Surat ul Ehkaaf

Surah: 46

Verse: 35

سورة الأحقاف

فَاصۡبِرۡ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسۡتَعۡجِلۡ لَّہُمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ یَوۡمَ یَرَوۡنَ مَا یُوۡعَدُوۡنَ ۙ لَمۡ یَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا سَاعَۃً مِّنۡ نَّہَارٍ ؕ بَلٰغٌ ۚ فَہَلۡ یُہۡلَکُ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿٪۳۵﴾  4 الرّبع

So be patient, [O Muhammad], as were those of determination among the messengers and do not be impatient for them. It will be - on the Day they see that which they are promised - as though they had not remained [in the world] except an hour of a day. [This is] notification. And will [any] be destroyed except the defiantly disobedient people?

پس ( اے پیغمبر ! ) تم ایسا صبر کرو جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا اور ان کے لئے ( عذاب طلب ) کرنے میں جلدی نہ کرو یہ جس دن اس عذاب کو دیکھ لیں گے جس کا وعدہ دیئے جاتے ہیں تو ( یہ معلوم ہونے لگے گا کہ ) دن کی ایک گھڑی ہی ( دنیا میں ) ٹھہرے تھے یہ ہے پیغام پہنچا دینا ، پس بدکاروں کے سوا کوئی ہلاک نہ کیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ... Therefore be patient as did those of determination among the Messengers. meaning, as they were patient with their people's rejection of them. "Those of determination" among the Messengers are Nuh, Ibrahim, Musa, `Isa and the last of all of the Prophets, Muhammad. Allah has specifically mentioned their names in two Ayat: Surah Al-Ahzab (33:7) and Surah Ash-Shura (42:13). ... وَلاَ تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ... and be in no hurry for them. which means, `do not rush the punishment for them.' This is similar to Allah's saying: وَذَرْنِى وَالْمُكَذِّبِينَ أُوْلِى النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلً And leave Me alone to deal with the rejecters, those who are in possession of good things of life. And give them respite for a little while. (73:11) فَمَهِّلِ الْكَـفِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً So allow time for the disbelievers, and leave them for a while. (86:17) Then Allah says: ... كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلاَّ سَاعَةً مِّن نَّهَارٍ ... On the Day when they will see that which they are promised, it will be as though they had not remained (in the world) except an hour in a day. Which is similar to Allah's saying, كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُواْ إِلاَّ عَشِيَّةً أَوْ ضُحَـهَا On the Day they see it (the Hour), it will be as though they had not remained (in the world) except for a day's afternoon or its morning. (79:46) and as He says, وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُواْ إِلاَّ سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ And on the Day when He shall gather them together, (it will be) as if they had not stayed but an hour of a day. They will recognize each other. (10:45) Then Allah says, ... بَلَغٌ ... A clear message. meaning, this Qur'an provides a clear concept. ... فَهَلْ يُهْلَكُ إِلاَّ الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ But will any be destroyed except the defiantly rebellious people. Which means that Allah does not destroy anyone except those who choose the way of destruction. It is part of Allah's justice that He does not punish anyone except those who deserve the punishment -- and Allah knows best. This concludes the explanation of Surah Al-Ahqaf. And all praise and blessings are due to Allah. Both success and protection from faults are by His help.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 یہ کفار مکہ کے رویے کے مقابلے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے اور صبر کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ 35۔ 2 قیامت کا ہولناک عذاب دیکھنے کے بعد انہیں دنیا کی زندگی ایسے ہی معلوم ہوگی جیسے دن کی صرف ایک گھڑی یہاں گزار کر گئے ہیں۔ 35۔ 3 یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے ای ہذا الذی وعظتھم بہ بلاغ یہ وہ نصحیت یا پیغام ہے جس کا پہچانا تیرا کام ہے۔ 35۔ 4 اس آیت میں بھی اہل ایمان کے لیے خوشخبری اور حوصلہ افزائی ہے کہ ہلاکت اخروی صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو اللہ کے نافرمان اور اس کی حدود پامال کرنے والے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٨] اولوا العزم انبیاء کون کون سے ہیں :۔ ویسے تو سب انبیاء ہی اولوالعزم ہوتے ہیں تاہم عرف عام میں پانچ ہیں، سیدنا نوح سیدنا ابراہیم سیدنا موسیٰ سیدنا عیسیٰ اور محمد مصطفیٰ آپ یہ چاہتے تھے کہ یا تو کفار مکہ ایمان لے آئیں یا پھر اللہ ان پر عذاب نازل کر دے۔ جس کا یہ ہر وقت مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ دیکھ لو اولوالعزم انبیاء نے کتنی مدت اپنے مخالفوں کی ایذا رسانیوں پر صبر کیا تھا۔ لہذا آپ کو بھی اس معاملہ میں جلدی نہ کرنا چاہئے اور صبر و برداشت سے کام لینا چاہئے۔ [٤٩] یعنی آج تو عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں کہ آتا کیوں نہیں، جب قیامت کو عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو کہیں گے اتنی جلدی عذاب کیوں آگیا۔ ہم تو دنیا میں بس ایک گھڑی ہی ٹھہرے تھے کہ عذاب آگیا ہے۔ ویسے بھی انسان کی فطرت ہے کہ اسے مصیبت کی گھڑیاں تو بڑی طویل محسوس ہوتی ہیں لیکن عیش و آرام میں گزرے ہوئے سال ہاسال بھی چند گھڑیاں معلوم ہوتے ہیں۔ قیامت کا دن کس قدر سخت ہوگا۔ اس کا اندازہ کچھ ان کے جواب سے بھی ہوجاتا ہے۔ [٥٠] یعنی اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ کے عذاب سے تباہ صرف اس کے نافرمان ہی کئے جاتے ہیں۔ جو اللہ کے عذاب کی تنبیہ کو مذاق میں اڑا دیتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فاصبر کما صبراولوا العزم من الرسل : توحید و رسالت اور قیامت کو دلائل سے ثابت کرنے اور کفار کے شہادت کا جواب دینے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر و استقامت کی نصیحت فرمائی، کیونکہ آپ کو دعوت الی اللہ کے جواب میں کفار کی بد زبانی، استہزاء اور اذیت رسانی سے شدید قلق اور سخت تکلیف ہوتی تھی، اس لئے فرمایا کہ اے نبی ! جس طرح پختہ ارادے اور مضبوط عزم و ہمت والے رسولوں نے صبر کای، آپ بھی صبر کریں۔ رہی یہ بات کہ ان اولو العزم رسولوں، سے مراد کون ہیں ؟ تو عموماً پانچ رسولوں کو اولوالعزم کہا اجتا ہے جن میں نوح ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کیساتھ پانچویں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، کیونکہ ان کا اکٹھا ذکر قرآن مجید میں دو مقامات پر آیا ہے، ایک سورة احزاب میں ہے، فرمایا :(واذ اخذنا من النبین میثاقھم ومثک ومن نوح و ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ ابن مریم ، واخذنا منھم میثاقاً غلیظاً ) (الاحزاب :8)” اور جب ہم نے تمام نبیوں سے ان کا پختہ عہد لیا اور تجھ سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی اور ہم نے ان سے بہت پختہ عہد لیا۔ “ اور دوسری ایٓت سورة شوریٰ کی ہے، فرمایا :(شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاً و الذی او حیناً الیک وما وضینا بہ ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ ٰ ان اقیموا الذین ولا تتفرقوا فیہ) (الشوری : ١٣)” اس نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح کو دیا اور جس کی وحی ہم نے تیری طرف کی اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، یہ کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں جدا جدا نہ ہوجاؤ۔ “ مگر ان آیات میں نہ ان پیغمبروں کے اولوالعزم ہونے کا ذکر ہے اور نہ دوسرے پیغمبروں کے اولوالعزم نہ ہونے کا اس لئے اسے عام رکھا جائے اور ” من “ کو بیانہ قرار دیا جائے تو بہتر ہے۔ معنی یہ ہوگا کہ اس طرح صبر کر جس طرح پختہ ارادے والوں نے کیا، جو رسول تھے، جیسا کہ فرمایا :(فاحبتنبوا الرجس من الاوثان) (الحج : ٣٠) ” پس گندگی سے بچو، جو بت ہیں۔ ‘ مطلب یہ ہے کہ آپ سے پہلے پیغمبر اپنی قوم کی بےرخی، مخالفت اور ایذا رسانیوں کا جس طرح عزم و ہمت اور صبر وا ستقامت کے ساتھ مقبالہ کرتے رہے اسی طرح آپ بھی کریں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اولو العزم سے تمام سول مراد لینا دسرت نہیں، کیونکہ بعض رسولوں کے متعلق عزم کی نفی آئی ہے۔ جیسا کہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا :(فنسی ولم تجدلہ عزماً ) (طہ : ١١٥)” پھر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں ارادے کی کچھ پختگی نہ پائی۔ “ اور یونس (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا :(ولاتکن کصاحب الحوت) (القلم :348)” اور تو مچھلی والے کی طرح نہ ہو۔ “ اس لئے اولو العزم سے اونچے درجے کے صاحب عزم رسول مراد ہیں، اگرچہ ان کی تعیین مشکل ہے۔ مگر ان مفسرین کی یہ بات اس لئے درست نہیں کہ اگرچہ آدم علیہ اسللام سے یہ فعل سر زد ہوگیا مگر بعد میں ان کا درجہ پہلے سے بھی اونچا ہوگیا ، جیسا کہ فرمایا :(ثم اجتبہ ربہ فتاب علیہ وھدی) (طہ : ١٢٢)” پھر اس کے رب نے پہلے سے بھی اونچا ہوگیا جیسا کہ فرمایا :(ثم اجتیبہ ربہ فتاب علیہ وھدی) (طہ : ١٢٢)” پھر اس کے رب نے اسے چن لیا تو اس پر مہربانی فرمائی اور ہدایت دی۔ “ اور یونس (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا :(فاجتبنہ ربہ فجعلہ من الصلحین) (القلم : ٥٠)” پھر اس کے رب نے اسے چن لیا، پس اسے نیکوں میں شامل کردیا۔ “ اس لئے توبہ کیب عد ان دونوں پیغمبروں کے بھی اولو العزم ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ (٢) ولا تستعجل لھم : صبر کے حکم کے ساتھ ہی جلد بازی سے منع فرمایا، یعنی ان کے لئے جلدی کا مطالبہ نہ کریں کہ یہ لوگ جلدی ایمان کیوں نہیں لاتے، یا ایمان نہ لانے کی وجہ سے ان پر جلدی عذاب کیوں نہیں آجاتا۔ (٣) کانھم یوم یرون مایوعدون…: یعنی جب وہ اللہ کا عذاب دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو انہیں ایسا معلوم ہوگا کہ وہ دنیا میں ایک ساعت سے زیادہ نہیں رہے، کیونکہ عذاب کی شدت انہیں سال و ماہ کی وہ مدت فراموش کروا دے گی جو انہوں نے دنیا میں بسر کی، جیسا کہ فرمایا :(قل کم لبثم فی الارض عدد سنین قالوا لبثنا یوما او بعض یوم فتل العاذین قل ان لیثم الا قلیلاً لو انکم کنتم تعلمون) (المومنون : ١١٢ تا ١١٣)” فرمائے گا تم زمین میں سالوں کی گنتی میں کتنی مدت رہے ؟ وہ کہیں گے ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے، سو شمار کرنے والوں سے پوچھ لے۔ فرمائے گا تم نہیں رہے مگر تھوڑا ہی، کاش کہ واقعی تم جانتے ہوتے۔ “ کبھی انہیں وہ مدت ایک پہر معلوم ہوگی (دیکھیے نازعات : ٤٦) اور کبھی وہ قسمیں کھا کر کہیں گے کہ وہ دنیا میں صرف ایک گھڑی رہے ہیں۔ دیکھیے سورة روم (٥٥) ۔ (٤) بلغ : یہ ” ھذا “ کی خبر ہے، یعنی یہ قرآن تو پیغام کا پہنچا دینا ہے، جیسا کہ فرمایا :(ھذا بلغ للناس و لینذروابہ) (ابراہیم : ٥٢)” یہ لوگوں کے لئے ایک پیغام ہے اور تاکہ انہیں اس کے ساتھ ڈرایا جائے۔ “ (٥) فھل یھلک الا القوم الفسقون : یعنی قرآن کے پہنچ جانے کے بعد حجت تمام ہوگئی، اب بھی اگر کوئی فسق اور نافرمانی میں پ ڑا رہتا ہے تو وہ اپنی شامت کو خود دچوت دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کو بےقصور نہیں پکڑا جاتا، وہاں وہی لوگ ہلاک کئے جاتے ہیں جو فاسق اور نافرمان ہوں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّ‌سُلِ (...as the resolute messengers observed patience - 46:35). The word &resolute& has been used here as a qualification for all the messengers, and not only for some of them, because the word &min& used with &rusul& is not, according to the authentic exegetes, in the sense of &some&. It is rather for &Bayan& (description), to use the grammatical term. The sense is that all messengers are resolute people. Of course, variation in the grades of qualities between messengers is proved from the Holy Qur&an itself: تِلْكَ الرُّ‌سُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ Those are the messengers some of whom We have given excellence over some others (2:253) Therefore those prophets who excel other prophets in the quality of being resolute and courageous have been given this title in a special way, although there are differences of opinion as to who they are. Majority opinion is that this special title is given to those prophets who have been mentioned in the following verse of Sarah Al-Ahzab verse 7: وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَ‌اهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ابْنِ مَرْ‌يَمَ And (recall) when We took from the prophets their covenant, and from you and from Nuh and Ibrahim and Musa and &Isa, the son of Maryam. And We did take from them a firm covenant, (33:7) Sayyidah ` A&ishah (رض) states that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said |"The delights, luxuries and pleasures of this world do not befit Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his family, because Allah Ta’ ala does not accept anything less than patience from those who are &resolute&, and I have received this divine order: &|"So, 0 prophet, observe patience, as the resolute messengers observed patience. (46:35) |" Al-hamdu1i11ah The Commentary on Surah Al-Alikaf (The Sand-dunes) Ends here

