Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 30

سورة الجاثية

فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُدۡخِلُہُمۡ رَبُّہُمۡ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۳۰﴾

So as for those who believed and did righteous deeds, their Lord will admit them into His mercy. That is what is the clear attainment.

پس لیکن جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے تو ان کو ان کا رب اپنی رحمت تلے لے لے گا یہی صریح کامیابی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah states to us His judgement in His creation on the Day of Resurrection, Allah says, فَأَمَّا الَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ... Then, as for those who believed and did good deeds, Those whose hearts believed and their limbs performed good deeds, in sincerity to Allah and conforming with Islamic legislation; ... فَيُدْخِلُهُمْ رَبُّهُمْ فِي رَحْمَتِهِ ... their Lord will admit them to His mercy. and that is Paradise. In the Sahih, Allah said to Paradise; أَنْتِ رَحْمَتِي أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاء "You are My mercy, with which I grant mercy to whom I will," Allah said; ... ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ That will be the evident success. clear and apparent. Allah said,

کبریائی اللہ عزوجل کی چادر ہے ان آیتوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے اس فیصلے کی خبر دیتا ہے جو وہ آخرت کے دن اپنے بندوں کے درمیان کرے گا ۔ جو لوگ اپنے دل سے ایمان لائے اور اپنے ہاتھ پاؤں سے مطابق شرع نیک نیتی کے ساتھ اچھے عمل کئے انہیں اپنے کرم و رحم سے جنت عطا فرمائے گا رحمت سے مراد جنت ہے ۔ جیسے صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے جسے میں چاہوں گا تجھے عطا فرماؤں گا ، کھلی کامیابی اور حقیقی مراد کو حاصل کر لینا یہی ہے اور جو لوگ ایمان سے رک گئے بلکہ کفر کیا ان سے قیامت کے دن بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا کہ کیا اللہ تعالیٰ کی آیتیں تمہارے سامنے نہیں پڑھی جاتی تھیں ؟ یعنی یقینا پڑھی جاتی تھیں اور تمہیں سنائی جاتی تھیں پھر بھی تم نے غرور و نخوت میں آکر ان کی اتباع نہ کی ۔ بلکہ ان سے منہ پھیرے رہے اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تکذیب لئے ہوئے تم نے ظاہرا اپنے افعال میں بھی اس کی نافرمانی کی گناہوں پر گناہ دلیری سے کرتے چلے گئے اور قیامت ضرور قائم ہو گی اس کے آنے میں کوئی شک نہیں تو تم پلٹ کر جواب دے دیا کرتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کسے کہتے ہیں ؟ ہمیں اگرچہ کچھ یوں ہی سا وہم ہوتا ہے لیکن ہرگز یقین نہیں کہ قیامت ضرور آئے گی ہی اب ان کی بد اعمالیوں کی سزا ان کے سامنے آگئی اپنی آنکھوں اپنے کرتوت کا بدلہ دیکھ چکے اور جس عذاب و سزا کا انکار کرتے تھے ، جسے مذاق میں اڑاتے تھے جس کا ہونا ناممکن سمجھ رہے تھے ان عذابوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور انہیں ہر قسم کی بھلائی سے مایوس کرنے کے لئے کہدیا گیا کہ ہم تمہارے ساتھ وہی معاملہ کریں گے جیسے کوئی کسی کو بھول جاتا ہے یعنی جہنم میں جھونک کر پھر تمہیں کبھی اچھائی سے یاد بھی نہ کریں گے ۔ یہ بدلہ ہے اس کا کہ تم اس دن کی ملاقات کو بھلائے ہوئے تھے ، اس کے لئے تم نے کوئی عمل نہ کیا ، کیونکہ تم اس کے آنے کی صداقت کے قائل ہی نہ تھے ۔ اب تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے اور کوئی نہیں جو تمہاری کسی قسم کی مدد کر سکے ۔ صحیح حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں سے قیامت کے دن فرمائے گا کیا میں نے تجھے بال بچے نہیں دئیے تھے ؟ کیا میں نے تجھ پر دنیا میں انعام و اکرام نازل نہیں فرمائے تھے ؟ کیا میں نے تیرے لئے اونٹوں اور گھوڑوں کو مطیع اور فرمانبردار نہیں کیا تھا ؟ اور تجھے چھوڑ دیا تھا کہ سرور و خوشی کے ساتھ اپنے مکانات اور حویلیوں میں آزادی کی زندگی بسر کرے؟ یہ جواب دے گا کہ میرے پروردگار یہ سب سچ ہے بیشک تیرے یہ تمام احسانات مجھ پر تھے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا پس آج میں تجھے اس طرح بھلا دوں گا جس طرح تو مجھے بھول گیا تھا پھر فرماتا ہے کہ یہ سزائیں تمہیں اسلئے دی گئی ہیں کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا خوب مذاق اڑایا تھا ۔ اور دنیا کی زندگی نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا تم اسی پر مطمئن تھے اور اس قدر تم نے بےفکری برتی کہ آخر آج نقصان اور خسارے میں پڑ گئے ۔ اب تم دوزخ سے نکالے نہ جاؤ گے اور نہ تم سے ہماری خفگی کے دور کرنے کی کوئی وجہ طلب کی جائے گی یعنی اس عذاب سے تمہارا چھٹکارا بھی محال اور اب میری رضامندی کا تمہیں حاصل ہونا بھی ناممکن ۔ جیسے کہ مومن بغیر عذاب و حساب کے جنت میں جائیں گے ۔ ایسے ہی تم بےحساب عذاب کئے جاؤ گے اور تمہاری توبہ بےسود رہے گی اپنے اس فیصلے کو جو مومنوں اور کافروں میں ہو گیا بیان فرما کر اب ارشاد فرماتا ہے کہ تمام حمد زمین و آسمان اور ہر چیز کے مالک اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے ۔ جو کل جہان کا پالنہار ہے اسی کو کبریائی یعنی سلطنت اور بڑائی آسمانوں اور زمینوں میں ہے وہ بڑی عظمت اور بزرگی والا ہے ۔ ہر چیز اس کے سامنے پست ہے ہر ایک اس کا محتاج ہے صحیح مسلم شریف کی حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ جل و علا فرماتا ہے عظمت میرا تہبند ہے اور کبریائی میری چادر ہے جو شخص ان میں سے کسی کو بھی مجھ سے لینا چاہے گا میں اسے جہنم رسید کر دونگا ۔ یعنی بڑائی اور تکبر کرنے والا دوزخی ہے ۔ وہ عزیز ہے یعنی غالب ہے جو کبھی کسی سے مغلوب نہیں ہونے کا کوئی نہیں جو اس پر روک ٹوک کر سکے ۔ اس کے سامنے پڑ سکے وہ حکیم ہے ۔ اس کا کوئی قول کوئی فعل اس کی شریعت کا کوئی مسئلہ اس کی لکھی ہوئی تقدیر کا کوئی حرف حکمت سے خالی نہیں نہ اس کے سوا کوئی مسجود ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے سورہ جاثیہ کی تفسیر ختم ہوئی اور اسی کے ساتھ پچیسویں پارے کی تفسیر ختم ہوئی ۔ فالحمدللہ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 یہاں بھی ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر کرکے اس کی اہمیت واضح کردی اور عمل صالح وہ اعمال خیر ہیں جو سنت کے مطابق ادا کئے جائیں نہ کہ ہر وہ عمل جسے انسان اپنے طور پر اچھا سمجھ لے اور اسے نہایت اہتمام اور ذوق شوق کے ساتھ کرے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٣] سب کامیابیوں کا اصل اللہ کی رحمت میں داخل ہونا ہے :۔ اللہ جسے اپنی رحمت میں داخل کرلے تو اس کی واضح کامیابی کے کئی پہلو ہیں۔ ایک تو عذاب سے نجات مل جائے گی اور دوسرے قیامت کی ہولناکیوں سے امن میں رہے گا۔ تیسرے حساب کتاب بالکل سرسری اور آسان سا ہوگا۔ چوتھے جنت میں داخلہ مل جائے گا۔ پھر مزید انعامات بھی ہوتے رہیں گے۔ گویا اللہ کی رحمت میں داخل ہونا اتنی بڑی کامیابی ہے کہ باقی ہر طرح کی کامیابیاں از خود اس میں شامل ہوجاتی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فاما الذین امنوا وعملوا الصلحت : یہاں بشارت کا ذکر پہلے فرمایا، کیونکہ اس سے بشارت میں مزید خوشی شامل ہوئی ہے۔ عمل صالح سے مراد وہ عمل ہے جو خلاص اللہ تعالیٰ کے لئے کیا گیا ہو ، ہر قسم کے شرک حتی کہ ریا سے بھی پاک ہو اور سنت کے مطابق ہو۔ مزید دیکھیے سورة کہف کی آخری آیت۔ (٢) فیدخلھم ربھم فی رحمتہ : انھیں ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔” ربھم “ کے لفظ میں ان کے ساتھ اپنے تعلق اور اپنی محبت کا اظہار ہے اور ” اپنی رحمت “ سے مراد جنت ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(قال اللہ تبارک و تعالیٰ للجنۃ انت رحمتی ارحم بک من اشاء من عبادی وقال للنار انما انت عذاب اعذب بک من اشاء من عبادی) (بخاری، التفسیر، باب قولہ :(وتقول ھل من مزید، 3850)” اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت سے فرمایا، تو میری رحمت ہے، میں اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا تیرے ذریعے سے رحم کروں گا اور آگ سے فرمایا : تو محض عذاب ہے، میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں گا تیرے ذریعے سے عذاب دوں گا۔ “ (٣) ذلک ھوالفوز المبین : جیسا کہ فرمایا :(فمن زحزح عن النار و ادخل الجنۃ فقد قال، وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور) (آل عمران :185)” پھر جو شخص آگ سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو یقینا وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُدْخِلُہُمْ رَبُّہُمْ فِيْ رَحْمَتِہٖ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْفَوْزُ الْمُبِيْنُ۝ ٣٠ «أمَّا» و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف/ 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ } ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ فوز الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] ، ( ف و ز ) الفوز کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔ مبینبَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو جو لوگ رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان لائے تھے اور انہوں نے نیک اعمال کیے تھے ہم انہیں اپنی جنت میں داخل کریں گے۔ یہ کامل کامیابی ہے کہ جنت اور اس کی نعمتیں حاصل کیں اور دوزخ اور اس کی سختیوں سے محفوظ رہے یہ ان لوگوں کی جماعت ہوگی جن کو ان کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ { فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ } ” پس جو لوگ ایمان لائے ہوں گے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ہوں گے “ { فَیُدْخِلُہُمْ رَبُّہُمْ فِیْ رَحْمَتِہٖ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ } ” تو ان کو داخل کر دے گا ان کا پروردگار اپنی رحمت میں۔ یہ بہت واضح کامیابی ہوگی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٠۔ ٣٣۔ اوپر جزا و سزا کا ذکر فرماکران آیتوں میں اس کے نتیجہ کا ذکر فرمایا کہ جن لوگوں نے فرمانبرداری سے دنیا میں عمر گزاری اور نیک کام کئے ان کے لئے جنت ہے اور یہی بڑی مراد ہے کیونکہ اسی مراد کے لئے وہ لوگ دنیا میں نیک کام کرتے تھے اور منکر قرآن لوگوں سے جھڑکی کے طور پر یہ پوچھا جائے گا کہ جب قرآن کی آیتیں تم کو سنائی جاتی تھیں تو سرکشی سے تم ان کو جھٹلانے کے مجرم ٹھہراتے اور کہتے تھے کہ قیامت کے دن جزا و سزا کا تو ہم کو یقین نہیں آتا اور جزا و سزا کی باتوں کو مسخرا پن میں اڑاتے تھے آج تمہارا وہی مخسرا پن تمہارے سامنے آیا اور اللہ نے تمہارا ٹھکانہ دوزخ قرار دیا ‘ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے جنت کو اپنی رحمت اور دوزخ کو اپنا غصہ فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جس شخص پر اللہ کی رحمت ہوگی وہ جنت میں جائے گا اور جس پر غصہ ہوگا وہ دوزخ میں جھونکا جائے گا ان آیتوں میں جنت میں داخل ہونے کو رحمت جو فرمایا ہے اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے ‘ صحیح مسلم ٢ ؎ میں انس (رض) بن مالک کی حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض صحابہ کو ہنستے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ دوزخ کے عذاب کا جو حال میں نے دیکھا ہے اگر وہ حال تم کو نظر آجائے تو تم ہنسنا چھوڑ دو رونے سے کام رکھو۔ صحیح بخاری ٣ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جنت میں جو نعمتیں پیدا کی گئی ہیں نہ وہ کسی نے آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں سے سنی نہ کسی کے دل پر ان کا خیال گزرتا ہے ان حدیثوں یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ جنت کی نعمتوں اور دوزخ کے عذابوں کی پوری تفسیر علمائے امت کی طاقت سے باہر ہے۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب ماجاء فی قول اللہ ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین ص ١١١٠ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب الامربتحسین الصلوۃ وانما مھا ص ١٨٠ ج ١۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب صفۃ الجنۃ وانھا مخلوقۃ ص ٤٦٠ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:30) وما۔ یہ حرف شرط ہے اور تفصیل اور تاکید کا حرف بھی ہے اس کے شرط کا حرف ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد حرف فاء کا آنا لازم ہے جیسے کہ :۔ فاما من اوتی کتبہ بیمینہ فاولئک یقرء ون کتبھم (17:71) تو جن کے (اعمال کی) کتاب ان کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی۔ وہ اپنی کتاب خوش (خوش ہر لہوکر) پڑھیں گے۔ یا فاما من ثقلت موازینہ فھو فی عیشۃ راضیۃ (101:67) تو جس کے (اعمال کے) وزن بھاری نکلیں گے وہ دل پسند عیش میں ہوگا۔ موجودہ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو انہیں ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا (رحمتہ بمعنی جنتہ ہے) ۔ گزشتہ آیت میں سزا و جزا کو مجمل طور پر بیان کیا گیا اس آیت میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ ذلک۔ یعنی مؤمنین کا رحمت حق میں ادخال۔ الفوز المبین۔ موصوف و صفت۔ کھلی کامیابی۔ صاف صاف ہر ایک آمیزش سے پاک۔ صریح کا میابی۔ الفوز کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرنے کے ہیں۔ المبین : کھلی ہوئی۔ صاف ظاہر۔ صریح۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کو ملنے والے اعمال ناموں کا نتیجہ۔ جو لگ سچے دل کے ساتھ ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دامن میں لیے لیا اس کے لیے بہت بڑی کامیابی ہوگی اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جھڑکنے کے انداز میں استفسار فرمائے گا۔ کیا میرے ارشاد تم تک نہیں پہنچے تھے ؟ لیکن تم نے ان کے ساتھ تکبر کیا اور تم مجرم ٹھہرے۔ یقیناً قیامت کے دن مجرموں کو ان کے جرم کے مطابق سزا ہوگی اور کسی پر کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوگی۔ ان کے مقابلے میں نیک لوگوں کو نہ صرف ان کے ایمان اور اعمال کی جزا دی جائے گی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی طرف سے بےانتہا اجر سے سرفراز فرمائے گا یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تذکرہ کرتے ہوئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رب کی رحمت کے بغیر کوئی شخص جنت میں نہیں جاسکتا۔ صحابہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا۔ کیا آپ بھی رب کریم کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہ ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا میں بھی اپنے رب کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جاسکتا۔ آپ کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ رب کریم کے کرم کے بغیر نہ کوئی ایمان لاسکتا ہے اور نہ ہی صالح اعمال کی توفیق مل سکتی ہے۔ ” اللہ “ ہی نیک اعمال قبول کرنے والا ہے اس لیے انسان جنت میں صرف رب کریم کی رحمت کے ساتھ ہی داخل ہوپائے گا۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ لَنْ یُّدْخِِلَ أَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ قَالُوْا وَلَآ أَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لَا وَلَآ أَنَا إِلَّا أَنْ یَّتَغَمَّدَنِيَ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَّرَحْمَۃٍ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَلَا یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ إِمَّامُحْسِنًا فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَّزْدَادَ خَیْرًا وَإِمَّا مُسِیْءًا فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَّسْتَعْتِبَ ) [ رواہ البخاری : کتاب المرضٰی، باب تمني المریض الموت ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرماتے تھے کہ کسی کو اس کے عمل جنت میں داخل نہیں کریں گے۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! آپ بھی آپ نے فرمایا ہاں ! میں بھی نہیں۔ سوائے اس کے کہ اللہ اپنے فضل و رحمت سے مجھے نوازے۔ اس لیے میانہ روی اختیار کرو اور قریب قریب چلو۔ تم میں کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے کیونکہ نیک ہوگا تو اس کے اعمال میں اضافہ ہوجائے گا۔ وہ برا ہے تو ممکن ہے وہ توبہ کرلے۔ “ مسائل ١۔ سچا ایمان اور صالح اعمال رکھنے والے اپنے رب کی رحمت کی وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے۔ ٢۔ جنت میں داخل ہونا بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ ٣۔ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ قیامت کے دن مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے ارشادات کے ساتھ کفر کرنے کا بنیادی سبب تکبر ہی ہوا کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نیک لوگوں کی جزا اور برے لوگوں کی سزا : ١۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : ٧ تا ٨) ٢۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعام : ١٦٠) ٣۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص : ٨٤) ٤۔ برائیوں میں مرنے والے کے لیے جہنم ہے۔ (البقرۃ : ٧١) ٥۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کی سزا جہنم ہے۔ (النازعات : ٣٧) ٦۔ اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہوا کرتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٧۔ مصلحین کا اجر ضائع نہیں ہوتا۔ (الاعراف : ١٧٠) ٨۔ نیک عمل کرنے والے کا عمل برباد نہیں ہوگا۔ (الکہف : ٣٠) ٩۔ نیکو کار کا اجر ضائع نہیں ہوتا۔ (التوبۃ : ١٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٣٠ اب یہ گروہ اس طویل انتظار سے نجات پائے گا۔ قلق اور اضطراب دور ہوگا۔ آیت میں ان کے انجام کو جلدی سے نہایت سادہ انداز میں بیان کردیا ۔ اور یہ لوگ گئے اپنے اصل مقام کی طرف۔ لیکن ہماری نظریں اچانک کیا دیکھتی ہیں کہ ایک دوسرا گروہ ہمارے سامنے ہے اور ان کو طویل الفاظ میں سرزنش کی جاتی ہے۔ ان کو شرمندہ کیا جاتا ہے اور ان کے برے اعمال ان کو یاد دلائے جاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد اہل ایمان کی جزا بیان فرمائی ﴿ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ﴾ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے تو ان کا رب انہیں اپنی رحمت میں یعنی جنت میں داخل فرمائے گا، جہاں رحمت ہی رحمت ہوگی یہ جنت اور رحمت کھلی ہوئی کامیابی ہے

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ ” فاما الذین امنوا۔ الایۃ “ یہ بشارت اخرویہ ہے لیکن مومنین صالحین کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی رحمت میں پناہ دے گا، ان کے گناہ معاف فرمائیگا اور انہیں جنت میں داخل کرے گا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہوجانا ہی نمایاں کامیابی ہے جو مومنین کو حاصل ہوگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) سو جو لوگ ایمان لائے تھے اور انہوں نے نیک اعمال بھی کئے تھے ان کو ان کا پروردگار اپنی مہر اور اپنی رحمت میں داخل کرے گا اور یہ رحمت میں داخل کرلینا کھلی ہوئی کامیابی ہے۔ یعنی رحمت میں داخل فرمالینا اس سے بڑھ کر اور کیا کامیابی ہوسکتی ہے یہی بڑی مراد تھی جو حاصل ہوگئی۔