Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 19

سورة الجاثية

اِنَّہُمۡ لَنۡ یُّغۡنُوۡا عَنۡکَ مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ۚ وَ اللّٰہُ وَلِیُّ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۹﴾

Indeed, they will never avail you against Allah at all. And indeed, the wrongdoers are allies of one another; but Allah is the protector of the righteous.

۔ ( یاد رکھیں ) کہ یہ لوگ ہرگز اللہ کے سامنے آپ کے کچھ کام نہیں آسکتے ( سمجھ لیں کہ ) ظالم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہوتے ہیں اور پرہیزگاروں کا کارساز اللہ تعالٰی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّهُمْ لَن يُغْنُوا عَنكَ مِنَ اللَّهِ شَييًا وإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ ... and follow not the desires of those who know not. Verily, they can avail you nothing against Allah. Verily, the wrongdoers are protecting friends of one another, Allah says, `what will the loyalty that the idolators give each other avail them?' Indeed, all they will earn from their protecting friends is more loss, destruction and demise, ... وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ but Allah is the Protector of those who have Taqwa. and He will deliver them from the darkness to the light. In contrast, all the false deities are the protecting friends of those who disbelieve, taking them out of the light to the darkness. Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] اگر آپ ان میں سے کسی فرقہ کے موقف کی حمایت کردیں گے تو اس دنیا میں تو شاید وہ آپ کا حامی بن جائے گا لیکن قیامت کے دن وہ آپ کے کسی کام نہ آسکیں گے وہ تو خود اپنی گمراہیوں کے عذاب میں ماخوذ ہوں گے، دوسروں کے کیا کام آئیں گے ؟۔ [٢٧] یعنی حق کے مقابلہ میں سب بےانصاف اور ظالم لوگ مل بیٹھتے ہیں اور آپس میں اتحاد کرلیتے ہیں۔ اگرچہ ان میں خاصے باہمی اختلافات موجود ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں اللہ کے فرمانبرداروں اور اس سے ڈرنے والوں کا حامی و ناصر صرف اللہ ہوتا ہے جو ان کے سب کام سیدھے کئے جاتا ہے اور اس کی یہ کارسازی دائمی اور پائیدار ہے جو اس دنیا سے آگے آخرت میں بھی برقرار رہے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) انھم لن یغنوا عنک من اللہ شیائً :(ان “ تعلیل یعنی کسی بات کی وجہ بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ پچھلی آیت میں فرمایا کہ آپ اللہ کی نازل کردہ شریعت کی پیروی کریں اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں جو نہیں جانتے۔ اب فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ انہیں خوش کرنے کے لئے ان کی خواہشات کے پیچھے چلیں گے اور دین میں کسی قسم کا رد و بدل کریں گے تو اپنے اللہ کو ناراض کرلیں گے، پھر یہ لوگ آپ کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کسی طرح نہ بچا سکیں گے۔ (٢) وان الظلمین بعضھم اولیآء بعض …: یہ ایسے لوگوں کی خواہشات کی پیروی سے منع کرنے کی دوسری وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کی پیروی متقی لوگوں کا کام ہے اور اس کے غیر کی خواہشات کی پیروی ظالموں کا کام ہے، کیونکہ ظلم کسی کا حق دوسرے کو دینے کا نام ہے اور وہ اللہ کا حق دوسروں کو دے رہے ہیں۔ ایسے ظالم لوگ اپنے دنیوی مفادات کی خاطر ایک دوسرے کے دوست اور ان کے کہنے پر چلنے والے ہوتے ہیں۔ (دیکھیے عنکبوت : ٢٥) جب کہ متقی اللہ تعالیٰ کے دوست اور وہ ان کا دوست ہے۔ (دیکھیے بقرہ : ٢٥٧) اب اگر آپ نے اللہ کی شریعت کے بجائے کسی اور کی خواہشات کی پیروی کی تو آپ دوستی کا رشتہ اپنے مالک سے توڑ کر ظالموں کیساتھ جوڑ لیں گے، پھر اس سے بڑھ کر خسارا کیا ہوگا ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّہُمْ لَنْ يُّغْنُوْا عَنْكَ مِنَ اللہِ شَيْـــــًٔا۝ ٠ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِـمِيْنَ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝ ٠ ۚ وَاللہُ وَلِيُّ الْمُتَّقِيْنَ۝ ١٩ غنی( فایدة) أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ ولي والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیونکہ ان لوگوں کے طریقہ کی پیروی عذاب الہی کے مقابلہ میں آپ کے کچھ کام نہیں آئے گی اور کافر تو ایک دوسرے کے طریقہ پر قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ تو کفر و شرک اور برائیوں سے بچنے والوں کا دوست ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ { اِنَّہُمْ لَنْ یُّغْنُوْا عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا } ” یہ لوگ اللہ کے مقابلے میں آپ کے کچھ بھی کام نہیں آسکیں گے۔ “ یہ مضمون قرآن میں متعددبار آچکا ہے۔ سورة بنی اسرائیل میں یوں فرمایا گیا : { وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗق وَاِذًا لاَّتَّخَذُوْکَ خَلِیْلاً وَلَوْلَآ اَنْ ثَـبَّتْنٰکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْہِمْ شَیْئًا قَلِیْلاً اِذًا لَّاَذَقْنٰکَ ضِعْفَ الْحَیٰوۃِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا } ” اور یہ لوگ اس بات پر ُ تلے ہوئے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پھسلا دیں اس وحی سے جو ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کی ہے تاکہ اس کے علاوہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی اور چیز گھڑ کر ہم سے منسوب کردیں ‘ اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا کرتے تب تو یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنادوست بنا لیتے۔ اور اگر ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ثابت قدم نہ رکھتے تو عین ممکن تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھک ہی جاتے۔ (اگر ایساہو جاتا تو) تب ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کود گنی سزا دیتے زندگی میں اور دگنی سزا دیتے موت پر ‘ پھر نہ پاتے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے لیے ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار۔ “ { وَاِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ } ” اور یقینا یہ ظالم (مشرک) لوگ ایک دوسرے کے مدد گار ہیں ‘ جبکہ اللہ مددگار ہے متقین کا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24 That is, "If you make any changes in Allah's Religion only to please them, they will not be able to save you from Allah's accountability and punishment. "

