Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 3

سورة الجاثية

اِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ﴿۳﴾

Indeed, within the heavens and earth are signs for the believers.

آسمانوں اور زمین میں ایمان داروں کے لئے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, in the heavens and the earth are signs for the believers. وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِن دَابَّةٍ ايَاتٌ لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] توحید کے دلائل :۔ تمہید کے بعد توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال پر دلائل کا آغاز ہوا ہے۔ خ توحید کی پہلی نشانی & کائنات کا نظم ونسق :۔ پہلی دلیل یہ کائنات اور اس کا نظام ہے اسی کے ایک پہلو پر ہی اگر غور کرلیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ اس میں الگ الگ خداؤں کی خدائی چلنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ بادلوں کا دیوتا کوئی اور ہو، ہواؤں کا کوئی دوسرا ہو، بارشوں کا کوئی تیسرا ہو، سورج کا کوئی اور ہو۔ اگر ایسی بات ہوتی تو اس کائنات کے نظام میں کبھی باقاعدگی اور ہم آہنگی برقرار نہیں رہ سکتی تھی۔ مگر اس کائنات میں ایسی نشانیاں تو اس شخص کے لیے ہی سود مند ہوسکتی ہیں جو خود ہدایت کا طالب ہو اور اللہ کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہو۔ لیکن جو اللہ کی ہستی اور اس کی قدرت پر ایمان ہی نہ لانا چاہتا ہو۔ اس کے لیے اس میں کوئی نشانی نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ان فی السموت ولارض لایت للمومنین : سورة بقرہ (١٦٤) میں ” ان فی خلق السموت والارض “ فرمایا، جبکہ یہاں ” ان فی السموت والارض “ فرمایا، تو یہ اس سے عام ہے، کیونکہ اس میں آسمان و زمین ک پیدائش بھی شامل ہے اور ان کی ذات بھی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں اور ان کے بعد مذکور چیزوں میں کس چیز کی نشانیاں ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ یہ بات معلوم تھی کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کی توحید کو اور قیامت کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھے، کچھ دہریے بھی تھے جو اللہ تعالیٰ کے وجود ہی کو نہیں مانتے تھے، جیسا کہ اسی سورت کی آیت (٢٤) میں آرہا ہے :(وقالوا ماھی الا حیاتنا الدنیا نموت ونحیا ومایھلکنا الا الدھر)” اور انہوں نے کہا ہماری اس دنیا کی زندگی کے سوا کوئی (زندگی) نہیں ، ہم (یہیں) مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں زمانے کے سوا کوئی ہلاک نہیں کرتا۔ “ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود، اپنی توحید اور قیامت پر دلالت کرنے والی بہت سی نشانیوں کا ذکر فرمایا۔ جن میں سب سے پہلے آسمان و زمین کا ذکر فرمایا کہ ان کے وجود میں ایمان والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں، کیونکہ نشانیوں کا فائدہ انھی کو ہوتا ہے جو ماننے کے لئے تیار ہوں، غفلت میں پڑے ہوئے لوگ اور ہٹ دھرم لوگ ، جنہوں نے طے کر رکھا ہے کہ ماننا ہی نہیں ان کے لئے ان نشانیوں کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ رہی یہ بات کہ آسمان و زمین میں اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید اور قیامت کی نشانیاں کس طرح ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کائنات اور اس کا نظام شاہد ہے کہ یہ سب کچھ خودبخود نہیں بن گیا، بلکہ اسے کسی بنانے والے نے بنایا ہے اور وہ ایک ہی ہے، کیونکہ اس میں الگ الگ خداؤں کی خدائی چلنے کی گنجائش ہی نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(لوکان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا) (الانبیائ : ٢٢)” اگر ان دونوں میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں ضرور بگڑ جاتے۔ اس آیت کی تفسیر پر نظر ڈال لیں۔ آسمان و زمین کا وجود اس بات کی بھی شہادت دے رہا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے بےمقصد پیدا نہیں کیا، بلکہ اس سنے یہ سب کچھ انسان کیف ائدے کے لئے پیدا کیا ہیا ور قیامت کے دن ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزا دی جائے گی، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا :(ان فی خلق السموت والارض و اختلاف الیل و النھار لایت الاولی الالباب الذین یذکرون اللہ قیماً وقعوداً و علی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السموت والارض، ربنا ما خلقت ھذا باطلاً ، سبحنک فقنا عذاب النار) (آل عمران :191, 190)” بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں عقلوں والوں کے لئے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں۔ وہ لوگ جو ہمارے رب ! تو نے یہ بےمقصد پیدا نہیں کیا تو پاک ہے ، سو ہمیں آگ کے عذبا سے بچا۔ “ اور جیسا کہ اسی سورت میں آگے آرہا ہے :(وخلق اللہ السموت والارض بالحق و لتجری کل نفس بما کسبت وھم لاظلمون) (الجاثیہ :22) ” اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور تاکہ ہر شخص کو اس کا بدلا دیا جائے جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ لَآيَاتٍ لِّلْمُؤْمِنِينَ (|"Surely in the heavens and the earth, there are signs for those who have faith.. ..45:3) |" The purpose of this verse, and similar other verses, is to affirm the Oneness of Allah. Similar verses are available in [ 2:164] إِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ (|"Surely, in the creation of heavens and earth...|" ) where their detailed commentary will be found. How the two verses prove the Oneness of Allah is also explained on that occasion. In the two places, there is a slight difference in the argumentation: Scholars interested might find the finer points of the difference discussed by Imam Razi in his Tafsir Kabir rather interesting. It is worth noting that in all these verses reference is made to the various signs in nature and a concluding statement is made on each occasion: Here it concludes: ` there are signs for those who have faith&, in another place it concludes: ` there are signs for those who believe& and in a third place it concludes: ` there are signs for those who understand&. In all these cases, there are stylistic variations, but in addition the current verse points to the fact that only those people will be able to benefit who have faith. In the second case, it will be beneficial to those people who might not immediately embrace the Faith, but they do develop certainty in their hearts, in that these signs do point to the Oneness of Allah. Possibly this certainty one day or the other will turn into ` Faith&. In the third case, it could benefit those who may not be immediate believers or firm in belief, but they do have sound heart to understand. If they search into the signs with deep insight, they will inevitably end up with faith and firm belief. However, people devoid of sound intellect or unwilling to use it will remain unconvinced, even if thousands of evidence or arguments are put forward to them.

