Surat ul Ehkaaf

Surah: 46

Verse: 18

سورة الأحقاف

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ حَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡقَوۡلُ فِیۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا خٰسِرِیۡنَ ﴿۱۸﴾

Those are the ones upon whom the word has come into effect, [who will be] among nations which had passed on before them of jinn and men. Indeed, they [all] were losers.

وہ لوگ ہیں جن پر ( اللہ کے عذاب کا ) وعدہ صادق آگیا ان جنات اور انسانوں کے گروہوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں یقیناً یہ نقصان پانے والے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They are those against whom the Word (of torment) has justified among the previous generations of Jinn and mankind that have passed away. Verily, they are ever the losers. This indicates that all such people will be among their likes and their peers among the disbelievers, who will lose themselves and their families on the Day of Resurrection. Allah's saying, أُوْلَيِكَ (Those are) after He said, وَالَّذِى قَالَ (But he who says) confirms what we have mentioned above that the latter is a general description of a type of people including all those who fall under that description. Al-Hasan and Qatadah both said, "This applies to the disbelieving, sinful person who is undutiful to his parents and who denies resurrection." Allah then says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 جو پہلے اللہ کے علم میں تھا، یا شیطان کے جواب میں جو اللہ نے فرمایا تھا (لَاَمْلَــــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ اَجْمَعِيْنَ ) 38 ۔ ص :85) ۔ 18۔ 2 یعنی یہ بھی ان کافروں میں شامل ہوگئے جو انسانوں اور جنوں میں سے قیامت والے دن نقصان اٹھانے والے ہونگے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨] یعنی ایسے ضدی لوگ جو نہ غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور نہ عقلی دلائل کو تسلیم کرتے ہیں ان پر اللہ کا یہ قول فٹ آتا ہے کہ میں جنوں اور انسانوں کی ایک کثیر تعداد سے جہنم کو بھردوں گا۔ اور یہ قول بھی دراصل ابلیس کی اس بات کے جواب میں ہے۔ جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کہی تھی کہ میں تیری ساری مخلوق کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا۔ کوئی چند تیرے مخلص بندے میرے داؤ سے بچ جائیں تو الگ بات ہے۔ یہ آخرت کا منکر بیٹا بھی انہی جہنم میں داخل ہونے والوں یا بالفاظ دیگر ابلیس کے ہتھے چڑھنے والوں میں سے ہے۔ [٢٩] آخرت کے منکر دنیا اور آخرت دونوں جگہ خسارے میں :۔ آخرت کے منکر کو دنیا میں تو یہ خسارہ ہوتا ہے کہ وہ گناہوں پر دلیر ہو کر ایمان وسعادت کا وہ بیج بھی ضائع کردیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہر آدمی کے دل میں فطری طور پر ڈال رکھا تھا۔ پھر جب وہ گناہوں پر ملامت کرنے والے ضمیر کا ہی گلا گھونٹ دیتا ہے تو اسے راہ راست پر لانے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی اور آخرت میں اس کا خسارہ یہ ہے کہ اگر اس نے زندگی میں کوئی اچھے کام کئے بھی تھے تو ان کا اسے کوئی صلہ نہ ملے گا۔ اس لیے کہ اس نے آخرت میں اجر ملنے کی نیت سے وہ کام کئے ہی نہ تھے۔ اس طرح اس کے گناہ ہی گناہ باقی رہ جائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) اولئک الذین حق علیھم القول : یعنی والدین کے گستاخ اور آخرت کے منکر ہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی بات ثابت ہوچکی، جو اس نے پہلے فرما دی تھی :(لا ملن جھنم من الجنۃ والناس اجمعین) (ھود : ١١٩) ” کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے ضروری ہی بھروں گا۔ “ مزید دیکھیے سورة اعراف (١٨) (٢) فی ام قدخلت من قبلھم من الجن والانس : یعنی جنوں اور انسانوں کے ان گروہوں میں شامل ہو کر جو اہل جہنم میں سے ان سے پہلے گزرے۔ ان بدترین لوگوں کا ساتھ خود بدترین سزا ہے۔ (٣) انھم کانوا خسرین :” ان “ تعلیل کے لئے ہے، یعنی ان کا یہ انجام اس لئے ہوا کہ انھیں جو سرمایہ حیات دنیا میں آخرت کی تیاری کے لئے دیا گیا تھا انہوں نے اس سے نفع حاصل کرنے کے بجائے اصل راس المال بھی گنوا دیا اور یہی حقیقی خسارہ ہے جو انہوں نے اٹھایا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ حَقَّ عَلَيْہِمُ الْقَوْلُ فِيْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ۝ ٠ ۭ اِنَّہُمْ كَانُوْا خٰسِرِيْنَ۝ ١٨ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ خلا الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] ( خ ل و ) الخلاء ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ جِنّ ( شیطان) والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح «4» : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة : - أخيار : وهم الملائكة . - وأشرار : وهم الشیاطین . - وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] . والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] . الجن جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ حضرت عبدالرحمن کے مشرک اجداد یعنی جدعان اور عثمان وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کا عذاب اور ناراضگی کا وعدہ پورا ہو کر رہا ایسی امتوں کے ساتھ جو ان سے پہلے جن و انس کافر ہو کر دوزخ میں داخل ہو کر رہے ہیں۔ بیشک یہ لوگ سخت خسارے میں رہے اب ان کو قیامت تک بھی دوبارہ دنیا میں نہیں بھیجا جائے گا۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمن مشرف بااسلام ہوگئے اور ان کا اسلام بھی خوب اچھا ہوا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ { اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ } ” یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی بات صادق آئی “ یعنی ایسے لوگ اللہ کے کلمہ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ { فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ } ” (یہ بھی شامل کردیے جائیں گے ) ان قوموں میں جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں جنوں اور انسانوں میں سے۔ “ { اِنَّہُمْ کَانُوْا خٰسِرِیْنَ } ” یقینا یہی لوگ ہیں خسارے والے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22 Here, two types of the character have been placed side by side and the listeners asked the silent question as to which of them is better. At that time both these types of character practically existed in the society, and it was not at aII difficult for the people to know where they could find the first type of the character and where the second. This is the answer to this saying of the chiefs of the Quraish: "If it had been any good to believe in this Book, these few youngsters and slaves would not have believed in it before they did." In the light of this answer everyone could see for himself as to what was the character of the believers and what of the unbelievers.

