Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 58

سورة الدخان

فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿۵۸﴾

And indeed, We have eased the Qur'an in your tongue that they might be reminded.

ہم نے اس ( قرآن ) کو تیری زبان میں آسان کر دیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Certainly, We have made this easy in your tongue, in order that they may remember. means, `We have made this Qur'an, which We have sent down, easy, plain and clear, in your language which is the most eloquent, clear and beautiful of all languages.' ... لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ in order that they may remember. means, in order that they may understand and know. Despite the fact that it is so plain and clear, there are still people who disbelieve, who stubbornly go against it. Allah says to His Messenger, consoling him and promising him victory, and warning those who reject him that they will be destroyed. فَارْتَقِبْ إِنَّهُم مُّرْتَقِبُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] کیا قرآن آسان ہے یا مشکل ترین ؟ اللہ نے تو واقعی قرآن کو آسان ہی بنایا تھا لیکن ہمارے فرقہ باز علماء نے اسے مشکل ترین کتاب بنادیا ہے اور یہی کچھ عوام کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ اس کی دلیل درس نظامی کا وہ نصاب ہے جو دینی مدارس میں چھ، سات، آٹھ حتیٰ کہ نو سال میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس نصاب میں قرآن کے ترجمہ اور تفسیر کی باری عموماً آخری سال میں آتی ہے۔ پہلے چند سال تو صرف و نحو میں صرف کئے جاتے ہیں۔ ان علوم کو خادم قرآن علوم کہا جاتا ہے۔ ان علوم کی افادیت مسلم لیکن جس طالب علم کو فرصت ہی دو چار سال کے لیے ملے اسے کیا قرآن سے بےبہرہ ہی رکھنا چاہئے ؟ پھر اس کے بعد فقہ پڑھائی جاتی ہے۔ تاکہ قرآن اور حدیث کو بھی فقہ کی مخصوص عینک سے ہی دیکھا جاسکے۔ تقلید شخصی کے فوائد بھی بیان کئے جاتے ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جس فرقہ کے مدرسہ میں طالب علم داخل ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی سانچہ میں ڈھل کر نکلتا ہے۔ اسی طرح فرقہ بازی کی گرفت کو تو واقعی مضبوط بنادیا جاتا ہے۔ مگر حقیقتاً ان طالب علموں کو قرآن کریم کی بنیادی تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ جب تک ان ابتدائی علوم کو پڑھا نہ جائے اس وقت تک قرآن کی سمجھ آہی نہیں سکتی۔ اور اس طرح عملاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تردید کی جاتی ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان بنادیا ہے، تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ قرآن کریم شرک کا سخت دشمن ہے۔ کوئی سورت اور کوئی صفحہ ایسا نہ ہوگا جس میں شرک کی تردید یا توحید کے اثبات میں کچھ نہ کچھ مذکور نہ ہو۔ مگر ہمارے طریقہ تعلیم کا یہ اثر ہے کہ شرک کی کئی اقسام مسلمانوں میں رواج پا گئی ہیں اور انہیں عین دین حق اور درست قرار دیا جاتا ہے۔ بلکہ شرک سے روکنے والوں کو کافر کہہ کر ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔ لہذا ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی اولین فرصت میں قرآن کریم کا ترجمہ خود مطالعہ کرنا چاہئے اور سیکھنا چاہئے اور اس کے لیے کسی ایسے عالم کے ترجمہ کا انتخاب کرنا چاہئے۔ جو متعصب نہ ہو اور کسی خاص فرقہ سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ یا ایسے عالم کا جس کی دیانت پر سب کا اتفاق ہو اور یہ ترجمہ بالکل خالی الذھن ہو کر دیکھنا چاہئے۔ قرآن سے خود ہدایت لینا چاہئے۔ اپنے سابقہ یا کسی کے نظریات کو قرآن میں داخل نہ کرنا چاہئے۔ نہ اس سے اپنے نظریات کھینچ تان کر اور تاویلیں کرکے کشید کرنا چاہئیں۔ یہی طریقہ ہے جس سے قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فانما یسرنہ بلسانک لعلھم یتذکرون : سورت کی ابتدا قرآن کریم کی عظمت و اہمیت کے بیان سے ہوئی تھی، آخر میں پھر اسی کی طرف توجہ دلائی کہ ہم نے یہ قرآن آپ کی زبان عربی میں آسان کردیا ہے، تاکہ عرب لوگ اسے اپنی زبان میں ہونے کی وجہ سے آسانی کے ساتھ سمجھ لیں اور غیر عرب لوگوں کو سمجھائیں۔ مزید دیکھیے سورة مریم کی آیت (٩٧) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۝ ٥٨ سار السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير، فمن الأوّل قوله : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج/ 46] ، قُلْ سِيرُوا[ الأنعام/ 11] ، سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ/ 18] ، ومن الثاني قوله : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص/ 29] ، ولم يجئ في القرآن القسم الثالث، وهو سِرْتُهُ. والرابع قوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] ، هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس/ 22] ، وأمّا قوله : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل/ 69] فقد قيل : حثّ علی السّياحة في الأرض بالجسم، وقیل : حثّ علی إجالة الفکر، ومراعاة أحواله كما روي في الخبر أنه قيل في وصف الأولیاء : (أبدانهم في الأرض سَائِرَةٌ وقلوبهم في الملکوت جائلة) «1» ، ومنهم من حمل ذلک علی الجدّ في العبادة المتوصّل بها إلى الثواب، وعلی ذلک حمل قوله عليه السلام : «سافروا تغنموا» «2» ، والتَّسْيِيرُ ضربان : أحدهما : بالأمر، والاختیار، والإرادة من السائر نحو : هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس/ 22] . والثاني : بالقهر والتّسخیر کتسخیر الجبال وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير/ 3] ، وقوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] ، والسِّيرَةُ : الحالة التي يكون عليها الإنسان وغیره، غریزيّا کان أو مکتسبا، يقال : فلان له سيرة حسنة، وسیرة قبیحة، وقوله : سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه/ 21] ، أي : الحالة التي کانت عليها من کو نها عودا . ( س ی ر ) السیر ( س ی ر ) السیر ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔ سرت ( ض ) کے معنی چلنے کے ہیں اور سرت بفلان نیز سرتہ کے معنی چلانا بھی آتے ہیں اور معنی تلثیر کے لئے سیرتہ کہا جاتا ہے ۔ ( الغرض سیر کا لفظ چار طرح استعمال ہوتا ہے ) چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج/ 46] ، کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر ( و سیاحت ) نہیں کی ۔ قُلْ سِيرُوا[ الأنعام/ 11] کہو کہ ( اے منکرین رسالت ) ملک میں چلو پھرو ۔ سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ/ 18] کہ رات ۔۔۔۔۔ چلتے رہو اور دوسرے معنی یعنی سرت بفلان کے متعلق فرمایا : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص/ 29] اور اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر چلے ۔ اور تیسری قسم ( یعنی سرتہ بدوں صلہ ) کا استعمال قرآن میں نہیں پایا جاتا اور چوتھی قسم ( یعنی معنی تکثیر ) کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] اور پہاڑ چلائی جائینگے ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس/ 22] وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھر نے اور سیر کرانے کی توفیق دیتا ہے ۔ اور آیت : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل/ 69] کہ ملک میں چلو پھرو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سیاست جسمانی یعنی ملک میں سیر ( سیاحت ) کرنا مراد ہے اور بعض نے سیاحت فکری یعنی عجائبات قدرت میں غور فکر کرنا اور حالات سے باخبر رہنا مراد لیا ہے جیسا کہ اولیاء کرام کے متعلق مروی ہے ۔ ( کہ ان کے اجسام تو زمین پر چلتے پھرتے نظر اتے ہیں لیکن ان کی روحیں عالم ملکوت میں جو لانی کرتی رہتی ہیں ) بعض نے کہا ہے اس کے معنی ہیں عبادت میں اسی طرح کوشش کرنا کہ اس کے ذریعہ ثواب الٰہی تک رسائی ہوسکے اور آنحضرت (علیہ السلام) کا فرمان سافروا تغنموا سفر کرتے رہو غنیمت حاصل کر وگے بھی اس معنی پر محمول ہے ۔ پھر تسیر دوقسم پر ہے ایک وہ جو چلنے والے کے اختیار واردہ سے ہو جیسے فرمایا ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس/ 22] وہی تو ہے جو تم کو ۔۔۔۔ چلنے کی توفیق دیتا ہے ۔ دوم جو ذریعہ کے ہو اور سائر یعنی چلنے والے کے ارادہ واختیار کو اس میں کسی قسم کا دخل نہ ہو جیسے حال کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ ریت ہوکر رہ جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير/ 3] اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے ۔ السیرۃ اس حالت کو کہتے ہیں جس پر انسان زندگی بسر کرتا ہے عام اس سے کہ اس کی وہ حالت طبعی ہو یا اکتسابی ۔ کہا جاتا ہے : ۔ فلان حسن السیرۃ فلاں کی سیرت اچھی ہے ۔ فلاں قبیح السیرۃ اس کی سیرت بری ہے اور آیت سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه/ 21] ہم اس کو ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے ۔ میں سیرۃ اولٰی سے اس عصا کا دوبارہ لکڑی بن جانا ہے ۔ لسن اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر . ( ل س ن ) اللسان ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٨۔ ٥٩) سو ہم نے اس قرآن کریم کی قرات کو آسان کردیا تاکہ یہ لوگ قرآن کریم سے نصیحت قبول کریں سو آپ بدر کے دن ان کی ہلاکت کے منتظر رہیے یہ بھی آپ کے نقصان کے منتظر ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان سب بدبختوں کو بدر کے دن ہلاک کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ { فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰــہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ } ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) ہم نے اس قرآن کو آسان کردیا ہے آپ کی زبان پر ‘ تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ “ قرآن کی زبان بہت فصیح وبلیغ ہونے کے باوجود بڑی سادہ اور آسان ہے۔ بعض مصنفین دقیق اور ثقیل الفاظ استعمال کر کے قارئین پر اپنی علمیت کی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ عربی کی کتاب ” مقاماتِ حریری “ پڑھیں تو اس میں آپ کو بھاری بھر کم اور نامانوس الفاظ کی کثرت سے محسوس ہوگا کہ شاید کتاب لکھنے سے مصنف کا مقصود صرف اپنے ذخیرہ الفاظ کا مظاہرہ کرنا ہی ہے۔ بہر حال قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس کا مقصد بنی نوع انسان کو ہدایت دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو (نعوذ باللہ) قرآن کی عبارت کے ذریعے سے اپنی زبان دانی کی مہارت کا مظاہرہ کرنا مقصود نہیں تھا۔ چناچہ اس کتاب میں اگر ایک طرف ہمیں فصاحت و بلاغت کی معراج نظر آتی ہے تو دوسری طرف اس کی عبارت میں سہل ممتنع اور سادگی کا اعجاز بھی دکھائی دیتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٨۔ ٥٩۔ سورة ابراہیم میں گزر چکا ہے کہ ہر ایک نبی کو اللہ تعالیٰ نے جس قوم کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے اس نبی کو وحی بھی اسی زبان میں بھیجی ہے جو زبان اس قوم کی بول چال میں جاری تھی تاکہ وحی کے ذریعہ سے جو احکام اللہ تعالیٰ کے نازل ہوں وہ ہر وقت کے نبی اپنی قوم کو جلدی سے سمجھا دیں اور پھر ترجمہ اور تفسیر کے ذریعہ سے احکام غیر قوم کے لوگوں کو بھی پہنچ جائیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اگرچہ جن و انسان تمام مخلوقات کے ہدایت کے لئے ہے لیکن اور انبیاء کے دستور کے موافق قریش کی زبان میں قرآن کی نصیحت سے جلدی واقف ہوجائیں اور پھر ان کے ذریعہ سے قرآن کی نصیحت غیر قوم کے لوگوں کو بھی پہنچ جائے اسی حکمت کی صراحت میں اللہ تعالیٰ نے سورة انعام میں فرمایا ہے : واوحی الی ھذا القران لانذرکم بدومن بلغ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی اصلی زبان سے اہل عرب کو اور قرآن کے ترجمہ اور تفسیر سے غیر قوموں کو دوزخ کے عذاب سے ڈرانے کے لئے یہ قرآن مجھ پر نازل ہوا ہے اس سورة انعام کی آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجاشی قیصر روم اور کسریٰ کو ہدایت کے خط لکھے ہیں۔ چناچہ تفسیر ٥ ؎ ابو الشیخ اور تفسیر ابن مردویہ میں حضرت انس (رض) کی روایت میں اس کی تصریح آئی ہے اللہ تعالیٰ کی حکمت غالب ہے اس حکمت الٰہی سے تیتیس برس کے زمانہ نزول میں بھی قرآن شریف کی نصیحت کا اثر ملک عرب میں وہ ہوا کہ بہت سے آدمی مسلمان ہوگئے اور آیت کے اس ٹکڑے لانذرکم بہ کا عمل ہوگیا ہے اور دوسرے ٹکڑے ومن بلغ کے عمل پر طرح طرح کی تفسیریں اور ترجمہ ہو کر یہ ہدایت کا اثر جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا یہ عام قاعدہ ہے کہ شہر اور اطراف شہر کے قصبیات کی زبان میں کسی قدر فرق ہوا کرتا ہے اب اس صورت میں مثلاً ایک شخص پانی پت کے رہنے والے کو یوں مجبور کیا جائے کہ وہ دہلی کی زبان بولے تو اس شخص کو ایک طرح کی دقت اور تکلیف ہوگی اس تکلیف کے رفع کرنے کی غرض سے قرآن شریف کے قریش کی زبان میں نازل ہونے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت پر قرآن شریف کے آسان ہوجانے کی خواہش اللہ تعالیٰ سے کی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی خواہش کو قبول فرما کر سات طرح سے قرآن کے لفظوں کا پڑھنا جائز فرما دیا۔ چناچہ صحیح ١ ؎ مسلم میں حضرت ابی بن (رض) کعب سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پہلے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو ایک ہی طرح سے قرآن شریف کے پڑھنے کا حکم دیا تھا میں نے اللہ تعالیٰ سے خواہش کی کہ میری امت کو قرآن شریف آسان ہوجائے میری اس خواہش پر سات طرح قرآن شریف کا پڑھنا جائز ہوگیا صحاح میں بہت سی حدیثیں قرآن شریف کے ساتھ طرح پڑھنے کے باب میں علما نے گن کر یہ بات نکالی ہے کہ اکیس صحابہ سے اس باب میں روایتیں ہیں اسی واسطے بعض علما نے اس باب کی روایت کے متواتر ہونے کا دعویٰ کیا ہے مگر مابعد کے علما نے ان حدیثوں کے معنوں میں اختلاف کرکے چالیس قول باہمی اختلاف کی وجہ سے ان حدیثوں کے معنوں میں قائم کردیئے ہیں۔ لیکن صحیحین ٢ ؎ میں جو حضرت عمر (رض) کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ہشام بن حکیم صحابی کو سورة فرقان اس طرح کی قرأت سے پڑھتے ہوئے دیکھا جو قرأت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت عمر (رض) نے کبھی نہیں سنی تھی تو یہ حال دیکھ کر حضرت عمر (رض) کو غصہ آگیا اور حضرت عمر (رض) ہشام بن حکیم کی چادر کا کونا پکڑ کے کھینچتے ہوئے ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لائے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر اور ہشام دونوں کی قرأتیں سن کر دونوں قرأتوں کو صحیح قرار دیا اور فرمایا کہ جس کو جس طرح سے آسان معلوم ہوا اسی طرح سے قرآن شریف پڑھے آخر سات طرح سے قرآن شریف نازل ہوا ہے اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ سات طرح کے قرآن شریف کے نازل ہونے کا حکم قرأت سے متعلق ہے اس کے سوا جو معنی ان حدیثوں کے علما نے بیان کئے ہیں وہ اس صحیح حدیث کے مخالف ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس خواہش کے قبول ہونے کے بعد مکہ کے اطراف کے رہنے والے لوگ اپنی زبان اور بول چال کے موافق قرآن شریف کی تلاوت کرنے لگے اور عرب کی سب قوموں میں قرآن شریف کا مطلب جلدی پھیل گیا اور قریش کے سوا اور قوموں کے بہت صحابہ قرآن شریف کے مفسر ہوئے اور پھر صحابہ سے وہ علم تابعین اور تبع تابعین اور یہاں تک لوگوں میں بذریعہ تفسیر اور ترجموں کے آیا اور قیامت تک یہی سلسلہ جاری رہے گا غرض جو کچھ آج تک ہوا اور قیامت تک ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا ظہور اور اسی آیت کی تفسیر ہے صحیح بخاری ٣ ؎ و مسلم ترمذی وغیرہ میں چند صحابہ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے فقط قریش کی زبان کے موافق قرآن پڑھا جاتا ہے ہجرت کے بعد جب مختلف قبیلوں کے لوگ اسلام میں داخل ہوئے تو ان لوگوں کی زبان پر قریش کی زبان کے بعض لفظ نہیں چڑھتے تھے مثلاً ہذیل قبیلہ کے لوگ حتی کو عتی کہتے تھے حتیٰ ان کی زبان پر نہیں چڑھتا تھا اس مشکل کے آسان ہوجانے کے لئے قرآن شریف کے بعض لفظوں کو سات طرح تک پڑھنے کا حکم ہوا حاصل کلام یہ ہے کہ ابی بن کعب کی حدیث جو اوپر گزری اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارا قرآن سات طرح پڑھا جاتا ہے بلکہ اس حدیث کا وہی مطلب ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ قرآن شریف کے بعض لفظوں کو سات طرح سے پڑھا جاتا ہے کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے متفرق لکھی ہوئی آیتوں سے حضرت ابوبکر صدیق کے زمانہ میں جو قرآن جمع ہوا اس میں قرآن شریف کے بعض لفظ سات طرح تک کے تھے سارے قرآن کے لفظ سات طرح کے نہیں تھے۔ چناچہ صحیح بخاری ١ ؎ میں انس (رض) بن مالک کی جو روایت ہے اس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کے زمانہ کا جمع کیا ہوا ایک قرآن حضرت حفصہ کے پاس تھا جس کو حضرت عثمان نے مصحف عثمانی جمع کرنے کے وقت حضرت حفصہ سے منگوا لیا تھا اگر سارا قرآن سات طرح پڑھا جاتا تو حضرت ابوبکرصدیق کے جمع کئے ہوئے سات قرآن جدا جدا ہوتے آسانی کے لحاظ سے قرآن شریف کے بعض لفظوں کو سات طرح تک پڑھنے کا جو حکم ہوا تھا ان لفظوں میں سے کچھ لفظوں کو عبد اللہ بن مسعود نے اختیار کرلیا تھا یہ عبد اللہ بن مسعود کی قرأت مشہور تھی اسی طرح کچھ لفظ ابو موسیٰ اشعری نے اور کچھ ابی بن کعب نے یہ قرأتیں ان کے نام سے مشہورتھیں ‘ حضرت عثمان کی خلافت تک ان ہی مختلف قرأتوں میں قرآن شریف پڑھا جاتا تھا حضرت عثمان