Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 35

سورة الجاثية

ذٰلِکُمۡ بِاَنَّکُمُ اتَّخَذۡتُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ ہُزُوًا وَّ غَرَّتۡکُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا ۚ فَالۡیَوۡمَ لَا یُخۡرَجُوۡنَ مِنۡہَا وَ لَا ہُمۡ یُسۡتَعۡتَبُوۡنَ ﴿۳۵﴾

That is because you took the verses of Allah in ridicule, and worldly life deluded you." So that Day they will not be removed from it, nor will they be asked to appease [ Allah ].

یہ اس لئے ہے کہ تم نے اللہ تعالٰی کی آیتوں کی ہنسی اڑائی تھی اور دنیا کی زندگی نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا ، پس آج کے دن نہ تو یہ ( دوزخ ) سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے عذر و معذرت قبول کیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكُم بِأَنَّكُمُ اتَّخَذْتُمْ ايَاتِ اللَّهِ هُزُوًا ... This, because you took the revelations of Allah in mockery. `We gave you this punishment as retribution because you mocked Allah's proofs that He sent to you, and made them the subject of jokes and jest,' ... وَغَرَّتْكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ... and the life of the world deceived you. `this life fooled you and you were seduced by to it, thus becoming among the ultimate losers,' ... فَالْيَوْمَ لاَا يُخْرَجُونَ مِنْهَا ... So this Day, they shall not be taken out from there, (i.e. from Hellfire), ... وَلاَ هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ nor shall they be returned to the worldly life. no apologies shall be sought from them, but they will be punished without limit or delay, just as a group of the believers will enter Paradise without limit or delay. After Allah mentioned His judgement for the believers and the disbelievers, He said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٨] استَعْتَبَ کا معنی :۔ عَتَبَ کے معنی سرزنش کرنا، خفگی کرنا اور عاتب کے معنی ملامت کرنا اور غصہ کرنا بھی ہے اور ناز سے خطاب کرنا بھی (گویا یہ لفظ لغت اضداد سے ہے) اور أعتب کے معنی ناراضگی کو دور کرنا اورإستعتب کے معنی کسی کو راضی کرلینا اور روٹھے ہوئے کو منا لینا ہے۔ گویا ان دوزخ میں پڑے ہوئے لوگوں کو کوئی ایسا موقع نہ دیا جائے گا کہ معذرت اور منت سماجت کرکے یا توبہ کرکے اپنے پروردگار کو راضی کرلیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ولا ھم یستعتبون : اس کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة نحل (٨٤) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكُمْ بِاَنَّكُمُ اتَّخَذْتُمْ اٰيٰتِ اللہِ ہُزُوًا وَّغَرَّتْكُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا۝ ٠ ۚ فَالْيَوْمَ لَا يُخْرَجُوْنَ مِنْہَا وَلَا ہُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ۝ ٣٥ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ هزؤ والاسْتِهْزَاءُ : ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] ( ھ ز ء ) الھزء الا ستھزاء اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ غرر يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ «5» ، وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا [ الأنعام/ 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ «1» ، والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ» «2» . والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة «3» ، فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها . ( غ ر ر ) غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ عتب العَتَبُ : كلّ مکان نابٍ بنازله، ومنه قيل للمرقاة ولأُسْكُفَّةِ البابِ : عَتَبَةٌ ، وكنّي بها عن المرأة فيما روي : «أنّ إبراهيم عليه السلام قال لامرأة إسماعیل : قولي لزوجک غيّر عَتَبَةَ بَابِكَ» «4» واستعیر العَتْبُ والمَعْتَبَةُ لغِلْظَةٍ يجدها الإنسان في نفسه علی غيره، وأصله من العتبِ ، وبحسبه قيل : خَشُنْتُ بصدر فلان، ووجدت في صدره غلظة، ومنه قيل : حمل فلان علی