(آیت) اِنَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۔ ان آیات سے توحید کا اثبات مقصود ہے۔ اس سے ملتی جلتی آیتیں دوسرے پارے کے رکوع (آیت) ان فی خلق السموت والارض۔ میں گزر چکی ہیں۔ وہیں ان کی مفصل تفسیر مذکور ہے اور یہ بھی کہ ان چیزوں سے توحید کیونکہ ثابت ہوتی ہے دونوں مقامات میں عنوان کا جو تھوڑا تھوڑا فرق ہے اس سے متعلق نکات اہل علم امام رازی کی تفسیر کبیر میں دیکھ سکتے ہیں۔ البتہ ایک بات قابل ذکر ہے کہ یہاں کائنات کی مختلف نشانیاں بیان فرما کر ایک جگہ یہ فرمایا گیا ہے کہ اس میں ” ایمان لانے والوں کے لئے “ نشانیاں ہیں، دوسری جگہ ا رشاد ہے کہ ” یقین کرنے والوں کے لئے “ نشانیاں ہیں اور تیسری جگہ ارشاد ہے کہ ” عقل رکھنے والوں “ کے لئے نشانیاں ہیں اس میں اسلوب کے تنوع کے علاوہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ان نشانیوں سے پورا فائدہ تو وہی اٹھا سکتے ہیں جو ایمان لے آئیں۔ دوسرے نمبر پر یہ ان لوگوں کے لئے مفید ہو سکتی ہیں جو خواہ فوراً ایمان نہ لائیں لیکن ان کے دل میں یقین پیدا ہوجائے کہ یہ چیزیں توحید پر دلالت کر رہی ہیں کیونکہ یہ یقین کسی نہ کسی دن ایمان کا سبب بن سکتا ہے اور تیسرے درجہ میں ان لوگوں کے لئے مفید ہیں جو خواہ فی الحال نہ مومن ہوں نہ یقین رکھنے والے، لیکن عقل سلیم رکھتے ہوں اور ان میں بصیرت کے ساتھ غور کریں۔ کیونکہ عقل و بصیرت کے ساتھ جب بھی ان نشانیوں پر غور کیا جائے گا بالاخر اس سے ایمان و یقین ضرور پیدا ہو کر رہے گا۔ ہاں جو لوگ عقل سلیم نہ رکھتے ہوں یا ان معاملات میں عقل کو تکلیف دینا ہی گوارا نہ کریں ان کے سامنے ہزار دلائل پیش کرلیجئے۔ سب ناکافی رہیں گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٣ ۭ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

چاند سورج ستارے اور بادل جو آسمانوں میں ہیں اور درخت و پہاڑ اور سمندر جو زمین میں ہیں ان تمام چیزوں میں ان لوگوں کے لیے جو کہ اپنے ایمان میں سچے ہیں بڑے دلائل ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ { اِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ } ” یقینا آسمانوں اور زمین میں (بہت سی ) نشانیاں ہیں ماننے والوں کے لیے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 To begin the discourse like this after the introduction, indicates that in the background there are the objections of the people of Makkah, which they were raising against the teachings of the Holy Prophet. They said: 'After alI, how can we believe this one man when he says that all those great beings to whose shrines we have been dedicated and devoted so far, are nothing and that Godhead belongs to only One God ?" About this it is being said that the world is replete with the signs of the Reality to which they are being invited. If on]y they saw with open eves, they would find those signs in themselves and outside them everywhere, which testify that this whole universe is the creation of One and only One God, and He alone is its Master and Ruler and Controller. It didn't need to be pointed out what was the nature of the signs in the earth and heavens, for the dispute at that time centred around the point that the polytheists were insisting on believing in other gods and deities also besides Allah and the Qur'an gave the message that there was neither a god nor a deity beside One God. Therefore, it was apparent by itself from the content that the signs were of the truth of Tauhid and of the refutation of shirk. As for the sentence: "The signs are for those who believe," it means that although the signs arc meant for all human beings, only those people can reach the right conclusion from their observation, who are inclined to believe; as for the heedless people, who live like animals and the stubborn people who are resolved not to believe, the existence and the non-existence of the signs is equal. The splendour and beauty of the garden is for those who can sec; a blind man cannot perceive any splendour and beauty; for him even the existence of the garden is meaningless.

