Surat ul Ehkaaf

Surah: 46

Verse: 19

سورة الأحقاف

وَ لِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوۡا ۚ وَ لِیُوَفِّیَہُمۡ اَعۡمَالَہُمۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ ﴿۱۹﴾

And for all there are degrees [of reward and punishment] for what they have done, and [it is] so that He may fully compensate them for their deeds, and they will not be wronged.

اور ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجے ملیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال کے پورے بدلے دے اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا ... And for all, there will be degrees according to that which they did, meaning that there will be degrees of punishment for each of them according to what they did. ... وَلِيُوَفِّيَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ so that He might fully recompense them for their deeds, and they will not be wronged. which means Allah will not be unjust to them even in the amount of a speck of dust or less. Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said: "The levels of the Fire descend, and those of Paradise ascend." Allah then says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 مومن اور کافر دونوں کا ان کے عملوں کے مطابق اللہ کے ہاں مرتبہ ہوگا مومن مراتب عالیہ سے سرفراز ہوں گے اور کافر جہنم کے پست ترین درجوں میں ہوں گے۔ 19۔ 1 گنہگار کو اس کے جرم سے زیادہ سزا نہیں دی جائے گی اور نیکوکار کے صلے میں کمی نہیں ہوگی۔ بلکہ ہر ایک کو خیر یا شر میں سے وہی ملے گا جس کا وہ مستحق ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] نیک لوگوں پر ظلم کی صورتیں یہ ہیں کہ انہیں ان کے اعمال کا بدلہ نہ دیا جائے یا کم دیا جائے۔ اور مجرموں پر ظلم کی صورتیں یہ ہیں کہ انہیں جرم سے زیادہ سزا دے ڈالی جائے یا مجرموں کو سزا دیئے بغیر چھوڑ دیا جائے غرضیکہ ظلم کی کوئی بھی صورت وہاں ممکن نہ ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ولکل درجت مما عملوا…: اس آیت سے پہلے مضمون کی تاکید مقصود ہے، یعنی ہر ایک کو وہ مومن ہو یا کافر، اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا ملے گی۔ یہ نہیں ہوگا کہ بروں پر ایسے گناہ لا د دیئے جائیں جو انہوں نے کئے ہوں، یا نیکوں کو ان کی نیکی سے محروم کردیا جائے۔ واضح رہے یہاں مومن و کافر سب کے لئے ” جرجت “ کا لفظ غلیبا استعمال ہوا ہے ، ورنہ تو اصل میں منازل جنت کو ”’ رجات “ اور منازل جہنم کو ”” رکات “ کہا جاتا ہے، جس طرح منافقوں کے بارے میں ” فی الدرک الاسفل من النار “ آیا ہے۔ (روح المعانی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا۝ ٠ ۚ وَلِيُوَفِّيَہُمْ اَعْمَالَہُمْ وَہُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝ ١٩ درج الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] ( د ر ج ) الدرجۃ : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امدلاد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق مزالہ رفیع یعنی بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے وُفِّيَتْ وتَوْفِيَةُ الشیءِ : ذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

مسلمانوں اور کافروں میں سے ہر ایک فریق کے لیے ان کے اعمال دنیویہ کی وجہ سے الگ الگ درجے ہیں، چناچہ مسلمانوں کے لیے جنت اور کفار کے لیے دوزخ میں درجے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ سب کو ان کے اعمال کی جزا پوری کردے اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہ ہوگا کہ ان کی نیکیوں میں کمی اور گناہوں میں اضافہ کردیا جائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ { وَلِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا } ” اور ہر ایک کے لیے درجے (اور مقامات) ہوں گے ان کے اعمال کے اعتبار سے ۔ “ { وَلِیُوَفِّیَہُمْ اَعْمَالَہُمْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ } ” اور تاکہ وہ پورا پورا دے انہیں ان کے اعمال کا بدلہ اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 That is, "Neither will the good deeds and sacrifices of the good people be lost, nor the evildoers awarded a greater punishment than what they will actually deserve. If a good man is deprived of his reward and receives a lesser reward than what is actually his due, it is injustice. Likewise, if an evildoer is not punished appropriately for his evil deeds, or receives a greater punishment than deserved, it is also injustice. "

