Surat ul Ehkaaf

Surah: 46

Verse: 30

سورة الأحقاف

قَالُوۡا یٰقَوۡمَنَاۤ اِنَّا سَمِعۡنَا کِتٰبًا اُنۡزِلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ یَہۡدِیۡۤ اِلَی الۡحَقِّ وَ اِلٰی طَرِیۡقٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۳۰﴾

They said, "O our people, indeed we have heard a [recited] Book revealed after Moses confirming what was before it which guides to the truth and to a straight path.

کہنے لگے اے ہماری قوم! ہم نے یقیناً وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ ( علیہ السلام ) کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو سچے دین کی اور راہ راست کی رہنمائی کرتی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَى ... They said: "O our people! Verily, we have heard a Book sent down after Musa..." They did not mention `Isa, peace be upon him, because the Injil that was revealed to him contained admonitions and exhortations, but very few permissions or prohibitions. Thus, it was in reality like a complement to the legislation of the Tawrah, the Tawrah being the reference. That is why they said, "Sent down after Musa." This is also the way that Waraqah bin Nawfal spoke when the Prophet told him about his first meeting with Jibril, An-Namus, peace be upon him. He said: "Very good, very good! This is (the angel) that used to come to Musa. I wish that I was still a young man (to support you)." ... مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ... confirming what came before it, meaning, the Scriptures that were revealed before it to the previous Prophets. They then said, ... يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ ... it guides to the truth, (means in belief and information). ... وَإِلَى طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ and to the straight path. (which means, in deeds). For verily, the Qur'an contains two things: - information and - commandments. Its information is true, and its commandments are all just, as Allah says, وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَعَدْلاً And the Word of Your Lord has been fulfilled in truth and in justice. (6:115) Allah says, هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ It is He Who has sent His Messenger with the guidance and the religion of truth. (9:122) The guidance is the beneficent knowledge, and the religion of truth means the righteous good deeds. Thus, the Jinns said, يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ (it guides to the truth) in matters of belief, وَإِلَى طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ (and to the straight path.) meaning, in regard to actions.

ایمان دار جنوں کی آخری منزل اب بیان ہو رہا ہے جنات کے اس وعظ کا جو انہوں نے اپنی قوم میں کیا ۔ فرمایا کہ ہم نے اس کتاب کو سنا ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے حضرت عیسیٰ کی کتاب انجیل کا ذکر اس لئے چھوڑ دیا کہ وہ دراصل توراۃ پوری کرنے والی تھی ۔ اس میں زیادہ تر وعظ کے اور دل کو نرم کرنے کے بیانات تھے حرام حلال کے مسائل بہت کم تھے پس اصل چیز توراۃ ہی رہی اسی لئے ان مسلم جنات نے اسی کا ذکر کیا اور اسی بات کو پیش نظر رکھ کر حضرت ورقہ بن نوفل نے جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حضرت جبرائیل کے اول دفعہ آنے کا حال سنا تو کہا تھا کہ واہ واہ یہی تو وہ مبارک وجود اللہ کے بھیدی کا ہے جو حضرت موسیٰ کے پاس آیا کرتے تھے کاش کہ میں اور کچھ زمانہ زندہ رہتا ، الخ ، پھر قرآن کی اور صف بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے تمام آسمانی کتابوں کو سچا بتلاتا ہے وہ اعتقادی مسائل اور اخباری مسائل میں حق کی جانب رہبری کرتا ہے اور اعمال میں راہ راست دکھاتا ہے ۔ قرآن میں دو چیزیں ہیں یا خبر یا طلب پس اس کی خبر سچی اور اس کی طلب عدل والی ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ١١٥؁ ) 6- الانعام:115 ) یعنی تیرے رب کا کلمہ سچائی اور عدل کے لحاظ سے بالکل پورا ہی ہے اور آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے آیت ( ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق ) وہ اللہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور حق دین کے ساتھ بھیجا ہے پس ہدایت نفع دینے والا علم ہے اور دین حق نیک عمل ہے یہی مقصد جنات کا تھا ۔ پھر کہتے ہیں اے ہماری قوم اللہ کے داعی کی دعوت پر لبیک کہو ۔ اس میں دلالت ہے اس امر کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن و انس کی دونوں جماعتوں کی طرف اللہ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اس لئے کہ آپ نے جنات کو اللہ کی طرف دعوت دی اور ان کے سامنے قرآن کریم کی وہ سورت پڑھی جس میں ان دونوں جماعتوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور ان کے نام احکام جاری فرمائے ہیں اور وعدہ وعید بیان کیا ہے یعنی سورہ الرحمن ۔ پھر فرماتے ہیں ایسا کرنے سے وہ تمہارے بعض گناہ بخش دے گا ۔ لیکن یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے جب لفظ من کو زائدہ نہ مانیں ، چنانچہ ایک قول مفسرین کا یہ بھی ہے اور قاعدے کے مطابق اثبات کے موقعہ پر لفظ من بہت ہی کم زائد آتا ہے اور اگر زائد مان لیا جائے تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرمائے گا اور تمہیں اپنے المناک عذاب سے وہ چھٹکارا پا لیں گے یہی ان کی نیک اعمالیوں کا بدلہ ہے اور اگر اس سے زیادہ مرتبہ بھی انہیں ملنے والا ہوتا تو اس مقام پر یہ مومن جن اسے ضرور بیان کر دیتے ۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ مومن جن جنت میں نہیں جائیں گے اس لئے کہ وہ ابلیس کی اولاد سے ہیں اور اولاد ابلیس جنت میں نہیں جائے گی ۔ لیکن حق یہ ہے کہ مومن جن مثل ایماندار انسانوں کے ہیں اور وہ جنت میں جگہ پائیں گے جیسا کہ سلف کی ایک جماعت کا مذہب ہے بعض لوگوں نے اس پر اس آیت سے استدلال کیا ہے ۔ آیت ( لَمْ يَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَاۗنٌّ 56۝ۚ ) 55- الرحمن:56 ) یعنی حوران بہشتی کو اہل جنت سے پہلے نہ کسی انسان کا ہاتھ لگا نہ کسی جن کا ۔ لیکن اس استدلال میں نظر ہے اس سے بہت بہتر استدلال تو اللہ عزوجل کے اس فرمان سے ہے آیت ( وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ 46۝ۚ ) 55- الرحمن:46 ) یعنی جو کوئی اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لئے دو دو جنتیں ہیں پھر اے جنو اور انسانو تم اپنے پروردگار کی کونسی نعمت کو جھٹلاتے ہو؟ اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسانوں اور جنوں پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ ان کے نیک کار کا بدلہ جنت ہے اور اس آیت کو سن کر مسلمان انسانوں سے بہت زیادہ شکر گذار ہیں ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ ان کے سامنے ان پر وہ احسان جتایا جائے جو اصل انہیں ملنے کا نہیں اور بھی ہماری ایک دلیل سنئے جب کافر جنات کو جہنم میں ڈالا جائے گا جو مقام عدل ہے تو مومن جنات کو جنت میں کیوں نہ لے جایا جائے جو مقام فضل ہے بلکہ یہ بہت زیادہ لائق اور بطور اولیٰ ہونے کے قابل ہے اور اس پر وہ آیتیں بھی دلیل ہیں جن میں عام طور پر ایمانداروں کو جنت کو خوشخبری دی گئی ہے مثلا آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ١٠٧؁ۙ ) 18- الكهف:107 ) وغیرہ وغیرہ یعنی ایمان داروں کا مہمان خانہ یقینًا جنت فردوس ہے ۔ الحمد اللہ میں نے اس مسئلہ کو بہت کچھ وضاحت کے ساتھ اپنی ایک مستقل تصنیف میں بیان کر دیا ہے اور سنئے جنت کا تو یہ حال ہے کہ ایمانداروں کے کل کے داخل ہو جانے کے بعد بھی اس میں بیحد و حساب جگہ بچ رہے گی ۔ اور پھر ایک نئی مخلوق پیدا کر کے انہیں اس میں آباد کیا جائے گا ۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایماندار اور نیک عمل والے جنات جنت میں نہ بھیجے جائیں اور سنئے یہاں دو باتیں بیان کی گئی ہیں گناہوں کی بخشش اور عذابوں سے رہائی اور جب یہ دونوں چیزیں ہیں تو یقینا یہ مستلزم ہیں دخول جنت کو ۔ اس لئے کہ آخرت میں یا جنت ہے یا جہنم پس جو شخص جہنم سے بچا لیا گیا وہ قطعًا جنت میں جانا چاہیے اور کوئی نص صریح یا ظاہر اس بات کے بیان میں وارد نہیں ہوئی کہ مومن جن باوجود دوزخ سے بچ جانے کے جنت میں نہیں جائیں گے اگر کوئی اس قسم کی صاف دلیل ہو تو بیشک ہم اس کے ماننے کے لئے تیار ہیں واللہ اعلم ۔ نوح علیہ السلام کو دیکھئے اپنی قوم سے فرماتے ہیں اللہ تمہارے گناہوں کو ( بوجہ ایمان لانے کے ) بخش دے گا اور ایک وقت مقرر تک تمہیں مہلت دے گا ۔ تو یہاں بھی دخول جنت کا ذکر نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت نوح کی قوم کے مسلمان جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ بالاتفاق وہ سب جنتی ہیں پس اسی طرح یہاں بھی سمجھ لیجئے اب چند اور اقوال بھی اس مسئلہ میں سن لیجئے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے مروی ہے کہ بیچ جنت میں تو یہ پہنچیں گے نہیں البتہ کناروں پر ادھر ادھر رہیں گے بعض لوگ کہتے ہیں جنت میں تو وہ ہوں گے لیکن دنیا کے بالکل برعکس انسان انہیں دیکھیں گے اور یہ انسانوں کو دیکھ نہیں سکیں گے بعض لوگوں کا قول ہے کہ وہ جنت میں کھائیں پئیں گے نہیں صرف تسبیح و تحمید و تقدیس کا طعام ہو گا جیسے فرشتے اس لئے کہ یہ بھی انہی کی جنس سے ہیں ۔ لیکن ان تمام اقوال میں نظر ہے اور سب بےدلیل ہیں پھر مومن واعظ فرماتے ہیں کہ جو اللہ کے داعی کی دعوت کو قبول نہ کرے گا وہ زمین میں اللہ تعالیٰ کو ہرا نہیں سکتا بلکہ قدرت اللہ اس پر شامل اور اسے گھیرے ہوئے ہے اس کے عذابوں سے انہیں کوئی بچا نہیں سکتا یہ کھلے بہکاوے میں ہیں خیال فرمائیے کہ تبلیغ کا یہ طریقہ کتنا پیارا اور کس قدر موثر ہے ، رغبت بھی دلائی اور دھمکایا بھی اسی لئے ان میں سے اکثر ٹھیک ہوگئے اور قافلے کے قافلے اور فوجیں بن کر کئی کئی بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوئے اور اسلام قبول کیا جیسے کہ پہلے مفصلًا ہم نے بیان کر دیا ہے جس پر ہم جناب باری کے احسان کے شکر گذار ہیں ، واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٤] یہ جن پہلے تورات پر ایمان لا چکے تھے :۔ جنوں نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل شدہ کتاب تورات کا نام لیا انجیل کا نام نہیں لیا۔ اس لیے سابقہ آسمانی کتابوں میں سے کوئی کتاب احکام و شرائع کے لحاظ سے تورات جیسی جامع اور اس کے ہم پلہ نہیں تھی۔ اسی پر علمائے بنی اسرائیل کا عمل رہا۔ خود سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی یہی فرمایا تھا کہ میں تورات کو بدلنے نہیں آیا بلکہ اس کی تکمیل کرنے آیا ہوں۔ اور سیدنا سلیمان کے وقت سے جنوں میں تورات ہی مشہور چلی آتی تھی۔ نیز خود تورات میں رسول اللہ کی آمد سے متعلق جو پیشین گوئی مذکور ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ (اے موسیٰ ) میں تیری مانند ایک نبی بھیجوں گا && اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ جن پہلے تورات اور کتب سماویہ پر ایمان لائے ہوئے تھے۔ جب قرآن سنا تو انہیں فوراً معلوم ہوگیا کہ یہ وہی تعلیم ہے جو سابقہ انبیاء دیتے چلے آ رہے ہیں۔ لہذا وہ فوراً ایمان لے آئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) قالوا یقومنآ انا سمعنا کتباً انزل من بعد موسیٰ : جنوں نے نازل کردہ کتابوں میں سے آخری کتاب الخیل کا نام لینے کے بجائے تو رات کا نام لیا۔ بعض مفسرین کے مطابق اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ یہود کے دین پر تھے۔ یا انہیں انجیل کے نزول کا علم نہیں تھا، مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ قرآن سے پہلے آخری کتاب جو شریعت کے احکام پر مشتمل تھی وہ تورات تھی۔ داؤد (علیہ السلام) کی زبور اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی انجیل اس کی تکمیل یا تفسیر و تبیین کرنے والی کتابیں تھیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آنے والے تمام انبیاء حتیٰ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بھی تورات ہی پر عمل کے پابند تھے۔ (دیکھیے مائدہ : ٤٤) اسی سورة احقاف میں بھی قرآن سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب کا ذکر ہے، فرمایا :(ومن قبلہ کتب موسیٰ اماماً و رحمۃ) (الاحقاف : ١٢)” اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب پیشوا اور رحمت تھی۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غار حرا میں پہلی وحی کے نزول پر جب ام المومنین خدیجہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں تو انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سارا معاملہ سن کر کہا تھا :(ھذا الناموس الذی انزل علی موسی) (بخاری، العبیر ، باب اول مایدی بہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) …:6982)” یہ وہی صاحب راز فرشتہ ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کیا گیا۔ “ حالانکہ ورقہ بن نوفل اس سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) کا دین قبول کرچکے تھے اور انجیل کے عالم تھے۔ (٢) مصدقا لما بین یدیہ : یعنی یہ کتاب اسے پہلی تمام آسمانی کتابوں کو سچا ثابت کرنے والی ہے کہ اس کتاب کے ذریعے سے وہ تمام باتیں اور پیش گوئیاں سچ ثابت ہوئیں جو ان کتابوں میں کی گئی ہیں، جن میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی پیش گوئی بھی شامل ہے۔ (٣) یھدی الی الحق و الی طریق مستقیم : ابن کثیر (رح) نے فرمایا :” یعنی عقائد و اخبار میں حق اور اعمال میں سیھے راستے کی طرف راہنمائی کرتیہے، کیونکہ قرآن خبر اور طلب دو چیزوں پر مشتمل ہے۔ اس کی خبر صدیق اور طلب عدل ہے، جیسا کہ فرمایا :(وتمت کلمت ربک صدقاً وعدلاً ) (الانعام : ١١٥)” اور تیرے رب کی کتاب صدق اور عدل کے اعتبار سے پوری ہوگئی۔ ‘ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق) (التوبۃ : ٣٣) ” وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا۔ “ چناچہ ہدایت علم نافع ہے اور دین حق عمل صالح ہے اور جنوں نے بھی یہی بات کہی کہ ” یھدی الی الحق “ (اعتقادات میں حق کی راہنمائی کرتی ہے)” والی طریق مستقیم “ (اور عملیات میں سیدھے راستے کی۔ ) “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ (a book sent down after Musa). Here the words &after Musa (علیہ السلام) have been taken by some exegetes to indicate that these jinns were Jews, because Injil that was revealed to Sayyidna &Isa (علیہ السلام) after Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، has not been mentioned. But there is no clear narration to support this inference. That they did not refer to Injil cannot be a sufficient proof for the jinns being Jews. Another reason for not mentioning Injil may be that Injil follows Torah in most commandments, and the Qur&an, like Torah, is an independent Book, having different commands, rules and regulations. It is likely that the underlying idea was to state that the Qur&an is the Book which is independent like Torah.

(آیت) كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى اس میں بعد موسیٰ کی قید سے بعض حضرات نے سمجھا ہے کہ یہ جنات یہودی تھے کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تو عیسیٰ (علیہ السلام) پر انجیل نازل ہوئی اس کا ذکر نہیں کیا لیکن اس کی کوئی صریح روایت تو ہے نہیں اور انجیل کا ذکر نہ کرنے سے ان کے یہودی ہونے پر استدلال ناکافی ہے کیونکہ انجیل کے ذکر نہ کرنے کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ انجیل اکثر احکام میں تورات کے تابع ہے اور قرآن مثل تورات کے مستقل کتاب ہے اس کے احکام و شرائع تورات سے بہت مختلف ہیں تو یہ ہوسکتا ہے کہ مقصود یہ بتلانا ہو کہ تورات جیسی کتاب مستقل قرآن ہی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا يٰقَوْمَنَآ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ يَہْدِيْٓ اِلَى الْحَـقِّ وَاِلٰى طَرِيْقٍ مُّسْـتَقِيْمٍ۝ ٣٠ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . صدق وکذب الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ الکذب یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ «بَيْن»يدي و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام/ 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ، وقوله : فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقَةً [ المجادلة/ 12] ، فَاحْكُمْ بَيْنَنا بِالْحَقِّ [ ص/ 22] ، وقوله تعالی: فَلَمَّا بَلَغا مَجْمَعَ بَيْنِهِما [ الكهف/ 61] ، فيجوز أن يكون مصدرا، أي : موضع المفترق . وَإِنْ كانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثاقٌ [ النساء/ 92] . ولا يستعمل «بين» إلا فيما کان له مسافة، نحو : بين البلدین، أو له عدد ما اثنان فصاعدا نحو : الرجلین، وبین القوم، ولا يضاف إلى ما يقتضي معنی الوحدة إلا إذا کرّر، نحو : وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت/ 5] ، فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه/ 58] ، ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي : قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] ، أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : من جملتنا، وقوله : وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ/ 31] ، أي : متقدّما له من الإنجیل ونحوه، وقوله : فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال/ 1] ، أي : راعوا الأحوال التي تجمعکم من القرابة والوصلة والمودة . ويزاد في بين «ما» أو الألف، فيجعل بمنزلة «حين» ، نحو : بَيْنَمَا زيد يفعل کذا، وبَيْنَا يفعل کذا، بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت/ 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه/ 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : / یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] پھر ان کے آگے ۔۔۔۔۔ ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی نصیحت ۃ ( کی کتاب ) اتری ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ/ 31] اور جو کافر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے اور نہ ان کتابوں ) کو جو اس سے پہلے کی ہیں ۔ میں سے انجیل اور دیگر کتب سماویہ مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال/ 1] خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ صلہ رحمی ، قرابت ، دوستی وغیرہ باہمی رشتوں کا لحاظ کرد جو باہم تم سب کے درمیان مشترک ہیں اور بین کے م، ابعد یا الف کا اضافہ کرکے حین کے معنی میں استعمال کرلینے ہیں هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ طرق الطَّرِيقُ : السّبيل الذي يُطْرَقُ بالأَرْجُلِ ، أي يضرب . قال تعالی: طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] ، وعنه استعیر کلّ مسلک يسلكه الإنسان في فِعْلٍ ، محمودا کان أو مذموما . قال : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه/ 63] ، وقیل : طَرِيقَةٌ من النّخل، تشبيها بالطَّرِيقِ في الامتداد، والطَّرْقُ في الأصل : کا لضَّرْبِ ، إلا أنّه أخصّ ، لأنّه ضَرْبُ تَوَقُّعٍ كَطَرْقِ الحدیدِ بالمِطْرَقَةِ ، ويُتَوَسَّعُ فيه تَوَسُّعَهُم في الضّرب، وعنه استعیر : طَرْقُ الحَصَى للتَّكَهُّنِ ، وطَرْقُ الدّوابِّ الماءَ بالأرجل حتی تكدّره، حتی سمّي الماء الدّنق طَرْقاً «2» ، وطَارَقْتُ النّعلَ ، وطَرَقْتُهَا، وتشبيها بِطَرْقِ النّعلِ في الهيئة، قيل : طَارَقَ بين الدِّرْعَيْنِ ، وطَرْقُ الخوافي «3» : أن يركب بعضها بعضا، والطَّارِقُ : السالک للطَّرِيقِ ، لکن خصّ في التّعارف بالآتي ليلا، فقیل : طَرَقَ أهلَهُ طُرُوقاً ، وعبّر عن النّجم بالطَّارِقِ لاختصاص ظهوره باللّيل . قال تعالی: وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق/ 1] ، قال الشاعر : 299 ۔ نحن بنات طَارِقٍ«4» وعن الحوادث التي تأتي ليلا بالطَّوَارِقِ ، وطُرِقَ فلانٌ: قُصِدَ ليلًا . قال الشاعر :۔ كأنّي أنا المَطْرُوقُ دونک بالّذي ... طُرِقْتَ به دوني وعیني تهمل «5» وباعتبار الضّرب قيل : طَرَقَ الفحلُ النّاقةَ ، وأَطْرَقْتُهَا، واسْتَطْرَقْتُ فلاناً فحلًا، کقولک : ضربها الفحل، وأضربتها، واستضربته فحلا . ويقال للنّاقة : طَرُوقَةٌ ، وكنّي بالطَّرُوقَةِ عن المرأة . وأَطْرَقَ فلانٌ: أغضی، كأنه صار عينه طَارِقاً للأرض، أي : ضاربا له کا لضّرب بالمِطْرَقَةِ ، وباعتبارِ الطَّرِيقِ ، قيل : جاءت الإبلُ مَطَارِيقَ ، أي : جاءت علی طَرِيقٍ واحدٍ ، وتَطَرَّقَ إلى كذا نحو توسّل، وطَرَّقْتُ له : جعلت له طَرِيقاً ، وجمعُ الطَّرِيقِ طُرُقٌ ، وجمعُ طَرِيقَةٍ طرَائِقُ. قال تعالی: كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن/ 11] ، إشارة إلى اختلافهم في درجاتهم، کقوله : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران/ 163] ، وأطباق السّماء يقال لها : طَرَائِقُ. قال اللہ تعالی: وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون/ 17] ، ورجلٌ مَطْرُوقٌ: فيه لين واسترخاء، من قولهم : هو مَطْرُوقٌ ، أي : أصابته حادثةٌ لَيَّنَتْهُ ، أو لأنّه مضروب، کقولک : مقروع، أو مدوخ، أو لقولهم : ناقة مَطْرُوقَةٌ تشبيها بها في الذِّلَّةِ. ( ط رق ) الطریق کے معنی راستہ ہیں جس پر چلا جاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] پھر ان کے لئے دریا میں راستہ بناؤ ۔ اسی سے بطور استعارہ ہر اس مسلک اور مذہب کو طریق کہاجاتا ہے جو انسان کوئی کام کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے اس سے کہ وہ قتل محمود ہو یا مذموم ۔ قرآن میں ہے : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه/ 63] اور تمہارے بہتر مذہب کو نابود کردیں ۔ اور امتداد میں راستہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کھجور کے لمبے درخت کو بھی طریقۃ کہہ دیتے ہیں ۔ الطرق کے اصل معنی مارنے کے ہیں مگر یہ ضرب سے زیادہ خاص ہے ۔ کیونکہ طرق کا لفظ چٹاخ سے مارنے پر بولا جاتا ہے جیسے ہتھوڑے سے لوہے کو کوٹنا بعد ازاں ضرب کی طرح طرق کے لفظ میں بھی وسعت پیدا ہوگئی چناچہ بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ طرق الحصی ٰ کا ہن کا اپنی کہانت کے لئے کنکر مارنا طرق الدواب چوپائے جانورون کا پانی میں داخل ہوکر اسے پاؤں سے گدلا کردینا ۔ طارقت النعل وطرق تھا میں نے جوتے ایک پر تلہ پر دوسرا رکھ کر اسے سی دیا ۔ پھر طرق النعل کی مناسبت سے طارق بین الدرعین کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ایک زرہ کے اوپر دوسری زرہ پہننا کے ہیں ۔ طرق الخوارج پرند کے اندورنی پروں کا تہ برتہ ہونا اور الطارق کے معنی ہیں راستہ پر چلنے والا ۔ مگر عرف میں بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو رات میں آئے چناچہ طرق اھلہ طروقا کے معنی ہیں وہ رات کو آیا اور النجم ستارے کو بھی الطارق کہاجاتا ہے کیونکہ وہ بالخصوص رات کو ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق/ 1] آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم ۔ شاعر نے کہاے ُ ۔ ( الرجز) (291) نحن بنات طارق ہم طارق یعنی سردار کی بیٹیاں ہیں ۔ طوارق اللیل وہ مصائب جو رات کو نازل ہوں ۔ طرق فلان رات میں صدمہ پہنچا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الطویل ) (292) کانی انا المطروق دونک بالذی طرقت بہ دونی وعینی تھمل میں اس طرح بےچین ہوتا ہوں کہ وہ مصیبت جو رات کو تجھ پر آتی ہے مجھے پہنچ رہی ہے ۔ اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ اور معنی ضرف یعنی مجفتی کرنے کے اعتبار سے کہاجاتا ہے ۔ صرق الفحل الناقۃ ( اونٹ کا ناقہ سے جفتی کرنا ) اطرق تھا میں نے سانڈہ کو اونٹنی پر چھوڑا۔ استطرقت فلانا الفحل : میں نے فلاں سے جفتی کے لئے سانڈھ طلب کیا اور یہ محاورات ضربھا الفحل واضرب تھا واستضربتہ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور اس ناقہ کو جو گابھن ہونے کے قابل ہوجائے اسے طروقۃ کہاجاتا ہے اور بطور کنایہ طروقۃ بمعنی عورت بھی آجاتا ہے ۔ اطرق فلان فلاں نے نگاہیں نیچی کرلیں ۔ گویا اس کی نگاہ زمین کو مارنے لگی جیسا کہ مطرقۃ ( ہتھوڑے ) سے کو ٹا جاتا ہے اور طریق بمعنی راستہ کی مناسبت سے جاءت الابل مطاریق کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اونٹ ایک ہی راستہ سے آئے اور تطرقالیٰ کذا کے معنی ہیں : کسی چیز کی طرف رستہ بنانا طرقت لہ کسی کے لئے راستہ ہموار کرنا ۔ الطریق کی جمع طرق آتی ہے اور طریقۃ کی جمع طرائق ۔ چناچہ آیت کریمہ : كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن/ 11] کے معنی یہ ہیں کہ ہم مختلف مسلک رکھتے تھے اور یہ آیت کریمہ : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران/ 163] ان لوگوں کے خدا کے ہاں ( مختلف اور متقارب ) درجے ہیں ۔ کی مثل ہے یعنی جیسا کہ یہاں دربات سے مراد اصحاب الدرجات ہیں اسی طرح طرئق سے اصحاب طرائق مراد ہیں ) اور آسمان کے طبقات کو بھی طرائق کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون/ 17] ہم نے تمہارے اوپر کی جانب سات طبقے پیدا کئے ) رجل مطروق نرم اور سست آدمی پر ھو مطروق کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مصیبت زدہ کے ہیں یعنی مصائب نے اسے کمزور کردیا جیسا کہ مصیبت زدہ آدمی کو مقروع یا مدوخکہاجاتا ہے یا یہ ناقۃ مطروقۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ ذلت میں اونٹنی کیساتھ تشبیہ دیکر بولا جاتا ہے ۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سدفھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور کہنے لگے کہ ہم قرآن کریم سن کر آئے ہیں، جو موسیٰ کے بعد رسول اکرم پر نازل کیا گیا ہے کہ وہ توحید اور رسول اکرم کی نعت و صفت میں توریت کی تصدیق کرنے والا ہے، اور جنات موسیٰ پر بھی ایمان رکھتے تھے کہ وہ حق اور دین اسلام کی طرف رہنمائی کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ { قَالُوْا یٰــقَوْمَنَــآ اِنَّا سَمِعْنَا کِتٰـبًا اُنْزِلَ مِنْم بَعْدِ مُوْسٰی } ” انہوں نے کہا : اے ہماری قوم کے لوگو ! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کے بعد نازل ہوئی ہے “ گویا وہ ِجنات ّحضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے امتی تھے۔ یہاں پر جنات کے اس قول کے حوالے سے یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ تورات کے بعد جو ” کتاب “ نازل ہوئی وہ قرآن ہے۔ اگرچہ ہم عرف عام میں انجیل کو بھی کتاب کہہ دیتے ہیں لیکن وہ اصطلاحی مفہوم میں باقاعدہ ” کتاب “ نہیں تھی۔ اس لیے کہ اس میں شریعت نہیں تھی۔ دراصل لفظ ” کتاب “ میں لغوی اعتبار سے شریعت (قوانین ‘ احکام ‘ فرائض وغیرہ) کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں احکام کی فرضیت کا ذکر اکثر ” کتب “ کے مشتقات کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ سورة النساء کی آیت ١٠٣ میں نماز کے اوقات کے حوالے سے ” کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًا “ کے الفاظ آئے ہیں ‘ پھر سورة البقرۃ کی آیت ٢٣٥ میں ” کتاب “ کا لفظ ” عدت “ کے مترادف کے طور پر آیا ہے : { حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتٰبُ اَجَلَہٗ }۔ اور ” کُتِبَ عَلَیْکُمْ “ کے الفاظ تو قرآن میں بہت تکرار سے آئے ہیں۔ ظاہر ہے مذکورہ جنات اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے امتی تھے تو وہ لازماً انجیل کو بھی جانتے ہوں گے۔ لیکن انہوں نے اس کا ذکر کرنے کے بجائے صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا حوالہ دیا کہ آپ ( علیہ السلام) کے بعد اب ایک کتاب نازل ہوئی ہے جس کی تلاوت ہم سن کرا ٓئے ہیں۔ اس سے یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ اپنے اصل مفہوم کے اعتبار سے لفظ ” کتاب “ کا اطلاق تورات پر ہوتا ہے یا پھر قرآن پر ‘ اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شریعت ِموسوی ( علیہ السلام) کے بعد جو شریعت آئی ہے وہ شریعت ِمحمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ { مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَہْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ وَاِلٰی طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ } ” تصدیق کرتی ہوئی اس کی جو اس کے سامنے موجود ہے (یعنی تورات) ‘ راہنمائی کرتی ہے حق کی طرف اور ایک سیدھے راستے کی طرف۔ “ ” طریق مستقیم “ کا بھی وہی مفہوم ہے جو ” صراطِ مستقیم “ کا ہے۔ طریق اور صراط دونوں کے لغوی معنی راستے کے ہیں۔ اسی طرح لفظ سبیل بھی راستے کے معنی دیتا ہے اور ” سواء السبیل “ کے معنی بھی سیدھے راستے کے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34 This shows that these jinns had already had faith in the Prophet Moses and in the Divine Books. After hearing the Qur'an they felt that it gave the same teachings as the former Prophets had been preaching. Therefore, they believed in this Book forthwith and also in the Holy prophet who had brought it.

