Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 33

سورة الجاثية

وَ بَدَا لَہُمۡ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوۡا وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۳۳﴾

And the evil consequences of what they did will appear to them, and they will be enveloped by what they used to ridicule.

اور ان پر اپنے اعمال کی برائیاں کھل گئیں اور جس کا وہ مذاق اڑا رہے تھے اس نے انہیں گھیر لیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَبَدَا لَهُمْ سَيِّيَاتُ مَا عَمِلُوا ... And the evil of what they did will appear to them, the repercussion of their evil deeds will become apparent to them, ... وَحَاقَ بِهِم ... and will completely encircle them. (from all directions), ... مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِوُون that which they used to mock at, i.e. of the coming torment and punishment,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 یعنی قیامت کا عذاب، جسے وہ مذاق یعنی انہونا سمجھتے تھے، اس میں وہ گرفتار ہوں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٦] یعنی جن چیزوں کو انہوں نے دنیا میں اپنی کامیابی کا معیار سمجھ رکھا تھا اور اس کامیابی کے لیے دنیا میں وہ جو کچھ پاپڑ بیلتے رہے تھے۔ ایسے سب اعمال کے نتائج صرف ان کے سامنے ہی نہیں آئیں گے بلکہ ان کے گلے پڑجائیں گے۔ اس وقت انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے غیرجواب وہ سمجھ رکھا تھا وہ ایک ایسی بنیادی غلطی تھی جس کی وجہ سے ان کا پورا کارنامہ حیات غلط ہو کر رہ گیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وبدالھم سیات ماعملوا…: یعنی ان کے سامنے ان کے اعمال کے برے نتائج ظاہر ہوجائیں گے اور وہی قیامت اور جہنم جن کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے، وہ انھیں اپنے گھیرے میں گھیر لیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَبَدَا لَہُمْ سَيِّاٰتُ مَا عَمِلُوْا وَحَاقَ بِہِمْ مَّا كَانُوْا بِہٖ يَسْتَہْزِءُوْنَ۝ ٣٣ بدا بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] ( ب د و ) بدا ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے حاق قوله تعالی: وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] . قال عزّ وجلّ : وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] ، أي : لا ينزل ولا يصيب، قيل : وأصله حقّ فقلب، نحو : زلّ وزال، وقد قرئ : فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطانُ [ البقرة/ 36] ، وأزالهما «2» وعلی هذا : ذمّه وذامه . ( ح ی ق ) ( الحیوق والحیقان) ( ض ) کے معنی کسی چیز کو گھیر نے اور اس پر نازل ہونے کے ہیں ۔ اور یہ باء کے ساتھ متعدی ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ : وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] اور بری چال کا وبال اسکے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے وحاق بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] اور جس چیز سے استہزاء کیا کرتے تھے اس نے ان کو آگھیرا ۔ اسْتِهْزَاءُ : ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] ، وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] ، ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] ، إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] ، وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] والِاسْتِهْزَاءُ من اللہ في الحقیقة لا يصحّ ، كما لا يصحّ من اللہ اللهو واللّعب، تعالیٰ اللہ عنه . وقوله : اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] أي : يجازيهم جزاء الهزؤ . ومعناه : أنه أمهلهم مدّة ثمّ أخذهم مغافصة «1» ، فسمّى إمهاله إيّاهم استهزاء من حيث إنهم اغترّوا به اغترارهم بالهزؤ، فيكون ذلک کالاستدراج من حيث لا يعلمون، أو لأنهم استهزء وا فعرف ذلک منهم، فصار كأنه يهزأ بهم كما قيل : من خدعک وفطنت له ولم تعرّفه فاحترزت منه فقد خدعته . وقد روي : [أنّ الْمُسْتَهْزِئِينَ في الدّنيا يفتح لهم باب من الجنّة فيسرعون نحوه فإذا انتهوا إليه سدّ عليهم فذلک قوله : فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] «2» وعلی هذه الوجوه قوله عزّ وجلّ : سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] . الا ستھزاء اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے ۔ تھے وہ ان کو گھر لے گی ۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] اور ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا تھا مگر اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] کہ جب تم ( کہیں ) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہوراہا ہے ا اور ان کی ہنسی ارائی جاتی ہے ۔ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر ہوتے ہے ۔ حقیقی معنی کے لحاظ سے استزاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ لہو ولعب کا استعمال باری تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں ہے لہذا آیت : ۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15]( ان ) منافقوں سے ) خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسر کشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ میں یستھزئ کے معنی یا تو استھزاء کی سزا تک مہلت دی اور پھر انہیں دفعتہ پکڑ لیا یہاں انہوں نے ھزء کی طرح دھوکا کھا یا پس یا اس مارج کے ہم معنی ہے جیسے فرمایا : ۔ ان کو بتریج اس طرح سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا ۔ اور آہت کے معنی یہ ہیں کہ جس قدر وہ استہزار اڑا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے استہزار سے باخبر ہے تو گو یا اللہ تعالیٰ بھی ان کا مذاق اڑارہا ہے ۔ مثلا ایک شخص کسی کو دھوکہ دے ۔ اور وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہوکر اسے اطلاع دیئے بغیر اسے سے احتراز کرے تو کہا جاتا ہے ۔ خدعنہ یعنی وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ان للستھزبین فی الدنیا الفتح لھم باب من الجنتہ فیسر عون نحوہ فاذا انتھرا الیہ سد علیھم ۔ کہ جو لوگ دنیا میں دین الہٰی کا مذاق اڑاتے ہیں قیامت کے دن ان کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائیگا جب یہ لوگ اس میں داخل ہونے کے لئے سرپ دوڑ کر وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائیگا چناچہ آیت : ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے ۔ میں بعض کے نزدیک ضحک سے یہی معنی مراد ہیں اور آیت سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] خدا ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے ۔ میں بھی اسی قسم کی تاویل ہوسکتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٣۔ ٣٤) اور انبیاء کرام اور کتب خداوندی کے ساتھ مذاق کی سزا ان کو آگھیرے گی اور ان سے کہا جائے گا کہ آج کے دن ہم تمہیں دوزخ میں ڈالتے ہیں جیسا کہ تم نے اپنے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا اور تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے عذاب خداوندی کے مقابلہ میں کوئی تمہارا مددگار نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ { وَبَدَا لَہُمْ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوْا } ” اور ان کے سامنے آجائیں گے ان کے وہ تمام ُ برے اعمال جو انہوں نے کیے تھے “ { وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ } ” اور انہیں گھیرے میں لے لے گی وہی چیز جس کا وہ استہزا کیا کرتے تھے۔ “ دنیا میں وہ لوگ جہنم کا مذاق اڑایا کرتے تھے ‘ چناچہ وہی جہنم انہیں اپنی آغوش میں لینے کے لیے وہاں موجود ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45 That is, "There they will come to know that their ways of behaviour, their practices and manners, and their actions and pastimes, which they regarded as very good in the world were, in fact, very bad: they had committed a basic mistake in thinking that they were not answerable to anyone, and this had rendered their whale lifework fruitless and vain."

