Surat ul Ehkaaf

Surah: 46

Verse: 7

سورة الأحقاف

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہُمۡ ۙ ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ؕ﴿۷﴾

And when Our verses are recited to them as clear evidences, those who disbelieve say of the truth when it has come to them, "This is obvious magic."

اور انہیں جب ہماری واضح آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو منکر لوگ سچی بات کو جب کہ ان کے پاس آچکی ، کہہ دیتے ہیں کہ یہ توصریح جادو ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Refuting Claims of the Idolators about the Qur'an and the Messenger Allah says, وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ ايَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءهُمْ ... And when Our Clear Ayat are recited to them, the disbelievers say of the truth when it reaches them: Concerning the disbelief and rebellion of the idolators, Allah says that when the clear Ayat of Allah are recited to them they say; ... هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ "This is plain magic!" meaning, simple magic. In this statement of theirs, they have lied, invented a falsehood, went astray and disbelieved.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار بےبسی مشرکوں کی سرکشی اور ان کا کفر بیان ہو رہا ہے کہ جب انہیں اللہ کی ظاہر و باطن واضح اور صاف آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو ہے تکذیب و افترا ، ضلالت و کفر گویا ان کا شیوہ ہو گیا ہے ۔ جادو کہہ کر ہی بس نہیں کرتے بلکہ یوں بھی کہتے ہیں کہ اسے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے گھڑ لیا ہے ۔ پس نبی کی زبانی اللہ جواب دلواتا ہے کہ اگر میں نے ہی اس قرآن کو بنایا ہے اور میں اس کا سچا نبی نہیں تو یقینًا وہ مجھے میرے اس جھوٹ اور بہتان پر سخت تر عذاب کرے گا اور پھر تم کیا سارے جہان میں کوئی ایسا نہیں جو مجھے اس کے عذابوں سے چھڑا سکے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللّٰهِ اَحَدٌ ڏ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا 22؀ۙ ) 72- الجن:22 ) ، یعنی تو کہہ دے کہ مجھے اللہ کے ہاتھ سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ اس کے سوا کہیں اور مجھے پناہ کی جگہ مل سکے گی لیکن میں اللہ کی تبلیغ اور اس کی رسالت کو بجا لاتا ہوں ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ 44 ؀ۙ ) 69- الحاقة:44 ) ، یعنی اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا ، تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے اور تم میں سے کوئی بھی اسے نہ بچا سکتا پھر کفار کو دھمکایا جا رہا ہے کہ تمہاری گفتگو کا پورا علم اس علیم اللہ کو ہے وہی میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا ۔ اس کی دھمکی کے بعد انہیں توبہ اور انابت کی رغبت دلائی جا رہی ہے اور فرماتا ہے وہ غفور و رحیم ہے اگر تم اس کی طرف رجوع کرو اپنے کرتوت سے باز آؤ تو وہ بھی تمہیں بخش دے گا اور تم پر رحم کرے گا ۔ سورہ فرقان میں بھی اسی مضمون کی آیت ہے ۔ فرمان ہے آیت ( وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا Ĉ۝ ) 25- الفرقان:5 ) ، یعنی یہ کہتے ہیں کہ یہ اگلوں کی کہانیاں ہیں جو اس نے لکھ لی ہیں اور صبح شام لکھائی جا رہی ہیں تو کہدے کہ اسے اس اللہ نے اتارا ہے جو ہر پوشیدہ جو جانتا ہے خواہ آسمانوں میں ہو خواہ زمین میں ہو وہ غفور و رحیم ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میں دنیا میں کوئی پہلا نبی تو نہیں ۔ مجھ سے پہلے بھی تو دنیا میں لوگوں کی طرف رسول آتے رہے پھر میرے آنے سے تمہیں اس قدر اچنبھا کیوں ہوا ؟ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ بقول حضرت ابن عباس اس آیت کے بعد آیت ( لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْمًا Ą۝ۙ ) 48- الفتح:2 ) ، اتری ہے ۔ اسی طرح حضرت عکرمہ ، حضرت حسن ، حضرت قتادہ بھی اسے منسوخ بتاتے ہیں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب آیت بخشش اتری جس میں فرمایا گیا تاکہ اللہ تیرے اگلے پچھلے گناہ بخشے تو ایک صحابی نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو اللہ نے بیان فرما دیا کہ وہ آپ کے ساتھ کیا کرنے والا ہے پس وہ ہمارے ساتھ کیا کرنے والا ہے ؟ اس پر آیت ( لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِيْمًا Ĉ۝ۙ ) 48- الفتح:5 ) اتری یعنی تاکہ اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں صحیح حدیث سے بھی یہ تو ثابت ہے کہ مومنوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو مبارک ہو فرمائیے ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری حضرت ضحاک اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا حکم دیا جاؤ اور کس چیز سے روک دیا جاؤں؟ امام حسن بصری کا قول ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ آخرت کا انجام تو مجھے قطعًا معلوم ہے کہ میں جنت میں جاؤں گا ہاں دنیوی حال معلوم نہیں کہ اگلے بعض انبیاء کی طرح قتل کیا جاؤں یا اپنی زندگی کے دن پورے کر کے اللہ کے ہاں جاؤں ؟ اور اسی طرح میں نہیں کہہ سکتا کہ تمہیں دھنسایا جائے یا تم پر پتھر برسائے جائیں امام ابن جریر اسی کو معتبر کہتے ہیں اور فی الواقع ہے بھی یہ ٹھیک ۔ آپ بالیقین جانتے تھے کہ آپ اور آپ کے پیرو جنت میں ہی جائیں گے اور دنیا کی حالت کے انجام سے آپ بےخبر تھے کہ انجام کار آپ کا اور آپ کے مخالفین قریش کا کیا حال ہو گا ؟ آیا وہ ایمان لائیں گے یا کفر پر ہی رہیں گے اور عذاب کئے جائیں گے یا بالکل ہی ہلاک کر دئیے جائیں گے لیکن جو حدیث مسند احمد میں ہے حضرت ام العلاء فرماتی ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی کہ جس وقت مہاجرین بذریعہ قرعہ اندازی انصاریوں میں تقسیم ہو رہے تھے اس وقت ہمارے حصہ میں حضرت عثمان بن مظعون آئے آپ ہمارے ہاں بیمار ہوئے اور فوت بھی ہوگئے جب ہم آپ کو کفن پہنا چکے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لاچکے تو میرے منہ سے نکل گیا اے ابو السائب اللہ تجھ پر رحم کرے میری تو تجھ پر گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ یقینا تیرا اکرام ہی کرے گا ۔ اس پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ یقینا اس کا اکرام ہی کرے گا ۔ میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں مجھے کچھ نہیں معلوم پس آپ نے فرمایا سنو ان کے پاس تو ان کے رب کی طرف کا یقین آپہنچا اور مجھے ان کیلئے بھلائی اور خیر کی امید ہے قسم ہے اللہ کے باوجود رسول ہونے کے میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ اس پر میں نے کہا اللہ کی قسم اب اس کے بعد میں کسی کی برات نہیں کروں گی اور مجھے اس کا بڑا صدمہ ہوا لیکن میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عثمان بن مظعون کی ایک نہر بہہ رہی ہے میں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ ان کے اعمال ہیں یہ حدیث بخاری میں ہے مسلم میں نہیں اور اس کی ایک سند میں ہے میں نہیں جانتا باوجودیکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ دل کو تو کچھ ایسا لگتا ہے کہ یہی الفاظ موقعہ کے لحاظ سے ٹھیک ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی یہ جملہ ہے کہ مجھے اس بات سے بڑا صدمہ ہوا ۔ الغرض یہ حدیث اور اسی کی ہم معنی اور حدیثیں دلالت ہیں اس امر پر کہ کسی معین شخص کے جنتی ہونے کا قطعی علم کسی کو نہیں نہ کسی کو ایسی بات زبان سے کہنی چاہیے ۔ بجز ان بزرگوں کے جن کے نام لے کر شارع علیہ السلام نے انہیں جنتی کہا ہے جیسے عشرہ مبشرہ اور حضرت ابن سلام اور عمیصا اور بلال اور سراقہ اور عبداللہ بن عمرو بن حرام جو حضرت جابر کے والد ہیں اور وہ ستر قاری جو بیرمعونہ کی جنگ میں شہید کئے گئے اور زید بن حارثہ اور جعفر اور ابن رواحہ اور ان جیسے اور بزرگ رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ پھر فرماتا ہے نبی تم کہدو کہ میں تو صرف اس وحی کا مطیع ہوں جو اللہ کی جناب سے میری جانب آئے اور میں تو صرف ڈرانے والا ہوں کہ کھول کھول کر ہر شخص کو آگاہ کر رہا ہوں ہر عقلمند میرے منصب سے باخبر ہے ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] کافر قرآن کو جادو کیوں کہتے تھے ؟:۔ کفار مکہ کے قرآن کو صریح جادو کہنے کی دو وجوہ تھیں ایک یہ کہ اس کلام میں بلا کی تاثیر تھی جو بھی یہ کلام سنتا اس کے دل میں اتر جاتا تھا۔ کافر خود بھی قرآن کی اس تاثیر کے معترف اور اس سے متاثر ہوجاتے تھے۔ مگر چونکہ وہ خود اس کو نہ ماننے کا تہیہ کرچکے تھے اس لیے قرآن کی اس خوبی کو بھی برے انداز میں پیش کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ صریح جادو یا جادو کا کرشمہ یا جادو کا سا اثر رکھتا ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جادوگروں کا عموماً یہ کام ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان پھوٹ ڈال دیں یا رشتہ داروں کو آپس میں لڑا دیں۔ ادھر صورت حال یہ تھی کہ جو شخص اسلام لے آتا تھا۔ وہ اس کے مقابلہ میں اپنے کسی رشتہ دار کی پروا نہیں کرتا تھا۔ اس لحاط سے بھی کافر قرآن کو جادو اور آپ کو جادو گر کہہ دیتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

واذا تتلی علیھم ایتنا بینت …: قرآن پر ایمان نہ لانے کے لئے وہ جو بہانے کرتے تھے ان کا ذکر ہو سامنے ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں یہ کھلا جادو ہے) مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(واذا تتلی علیھم ایتنا بینت قال الذین کفروا اللحق لما جآء ھم ھذا سخرمبین)” اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا حق کے بارے میں، جب وہ ان کے پاس آیا، کہتے ہیں یہ کھلا جادو ہے۔ “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اختصار کے بجائے تین باتوں ” قال الذین کفوا “ ، ” للحق “ اور ” لما جآء ھم “ کی صراحت فرمائی۔ (قال الذین کفروا “ کا مقصد یہ ہے کہ ان کے جھٹلانے کا اصل باعث ان کا فکر و انکار ہے، جب کوئی طے کرلے کہ ماننا ہی نہیں تو بڑی سے بڑی دلیل بھی اس کے لئے بےکار ہے، جیسا کہ فرمایا :(ان الذین کفروا سوآء علیھم ، انذرتھم ام لم تنذرھم لایومنون) (البقرہ : ٦)” بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ان پر برابر ہے، خواہ تو نے انھیں ڈرایا ہو یا انہیں نہ ڈرایا ہو ایمان نہیں لائیں گے۔ “ ” للحق “ کہہ کر آیات بینات کی عظمت و اہمیت اور کفار کی بدنصیبی نمایاں فرمائی کہ دیکھو وہ اس چیز کو جادو کہہ رہے ہیں جو حق ہے، جب کہ جادو سراسر باطل ہوتا ہے اور ” لما جآء ھم “ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان کے پاس حق نہ آتا تو انہیں معذور سمجھا جاتا، حق آنے کے بعد اسے جادو کہنا بہت بڑی جرأت ہے۔ “ واذا تتلی علیھم “ اور ہی انہیں جھٹلا دیتے ہیں اور جب جھٹلانے کے لئے کوئی معقول وجہ نہیں پاتے تو اس کی شدت تاثیر کی وجہ سے اسے جادو کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں، حالانکہ کہاں جادو اور کہاں یہ پاکیزہ اور عظیم الشان کلام، جس کی ایک سورت کی مثال وہ نہ لاسکے نہ لاسکتے ہیں اور کہاں نجس اور پلید جادوگر اور کہاں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا پاک باز اور صادق و امین انسان، جس کی پاک بازی اور صدق و امانت کا انھیں نبوت سے چالیس برس پہلے کا بھی تجربہ تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور جب ہماری کھلی کھلی آیتیں (جو کہ معجزہ ہونے کے باعث رسالت کی دلیل ہیں) ان (منکر رسالت) لوگوں کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو یہ منکر لوگ اس سچی بات کی نسبت جبکہ وہ ان تک پہنچتی ہے یوں کہتے ہیں کہ یہ صریح جادو ہے (حالانکہ جادو کی نظیر کا ممکن ہونا اور اس کی نظیر کا ممکن نہ ہونا اس قول کے بطلان کی صریح دلیل ہے اور اس سے بڑھ کر اور سنو) کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے (یعنی آپ نے نعوذ باللہ) اس (قرآن) کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے (اور خدا کی طرف منسوب کردیا۔ آگے اس قول کا جواب ہے کہ) آپ کہہ دیجئے کہ اگر میں نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہوگا (اور خدا کے ذمہ لگا دیا ہوگا) تو (خدا تعالیٰ اپنی عادت کے موافق لوگوں کو دھوکہ سے بچانے کے لئے مجھ کو نبوت کے جھوٹے دعوے پر جلد ہی ہلاک کر دے گا) پھر (جب وہ مجھ کو ہلاک کرنے لگے گا تو) تم (یا اور) لوگ مجھ کو خدا (کے عذاب) سے ذرا بھی نہیں بچا سکتے (مطلب یہ کہ نبوت کے جھوٹے دعوے پر عذاب کا ہونا ایسا لازمی ہے کہ میرا کوئی حامی و مددگار بھی اسے نہیں روک سکتا۔ مگر مجھ کو عذاب نہیں ہوا۔ یہ دلیل ہے اس کی کہ میں اپنے دعویٰ نبوت میں جھوٹا نہیں اور جب میں جھوٹا نہیں تو یہ سمجھ رکھو کہ) وہ خوب جانتا ہے تم قرآن میں جو جو باتیں بنا رہے ہو ( اسلئے تم کو سزا ہوگی غرض یہ کہ) میرے اور تمہارے درمیان (صدق و کذب کا فیصلہ کرنے کے لئے) وہ کافی گواہ (یعنی باخبر) ہے (لہٰذا اگر میں جھوٹا ہوں گا مجھ کو فوراً عذاب دے گا اور اگر تم جھوٹے ہو گے تو تم کو جلد یا بدیر عذاب دے گا) اور (اگر کسی کو یہ شبہ ہوا کہ جب وہ ہماری باتوں سے واقف ہے اور پھر بھی ہم پر عذاب نہیں آیا تو جس طرح مدعی نبوت پر عذاب نہ آنا اس کی سچائی کی دلیل ہے اسی طرح ہم منکروں پر عذاب نہ آنا ہماری سچائی کی دلیل بن سکتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ) وہ بڑی مغفرت والا ہے ( اس لئے مغفرت کی بعض اقسام مثلاً دنیا میں کافروں پر عذاب نہ آنا بھی واقع کردیتا ہے اور) بڑی رحمت والا ہے ( اس لئے رحمت کی بعض اقسام بھی جس کو رحمت عامہ کہتے ہیں کفار کے لئے بھی واقع کردیتا ہے۔ لہٰذا منکرین کے انکار پر دنیا میں عذاب نہ ہونا ان کے صدق کی دلیل نہیں، برخلاف مدعی نبوت کے کہ وہاں جھوٹا دعویٰ اور عذاب کا نزول دونوں لازم و ملزوم ہیں کیونکہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے کو دنیا میں عذاب نہ دینا لوگوں کی گمراہی کا سبب بن سکتا ہے بخلاف دوسرے مجرموں کے آگے اثبات نبوت کی تاکید ہے کہ) آپ کہہ دیجئے کہ میں کوئی انوکھا رسول تو ہوں نہیں (کہ تمہارے لئے باعث تعجب ہو کیونکہ مجھ سے پہلے بہت سے پیغمبر آ چکے ہیں جن کی خبر تواتر سے تم نے بھی سنی ہے) اور (اسی طرح کسی اور عیجب بات کا بھی میں دعویٰ نہیں کرتا جیسا کہ مثلاً علم غیب ہے، چناچہ میں خود کہتا ہوں کہ مجھ کو غیب کی باتوں میں سے صرف وہ معلوم ہیں جو وحی سے مجھے بتادی گئی ہیں، غیب کی اور کسی بات کی خبر مجھے نہیں حتی کہ) میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ (یہ معلوم کہ) تمہارے ساتھ (کیا کیا جائے گا۔ لہٰذا جب اپنے اور تمہارے آئندہ حالات کے علم کا میں مدعی نہیں ہوں تو دور کی غیبی باتوں کے بارے میں تو کیا دعویٰ کرتا، البتہ جن امور کا علم وحی سے ہوگیا ہے خواہ وہ اپنے متعلق ہوں یا غیر کے اور خواہ دنیا کے حالات ہوں یا آخرت کے ان کا علم بیشک کامل ہے۔ چناچہ آگے ارشاد ہے کہ) میں تو (علم و عمل میں) صرف اسی کا اتباع کرتا ہوں جو میرے پاس وحی کے ذریعہ سے آتا ہے اور (اسی کی تبلیغ بھی کرتا ہوں اور اگر تم اس کو نہیں مانتے تو میرا کوئی نقصان نہیں کیونکہ) میں تو صرف صاف صاف ڈرانے والا ہوں (جس کو میں دلائل سے ثابت کرچکا ہوں اور اوپر جو الزام افترا کی تردید ”(آیت) هُوَ اَعْلَمُ بِمَا تُفِيْضُوْنَ فِيْهِ سے اجمالاً کی گئی تھی آگے اس کی تفصیل کے طور پر ارشاد ہے کہ) آپ کہہ دیجئے کہ تم مجھ کو یہ بتلا دو کہ اگر یہ قرآن منجانب اللہ ہو اور (پھر) تم اس کے منکر ہو اور (کسی دلیل سے اس کے منجانب اللہ ہونے کی مزید تائید بھی ہوجائے مثلاً ایسی دلیل ہے کہ) بنی اسرائیل (کے علماء) میں سے کوئی (معتبر) گواہ (جو علم و دیانت کے اعتبار سے مسلم و معتبر ہو اور ایک ہو یا زیادہ ماضی میں ہو یا حال میں یا مستقبل میں) اسی جیسی کتاب (یعنی اس کتاب کے منجانب اللہ ہونے) پر گواہی دے کر ایمان لے آئے اور تم (باوجود بےعلم ہونے کے اس کتاب پر ایمان لانے سے تکبر ہی میں رہو (تو اس صورت میں تم سے زیادہ بےانصاف کون ہوگا اور بےانصاف لوگوں کی یہ حالت ہے کہ) بیشک اللہ تعالیٰ بےانصاف لوگوں کو (ان کے عناد کے باعث) ہدات نہیں کیا کرتا (بلکہ ہمیشہ گمراہی میں رہتے ہیں اور گمراہی کا انجام آگ ہے۔ )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَہُمْ۝ ٠ۙ ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ۝ ٧ۭ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ تلو ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ، أراد به هاهنا الاتباع علی سبیل الاقتداء والمرتبة،. والتلاوة تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔ مبینبَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جب مکہ کے کافروں کے سامنے قرآن کریم پڑھ کر سنایا جاتا ہے جو کہ اوامرو نواہی کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے تو یہ کفار مکہ قرآن کریم کے بارے میں جب رسول اکرم قرآن کو ان کے پاس لے کر آتے ہیں کہہ دیتے ہیں کہ معاذ اللہ یہ تو صاف جھوٹ ہے اور مزید برآں کہتے ہیں کہ محمد نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧{ وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہُمْ ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ} ” اور جب انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ہماری آیت ِبینات ‘ ّتو یہ کافر کہتے ہیں حق کے بارے میں ‘ جبکہ وہ ان کے پاس آگیا ‘ کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 It means: When the Revelations of the Qur'an were recited before the disbelievers of Makkah, they realized that the Qur'an was far superior to human speech. The compositions of their greatest poets, orators and literary men were no match with the un-paralleled eloquence, enchanting oratory, sublime themes and heart-moving style of the Qur'an. Above all, even the Holy Prophet's own words and speech were not comparable with the discourses that were being sent down to him by God. Those who had known him since childhood knew full well the vast difference that was there between his language and words and the words of the Qur'an, and it was not possible for them to believe that a man who had been living day and night among them for forty years would suddenly one day forge a speech .whose diction and style would bear no resemblance with his familiar and known manner of speech and style. This thing trade the truth plain before them, but since they were bent upon denial, they would say: "This is plain magic," instead of acknowledging it as Divine Word after witnessing this manifest Sign. (They regarded the Qur'an as magic from another aspect also, which we have explained in our commentary of Al-Anbiya' :3 and E:.N. 5 of Surah Suad).

