Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 28

سورة الجاثية

وَ تَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً ۟ کُلُّ اُمَّۃٍ تُدۡعٰۤی اِلٰی کِتٰبِہَا ؕ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲۸﴾

And you will see every nation kneeling [from fear]. Every nation will be called to its record [and told], "Today you will be recompensed for what you used to do.

اور آپ دیکھیں گے کہ ہر امت گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہوگی ہر گروہ اپنے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا آج تمہیں اپنے کئے کا بدلہ دیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَتَرَى كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً ... And you will see each nation humbled to their knees (Jathiyah), kneeling, fearful of the tremendous calamity and events. It was said that this will occur when Hellfire will be brought forth, for she will exhale once, and everyone will fall to their knees, including Ibrahim, the Khalil. He will proclaim, "Myself, myself, myself! Today, I will not ask You (O Allah) but about myself." And even `Isa, will proclaim, "Today, I will only argue before You on my own behalf, I will not ask You about Maryam, who gave birth to me." Allah said next, ... كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَى إِلَى كِتَابِهَا ... each nation will be called to its Record. meaning, Record of deeds. Allah said in a similar Ayah, وَوُضِعَ الْكِتَـبُ وَجِـىءَ بِالنَّبِيِّيْنَ وَالشُّهَدَاءِ And the Book will be presented; and the Prophets and the witnesses will be brought forward, (39:69) This is why Allah said here, ... الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ This Day you shall be recompensed for what you used to do. `you will be judged according to your deeds, good and evil.' Allah said in similar Ayat; يُنَبَّأُ الاِنسَـنُ يَوْمَيِذِ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ بَلِ الاِنسَـنُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ On that Day man will be informed of what he sent forward, and what he left behind. Nay! Man will be a witness against himself, though he may put forth his excuses. (75:13-15) Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 ظاہر آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر گروہ ہی (چاہے وہ انبیاء کے پیروکار ہوں یا ان کے مخالفین) خوف اور دہشت کے مارے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہونگے (فتح القدیر) تاآنکہ سب کو حساب کتاب کے لئے بلایا جائے گا، جیسا کہ آیت کے اگلے حصے سے واضح ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤١] یعنی پہلے ہر قسم کے مجرموں کے الگ الگ گروہ بنائے جائیں گے۔ اور قیامت کے مناظر کی دہشت اس قدر زیادہ ہوگی کہ وہ کھڑے نہ رہ سکیں گے اور گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے اور سہمے ہوئے اس انتظار میں ہوں گے کہ ان کے حق میں کیا فیصلہ صادر ہوتا ہے اس وقت متکبروں کی سب اکڑ ختم ہوجائے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وتری کل امۃ جاثیہ :” جاثیۃ “ ” جثا یجثو جثواً “ (ن) یا ” جثی یمحشی جیاً “ (ض) سے اسم فاعل ہے، گھنٹوں کے بل گری ہوئی۔ یعنی میدان حشر کا ایسا ہول اور رعب ہوگا کہ ہر امت شدید خوف زدہ ہو کر گھنٹوں کے بل گری ہوئی ہوگی۔ نیک ہوں یا بد، سب خوف و دہشت کے ساتھ اسی حالت میں فیصلے کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ اس وقت بڑے سے بڑے متکبر کی بھی ساری شیخی اور اکڑ ختم ہوجائے گی۔ (٢) کل امۃ تدعی الی کتبھا :” کتاب “ سے مراد کتاب اعمال ہے، جس میں ان کی زندگی کی ساری رو داد حرف بحرف لکھی ہوگی، جیسا کہ فرمایا (ووضع الکتب فتری المجرمین مشفقین ممافیہ ویقولون یویلتنا مال ھذا الکتب لا یغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ الا احصھا) (الکھف : ٣٩)” اور کتاب رکھی جائے گی، پس تو مجرموں کو دیکھے گا کہ اس سے ڈرنے والے ہوں گے جو اس میں ہوگا اور کہیں گے ہائے ہماری بربادی ! اس کتاب کو کیا ہے، نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے اور نہ بڑی مگر اس نے اسے ضبط کر رکھا ہے۔ “ بعض نے فرمایا : اس کتاب سے مراد وہ کتاب ہے جو ہر امت کی طرف ان کے پیغمبر کے ذریعے سی بھیجی گئی، یعنی ہر امت کو اس کی کتاب کی طرف بلایا جائے گا، تاکہ وہ دیکھے کہ اس نے اس پر کہاں تک عمل کیا اور اس کے مطابق اسے جزا دی جائے۔ سیاق کی مناسبت سے پہلا معنی زیادہ درست ہے۔ مزید دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١٣، ١٤) (٣) الیوم تجرون ما کنتم تعملون : اس سے پہلے کچھ ال فاظ محذوف ہیں :” ای یقال لھم “ یعنی ان سے یہ بات کی جائے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَتَرَ‌ىٰ كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً (|"And you will see every community kneeling down...45:28|" ). The word jathiyah is derived from جُثُو juthuww. It means ` to sit with knees upon the ground&. Sayyidna Sufyan (رض) says that the word means ` to sit in such a way that only the knees and the toes of the feet rest on the ground&. The latter type of sitting will be on account of awe, horror and fear. The words, كُلُّ أُمَّةٍ |"every community|" means that horrors of Resurrection will be felt by all on the plain - believers, non-believers, and righteous and unrighteous, all of them. There are other verses and traditions that exclude the Prophets and the righteous from experiencing the horrors of the Plains of Resurrection. The present verse is not in conflict with them. It is possible that the Prophets (علیہم السلام) and the righteous will experience the horrors of the Plains of Resurrection for a short period of time - the period of time will be so short as if it never existed. It is also possible that the word hull is not used in the sense of |"every|" but in the sense of ` most& - as is used occasionally. From this point of view, the phrase would mean not all the people on the Plain of Resurrection but ` most people& will experience horror, thus the prophets and the righteous are excluded. Some of the scholars take the position that the word jathiyah means ` to sit like the sitting posture in salah&. If this be taken for granted, the difficulty automatically disappears because such a sitting is not out of fear or horror. It is out of respect and honour. كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَىٰ إِلَىٰ كِتَابِهَا ...Every community will be called to its book (of record)...45:28|". The word kitab, according to most commentators, refers to ` book of record& which the angels have been writing in the world. The record-books will be thrown on the Plains of Resurrection and each one will receive his respective record-book and it will be said to him: |"Read your book. This day you yourself are enough to take your own account. (17:14) |" The phrase ` Calling towards the record-books& purports to say that they will have to render an account of their deeds before Allah in the next life. Alhamdulillah The Commentary on Surah Aljathiyah Ends here