معارف ومسائل (آیت) اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ اس میں من الرسل کا حرف من محققین کے نزدیک بیانیہ ہے تبعیض کے لئے نہیں۔ معنی یہ ہیں کہ تمام رسول جو صاحب عزم و ہمت ہی ہوتے ہیں معلوم ہوا کہ صاحب عزم و ہمت ہونا سبھی انبیاء کی صفت ہے۔ البتہ رسولوں کے درمیان صفات کے درجات میں تفاضل اور کمی بیشی خود قرآن کے ارشاد سے ثابت ہے (آیت) تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض اس لئے جو انبیاء (علیہم السلام) صفت عزم و ہمت میں دوسروں سے زیادہ امتیاز رکھتے ہیں خاص ان رسولوں کے لئے یہ لقب کے طور پر مشہور ہوگیا اور ان کی تعیین میں بھی اختلاف ہے اور اکثر کا قول یہ ہے کہ لقب اولو العزم جن کو دیا گیا ہے یہ وہ حضرات ہیں جن کا ذکر سورة احزاب کی اس آیت میں ہے (آیت) واذا اخذنا من النبین میثاقھم و منک ومن نوح و ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ ابن مریم الخ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دنیا کی عیش و عشرت اور تنعم محمد اور آل محمد کے شایان نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اولو العزم سے بجز صبر کے اور کسی چیز پر راضی نہیں اور مجھے یہی حکم دیا ہے کہ فاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ تمت سورة الاحقاف بعون اللہ للثانی و العشرین من رجب 1392 ھ یوم السبت وللہ الحمد

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاصْبِرْ كَـمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ۝ ٠ ۭ كَاَنَّہُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ۝ ٠ ۙ لَمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنْ نَّہَارٍ۝ ٠ ۭ بَلٰغٌ۝ ٠ ۚ فَہَلْ يُہْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ۝ ٣٥ ۧ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں عزم العَزْمُ والعَزِيمَةُ : عقد القلب علی إمضاء الأمر، يقال : عَزَمْتُ الأمرَ ، وعَزَمْتُ عليه، واعْتَزَمْتُ. قال : فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران/ 159] ، وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة/ 235] ، وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة/ 227] ، إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری/ 43] ، وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ، أي : محافظة علی ما أمر به وعَزِيمَةً علی القیام . والعَزِيمَةُ : تعویذ، كأنّه تصوّر أنّك قد عقدت بها علی الشّيطان أن يمضي إرادته فيك . وجمعها : العَزَائِمُ. ( ع ز م ) العزم والعزیمۃ کسی کام کو قطعی اور حتمی طور پر کرنے کا ارادہ کرنا عزمت الامر وعزمت علیہ واعتزمت میں نے اس کام کو قطعی طور پر کرنے کا ارادہ کرلیا / قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران/ 159] جب کسی کام کا عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو ۔ وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة/ 235] اور نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا ۔ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة/ 227] اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیں إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری/ 43] بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں ۔ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ پایا ۔ یعنی جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا اسکی حفاظت کرنے اور اسے بجا لانے میں ثابت قدم نہ پایا ۔ العزیمۃ ایک قسم کا گنڈہ اور تعویز جس میں اس خیال سے گر ہیں لگائی جاتی تھیں کہ گویا شیطان کو ایزا رسانی سے روک دیا گیا ہے عزیمۃ کی جمع عذایم آتی ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ بَلَاغ : التبلیغ، نحو قوله عزّ وجلّ : هذا بَلاغٌ لِلنَّاسِ [إبراهيم/ 52] ، وقوله عزّ وجلّ : بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفاسِقُونَ [ الأحقاف/ 35] ، وَما عَلَيْنا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ [يس/ 17] ، فَإِنَّما عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسابُ [ الرعد/ 40] . والبَلَاغ : الکفاية، نحو قوله عزّ وجلّ : إِنَّ فِي هذا لَبَلاغاً لِقَوْمٍ عابِدِينَ [ الأنبیاء/ 106] ، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ [ المائدة/ 67] ، أي : إن لم تبلّغ هذا أو شيئا مما حمّلت تکن في حکم من لم يبلّغ شيئا من رسالته، وذلک أنّ حکم الأنبیاء وتکليفاتهم أشدّ ، ولیس حكمهم كحكم سائر الناس الذین يتجافی عنهم إذا خلطوا عملا صالحا وآخر سيئا، وأمّا قوله عزّ وجلّ : فَإِذا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق/ 2] ، فللمشارفة، فإنها إذا انتهت إلى أقصی الأجل لا يصح للزوج مراجعتها وإمساکها . ويقال : بَلَّغْتُهُ الخبر وأَبْلَغْتُهُ مثله، وبلّغته أكثر، قال تعالی: أُبَلِّغُكُمْ رِسالاتِ رَبِّي [ الأعراف/ 62] ، وقال : يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [ المائدة/ 67] ، وقال عزّ وجلّ : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ ما أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ [هود/ 57] ، وقال تعالی: بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران/ 40] ، وفي موضع : وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا [ مریم/ 8] ، وذلک نحو : أدركني الجهد وأدركت البلاغ ۔ کے معنی تبلیغ یعنی پہنچا دینے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : هذا بَلاغٌ لِلنَّاسِ [إبراهيم/ 52] یہ ( قرآن ) لوگوں کے نام ( خدا ) پیغام ہے ۔ بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفاسِقُونَ [ الأحقاف/ 35]( یہ قرآن ) پیغام ہے سود اب وہی ہلاک ہوں گے جو نافرمان تھے ۔ وَما عَلَيْنا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ [يس/ 17] اور ہمارے ذمے تو صاف صاف پہنچا دینا ہے ۔ فَإِنَّما عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسابُ [ الرعد/ 40] تمہارا کام ہمارے احکام کا ) پہنچا دینا ہے اور ہمارا کام حساب لینا ہے ۔ اور بلاغ کے معنی کافی ہونا بھی آتے ہیں جیسے : إِنَّ فِي هذا لَبَلاغاً لِقَوْمٍ عابِدِينَ [ الأنبیاء/ 106] عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں ( خدا کے حکموں کی ) پوری پوری تبلیغ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ [ المائدة/ 67] اور اگر ایسا نہ کیا تو تم خدا کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم نے یہ یا کوئی دوسرا حکم جس کا تمہیں حکم جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے نہ پہنچا یا تو گویا تم نے وحی الٰہی سے ایک حکم کی بھی تبلیغ نہیں کی یہ اس لئے کہ جس طرح انبیاء کرام کے درجے بلند ہوتے ہیں اسی طرح ان پر احکام کی بھی سختیاں ہوتی ہیں اور وہ عام مومنوں کی طرح نہیں ہوتے جو اچھے اور برے ملے جلے عمل کرتے ہیں اور نہیں معاف کردیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : فَإِذا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق/ 2] پھر جب وہ اپنی میعاد ( یعنی انقضائے عدت ) کو پہنچ جائیں تو ان کو ( زوجیت میں ) رہنے دو ۔ میں بلوغ اجل سے عدت طلاق کا ختم ہونے کے قریب پہنچ جا نامراد ہے ۔ کیونکہ عدت ختم ہونے کے بعد تو خاوند کے لئے مراجعت اور روکنا جائز ہی نہیں ہے ۔ بلغتہ الخبر وابلغتہ کے ایک ہی معنی ہیں مگر بلغت ( نفعیل ) زیادہ استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : أُبَلِّغُكُمْ رِسالاتِ رَبِّي [ الأعراف/ 62] تمہیں اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں ۔ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [ المائدة/ 67] اے پیغمبر جو ارشادات خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ ما أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ [هود/ 57] 1. اگر تم رو گردانی کردگے تو جو پیغام میرے ہاتھ تمہاری طرف بھیجا گیا ہے وہ می نے تمہیں پہنچا دیا ہے ۔ 2. اور قرآن پاک میں ایک مقام پر : بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران/ 40] 3. کہ میں تو بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ آیا ہے یعنی بلوغ کی نسبت کبر کی طرف کی گئی ہے ۔ اور دوسرے مقام پر ۔ وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا [ مریم/ 8] 4. اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں ۔ ہے یعنی بلوغ کی نسبت متکلم کی طرف ہے اور یہ ادرکنی الجھد وادرکت الجھد کے مثل دونوں طرح جائز ہے مگر بلغنی المکان یا ادرکنی کہنا غلط ہے ۔ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ ان کفار کی تکالیف پر ویسا ہی صبر کیجیے جیسا ہمت اور یقین والے پیغمبروں یعنی نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) نے صبر کیا تھا یا یہ کہ جیسا کہ صبر اور برداشت والے پیغمبر یعنی نوح، ایوب، زکریا اور یحییٰ (علیہم السلام) نے صبر کیا تھا۔ اور ان کی ہلاکت کے لیے جلدی نہ کیجیے جس روز یہ عذاب کو دیکھیں گے تو معلوم ہوگا یہ لوگ دنیا میں دن بھر میں ایک گھڑی رہے ہیں، یہ چیز ان کو پہنچا دینی ہے۔ کہ جب عذاب کا وقت آئے گا تو اس سے صرف کافر ہی ہلاک ہوں گے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود بھی کفر کیا اور دوسروں کو بھی راہ حق سے روکا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ { فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ } ” تو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ بھی صبر کیجیے جیسے اولوالعزم رسول (علیہ السلام) صبر کرتے رہے ہیں “ ” اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ “ کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ ان سے مراد وہ پانچ پیغمبر ہیں جن کا ذکر قبل ازیں سورة الشوریٰ کی اس آیت میں ہوا ہے : { شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَـیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی } (آیت ١٣) ” (اے مسلمانو ! ) تمہارے لیے دین میں اس نے وہی کچھ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اس نے نوح ( علیہ السلام) کو کی تھی اور جس کی وحی ہم نے (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ کی طرف کی ہے اور جس کی وصیت ہم نے کی تھی ابراہیم (علیہ السلام) کو اور موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو اور عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو…“ گویا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ حضرت نوح ‘ حضرت ابراہیم ‘ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نام اس فہرست میں شامل ہیں۔ البتہ بعض علماء حضرت ہود اور حضرت صالح (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ان کے ساتھ شامل کرتے ہیں اور اس طرح ان کے نزدیک ” اولوالعزمِ منَ الرسل “ کی تعداد سات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں میں ہر پیغمبر کی شخصیت کا کوئی خاص پہلو امتیازی شان کا حامل نظر آتا ہے۔ مثلاً دعوت و تبلیغ کے میدان میں عزم اور استقامت کے لحاظ سے حضرت نوح سب سے آگے ہیں۔ آپ ( علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو دعوت دی اور ان کی طرف سے ہر قسم کی مخالفت اور تکلیف کو برداشت کیا : { فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا } (العنکبوت : ١٤) ۔ اسی طرح ذاتی تکلیف اور بیماری پر صبر کرنے کے اعتبار سے حضرت ایوب کا مرتبہ بہت بلند ہے اور اس لحاظ سے ” صبر ِایوب ( علیہ السلام) “ ضرب المثل کے طور پر مشہور ہے۔ { وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ } ” اور ان کے لیے جلدی نہ کیجیے ! “ اس سے پہلے سورة الزخرف کے اختتام پر بھی ایسی ہی ہدایت دی گئی ہے : { فَاصْفَحْ عَنْہُمْ وَقُلْ سَلٰمٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ } ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ ان سے در گزر کیجیے اور کہیے سلام ہے ‘ تو بہت جلد یہ لوگ جان جائیں گے “۔ پھر سورة الدخان کے آخر میں بھی فرمایا گیا ہے : { فَارْتَقِبْ اِنَّہُمْ مُّرْتَقِبُوْنَ } ” تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتظار کیجیے ‘ یقینا وہ بھی انتظار کر رہے ہیں “۔ ایک ہی گروپ کی ان سورتوں میں ایک جیسے الفاظ اور مفہوم کی حامل ان آیات کی تکرار سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان سورتوں کے نزول کے زمانے میں مکہ کے حالات اہل ایمان کے لیے واقعتابہت سخت تھے اور ان کے لیے ایک ایک دن گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔ ان حالات میں ممکن ہے کبھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں بھی یہ خیال آتا ہو ‘ لیکن اہل ایمان کے ذہنوں میں ایسے سوالات کا آنا بالکل قرین ِقیاس ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دشمنانِ حق کو ہم پر ظلم و ستم ڈھانے کی کھلی چھوٹ آخر کیوں دے رکھی ہے ؟ ان لوگوں پر پہلی نافرمان قوموں کی طرح عذاب کیوں نہیں ٹوٹ پڑتا ؟ بلال (رض) پر تشدد کرتے ہوئے اُمیہ ّبن خلف کے ہاتھ کیوں شل نہیں ہوجاتے ؟ اللہ تعالیٰ تو عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌہے۔ وہ اپنے ان باغیوں کو اتنی ڈھیل کیوں دیے جارہا ہے ؟ چناچہ اس انتہائی نازک صورت حال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے گویا اہل ایمان کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ مشرکین ِمکہ ّپر عذاب کا وقت ابھی نہیں آیا ‘ ابھی اللہ کی مشیت میں ان لوگوں کو کچھ اور مہلت دینا مقصود ہے۔ لہٰذا تم لوگ صبر سے کام لو اور کچھ دیر مزید انتظا رکرو ! { کَاَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوْعَدُوْنَلا لَمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنْ نَّہَارٍ } ” جس دن یہ لوگ دیکھیں گے اس (عذاب) کو جس کی انہیں وعید سنائی جا رہی ہے (تو ایسے محسوس کریں گے) گویا نہیں رہے تھے (دنیا میں) مگر دن کی ایک گھڑی۔ “ { بَلٰغٌج فَہَلْ یُہْلَکُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ } ” یہ پہنچا دینا ہے ! کیا سوائے نافرمان لوگوں کے کوئی اور بھی ہلاک کیا جائے گا ؟ “ یعنی ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری تو ان لوگوں تک اللہ کا یہ پیغام پہنچا کر حجت قائم کردینے کی حد تک ہے ‘ جو انہوں نے ادا کردی ۔ - ۔ اب ہلاک تو وہی ہوں گے جنہوں نے اس دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور نافرمانی کی روش اختیار کی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37 That is, "Just as the Prophets before you went on enduring with patience and ceaseless struggle the indifference, opposition, resistance and persecutions of their people for years on end, so should you also do the same, and do not entertain the idea that either the people should believe in you immediately or. if they do not believe, Allah should visit them with His torment "

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :37 یعنی جس طرح تمہارے پیش رو انبیاء اپنی قوم کی بے رخی ، مخالفت ، مزاحمت اور طرح طرح کی ایذا رسانیوں کا مقابلہ سالہا سال تک مسلسل صبر اور ان تھک جدوجہد کے ساتھ کرتے رہے اسی طرح تم بھی کرو ، اور یہ خیال دل میں نہ لاؤ کہ یا تو یہ لوگ جلدی سے ایمان لے آئے یا پھر اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کر دے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: یعنی آخرت میں پہنچ کر جب وہ عذاب سامنے آئے گا جس سے انہیں مسلسل آگاہ کیا جاتا رہا تھا، تو اس کی شدت دیکھ کر انہیں دنیا کی ساری زندگی اتنی مختصر محسوس ہوگی جیسے وہ صرف ایک دن کا کوئی حصہ ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(46:35) فاصبر۔ جناب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب ہے یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کافروں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کیجئے۔ ان سے انتقام کا ارادہ نہ کیجئے کیونکہ انہیں اپنے کئے پر دوزخ کے عذاب کا تو مزہ چکھنا ہی ہوگا ۔ کما : ک حرف تشبیہ ما موصولہ۔ جیسا کہ (ہمت والے پیغمبروں نے صبر کیا تھا) ۔ اولوا العزم من الرسل : اولوا العزم مضاف مضاف الیہ عزم والے صاحب عزم۔ من تبعیضیہ۔ پیغمبروں میں سے بعض جو اولوالعزم تھے۔ اولوالعزم کون سے پیغمبر تھے علماء کے اس مسئلہ میں مختلف اقوال ہیں اور تفصیلات کسی مستند تفسیر میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ ولا تستعجل وائو عاطفہ لا تستعجل فعل نہیں واحد مذکر حاضر، استعجال استفعال مصدر تو جلدی نہ کر۔ تو عجلت نہ کر، لا تستعجل کا مفعول محذوف ہے۔ ای لا تستعجل لہم العذاب اور ان کے عذاب پانے کے لئے جلدی نہ کیجئے۔ کانہم یوم یرون ما یوعدون لم یلبثوا الا ساعۃ من نھار۔ ای یوم یرون (العذاب) ما یوعدون (یحسبوا) کانہم لم یلبثوا (فی الدنیا) الا ساعۃ من نھار۔ جس دن وہ عذاب کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا تو خیال کریں گے جیسے کہ وہ نہ نہیں ٹھہرے تھے دنیا میں مگر دن کی فقط ایک گھڑی۔ یوم ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہے یا یہ یرون کا مفعول فیہ ہے ما موصولہ یوعدون مضارع جمع مذکر غائب وعد باب ضرب۔ مصدر یعنی جس کا ان سے وعدہ عذاب کیا جا رہا ہے (یحسبوا) وہ خیال کریں گے کانہم میں کان حرف مشانہ بفعل ہے ہم ضمیر جمع مذکر غائب کان کا اسم۔ گویا وہ سب “۔ لم یلبثوا۔ مضارع مجزوم نفی حجد بلم۔ جمع مذکر غائب، لبث (باب سمع مصدر) وہ نہیں ٹھہرے وہ نہیں رہے۔ بلغ۔ پہنچا دینا۔ کافی ہونا۔ قرآن مجید میں یہ لفظ بمعنی تبلیغ آیا ہے۔ بلغ خبر ہے۔ اس کا مبتداء محذوف ای ھذا بلغ ای ھذا القران بلغ من اللہ الی خلقہ یہ قرآن مجید اللہ کی طرف سے اس کی خلقت کی طرف (بہترین) تبلیغ (پیغام پندو نصائح کا پہنچا دینا ہے) ۔ اس معنی میں اور جگہ قرآن مجید میں ہے ان فی ھذا لبلاغا لقوم عابدین۔ (21:106) تحقیق عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں (خدا کے حکموں کی) تبلیغ ہے۔ بلغ بمعنی تبلیغ ای فعال بمعنی فعیل عربی زبان میں اکثر آیا ہے جیسے بلغہ بلغا ای تبلیغا۔ کلمہ کلاما ای تکلیما۔ طلقھا طلاقا سرحھا سراحا ۔ فھل یھلک۔ سوال انکاری ہے۔ یعنی سوائے نافرمان لوگوں کے عذاب سے کوئی ہلاک نہیں کیا جائے گا۔ ھل حرف استفہام ہے بمعنی کیا۔ یھلک مضارع مجہول واحد مذکر غائب اھلاک (افعال) مصدر۔ چونکہ ھل یہاں بطور استفہام انکاری آیا ہے لہٰذا ترجمہ وہ ہوگا جو اوپر دیا گیا ہے۔ القوم الفسقون۔ موصوف وصفت۔ ” فاسق لوگ “۔ صاحب تفسیر الماجدی رقمطراز ہیں :۔ الفسقون یہاں مراد محض گنہگار ہی نہیں بلکہ دائرہ اسلام سے خارج رہنے والے کافر مراد ہیں۔ جن پر تبلیغ حق کا کوئی اثر ہی نہ ہوا۔ فاسق کا اصطلاحی مفہوم اسے کافر سے ممتاز کرنے والا تو بہت بعد کا ہے قرآن مجید میں وہ اپنے وسیع وعمومی مفہوم میں آیا ہے۔ مطلق نافرمان کے مرادف “۔ الفسقون یعنی نصیحت پذیری یا طاعت سے خارج ہوجانے والے۔ (مظہری)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر ہی اولو العزم (ہمت والے) تھے لیکن علمائے سلف نے پانچ پیغمبروں حضرت نوح ابراہیم موسیٰ عیسیٰ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاص طور پر اولالعزم قرار دیا ہے۔ 2 یعنی قیامت کی ہولناکیوں کو دیکھ کر انہیں دنیا میں اپنے عیش و آرام کا زمانہ بہت ہی مختصر معلوم ہوگا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں دستور ہے کہ گزاری مدت تھوڑی معلوم ہوتی ہے۔ 3 یعنی قرآن کے پہنچ جانے کے بعد حجت تمام ہوگئی اب بھی جو شخص نافرمانی میں پڑا رہے گا وہ اپنی شامت خود بلائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کو بےقصور نہیں پکڑا جاتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اولو العزم سے محققین نے سب پیغمبر مراد لئے ہیں، کیونکہ سب کا اہل عزم اور اہل ہمت ہونا ظاہر ہے اور من الرسل میں کلمہ من بیانیہ ہے اور چونکہ حسب ارشاد فضلنا بعضھم علی بعض اس صفت میں بعض رسل علیہ الصلوة والسلام اوروں سے بڑھے ہوئے ہیں، اس بناء پر یہ لقب بعض رسل کا بھی مشہور ہوگیا ہے جیسا کہ اعلام غالبہ میں ہوتا ہے۔ 1۔ یعنی دنیا کی مدت طویلہ قصہ معلوم ہوگی اور یہی معلوم ہو کہ استعجالا عذاب آگیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار نے بالآخر اپنے کفر کی وجہ سے جہنم میں جانا ہے اور وہاں انہیں ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی اس لیے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا کام اولوالعزم رسولوں کی طرح مستقل مزاجی کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صبح وشام کوشش تھی کہ لوگ جہنم کی ہولناکیوں سے بچ جائیں لیکن مخالفینِاسلام کی حالت یہ تھی کہ وہ گمراہی میں آگے ہی بڑھتے جا رہے تھے اس صورتحال پر آپ کا رنجیدہ خاطر ہونا فطری امر تھا جس بناء پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پریشان ہوجاتے۔ اس پر آپ کو موقعہ بموقعہ مختلف الفاظ اور انداز میں یہ بات سمجھائی گئی کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا کام حق بات پہچانا اور سمجھانا ہے منوانا نہیں۔ (لَّسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُسَیْطِرٍ ) (الغاشیہ : ٢٢) ” آپ ان پر نگہبان نہیں۔ “ (فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ ) (الرعد : ٤٠) ” آپ کے ذمے پہنچادینا ہے اور ہمارے ذمے حساب لینا ہے۔ “ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام حق بات پہنچانا ہے تو پھر آپ کو اولو العزم انبیاء کی طرح اپنا کام جاری رکھنا چاہیے اگر یہ لوگ آپ سے عذاب لانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو آپ کو اس کے رد عمل میں عجلت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہی صبر اور عزم کا تقاضا ہے۔ جہاں تک ان کے انجام کا معاملہ ہے ایک دن آئے گا جب یہ سب کچھ دیکھ لیں گے جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے۔ اس کے خوف اور وحشت کی وجہ سے ان کے اوسان خطا ہوجائیں گے جس بناء پر یہ کہیں گے کہ دنیا میں دن کا کچھ حصہ ٹھہرے تھے۔ اس وقت ہلاکت ان کا مقدر ہوگی اور نافرمان لوگ ہلاک ہی ہوا کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے نافرمانوں کے بارے میں یہ بھی بتلایا ہے کہ جب انہیں جہنم کے سامنے کھڑا کیا جائے گا تو ان کی حالت یہ ہوگی کہ خوف کے مارے ان کی آنکھیں نیلی پیلی ہوجائیں گی اور ڈرتے ہوئے ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ہم تو دنیا میں صرف دس دن ٹھہرے تھے۔ ( یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَ نَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَءِذٍ زُرْقًا۔ یَّتَخَافَتُوْنَ بَیْنَہُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا) (طٰہٰ : ١٠٢، ١٠٣) ” اس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو اس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں پتھرائی ہوئی ہوں گی۔ آپس میں چپکے چپکے کہیں گے کہ دنیا میں تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے۔ “ (وَ یَوْمَ یَحْشُرُہُمْ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّاَ اعَۃً مِّنَ النَّہَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَہُمْ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآء اللّٰہِ وَ مَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنَ ) (یونس : ٤٥) ” اور جس دن وہ انھیں اکٹھا کرے گا گویا وہ نہیں ٹھہرے مگر دن کی ایک گھڑی، وہ ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ بیشک وہ لوگ خسارے میں رہے جنھوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہدایت پانے والے نہ ہوئے۔ “ اس آیت مبارکہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” اولوالعزم رسولوں “ کا حوالہ دیا گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام کے تمام رسول صبر وشکر کے پیکر، عزم و استقلال کے پہاڑ اور بےمثال مستقل مزاج تھے۔ لیکن ان میں بھی ایسے رسول ہیں جو عزم و استقلال کے حوالے سے انتہائی ارفع مقام پر فائز تھے۔ مفسرین نے جن انبیاء کرام کو سرفہرست شمار کیا ہے ان میں حضرت نوح (علیہ السلام) جنہوں نے ساڑھے نو سو سال لوگوں کو سمجھانے میں صرف فرمائے۔ ان کے بعد ابو الانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) ہیں جن کی قربانیوں کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ حضرت خلیل (علیہ السلام) کے بعد حضرت موسیٰ کلیم اللہ (علیہ السلام) ہیں جو ایک طرف فرعون اور اس کے لشکروں سے لڑتے رہے اور دوسری طرف اپنے ساتھیوں یعنی بنی اسرائیل کے ہاتھوں پریشان رہے لیکن کسی لمحہ ان کے پایہ استقلال میں تزلزل واقع نہ ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد عیسیٰ ( علیہ السلام) کی باری آتی ہے جو یہودیوں کے ہاتھوں بےانتہا پریشان ہوئے اور آخری اور نازک ترین آزمائش کے وقت چند ساتھیوں کے علاوہ باقی لوگ ان کا ساتھ چھوڑ گئے اس صورتحال میں بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچاتے رہے۔ جہاں تک نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صبرو استقلال اور عزم وہمت کا معاملہ ہے۔ اس کی مثال نہ پہلے پائی جاتی ہے اور نہ ہی قیامت تک دیکھی جائے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَقَدْ أُوذِیتُ فِی اللّٰہِ وَمَا یُؤْذَی أَحَدٌ وَلَقَدْ أُخِفْتُ فِی اللّٰہِ وَمَا یُخَافُ أَحَدٌ۔۔ ) (رواہ ابن ماجہ : باب فضائل بلال، قال الشیخ البانی صحیح) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں مجھے سب سے زیادہ تکلیفیں دی گئیں اتنی تکلیفیں کسی اور کو نہیں دی گئیں۔ مجھے اللہ کے بارے میں سب سے زیادہ ڈرایا گا اتنا کسی اور کو نہیں ڈرایا گیا۔ “ مسائل ١۔ دین کی دعوت اس قدر مشکل ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی صبر اور حوصلہ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ٢۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) تمام کے تمام عزم وہمت کے پیکر تھے لیکن کچھ انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص عزم وہمت کا نمونہ بنایا تھا۔ ٣۔ کفار کے بارے میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے ایک دن آئے گا کہ یہ اللہ کے عذاب کو اپنے سامنے پائیں گے۔ ٤۔ رب ذوالجلال کے جلال اور جہنم کے عذاب کو دیکھ کر مجرم دنیا میں رہنے کی مدت بھول جائیں گے۔ ٥۔ نافرمان قوم کا انجام ہلاکت ہی ہوا کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نافرمان اقوام کا دنیا اور آخرت میں انجام : ١۔ قوم نوح کو غرق کردیا گیا۔ (نوح : ٢٥) ٢۔ آل فرعون کو غرق کردیا گیا۔ (البقرۃ : ٥٠) ٢۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (ھود : ٦٧) ٣۔ قوم عاد کو تیز و تند ہوا نے ہلاک کیا۔ (الحاقہ : ٦) ٤۔ بنی اسرائیل کو اللہ نے ذلیل بندر بنا دیا۔ (البقرۃ : ٦٥) ٥۔ قوم لوط کی بستی کو الٹاکر دیا اور ان پرکھنگر والے پتھر برسائے گئے۔ (الحجر : ٧٤) ٦۔ ان کے گناہ کی پاداش میں پکڑ لیا کسی پر تند ہوا بھیجی، کسی کو ہولناک آواز نے آلیا، کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ کو غرق کردیا۔ (العنکبوت : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جن لوگوں نے کفر کیا ، ان کے فیصلے ، دوٹوک فیصلے کے اس منظر اور اہل ایمان ، جنات کے منظر کے بعد ، اور اس سورت کے آخر میں جس کافروں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے بہت کچھ کہا ، اور قرآن کریم کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا ، اب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری ہدایت دی جاتی ہے کہ آپ صبر کریں ، جلد بازی نہ کریں۔ آپ نے تو اس سورت کے مناظر میں دیکھ لیا کہ ان کا کیا انجام ہونے والا ہے اور یہ بہت ہی قریب ہے۔ فاصبر کما صبرا ۔۔۔۔۔۔۔ القوم الفسقون (٤٦ : ٣٥) ” پس اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، صبر کرو جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا ہے ، اور ان کے معاملہ میں جلدی نہ کرو۔ جس روز یہ لوگ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے تو انہیں معلوم ہوگا کہ جیسے دنیا میں دن کی ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے تھے۔ بات پہنچا دی گئی ، اب کیا نافرمان لوگوں کے سوا اور کوئی ہلاک ہوگا ؟ “ اس آیت کا ہر لفظ ہمارے لئے زاد راہ ہے۔ ہر کلمے اور ہر لفظ کے پیچھے تصاویر ، چھاؤں ، معانی ، اشارات اور فیصلوں اور قدروں کا ایک ذخیرہ ہے۔ فاصبر کما صبرا ۔۔۔۔۔۔ تستعجل لھم (٤٦ : ٣٥) ” پس اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر کرو جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا ہے اور ان کے معاملہ میں جلدی نہ کرو “۔ یہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت ہو رہی ہے اس دور میں آپ پر ظلم اور زیادتیوں کے پہاڑ توڑے جار ہے تھے۔ پوری قوم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور مسلمانوں کے خلاف تشدد میں لگی ہوئی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور یتیم نشوونما پائی تھی اور ابتدائی دور ہی میں ایک ایک کر کے حامیوں اور اولیاء سے محروم کر دئیے گئے تھے۔ باپ گئے ، ماں گئیں ، دادا گئے اور آخر میں چچا گئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفا دار بیوی گئیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ اور اللہ کی دعوت کے لئے فارغ ہوگئے۔ اس طرح اللہ کے سوا ہر سہارے سے محروم ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بمقابلہ اجنبیوں کے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ اذیت ملی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ایک فرد سے ملاقات کی ، ایک ایک قبیلے سے ملاقات کی کہ میری مدد کرو ، لیکن ہر بار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منفی جواب کے ساتھ لوٹے۔ بعض لوگوں نے تو مذاق اڑایا۔ بعض نے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے اوباش لگادئیے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاؤں لہولہان ہوگئے۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ بالا دعا سے زیادہ کچھ نہ کہا۔ اس لیے یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رب ذوالجلال کی طرف سے تسلی کی ضرورت تھی ۔ فاصبر کما صبرا۔۔۔۔۔۔ تستعجل لھم (٤٦ : ٣٥) ” پس اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر کرو جس طرح اولوا لعزم رسولوں نے صبر کیا ہے اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو “۔ اس میں شک نہیں کہ یہ بہت ہی دشوار گزار راستہ ہے ۔ دعوت اسلامی کا راستہ بہت ہی مشکل اور بہت ہی تلخ ہے۔ اس کے لئے تو ذات محمدی کی ضرورت ہے۔ جو ہر طرف سے کٹ جائے ، دعوت کے لی کے یکسو ہوجائے۔ پختگی اور ثبات ، باطن کی صفائی اور شفافی میں رب کی ہدایت پر چلے۔ اللہ کے احکام کے مطابق صبرو ثبات کا مظاہرہ کرے اور دعوت کے مخالفین سے انتقام یا ان کے انجام بد کے لئے شتابی نہ کرے۔ لیکن راستے کی مشقتوں اور زخموں کے لئے مرہم کی بھی ضرورت ہے۔ مشکلات کے لئے صبر ایوبی چاہئے۔ تلخیوں کے لئے ایک میٹھا گھونٹ بھی چاہئے اور یہ میٹھا گھونٹ اللہ کی سربند رحمت کا۔ فاصبر کما صبرا۔۔۔۔۔۔ تستعجل لھم (٤٦ : ٣٥) ” پس اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر کرو جس طرح اولوا لعزم رسولوں نے صبر کیا ہے اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کر “۔ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے جس طرح ایک دن کا ایک گھٹنہ یا گھڑی بھر۔ آخرت سے پہلے تمام زمانہ بھی دراصل ایک گھڑی ہی ہے۔ اس پورے مکان و زمان کے نقوش انسانی ذہن کے پردے پر اتنے بھی نہ رہیں گے جس طرح دن کے چند لمحات کے نقوش ، پھر یہ اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں یہ ابدی دنیا کے دورازے پر ہیں۔ صرف اس قدر وقت ہے کہ ہلاکت سے قبل ان تک پیغام پہنچ جائے۔ بلغ فھل یھلک الا القوم الفسقون (٤٦ : ٣٥) ” بات پہنچا دی گئی ! اب نافرمان لوگوں کے سوا اور کوئی ہلاک ہوگا “۔ نہیں ، کیونکہ اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ لہٰذا ہر داعی کو صبر کرنا چاہئے اور یہ صبر ایک مختصر وقت کے لئے ہے۔ پھر اللہ کے وعدے کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا کہ فاسق ہی ہلاک ہوں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور صبر کی تلقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اور محنت اور جدوجہد برابر جاری رہی آپ کے مخاطبین انکار وعناد پر تلے ہوئے تھے اس سے آپ کو رنج ہوتا تھا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دینے اور صبر کی تلقین کرنے کے لیے فرمایا ﴿ فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ﴾ (سو آپ صبر کیجیے جیسے ہمت والے پیغمبروں نے صبر کیا) ﴿ وَ لَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ ١ؕ﴾ (ان لوگوں کے لیے جلدی نہ کیجیے) یعنی ان پر جلدی عذاب آجائے اس فکر میں نہ پڑئیے ﴿ كَاَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ ١ۙ لَمْ يَلْبَثُوْۤا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّهَارٍ ١ؕ﴾ جس دن یہ لوگ وعدہ کی چیز کو دیکھیں گے گویا کہ دن کی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ٹھہرے یعنی عذاب میں دیر لگ رہی ہے وہ اس کی وجہ سے یہ سمجھ رہے ہیں کہ عذاب نہیں آئے گا لیکن جب عذاب آجائے گا تو وہ یوں سمجھیں گے کہ دنیا میں جو زندگی گزاری وہ صرف ایک گھڑی ہی تھی دنیا کی لمبی زندگی کو جس میں خوب مزے کیے اسے شدت عذاب کی وجہ سے بھول جائیں گے۔ ﴿ بَلٰغٌ١ۚ﴾ یہ مبتداء محذوف کی خبر ہے یعنی یہ جو کچھ تمہیں بتایا گیا سنایا گیا نصیحت اور موعظت کے اعتبار سے کافی ہے، بعض حضرات نے فرمایا کہ ھٰذا جو محذوف ہے اس کا مشار الیہ قرآن مجید ہے، مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم نے اللہ کی طرف سے تمہیں حق پہنچا دیا ثواب کی چیزیں بھی بتادیں گناہ کے کاموں سے بھی آگاہ کردیا تبلیغ کا حق ادا کردیا اب عمل نہ کرو گے تو عذاب میں گرفتار ہوگے۔ ﴿ فَهَلْ يُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ (رح) ٠٠٣٥﴾ (سو عذاب کے ذریعہ فاسق لوگ ہی ہلاک ہوں گے) جو اللہ کے باغی ہیں اس کی فرمانبرداری سے دور ہیں۔ فائدہ : آیت کریمہ میں جو ﴿ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ﴾ فرمایا ہے بعض حضرات کے نزدیک مِنْ بیانیہ ہے اور ان حضرات کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام رسول اولوالعزم یعنی ہمت اور حوصلہ والے تھے جیسے ان حضرات نے صبر کیا آپ بھی صبر کیجیے اس کی تفسیر کی بناء پر تمام انبیاء کرام اور رسل عظام (علیہ السلام) اولوا العزم کی صفت سے متصف تھے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ مِنْ تبعیضیہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو رسول بھیجے تھے ان میں جو اولوالعزم تھے آپ ان کا اتباع کیجیے جب یہ تفسیر کردی گئی تو یہ سمجھنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ان حضرات میں کون کون اولوا العزم تھے پھر ان حضرات کے نام تجویز کیے گئے کسی نے صرف حضرت یونس (علیہ السلام) کا استثناء کیا اور کہا کہ وہ اہل عزم نہیں تھے کیونکہ انہوں نے اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے جانے میں جلدی کی تھی اور اللہ تعالیٰ شانہٗ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے ﴿وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ ﴾ فرمایا ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اولوا العزم سے وہ حضرات مراد ہیں جو سورة انعام کی آیات ﴿وَ تِلْكَ حُجَّتُنَاۤ ﴾ میں مذکور ہیں اور یہ اٹھارہ ہیں ان کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا ﴿ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ﴾ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت دی اور آپ ان کی ہدایت کا اتباع کیجیے اور حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ اولوا العزم سے وہ حضرات مراد ہیں جو اصحاب شرائع تھے یعنی حضرت نوح اور حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) یہ چار ہیں پانچویں صاحب شریعت سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب قال العبد الفقیر ان القول الاوّل اصح لان سیاق الکلام یدل علی کثرتھم لا علی عدد قلیل فتدبر (بندہ عاجز کہتا ہے کہ پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ سیاق کلام ان کی کثرت پر دلالت کرتا ہے نہ کہ قلت پر، پس غور کرنا چاہیے۔ ) وھذا آخر تفسیر سورة الاحقاف انعم اللّٰہ بتمامہ وحسن ختامہ وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی سید رسلہ محمد المصطفیٰ وعلی آلہ وصحبہ اولی الاحلام والنھی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28:۔ ” فاصبر۔ الایۃ “ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلیہ ہے۔ اولوالعزم انبیاء سے حضرت نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) مراد ہیں (ابن کثیر) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کی مسلسل مخالفت اور ان کے معاندانہ رویہ سے سخت آزردہ خاطر تھے اور آپ کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ ان پر عذاب نازل ہو تو آپ کو تسلی دی گئی کہ آپ حوصلہ کریں اور اولو العزم پیغمبروں کی طرح صبر و تحمل سے کام لیں اور ان معاندین کے لیے فوری عذاب کی دعا نہ فرمائیں۔ ان پر عذاب ضرور آئیگا لیکن اپنے وقت پر آئیگا۔ ای لاتدع علی کفار قریش بنزول العذاب علیہم فانا بہم فی وقتہ لا محالۃ، کانہ ضجر و ضاق قلبہ بکثرۃ مخالفات قومہ فاحب ان ینزل العذاب بمن ابی منہم فامر بالصبر وترک الاستعجال (مظہری ج 8 ص 418) ۔ 29:۔ ” کانہم یوم یرونہا “ یہ معاندین دنیا میں بھی عذاب کا مزہ چکھیں گے اور قیامت بھی تو کوئی دور نہیں جب وہ سخت ترین عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے جب وہ قیامت کے ہولناک عذاب میں مبتلا ہوں گے تو انہیں دنیا کا آرام و سکون بھول جائیگا اور انہیں دنیا کی زندگی محض یک روزہ معلوم ہوگی اور انہیں ایسا محسوس ہوگا کہ دنیا میں وہ صرف ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ٹھہرے۔ ” بلاغ “ ای ھذا بلاغ، یہ تمام حوامیم کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ مضامین جو تمہیں سنائے گئے ہیں یہ کافی دعوت و تبلیغ ہے اور ان سے اتمام حجت ہوچکی ہے اب اس کے بعد نہ ماننے والے فساق وفجار اور خدا کے باغیوں کیلئے دنیا میں تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ سورة احقاف میں آیات توحید 1 ۔ ” قل ارایتم ما تدعون من دون اللہ “ تا ” وھم عن دعائہم غافلون “ (رکوع 1) ۔ نفی شرک اعتقادی 2 ۔ ” قل ما کنت بدعا من الرسل۔ الایۃ ‘ نفی علم غیب از نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 3 ۔ ” الا تعبدوا الا اللہ “ (رکوع 3) ۔ نفی شرک فی العبادۃ۔ 4 ۔ ” فلولا نصرہم الذین اتخذوا من دون اللہ “ الایۃ۔ (رکوع 4) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ سورة الاحقاف ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(35) پس اے پیغمبر جس طرح اور دوسرے ہمت والے اور اولوالعزم رسولوں نے صبر کا شیوہ اختیار کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی صبر کرتے رہیے اور شیوہ صبر پر قائم رہیے اور ان منکروں کے لئے عذاب کی جلدی نہ کیجئے کیونکہ جس دن یہ لوگ اس چیز یعنی عذاب کو دیکھیں گے جس عذاب کا ان کا وعدہ دیا جارہا ہے اور جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے تو یوں سمجھیں گے گویا وہ دنیا میں نہیں ٹھہرے مگر پورے دن میں سے کوئی گھڑی بھر رہے ہوں گے۔ یہ قرآن یا یہ پیام اتمام حجت کی غرض سے پہنچا دینا ہے پس اب وہی لوگ تباہ کئے جائیں گے جو نافرمان اور دین حق کا انکار کرنے والے ہیں۔ یوں تو سب ہی رسول الوالعزم ہیں لیکن ان میں جو مخصوص طور پر صفت صبر کے ساتھ متصف ہیں ان کی طرف اشارہ ہے کہ آپ بھی ان کی طرح صبر اور سہارا کا شیوہ اختیار کیجئے اور عذاب الٰہی کی جلدی نہ کیجئے کیونکہ جب وہ عذاب موعود آئے گا تو یہ بدبخت یہی سمجھیں گے کہ بہت جلد آیا، کیونکہ ان کو دنیا میں یا قبر میں یا دونوں جگہ رہنے کی مدت کا یہ اندازہ ہوگا کہ دن کی ایک گھڑی رہے اور عذاب جلدی آگیا آپ کا کام اس قرآن کو یا ہمارے پیام کو یا دین برحق کو پہنچا دینا ہے سو آپ نے پہنچا دیا اب حق پہنچنے کے بعد وہی لوگ ہلاک وتباہ کئے جائیں گے جو نافرمانی کے خوگر ہیں کیونکہ اتمام حجت ہوچکا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ڈھیل نہ پائی تھی دنیا میں یعنی اب تو دیر سمجھتے ہیں کہ عذاب کیوں نہیں آتا اس دن جائیں گے کہ بہت شتاب آیا دنیا میں رہنا ایک گھڑی یا عالم قبر کا رہنا ایک گھڑی معلوم ہوگا۔ دستور ہے کہ گزری مدت تھوڑی معلوم ہوتی ہے۔ تم تفسیر سورة الاحقاف