Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 39

سورة الدخان

مَا خَلَقۡنٰہُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۹﴾

We did not create them except in truth, but most of them do not know.

بلکہ ہم نے انہیں درست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے ، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We created not the heavens and the earth, and all that is between them, for mere play. We created them not except with truth, but most of them know not. Here Allah tells us of His justice, and that He is far above mere play, folly and falsehood. This is like the Ayah: وَمَا خَلَقْنَا السَّمَأءَ وَالاٌّرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَـطِلً ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ مِنَ النَّارِ And We created not the heaven and the earth and all that is between them without purpose! That is the consideration of those who disbelieve! Then woe to those who disbelieve from the Fire! (38:27) أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَـكُمْ عَبَثاً وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لاَ تُرْجَعُونَ فَتَعَـلَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ Did you think that We had created you in play, and that you would not be brought back to Us? So Exalted be Allah, the True King: La ilaha illa Huwa, the Lord of the Supreme Throne! (23:115-116) Then Allah says: إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقَاتُهُمْ أَجْمَعِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 یعنی وہ اس مقصد سے غافل اور بیخبر ہیں۔ اسی لئے آخرت کی تیاری سے لا پروا ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] دوسرا عقلی جواب : یہ کائنات بیکار پیدا نہیں کی گئی :۔ یہ کفار مکہ کی اس کٹ حجتی کا عقلی جواب ہے۔ یعنی جو شخص روز آخرت اور اپنے اعمال کی جزا و سزا کا منکر ہے وہ دراصل یہ سمجھتا ہے کہ یہ کارخانہ کائنات بس ایک کھیل تماشا ہی ہے۔ اور اس دنیا میں کوئی شخص جو چاہتا ہے کرتا رہے۔ وہ مر کر مٹی ہوجائے گا اور اسے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ اور خالق کائنات نے بس یونہی ایک شغل اور کھیل تماشے کے طور پر پیدا کردیا ہے۔ حالانکہ اس کائنات کی ایک ایک چیز میں باہمی ربط، نظم و نسق، انضباط & باقاعدگی اور ہر چیز کا کثیر المقاصد اور اسی نسبت سے افادیت سے معمور ہونا اس بات پر کھلی شہادت ہے کہ اس کائنات کا خالق انتہا درجہ کی دانا اور مدبر ہستی ہی ہوسکتی ہے۔ اور کوئی دانا بےکار اور عبث کام نہیں کیا کرتا۔ لامحالہ یہ کائنات کسی نتیجہ پر منتج ہونی چاہئے۔ اور اسی نتیجہ کا نام دوسرا جہان یا روز آخرت ہے۔ قرآن میں بہت سے دوسرے مقامات پر روز آخرت پر ایک دوسری عقلی دلیل پیش کی گئی ہے جو یہ ہے کہ جو شخص روز آخرت کا منکر ہے وہ دراصل سمجھتا ہے کہ نیک اور بد ( یا نیکی یا بدی) سب برابر ہیں۔ دونوں کا انجام یہی ہے مر کر مٹی میں مل کر مٹی بن جائیں۔ حالانکہ اس بات کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا کہ نیک اور بد ایک جیسے ہوتے ہیں یا ان دونوں کا انجام ایک ہی جیسا ہونا چاہئے گویا روز آخرت سے انکار اللہ تعالیٰ کی صفات حکمت اور عدل دونوں کی نفی کردیتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌هُمْ لَا يَعْلَمُونَ |"We did not create them but with true purpose, yet most of them do not know. (44:39) |" In other words, every wise and thinking person should realise that there is a purpose and objective for creating this universe. The heavens and the earth and everything created in them manifest many realities. Examples are: (1) the manifestation of Divine power; (2) the possibility of the Hereafter. Obviously, the Supreme Creator Who drew out such huge bodies from the realm of non-existence into the realm of existence surely has the power to destroy them and re-create them; (3) the need for retribution (reward/punishment). If there is no retribution in the Hereafter, the very existence of the universe would be rendered purposeless or its purpose would be defeated. The wisdom underlying the creation of the universe is to make it dar-ul-imtihan (the domain of test-n-trial) and the Hereafter is the domain of reward and punishment. Otherwise, the outcome of both good and bad will necessarily be the same. This is far from Divine wisdom, or not in keeping with Divine wisdom; and (4) urging the thinking people to obey Allah and thank Him for having granted man this entire universe or creation as His great blessing

