Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 4

سورة الجاثية

وَ فِیۡ خَلۡقِکُمۡ وَ مَا یَبُثُّ مِنۡ دَآبَّۃٍ اٰیٰتٌ لِّقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ ۙ﴿۴﴾

And in the creation of yourselves and what He disperses of moving creatures are signs for people who are certain [in faith].

اور خود تمہاری پیدائش میں اور ان جانوروں کی پیدائش میں جنہیں وہ پھیلاتا ہے یقین رکھنے والی قوم کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And in your creation, and what He spread (through the earth) of moving creatures are signs for people who have faith with certainty.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] توحید کی دوسری نشانی & انسان کی تخلیق اندرونی اور بیرونی ساخت :۔ یعنی اگر انسان خود اپنے جسم کی اندرونی ساخت پر غور کرے تو اسے بہت کچھ حاصل ہوسکتا ہے اس کے اعضاء کی بیرونی ساخت اور اس کا کثیر المقاصد فوائد کا حامل ہونا اس کے اندر بیشمار خود کار مشینوں کا کام کرنا، تکلیف کی صورت میں خود طبیعت کا مقابلہ کرنا۔ پھر انسان کے اندر جو جو قوتیں اور جو جو جذبات رکھ دیئے گئے ہیں ان میں کسی ایک بات پر بھی غور کرنے سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا اعتراف کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ [٤] تیسری نشانی & توالد وتناسل اور بعث بعد الموت :۔ یعنی تمہاری اور جانوروں کی پیدائش کا طبعی پہلو ایک جیسا ہے۔ دونوں ہی زمین سے پیدا شدہ پیداوار سے اپنی غذا حاصل کرتے ہیں۔ اور یہ غذائیں بالکل بےجان ہوتی ہیں جن میں زندگی کی رمق تک موجود نہیں ہوتی۔ انہیں غذاؤں سے جانداروں کی جسمانی ضروریات پوری ہوتی ہیں جسم بڑھتا ہے، خون بنتا ہے۔ پھر خون سے منی بنتی ہے پھر توالد و تناسل کا سلسلہ چلتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ہر وقت مردہ اور بےجان غذاؤں کو کئی مراحل سے گزار کر جاندار چیزیں پیدا کرتا رہتا ہے۔ خ چوتھی نشانی & زمین کو انسانوں اور جانوروں سے آباد کرنا :۔ پھر زمین اور سمندروں میں راستے بنا کر اس نے ان جانداروں کو تمام روئے زمین پر پھیلا دیا ہے اس طرح زمین کا کثیر حصہ بھی آباد کردیا اور مخلوق کی روزی کا بھی مناسب انتظام کردیا۔ ان باتوں میں غور کرنے سے بھی اللہ کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے مگر صرف اسے جو اللہ کی ذات اور اس کی قدرتوں پر یقین رکھتا ہو اور اسے یہ یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ ان امور میں اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کا کچھ عمل دخل نہیں ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وفی خلقکم ومایبث من دآبۃ : یعنی جو لوگ انسان کی پیدائش میں اور خشکی اور سمندر میں پھیلائی ہوئی جاندار مخلوقات میں، جن کا شمار نہیں، غور کریں گے انھیں بیشمار ایسی نشانیاں ملیں گی جنہیں دیکھ کر کوئی شبہ باقی نہیں رہے گا کہ یقیناً یہ سب کچھ ایک ہی خلاق ومالک کا بنایا ہوا ہے اور وہی اسے چلا رہا ہے اور سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا گیا ، بلکہ یقیناً ایک دن ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزا ملنے والی ہے۔ (٢) ایت لقوم یوقنون : یعنی جو لوگ شک کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے رہنے کا یا انکار کا فیصلہ کرچکے ہوں ان کی بات دوسری ہے، مگر جو لوگ بات ثابت ہوجانے پر یقین کرنے والے ہیں ان کے لئے انسان کی پیدائش میں اور زمین میں پھیلی ہوئی بیشمار جاندار مخلوقات میں اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید اور قیامت کی بہت سی نشانیاں ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَفِيْ خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِنْ دَاۗبَّۃٍ اٰيٰتٌ لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ۝ ٤ ۙ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے بث أصل البَثِّ : التفریق وإثارة الشیء کبث الریح التراب، وبثّ النفس ما انطوت عليه من الغمّ والسّرّ ، يقال : بَثَثْتُهُ فَانْبَثَّ ، ومنه قوله عزّ وجل : فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة/ 6] وقوله عزّ وجل : نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف/ 86] أي : غمّي الذي أبثّه عن کتمان، فهو مصدر في تقدیر مفعول، أو بمعنی: غمّي الذي بثّ فكري، نحو : توزّعني الفکر، فيكون في معنی الفاعل . ( ب ث ث) البث ( ن ض) اصل میں بث کے معنی کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنا کے ہیں جیسے بث الریح التراب ۔ ہوانے خاک اڑائی ۔ اور نفس کے سخت تریں غم یا بھید کو بت النفس کہا جاتا ہے شتتہ فانبث بیں نے اسے منتشر کیا چناچہ وہ منتشر ہوگیا اور اسی سے فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة/ 6] ہے یعنی پھر وہ منتشراذرات کی طرح اڑنے لگیں اور آیت کریمہ اِ نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف/ 86] میں بث کے معنی سخت تریں اور یہ پوشیدہ غم کے ہیں جو وہ ظاہر کررہے ہیں اس صورت میں مصدر بمعنی مفعول ہوگا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصدربمعنی فاعل ہو یعنی وہ غم جس نے میرے فکر کو منتشتر کر رکھا ہے دب الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود/ 6] ( د ب ب ) دب الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود/ 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] يقن اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة/ 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما . ( ی ق ن ) الیقین کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اسی طرح خود تمہیں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف تبدیل کرنے میں تمہارے لیے دلائل ہیں اور تمام جاندار چیزوں کے پیدا کرنے میں بھی تصدیق کرنے والوں کے لیے نشانیاں اور عبرت کی چیزیں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ { وَفِیْ خَلْقِکُمْ وَمَا یَبُثُّ مِنْ دَآبَّۃٍ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ } ” اور تمہاری تخلیق میں ‘ اور جو اس نے پھیلادیے ہیں (زمین میں) جاندار ان میں بھی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو یقین کریں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 That is, "The case of those who have made up their minds not to believe, or of those who have chosen for themselves to remain lost in the blind alleys of doubt, is different, but when those who have not locked up their hearts against belief and conviction, will consider seriously their own creation, the structure of their own body, and the variety of animals found on the earth, they will see countless such signs as will leave no doubt in their minds that all this did not come into being without a God, or that it stood in need of more than one Cod for its creation. (For explanation, see A1 An`am: 37-38, An-Nahl: 5.8, AI-Hajj: 57, AI-Mu'minun: 12-14, AI-Furqan: 54, Ash-Shu'ara': 78-81, An-Naml: 64, Ar-Rum: 20-21, 54, E.N.'s 14 to 18 of As-Sajdah, Ya Sin: 71-73, Az-Zumar: 6, and E.N.'s 97, 98,110 of Al-Mu'min).

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :3 یعنی جو لوگ انکار کا فیصلہ کر چکے ہیں ، یا جنہوں نے شک ہی کی بھول بھلیوں میں بھٹکنا اپنے لیے پسند کرلیا ہے ان کا معاملہ تو دوسرا ہے ، مگر جن لوگوں کے دل کے دروازے یقین کے لیے بند نہیں ہوئے ہیں وہ جب اپنی پیدائش پر ، اور اپنے وجود کی ساخت پر ، اور زمین میں پھیلے ہوئے انواع و اقسام کے حیوانات پر غور کی نگاہ ڈالیں گے تو انہیں بے شمار علامات ایسی نظر آئیں گی جنہیں دیکھ کر یہ شبہ کرنے کی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہ رہے گی کہ شاید یہ سب کچھ کسی خدا کے بغیر بن گیا ہو ، یا شاید اس کے بنانے میں ایک سے زیادہ خداؤں کا دخل ہو ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد اول ، النحل ، حواشی ۷ تا ۹ ، جلد سوم ، الحج ، حواشی ۵ تا ۹ ، المومنون ، حواشی ۱۲ ۔ ۱۳ ، الفرقان ، حاشیہ ٦۹ ، الشعراء ، حواشی ۵۷ ، ۵۸ ، النمل ، حاشیہ ۸۰ ، الروم ، حواشی ۲۵ تا ۳۲ ، ۷۹ ۔ جلد چہارم ، السجدہ ، حواشی 14 تا 18 ۔ یٰس ، آیات 71 تا 73 ۔ الزمر ، آیت 6 ۔ المومن ، حواشی97 ۔ 98 ۔ 110 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:4) وما یبث من دابۃ۔ واؤ عاطفہ۔ جملہ کا عطف خلقکم پر ہے ما موصولہ یبث مضارع واحد مذکر غائب۔ بث (باب نصر) مصدر ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع ہے۔ دابۃ جانور، چلنے والا۔ رینگنے والا۔ پاؤں دھرنے والا۔ اسم فاعل کا صیغہ مذکر اور مؤنث ، دنوں کے لئے مستعمل ہے ۃ وحدت کی ہے دواب جمع ہے (تمہاری) اور ان جانوروں کی پیدائش میں جن کو اللہ نے (زمین پر) پھیلا رکھا ہے یقین رکھنے والوں کے لئے بہت سے دلائل ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 رہے وہ لوگ جو شک میں پڑے ہوئے ہیں انہیں کسی چیز میں کوئی نشانی نظر نہیں آتی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” وفی خلقکم۔ الایۃ “ اس سے بڑھ کر تم خود اپنی پیدائش کو دیکھو کہ کس طرح اس نے اپنی قدرت کاملہ سے تمہیں ایک قرطہ آب سے پیدا فرمایا اور پھر زمین میں بیشمار انواع و اقسام کے چوپائے پھیلا دئیے ماننے والوں کے لیے اس میں کھلے دلائل ہیں۔ ” واختلاف الیل والنھار۔ الایۃ “ پھر اس سے آگے بڑھو اور رات دن کے یکے بعد دیگرے آنے جانے اور ان کے گھٹنے بڑھنے میں غور وفکر کرو اور دیکھو وہ آسمان سے مینہ برسا کر خشک اور ناکارہ زمین کو زرخیز بنا دیتا ہے اور ہوائیں اس کے حکم سے چلتی ہیں عقل و دانش رکھنے والوں کے لیے ان تمام چیزوں میں توحید الٰہی اور قدرت خداوندی کے عظیم الشان نشانات موجود ہیں۔ رزق سے مراد بارش ہے بطریق تسمیۃ الشیء باسم المسبب من رزق من مطر سماہ مطرا لانہ سببہ (بیضاوی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) اور خود تمہارے پیدا کرنے میں اور نیز ان حیوانات اور جانوروں میں جن کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں پھیلا رکھا اور بکھیررکھا ہے ان لوگوں کے لئے قدرت خداوندی اور اس کی توحید کے بڑے دلائل ہیں جو یقین رکھتے ہیں۔