and a specious argument, for the resurrection will happen on the Day of Judgement, not in this world; it will happen when this world has ended and ceased to be. Allah will bring all creatures back, created anew. He will make the evildoers fuel for the fire of Hell, and on that Day you will be witnesses ov... er mankind and the Messenger will be a witness over you. أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ أَهْلَكْنَاهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو کافروں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ اگر تمہارا یہ عقیدہ واضح اور صحیح ہے کہ دوبارہ زندہ ہونا ہے تو ہمارے باپ دادوں کو زندہ کرکے دکھا دو یہ ان کی کٹ حجتی تھی کیونکہ دوبارہ زندہ کرنے کا عقیدہ قیامت سے متعلق ہے نہ کہ قیامت سے پہلے ہی دنیا میں زندہ ہ... وجانا یا کردینا۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] کفارکایہ اعتراض کہ مارے آباء کو زندہ کرکے دکھاؤ :۔ کفار کا یہ مطالبہ تین وجوہ کی بنا پر غلط ہے۔ ایک یہ کہ رسول کی ذمہ داری صرف اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے۔ خدائی اختیارات کا نہ وہ کبھی دعویٰ کرتا ہے اور نہ اس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں کہ جب کوئی کافر ایسا مطالبہ کرے تو اس کا کوئی بڑا بزرگ اسے دوبار... ہ زندہ کرکے دکھا دے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی نبی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ تمہیں دوبارہ زندہ کرکے اسی دنیا میں بھیجا جائے گا بلکہ وہ جہاں ہی دوسرا ہوگا جس میں مردے زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ نبی یہ خبر دیتا ہے کہ تمہاری دوبارہ زندگی قیامت کے دن ہوگی تو کیا یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ قیامت سے پہلے ہی ایک اور قیامت آجائے۔ حالانکہ قیامت کا وقت مقرر ہے اور وہ اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ پھر جب ان کے باپ دادا یا یہ خود زندہ ہوں گے تو انہیں اپنے اس مطالبہ کی ہوش بھی رہے گی بلکہ دوسرے کئی قسم کے فکر دامن گیر ہوجائیں گے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فاتوا با بآئنا ان کنتم صدقین : یعنی ہم نے آج تک کسی فوت شدہ کو زندہ ہوتے نہیں دیکھا، اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ دوسری زندگی ہے تو ہمارے آبا و اجداد کو قبروں سے اٹھا لاؤ، اگر تم سچے ہو، ورنہ ہم تمہیں جھوٹا سمجھیں گے۔ وہ اپنی اس دلیل کو بہت مضبوط سمجھتے تھے ! حالانکہ یہ کئی وجہوں سے بالکل فضول ہے، کیونکہ ... انھیں یہ کس نے کہا کہ وہ اسی دنیا میں آئے گی ؟ وہ تو ایک نئی دنیا ہوگی، جس میں تمام مردے بیک وقت اٹھ کھڑے ہوں گے۔ پھر انھیں یہ کس نے کہا ہے کہ مردوں کا زندہ کرنا پیغمبر کے اختیار میں ہے ؟ اس کا کام تو صرف پیغام پہنچانا ہے، مردے زندہ کرنا یا معجزوں کے مطالبے پورے کرنا نہیں اور تیسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کا ایک وقت مقرر ہے جسے صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے وہ اسی وقت آئے گی جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔ اب قیامت سے پہلے قیامت کا مطالبہ کون سی دانش مندی ہیڈ اگر کسی کو آئندہ ہونے والے کسی کام کی اطلاع دی جائے تو کیا یہ کہہ کر اسے جھٹلایا جاسکتا ہے کہ یہ کام فوراً کر کے دکھاؤ، اگر ابھی نہیں ہوتا تو کبھی بھی نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے یہ نہایت بےعقلی کی بات ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary فَأْتُوا بِآبَائِنَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ |"Bring our fathers, if you are true (in your belief in resurrection|" ) (44:36) |". Allah did not give an answer to this argument of theirs, because it was too obvious to need explanation, for the resurrection will happen on the Day of Judgment, not in this world. Allah will bring back to life all human beings in the Hereafter. Life and death...  in this world are bound by specific natural laws and wisdom. If Allah is not bringing back to life those who died long ago at this time, it does not necessarily imply that He will not be able to give life after death in the Hereafter. The following statement embodies their false/absurd reasoning: In logical terminology, it may be said that the negation of a particular thing does not necessarily imply the negation of a general thing. (Bayan-ul-Qur an)   Show more