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :2 تمہید کے بعد اصل تقریر کا آغاز اس طرح کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ پس منظر میں اہل مکہ کے وہ اعتراضات ہیں جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ تعلیم پر کر رہے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ آخر محض ایک شخص کے کہنے سے ہم اتنی بڑی بات کیسے مان لیں کہ جن بزرگ ہستیوں کے آستانوں سے آج تک ہماری عقیدتیں وابستہ رہی ہیں وہ سب ہیچ ہیں اور خدائی بس ایک خدا کی ہے ۔ اس پر فرمایا جارہا ہے کہ جس حقیقت کو ماننے کی دعوت تمہیں دی جا رہی ہے اس کی سچائی کے نشانات سے تو سارا عالم بھرا پڑا ہے ۔ آنکھیں کھول کر دیکھو ۔ تمہارے اندر اور تمہارے باہر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جو شہادت دے رہی ہیں کہ یہ ساری کائنات ایک خدا اور ایک ہی خدا کی تخلیق ہے اور وہی اکیلا اس کا مالک ، حاکم اور مدبر ہے ۔ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ آسمان و زمین میں نشانیاں کس چیز کی ہیں ۔ اس لیے کہ سارا جھگڑا ہی اس وقت اس بات پر چل رہا تھا کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے خداؤں اور معبودوں کو بھی ماننے پر اصرار کر رہے تھے ، اور قرآن کی دعوت یہ تھی کہ ایک خدا کے سوا نہ کوئی خدا ہے نہ معبود ۔ لہٰذا بےکہے یہ بات آپ ہی آپ موقع و محل سے ظاہر ہو رہی تھی کہ نشانیوں سے مراد توحید کی صداقت اور شرک کے بطلان کی نشانیاں ہیں ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ یہ نشانیاں ایمان لانے والوں کے لیے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بجائے خود تو یہ نشانیاں سارے ہی انسانوں کے لیے ہیں ، لیکن انہیں دیکھ کر صحیح نتیجے پر وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جو ایمان لانے کے لیے تیار ہوں غفلت میں پڑے ہوئے لوگ ، جو جانوروں کی طرح جیتے ہیں ، اور ہٹ دھرم لوگ ، جو نہ ماننے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں ، ان کے لیے ان نشانیوں کا ہونا اور نہ ہونا یکساں ہے ۔ چمن کی رونق اور اس کا حسن و جمال تو آنکھوں والے کے لیے ہے ۔ اندھا کسی رونق اور کسی حسن و جمال کا ادراک نہیں کر سکتا ۔ اس کے لیے چمن کا وجود ہی بے معنی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣۔ ١٥۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی چند نشانیوں کا ذکر فرمایا ہے مثلاً آسمان و زمین کا پیدا کرنا ‘ آسمان میں فرشتوں اور سورج و چاند ستاروں کا پیدا کرنا زمین میں انسان جن چرند پرند طرح طرح کے جانوروں کا جنگل اور دریا میں پیدا کرنا دریا اور ندیوں کا جاری کرنا اور ان میں کشتیوں کا چلانا دنیا کے کاروبار کے لئے دن اور سورج کی روشنی کو پیدا کرنا اور کاروبار کی محنت سے جو آدمی تھک جاتا ہے اس تھکان کے رفع کرنے کیلئے رات اور رات کی نیند کو پیدا کرنا آسمان سے مینہ کا برسانا جس سے ہر طرح کے اناج ہر طرح کے میووں ہر طرح کی ترکاریوں کا زمین میں پیدا ہونا ہر طرح کی ہوا کا چلانا جس کی تاثیر سے مینہ کے وقت مینہ برستا ہے اور بڑھنے کے وقت اناج کا درخت بڑھتا ہے اور پھل پکتا ہے ‘ اور سوکھنے کے وقت اناج سوکتا ہے پھر فرمایا کہ اللہ کے کلام میں اللہ کی قدرت کی یہ نشانیاں ہیں ‘ باوجود ان نشانیوں کے دیکھنے کے جو یہ مشرک لوگ اللہ کی عبادت میں دوسروں کو شریک کئے جاتے ہیں اور اللہ کے خاص معبود ہونے