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :34 اس سے معلوم ہوا کہ یہی جن پہلے سے حضرت موسیٰ اور کتب آسمانی پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ قرآن سننے کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ یہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء دیتے چلے آ رہے ہیں ۔ اس لیے وہ اس کتاب اور اس کے لانے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لے آئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا یقومنا انا ۔۔۔۔۔ طریق مستقیم (٤٦ : ٣٠) “ اور انہوں نے جا کر کہا ، اے ہمارے قوم کے لوگو ، ہم نے ایک کتاب سنی ہے ، جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے۔ تصدیق کرنے والے ہے اپنے سے پہلے آئی ہوئی کتابوں کی ، رہنمائی کرتی ہے حق اور راہ راست کی طرف ”۔ وہ بڑی جلدی سے اپنی قوم کی طرف لوٹے ، اور جاتے ہی انہوں نے ان کے سامنے تقریر شروع کردی کہ برادران قوم ہم نے ایک نئی کتاب سنی ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اور اپنے اصولوں میں یہ موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب کی تصدیق کرتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کتب سماوی سے واقف تھے ، کیونکہ قرآن آیات اور بنیادی تعلیمات سنتے ہی ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ دونوں کی تعلیمات ایک ہیں انہوں نے قرآن کا جو حصہ سنا تھا ضروری نہیں ہے کہ اس میں کتاب موسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات ہوں۔ البتہ انہوں نے یہ معلوم کرلیا تھا کہ دونوں کتابوں کا مزاج اور سرچشمہ ایک ہے۔ یہ جنوں کی شہادت جو انسانی تعصبات اور موثرات سے دور ہیں اور قرآن کا کچھ حصہ سننے پر انہوں نے یہ تبصرہ کردیا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک برحق کتاب ہے ۔ اور کتب سابقہ کی مصدق ہے۔ یہ ایک اہم شہادت ہے۔ قرآن سننے کے بعد ان کے شعور میں جو بات بیٹھ گئی اور ان کے دل و دماغ نے جس حقیقت کو پا لیا وہ یہ تھی کہ یھدی الی الحق والی طریق مستقیم (٤٦ : ٣٠) “ یہ حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے ”۔ یہ نہایت ہی اہم بات ہے جو انہوں نے کہی کیونکہ قرآن سے پہلا تاثر یہی ملتا ہے کہ یہ کتاب برحق ہے اور دوسرا یہی ملتا ہے کہ یہ سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ جو شخص بھی بصیرت رکھتا ہو وہ قرآن کو پڑھ کر یہ دونوں باتیں محسوس کرتا ہے۔ اگر اس کی روح بغض وعناد ، کبر اور خواہشات نفسانیہ کی رسیوں میں جکڑی ہوئی نہ ہو۔ چناچہ قرآن کریم کا ایک حصہ سنتے ہی ان لوگوں نے اس راز کو پالیا اور اپنی قوم کے سامنے پہلی تقریر میں یہی حقیقت بیان کردی جو ان کے احساسات کی سچی تعبیر تھی۔ اس کے بعد انہوں نے جو باتیں اپنی قوم سے کہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس دعوت پر مطمئن ہوگئے ہیں اور اب ان پر فرض ہے کہ وہ ایک ایک فرد تک اس دعوت کو پہنچا دیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ ” قالوا یقومنا “ جنات نے اپنی قوم کو ہر قسم کے دلائل سے سمجھانے کی کوشش کی ” انا سمعنا کتابا “ یہ دلیل نقلی کی طرف اشارہ ہے اور ” انزل من بعد موسیٰ “ یہ دلیل وحی کی طرف اشارہ ہے اور ” یہدی الی الحق الخ “ یہ دلیل عقلی کی طرف اشارہ ہے یہ جن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں سے تھے اس لیے انہوں نے ان کا نام لیا۔ (روح) اے ہماری قوم ! ہم ایک ایسی عظیم کتاب سن کر آئے ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئی ہے اور پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور عقائد حقہ اور سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ ” یقومنا اجیبوا۔ الایۃ “ اے ہماری قوم ! اللہ کے اس داعی قرآن کو مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ اللہ تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور تمہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے گا۔ ” ومن لا یجب داعی اللہ۔ الایۃ “ جو شخص اللہ کے داعی کو قبول نہیں کرے گا وہ کھلا گمراہ ہے اور عذاب جہنم کا مستحق ہے، وہ نہ تو کہیں بھاگ کر اللہ کے عذاب سے بچ سکتا ہے اور نہ کوئی اس کا حامی و ناصر اور اس کا کوئی خود ساختہ معبود و کارساز ہی اس کو اللہ کی گرفت سے چھڑا سکتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) ان جنوں نے اپنی قوم میں جاکر کہا اے برادران قوم ہم نے بلا شبہ ایک ایسی کتاب سنی ہے اور ہم ایک ایسی کتاب سن کر آئے ہیں جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے وہ کتاب اپنے سے پہلے کی تمام کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور وہ کتاب دین حق کی اور سیدھے راستے کی رہنمائی کرتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے وقت سے توریت ان میں مشہور تھی۔ یعنی جب شان کی توریت تھی اور جس طرح وہ بہت سے احکام اور شرائع کو شامل تھی اس کے بعد سے ایسی کوئی کتاب آج تک سننے میں نہیں آئی، توریت کے بعد ہم نے یہی کتاب سنی ہے جو دین حق کی دعوت دیتی اور اس کی طرف یعنی اسلام کی جانب رہنمائی کرتی ہے۔ بعض مفسرین اس کے قائل ہیں کہ یہ جن یہودی تھے لیکن اس پر کوئی صحیح نقل ہم کو نہیں مل سکی۔