Surat ul Ehkaaf

Surah: 46

Verse: 25

سورة الأحقاف

تُدَمِّرُ کُلَّ شَیۡءٍۭ بِاَمۡرِ رَبِّہَا فَاَصۡبَحُوۡا لَا یُرٰۤی اِلَّا مَسٰکِنُہُمۡ ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡقَوۡمَ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿۲۵﴾

Destroying everything by command of its Lord. And they became so that nothing was seen [of them] except their dwellings. Thus do We recompense the criminal people.

جو اپنے رب کے حکم سے ہرچیز کو ہلاک کر دے گا ، پس وہ ایسے ہوگئے کہ بجز ان کے مکانات کے اور کچھ دکھائی نہ دیتا تھا گناہ گاروں کے گروہ کو ہم یونہی سزا دیتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ ... Destroying every thing, meaning, destroying every part of their land that could normally be destroyed. ... بِأَمْرِ رَبِّهَا ... by the command of its Lord! meaning, it had Allah's permission to do that. This is similar to Allah's saying, مَا تَذَرُ مِن شَىْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلاَّ جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ It spared nothing that it reac... hed, but blew it into broken spreads of rotten ruins. (51:42) meaning, like something dilapidated (or decrepit). Because of this, Allah says, ... فَأَصْبَحُوا لاَأ يُرَى إِلاَّ مَسَاكِنُهُمْ ... So they became such that nothing could be seen except their dwellings! means, all of them were destroyed, and none of them were spared. Allah then says: ... كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ Thus do We recompense the criminal people! which means that this is Our judgement regarding those who reject Our Messengers and disobey Our commands. Imam Ahmad recorded from A'ishah, may Allah be pleased with her, that she said, "I never saw Allah's Messenger fully laughing so that I would see his uvula. He would only smile." She added that when Allah's Messenger saw clouds or wind, that would reflect on his face (as discomfort). She asked him: "O Allah's Messenger! When the people see clouds, they become happy, hoping that they bring them rain. But I notice that when you see them, displeasure appears on your face." Allah's Messenger replied, يَا عَايِشَةُ مَا يُوْمِنُنِي أَنْ يَكُونَ فِيهِ عَذَابٌ قَدْ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيحِ وَقَدْ رَأَى قَوْمٌ الْعَذَابَ وَقَالُوا هذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا O `A'ishah! What would guarantee to me that they do not bring punishment Some nations had been punished with wind. On seeing the punishment approaching them, a nation once said: "This is a cloud bringing us rain." This is also recorded by Al-Bukhari and Muslim. Imam Ahmad recorded that A'ishah, may Allah be pleased with her, said that when Allah's Messenger saw clouds on any of the horizons, he would leave whatever he was doing -- even if he was in prayer -- and say: اللْهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا فِيه O Allah! I seek refuge with you from any harm that it (the cloud) contains. If Allah removed those clouds, the Prophet would praise Allah, and if rain fell, he would say: اللْهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا O Allah! Make it pouring and beneficent. Muslim also recorded in his Sahih from A'ishah, may Allah be pleased with her, that when the wind blew, Allah's Messenger would say, اللْهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا فِيهَا وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا فِيهَا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِه O Allah! I ask You of its good, the good that it contains, and the good with which it has been sent. And I seek refuge in You from its evil, the evil that it contains, and the evil with which it has been sent. She added that if the sky became cloudy, his color would change; he would exit, enter, come, and go. When it rained, his anxiety would be relieved. When A'ishah, may Allah be pleased with her, noticed that, she asked him about it and he said: لَعَلَّهُ يَا عَايِشَةُ كَمَا قَالَ قَوْمُ عَادٍ فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا O `A'ishah! It could be like what the people of `Ad said, (Then, when they saw it as a dense cloud approaching their valleys, they said: "This is a cloud bringing us rain!") We have previously mentioned the story of the destruction of the people of `Ad in both Surah Al-A`raf and Surah Hud. Thus, there is no need to repeat it here; and verily Allah is worthy of all praise and gratitude.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 یعنی مکین سب تباہ ہوگئے اور صرف مکانات نشان عبرت کے طور پر باقی رہ گئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] عاد پر عذاب کی نوعیت :۔ اس عذاب کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر گزر چکا ہے۔ اس آندھی کی تیزی کا یہ عالم تھا کہ وہ درختوں اور پودوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر پرے پھینک دیتی تھی یہی آندھی ان کے زمین دوز مکانوں کے اندر گھس گئی۔ اس دوران وہ اپنے گھروں سے نکل بھی نہیں سکتے تھے۔ سردی کی شدت سے وہیں ٹھ... ٹھر ٹھٹھر کر مرگئے۔ لے دے کے اگر کوئی چیز وہاں نظر آتی تھی تو وہ ان کے مکان ہی تھے جن میں دراڑیں پڑگئیں تھیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) تدمر کل شیء بامرربھا : یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” وہ ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے برباد کر دے گی “ حالانکہ کئی چیزیں اس کے بعد بھی موجود رہیں، جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے سورة ہود (٥٨) میں فرمایا ہے کہ ہود (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والے اس عذاب سے محفوظ رہے۔ اہل علم...  نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ لفظ ” کل “ سے کائنات کی ہر چیز مراد نہیں ہوتی، بلکہ ہر مقام پر اس کی مناسبت سے کل چیزیں مراد ہوتی ہیں، جیسا کہ ہد ہد نے ملک سبا کے متعلق کہا تھا :(واوتیت من کلی شی ) (النمل : ٢٣)” اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے۔ “ ظاہر ہے اس سے مراد تمام چیزیں ہیں جن کی حکومت کے لئے ضرورت ہوتی ہے، ورنہ ہر چیز میں سے تو اسے حصہ نہیں دیا گیا تھا۔ اسی طرح یہاں ہر چیز کو برباد کرنے سے مراد ہر اس چیز کو برباد کرنا ہے جسے برباد کرنے کا اسے حکم دیا گیا تھا، جیسا کہ ” بامر ربھا “ (اپنے رب کے حکم کے ساتھ) کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ چناچہ ہود (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو اس آندھی نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا، کیونکہ اسے یہی حکم تھا، جیسا کہ سورة ہود (٥٨) میں ہے۔ (٢) فاصبحوا لایری الا مسکنھم …:” فاصبحوا “ سے مراد یہاں ” انہوں نے صبح کی “ نہیں، بلکہ یہاں ” اصبح “ ” صار “ کے معنی میں ہے، یعنی ” وہ اس طرح ہوگئے “ کیونکہ وہ ہوا صرف ایک رات نہیں چلی کہ صبح ان کی یہ حلات ہوئی ہو، بلکہ سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہی اور ایسی تندو تیز اور غضب ناک ہو کر چلی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ماتذرمن شیء انت علیہ الا جعلتہ کالزمیم) (الذاریات : ٣٢)” جو کسی چیز کو نہ چھوڑتی تھی جس پر سے گزرتی مگر اسے بوسیدہ ہڈی کی طرح کردیتی تھی۔ “ درخت، آدمی، جانور، مکان، غرض ہر چیز ہوا نے اکھاڑ پھینکی۔ آخر مکانوں کے کھنڈروں یا گری ہوئی کھوکھلی کھجوروں کے تنوں جیسے لاشوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا، جو نشان عبرت بنے ہوئے تھے کہ اللہ کے مجرموں کا یہ حال ہوتا ہے۔ مراد کفار مکہ کو سمجھانا ہے کہ کفر پر اصرار کے نتیجے میں تمہارا بھی یہ حال ہوسکتا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تُدَمِّرُ كُلَّ شَيء بِاَمْرِ رَبِّہَا فَاَصْبَحُوْا لَا يُرٰٓى اِلَّا مَسٰكِنُہُمْ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ۝ ٢٥ دمر قال : فَدَمَّرْناهُمْ تَدْمِيراً [ الفرقان/ 36] ، وقال : ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ [ الشعراء/ 172] ، وَدَمَّرْنا ما کانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَما...  کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف/ 137] ، والتدمیر : إدخال الهلاک علی الشیء، ويقال : ما بالدّار تَدْمُرِيٌّ وقوله تعالی: دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ محمد/ 10] ، فإنّ مفعول دمّر محذوف . ( د م ر ) التدمیر ( تفعیل ) کے معنی ہیں کسی چیز پر ہلاکت لاڈالنا ۔ قرآن میں ہے :َ فَدَمَّرْناهُمْ تَدْمِيراً [ الفرقان/ 36] اور ہم نے انہیں ہلاک کرڈالا ۔ ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ [ الشعراء/ 172] پھر ہم نے اوروں کو ہلاک کردیا ۔ وَدَمَّرْنا ما کانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف/ 137] اور فرعون اور قوم فرعون جو ( محل بناتے اور انگور کے باغ ) جو چھتریوں پر چڑھاتے تھے سب کو ہم نے تباہ وبرباد کردیا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ محمد/ 10] خدا نے ان پر تباہی ڈال دی ۔ میں دمر کا مفعول محذوف ہے ۔ محاورہ ہے ۔ بالدار تدمری ۔ یعنی گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ صبح الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ { هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ } ( سورة آل عمران 119) دیکھو ! تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں سكن السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] ، ( س ک ن ) السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ہر ایک چیز کو اپنے پروردگار کے حکم سے ہلاک کردے گا۔ چناچہ وہ ہلاکت کے بعد ایسے ہوگئے کہ سوائے ان کے مکانات کے اور کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا تھا اسی طرح ہم مشرکین کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ { تُدَمِّرُ کُلَّ شَیْئٍم بِاَمْرِ رَبِّہَا } ” تباہ و برباد کرتا ہے ہر شے کو اپنے رب کے حکم سے “ دمر کے مادہ میں کسی درخت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ چونکہ وہ بڑے قد آور لوگ تھے اس لیے ان کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور اسی لیے سورة الحاقہ کی مذکورہ بالا آیت میں ان... ہیں زمین پر پڑے ہوئے کھجور کے تنوں سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ { فَاَصْبَحُوْا لَا یُرٰٓی اِلَّا مَسٰکِنُہُمْ } ” پھر وہ ایسے ہوگئے کہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا سوائے ان کے مسکنوں کے۔ “ ان کے عالی شان گھر اور ان کی بڑی بڑی حویلیاں تو نظر آرہی تھی مگر ان کے مکینوں کی کچھ خبر نہیں تھی۔ { کَذٰلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ } ” اسی طرح ہم بدلہ دیا کرتے ہیں مجرموں کی قوم کو۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29 For the details of the story of 'Ad, see AI-A'raf: 65-72, Hud: 50-60, AI-Mu'minun: 31-41. Ash-Shu'ara: 123-140, AI-'Ankabut: 40, Iii-Mim AsSajdah: 15-16 and the corresponding E.N.'s.