معارف و مسائل (آیت) وَتَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِيَةً ۔ جثو سے مشتق ہے جس کے معنی گھٹنوں کے بل بیٹھنے کے ہیں اور حضرت سفیان نے فرمایا، جثو اس طرح بیٹھنے کو کہتے ہیں کہ جس میں زمین پر صرف گھٹنے اور پاؤں کے نیچے ٹک جائیں، اس طرح کی نشست ہوں اور خوف کی وجہ سے ہوگی۔ اور ظاہر کل امة کے لفظ سے یہ ہے کہ یہ صورت خوف تمام اہل محشر مومن کافر نیک و بد سب کو پیش آئے گی اور بعض دوسری آیات اور روایات میں جو محشر کے خوف و فزع سے انبیاء و صلحا کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے یہ اس کے منافی نہیں۔ کیونکہ ممکن ہے کہ یہ دہشت و خوف تھوڑی مدت کے لئے انبیاء و صلحاء پر بھی طاری ہو، مگر تھوڑی دیر قلیل ہونے کی بنا پر اس کو نہ ہونے کے حکم میں رکھا گیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کل امة سے مراد عام اہل محشر نہ ہوں بلکہ اکثر مراد ہوں جیسا کہ لفظ کل بعض اوقات اکثر کے لئے بولا جاتا ہے اور بعض حضرات مفسرین نے جاثیہ کے معنے ایسی نشست کے کئے ہیں جیسے نماز میں ہوتی ہے تو پھر وہ اشکال خود ہی ختم ہوجاتا ہے کیونکہ یہ نشست خوف کی نہیں ادب کی نشست ہے (آیت) كُلُّ اُمَّةٍ تُدْعٰٓى اِلٰى كِتٰبِهَا۔ کتاب سے مراد اس جگہ اکثر مفسرین کے نزدیک وہ نامہ اعمال ہے جو فرشتے دنیا میں لکھتے رہے تھے اور اب محشر میں یہ تحائف اعمال اڑا دیئے جائیں گے ہر ایک آدمی کا نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں پہنچ جائے گا اور اس سے کہا جائے گا۔ یعنی اپنا نامہ اعمال پڑھ لو اور خود ہی حساب لگا لو کہ تمہیں ان اعمال کا کیا بدلہ ملنا چاہئے اور اس اعمال نامہ کی طرف بلانے کا مطلب ان کے حساب کی طرف بلانا ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں آ چکا ہے۔ واللہ اعلم تمت سورة الجاثیة الحادی عشر من رجب 1392 ھ یوم الثلثاء واللہ الحمد والمنتہ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتَرٰى كُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِيَۃً ۝ ٠ ۣ كُلُّ اُمَّۃٍ تُدْعٰٓى اِلٰى كِتٰبِہَا۝ ٠ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝ ٢٨ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ جثی جَثَا علی رکبتيه يَجْثُو جُثُوّاً وجِثِيّاً فهو جَاثٍ ، نحو : عتا يعتو عتوّا وعتيّا، وجمعه : جُثِيّ نحو : باک وبكيّ ، وقوله عزّ وجل : وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيها جِثِيًّا [ مریم/ 72] ، يصح أن يكون جمعا نحو : بكي، وأن يكون مصدرا موصوفا به، والجاثية في قوله عزّ وجل : وَتَرى كُلَّ أُمَّةٍ جاثِيَةً [ الجاثية/ 28] فموضوع موضع الجمع، کقولک : جماعة قائمة وقاعدة . ( ج ث و ) جثا ( ن ) جثوا وجثیا ۔ الرجل گھٹنوں کے بل بیٹھنا یہ عتا ( ن) عتوا وعتیا کی طرح ( باب نصر سے آتا ہے ) جاث ( صیغہ صفت ) ج جثی جیسے باک وبلی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الِمِينَ فِيها جِثِيًّا [ مریم/ 72] اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پرا ہوا چھوڑ دیں گے ۔ میں جثیا جاث کی جمع بھی ہوسکتی ہے اور مصدر بمعنی اسم فاعل بھی اور آیت کریمہ : ۔ وَتَرى كُلَّ أُمَّةٍ جاثِيَةً [ الجاثية/ 28] اور تم ہر ایک فرقے کو دیکھو گے کہ گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوگا میں ، ، جاثیۃ جمع کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ ہر ایک فرقہ والے کو ایک ہی جگہ دیکھیں گے پھر ایک فرقہ کو اس کے نامہ اعمال کے پڑھنے کی طرف بلایا جائے گا، چناچہ ان میں سے بعض کو ان کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دے دیا جائے گا اور بعض کو ان کے بائیں ہاتھ میں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ { وَتَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً } ” اور تم دیکھو گے کہ ہر امت گھٹنوں کے بل پڑی ہوگی۔ “ { کُلُّ اُمَّۃٍ تُدْعٰٓی اِلٰی کِتٰبِہَا } ” ہر امت کو بلایا جائے گا اس کے اعمال نامے کی طرف۔ “ وہاں سر ِمحشر باری باری ندا ہوگی کہ فلاں قوم کو لے آیا جائے اور ان کا اعمال نامہ پیش کیا جائے۔ { اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ } ” آج تمہیں بدلہ دیا جائے گا ان اعمال کا جو تم کرتے رہے ہو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41 That is, the dread and terror of the Plain of Resurrection and the awe of the Divine Court will be etch that it will break the stubbornnese of the most arrogant and boastful people, and everyone will be found fallen on his knees humbly.

