Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 56

سورة الدخان

لَا یَذُوۡقُوۡنَ فِیۡہَا الۡمَوۡتَ اِلَّا الۡمَوۡتَۃَ الۡاُوۡلٰی ۚ وَ وَقٰہُمۡ عَذَابَ الۡجَحِیۡمِ ﴿ۙ۵۶﴾

They will not taste death therein except the first death, and He will have protected them from the punishment of Hellfire

وہاں وہ موت چکھنے کے نہیں ہاں پہلی موت ( جو وہ مر چکے ) انہیں اللہ تعالٰی نے دوزخ کی سزا سے بچا دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لاَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلاَّ الْمَوْتَةَ الاْاُولَى ... They will never taste death therein except the first death, This is an exception which reinforces the negation. The meaning is that they will never taste death there. It was reported in the Two Sahihs that the Messenger of Allah said: يُوْتَى بِالْمَوْتِ فِي صُورَةِ كَبْشٍ أَمْلَحَ فَيُوقَفُ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ ثُمَّ يُذْبَحُ ثُمَّ يُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ فَلَ مَوْتَ وَيَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَلَ مَوْت Death will be brought forth in the image of a fine ram. It will be made to stand between Paradise and Hell, then it will be slaughtered. It will be said, "O people of Paradise, it is eternal, no more death; and O people of Hell, it is eternal, no more death." This Hadith was already quoted in our discussion of Surah Maryam. Abdur-Razzaq recorded that Abu Sa`id and Abu Hurayrah said, The Messenger of Allah said: يُقَالُ لاَِهْلِ الْجَنَّةِ إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَ تَسْقَمُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَعِيشُوا فَلَ تَمُوتُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلَ تَبْأَسُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَ تَهْرَمُوا أَبَدًا It will be said to the people of Paradise, "It is granted to you that you will be healthy and will never fall ill, you will live and never die, you will enjoy a life of luxury and will never be miserable, you will be youthful and will never grow old." This was recorded by Muslim. It was reported that Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, said, The Messenger of Allah said: مَنِ اتَّقَى اللهَ دَخَلَ الْجَنَّةَ يَنْعَمُ فِيهَا وَلاَ يَبْأَسُ وَيَحْيَا فِيهَا فَلَ يَمُوتُ لاَ تَبْلَى ثِيَابُهُ وَلاَ يَفْنَى شَبَابُه "Whoever has Taqwa of Allah, he will enter Paradise and enjoy a life of luxury and he will never be miserable. He will live therein and never die, his clothes will never wear out and his youth will never fade." ... وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ and He will save them from the torment of the blazing Fire, means, along with this great and eternal blessing, He will also have saved them from the agonizing torment in the depths of Hell, so they will have achieved their desired aim and avoided the thing they feared. Allah says, فَضْلً مِّن رَّبِّكَ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 یعنی دنیا میں انہیں جو موت آئی تھی، اس موت کے بعد انہیں موت کا مزہ نہیں چکھنا پڑے گا جیسے حدیث میں آتا ہے ' کہ موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لا کر دوزخ اور جنت کے درمیاں ذبح کردیا جائے گا اور اعلان کردیا جائے گا اے جنتیو ! تمہارے لئے جنت کی زندگی دائمی ہے، اب تمہارے لئے موت نہیں۔ اور اے جہنمیوں ! تمہارے لئے جہنم کا عذاب دائمی ہے موت نہیں

