Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 57

سورة الدخان

فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۵۷﴾

As bounty from your Lord. That is what is the great attainment.

یہ صرف تیرے رب کا فضل ہے یہی ہے بڑی کامیابی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

As a bounty from your Lord! That will be the supreme success! meaning, that will be from His bounty and kindness towards them. It was reported in the Two Sahihs that the Messenger of Allah said: اعْمَلُوا وَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَاعْلَمُوا أَنَّ أَحَدًا لَنْ يُدْخِلَهُ عَمَلُهُ الْجَنَّة Work and strive hard, and know that no one will enter Paradise by virtue of his deeds. They said, "Not even you, O Messenger of Allah?" He said, وَلاَ أَنَا إِلاَّ أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللهُ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْل Not even me, unless Allah showers me with His mercy and grace. فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 جس طرح حدیث میں آتا ہے، فرمایا یہ بات جان لو ! تم میں کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا صحابہ نے عرض کیا۔ یارسول اللہ ! آپ کو بھی ؟ فرمایا ' ہاں مجھے بھی، مگر اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت اور فضل میں ڈھانپ لے گا ' (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] جنت میں داخلہ صرف اللہ کے فضل سے ہوگا اور اس کی وجہ :۔ یعنی اصل کامیابی یہی ہے کہ انسان دوزخ کے عذاب سے بچ جائے اور اگر اللہ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچا کر جنت میں بھی داخل کردے تو یہ اللہ کا خاص فضل ہوتا ہے۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا۔ آپ فرماتے تھے :&& کسی شخص کو اس کے عمل بہشت میں نہیں لے جائیں گے && لوگوں نے عرض کیا :&& یارسول اللہ کیا آپ کے اعمال بھی ؟ && آپ نے فرمایا : && ہاں ! میں بھی اپنے اعمال کے سبب بہشت میں نہیں جاؤں گا۔ اِلایہ کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت مجھے ڈھانپ لے && (بخاری۔ کتاب المرضیٰ ۔ باب تمنی المریض الموت علماء کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی خواہ کتنی ہی عبادت اور فرمانبرداری کرے اس سے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ احسانات کا بھی بدلہ نہیں چکایا جاسکتا۔ چہ جائیکہ اسے بہشت بھی عطا کی جائے۔ اور اگر کسی کو جنت میں داخلہ ملتا ہے تو یہ محض اس کا فضل ہوا۔ نیز حدیث میں ہے کہ مومن کو قبر میں اس کا جنت میں ٹھکانا دکھایا جاتا ہے اور دوزخ میں بھی اور کہا جاتا ہے کہ اگر تم اللہ کی فرمانبرداری نہ کرتے تو تمہارا یہ ٹھکانا تھا اور دوزخ میں ٹھکانہ اس لیے دکھایا جاتا ہے کہ جب تک انسان اللہ کی کسی نعمت کے مقابلہ میں اس کے برعکس کوئی تکلیف دیکھ نہ لے وہ اللہ کی نعمت کا صحیح اندازہ کر ہی نہیں سکتا۔ انسان کو اپنی صحت کی قدر بھی اسی وقت معلوم ہوتی ہے جب وہ بیمار پڑتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فضلاً من ربک ذلک ھو الفوز العظیم، یعنی جنت میں داخلہ کسی کے استحقاق یا اعمال کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ محض اللہ کے فضل سے ہوگا، کیونکہ آدمی جتنے اعمال بھی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت کا بدل نہیں ہوسکتے۔ اس سے پہلے آیت (٤٢) کی تفسیر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث گئزر چکی ہے کہ کسی بھی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ وہاں ملاحظہ فرمائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكَ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝ ٥٧ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ فوز الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] ، ( ف و ز ) الفوز کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ { فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکَط ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ } ” یہ فضل ہوگا آپ کے رب کی طرف سے۔ یقینا یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ “ بلاشبہ اس میں ان کی نیکیوں اور محنت کا بھی حصہ ہوگا ‘ لیکن اس دن کی کامیابی نیک اعمال کی کثرت کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے خصوصی فضل کے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:57) فضلا من ربک : فضلا منصوب بوجہ مفعول لہ ہونے کے ہے۔ یعنی یہ سب عنایات (متذکرہ آیات 51 تا 56) اس کا فضل و احسان ہے نہ کہ بندہ کے افعال کا ثمر یہ محض آپ کے رب کا فضل و کرم ہے۔ ذلک۔ یعنی تیرے رب کا فضل و کرم کا نصب ہوجانا ہی عظیم کامیابی ہے۔ یا یہ مکروہات سے نجات اور مقاصد تک رسائی یہی بڑی کامیابی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” عمل کرو، میانہ روی اختیار کرو حق سے قریب رہو اور یہ یاد رکھو کہ تم میں سے کسی کا عمل بھی اس کو جنت میں نہ لیجائے گا ؟ “ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کا عمل بھی آپ کو جنت میں نہیں لے جائے گا ؟ فرمایا ! ” ہاں ! میرا عمل بھی نہیں لایہ کہا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے مجھے ڈھانک لے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(57) یہ سب کچھ ان اہل تقویٰ کو آپ کے پروردگار کے فضل سے ملے گایہی بہت بڑی کامیابی ہے یعنی یہ تمام عطائیں اور انعامات آپ کے رب کے فضل سے میسر ہوں گے اور یہ واقعہ ہے اگر حق تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ان کا فضل ہے اور ہر شخص کو ان کے فضل ہی کا سہارا ہے۔