پر ایمان نہیں لاتے تو پھر آخر اللہ کی قدرت کی کون سی نشانی دیکھ کر یہ لوگ ایمان لائیں گے پھر فرمایا کہ دنیا میں تو یہ لوگ اللہ کا کلام اور اللہ کے کلام میں جو اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں وہ سب سن کر مکڑائیاں کرتے ہیں اور اللہ کے کلام کو مسخرا پن اور جھوٹی باتوں میں اڑاتے ہیں لیکن عقبیٰ میں ان مکڑائیوں کا بہت خمیازہ انکوبھگتنا پڑے گا مال اولاد اور جن بتوں کو یہ لوگ اللہ کی عبادت میں شریک کرتے تھے کوئی چیز ان کے کام نہ آئے گی اور کوئی چیز ان کو دوزخ کے عذاب سے نہ چھوڑائے گی اس سبب نصیحت کے بعد فرمایا کہ اللہ اور اللہ کے رسول کا کام نصیحت کا کردینا ہے جو کوئی اس نصحیت کو مان کر کچھ نیکی کرے گا اپنا بھلا کرے گا اور جو کوئی اللہ اور اللہ کے رسول کی نصیحت کو نہ سنے گا اور برائی میں اپنی عمر گنوائے گا وہی اس برائی کے وبال میں گرفتار ہوگا۔ معتبر سند سے مسند امام ١ ؎ احمد میں حضرت محمد بن ابی عمیرہ صحابی سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنی یدائش کے دن سے موت کے وقت تک خدا کی عبادت میں لگا رہے اور بڈھا ہو کر مرے تو اس کو بھی قیامت کے دن یہ حسرت رہے گی کہ وہ دوبارہ پھر دنیا میں آتا اور ایسے کام کرتا جن سے اس کا اجر اور ثواب زیادہ ہوتا ‘ اب اس سے سمجھ لینا چاہئے کہ جو شخص عمر بھر نیک کام نہ کرے گا اپنی عمر کا بڑا حصہ برے کاموں میں صرف کرے گا اس کو برے کاموں کے حمیازہ کے بھگتنے کے علاوہ نیک کام کا وقت ہاتھ سے جاتے رہنے پر کیا کچھ حسرت اور ندامت ہوگی اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اب دنیا میں وقت ہے جو کوئی بھلا کام جس قدر کرلے گا اسی کے حق میں اچھا ہے ورنہ عقبیٰ میں سوا پچھتائے کے کچھ حاصل نہیں ناقابل اعتراض سند سے ترمذی ٢ ؎ اور بیہقی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا سے اٹھتے وقت ہر ایک شخص کو ایک طرح کی مذمت اور حسرت ہوتی ہے صحابہ نے پوچھا کہ حضرت ہر ایک شخص کو کس طرح کی ندامت اور حسرت ہوتی ہے آپ نے فرمایا نیک شخص کو اس بات کی ندامت اور حسرت ہوتی ہے کہ اور زیادہ نیکی کیوں نہیں کی اور بد شخص کو اس بات کی ندامت اور حسرت ہوتی ہے کہ تمام عمر بدی میں کیوں رائیگاں کی اور مرنے سے پہلے بدی سے باز کیوں نہ آیا وراء کا لفظ آگے اور پیچھے دونوں معنوں میں بولا جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اگرچہ دوزخ کے منکر ہیں مگر دوزخ ان لوگوں کو گھیرے ہوئے ہے مرنے کے ساتھ ہی اس سے کسی طرح ان کا چھٹکارہ نہیں ھذا اھدے والذین کفروابایت ربہم لھم عذاب من رجزالیم اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اتارا ہے اگرچہ وہ سب کو نجات کا سیدھا راستہ بتایا ہے لیکن جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں بد ٹھہر چکے ہیں وہ اس کی نصیحت کو نہیں مانتے جس سے کسی کا کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ اپنا ہی ٹھکانہ دوزخ میں بناتے ہیں رجز کے معنی سخت عذاب کے ہیں۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے اس حدیث سے آیت کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مینہ کے پانی کی طرح قرآن کی نصیحت سب کے حق میں اگرچہ عام ہے لیکن نیک لوگوں کو اس نصیحت سے ایسا ہی فائدہ پہنچتا ہے جس طرح اچھی زمین کو مینہ کے پانی سے فائدہ پہنچتا ہے اور برے لوگوں کے حق میں وہ نصیحت ایسی ہی رائیگاں ہے جس طرح بری زمین میں پانی رائیگاں جاتا ہے ‘ قل للذین امنوا یغفر والللذین لایرجون ایام اللہ لیجزی قوما بما کانوا یکسبون اس سورة میں بھی ایک آیت ہے جس کے مدنی اور مکی ہونے میں سلف کا اختلاف ہے۔ حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس کا اگرچہ ایک قول یہ ہے کہ ہجرت کے بعد عبد اللہ بن ابی منافق نے حضرت عمر کو کچھ برا کہا تھا حضرت عمر (رض) نے جب یہ خبر سنی تو عبد اللہ بن ابی سے بدلہ لینا چاہا اس پر یہ آیت اتری لیکن حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس کا یہی قول پسند کیا ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ میں مشرک لوگ مسلمانوں کو طرح طرح کی ایذا جو دیتے تھے اس پر یہ درگزر کی آیت اتری حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ ایماندار لوگوں کو ان لوگوں کی باتوں پر صبر کرنا چاہئے جو اللہ کے عذاب کے دنوں سے نہیں ڈرتے تاکہ وقت مقررہ پر صبر کرنے والوں کو صبر کی جزا اور زیادتی کرنے والوں کو زیادتی کی سزا پوری طور پر مل جائے ‘ معتبر سند سے طبرانی ٢ ؎ میں انس (رض) بن مالک سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص بجائے بدلہ لینے کے درگزر کرے گا قیامت کے دن بغیر حساب کے اس کو جنت میں جانے کا حکم ہوجائے گا بجائے بدلہ لینے کے درگز کی ہدایت جو اس آیت میں ہے اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ (٢ ؎ الترغیب الترہیب باب الترغیب فی العفو ص ٥١٤ ج ٣) (١ ؎ الترغیب والترہیب فصل فی ذکر الحساب ص ٧٥٩ ج ٤۔ ) (٢ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف باب الحشر الفصل الثانی ص ٤٨٤۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب فضل منعلم و علم۔ ص ١٨ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی جو لوگ ماننے اور ایمان لانے کے لئے تیار ہوں وہ اگر اس کائنات کے نظام پر غور کریں تو انہیں صاف پتا چل سکتا ہے کہ نہ ان کی پیدائش خود بخود ہوگئی ہے اور نہ ان کا نظام از خود چل رہا ہے بلکہ ایک زبرسدت حکمت والا خدا ہے جس نے انہیں اپنی قدرت سے پیدا کیا اور جو اس نظام کو اپنی حکمت کے مطابق چلا رہا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” ان فی السموات “ تا ” فبای حدیث بعد اللہ وایاتہ یومنون “ یہ توحید پر پہلی عقلی ہے۔ علی سبیل التدریج۔ اس میں درجہ بدرجہ ایسے امور بیان کیے گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی وحدانیت کی دلیل ہیں۔ اس عظیم الشان سورت کا مضمون یہ ہے کہ نفس آسمان و زمین ہی ایمان والوں کے لیے اللہ کی قدرت ووحدانیت پر کافی دلیل ہیں۔ زمین و آسمان میں عجائب المخلوقات اور کائنات کی ہر چیز ایک مستقل دلیل ہے۔ ان انفسہما لایات لما فیہما من فنون الدلالۃ علی القادر الحکیم جل شانہ (روح ج 25 ص 139) لایات لدلالات علی وحدانیتہ (مدارک ج 4 ص 101) ۔ پھر آسمان کا ستونوں کے بغیر محض اس کے حکم سے قائم رہنا اور زمین کا فضا میں کسی ظاہری سہارے کے بغیر معلق رہنا یہ سب اس کی وحدانیت اور قدرت کے دلائل ہیں جیسا کہ فرمایا ” ومن ایتہ ان تقوم السماء والارض بامرہ “ (روم رکوع 3) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) بے شک اہل ایمان کے لئے آسمانوں میں اور زمین میں بڑے دلائل موجود ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی الوہیت کے لئے بڑے بڑے دلائل موجود ہیں جو حق کی متلاشی ہیں اور حق کے متلاشی اہل ایمان کے علاوہ اور ہیں بھی کہاں۔