معارف و مسائل (آیت) فَاْتُوْا بِاٰبَاۗىِٕنَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادوں کو لا موجود کرو) قرآن کریم نے ان کے اس اعتراض کا جواب اس لئے نہیں دیا کہ بالکل ظاہر تھا اور وہ یہ کہ تمام انسانوں کی دوبارہ زندگی کا دعویٰ آخرت میں کیا جا رہا ہے اسی وقت اللہ تعالیٰ سب کو زندہ ک... رے گا۔ دنیا میں موت وحیات قدرت کے مخصوص قوانین اور مصالح کی پابند ہے، اگر اللہ تعالیٰ اس وقت کسی کو دوسری زندگی عطا نہیں فرما رہا تو یہ اس بات کی دلیل کیسے بن گئی کہ آخرت میں بھی وہ دوبارہ زندہ نہ کرسکے گا۔ منطقی اصطلاح میں اس جواب کو یوں تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ مقید کا عدم وقوع مطلق کے عدم وقوع کو مستلزم نہیں ہوسکتا (بیان القرآن)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاْتُوْا بِاٰبَاۗىِٕنَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ٣٦ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذ... ابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تو ہمارے آباؤ اجداد کو لاکر زندہ کرو تاکہ ہم خود ہی ان سے دریافت کرلیں کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں وہ صحیح ہے یا غلط۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ { فَاْتُوْا بِاٰبَآئِنَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ } ” تو لائو ذرا ہمارے آباء و اَجداد کو ‘ اگر تم سچے ہو ! “ اپنے موقف کے حمایت میں وہ لوگ یہ دلیل دیتے کہ اگر تم بعث بعد الموت کے عقیدے کو سچ مانتے ہو تو ذرا ہمارے فوت شدہ آباء و اَجداد کو زندہ کر کے دکھائو !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31 This was their reasoning: We have never seen a dead person resurrected to life. Therefore, we believe that there will be no other life after death. If you claim that there will be another life, then resurrect our forefathers from their graves, so that we are convinced of the life-after-death. If you do not do this, we would think that your claim is false. This was, as they thought, a very stron... g argument for the refutation of life-after-death, whereas it was absurd. Nobody had told them that the dead would return to this very world after being raised back to life, nor the Holy Prophet, nor any Muslim, had ever claimed that he could raise the dead back to life.  Show more

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :31 ان کا استدلال یہ تھا کہ ہم نے کبھی مرنے کے بعد کسی کو دوبارہ جی اٹھتے نہیں دیکھا ہے ، اس لیے ہم یقین رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہوگی ۔ تم لوگ اگر دعویٰ کرتے ہو کہ دوسری زندگی ہوگی تو ہمارے اجداد کو قبروں سے اٹھا لاؤ تاکہ ہمیں زندگی بعد موت کا یقین...  آ جائے ۔ یہ کام تم نے نہ کیا تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارا دعویٰ بے بنیاد ہے ۔ یہ گویا ان کے نزدیک حیات بعد الموت کی تردید میں بڑی پختہ دلیل تھی ۔ حالانکہ سراسر مہمل تھی ۔ آخر ان سے یہ کہا کس نے تھا کہ مرنے والے دوبارہ زندہ ہو کر اسی دنیا میں واپس آئیں گے؟ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی مسلمان نے یہ دعویٰ کب کیا تھا کہ ہم مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں؟   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:36) فاتوا بابائنا۔ جملہ جواب شرط ہے اور آئندہ جملہ شرطیہ ہے ای ان کنتم صدقین۔ پس اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو زندہ کرکے لے آؤ۔ اتواب۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ایتاء (افعال) مصدر ۔ ب تعدیہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 تاکہ ہم آنکھوں سے دیکھ لیں کہ واقعی آدمی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوسکتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(36) اور اگر تم سچے ہو تو ہمارے اگلے باپ دادوں کو زندہ کرکے لے آئو۔ یہاں سے کفار قریش کا ذکر فرمایا کہ آخرت کے زندگی کا انکار کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارا اخیر یہی ہونا ہے کہ بس موت آجائے گی اور مرجائیں گے اور اس کے بعد کوئی زندگی نہیں اور اگر مر کر دوبارہ بھی کوئی زندہ ہوسکتا ہے تو ہمارے...  باپ دادا جو مرچکے ہیں ان کو جلا لائو اور زندہ کرکے لے آئو اگر تم سچے ہو تو اور دوبارہ زندہ کرنے کے قائل ہو تو ایسا کردو یہ جو الاموتنتا الاوالی فرمایا اس پر شبہ نہ کیا جائے کہ پہلی موت پر کوئی اختلاف نہ تھا اختلاف تو مرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس موت کے بعد کچھ نہیں ہے اور یہ وہی قول ہے جس کو دوسری جگہ فرمایا۔ ان ھی الا حیاتنا الدنیا ومانحن بمبعوثین اپنے باپ دادوں کی زندگی کا مطالبہ ایک غیر متعلق مطالبہ ہے ظاہر ہے اس زندگی پر جس کا اسلام علی الاطلاق دعویٰ کرتا ہے اس مقید مطالبے کے عدم وقوع سے کیا اثر پڑسکتا ہے۔  Show more