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :29 قوم عاد کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الاعراف ، حواشی ۵۱ تا۵٦ ، ہود ، حواشی ۵٤ تا ٦۵ ، جلد سوم ، المومنون ، حواشی ۳٤ تا ۳۷ ، الشعراء ، حواشی ۸۸ تا ۹٤ ، العنکبوت ، حاشیہ ٦۵ ، جلد چہارم ، حم السجدہ ، حواشی ۲۰ ۔ ۲۱ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(46:25) تدمر۔ مضارع واحد مؤنث غائب ۔ تدمیر (تفعیل) مصدر وہ ہلاک کر دے گی وہ تباہ کر دے گی۔ وہ اکھاڑ کر رکھ دے گی۔ تدمر کل شیء بامر ربھا۔ (یہ دوسری صفت ہے ریح کی) وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر دے گی۔ فاصبحوا۔ ای فجاء تہم الریح فدمرتہم فاصبحوا۔ یعنی پس آندھی آئی اور اس نے ان کو تباہ...  کر کے رکھ دیا اور وہ ایسے ہوگئے۔۔ کہ ف تعقیب کا ہے اصبحوا ماضی جمع مذکر غائب، وہ ہوگئے۔ انہوں نے صبح کی۔ افعال ناقصہ میں سے۔ اصباح (افعال) مصدر سے۔ لا یری۔ مضارع منفی مجہول ۔ واحد مذکر غائب نہیں دکھائی دیتا تھا۔ یہ حکایت حال ماضی ہے۔ فعل مضارع جو کسی گذشتہ بات کو بیان کرنے کے لئے فعل ماضی کی بجائے استعمال کیا جائے۔ الا مسکنہم۔ سوائے ان کے گھرون (کچھ دکھائی نہ دیتا تھا) ۔ کذلک۔ ای مثل ذلک الجزاء الفضیح اس سخت قبیح اور ذلت آمیز سزا کی طرح۔ نجزی۔ مضارع جمع متکلم جزاء (باب ضرب) مصدر واسم۔ ہم بدلہ دیتے ہیں۔ جزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں اچھا ہو یا برا۔ القوم المجرمین۔ موصوف صفت مل کر مفعول ہے نجزی کا، مجرم لوگ، گنہگار لوگ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 صحیحین میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ابر نمودار ہوتا تو آنحضرت کے چہر مبارک پر فکر کے آثار نمودار ہوجاتے ہیں۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا بات ہے لوگ جب بادل دیکھت یہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ بارش آئی اور آپ کے چہرہ مبارک سے تشویش ظاہر ہونے لگتی ہے ؟ فرمایا : عائشہ ! میرے پاس ضمانت نہیں کہ...  اس ابر میں عذاب نہیں ہوگا۔ ایک قوم پر اسی ابر سے عذاب آچکا ہے اور اسی عذاب کو دیکھ کر ایک قوم نے کہا۔ ” ھذا عارض ممطرنا “ اور حدیث میں ہے جب آندھی چلتی تو آپ دعا کرتے :” اے اللہ ! میں ت جھ سے اس ہوا کی جو چیز اس میں ہے اور جس چیز کے ساتھ اسے بھیجا گیا ہے اس کی خیر طلب کرتا ہوں اور اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (شوکانی) 8 یعنی گھر رہ گئے، گھر والے ختم ہوگئے۔9 اس کی تفصیل سورة ہود میں گزر چکی ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِيَتِهِمْ ﴾ (الآیۃ) ان لوگوں پر عذاب آنے کی یہ صورت ہوئی کہ سخت گرمی کی وجہ سے گھروں کو چھوڑ کر باہر میدان میں آگئے اسی حال میں انہیں ایک بادل آتا ہوا نظر آیا اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ بادل تو ہم پر پانی برسائے گا وہ پانی برسانے والا ب... ادل کہاں تھا وہ تو وہی عذاب تھا جس کی جلدی مچا رہے تھے وہ عذاب ہوا کی صورت میں آگیا یہ ہوا بہت سخت تھی جو اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو ہلاک کرتی جا رہی تھی۔ سورة ذاریات میں فرمایا ﴿ مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ اَتَتْ عَلَيْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيْمِؕ٠٠٤٢﴾ (وہ ہوا جس چیز پر پہنچتی تھی اسے ایسا بنا کر رکھ دیتی تھی جیسے چورا ہو) سورة الحاقہ میں فرمایا ﴿وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِيْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍۙ٠٠٦ سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَّ ثَمٰنِيَةَ اَيَّامٍ ١ۙ حُسُوْمًا ١ۙ فَتَرَى الْقَوْمَ فِيْهَا صَرْعٰى١ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍۚ٠٠٧ فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِيَةٍ ٠٠٨﴾ (اور لیکن عاد سو ہلاک کیے گئے تیز ہوا کے ذریعہ، اللہ نے ان پر اس ہوا کو سات دن آٹھ رات لگاتار مسخر فرما دیا، اے مخاطب ! تو دیکھے قوم کو اس ہوا میں پچھاڑے ہوئے پڑے ہیں گویا کہ وہ گری ہوئی کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہیں، کیا تو ان میں دیکھتا ہے کوئی باقی رہا۔ ) ﴿رَبِّهَا فَاَصْبَحُوْا لَا يُرٰۤى اِلَّا مَسٰكِنُهُمْ ١ؕ ﴾ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ اس حال میں ہوئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ بھی نظر نہ آتا تھا۔ ﴿ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ ٠٠٢٥﴾ (ہم اسی طرح مجرم قوم کو سزا دیا کرتے ہیں) حضرت عائشہ (رض) نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب آسمان میں کوئی بادل دیکھتے تھے تو آپ کا رنگ بدل جاتا تھا اور آپ کبھی اندر جاتے اور کبھی باہر آتے، جب بارش ہوجاتی تو آپ کی یہ کیفیت جاتی رہتی تھی میں نے اس بات کو پہچان لیا اور اس بارے میں آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا اے عائشہ ! میں ڈرتا ہوں ایسا نہ ہو جیسا قوم عاد نے بادل دیکھ کر کہا جو ان کی وادیوں کی طرف آ رہا تھا کہ یہ بارش برسانے والا ہے لیکن بارش برسانے والا بادل نہ تھا بلکہ ہوا کی صورت میں عذاب تھا جو ان پر نازل ہوا۔ (رواہ مسلم ص ٢٩٥ ج ١)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(25) یہ آندھی ہرچیز کو اپنے پروردگار کے حکم سے درہم برہم کرڈالے گی اور اکھیڑ پھینکے گی چناچہ وہ ایسے تباہ و برباد ہوئے کہ ان کے گھروں کے سوا وہاں کچھ اور نہ دکھائی دیتا تھا ہم مجرموں اور گناہگاروں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک بادل اٹھتا ہوا نظر آیا جو ان کے میدانوں کی طرف متوجہ تھا...  یہ سمجھے بارش آئی۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا حضرت حق کا ارشاد ہوا یہ بارش نہیں بلکہ وہی عذاب ہے جس کو جلد چاہتے تھے یہ ایک دردناک عذاب سے لبریز ہوا ہے جو ہر چیز کو خدا کے حکم سے اکھیڑ کر پھینک مارے گی۔ چناچہ یہی ہوا کہ سب ہلاک کردیئے گئے نہ کوئی انسان باقی رہا نہ کوئی حیوان سوائے ان کے خالی مکانوں کے اور کوئی چیزان کی بستیوں میں دکھائی نہ دیتی تھی۔ آخر میں فرمایا ہم اسی طرح گناہگاروں کو بدلا دیا کرتے ہیں آگے مکہ والوں کو تنبیہ فرماتے ہیں۔  Show more