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :23 یعنی نہ اچھے لوگوں کی نیکیاں اور قربانیاں ضائع ہوں گی اور نہ برے لوگوں کو ان کی برائی سے بڑھ کر سزا دی جائے گی ۔ نیک آدمی اگر اپنے اجر سے محروم رہ جائے ، یا اپنے حقیقی استحقاق سے کم اجر پائے تو یہ بھی ظلم ہے ، اور برا آدمی اپنے کیے کی سزا نہ پائے یا جتنا کچھ قصور اس نے کیا ہے اس سے زیادہ سزا پائے تو یہ بھی ظلم ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(46:19) ولکل۔ ای لکل واحد من الفریقین المذکورین، مذکورہ بالا ہر دو فریقین میں سے ہر ایک کے لئے۔ وہ دونوں فریقین کون سے ہیں :۔ (1) فریق اول : مذکورہ فی آیت : اولئک الذین نتقبل عنہم۔ فریق دوم : اولئک الذین حق علیہم القول۔ یا (2) فریق اول :۔ الذین قالوا ربنا اللہ۔۔ فریق دوم :۔ الذی قال لوالدیہ اف۔۔ مما۔ مرکب من بیانیہ اور ما موصولہ سے۔ ای من الذی عملوہ من الخیر والشر۔ ترجمہ :۔ اور جو (اچھے یا برے) اعمال انہوں نے کئے اس کے مطابق ان میں سے ہر ایک کے لئے درجات (مرتبے) ہوں گے ولیوفیہم وائو عاطفہ ہے لام تعلیل کا۔ یوفی مضارع منصوب (بوجہ عمل لام) واحد مذکر غائب : ضمیر فاعل اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے توفیۃ (تفعیل) مصدر ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب کل کے لئے ہے (یہ درجہ بندی اس لئے کہ ) وہ ان کو (ان کے اعمال کا) پورا پورا بدلہ دے۔ اعمالہم مفعول ثانی ہے یوفی کا۔ لہٰذا منصوب ہے ۔ وہم لا یظلمون۔ جملہ حالیہ ہے درآں حالیکہ ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ یعنی نہ کسی کے ساتھ نیک کام کا ثواب میں کمی کی جائے گی۔ اور نہ برے کام کی سزا میں زیادتی برتی جائے گی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اس سے پہلے مضمون کی تاکید مقصود یعنی ہر ایک کو مومن ہو یا کافر اس کے عملوں کے مطابق جزا سزا ملے گی یہ نہیں ہوگا بروں پر ایسے گناہ لادے جائیں جو انہوں نے نہ کئے ہوں یا نیکوں کو ان کی نیکی سے محروم کردیا جائے۔ واضح رہے کہ یہاں مومن کافر سب کے لئے درجات کا لفظ لفظاً استعمال ہوا ہے ورنہ اصل میں منازل جنت کو درجات اور منازل روح کو برکات کہا جاتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا ﴿ وَ لِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا ١ۚ ﴾ اور ہر ایک کے لیے درجات ہیں، اہل ایمان کو ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے جنت عالیہ میں درجات ملیں گے اور اہل کفر کو دوزخ کے طبقات سافلہ میں جانا ہوگا۔ قال فی الجلالین فدرجات المومن فی الجنة عالیہ و درجات الکافر فی النار سافلة (تفسیر جلالین میں ہے کہ جنت میں مومن کے درجات اوپر سے اوپر کو ہوں گے اور جہنم میں کافر کے درجات نیچے سے نیچے ہوں گے) ﴿وَ لِيُوَفِّيَهُمْ اَعْمَالَهُمْ ﴾ (اور ان کے لیے درجات اس لیے مقدر اور مقرر کردئیے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال کی جزا پوری پوری دیدے) ﴿ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ٠٠١٩﴾ (اور ان پر ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا) نہ کسی مومن کی نیکی ضائع جائے گی اور نہ کسی غیر مجرم کو سزا دی جائے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ ” ولکل درجات “ یہ دونوں فریقوں سے متعلق ہے۔ مومنین اور کفار میں سے ہر ایک کے لیے اس کے اعمال خیر اور افعال شر کے مطابق جزاء و سزا کے مختلف درجات و منازل ہوں گے۔ منازلِ جنت بھی اعمال حسنہ کی کمی بیشی کے مطابق بلندو پست ہوں گے۔ اسی طرح درکاتِ عذاب بھی گناہوں کی کثرت و قلت کے مطابق مختلف ہوں گے۔ تفاوت درجات و درکات عین عدل و انصاف ہے کہ ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزاء و سزا دی جائے اور کسی پر زیادتی نہ ہونے پائے۔ اور نہ کسی کی حق تلفی ہی ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) اور ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال مختلفہ کیوجہ سے مختلف درجے ملیں گے اور یہ اس لئے ہوگا تاکہ اللہ تعالیٰ ان سب کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلا دے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ مختلف اعمال یعنی مومن کا عمل کافر کے عمل سے مختلف ہے اس لئے مومن کو جنت اور کافر کو جہنم مومن کا پورا بدلہ وہ ہے اور کافر کا پورا بدلا یہ ہے یا یہ مطلب کہ مومن کوئی برے عمل کرنے والا کوئی کم عمل کرنے والا کافر بھی کوئی اسلام کا سخت دشمن اور کٹر کوئی نرم قسم کا کافر جہنم میں ان کے طبقات مختلف اور جنت میں ان کے درجات عالیہ مختلف کوئی اہل یمین کوئی مقرب بارگاہ اللھم اجعلنا من المربین برحمتک یا ارحم الراحمین۔