(آیت) مَا خَلَقْنٰهُمَآ اِلَّا بالْحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ (ہم نے ان دونوں یعنی زمین و آسمان کو کسی حکمت ہی سے بنایا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے) مطلب یہ ہے کہ اگر سوچنے سمجھنے والی عقل ہو تو آسمان و زمین اور ان کے اندر جو مخلوقات پیدا کی گئی ہیں وہ سب بہت سے حقائق پر دلالت کرتی ہیں، مثلاً ایک تو قدرت خدا وندی پر۔ دوسرے آخرت کے امکان پر، کیونکہ جس ذات نے ان عظیم اجسام کو عدم سے وجود عطا کیا وہ یقینا اس بات پر بھی قادر ہے کہ انہیں ایک مرتبہ فنا کر کے دوبارہ پیدا کر دے۔ تیسرے جزا و سزا کی ضرورت پر، کیونکہ اگر آخرت کی جزا و سزا نہ ہو تو یہ سارا کارخانہ و جود بیکار ہوجاتا ہے۔ اس کی تخلیق کی تو حکمت ہی یہ ہے کہ اسے دارالامتحان بنایا جائے اور اس کے بعد آخرت میں جزا و سزا دی جائے ورنہ نیک و بد دونوں کا انجام ایک ہونا لازم آتا ہے جو اللہ کی شان حکمت سے بعید ہے۔ چوتھے یہ کائنات سوچنے سمجھنے والوں کو اطاعت خداوندی پر ابھارنے والی بھی ہے کیونکہ یہ ساری مخلوقات اس کا بہت بڑا انعام ہیں اور بندے پر واجب ہے کہ اس نعمت کا شکر اس کے اخلاق کی اطاعت کر کے ادا کرے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا خَلَقْنٰہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٣٩ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ { مَا خَلَقْنٰہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ } ” اور ہم نے نہیں بنایا ان دونوں کو مگر حق کے ساتھ ‘ مگر ان لوگوں کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34 This is the second answer to their objection; it means: "Whoever denies life-after-death and the rewards and punishments of the hereafter, in fact, regards this world as a plaything and its Creator as a foolish child. This is why he has formed the view that tnan, after raising aII sorts of the storms in the world, will end up in the dust one day and none of his good or bad acts will bear any fruit. The fact, however, is that this universe is the creation of an AlI-Wise Creator and not of a frivolous being, and it cannot be expected from an AlI-Wise Creator that he would perform a useless and vain act." (For a detailed explanation, see AI-An'am: 73, Yunus: 5-6, Al-Anbiya: 16-18, AI-Mu'minun: 115, Ar-Rum: 8-9 and the corresponding E.N.'s).

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :34 یہ ان کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی حیات بعد الموت اور آخرت کی جزا و سزا کا منکر ہے وہ دراصل اس کارخانہ عالم کو کھلونا اور اس کے خالق کو نادان بچہ سمجھتا ہے ، اسی بناء پر اس نے یہ رائے قائم کی ہے کہ انسان دنیا میں ہر طرح کے ہنگامے برپا کر کے ایک روز بس یونہی مٹی میں رل مل جائے گا اور اس کے کسی اچھے یا برے کام کا کوئی نتیجہ نہ نکلے گا ۔ حالانکہ یہ کائنات کسی کھلنڈرے کی نہیں بلکہ ایک خالق حکیم کی بنائی ہوئی ہے اور کسی حکیم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ فعل عبث کا ارتکاب کرے گا ۔ انکار آخرت کے جواب میں یہ استدلال قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے ، ہم اس کی مفصل تشریح کر چکے ہیں ۔ ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ، اول ، الانعام ، حاشیہ٤٦ ، جلد دوم ، یونس ، حواشی۱۰ ۔ ۱۱ ، جلد سوم ، الانبیاء ، حواشی ۱٦ ۔ ۱۷ ، المومنون ، حواشی ۱۰۱ ۔ ۱۰۲ ، الروم ، حواشی٤ تا ۱۰ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: اگر آخرت کا انکار کردیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا دن آنے والا نہیں ہے جس میں نیک لوگوں کو انعام اور ظالموں کو سزا دی جائے، اور اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات (معاذ اللہ) یونہی بے فائدہ کھیل کے طور پر پیدا کردی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:39) ما خلقنھما : ما نافیہ۔ ای ما خلقنا السموت والارض وما بینھما۔ یعنی یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان جملہ مخلوق کو کسی مصلحت اور حکمت کی بنیاد پر پیدا کیا ہے۔ الا بالحق : استثناء مفرغ (جس کا مستثنیٰ منہ مذکور نہ ہو) ۔ حق کے اظہار کے لئے۔ یعنی توحید کو ثابت کرنے اور اطاعت کو واجب کرنے کے لئے تاکہ فرماں بردار کو ثواب اور نافرمان کو عذاب دیا جائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿مَا خَلَقْنٰهُمَاۤ اِلَّا بالْحَقِّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ٠٠٣٩﴾ (ہم نے ان دونوں کو حکمت ہی سے بنایا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے) ان کے بنانے میں جو حکمتیں ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگ اس سے ان کے پیدا کرنے والے کی قدرت کاملہ پر استدلال کریں سورة یٰسین میں فرمایا ﴿ اَوَ لَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ١ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؕ بَلٰى ١ۗ وَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِيْمُ ٠٠٨١﴾ (کیا وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اس پر قادر نہیں ہے کہ ان کے جسے پیدا فرما دے، ہاں وہ قادر ہے اور بہت پیدا کرنے والا بڑے علم والا ہے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(39) اور ہم نے ان دونوں کو نہیں بنایا مگر کمال حکمت کے ساتھ بنایا لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ یعنی ان دونوں میں بےانتہا مخلوق کے لئے منافع ہیں قدرت کے استدلالات ہیں الوہیت کے دلائل اور توحید کے براہین ہیں اور ایک ٹھیک اندازے پر ہرچیز کو پیدا کیا ہے یہ سارا نظام اس کی توحید پر دال ہے لیکن اکثر لوگ ان امور کو نہیں سمجھتے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں آگے قیامت کے واقعات کا ذکر ہے۔