عَتَبَةٍ صعبةٍ «5» ، أي : حالة شاقّة کقول الشاعر : 308- وحملناهم علی صعبة زو ... راءَ يعلونها بغیر وطاء «1» وقولهم أَعْتَبْتُ فلاناً ، أي : أبرزت له الغلظة التي وُجِدَتْ له في الصّدر، وأَعْتَبْتُ فلاناً : حملته علی العَتْبِ. ويقال : أَعْتَبْتُهُ ، أي : أزلت عَتْبَهُ عنه، نحو : أشكيته . قال تعالی: فَما هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ [ فصلت/ 24] ، والاسْتِعْتَابُ : أن يطلب من الإنسان أن يذكر عَتْبَهُ لِيُعْتَبَ ، يقال : اسْتَعْتَبَ فلانٌ. قال تعالی: وَلا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ [ النحل/ 84] ، يقال : «لک العُتْبَى» «2» ، وهو إزالة ما لأجله يُعْتَبُ ، وبینهم أُعْتُوبَةٌ ، أي : ما يَتَعَاتَبُونَ به، ويقال : عَتبَ عَتْباً : إذا مشی علی رجل مشي المرتقي في درجة . ( ع ت ب ) العتب ۔ ہر اس جگہ کو کہتے ہیں جو وہاں اترنے والے کے لئے ساز گار نہ ہو نیز دروازہ کی چوکھٹ اور سیڑھی کو بھی عتبہ کہا جاتا ہے ۔ اور حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی بیوی سے جو فرمایا تھا قولی زوجک غیر عتبتہ بابک اپنے خاوند سے کہنا کہ اپنے دروازہ کی چو کھٹ تبدیل کرلے تو یہاں عتبتہ کے معنی بطور کنایہ عورت کے ہیں اور استعارہ کے طور پر عتب ومعتب کے معنی اس نارضگی یا سختی کے بھی آجاتے ہیں جو انسان کے دل میں دوسرے کے متعلق پیدا ہوجاتی ہے یہ بھی اصل میں العتب ہی سے اسی کے مطابق خشنت بصدر فلان ووجدت فی صدرہ غلظتہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اسی سے کہا گیا ہے ۔ حمل فلان علٰی عتبتہ صبعبتہ فلان کو ناگورا ھالت پر مجبور کیا گیا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) ( 300 ) وحملنا ھم علٰی صعبتہ رایعلونھا بغیر وطاء ہم نے انہیں نہایت ٹیڑھی حالت پر سوار کیا چناچہ وہ بغیر نمدہ کے اس پر سوار ہیں ۔ اعتبت فلان ( 1 ) ناراضگی ظاہر کرنا ( 2 ) ناراضگی پر ابھارنا ( 3 ) میں نے اس کی ناراضگی دو ۔ کردو یعنی راضی کرلیا جیسا کہ اشکیتہ کے معنی ہیں میں نے اس کی شکایت دور کردی ( یعنی سلب ماخذ کے معنی پائے جاتے ہیں ) قرآن میں ہے : ۔ فَما هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ [ فصلت/ 24] ان سے عتاب دور نہیں کیا جائے گا ۔ الاستعتاب ( رضامندی چاہنا ) کسی سے یہ خواہش کرنا کہ وہ اپنے عتاب کو دور کردے تاکہ راضی ہوجائے کہا جاتا ہے استعتب فلان کسی سے عتاب کو دور کرنے کی کو اہش کی ۔ قرآن میں ہے ولا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ [ النحل/ 84] اور نہ ان کی معذرت قبول کر کے ان سے عتاب دور کیا جائیگا ۔ لک العتبی تیرے لئے رضا مندی ہے ۔ بینھم اعتوبتہ وہ باہم کشادہ ہیں ۔ عتب عتبا آدمی کا ایک پاؤں پر کود کر چلنا جیسے اوپر چڑھنے والا سیڑھی پر قدم رکھتا چلا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور یہ عذاب اس وجہ سے ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول کی ہنسی اڑائی تھی اور تمہیں اطاعت خداوندی سے دنیوی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا سو آج نہ تو یہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور نہ دنیا میں ہی واپس کیے جائیں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جن کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ { ذٰلِکُمْ بِاَنَّکُمُ اتَّخَذْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ ہُزُوًا وَّغَرَّتْکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا } ” یہ اس لیے کہ تم نے اللہ کی آیات کو مذاق بنا لیا تھا اور دنیا کی زندگی نے تمہیں دھوکے میں ڈالے رکھا۔ “ { فَالْیَوْمَ لَا یُخْرَجُوْنَ مِنْہَا وَلَا ہُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ } ” تو آج انہیں نکالا نہیں جائے گا اس سے اور نہ ہی انہیں موقع دیا جائے گا کہ وہ توبہ کرلیں۔ “ اب ان کے لیے موقع نہیں ہوگا کہ معافی مانگ کر اپنے ربّ کو راضی کرلیں۔ توبہ کا موقع تو دنیا میں تھا اور وہ موقع وہ لوگ کھو چکے ہوں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

46 This last sentence depicts the manner of a master who after rebuking some of his servants turns to others and says: "Well, these wretched people now deserve such and such punishment!"