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :22 یہاں دو طرح کے کردار آمنے سامنے رکھ کر گویا سامعین کے سامنے یہ خاموش سوال رکھ دیا گیا ہے کہ بتاؤ ، ان دونوں میں سے کونسا کردار بہتر ہے ۔ اس وقت یہ دونوں ہی کردار معاشرے میں عملاً موجود تھے اور لوگوں کے لیے یہ جانا کچھ بھی مشکل نہ تھا کہ پہلی قسم کا کردار کہاں پایا جاتا ہے اور دوسری قسم کا کہاں ۔ یہ جواب ہے سرداران قریش کے اس قول کا اگر اس کتاب کو مان لینا کوئی اچھا کام ہوتا تو یہ چند نوجوان اور چند غلام اس معاملہ میں ہم سے بازی نہ لے جا سکتے تھے ۔ اس جواب کے آئینہ میں ہر شخص خود دیکھ سکتا تھا کہ ماننے والوں کا کردار کیا ہے اور نہ ماننے والوں کا کیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(46:18) اولئک۔ اسم اشارہ جمع مذکر ۔ مشار الیہم وہ لوگ ہیں جو نافرمان اور بعث بعد الموت کے منکر ہیں۔ جن کا ذکر والذی قال لوالدیہ اف لکما۔۔ الآیۃ میں اوپر مذکور ہوا ہے۔ حق ماضی واحد مذکر غائب حق باب ضرب ، نصر، مصدر کسی چیز کا ثابت ہونا۔ یقینی ہونا۔ یہاں بمعنی حق ہوا۔ ثابت ہوا۔ ثابت ہو کر رہا۔ القول۔ وھو قولہ تعالیٰ لابلیس۔ قال فالحق والحق اقول لاملئن جہنم منک وممن تبعک منہم اجمعین (38:84:85) حق یہ ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں۔ کہ میں تجھ سے اور جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔ فی امم۔ فی بمعنی متعلق۔ امم جمع امۃ کی۔ گذشتہ کافر امتوں کے بارے میں القول فی امم وعدہ عذاب جن وانس کی ان امتوں کی بابت جو ان سے قبل گزر چکیں۔ ترجمہ ہوگا :۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر وہ وعدہ عذاب پورا ہوکر رہا۔ جو ان سے قبل جنوں اور انسانوں کی امتوں کی بابت تھا۔ قد خلت۔ جو گذر چکیں۔ نیز ملاحظہ ہو آیت 17 متذکرہ بالا۔ من الجن والانس۔ یہ امم کا بیان ہے۔ انہم کانوا خسرین۔ بیشک یہ خسارہ پانے والے ہیں۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع وہی لوگ ہیں جن کی طرف اولئک میں اشارہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یہ ” امم ‘ کا بیان ہے۔ یہ مضمون سودا اعراف :18 اسوہ ہود :119 میں گزر چکا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ اللہ کی توحید کا انکار اور اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ جو لوگ ” اللہ “ کی توحید اور اپنے والدین کی نافرمانی کریں گے وہ لوگ دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی نافرمانی کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کا فرمان اسی طرح سچ ثابت ہوگا جس طرح اس کا فرمان ان سے پہلے نافرمان جنوں اور انسانوں پر سچ ثابت ہوا جس کے نتیجہ میں وہ دنیا میں اپنے رب کے غضب کا شکار ہوئے اور آخرت میں ہمیشہ ہمیش نقصان میں رہیں گے۔ نقصان سے مراد جنت سے محرومی ہے اور جہنم میں داخل کیا جانا ہے۔ اس کا اصول ہے کہ ” کوئی جیسا کرے گا ویسا بھرے گا۔ “ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال کی پوری، پوری سزا اور جزا دے گا۔ کسی کے ساتھ کسی قسم کا ظلم نہیں ہوگا۔ دنیا دار لوگ دنیا میں اچھے اعمال کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے وسائل میں اضافہ کرتا ہے اور انہیں نیک نامی سے نوازتا ہے لیکن یہ لوگ آخرت کے اجر سے محروم ہوں گے۔ ان کے مقابلے میں صحیح العقیدہ اور صالح کردار رکھنے والے لوگ دنیا میں بھی صلہ پاتے ہیں اور آخرت میں اَن گنت اور لامحدود اجر پائیں گے۔ دنیا کے اجر میں سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ نیک لوگوں کو دل کے اطمینان سے نوازا جاتا ہے۔ ان سے کوئی چیز چھن جائے تو حد سے زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔ انہیں عطا کیا جائے تو وہ اپنے آپ سے باہر نہیں ہوتے۔ گویا کہ وہ ہر حال میں اپنے رب پر راضی اور مطمئن رہتے ہیں۔ یہ ایسی نعمت ہے کہ دنیا کی کوئی نعمت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ (قُلْ ہَلْ نُنَبِّءُکُمْ بالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا۔ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنَعًا۔ اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ وَ لِقَآءِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا۔ ذٰلِکَ جَزَآؤُہُمْ جَہَنَّمُ بِمَا کَفَرُوْا وَ اتَّخَذُوْٓا اٰیٰتِیْ وَ رُسُلِیْ ہُزُوًا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا۔ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا) (الکہف : ١٠٣ تا ١٠٨) ” اے نبی ان سے فرما دیں کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اعمال کے اعتبار سے نقصان پانے والے کون لوگ ہیں ؟ یہ وہ ہیں جن کی دنیا کی زندگی میں ہی ساری محنت ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیش ہونے کا یقین نہ کیا۔ ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے قیامت کے دن ہم انہیں کوئی وزن نہیں دیں گے۔ ان کی سزا جہنم ہے اس کفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور اس وجہ سے کہ وہ میری آیات اور میرے رسولوں کے ساتھ مذاق کرتے رہے۔ یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغات ہوں گے۔ جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اس سے نکلنے کی کبھی خواہش نہیں کریں گے۔ “ مسائل ١۔ نافرمان لوگوں پر ” اللہ “ کا عذاب برحق ثابت ہوتا ہے۔ ٢۔ بیشمار جن اور لاتعداد انسان دنیا میں ” اللہ “ کے عذاب میں گرفتار ہوئے اور آخرت میں جہنم میں داخل ہوں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزا یا سزا دے گا۔ کسی پر کسی اعتبار سے ظلم نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور آخرت میں نقصان پانے والے لوگ : ١۔ اپنے مالوں اور اولادوں کے بارے میں سستی کرنے والے دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ ( المنافقون : ٩) ٢۔ جو لوگ مساجد کو برباد کرتے ہیں وہ دنیا وآخرت میں ذلّت اٹھائیں گے۔ ( البقرۃ : ١١٤) ٣۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں وہ دنیا وآخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے۔ ( ہود : ٢١) ٤۔ جن لوگوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی وہ دنیا وآخرت میں خسارہ پائیں گے۔ ( النحل : ١٠٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” الئک الذین۔ الایۃ “ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کا فیصلہ ثابت ہوچکا ہے کہ ان کو جہنم کا ایندھن بنایا جائے گا جن و انس کی ان سرکش اور معاند امتوں کے ساتھ جو پہلے گذر چکی ہیں۔ یہ لوگ بہت بڑے خسارے میں ہیں۔ فی امم ای مع امم (قرطبی) ۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ظرف کا متعلق یدخلون مقدر ہے۔ اللہ کے فیصلے سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ ارشاد ہے جو ابلیس سے خطاب کر کے فرمایا۔ ” لاملئن جھنم منک و ممن تبعک منہم اجمعین “ (روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(18) یہی وہ لوگ ہیں کہ ان کے حق میں بھی ان امتوں کے ساتھ جوان سے پہلے جنات اور انسانوں کی ہوگزری ہیں اللہ تعالیٰ کی وہ بات پوری ہوکررہی کیونکہ یہ سب زیاں کار تھے۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے پہلے جو امتیں جنات اور انسانوں کی گزری ہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ کی بات یعنی وعدہ عذاب پورا ہوکر رہا اسی طرح ان کے ساتھ ان پر بھی وہ وعدہ عذاب پورا ہوگا۔ حق علیھم القول سے وہی کلمہ لاملئن جھنم من الجنۃ والناس اجمعین۔ مراد ہے بہرحال جو امتیں کافروں کی ان سے پہلے گزری ہیں خواہ وہ جنات کی ہوں یا انسان کی جو انجام ان کا ہو وہی حال ایسی اولاد کا ہونے والا ہے جو ماں کی نافرمان اور کافر ہو۔