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :8 اس کا مطلب یہ ہے کہ جب قرآن کی آیات کفار مکہ کے سامنے پڑھی جاتی تھیں تو وہ صاف یہ محسوس کرتے تھے کہ اس کلام کی شان انسانی کلام سے بدرجہا بلند ہے ۔ ان کے کسی شاعر ، کسی خطیب ، اور کسی بڑے سے بڑے ادیب کے کلام کو بھی قرآن کی بے مثل فصاحت و بلاغت ، اس کی وجد آفرین خطابت ، اس کے بلند مضامین اور دلوں کو برما دینے والے انداز بیان سے کوئی مناسبت نہ تھی ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے کلام کی شان بھی وہ نہ تھی جو خدا کی طرف سے آپ پر نازل ہونے والے کلام میں نظر آتی تھی ۔ جو لوگ بچپن سے آپ کو دیکھتے چلے آ رہے تھے وہ خوب جانتے تھے کہ آپ کی زبان اور قرآن کی زبان میں کتنا عظیم فرق ہے ، اور ان کے لیے یہ باور کرنا ممکن نہ تھا کہ ایک آدمی جو چالیس پچاس برس سے شب و روز ان کے درمیان رہتا ہے وہ یکایک کسی وقت بیٹھ کر ایسا کلام گھڑ لیتا ہے جس کی زبان میں اس کی اپنی جانی پہچانی زبان سے قطعاً کوئی مشابہت نہیں پائی جاتی ۔ یہ چیز ان کے سامنے حق کو بالکل بے نقاب کر کے لے آتی تھی ۔ مگر وہ چونکہ اپنے کفر پر اڑے رہنے کا فیصلہ کر چکے تھے ، اس لیے اس صریح علامت کو دیکھ کر سیدھی طرح اس کلام کو کلام وحی مان لینے کے بجائے یہ بات بناتے تھے کہ یہ کوئی جادو کا کرشمہ ہے ۔ ( ایک اور پہلو جس کے لحاظ سے وہ قرآن کو جادو قرار دیتے تھے ، اس کی تشریح ہم اس سے پہلے کر چکے ہیں ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الانبیاء ، حاشیہ ۵ ۔ جلد چہارم ، تفسیر سورہ ص ، حاشیہ 5 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(46:7) واذا۔ اوپر 46:6 ملاحظہ ہو۔ تتلی : مضارع واحد مؤنث غائب تلاوۃ باب نصر، مصدر۔ وہ پڑھی جاتی ہے۔ اس کی تلاوت کی جاتی ہے۔ ایتنا بینت : ایتنا مضاف، مضاف الیہ۔ ہماری آیات، بینت جمع ہے بینۃ کی۔ بمعنی روشن ۔ واضح۔ کھلی، آیات کی صفت ہے۔ ہماری روشن اور واضح آیات۔ للحق۔ سچی بات کو۔ حق کی بابت۔ حق سے مراد آیات ہیں۔ کفروا کے ساتھ صراحۃ للحق کہنے سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ آیات حق اور سچ ہیں۔ اور یہ لوگ بلا شبہ کافر، گمراہ اور حق کے منکر ہیں۔ لما جاء ہم میں مبادرت اور عدم تدبر کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ حق کی بات یعنی آیات بینات جوں ہی ان کو پہنچیں تو انہوں نے بغیر سوچے سمجھے اور بغیر غور کئے فورا کہہ دیا کہ یہ (آیات بینات یعنی قرآن) صریح جادو ہے۔ جاء میں ضمیر فاعل حق کی طرف راجع ہے۔ ھذا۔ ای القران (الخازن) الحق۔ سحر مبین۔ موصوف وصفت، کھلا جادو۔ صریح جادو۔ صاف و عیاں جادو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 سچی بات سے مراد قرآن ہے۔ کفار مکہ قرآن کو صریح جادو اس لئے کہتے تھے ایک طرف تو وہ اسے خدائی کلام ماننے کیلئے تیار نہ تھے اور دوسری طرف ان کے دل گواہی دیتے تھے کہ کوئی انسان اسجیسا کلام تصنیف کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا ہے۔ اس لئے وہ لوگوں کو قرآن سے بدظن کرنے کیلئے یہ مشہور کرتے کہ یہ صریح جادو ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح آیات 7 تا 12 قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنا قرآن مجید نازل کیا اور اپنے آخری نبی اور رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا تاکہ ہر شخص زندگی کے صحیح راستے پر چل کر آخرت کی حقیقی زندگی تک کامیابی کے ساتھ پہنچ سکے۔ قرآن کریم سب سے پہلے مخاطب مکہ مکرمہ کے وہ عرب تھے جنہیں اپنی عربی زبان پر اس قدر گھمنڈ تھا کہ وہ اپنے علاوہ ساری دنیا کو عجم یعنی گونگا کہا کرتے تھے ۔ ان کا گمان یہ تھا کہ ان کے علاوہ ساری دنیا کے پاس زبان اور بیان کی وہ طاقت ہی نہیں ہے جس سے وہ اپنے دلی جذبات کا پوری طرح اظہارکر سکیں۔ لیکن جب قرآن کریم نازل کیا گیا تو قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اور اعلیٰ ترین مضامین کے سامنے وہ بےبس نظر آنے لگے اور قرآن کریم کسی چیلنج کا وہ جواب نہ دے سکے بلکہ نعوذ باللہ وہ کہتے تھے کہ اس کو حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود سے گھڑلیا ہے انہوں نے اپنی شرمندگی کو مٹانے ، ضد، ہٹ دھرمی ، غرور ، تکبر اور رسول دشمنی میں اس سچائی کو بےحقیقت بنانے کی لئے طرح طرح کی باتیں مشہور کردیں۔ کبھی قرآن کریم کو جادو کہتے کیونکہ وہ ہر اس بات کو جادو کہہ دیا کرتے تھے جو ان کی طاقت و قوت سے بڑھ کر ہوا کرتی تھی۔ کبھی وہ یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ اصل میں قرآن کریم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود ہی گھڑ کر اس کو اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے ۔ کبھی وہ یہ اعتراض کرتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا پیتا بھی ہے ، با ل بچے بھی رکھتا اور ہماری طرح بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ انہیں اہل کتاب میں سے بنی اسرائیل کے علم پر بہت بھروسہ اور اعتماد تھا اور وہ ان ہی لوگوں کو اہل دانش سمجھتے تھے یا انکو اہل علم سمجھتے تھے جن کے پاس دولت کی ریل پیل ہوا کرتی تھے اسی لئے وہ کہتے کہ اگر دین اسلام کی کوئی حقیقت اور حیثیت ہوتی تو ہم اور ہمارے اہل علم و دانش سب سے پہلے اس کتاب کو قبول کرتے۔ عمار (رض) ، بلال (رض) ، صہیب (رض) اور خباب (رض) جیسے کمزور لوگ اور لونڈی غلام اسلام کو قبول نہ کرتے۔ حالانکہ ایمان لانے والوں میں قریش کے معززین حضرت ابو بکرصدیق (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) ، حضرت عثمان غنی (رض) اور حضرت علی مرتضٰی (رض) جیسے عظیم لوگ ایمان کی دولت سے مالا مال ہوچکے تھے لیکن وہ دین اسلام کی حقارت کے لئے ان غریبوں ، کمزوروں ، لونڈیوں اور غلاموں کا نام لیتے تھے جو ان کے معاشرے میں حقیر سمجھے جاتے تھے۔ ان تمام باتوں کا مقصد صرف یہ تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی اعلیٰ تعلیمات سے لوگوں کو اس طرح بد ظن کردیا جائے کہ ہر شخص ان کے قریب جانے سے گھبرانے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار قریش کی ان تمام باتوں اور اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کفار کا یہ حال ہے کہ جب ان کے سامنے حق و صداقت بھر پور ہماری آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے ۔ وہ ایک مسلسل جھوٹ کا سہارا لے کر کہا کرتے تھے کہ اصل میں اس شخص نے اس قرآن کو اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے ۔ اللہ نے فرما یا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ لوگوں کے سامنے صاف صاف اعلان کر دیجئے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو مجھے اللہ کے عذاب سے بچانے والا کون ہوتا۔ اس قرآن کے سلسلہ میں میرا گواہ صرف اللہ ہے جو اس بات کو جانتا ہے کہ تم اللہ کے لئے کیا کیا باتیں بناتے ہو۔ وہ اللہ جو بہت مغفرت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے ۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ یہ بھی کہہ دیجے کہ میں کوئی ایسا انوکھا یا نیا رسول نہیں ہوں کہ تمہارے گمان کے مطابق کھانے، پینے اور بیوی بچھے رکھنے سے بےنیازہوں بلکہ مجھ سے پہلے بہت سے پغمبر تشریف لائے ہیں جو انسان ہی تھے اور انہوں نے اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچایا ۔ اسی پیغام الہی کو لے کر میں بھی آیا ہوں میرا دعویٰ نہیں ہے کہ میں سب کچھ جانتا ہوں ۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ آئندہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ تمہارے ساتھ اللہ کا کیا معاملہ ہونے والا ہے۔ میں تو وہی بات بتا تا ہوں جو اللہ کی طرف سے مجھ پر وحی کی جاتی ہے ۔ میں بھی اسی کی پیروی کرتا ہوں اور میں تمہیں نہایت وضاحت سے صاف صاف طریقے پر آگاہ کرنے والا ہوں ۔ فرمایا کہ تم اہل کتاب بنی اسرائیل کو بہت پڑھا لکھا مانتے ہوذرا اس بات پر غور کرو کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے ( اور حقیقت یہ ہے کہ قرآن اللہ ہی کی طرف سے ہے ) تم تو اللہ کا مسلسل انکار کرتے رہو اور بنی اسرائیل میں سے کوئی اس کتاب کے مومن جانب اللہ ہونے کا اقرار کر کے اس پر ایمان لے آئے اور تم تکبر ہی کرتے رہ جائو اس صورت میں تم سے بڑا ظالم اور بد نصیب اور کون ہوگا ۔ واقعی اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا جو اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مارنے والے بےانصاف اور ظالم ہوں ۔ فرمایا کہ اے کفار قریش ! تمہارا یہ کہنا کہ اگر اس میں کوئی خیر اور بھلائی ہوتی تو ہم اس کے قبول کرنے میں دیر نہ کرتے اور لوگوں سے پیچھے نے رہتے اور تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ پرانا جھوٹ ہے جو مسلسل چلا آرہا ہے اس پر ہم اعتماد کیسے کرلیں ۔ فرمایا کہ ذرا غور تو کرو اس سے پہلے ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت جیسی کتاب عطا کی تھی جو اپنے زمانہ کے لئے رہبر و رہنما تھی۔ اسی طرح یہ قرآن مجید بھی ہے جو سچائیوں کا مجموعہ ہے اور اسکو تمہاری سہولت و آسانی کے لئے عربی زبان میں نازل کیا ہے جو توریت کی تصدیق کرتا ہے اس کا انکار نہیں کرتا یا اس کو جھوٹا نہیں بتاتا۔ توریت اور قرآن یہ اللہ کی کتابیں ہیں جو بد عملوں کو ان کے برے انجام سے آگاہ اور خبر دار کرنے والی ہیں اور ان لوگوں ک لئے بہترین انجام کی خوش خبری ہے جو نیک عمل کرنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منکرین قرآن کی ایک جاہلانہ بات اس کے بعد منکرین قرآن کی ایک جاہلانہ بات نقل فرمائی اور وہ یہ کہ جب ان پر ہماری آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو قرآن کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے جب دلیل نہ دے سکے اور قرآن کے مقابلے میں کوئی سورت بنانے سے عاجز رہ گئے تو اسے جادو بتادیا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے حضرات انبیاء سابقین کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہا ہے سورة الذاریات میں فرمایا ﴿كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌۚ٠٠٥٢﴾ اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں ان کے پاس جو بھی رسول آیا اس کے بارے میں یہ ضرور کہا کہ یہ جادو گر ہے یا دیوانہ ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ” واذا تتلی۔ الایۃ “ یہ شکوی ہے جب مشرکین کو قرآن کی واضح اور روشن آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں جو سراپا حق و صداق ہیں اور جن کا مثل پیش کرنا قوت بشر سے باہر ہے تو وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تو کھلا جادو ہے یعنی وہ آیتوں میں غور و فکر کر کے ان کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ سنتے ہی بلا تامل محض ضد وعناد سے ان کو جادو کا نام دے دیتے ہیں۔ انھم لم یتاملوا ما یتلی علیہہم، بل بادروا اول سماعہ الی نسبتہ الی السحر عنادا وظلما (بحر ج 8 ص 56) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) اور جب ہماری واضح آیتیں اور کھلے کھلے دلائل ان کو پڑھ کر سنائے جاتے ہیں تو یہ منکر اس امر حق یعنی قرآن کے متعلق جب وہ ان تک پہنچتا ہے یوں کہتے ہیں یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ یعنی ان منکرین رسالت کی یہ حالت ہے کہ جب ان پر قرآن کی واضح آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں اور قرآن ان تک پہنچتا ہے تو اس کو کھلا جادو کہتے ہیں۔