Surat ul Ehkaaf

Surah: 46

Verse: 33

سورة الأحقاف

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ لَمۡ یَعۡیَ بِخَلۡقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یُّحۡیِۦَ الۡمَوۡتٰی ؕ بَلٰۤی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۳۳﴾

Do they not see that Allah , who created the heavens and earth and did not fail in their creation, is able to give life to the dead? Yes. Indeed, He is over all things competent.

کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے وہ نہ تھکا مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے ؟ کیوں نہ ہو ؟ وہ یقیناً ہرچیز پر قادر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Evidence for Life after Death Allah says, أَوَلَمْ يَرَوْا ... Do they not see Allah says, those who deny resurrection on Judgement Day, and doubt that the bodies will be raised on that Last Day -- Do they not see, ... أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ ... that Allah, Who created the heavens and the earth, and was not...  wearied by their creation, meaning, the creation of the heavens and earth did not exhaust Him.' Rather, He commanded them: "Be," and they were, without any refusal or delay. They obeyed and responded to Him with submission and fear. This is similar to what Allah said elsewhere, لَخَلْقُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ أَكْـبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَـكِنَّ أَكْـثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ Verily, the creation of the heavens and earth is greater than the creation of the people. But most people do not know. (40:57) ... بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى ... is Able to give life to the dead? i.e. Is He not then able to revive the dead? Allah responds to the above question by saying, ... بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ Yes, He surely is Able to do all things. Then Allah says, as a threat and a warning to whoever disbelieves in Him,   Show more

اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ان لوگوں نے جو مرنے کے بعد جینے کے منکر ہیں اور قیامت کے دن جسموں سمیت جی اٹھنے کو محال جانتے ہیں یہ نہیں دیکھا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کل آسمانوں اور تمام زمینوں کو پیدا کیا اور ان کی پیدائش نے اسے کچھ نہ تھکایا بلکہ صرف ہو جا کے کہنے سے ہی ہو گئیں کون تھا جو ... اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتا یا مخالفت کرتا بلکہ حکم برداری سے راضی خوشی ڈرے دبتے سب موجود ہو گئے ، کیا اتنی کامل قدرت و قوت والا مردوں کے زندہ کر دینے کی سکت نہیں رکھتا ؟ چنانچہ دوسری آیت میں ہے آیت ( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57؀ ) 40-غافر:57 ) یعنی انسانوں کی پیدائش سے تو بہت بھاری اور مشکل اور بہت بڑی اہم پیدائش آسمان و زمین کی ہے لیکن اکثر لوگ بےسمجھ ہیں ۔ جب زمین و آسمان کو اس نے پیدا کر دیا تو انسان کا پیدا کر دینا خواہ ابتدًا ہو خواہ دوبارہ ہو اس پر کیا مشکل ہے ؟ اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ ہاں وہ ہر شے پر قادر ہے اور انہی میں سے موت کے بعد زندہ کرتا ہے کہ اس پر بھی وہ صحیح طور پر قادر ہے پھر اللہ جل و علا کافروں کو دھمکاتا ہے کہ قیامت والے دن جہنم میں ڈالے جائیں گے اس سے پہلے جہنم کے کنارے پر انہیں کھڑا کر کے ایک مرتبہ پھر لاجواب اور بےحجت کیا جائے گا اور کہا جائے گا کیوں جی ہمارے وعدے اور یہ دوزخ کے عذاب اب تو صحیح نکلے یا اب بھی شک و شبہ اور انکار و تکذیب ہے ؟ یہ جادو تو نہیں تمہاری آنکھیں تو اندھی نہیں ہوگئیں ؟ جو دیکھ رہے ہو صحیح دیکھ رہے ہو یا درحقیقت صحیح نہیں ؟ اب سوائے اقرار کے کچھ نہ بن پڑے گا جواب دیں گے کہ ہاں ہاں سب حق ہے جو کہا گیا تھا وہی نکلا قسم اللہ کی اب ہمیں رتی برابر بھی شک نہیں اللہ فرمائے گا اب دو گھڑی پہلے کے کفر کا مزہ چکھو پھر اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو تسلی دے رہا ہے کہ آپ کی قوم نے اگر آپ کو جھٹلایا آپ کی قدر نہ کی آپ کی مخالفت کی ایذاء رسانی کے درپے ہوئے تو یہ کوئی نئی بات تھوڑی ہی ہے ؟ اگلے اولوالعزم پیغمبروں کو یاد کرو کہ کیسی کیسی ایذائیں ، مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں اور کن کن زبردست مخالفوں کی مخالفت کو صبر سے برداشت کیا ان رسولوں کے نام یہ ہیں نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ ، اور خاتم الانبیاء اللھم صلی علیھم اجمعین ۔ انبیاء کے بیان میں ان کے نام خصوصیت سے سورہ احزاب اور سورہ شوریٰ میں مذکور ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اولوالعزم رسول سے مراد سب پیغمبر ہوں تو ( من الرسل ) کا ( من ) بیان جنس کے لئے ہو گا واللہ اعلم ، ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا پھر بھوکے ہی رہے پھر روزہ رکھا پھر بھوکے ہی رہے اور پھر روزہ رکھا پھر فرمانے لگے عائشہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائق تو دنیا ہے ہی نہیں ۔ عائشہ دنیا کی بلاؤں اور مصیبتوں پر صبر کرنے اور دنیا کی خواہش کی چیزوں سے اپنے تئیں بچائے رکھنے کا حکم اولوالعزم رسول کئے گئے اور وہی تکلیف مجھے بھی دی گئی ہے جو ان عالی ہمت رسولوں کو دی گئی تھی ۔ قسم اللہ کی میں بھی انہی کی طرح اپنی طاقت بھر صبر و سہار سے ہی کام لوں گا اللہ کی قوت کے بھروسے سے پر یہ بات زبان سے نکال رہا ہوں ۔ پھر فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ عذابوں میں مبتلا کئے جائیں اس کی جلدی نہ کرو ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( فَذَرْنِيْ وَمَنْ يُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِيْثِ ۭ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ 44؀ۙ ) 68- القلم:44 ) ، یعنی کافروں کو مہلت دو ، انہیں تھوڑی دیر چھوڑ دو پھر فرماتا ہے جس دن یہ ان چیزوں کا مشاہدہ کرلیں گے جن کے وعدے آج دئیے جاتے ہیں اس دن انہیں معلوم ہونے لگے گا کہ دنیا میں صرف دن کا کچھ ہی حصہ گذارا ہے اور آیت میں ہے آیت ( كَاَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا عَشِـيَّةً اَوْ ضُحٰىهَا 46؀ۧ ) 79- النازعات:46 ) یعنی جس دن یہ قیامت کو دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہو گا کہ گویا دنیا میں صرف ایک صبح یا ایک شام ہی گذاری تھی ( وَيَوْمَ يَحْشُرُھُمْ كَاَنْ لَّمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَھُمْ ۭ قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللّٰهِ وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِيْنَ 45؀ ) 10- یونس:45 ) یعنی جس دن ہم انہیں جمع کریں گے تو یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ گویا دن کی ایک ساعت ہی دنیا میں رہے تھے پھر فرمایا پہنچا دینا ہے ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ دنیا کا ٹھہرنا صرف ہماری طرف سے ہماری باتوں کے پہنچا دینے کے لئے تھا دوسرے یہ کہ یہ قرآن صرف پہنچا دینے کیلئے ہے یہ کھلی تبلیغ ہے پھر فرماتا ہے سوائے فاسقوں کے اور کسی کو ہلاکی نہیں ۔ یہ اللہ جل و علا کا عدل ہے کہ جو خود ہلاک ہوا اسے ہی وہ ہلاک کرتا ہے عذاب اسی کو ہوتے ہیں جو خود اپنے ہاتھوں اپنے لئے عذاب مہیا کرے اور اپنے آپ کو مستحق عذاب کر دے واللہ اعلم ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 جو اللہ آسمان اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے، جن کی وسعت و بےکرانی کی انتہا نہیں ہے وہ ان کو بنا کر تھکا بھی نہیں۔ کیا وہ مردوں کو دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا ؟ یقینا کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ وہ علی کل شیء قدیر کی صفت سے متصف ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٦] یہود کا اللہ پر تھک جانے کا الزام :۔ اللہ کی ذات کے متعلق تھکنے، آرام کرنے، سونے اور اونگھنے کا تصور ہی یکسر باطل ہے۔ اور ایسا خیال وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اللہ کو بھی اپنے جیسی عاجز اور محتاج مخلوق سمجھتے ہیں حالانکہ کسی بھی چیز سے اللہ کی مثال نہیں دی جاسکتی۔ ان الفاظ سے یہود کے اس عقیدہ کا رد...  ہوا جو کہتے تھے کہ اللہ نے چھ دنوں میں زمین و آسمان پیدا کئے پھر ساتویں دن آرام کیا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) اولم یروان اللہ الذی…:” اولم یروا “ سے مراد ” اولم یعلموا “ ہے، یعنی ” کیا انہیں معلوم نہیں ؟ “ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو آسمان و زمین کو پیدا کرتے ہوئے دیکھا نہیں تھا، بلکہ یہ بات وہ جانتے تھے۔ یہ اسلئے فرمایا کہ یہ بات ان کے ہاں مسلم تھی کہ آسمان و زمین کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ س... ورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی توحید کے ساتھ قیامت کا ذکر بھی یہ کہہ کر فرمایا :(ماخلقنا السموت والارض وما بینھما الا بالحق واجل مسمی والذین کفروا عما انذروا معرضون) (الاحقاف : ٣)” ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو ان دونوں کے درمیان ہے حق اور مقررہ میعاد ہی کے ساتھ پیدا کیا ہیا ور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اس چیز سے جس سے وہ ڈرائے گئے، منہ پھیرنے والے ہیں۔ ” سورت کے درمیان میں بھی یہ مضمون ذکر فرمایا :(والذی قال لوالدیہ اف لکما اتعدننی ان اخرج و قد خلت الفرون من قبلی وھما یستغیثن اللہ ویلک امن ان وعد اللہ حق فیقول ماھذا الا اساطیر الاولین) (الاحقاف :18)” اور وہ جس نے اپنے ماں باپ سے کہا اف ہے تم دونوں کے لئے ! کیا تم مجھے دھمکی دیتے ہو کہ مجھے (قبر سے) نکالا جائے گا، حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکیں۔ جب کہ وہ دونوں اللہ سے فریاد کرتے (ہوئے کہتے) ہیں تجھے ہلاکت ہو، ایمان لے آئ، بیشک اللہ کا وعدہ حق ہے۔ تو وہ کہتا ہے یہ پہلے لوگوں کی فرضی کہانیوں کے سوا کچھ نہیں۔ “ توحید کے ساتھ رسالت کے دلائل، منکرین پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نزول اور جنوں کے ایمان لان کے ذکر کے بعد آخر میں پھر قیامت کے حق ہونے کا اور اس کی ایک زبردست دلیل کا ذکر فرمایا۔ یعنی یہ کفار جو انسان کے دوبارہ زندہ ہونے کو محال سمجھ رہے ہیں، کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس نے آسمان و زمین پیدا فرمائے وہ مردوں کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش کو انسان کے دوبارہ پیدا کرنے کی دلیل کے طور پر متعدد مقامات پر ذکر فرمایا ہے، چناچہ فرمایا :(ء انتم اشذ خلقاً ام السمآء بینھا رفع سمکھا فسوھا واغطش لیلھا واخرج ضحبھا والارض بعد ذلک دحھا اخرج منھا مآء ھا ومرعھا واجلابل ارسھا متاعاً لکم ولا نعامکم ( (النازعات :28 تا 33)” کیا پیدا کرنے میں تم زیادہ مشکل ہو یا آسمان ؟ اس نے اسے بنایا۔ اس کی چھت کو بلند کیا، پھر اسے برابر کیا اور سا کی رات کو تاریک کردیا اور سا کے دن کی روشنی کو ظاہر کردیا اور زمین ، اس کے بعد اسے بچھا دیا۔ اس سے اس کا پانی اور اس کا چارا نکالا۔ اور پہاڑ، اس نے انہیں گاڑ دیا۔ تمہاری اور تمہارے چوپاؤں کی زندگی کے سامان کے لئے۔ ‘ اور فرمایا :(لخلق السموت والارض اکبر من خلق الناس ولکن اکثر الناس لایعلمون) (المومن :58)” یقینا آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ (٢) ولم یغی بحلفقھن : یہود نصاریٰ کی الہامی کتاب تورات کی دوسری کتاب ” خروج “ میں مذکور ہے :” چھ دن میں خداوند نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا اور تازہ دم ہوا۔ “ (خروج، باب : ٣١، فقرہ :18) تازہ دم وہ ہوتا ہے جو تھکے اور تھکنا نقصان قدرت پر بمین ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ میں کسی قسم کا نقصان نہیں، اس لئے تورات کی اس عبارت کی اصلاح اور یہودیوں عیسائیوں کے عقیدے کی غلطی کا اظہار کرنے کو قرآن مجید کس اس آیت میں فرمائی :(ولم یعی بحلقھن) اللہ آسمان و زمین کو پیدا کر کے تھکا نہیں، یہ تمہارا خیال غلط ہے۔ (تفسیر ثنائی) دوسری جگہ فرمایا :(ولقد خلقنا السموت والارض وما بینھما فی ستۃ ایام وما مسنا من لغوب) (ق :38)” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دنوں میں پیدا کیا اور ہمیں کسی قسم کی تھکاوٹ نے نہیں چھوا۔ “ (٣)” بقدر “ میں ” بائ “ لانے کی توجیہ ابن ہشام نے بہت عمدہ فرمائی ہے، وہ فرماتے ہیں :” بعض اوقات کسی چیز کو اس کے معنی یا لفظ میں یا دونوں میں مشابہ چیز کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ پہلی کی کئی صورتیں ہیں، جن میں سے ایک اللہ تعالیٰ کے فرمان معنی بالفظ میں یا دونوں میں مشابہ چیز کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ پہلی کی کئی صورتیں ہیں، جن میں سے ایک اللہ تعالیٰ کے فرمان ” اولم یروان اللہ الذی خلق السموت والارض ولم یغی بخلقھن بقدر “ میں ” ان “ کی خبر ” قادر “ پر باء کا داخل ہونا ہے، کیونکہ یہ ” اولیس اللہ بقادر ‘ کے معنی میں ہے۔ یہ ” بائ “ اس لئے ائٓی ہے کہ ” ان “ کے اسم اور خبر میں بہت فاصلہ ہے۔ اسی لئے دوسری آیت :(اولم یروا ان اللہ الذی خلق السموت والارض قادر علی ان یخلق مثلھم) (بنی اسرائیل : ٩٩) میں ” قادر “ پر باء نہیں آئی۔ اسی کی ایک مثال ” کفی باللہ شھیداً “ ہے، کیونکہ اس میں ” اکتف باللہ شھیداً “ کا معنی پایا جا رہا ہے۔ “ (اعراب القرآن از درویش) ” اولم یروان ان اللہ…“ کے جواب میں ” بلی “ آنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ ” اولیس اللہ بقادر “ کے معنی میں ہے، کیونکہ ” بلی “ سابقہ نفی کی تردید کے لئے لایا جاتا ہے، جب کہ ” نعم “ پہلی نفی کی تاکید کے لئے لایا جاتا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر کیا ان لوگوں نے یہ نہ جانا کہ جس خدا نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے میں ذرا نہیں تھکا وہ اس پر (بدرجہ اولی) قدرت رکھتا ہے کہ مردوں کو (قیامت میں) زندہ کر دے۔ (اور وہ اس پر قادر) کیوں نہ ہو، بیشک وہ (تو) ہر چیز پر قادر ہے ( یہ تو امکان ثابت ہوا) اور جس روز (اس کا وقوع...  ہوگا اور) کافر لوگ دوزخ کے سامنے لائے جاویں گے (اور ان سے پوچھا جاوے گا کہ) کیا یہ دوزخ امر واقعی نہیں ہے جیسا کہ دنیا میں اس کی واقعیت کی نفی کیا کرتے تھے کماقال تعالیٰ عنہم و ما نحن بمعذبین) وہ کہیں گے کہ ہم کو اپنے پروردگار کی قسم ضرور امر واقعی ہے ارشاد ہوگا (اچھا) اپنے کفر کے بدلہ میں (جسمیں انکار دوزخ بھی آ گیا) اس (دوزخ) کا عذاب چکھو (آگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لئے فرمایا کہ جب ان سے انتقام کفر کا لیا جانا معلوم ہوگیا) تو آپ (ویسا ہی) صبر کیجئے جیسا اور ہمت والے پیغمبروں نے صبر کیا تھا اور ان لوگوں کے لئے (انتقام الٰہی کی) جلدی نہ کیجئے (جس کو آپ مسلمانوں کی دلجوئی کے لئے چاہتے تھے اور عجیب تر یہ ہے کہ وہ مستحقین عذاب خود جلد بازی کرتے ہیں اور عجب تر ہونا ظاہر ہے کہ مدعی اگر مدعا علیہ کی سزا جلدی چاہے تو بعید نہیں لیکن مدعا علیہ اگر سزا جلدی چاہے تو نہایت امر غریب ہے سو گو حکمت الہیہ سے عذاب فوری نہیں ہوگا لیکن مشاہدہ کے وقت ان پر اس کا وہی اثر ہوگا جو فوری عذاب کا ہوتا ہے کیونکہ) جس روز یہ لوگ اس چیز کو (یعنی عذاب کو) دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو (اس وقت غایت شدت عذاب سے ایسا معلوم ہوگا) گویا یہ لوگ دنیا میں) دن بھر میں ایک گھڑی رہے ہیں (یعنی دنیا کی مدت طویلہ قصیر معلوم ہوگی اور یہی معمول ہوگا کہ فوراً ہی عذاب آ گیا۔ آگے کفار کو تنبیہ ہے کہ) یہ (خدا کی طرف سے اتمام حجت کے لئے) پہنچا دینا ہے (جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معرفت ہوچکا) سو (اس کے بعد) وہی برباد ہوں گے جو نافرمانی کریں گے۔ (کیونکہ بعد تبلیغ کے کوئی عذر نہ رہا اور رسول کا اس میں کوئی ضرر نہیں اس سے تاکید تسلیہ کی بھی ہوگئی۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللہَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى۝ ٠ ۭ بَلٰٓي اِنَّہٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ٣٣ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فا... لذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ عيى الْإِعْيَاءُ : عجز يلحق البدن من المشي، والْعِيُّ. عجز يلحق من تولّي الأمر والکلام . قال : أَفَعَيِينا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ [ ق/ 15] ، وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَ [ الأحقاف/ 33] ، ومنه : عَيَّ في منطقه عَيّاً فهو عَيِيٌّ ورجل عَيَايَاءُ طباقاء إذا عَيِيَ بالکلام والأمر، وداء عَيَاءٌ لا دواء له، والله أعلم . ( ع ی ی ) الاعیاء کے معنی اس درماندگی اور تکان کے ہیں جو چلنے سے پیدا ہوجاتی ہے اور عی کے معنی کسی کام یا بات کو نہ کرسکنا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَفَعَيِينا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ [ ق/ 15] کیا ہم پہلی تخلیق سے تھک گئے ہیں ۔ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَ [ الأحقاف/ 33] اور انکے پیدا کرنے سے تھکا نہیں اور اسی سے ہے عی فی منطقہ عیا فھو عی ہے جس کے معنی سخن سے عاجز ہونے کے ہیں رجل عیایاء طباقاء مرد جو سخن اور کام کرنے سے عاجز ہو اداء عیاء لاعلاج مرض ۔ قادر الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه . ( ق د ر ) القدرۃ ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینو مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا کفار مک نے یہ نہ جانا کہ جس ذات نے زمین و آسمان کو بغیر کسی تکان کے پیدا کردیا تو وہ ان کے دوبارہ زندہ کرنے پر پہلے سے زیادہ قادر ہے ضرور وہ تو زندگی اور موت ہر ایک چیز پر قادر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ { اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّحْیِیََ الْمَوْتٰی } ” کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی اور ان کی تخلیق سے تھکا نہیں ‘ وہ اس پر قادر ہے کہ ُ مردوں کو زندہ ک... ر دے ! “ یہ عقلی دلیل ہے اس شخص کے لیے جو اللہ کو ” خالق “ تو مانتا ہے مگر بعث بعد الموت پر یقین نہیں رکھتا۔ سورة قٓکی آیت ١٥ میں بھی ایسے ” فلسفیوں “ سے سوال کیا گیا ہے : { اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ } کہ کیا ہم کائنات اور اس کی مخلوقات کو ایک دفعہ تخلیق کرنے کے بعد تھک گئے ہیں ؟ کیا اب ہماری تخلیقی سرگرمیاں معطل ہوگئی ہیں ؟ اور کیا مزید نئی چیزیں بنانے کی ہماری صلاحیت اب ختم ہو کر رہ گئی ہے ؟ { بَلٰٓی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ } ” کیوں نہیں ‘ یقینا وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٣۔ ٣٥۔ حشر کے منکر لوگوں کے پاس کوئی نقلی دلیل تو تھی نہیں صرف عقلی باتوں سے وہ لوگ حشر کا انکار کرتے تھے۔ چناچہ مستدرک ١ ؎ حاکم اور بیہقی کے حوالہ سے سورة یٰس میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی صحیح روایت سے گزر چکا ہے کہ ایک شخص عاص بن وائل ایک بوسیدہ ہڈی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا او... ر اس ہڈی کو مل مل کر اس کی خاک ہوا میں اڑات جاتا تھا اور بڑے تعجب سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتا تھا کہ کیا اس ہوا میں اڑی ہوئی حاک سے خدا انسان کا پھر پتلا بنا دے گا وہاں سورة یٰس میں بھی اور یہاں اس آیت میں اور سورة مومن میں اور جگہ جگہ ان عقلی اعتراض کرنے والے لوگوں کی عقل میں آنے کے موافق اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ہے حاصل اس جواب کا یہ ہے کہ اگر یہ لوگ عقل کے ہی پورے پابند ہوتے اور اچھی طرح عقل کو کام میں لاتے تو ضرور ان کی سمجھ میں آجاتا کہ بغیر کسی مادہ اور بغیر کسی مصالحہ کے جس اللہ نے خلاف عقل اتنا بڑا آسمان بلا کسی ستون کے بنا کر کھڑا کردیا اور اتنی بڑی زمین بنا دی اور بغیر مادہ مصالحہ کے پہلی دفعہ انسان کا مادہ اور مصالحہ بھی پیدا کیا اور انسان کو بھی پیدا کیا اس کو انسان کی خاک کا مادہ اور مصالحہ موجود ہوتے ہوئے انسان کا دوبارہ بنانا کیا مشکل ہے کیا ان کی عقل اتنے کام کی بھی نہیں کہ اس عقل سے یہ لوگ اتنا سمجھ لیں کہ جس قدرت کے آگے مشکل کام آسان ہیں اس کو آسان کام کیا مشکل ہے اسی واسطے سورة روم میں فرمایا وھو الذی یبد الخلق ثم بعیدہ وھو اھون علیہ اور سورة مومن میں فرمایا لخلق السموت والارض اکبر من خلق الناس ولکن اکثر الناس لا یعلمون حاصل ان دونوں آیتوں کا یہ ہے جب پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو پیدا کردیا تو اس کا دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے اس طرح اگر انسان سمجھے تو بغیر ستون کے اتنے بڑے آسمان کا اور بغیر مصالحہ کے اتنی بڑی زمین کا پیدا کرنا انسان کا پیدا کرنے سے مشکل ہے پھر مشکل کام جس کی قدرت سے باہر نہیں آسان کام اس کو کیا مشکل ہے غرض بڑے بڑے کام خدا کی قدرت کے اپنی آنکھوں کے سامنے یہ لوگ دیکھتے تھے اور ایک چھوٹے سے کام کے لئے خدا کی قدرت کے منکر تھے اسی لئے خدا تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو بےعلم اور کم عقل فرمایا ہے اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خوب ان لوگوں کو قائل کیا ہے۔ چناچہ مسند ١ ؎ احمد ابن ماجہ کی ناقابل اعتراض سند کی روایتیں سورة یٰسین میں گزر چکی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن اپنی ہتھیلی میں تھوکا اور فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کو تھوک کی مثل ذلیل چیز سے میں نے پیدا کیا پھر بھی انسان میری قدرت کا قائل نہیں رہی یہ بات کہ مرنے کے بعد انسان کی خاک اس طرح رواں دواں ہوجائے گی جس طرح عاص بن وائل نے وہ خاک ہوا میں اڑا دی تھی عقل کے پابند لوگوں کے دل میں یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ حشر کے دن اس رواں دواں خاک کا پتہ کیونکر لگے گا اس کا جواب عقل میں آنے کے موافق اللہ تعالیٰ نے سورة ق میں دیا ہے کہ قدعلمنا ما تنقص الارض منھم و عندنا کتاب حفظ حاصل اس جواب کا یہ ہے کہ جس طرح تاریخ کی کتابوں سے ہزاروں برس کی چیزوں کا دنیا میں پتا لگتا ہے اسی طرح خدا کے دفتر سے حشر کے دن ان شبہ کرنے والوں کی خاک کا پتا لگ جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان حشر کے منکر لوگوں کے پیدا ہونے سے پہلے ان کی رواں دواں خاک کا سب پتہ لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ آگے فرمایا کہ اب تو یہ سزا و جزا کے منکر لوگ اپنے دنیا کے عیش و آرام کے نشہ میں دوزخ کے عذاب کے ذکر کو مسخرا پن میں اڑاتے ہیں لیکن جب دوزخ کا عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آئے گا اور ان لوگوں کو قائل کرنے کے لئے ان سے پوچھا جائے گا یہ سچا عذاب ہے یا مسخرا پن ہے تو قسمیں کھا کھا کر اس عذاب کو سچا بتائیں گے جس کے جواب میں ان لوگوں سے کہا جائے گا کہ دنیا میں تم نے جو اس عذاب کو جھٹلایا تھا اس کی سزا میں اب اس عذاب کا مزہ چکھو مشرکین مکہ میں کے سرکش لوگ جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو زیادہ ستانے لگتے تھے تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں یہ خیال آتا تھا کہ ان سرکشوں کی غیب سے کوئی تنبیہ ہو تو شاید ان لوگوں کی سرکشی کچھ کم ہوجائے اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی تسلی فرمائی اور فرمایا کہ سرکش لوگوں کی سرکشی تمہارے ساتھ کچھ نئی نہیں ہے پہلے انبیاء جیسے نوح (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے ساتھ بھی اس وقت کے مخالف لوگوں نے بڑی بڑی سرکشی کی ہے اور ان انبیاء نے اس سرکشی کی برداشت اور اس پر صبر کیا ہے ایسا ہی تم کو کرنا چاہئے اور ان سرکش لوگوں کے عذاب کی جلدی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ جس ہمیشہ کے عذاب کا ان سرکشوں سے وعدہ ہے جب وہ عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آئے گا تو اس کے سامنے اس سرکشی کے جینے کو یہ لوگ گھڑی دو گھڑی کا جینا سمجھیں گے۔ پھر فرمایا اس قرآ کے ذریعہ سے نصیحت تو ہر ایک کو پہنچا دی جاتی ہے مگر لوگ اللہ کے علم غیب میں بےحکم ٹھہر چکے ہیں وہ کسی نصیحت سے راہ راست پر نہ آئیں گے اور دونوں جہان میں اپنی سرکشی اور نافرمانی کی خمیازہ اٹھائیں گے توح (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) عیسیٰ (علیہ السلام) محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پانچ انبیاء کو مخالف لوگوں سے بڑے بڑے مقابلے رہے ہیں اس لئے ان کو اولوالعزم کہتے ہیں۔ ١ ؎ جس کے معنی ہمت والوں کے ہیں صحیح مسلم کے حوالہ سے انس (رض) بن مالک کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا میں بڑے عیش و آرام سے گزران کرنے والے نافرمان لوگوں کو نافرمانی کی سزا میں جب دوزخ کا ایندھن بنایا جائے گا تو دوزخ کے پہلے ہی جھونکے میں فرشتے ان سے پوچھیں گے کہ دنیا کی جس خوشخالی کے نشہ میں تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اللہ کے رسول سے سرکشی کا برتاؤ کیا اس ہمیشہ کے سخت عذاب کے آگے تم کو دنیا کی وہ خوشحالی کچھ یاد ہے وہ لوگ قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اس عذاب کے آگے ہم کو دنیا کی خوشحالی کچھ یاد نہیں اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کی خوش حالی کے نشہ میں جو لوگ آخرت کے عذاب کو جھٹلاتے اور اللہ کے رسول سے سرکشی کا برتاؤ کرتے تھے جب اس کی سزا کے طور پر ان کو دوزخ میں جھونکا جائے گا تو عذاب کی سزا کے آگے دنیا کی وہ خوشحالی یاد بھی رہے گی اور اس عذاب کے آگے دنیا کا چند روز کا جینا ان کو دن بھر کی گھڑیوں میں سے گھڑی بھر کا جینا اور رہنا نظر آئے گا۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القری الایۃ ص ٦٧٨ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب الجھر بالقراءۃ فی الصبح والقراءۃ علی الجن ص ١٨٤ ج ١۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الجن ص ٧٢٢ ج ٢۔ ) (٢ ؎ ترمذی شریف تفسیر سورة الجن ص ١٩ ج ٢۔ ) (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٢٦٧ ج ٥) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٦١ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب فی الکفار ص ٣٧٤ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(46:33) اولم یروا۔ ہمزہ استفہامیہ انکاریہ ہے وائو حرف عطف جس سے قبل معطوف علیہ محذوف ہے ۔ ای الم یعلموا ولم یروا کیا وہ نہیں جانتے اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا۔ لم یروا مضارع مجزوم نفی حجد بلم۔ جمع مذکر غائب رؤیۃ (باب فتح) مصدر یہاں رؤیت سے مراد رؤیت قلبی ہے ای الم یتفکروا۔ الم یعلموا۔ کیا انہوں...  نے غور نہیں کیا۔ کیا ان کو علم نہیں۔ ان تحقیق۔ بےشک۔ یقینا ۔ حرف تحقیق ہے اور حروف مشبہ بالفعل میں سے ہے اپنے اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتا ہے۔ ولم یعی بخلقہن۔ وائو عاطفہ مضارع مجزوم نفی حجد بلم۔ واحد مذکر۔ غائب۔ عی (باب سمع) مصدر۔ عی عیی ماضی، یعیی مضارع۔ عاجز ہونا۔ کامیاب نہ ہونا۔ اعیاء (افعال) تھک جانا۔ تھکا دینا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے افعیینا بالخلق الاول (50:15) کیا ہم پہلی تخلیق سے تھک گئے ہیں۔ بخلقہن میں ب سببیہ ہے یا تعلیلیہ ہے خلقہن مضاف مضاف الیہ ، وہ ان (سماوات وارض) کے پیدا کرنے سے تھک نہیں گیا بقدر۔ قادر۔ محل رفع میں ہے کیونکہ ان کی خبر ہے۔ ب زائدہ ہے۔ ان مصدریہ ہے۔ کہ۔ ترجمہ ہوگا :۔ کیا انہوں نے نہیں سمجھا کہ جس خدا نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اور ان کے پیدا کرنے سے تھکا نہیں وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے۔ یحییٰ : مضارع منصوب (بوجہ عمل ان ) واحد مذکر غائب : احیاء (افعال) مصدر، یہاں ان مصدریہ کے آنے سے بمعنی مصدر بھی ہے یعنی وہ مردوں کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ الموتی۔ مردے۔ واحد میت۔ بلی۔ ہاں ۔ کیوں نہیں۔ حرف جواب ہے۔ (حرف ایجاب چھ ہیں ۔ نعم ، بلی اجل، جیر۔ ان اور ای۔ یہ حروف تصدیق بھی کہلاتے ہیں) بلی کلام مخاطب کی نفی اور اس کے ابطال کے واسطے آتا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القران ربط کلام : جو لوگ اپنے رب کی دعوت قبول نہیں کرتے ان کو چیلنج اور ان کا انجام۔ جو لوگ ” اللہ “ کی ذات پر اس کے حکم کے مطابق ایمان نہیں لاتے کیا وہ غور نہیں کرتے کہ ” اللہ “ وہ ذات ہے جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور ان کے پیدا کرنے میں اسے کوئی تھکان محسوس نہ ہوئی۔ وہ اس بات پر قاد... ر ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے۔ کیوں نہیں ! بلاشبہ وہ کائنات کے ذرہ ذرہ پر مکمل اقتدار اور اختیار رکھنے والا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود جو لوگ اللہ کی ذات، صفات، اس کے احکام اور اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا انہیں جان لینا چاہیے کہ ایک دن آنے والا ہے جس دن انکار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ کے سامنے کھڑا کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ کیا تمہارا دوبارہ زندہ ہونا اور یہ جہنم حقیقت نہیں ہے ؟ مجرم پکار اٹھیں گے کیونکہ نہیں ! ہمارے رب ہم دوبارہ زندہ ہوئے اور جہنم بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس اقرار کے بعد اپنے رب سے بڑی عاجزی اور آہ وزاری کے ساتھ معذرت کریں گے کہ ہمیں معاف کردیا جائے لیکن حکم ہوگا کہ اب تم جہنم کے عذاب میں مبتلا رہو گے کیونکہ تم اپنے رب پر ایمان لانے، دوبارہ زندہ ہونے اور اس جہنم کا انکار کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں زمین و آسمانوں کی پیدائش، مردوں کو دوبارہ زندرہ کرنے اور جہنم کا بار بار ذکر کیا ہے اس لیے یہاں ان تینوں باتوں کا مختصر ذکر کرنے کے بعد ان کا انکار کرنے والوں کا انجام بیان کیا ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے زمین و آسمان پیدا کرنے کے بعد تھکان نہ ہونے کا مسئلہ ہے اس بارے میں یہودیوں اور ان سے متاثرین کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں اور ہر چیز پیدا کرنے کے بعد تھکان محسوس کی اس لیے ہفتہ کے دن آرام فرمایا جس وجہ سے ہم بھی ہفتہ کے دن کام کاج سے چھٹی کرتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی واضح نفی فرمائی ہے کہ زمین و آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد اسے کوئی تھکان نہیں ہوئی تھی اس نے زمین و آسمانوں اور اپنی مخلوق کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ ہر وقت اپنی مخلوق کی نگرانی اور حفاظت فرما رہا ہے۔ کیونکہ وہ ہر چیز پر مکمل اقتدار اور اختیار رکھتا ہے۔ (وَ لَا یَؤُدُہٗ حِفْظُہُمَا وَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ) (البقرۃ : ٢٥٥) ” اور وہ ان کی حفاظت سے نہ تھکتا ہے اور نہ اکتاتا ہے وہ تو بہت بلند وبالا اور بڑی عظمت والا ہے۔ “ زمین و آسمانوں کی تخلیق کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے قیامت کا انکار کرنے والوں کو یہ بات سمجھائی ہے کہ زمین و آسمانوں کو تخلیق کرنا مشکل کام ہے یا انسان کو دوبارہ پیدا کرنا مشکل ہے ؟ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا اور ان کے پیدا کرنے میں اسے کوئی کمزوری اور تھکاوٹ لاحق نہیں ہوئی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ موت اور زندگی پر مکمل اختیار رکھتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن جب کفار جہنم کی آگ کے سامنے لائے جائیں گے تو وہ اس کا اقرار کریں گے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کفر کرنے والوں کو حکم دئے گا کہ جہنم کا عذاب پاؤ کیونکہ تم اس کا انکار کیا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن کفار کا قیامت کے دن حقائق کو تسلیم کرنا : ١۔ جہنمی سے 3 کے سوالات اور جہنمی کا اپنے گناہوں کا اقرار کرنا۔ (المدثر : ٤٠ تا ٤٨) ٢۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جہنمی سے فرمائے گا کیا آج کا عذاب برحق نہیں وہ کہیں گے کیوں نہیں۔ (الاحقاف : ٣٤) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہماری بدبختی نے ہمیں گھیر لیا تھا اور ہم کافر ہوئے۔ (المومنون : ١٠٦) ٤۔ ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں کیا یہاں سے نکلنے کا راستہ ہے۔ (المومن : ١١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اولم یروا ۔۔۔۔۔ کل شیء قدیر (٤٦ : ٣٣) “ اور کیا ان لوگوں کو یہ سجھائی نہیں دیتا کہ جس خدا نے یہ زمین اور آسمان پیدا کئے اور ان کو بناتے ہوئے وہ نہ تھکا ، وہ ضرور اس پر قادر ہے کہ مردوں کو جلا اٹھائے ؟ کیوں نہیں ، یقیناً وہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے ”۔ یہ ایک طرح توجہ دلانا ہے اس کائنات کی کھلی کتاب کے...  مطالعہ کی طرف ، جس کا تذکرہ سورت کے آغاز میں بھی ہوا تھا۔ بسا اوقات یوں ہوتا ہے کہ ایک نکتہ قرآن مجید میں براہ راست بھی ہوتا ہے۔ پھر وہی بات ایک قصے میں بھی آجاتی ہے ، اس طرح بتا دیا جاتا ہے کہ یہ قصہ اس لیے لایا گیا اور سیاق کلام میں مناسبت آجاتی ہے۔ یہ کتاب پہلے تو یہ بتاتی ہے کہ یہ عظیم کائنات ، جس کے تصور سے سر چکرا جاتا ہے اس کا کوئی نہ کوئی خالق ضرور ہے۔ ذرا دیکھو تو سہی۔۔۔۔ یہ آسمان اور زمین اور ان کے اندر رنگا رنگ مخلوقات جو دیکھتے ہی بتا دیتی ہیں کہ اللہ کے لئے تمام مخلوقات کو دوبارہ پیدا کردینا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ اور یہ کہ اللہ کی یہ کائنات اسکیم یہ بتاتی ہے کہ دوبارہ حشر ہوگا۔ اور یہاں بات کو بطور استفہام لانے سے تاکید مزید ہوجاتی ہے اور استفہام کا جواب ہاں میں ہے۔ اس لیے آخر میں یہ فقرہ آتا ہے۔ انہ علی کل شیء قدیر (٤٦ : ٣٣) ” یقیناً وہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے “۔ لہٰذا اللہ دوسری قدرتوں کے ساتھ تمام مخلوقات کو دوبارہ پیدا کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے ۔ اور آخر میں دوبارہ اٹھائے جانے کے اصل مقصد کو نہایت ہی مشخص انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ حساب و کتاب یوں ہوگا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26:۔ ” اولم یروا۔ الایۃ “ یہ قیامت اور بعث بعد الموت پر عقلی دلیل ہے۔ استفہام انکاری ہے کیا وہ اس بات کو نہیں جانتے اور اس میں غور نہیں کرتے جس خدائے ذوالجلال مالک صفات کمال نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے تھک ہار کر بیٹھ نہیں گیا اور نہ اس کی قوت و طاقت میں اس سے کوئی ضعف ہی ... پیدا ہوا ہے۔ فان قدرتہ ذاتیۃ لاینقص ولا ینقطع بالایجاد ابد الابدین (مظہری ج 8 ص 416) ۔ کیا وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟ ” بلی “ کیوں نہیں، نہ صرف مردوں کو زندہ کرنے پر بلکہ وہ تو ایسی قدرت کاملہ کا مالک ہے کہ ہر چیز پر قادر ہے اور کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(33) کیا ان منکرین قیامت نے اس بات کو نہیں دیکھا اور نہیں سمجھا کہ جس اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور ان آسمان و زمین کے پیدا کرنے اور بنانے میں وہ ذرا بھی نہیں تھکا وہ اللہ تعالیٰ بدرجہ اولیٰ مردوں کے زندہ کرنے پر قادر ہے کیوں نہیں وہ ضرور قارد ہے۔ بیشک وہ ہر چیزپر قدرت رکھتا اور...  ہر چیز کرسکتا ہے۔ یعنی یہ بات نہیں سمجھتے کہ جس اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کئے اور آسمان و زمین پیدا کرنے میں اس کو تھکاوٹ اور تھکن محسوس نہیں ہوئی وہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کردے جواب فرمایا بیشک وہ قادر ہے اور مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا اس کو کیا مشکل ہے وہ ہر چیز کرسکتا ہے۔  Show more