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] اخروی زندگی میں موت نہیں :۔ سیدنا ابو سعید خدری اور سیدنا ابوہریرہ (رض) دونوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ :&& ایک پکارنے والا جنت کے لوگوں کو پکارے گا اور کہے گا : آئندہ تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہوگے، تم ہمیشہ زندہ رہو گے، کبھی مرو گے نہیں، تم ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ ہو گے، اور تم ہمیشہ امن اور چین میں رہو گے کبھی کوئی رنج نہ ہوگا && (مسلم۔ کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھاو اھلھا)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) لایذوقون فیھا الموت الا الموتہ الاولی : ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یوتی بالموت کھیئۃ کبش املح فینا دی مناد یا اھل الجنۃ ! فیشرثبون و ینظرون فیقول ھل تعرفون ھذا ؟ فیقولون نعم، ھذا الموت و کلھم قد راہ، ثم ینادی یا اھل النار ! فیشرثبون و ینظرون فیقول ھل تعرفون ھذا ؟ فیقولون، نعم ھذا الموت و کلھم قدراہ فیدبح ثم یقول با اھل الجنۃ ! خلود فلا موت و ابا ھل النار ! خلود فلا موت ثم قراً :(وانذر ھم یوم الحسرۃ اذ قضی الامر وھم فی غفلۃ) وھولاء فی عملہ اھل الدنیا (وھم لا یومنون) (بخاری التفسیر، باب قولہ عزوجل :(واندرھم یوم الحسرۃ):8330)” موت کو ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا، پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا :” اے جنت والو ! “ تو وہ سر اٹھائیں گی اور دیکھیں گے۔ وہ کہے گا :” کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ “ وہ کہیں گے؍” ہاں ! یہ موت ہے۔ “ اور وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے، پھر وہ آواز دے گا :” اے آگ والو ! “ تو وہ سر اٹھائیں گے اور دیکھیں گے، وہ کہے گا :” کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ “ وہ کہیں گے ” ہاں ! یہ موت ہے۔ “ اور وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے، تو اسے ذبح کردیا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا :” اے جنت والو ! (اب) ہمیشگی ہے، کوئی موت نہیں اور اے آگ والو ! (اب ) ہمیشگی ہے، کوئی موت نہیں۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی :(وانذرھم یوم الحسرۃ اذ قضی الامر وھم فی غفلۃ) (مریم : ٣٩)” اور انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں۔ “ یعنی وہ سراسر دنیا کی غفلت میں ہیں ” اور وہ ایمان نہیں لاتے۔ “ مزید دیکھیے سورة مریم (٣٩) ۔ (٢) وو قھم عذاب الجحیم، یہاں ایک سوال ہے کہ جو شخص جنت میں داخل ہوگیا اس کا جہنم سے بچنا تو خود بخود ظاہر ہے، پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ انھیں بھڑکتی آگ سے بچا لے گا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ جنت کی قدر پوری طرح اس وقت معلوم ہوتی ہے جب اس کے پیش نظر یہ بات بھی ہو کہ اگر میں جہنم میں وہ تا تو میرا کیا ل حال ہوتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَىٰ (They will not taste death therein, except for the first death (they faced in the world) - 44:56). In other words, they shall suffer no death other than the first death which they had encountered at the end of their lives in this world. The dwellers of Hell as well will suffer only one death at the end of their lives in this world. The latter, however, will suffer a greater degree of torture when they will know that they will remain alive in this miserable state of punishment, whereas for the former the thought that Allah has saved them from the torment of the Hell, that the gardens of Paradise are eternal, that they will enjoy the delights of paradise for ever and its blessings will never cease or be taken away from them, will enhance the degree of their happiness, never to diminish . Alhamdulillah the commentary on Surah Ad-Dukan ends here.

(آیت) لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰى مطلب یہ ہے کہ جو موت ایک مرتبہ آ چکی بس وہ آ چکی اس کے بعد کوئی موت ان پر نہیں آئے گی اور یہ بات اگرچہ اہل جہنم کو بھی حاصل ہوگی، لیکن ظاہر ہے کہ وہ ان کے لئے اور زیادہ تکلیف کا سبب ہوگی اور اہل جنت کے لئے سرور و کیف میں اضافے کا باعث۔ کیونکہ نعمت خواہ کتنی بڑی ہو اس کے زوال کا تصور لازماً کدورت کا سبب ہوتا ہے اور اہل جنت جب یہ تصور کریں گے کہ یہ نعمتیں کبھی ہم سے نہیں چھنیں گی تو اس سے ان کی مسرتوں میں اضافہ ہوگا۔ الحمد اللہ کہ آج بتاریخ 6 رجب 1392 ھ بروز پنجشنبہ بوقت نماز عشاء سورة دخان کی تفسیر مکمل ہوئی واللہ الحمد اولاً واخرا و صلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد و علی الہ و اصحابہ اجمعین