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :41 یعنی وہاں میدان حشر کا ایسا ہَول اور عدالت الہٰی کا ایسا رعب طاری ہو گا کہ بڑے بڑے ہیکڑ لوگوں کی اکڑ بھی ختم ہو جائے گی اور عاجزی کے ساتھ سب گھٹنوں کے بل گرے ہوں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: قیامت کے مختلف مراحل میں ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا کہ وہاں کے ہولناک مناظر دیکھ کر لوگ بے ساختہ گھٹنوں کے بل گرجائیں گے یا بیٹھ جائیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٨۔ ٢٩۔ اس آیت کے اور آیت یوم ند عوکل اناس مامہم کی تفسیر میں علمائے مفسرین نے طرح طرح کا اختلاف کیا ہے مگر کسی آیت کی تفسیر کسی صحیح حدیث میں آجائے تو پھر اختلاف کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا۔ ترمذی ١ ؎ مستدرک حاکم صحیح ابن حبان مسند بزار تفسیر ابن ابی حاتم اور تفسیر ابن مردویہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کو ترمذی نے حسن اور حاکم نے صحیح کہا ہے حاصل جس کا یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ہر شخص کو بلایا جائے گا اور دائیں اور بائیں ہاتھ میں ہر ایک کے عمل کے موافق ہر ایک کا نامہ اعمال دیا جائے گا جس کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا اس کا چہرہ نورانی ہوجائے گا اور جس کے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا اس کے چہرہ پر سیاہی چھا جائے گی اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ نامہ اعمال دینے کیلئے اصحاب یمین اور اصحاب شمال اور مقربین اور سابقین کہہ کر قیامت کے دن اللہ کے حکم سے فرشتے لوگوں کو بلائیں گے اسی بلانے کا ذکر ان دونوں آیتوں میں ہے اس لئے تینوں ترجموں میں نامہ اعمال کے ساتھ لوگوں کے بلائے جانے کا ترجمہ کیا گیا ہے جو اس حدیث اور حضرت عبد اللہ بن عباس کے قول کے موافق ہے سو اس کے اور قول جو مفسروں نے بیان کئے ہیں وہ صحیح حدیث اور امام المفسیرین حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس کے قول کے مخالف ہیں ان آیتوں میں یہ جو فرمایا انا کنا نستنسخ ما کنتم تعملون اس کے معنی میں دونوں اردو ترجموں میں اختلاف ہے ایک ترجمہ لکھنے کا ہے اور ایک لکھوانے کا اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کے عمل کئی دفعہ لکھے گئے ہیں سب سے پہلے جب اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا ہے تو لوح محفوظ میں اس قلم نے اللہ کے حکم سے تمام دنیا کی موجودات کے ساتھ انسان کے عمل بھی لکھے ہیں جس کا ذکر صحیح مسلم ٢ ؎ عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی اور ترمذی ٣ ؎ کی عبادہ (رض) بن صامت کی روایت میں ہے اس عمل کے لکھنے میں فرشتوں کا کچھ دخل نہیں ہے پھر جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو ہر ایک بچہ کے عمر بھر کے عمل فرشتہ لکھتا ہے جس کا ذکر صحیحین ٤ ؎ کی حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت میں ہے پھر شب قدر میں سال بھر تک کے ہر شخص کے عمل لوح محفوظ سے فرشتے نقل کرلیتے ہیں اور کراً کاتبیں زمین پر سے ہر شخص کے عمل جو لکھ کر ہر روز آسمان پر لے جاتے ہیں اس سے وہ فرشتے جو لوح محفوظ پر سے سال بھر کے عمل کی نقل لے کر رکھ لیتے ہیں ہر اٹھوارہ میں مقابلہ کیا کرتے ہیں اس کا ذکر طبرائی ٥ ؎ وغیرہ میں ناقابل اعتراض سند سے حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس کی روایت سے ہے غرض ایک ترجمہ میں بلا مداخلت فرشتوں کے خود قلم کے لکھنے کی روایت کے موافق ترجمہ ہے اور دوسرے ترجمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے وہ عمل جو لکھوائے ان روایتوں کا ترجمہ ہی کے موافق ترجمہ کیا گیا ہے غرض حقیقت میں دونوں ترجمے صحیح ہیں۔ (١ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة بنی اسرائیل ١٦٤ و الترغیب والترہیب فصل فی الحساب وغیرہ ص ٧٩٣ ج ٤۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب حجاج آدم و موسیٰ (علیہ السلام) ص ٣٣٥ ج ٢۔ ) (٣ ؎ جامع ترمذی ابواب القدر ص ٤٧ ج ٢۔ ) (٤ ؎ صحیح مسلم باب کیفیۃ خلق الادمی فی بطن امہ الخ ص ٣٣٢ ج ٢۔ ) (٥ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٧ ج ٦۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:28) کل امۃ : مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول فعل تری کا ہر ایک امت ہر ایک فرقہ۔ جاثیۃ : اسم فاعل واحد مؤنث۔ زانو پر بیٹھنے والی۔ زانو پر گرنے والی۔ جثو : جثی (باب نصر) مصدر۔ یہاں جاثیۃ جمع کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جیسے جماعۃ قائمۃ : جماعۃ قاعدۃ بولتے ہیں۔ ج ث و، یا ج ث ی مادہ۔ تو دیکھے گا کہ ہر گروہ گھٹنوں کے بل گرا ہوا ہوگا۔ امۃ سے حال ہے۔ تدعی۔ مضارع مجہول واحد مؤنث غائب دعاء (باب نصر) مصدر۔ وہ پکاری جائے گی۔ اسے پکارا جائے گا۔ ضمیر نائب فاعل امۃ کی طرف راجع ہے۔ کتبھا : مضاف مضاف الیہ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب امۃ کی طرف راجع ہے اس کی کتاب، اس کا اعمال نامہ۔ الیوم تجزون ما کنتم تعلمون : ای فیقال لہم : الیوم ۔۔ الخ تجزون۔ مضار مجہول جمع مذکر حاضر۔ جزاء باب ضرب مصدر تم بدلہ دئیے جاؤ گے تم جزاء دئیے جاؤ گے۔ ماکنتم تعلمون جو تم کیا کرتے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یہی خوف و دہشت سے حساب و کتاب کے انتظار میں جیسا کہ مجرم خوف زدہ ہو کر بیٹھتا ہوتا ہے … حضرت عبداللہ بن عمر فرمات یہیں کہ قیامت کے روز ہر امت اپنے نبی سمیت گھنٹوں کے بل بیٹھی ہوگی یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چبوترے پر ظاہر ہوں گے جو سب سے بلند ہوگا اور وہی مقام محمود ہوگا (شوکانی بحوالہ ابن مردویہ) 11 اس سے مراد ہر وہ کتاب بھی ہوسکتی ہے جو کسی نبی پر نازل کی گئی یعنی یہ دیکھنے کیلئے کہ کیا اس امت نے اپنے نبی کی کتاب پر عمل بھی کیا یا نہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن لوگوں کی حالت۔ قیامت کا دن اس قدر ہولناک ہوگا کہ حاملہ اپنا حمل ساقط کربیٹھے گی اور دودھ پلانے والی اپنے بچے کو پھینک دے گی۔ ربِّ ذولجلال کے جلال کی وجہ سے لوگ اس طرح حواس باختہ ہوں گے جس طرح نشہ پینے والا حواس باختہ ہوتا ہے۔ حالانکہ کسی نے کوئی نشہ نہیں پیا ہوگا۔ یہ حالت لوگوں کی اس وجہ سے ہوگی کہ اس دن اللہ تعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہوگی (الحج : ٢) لوگ آپس میں بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکیں گے سوائے اس کے کہ وہ ایک دوسرے کی بھنک سنیں گے (طہٖ : ١٠٨) خوف کی وجہ سے لوگوں کی آنکھیں نیلی پیلی ہوچکی ہوں گی اور حواس باختگی کی وجہ سے وہ دنیا کی زندگی کے بارے میں کہیں گے کہ ہم دنیا میں صرف دس دن ٹھہرے تھے۔ جو ان میں زیادہ اعتماد کے ساتھ بات کرنے والا ہوگا وہ کہے گا کہ ہم دنیا میں دس دن نہیں بلکہ صرف ایک دن ٹھہرے تھے۔ (طہٰ : ١٠٢) قیامت کے دن ایک مرحلہ ایسا آئے گا جب لوگ حساب و کتاب اور رب ذوالجلال کے خوف کی وجہ سے گھٹنوں کے بل ٹیڑھے کھڑ ہوں گے۔ اس حالت میں ہر جماعت اپنے اعمال نامے کی طرف بلائی جائے گی اور اعلان ہوگا کہ آج تمہیں تمہارے کیے کی جزا یا سزا دی جائے گی۔ ہماری کتاب تمہارے بارے میں جو بیان کرے گی وہ سچ ہوگا۔ یہ اس لیے ہے کہ جو کچھ تم دنیا میں کرتے تھے ہم اسے تحریر کروایا کرتے تھے۔ جونہی لوگوں کو ان کے اعمال نامے ملیں گے تو لوگ اپنا اپناردّعمل ظاہر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر وضاحت فرمائی ہے کہ ہماری طرف سے جو اعمال نامے لوگوں کو دیے جائیں گے وہ ہر انسان کو بول بول کر بتلائے گا کہ تو کیا عمل کرتارہا ہے۔ آج سے کچھ صدیاں پہلے بیشمار لوگ اس بات پر گمراہ ہوئے کہ انسان کے اعمال کا وزن نہیں ہوسکتا۔ اور لوگ یہ بھی سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے کہ قیامت کے دن کھربوں لوگوں کے اعمال نامے کس طرح ان تک پہنچ جائیں گے۔ الحمد للہ جدید ٹیکنالوجی نے سب کچھ سچ کر دکھایا اور نہ معلوم آئندہ کیا کیا چیزیں ایجاد ہوں گی اور کس کس انداز میں قیامت کی تصدیق ہوگی۔ جہاں تک اعمال نامے بولنے کا تعلق ہے آج ڈیجیٹل سی ڈی کا ایک ایک لفظ بولتا سنائی دیتا ہے۔ اور بولنے کی شکل اور پوز (POSE) بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ای میل کے ذریعے ہزاروں میلوں دور کی معلومات ایک، ایک لمحہ میں دوسرے تک پہنچ رہی ہیں۔ جس رب نے انسان کو یہ صلاحیت بخشی ہے کیا وہ سب کچھ نہیں کرسکتا ؟ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُعْرَضُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثَلاَثَ عَرَضَاتٍ فَأَمَّا عَرْضَتَانِ فَجِدَالٌ وَمَعَاذِیرُ وَأَمَّا الْعَرْضَۃُ الثَّالِثَۃُ فَعِنْدَ ذَلِکَ تَطِیر الصُّحُفُ فِی الأَیْدِی فَآخِذٌ بِیَمِینِہِ وَآخِذٌ بِشِمَالِہِ ) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی العرض ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں کو تین مرتبہ پیش کیا جائے گا۔ دو پیشیاں لڑائی جھگڑوں اور عذروں کے بارے میں ہوں گی اور تیسری پیشی اس وقت ہوگی جب صحیفے اڑ کر ہاتھوں میں پہنچ جائیں گے۔ کچھ لوگ اسے دائیں ہاتھ سے پکڑنے والے ہوں گے اور کچھ لوگ اسے بائیں ہاتھ سے پکڑنے والے ہوں گے۔ “ قرآن مجید نے یہ بھی بتلایا ہے کہ جرائم کے اعتبار سے مجرموں کی درجہ بندی کی جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ درجہ بندی کے حوالے سے لوگوں کو اعمال نامے دیئے جائیں۔ جس کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔” کُلُّ اُمَّۃٍ تُدْعیٰ الیٰ کِتَابِھَا “ کہ ہر امت اپنے، اپنے اعمال نامے کی طرف بلائی جائے گی۔ مسائل ١۔ قیامت کے خوف اور رب ذوالجلال کے جلال کی وجہ سے لوگ گھٹنوں کے بل کھڑے ہوں گے۔ ٢۔ ہر جماعت کو اس کے اعمال نامے کی طرف بلایا جائے گا۔ ٤۔ ہر کسی کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔ ٣۔ لوگوں کے اعمال نامے ٹھیک ٹھیک انداز میں سب کچھ بتلائیں گے جو کچھ وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن اعمال ناموں کی کیفیت : ١۔ ہر کوئی اپنا اعمال نامہ دیکھے گا اور کہے گا یہ کیسا اعمال نامہ ہے ؟ جس نے کوئی چھوٹی بڑی بات نہیں چھوڑی گئی۔ (الکھف : ٤٩) ٢۔ قیامت کے دن ہر کسی کا اعمال نامہ اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ١٣) ٤۔ جس کو اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا وہ اپنے اعمال نامے کو پڑھے گا اور اس پر ظلم نہ ہوگا۔ (بنی اسرائیل : ٧١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ تَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِيَةً ﴾ (اور جو بھی امتیں دنیا میں گزریں ان میں سے ہر امت گھٹنوں کے بل پڑی ہوئی ہوگی) یعنی ہر شخص خائف اور پریشان ہوکر مذکورہ صورت اور حالت میں ہوگا یہ جاثیہ کا لفظی ترجمہ ہے حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جاثیہ یعنی مُجْتَمَعَة ہے یعنی سب امتیں جمع ہوں گی۔ ﴿كُلُّ اُمَّةٍ تُدْعٰۤى اِلٰى كِتٰبِهَا ﴾ (ہر امت کو اس کی کتاب یعنی اعمالنامے کی طرف بلایا جائے گا) جو پہلے سے فرشتوں نے لکھ رکھے ہوں گے) یہ بلانا ہر ایک کا اعمالنامہ ہاتھ میں دینے کے لیے ہوگا جس کے بعد حساب کتاب شروع ہوگا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرمان ہوگا ﴿ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٠٠٢٨﴾ (آج تمہیں ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے تھے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) اور اے پیغمبر آپ ہر فرقے کو گھٹنوں میں سر ڈالے ہوئے دیکھیں گے ہر فرقہ اپنے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا کہا جائے گا کہ آج تم کو ان اعمال کا بدلا دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے۔ جاشیہ سرجھکا کردوزنو بیٹھنا یعنی ہر شخص دوزانو سرجھکائے ہوئے ہوگا زانو پر بیٹھنا داد خواہ کی بیٹھک کے بل گرے رہیں گے۔