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :24 یعنی اگر تم انہیں راضی کرنے کے لیے اللہ کے دین میں کسی قسم کا رد و بدل کرو گے تو اللہ کے مواخذہ سے وہ تمہیں نہ بچا سکیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:19) لن یغنوا مضارع منفی تاکید بلن : جمع مذکر غائب ۔ اغناء (افعال) مصدر وہ ہرگز دفع نہیں کرسکیں گے۔ ہرگز کسی کام نہ آسکیں گے۔ مضارع منصوب بوجہ عمل لن ہے۔ من اللّٰہ۔ اللہ کے سامنے۔ اللہ کے مقابلے میں۔ ان الظلمین بعضھم اولیاء بعض : ان حرف مشبہ بالفعل ، الظلمین اسم فاعل جمع مذکر منصوب۔ اسم ان۔ بعضھم اولیاء بعض خبر۔ تحقیق ظالم لوگ ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں۔ اولیاء جمع ولی کی بمعنی دوست ، ساتھی۔ ولی المتقین۔ مضاف مضاف الیہ۔ المتقین اسم فاعل جمع مذکر منصوب اتقاء (افتعال) مصدر۔ متقی لوگ ، پرہیزگار لوگ۔ ولی المتقین پرہیزگار لوگوں کا دوست ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی اگر آپ مداہنت سے کام لیں گے تو وہ آپ کو اللہ کی پکڑ سے نہ بچا سکیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں فرمایا کہ یہ لوگ آپ کو اللہ کے مقابلے میں کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتے یعنی اگر آپ نے ان کے دین کا اتباع کرلیا اور اس پر اللہ کی طرف سے گرفت ہوگئی تو یہ لوگ ذرا بھی آپ کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ ﴿وَ اِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ١ۚ ﴾ ظالم لوگ یعنی کفار، مشرکین اور منافقین اور یہود و نصاریٰ ایک دوسرے کے دوست ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کی نیت رکھتے ہیں۔ ﴿ وَ اللّٰهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِيْنَ ٠٠١٩﴾ اور اللہ متقیوں کا ولی ہے وہ دنیا میں بھی ان کی مدد فرماتا ہے اور آخرت میں بھی مدد فرمائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:َ ” انہم لن یغنوا۔ الایۃ “ جو لوگ اپنی خواہشات نفسانیہ اور آراء باطلہ کے بندے ہیں ان کی پیروسی سے کچھ بھی نفع نہیں ہوگا نہ ان کے اتباع سے اللہ کی راہ نصیب ہوگی اور نہ اتباع باطل کے خدائی عذاب ہی سے وہ بچا سکیں گے۔ ایمان والوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ ان ظالموں سے تعلق رکھیں اور ان کی پیروی کریں۔ ان مشرکین کی دوستی ان کے ہم جنس مشرکوں ہی سے ہوسکتی ہے اور وہی ان کے پیچھے چلیں گے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے ” انما اتخذتم من دون اللہ اوثانا مودۃ مودۃ بینکم فی الحیوۃ الدنیا (عنکبوت رکوع 3) ۔ متقی اور شرک سے بچنے والے لوگوں کی محبت کا مرکز ذات باری تعالیٰ ہے اس لیے انہیں اسی کے ارشادات کی اطاعت و تعمیل کرنی چاہیے۔ ” ھذا بصائر للناس۔ الایۃ “ یہ قرآن یا مذکورہ بالا احکام لوگوں کے قلوب واذہان میں روشنی اور نور ہدایت پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں اور ماننے والوں کیلئے سراپا ہدایت اور رحمت خداوندی ہیں۔ ایمان والوں کو ان کی پیروی کرنی چاہئے اور بندگان نفس امارہ کی خواہشات اور ان کے خود تراشیدہ دین سے اجتناب کرنا چاہئے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) کیونکہ یہ جہلا اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں آپ کے ذرا کام نہیں آسکتے اور بلا شبہ ظالم اور بےانصاف لوگ آپس میں ایک دوسری کے دوست ہوا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ متقیوں اور پرہیزگاروں کا دوست اور رفیق ہے۔ یعنی یہ ظالم لوگ ناانصافی ان کا شیوہ ہے یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں یہ آپ کے دوست نہیں ہوسکتے کیونکہ آپ متقیوں کے سردار ہیں اور یہ جاہل اور ظالم اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں آپ کے کچھ کام نہیں آسکیں گے اور اللہ تعالیٰ چونکہ اہل تقویٰ کا رفیق اور کارساز ہے لہٰذا آپ اسی کی رفاقت پر اعتماد رکھیئے اور جو طریقہ آپ کو بتادیا ہے اس پر خود بھی چلئے اور دوسروں کو بھی اسی راستے چلنے کی ترغیب دیجئے۔