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْہَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَۃَ الْاُوْلٰى۝ ٠ ۚ وَوَقٰىہُمْ عَذَابَ الْجَحِيْمِ۝ ٥٦ ۙ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان/ 56] ، وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد/ 34] ، ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد/ 37] ، قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم/ 6] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان/ 56] اور خدا ان کو دوزخ کے عذاب سے بچالے گا ۔ وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد/ 34] اور ان خدا کے عذاب سے کوئی بھی بچانے والا نہیں ۔ ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد/ 37] تو خدا کے سامنے نہ کوئی تمہارا مدد گار ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا ۔ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم/ 6] اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش جہنم سے بچاؤ ۔ جحم الجُحْمَة : شدة تأجج النار، ومنه : الجحیم، وجَحَمَ وجهه من شدة الغضب، استعارة من جحمة النار، وذلک من ثوران حرارة القلب، وجَحْمَتَا الأسد : عيناه لتوقدهما . ( ج ح م ) الجحمۃ آگ بھڑکنے کی شدت اسی سے الجحیم ( فعیل ہے جس کے معنی ( دوزخ یا دہکتی ہوئی آگ کے ہیں ۔ اور جحمۃ النار سے بطور استعارہ جحم استعار ہوتا ہے جس کے معنی غصہ سے چہرہ جل بھن جانے کے ہیں کیونکہ غصہ کے وقت بھی حرارت قلب بھڑک اٹھتی ہے کہا جاتا ہے : ۔ جحم ( ف ) الا سد بعینیۃ شیر نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کیونکہ شیر کی آنکھیں بھی آگ کی طرح روشن ہوتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ { لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْہَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَۃَ الْاُوْلٰی وَوَقٰٹہُمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ } ” وہ نہیں چکھیں گے اس میں موت سوائے اس پہلی موت کے ‘ اور اللہ نے انہیں بچالیا ہے جہنم کے عذاب سے۔ “ دنیا میں انہیں جو موت آئی تھی وہی ان کی آخری موت ہوگی ‘ اب انہیں موت کی سختی کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور جنت میں ان کا قیام ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوگا۔ اَللّٰھُمَ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے ان بندوں میں شامل کرلے ‘ آمین !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

44 Two things are worthy of notice in this verse. First, after mentioning the blessings of Paradise special mention has been made of being secure from Hell separately whereas a person's entry into Paradise by itself amounts to his being safe from Hell. This is because man can feel the worth of the reward of obedience fully only when he is informed what end the disobedient people have met and from what evil end he himself has ban saved. Secondly, Allah is mentioning those people's safety from Hell and their entry into Paradise as a result of His own grace. This is meant to warn man of the truth that this success cannot be achieved by any person unless he is blessed by Allah's grace. Although man will be rewarded for his own good deeds, in the first place he cannot do good unless favoured by Allah's succour; then even the best deed that man is able to perform, cannot be absolutely perfect and none can claim that it is flawless and faultless. It is only Allah's bounty that He should overlook the servant's weaknesses and defects in his actions and accept his services and bless him with rewards; otherwise if He resorts to minute accountability no one can dare claim to win Paradise only on the strength of his own deeds. The same thing has been said by the Holy Prophet in a Hadith to the effect: "Act and try to act as righteously as you possibly can, but know that the action of a person alone will not make him enter Paradise. It was asked: What about your own action, O Messenger of Allah? He replied: Yes, even I won't enter Paradise on the strength of my actions, unless of course, my Lord covers me up in His mercy."

