Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 49

سورة الدخان

ذُقۡ ۚ ۙ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡکَرِیۡمُ ﴿۴۹﴾

[It will be said], "Taste! Indeed, you are the honored, the noble!

۔ ( اس سے کہا جائے گا ) چکھتا جا تو تو بڑا ذی عزت اور بڑے اکرام والا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Taste you (this)! Verily, you were (pretending to be) the mighty, the generous. means, they (the keepers of Hell) will say that to him by way of ridicule and rebuke. Ad-Dahhak reported that Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said: "This means, you are neither mighty nor generous." And Allah's saying: إِنَّ هَذَا مَا كُنتُم بِهِ تَمْتَرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 یعنی دنیا میں اپنے طور پر تو بڑا ذی عزت اور صاحب اکرام بنا پھرتا تھا اور اہل ایمان کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] جب اہل دوزخ کی یہ گت بنائی جارہی ہوگی تو اس وقت دوزخ کا فرشتہ ان سے مخاطب ہو کر کہے گا۔ ارے تم تو دنیا میں بڑے معزز اور شریف بنے پھرتے تھے۔ رسولوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ اللہ کے احکام کے مقابلہ میں اکڑ بیٹھے تھے اور سرکشی اور شرارتیں کیا کرتے تھے۔ اور جب تمہیں اس برے انجام سے ڈرایا جاتا تھا تو رسولوں کا اور اس دن کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ کیا آج بھی تمہیں اس معاملہ میں کچھ شک باقی رہ گیا ہے ؟ اس آیت کا روئے سخن دراصل ان معزز سرداران قریش کی طرف ہے جنہیں نبی کے مقابلہ میں معزز سمجھا جاتا تھا جو مظلوم مسلمانوں کو ایک کمتر درجہ کی مخلوق سمجھ کر ان کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذق انک انت العزیز الکریم :” ذق “ ذاق یذوق ذوقا “ (ن) سے امر ہے، چکھو۔ یہ بات ان سے طنز اور مذاق کے طور پر کہی جائے گی، کیونکہ وہ دنیا میں اپنے آپ کو ایسا ہی سمجھتے اور باور کرواتے تھے۔ جملے کی خبر ” العزیز الکریم “ پر الف لام اور ضمیر فصل ” انت “ سے حصر کا مفہوم پیدا ہو رہا ہے کہ تو ہی وہ شخص ہے جو عزیز و کریم ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذُقْ ۝ ٠ ۚۙ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْكَرِيْمُ۝ ٤٩ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اس ابو جہل سے کہا جائے گا لے چکھ تو اپنی قوم میں بڑے غلبہ والا اور ان پر بڑا کرم کرنے والا تھا یا یہ کہ تو بڑا معزز و مکرم تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ { ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ ۔ } ” اب چکھو ! تم تو بڑے طاقتور ‘ بہت معزز تھے نا ! “ ہاں اے ابوجہل ! تمہیں اپنی سرداری اور جتھے ّداری پر بڑا فخر تھا نا ! اور ولید بن مغیرہ ! تم بھی تو اپنی دولت اور جوان بیٹوں کے َبل پر بڑے اکڑتے تھے نا ! آج جہنم کی آگ ‘ زقوم کے کھانے اور کھولتے ہوئے پانی کے عذاب کا مزا چکھو ! اب یہی تم لوگوں کا مقدر ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: یعنی دنیا میں تو اپنے آپ کو بڑا صاحب اقتدار اور بڑا با عزت سمجھتا تھا اور اس پر تجھے گھمنڈ تھا، آج اپنی یہ حالت دیکھ لے کہ تکبر، گھمنڈ اور حق کے انکار کا انجام کیا ہوتا ہے؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:49) ذق : امر واحد مذکر حاضر۔ ذوق باب نصر مصدر۔ تو چکھ۔ تو ذائقہ لے۔ (یہاں بطور طنز کے استعمال ہوا ہے) العزیز الکریم : معزز، مکرم۔ ترجمہ :۔ لو چکھو تم تو بڑے معزز اور مکرم ہونا۔ فائدہ : روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوجہل ملعون سے فرمایا کہ مجھے خدا کا حکم ہوا ہے کہ تجھ سے کہہ دوں کہ تیرے لئے ویل ہے۔ تجھ پر افسوس ہے۔ پھر مکرر کہتا ہوں کہ تیرے لئے خرابی اور افسوس ہے۔ پھر مکرر کہتا ہوں کہ تیرے لئے خرابی اور افسوس ہے۔ اس پاجی نے اپنا کپڑا آپ کے ہاتھ سے گھسیٹتے ہوئے کہا۔ جا تو اور تیرا رب میرا کیا بگاڑ سکتے ہو۔ اس تمام وادی میں سب سے زیادہ۔ عزت اور تکریم والا ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بدر کے دن دو کمسن بچوں کے ہاتھوں قتل کرایا اور اسے ذلیل کیا۔ اور اس سے کہا جائے گا کہ لے اب اپنی عزت کا اور اپنی تکریم کا اور اپنی بزرگی اور بڑائی کا لطف اٹھا۔ (ابن کثیر)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی تو دنیا میں اپنے آپ کو بڑا زبردست عزت دار آدمی سمجھتا تھا اس لئے ہم آج بھی تیری یہ عزت کر رہے ہیں کہ دوسرے دوزخیوں سے بڑھ کر عذاب دے رہے ہیں۔ یہ فرشتے طنزاً کہیں گے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی استہزاء کہا جائے گا کہ یہ تیری تعظیم ہورہی ہے جیسا تو دنیا میں اپنے کو معظم ومکرم سمجھ کر ہمارے احکام سے عار کیا کرتا تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دنیا کی بڑائی کا انجام دوزخی وہاں ایسے عذاب میں مبتلا ہوگا حالانکہ دنیا میں بڑا عزت والا سمجھا جاتا تھا اس کا بڑا نام تھا اور شہرت تھی بادشاہ تھا صدر تھا یا وزیر تھا بڑے بڑے القاب تھے وہ اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھتا تھا دوزخ میں سخت عذاب کی وجہ سے اس کا برا حال ہوگا اس کی دنیا والی حالت یاد دلانے کے لیے (جس کو بہت بڑی کامیابی سمجھتا تھا) کہا جائے گا ﴿ ذُقْ ١ۙۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْكَرِيْمُ ٠٠٤٩﴾ تو یہ عذاب چکھ لے دنیا میں تو بڑی عزت والا اور بڑے اکرام والا سمجھا جاتا تھا یہ چند دن کی بڑائی اور چہل پہل پر جو لوگ جان اور دل سے فدا ہیں وہ اس سے عبرت حاصل کریں۔ ﴿اِنَّ هٰذَا مَا كُنْتُمْ بِهٖ تَمْتَرُوْنَ ٠٠٥٠﴾ (اہل دوزخ سے یہ بھی کہا جائے گا کہ یہ وہی عذاب ہے جس کے بارے میں تم شک کیا کرتے تھے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(49) نے اس عذاب کا مزہ چکھ تو بڑا ذی عزت اور ذی مرتبت ہے۔