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :46 یہ آخری فقرہ اس انداز میں ہے جیسے کوئی آقا اپنے کچھ خادموں کو ڈانٹنے کے بعد دوسروں سے خطاب کر کے کہتا ہے کہ اچھا ، اب ان نالائقوں کی یہ سزا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: توبہ کرنے اور معافی مانگنے کا دروازہ انسان کے لیے ساری زندگی کھلا ہوا ہے، لیکن مرنے کے بعد اور آخرت میں پہنچنے کے بعد یہ دروازہ بند ہوجاتا ہے، اور وہاں معافی مانگنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اس لیے وہاں کسی سے یہ کہا بھی نہیں جائے گا کہ معافی مانگ لو۔ اعاذنا اللہ من ذلک۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٥۔ ٣٧۔ دوزخیوں پر جب طرح طرح کا عذاب ہوگا تو ان کو قائل کرنے کے لئے یہ کہا جائے گا یہ عذاب تم پر اس لئے ہے کہ تم نے اللہ کے کلام کو ہنسی ٹھٹھے میں اڑایا تھا اور دنیا کی زندگی پر مغرور ہو کر آج کے دل کو بھول گئے تھے اس لئے اب اس عذاب سے کسی طرح تم چھوٹ نہیں سکتے اور نہ تمہارا کچھ عذر سنا جائے گا آخر کو فرمایا جب آسمان اور زمین اور تمام جہان کا مالک اللہ ہے تو اس کے بندوں کو اس کی تعظیم اور تعریف لازم ہے اس میں کسی کو شریک ٹھہرانا بڑی نادانی کی بات ہے کیونکہ آسمان و زمین میں اللہ کی بڑائی مانی جاتی ہے زمین میں جو لوگ شرک میں گرفتار ہیں ان کے پاس کچھ اس کی سند نہیں ہے پھر فرمایا جو کوئی اس حکم کے برخلاف عمل کرے گا تو اللہ تنافرمان لوگوں سے بدلہ لینے میں ایسا زبردست ہے کہ اس کے بدلہ کو کوئی ٹال نہیں سکتا پچھلی بہت سی قوموں کو اس نے طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کردیا جو قومیں حال کے لوگوں سے قوت ثروت ہر ایک بات میں بڑھ کر تھیں لیکن اللہ کے عذاب سے کوئی چیز ان کو بچا نہ سکی ‘ فرعون جیسے صاحب لشکر بادشاہ کو اس نے دریا قلزم میں ڈبو کر تہ وبالا کردیا اور اس کا لشکر اس کے کچھ کام نہ آیا صاحب حکمت وہ ایسا ہے کہ اس کی حکمت کے آگے بڑے بڑے بادشاہوں کی کوئی تدبیر نہیں چل سکتی جس طرح مثلاً فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ہلاک کرنے کے ارادہ سے بنی اسرائیل کے ہزاروں لڑکوں کو قتل کرایا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا جو نمونہ فرعون کو خواب میں دکھایا تھا اس نمونہ حکمت الٰہی کو فرعون اپنی کسی تدبیر سے نہ روک سکا آخر اس خواب کی تعبیر یہی ہوئی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ہی گھر میں پرورش کرایا چناچہ سورة طہ سورة الشعرا اور سورة قصص میں یہ قصہ تفصیل سے گزر چکا ہے حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ فرعون نے شام کے ملک سے ایک آگ نکلتی ہوئی دیکھی جس سے بنی اسرائیل کے محلہ کے سوائے مصر کے اور سب گھر جل گئے۔ اس وقت کے نجومیوں نے اس خواب کی یہ تعبیر بتائی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے سبب سے فرعون کی سلطنت کو صدمہ پہنچے گا۔ اس تعبیر کے روکنے کے لئے فرعون نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لڑکے قتل کرا ڈالے مگر حکمت الٰہی کے آگے انسانی تدبیر کیا چل سکتی ہے اب آگے تقدیر الٰہی کے موافق جب موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ دودھ پلانے کے بعد اپنے بچہ کو ایک صندوق میں لٹا کر اس صندوق کو اس طرح نیل دریا میں ڈال دیا کریں کہ اس صندوق میں ایک رسی بندھی رہے اور پھر اس رسی کا دوسرا سرا پیڑ سے باندھ دیا جائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں نے اس کے موافق عمل کیا ایک روز حکمت الٰہی کا یہ ظہور ہوا کہ رسی کھل کر وہ صندوق فرعون کے محل کے نیچے بہتے بہتے پہنچ گیا اور فرعون کی بی بی آسیہ کی نظر جب اس صندوق پر پڑگئی تو انہوں نے اس کو نکلوایا اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی محبت آسیہ کے دل میں ڈال دی اور انہوں نے فرعون سے اجازت لے کر موسیٰ (علیہ السلام) کو پالا۔ یوسف (علیہ السلام) کے عہد میں بنی اسرائیل ملک شام سے مصر میں آ کر آباد ہوئے یوسف (علیہ السلام) کی وفات کے بعد وہ مصر میں بڑی ذلت سے رہتے تھے ‘ نبی ہونے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے لے جاکر ملک شام میں آباد کریں اسی حکم کے موافق ایک رات بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے چلے فرعون نے جب یہ خبر سنی تو کئی لاکھ آدمیوں کا لشکر لے کر بنی اسرائیل کا پیچھا گیا اور قلزم دریا پر بنی اسرائیل کے قریب آپہنچا اللہ کے حکم سے دریا میں خشک راستہ پیدا ہوگیا جس راستہ سے موسیٰ (علیہ السلام) تو مع بنی اسرائیل کے دریا پار ہوگئے۔ فرعون نے مع اپنے لشکر کے جب اس خشک راستہ سے دریا پار ہونے کا قصد کیا تو بیچ دریا میں پہنچ جانے کے بعد دریا کا پاٹ مل گیا اور فرعون کا قصہ اللہ تعالیٰ کے زبردست ہونے اور صاحب حکمت ہونے کی گویا تفسیر ہیں۔ سورة الجاثیہ ختم ہوئی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:35) ذلکم : ای ذلک العذاب لکم۔ تمہارا یہ عذاب۔ بانکم ب سببیہ ہے ان حرف مشبہ بالفعل کم ضمیر جمع مذکر حاضر۔ بیشک تم ۔ اتخذتم : ماضی جمع مذکر حاضر۔ اتخاذ (افتعال) مصدر۔ تم نے بنا رکھا تھا۔ تم نے اختیار کر رکھا تھا۔ ایت اللّٰہ ھزوا : ایت اللّٰہ مضاف مضاف الیہ مفعول فعل اتخذتم کا۔ ھزوا مصدر۔ باب فتح۔ بمعنی اسم مفعول ۔ یعنی ۔ وہ جس کا مذاق اڑایا جائے۔ ترجمہ :۔ یہ عذاب تم پر بدیں سبب ہوگا۔ کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو تم نے ہدف مذاق بنا رکھا تھا۔ وغرتکم۔ واؤ عاطفہ۔ غرت ماضی واحد مؤنث غائب غرور (باب نصر) مصدر وھو کہ دینا۔ فریب میں مبتلا کرنا۔ کم ضمیر جمع مذکر حاضر مفعول ۔ اور ضمیر فاعل الحیوۃ الدنیا کی طرف راجع ہے۔ الحیوۃ الدنیا موصوف و صفت۔ دنیوی زندگی۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور دنیوی زندگی نے تم کو فریب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ (یعنی تم دنیا کمی زندگی اور اس کی عیش سامانیوں میں ہی ڈوب گئے تھے۔ اور آخرت کو اور اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی اور اپنے اعمال کی جزاء و سزاء کو بالکل بھول گئے تھے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ! بدنیانہ بندہ دل ہر کہ مرداست کہ ایں دنیا سراپا رنج و در داست بردبارے بگورستاں گزر کن کہ ایں دنیا حریفاں راچہ کر داست فالیوم : پس آج کے دن ، یعنی آج قیامت کے دن۔ لایخرجون مضارع منفی مجہول جمع مذکر غائب ۔ اخراج (افعال) مصدر۔ وہ باہر نہیں نکالے جائیں گے۔ منھا : ای من النار۔ ولا ہم یستعتبون۔ واؤ عاطفہ سے جملہ کا عطف الیوم پر ہے ہم ضمیر جمع مذکر غائب تاکید و تخصیص کے لئے ہے۔ لا یستعتبون مضارع منفی مجہول جمع مذکر غائب ہے استعتاب (استفعال) مصدر۔ ترجمہ : اور ان سے اللہ کو راضی کرنے کی خواہش کی جائے گی۔ استعتاب (استفعال) اعتاب (مادہ ع ت ب) سے مشتق ہے اعتاب (باب افعال) متعدی۔ بمعنی رضا مند کرنا۔ ازالہ ناراضگی کرنا۔ طلب اعتاب ہے۔ سو ولاہم یستعتبون کا مطلب ہوا کہ : اور نہ ان سے (اللہ کی) ناراضگی دور کرنے کی طلب کی جائے گی (کہ اے واصلین جہنم اللہ کے آگے عاجزی و توبہ کرکے اس کی ناراضگی کو دور کرلو۔ کیونکہ اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہوچکا ہوگا ۔ عمل کا وقت بیت چکا ہوگا۔ جزا و سزا کا وقت شروع ہوچکا ہوگا) ۔ فالیوم لا یخرجون منھا ولا ہم یستعتبون میں خطاب سے غیبت کی طرف عدول ان سے اظہار بیزاری کے لئے ہے۔ اردو زبان اس طرز بیان سے ناآشنا ہے۔ صاحب تفہیم القرآن لکھتے ہیں :۔ یہ آخری فقرہ اس انداز میں ہے جیسے کوئی آقا اپنے کچھ خادموں کو ڈانٹنے کے بعد دوسروں سے خطاب کرکے کہتا ہے کہ اچھا اب ان نالائقوں کی یہ سزا ہے۔ فائدہ : اوپر مباحث روحانیہ کا ذکر کرکے سورة کو اگلی دو آیات میں حمد باری تعالیٰ پر ختم کیا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 منانے کے موقع سے مراد توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا موقع ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی اس کا موقع نہ دیا جائے گا کہ توبہ کر کے خدا کو راضی کرلیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٣٥ (1) اب ان کے آخری انجام کے اعلان پر پردہ گرتا ہے ، جہنم میں ان کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے ، نہ ان سے کوئی عذر طلب کیا جاتا ہے اور نہ معافی کی درخواستیں طلب کی جاتی ہیں۔ آیت نمبر ٣٥ (2) گویا ان الفاظ کے ساتھ ہی ہم کرخت آوازیں سنتے ہیں اور جہنم کے دروازے ان پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ اب یہ منظر یہاں ختم ہوتا ہے اور اس حالت میں کوئی تغیر اور تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ اس مقام پر اللہ کی حمد و ثنا کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ اس تمہید اور منظر کے بعد سورت کے آخری کلمات نہایت ہی موثر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ ” ذلکم بانکم اتخذتم۔ الایۃ “ یہ دائمی عذاب تمہیں اس لیے نصیب ہوا کہ تم اللہ کی آیتوں کو ماننے اور ان پر عمل کرنے کی بجائے ان کا مذاق اڑاتے اور ان پر لایعنی اعتراضات کیا کرتے تھے اور دنیوی زندگی کی ظاہری شان و شوکت میں ایسے کھو گئے کہ اسی ہی کو اصل زندگی سمجھنے لگے اور آخرت کا انکار کردیا، اس لیے آج ان کو اس دائمی عذاب میں جھونک دیا جائے گا جس سے وہ کبھی نہ نکل سکیں گے اور نہ ان کو ایمان وعمل اور توبہ سے اللہ کو راضی کرنے ہی کا موقع میسر آسکے گا۔ ای لایطلب منھم ان یرضوا ربھم بالتوبۃ لغوات او انہ (مظہری ج 8 ص 392) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(35) یہ سزا تم کو اس لئے ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا مذاق اڑایا اور اس کی باتوں سے ٹھٹھا کیا اور تم کو دنیوی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا لہٰذا آج یہ کفر پیشہ لوگ نہ تو اس آگ سے نکالے جائیں اور نہ ان سے یہ خواہش کی جائیگی کہ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کریں۔ یعنی قیامت میں عذاب تم پر اس لئے کیا جارہا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے احکام کی ہنسی اڑایا کرتے تھے دنیوی زندگی نے تم کو دھوکے میں ڈال دیا تھا تم دنیوی زندگی کی حقیقی اور دائمی زندگی سمجھا کرتے تھے دوسری زندگی کا یقین نہ کرتے تھے بس آج کی دن نہ تو یہ لوگ دوزخ سے کبھی نکالے جائیں گے اور نہ ان سے اللہ تعالیٰ کے راضی اور خوش کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا بہرحال اعتقاد اور عمل کے کفر کا یہ انجام ہوا آگے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی بڑائی پر سورت ختم ہوتی ہے۔