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :44 اس آیت میں دو باتیں قابل توجہ ہیں: ایک یہ کہ جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد جہنم سے بچائے جانے کا ذکر خاص طور پر الگ فرمایا گیا ہے ، حالانکہ کسی شخص کا جنت میں پہنچ جانا آپ اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ جہنم میں جانےسے بچ گیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرمانبرداری کے انعام کی قدر انسان کو پوری طرح اسی وقت محسوس ہوسکتی ہے جبکہ اس کے سامنے یہ بات بھی ہو کہ نافرمانی کرنے والے کہاں پہنچے ہیں ، اور وہ کس برے انجام سے بچ گیا ہے ۔ دوسری قابل توجہ بات اس میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے جہنم سے بچنے اور جنت میں پہنچنے کو اپنے فضل کا نتیجہ قرار دے رہا ہے ۔ اس سے انسان کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ یہ کامیابی کسی شخص کو نصیب نہیں ہو سکتی جب تک اللہ کا فضل شامل حال نہ ہو ، اگرچہ آدمی کو انعام اس کے اپنے حسن عمل ہی پر ملے گا ، لیکن اول تو حسن عمل ہی کی توفیق آدمی کو اللہ کے فضل کے بغیر کیسے نصیب ہوسکتی ہے ۔ پھر جو بہتر سے بہتر عمل بھی آدمی سے بن آ سکتا ہے وہ کبھی کامل و اکمل نہیں ہوسکتا جس کے متعلق دعوے سے یہ کہا جا سکے کہ اس میں نقص کا کوئی پہلو نہیں ہے ۔ یہ اللہ ہی کا فضل ہے کہ وہ بندے کی کمزوریوں اور اس کے عمل کی خامیوں کو نظر انداز کر کے اس کی خدمات کو قبول فرمالے اور اسے انعام سے سرفراز فرمائے ۔ ورنہ باریک بینی کے ساتھ حساب کرنے پر وہ اتر آئے تو کس کی یہ ہمت ہے کہ اپنی قوت بازو سے جنت جیت لینے کا دعویٰ کرسکے ۔ یہی بات ہے جو حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوئی ہے ۔ آپ نے فرمایا: اعملوا و سددوا وقاربوا و اعلموا انّ احداً لن یُّدخلہُ عملہ الجنۃ ۔ عمل کرو اور اپنی حد استطاعت تک زیادہ سے زیادہ ٹھیک کام کرنے کی کوشش کرو ، مگر یہ جان لو کہ کسی شخص کو محض اس کا عمل ہی جنت میں نہ داخل کر دے گا ۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ، کیا آپ کا عمل بھی ؟ فرمایا وَلَا اَنَا اِلَّا اَنْ یتغمّدنی اللہ بِرَحْمَتِہ ، ہاں میں بھی محض اپنے عمل کے زور سے جنت میں نہ پہنچ جاؤں گا الّا یہ کہ مجھے میرا رب اپنی رحمت سے ڈھانک لے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:56) لا یذوقون فیہا الموت۔ وہ اس میں موت کو نہیں چکھیں گے یعنی ان کو وہاں کبھی موت نہیں آئے گی۔ بلکہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع یا تو آخرۃ ہے یا جنت۔ الا الموتۃ الاولی سوائے پہلی موت کے۔ صاحب تفسیر مظہری رقمطراز ہیں :۔ الا الموتۃ الاولی۔ یہ استثناء منقطع ہے یا متصل ہے اور فیہا کی ضمیر آخرت کی طرف راجع ہے (لیکن آخرت میں تو پہلی موت بھی نہیں آئے گی۔ اس لئے مجازی معنی مراد ہے۔ (کیونکہ) مرتے ہی قیامت کے احوال شروع ہوجاتے ہیں۔ یا جنت کی طرف راجع ہے (لیکن جنت میں بھی تو پہلی موت نہیں ہوگی۔ اس لئے اس صورت میں بھی مجازی مراد ہوں گے) مرتے ہی متقی فورا جنت کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے گویا اس کی موت ہی جنت کے اندر واقع ہوتی ہے۔ لہٰذا اس جملہ کا ترجمہ ہوگا :۔ بجز اس پہلی موت کے جو دنیا میں آچکی ہوگی۔ وقہم عذاب الجحیم : وقی (لفیف مفروق) ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب وقایۃ باب ضرب مصدر۔ وہ بچا لیگا۔ وہ محفوظ رکھے گا۔ (ماضی بمعنی مستقبل) ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ عذاب الجحیم مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول ثانی وقی کا جہنم کے عذاب سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی وہاں کبھی موت نہ آئے گی۔ صحیحین کی ایک روایت میں ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : موت کو ایک بھورے رنگ کے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور اسے جنت و دوزخ کے درمیان کھڑا کر کے ذبح کردیا جائے گا پھر کہا جائیگا ” اے جنت والو ! تم ہمیشہ زندہ رہو گے۔ “ اور اے دوزخ والو ! تمہیں بھی ہمیشہ رہنا ہے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(56) وہ ان باغوں میں بجز اس موت کے جو دنیا میں آچکی تھی اور کسی موت کا مزہ نہیں چکھیں گے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو دوزخ کے عذاب سے بچا لیا۔ یعنی دنیاوی موت کے علاوہ کوئی اور موت نہیں اور وہ جب دنیا میں تھے تو اس پہلی موت کا مزہ چکھ چکے اب ان کے لئے اور کسی موت کا خطرہ نہیں اور جہنم کے عذاب سے ان کو بچا لیا گیا۔ غرض ہر قسم کے تفکرات اور خوف وخطر سے پاک اور بیشمار نعمتوں سے لذت اندوز۔