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :45 یعنی وہاں ان کو پتہ چل جائے گا کہ اپنے جن طور طریقوں اور عادات و خصائل اور اعمال و مشاغل کو وہ دنیا میں بہت خوب سمجھتے تھے وہ سب ناخوب تھے ۔ اپنے آپ کو غیر جوابدہ فرض کر کے انہوں نے ایسی بنیادی غلطی کر ڈالی جس کی وجہ سے ان کا پورا کارنامہ حیات ہی غلط ہو کر رہ گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: یعنی دوزخ کے جس عذاب کا یہ کافر لوگ مذاق اڑایا کرتے تھے، وہی عذاب ان کو گھیرے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:33) یدا۔ ماضی واحد مذکر غائب بدو بداء (باب نصر) مصدر۔ کھلم کھلا ظاہر ہوگیا۔ سیئات۔ جمع سیئۃ کی برائیاں ۔ برے کام۔ گناہ۔ قباحتیں۔ وبدا لہم سیئات ما عملوا۔ یعنی دنیا می جو برے عمل انہوں نے کئے تھے ان کی برائیاں یا سزا ان کے سامنے آجائے گی۔ ان پر ظاہر ہوجائے گی۔ حاق بھم : حاق ماضی واحد مذکر غائب۔ حیق (باب ضرب) مصدر اس نے گھیر لیا۔ وہ الٹ پڑا۔ وہ نازل ہوا۔ حاق بھم اس نے ان کو گھیر لیا۔ ما کانوا بہ یستھزء ون : ما اسم موصول۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب جس کا مرجع ما موصولہ ہے۔ مراد جزائ۔ عذاب۔ کانوا یستھزء ون : ماضی استمراری جمع مذکر غائب استھزاء (استفعال) مصدر بمعنی مذاق اڑانا۔ ہلکا سمجھ کر ہنسی اڑانا۔ حاق بھم ما کانوا بہ یستھزء ون جس (عزاب) کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہ ان کو آگھیرے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٣٣ اس کے بعد دوبارہ ان کو شرمندہ کیا جاتا ہے اور یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اب ان کو پوچھنے والا کوئی بھی نہ ہوگا اور ان کا بہت ہی دردناک انجام ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہ لوگ قیامت کا صرف انکار ہی نہیں کرتے تھے۔ اس کا مذاق بھی بناتے تھے اس لیے فرمایا ﴿وَ بَدَا لَهُمْ سَيِّاٰتُ مَا عَمِلُوْا﴾ (اور انہوں نے جو برے کام کیے تھے ان کے برے نتائج وہاں ان کے سامنے آجائیں گے) ﴿وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠٠٠٣٣﴾ (اور ان پر وہ عذاب نازل ہوجائے گا جس کا استہزا اور تمسخر کیا کرتے تھے) جب ان سے کہا جاتا تھا کہ قیامت پر ایمان لاؤ اور برے اعمال سے بچو تو حق کی دعوت کا مذاق بناتے تھے اس کا نتیجہ سامنے آگیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ ” وبدا لہم۔ الایۃ “ سیئات بد اعمالیوں کے نتائج یعنی بد اعمالیوں کی سزائیں ظاہر ہوجائیں گی اور استہزاء اور تمسخر کی سزا ان پر نازل ہوگی۔ وقیل الیوم ننسکم الخ، چونکہ نسیان کے حقیقی معنی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف محال ہے، اس لیے مجازا عذاب میں چھوڑ دینا مراد ہے از قبیل تسمیۃ المسبب باسم السبب یعنی جس طرح تم نے قیامت کے دن بارگاہ ایزدی میں پیشی کو بھلا دیا تھا اس سے بالکل ہی غافل ہوگئے تھے، اسی طرح آج ہم تمہیں دائمی عذاب میں داخل کریں گے اور ہمیشہ کے لیے تمہیں اس میں چھوڑ دیں گے، اس طرح جہنم تمہارا دائمی ٹھکانا ہوگا اور آج کوئی تمہارا یار و مددگار اور ناصر و گمگسار نہیں جو تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(33) اور جو اعمال انہوں نے کئے تھے ان سب اعمال کی برائیاں ان کے سامنے ظاہر ہوئیں اور کھل گئیں اور جس عذاب کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے اور ہنسی کیا کرتے تھے اسی عذاب نے ان کو گھیر لیا۔ یعنی براے اعمال کی سزائیں ظاہر ہوگئیں یا برے اعمال ظاہر ہوگئے اور جس عذاب کا ٹھٹھا کیا کرتے تھے اور مذاق اڑایا کرتے تھے اسی عذاب نے آگھیرا اور وہی عذاب ان پر الٹ پڑا۔