کی خلافت میں اسی اختلاف قرأت کے سبب سے جب مسلمانوں میں جھگڑے ہونے لگے تو حضرت عثمان نے اس باب میں صحابہ سے مشورہ کیا اور مشورہ کے بعد تمام صابہ کی یہ صلاح قرار پائی کہ زبان قریش کے موافق پہلے قرآن وں سے ایک قرآن کی نقل کی جا کر اس کی چند نقلیں جگہ جگہ بھیج دی جائیں اور اسی ایک قرأت کا لوگوں کو پابند کیا جائے کیونکہ پہلے پہل اسی محاورہ کے موافق قرآن نازل ہوا ہے اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر کے آخر رمضان میں جبرئیل (علیہ السلام) نے اسی کے موافق اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن کا دور کیا ہے ‘ حضرت عثمان نے اس مشورہ کے موافق مصحف عثمانی تیار کرایا تھا اور اس کی نقلیں جگہ جگہ بھیج دی اور پہلے قرآن تلف کردیئے گئے ‘ اگرچہ مصحف عثمانی اور اس کی نقلوں میں رسم خط کی قرار داد تھی لیکن اس وقت تک لفظوں پر زبر زبر کا رواج نہیں تھا کیونکہ یہ رواج تو بنی امیہ کے چھٹے خلیفہ عبد الملک کے عہد میں ہوا ہے۔ اس واسطے مصحف عثمان کی جو نقلیں جگہ جگہ روانہ کی گئی تھیں رسم خط کی پابندی سے صرف نحو کے قواعد کے موافق ان نقلوں میں جو لفظ کئی طرح پڑھا جاسکتا تھا اس کو کسی بستی والوں نے ایک طرح پڑھا اور دوسری بستی والوں نے دوسری طرح اسی کا نام وہ سات قرأتیں ہیں جو حال میں نافع حمزہ ابو عمر و عاصم کسائی کے نام سے مشہور ہیں اسی بنا پر یہ قول بہت صحیح ہے کہ ان حال کی سات قرأتوں میں حضرت ابوبکر صدیق والے قرآن کی ساتوں قرأتیں پوری نہیں ہیں کیونکہ یہ حال کی ساتوں قرأتیں مصحف عثمانی کے رسم خط کی پابندی سے پیدا ہوئی ہیں اور یہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ مصحف عثمانی میں حضرت ابوبکر صدیق والے قرآن کی قرأتوں کو چھوڑ دیا گیا ہے پھر مصحف عثمانی کی بنا پر جو عاصم وغیرہ کی قرأتیں پیدا ہوئی ہیں ان میں مصحف عثمانی سے پہلے کی قرأتیں پوری کیونکر آسکتی ہیں ‘ آیتوں میں قرآن کے آسان کئے جانے کا جو ذکر ہے اس قصہ کو اس کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس سے قرآن کی تلاوت میں جو جو آسانیاں علماء امت نے کردی ہیں اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے احسن الفوائد کے مقدمہ اور اس تفسیر کے مقدمہ میں اس قصہ کی تفصیل زیادہ ہے ‘ اب آگے فرمایا اے رسول اللہ کے اسلام کے غلبہ اور مخالف اسلام لوگوں کے مخلوب ہونے کا جو اللہ کا وعدہ ہے اس کے تم بھی منتظر رہو اور مخالف اسلام لوگ بھی منتظر رہیں وقت مقررہ پر اللہ تعالیٰ کے وعدہ کا ضرور ظہور ہوگا ‘ پہلا ظہور تو اس وعدہ کا بدر کی لڑائی کے وقت ہوا کہ مشرکین مکہ میں کے بڑے بڑے مخالف اسلام اسی لڑائی میں بڑی ذلت سے دنیا میں مارے گئے اور مرتے ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتلانے کے لئے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدہ کو سچا پا لیا چناچہ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کے حوالہ سے انس (رض) بن مالک کی روایت اس باب میں کئی جگہ گزر چکی ہے ‘ دوسرا ظہور اس وعدہ کا فتح مکہ کے وقت ہوا کہ جن بتوں کی حمایت میں مشرکین مکہ کو اسلام سے مخالفت تھی فتح مکہ کے وقت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ کی لکڑی مار مار کر ان بتوں کو زمین پر گرا دیا اور اہل مکہ میں سے کوئی شخص ان بتوں کے ذلت کو نہ روک سکا ‘ اب باب میں بھی صحیح بخاری ٢ ؎ کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود کی اور صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایتیں کئی جگہ گزر چکی ہیں۔ حضرت عبد اللہ (رض) بن عباس (رض) کے قول کے موافق یہ سورة مکی ٣ ؎ ہے مگر ایک آیت کو وہ مدنی کہتے ہیں جس کا ذکر آگے آتا ہے اس تفسیر میں ایک جگہ گزر چکا ہے کہ جس سورت کے شروع کی آیتیں مکی ہوں وہ ساری سورت مکی کہلاتی ہے۔ (٥ ؎ تفسیر فح القدر ص ١٠١ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب ان القران انزل علی سبعۃ احرف الخ ص ٢٧٣ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح بخایر باب انزل القران علی سبعۃ احرف الخ ص ٧٤٧ ج ٢۔ و صحیح مسلم باب بیان ان القران الخ ص ٢٧٣ ج ١۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم باب انزل القران علی سبعۃ احرف الخ ص ٢٧٣ ج ١۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب جمع القران ص ٧٤٦ ج ٢۔ ) (١ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ١٦٩۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب وقل جاء الحق وزھق الباطل ص ٦٨٦ ج ٢ و صحیح مسلم باب فتح مکہ ص ١٠٣ ج ٢۔ ) (٣ ؎ تفسیر فتح القدر ص ١ ج ٥۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:58) یسرنہ : یسرنا ماضی جمع متکلم تیسیر (تفعیل) مصدر۔ ہم نے آسان کردیا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع القران ہے۔ بلسانک : تیری زبان میں۔ عربی زبان میں۔ لعلہم تاکہ یہ لوگ۔ یتذکرون۔ مضارع جمع مذکر غائب تذکر (تفعل) مصدر۔ نصیحت پکڑتے ہیں۔ تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : الدّخان کی ابتداء قرآن مجید کے تعارف سے ہوئی اور اس کا اختتام بھی قرآن مجید کے بیان پر ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید اس لیے نازل فرمایا تاکہ آپ لوگوں کو اس کے ساتھ نصیحت فرمائیں۔ اس لیے قرآن مجید کو ” مَوْعِظَۃً “ اور ذکر کہا ہے۔ ذکر کا معنٰی ہے ایسی نصیحت جسے بار بار پیش کیا جائے اور اسے یاد رکھا جائے۔ ” مَوْعِظَۃً “ ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جو سننے والے کے دل پر اثر کرے۔ ظاہر بات ہے کہ نصیحت وہی مؤثر اور بہتر ہوتی ہے جس کا انداز اور الفاظ آسان تر ہوں۔ اس لیے قرآن مجید کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے اس کو آسان کردیا ہے کیا کوئی اسے سمجھنے کے لیے تیار ہے ؟ (القمر : ٢٢) قرآن مجید کے آسان اور پرتاثیر ہونے کے باوجوداگر اسے لوگ نہیں مانتے تو پھر انہیں فرمائیں کہ تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کرتے ہیں تاآنکہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ صادر فرما دے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہمارے ساتھ الجھنے کی بجائے تم اپنا کام کرو ہمیں اپنا کام کرنے دو ۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر قرآن کو آسان تر کردیا۔ ٢۔ قرآن مجید کو اس لیے آسان بنایا تاکہ لوگوں کو اس کی نصیحت سمجھنے میں مشکل پیش نہ آئے۔ ٣۔ جو لوگ آسان اور پرتاثیر قرآن کو نہیں مانتے انہیں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور دین کو آسان بنایا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے۔ (البقرۃ : ١٨٥، النساء : ٢٨) ١۔ دین میں جبر نہیں۔ (البقرۃ : ٢٥٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنایا۔ (مریم : ٩٧، القمر : ١٧، ٢٢، ٣٢، ٤٠، الدخان : ٥٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٥٨ تا ٥٩ یہ اس سورت کا خاتمہ ہے ، اس میں اس پوری سورت کی فضا اور اس کے موضوع بحث کا خلاصہ پیش کردیا گیا ہے۔ یہ خاتمہ اس کے آغاز اور اس میں بحث کی جو لائن اختیار کی گئی ہے اس کے مطابق ہے۔ آغاز ذکر کتاب ، نزول کتاب اور غرض نزول یعنی ڈرانے اور نصیحت کرنے سے ہوا تھا۔ اور اس کے سیاق میں اس عذاب کی تصریح کی گئی تھی۔ جو ان مکذبین کے انتظار میں ہے۔ یوم نبطش البطشۃ الکبری انا منتقمون (٤٤ : ١٦) ” جس دن یہ بڑی ضرب لگائیں گے ، وہ دن ہوگا جب ہم تم سے انتقام لیں گے “۔ اب یہ خاتمہ یوں ہے کہ ان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی قرآن مجید تمہارے لیے آسان کردیا گیا ہے جو عربی زبان میں ایک عربی بولنے والے رسول پر نازل کیا گیا ہے۔ تم اس کو سمجھ سکتے ہو ، وہ آپ کو سمجھا سکتے ہیں ، اگر تم نے اسے تسلیم نہ کیا تو ایک نہایت ہی خوفناک انجام تمہارے انتظار میں ہے۔ فارتقب انھم مرتقبون (٤٤ : ٥٩) ” تم بھی انتظار کرو ، یہ بھی منتظر ہیں “۔ ٭٭٭٭٭٭

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہم نے قرآن کو آپ کی زبان پر آسان کردیا ہے، آپ انتظار کریں، یہ لوگ بھی منتظر ہیں یہ سورة الدخان کی آخری دو آیتیں ہیں یہ سورت قرآن کریم کی قسم کھانے اور مبارک رات میں نازل فرمانے کے ذکر سے شروع ہوئی تھی آخر سورت میں پھر قرآن کا تذکرہ فرمایا کہ ہم نے اس کو آپ کی زبان پر آسان کردیا ہے آپ کی زبان عربی ہے یہ بھی عربی ہے آپ اسے پڑھیں اور ان کے سامنے بیان کریں تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں نیز یہ فرمایا کہ آپ انتظار فرمائیں یہ لوگ بھی انتظار کر رہے ہیں یعنی اگر یہ لوگ نصیحت قبول نہیں کرتے اور اس انتظار میں ہیں کہ آپ کو تکلیف پہنچ جائے تو آپ سمجھ لیں ان کے انتظار اور آرزو سے کچھ ہونے والا نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا جیسا کہ سورة الطور میں فرمایا ﴿اَمْ يَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ ٠٠٣٠ قُلْ تَرَبَّصُوْا فَاِنِّيْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُتَرَبِّصِيْنَؕ٠٠٣١﴾ (بلکہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہیں ہم اس کے بارے میں موت کے حادثہ کا انتظار کر رہے ہیں آپ فرما دیجیے تم انتظار کرو سو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ ) وھذا آخر ما وفق اللّٰہ تعالیٰ فی تفسیر سورة الدخان والحمد للّٰہ الرحمن المنان، والصلوٰة والسلام الاتمان الاکملان علی سید ولد عدنان، وخیر الانس والجان، وعلی الہ وصحبہ اصحاب العلوم والعرفان، من تبعھم باحسان الی ان یتناوب الملوان ویتعاقب النیران۔ (وكان ذلک فی الیوم الرابع من الشھر الثالث من ١٤١٨ ھ)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28:۔ ” فانمایسرناہ “ یہ ساری سورت سے متعلق ہے گویا ساری سورت کا خلاصہ ہے۔ ہم نے اس (کتاب مبین) قرآن کو یا اس حکمنامے کو آپ کی زبان پر نہایت آسان زبان و اسلوب میں بیان کردیا ہے تاکہ لوگ اس آسانی سے سمجھ لیں اور اس کی تعلیمات پر عمل کریں۔ وھذا فذلکۃ و اجمال لما فی السورۃ بعد تفصیل تذکیرا لما سلف مشروحا فیہا فالمنعی ذکرہم بالکتاب المبین فنما یسرنہ بلسانک کی یفہموہ ویتذکروا بہ ویعملوا بموجبہ (روح ج 5 ص 137) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(58) سو اے پیغمبر ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان یعنی عربی زبان میں آسان کردیا ہے تاکہ یہ لوگ اس کو سمجھ کر نصیحت قبول کریں اور غور و فکر سے کام لیں۔ آپ کی زبان یعنی عربی میں آسان کیا تاکہ اہل عرب اس کو سمجھیں خود نصیحت قبول کریں اور دوسروں کو سمجھائیں آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی۔