Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 11

سورة محمد

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوۡلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اَنَّ الۡکٰفِرِیۡنَ لَا مَوۡلٰی لَہُمۡ ﴿۱۱﴾٪  5

That is because Allah is the protector of those who have believed and because the disbelievers have no protector.

وہ اس لئے کہ ایمان والوں کا کارساز خود اللہ تعالٰی ہے اور اس لئے کہ کافروں کا کوئی کارساز نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

That is because Allah is the Protector of all those who believe, whereas the disbelievers have no protector. After the battle of Uhud, Abu Sufyan Sakhr bin Harb, the commander of the idolators at that time, inquired about the Prophet, Abu Bakr, and Umar, may Allah be pleased with them. When he heard no response, he announced: "Verily, those three have died!" Umar then responded to him: "You lie, O enemy of Allah! Allah has indeed saved those who will displease you. Indeed, those whom you mentioned are all alive!" Abu Sufyan then said: "Well, today makes up for (the defeat on) the day of Badr, and the war has its ups and downs. And indeed, you are going to find mutilation (in the bodies of your dead) that I did not command, nor did I prohibit." Then he turned around chanting: "Glory to Hubal (their greatest idol), Glory to Hubal." Allah's Messenger said: أَلاَ تُجِيبُوهُ Aren't you going to respond to him? The Companions said: "What should we say, O Messenger of Allah" He said: قُولُوا اللهُ أَعْلَى وَأَجَل Say: "Allah is Most High and Most Glorious." Then Abu Sufyan said: "We have Al-`Uzza (their second idol), and you have no `Uzza. (honor)." Allah's Messenger said: أَلاَ تُجِيبُوهُ Aren't you all going to respond to him? They said: "What should we say, O Messenger of Allah" He said: قُولُوا اللهُ مَوْلاَنَا وَلاَ مَوْلَى لَكُم Say: "Allah is our Protector, and you have no protector." Allah then says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 چناچہ جنگ احد میں کافروں کے نعروں کے جواب میں مسلمانوں نے جو نعرے بلند کیے مثلا اعل ھبل اعل ھبل (ھبل بت کا نام ہے) کے جواب میں اللہ اعلی واجل کافروں کے انہی نعروں میں سے ایک نعرے لنا العزی ولا عزی لکم کے جواب مسلمانوں کا نعرہ تھا اللہ مولانا ولا مولی لکم۔ صحیح بخاری۔ اللہ ہمارا مددگار ہے تمہارا کوئی مددگار نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] غزوہ احد کے اختتام پر ابو سفیان کی نعرہ بازی اور اس کا جواب :۔ یعنی کافر یہ سمجھتے ضرور ہیں کہ ان کی دیویاں اور دیوتا ان کی مدد کو پہنچتے ہیں حالانکہ یہ محض ان کا وہم ہوتا ہے۔ دور نبوی کے حق و باطل کے معرکوں میں صرف غزوہ احد ہی وہ جنگ ہے جس میں ابتدائ ً مسلمانوں کو ان کی اپنی ہی غلطی سے عارضی طور پر شکست سے دو چار ہونا پڑا اور آخر میں میدان برابر رہا۔ ابو سفیان نے اپنی اتنی سی کامیابی کو بھی غنیمت سمجھ کر اپنے سب سے بڑے دیوتا اور بت ہبل کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا کہ اَعْلَی الھُبَل (ہبل سربلند ہوا) تو رسول اللہ نے مسلمانوں سے کہا اسے یہ جواب دو ! اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلّ (سر بلند تو صرف اللہ ہے اور وہی بزرگ و برتر ہے) پھر ابو سفیان نے کہا : لنا عُزّٰی ولا عُزّٰی لکم (ہمارے لیے تو عزت دینے والی دیوی عزیٰ ہے اور تمہارے لیے کوئی عزیٰ نہیں) آپ نے مسلمانوں سے فرمایا : ( اَللُّہُ مولٰنَا وَلَا مَولٰی لَکُم) (ہمارا تو اللہ حامی و ناصر ہے لیکن تمہارا کوئی حامی و ناصر نہیں) آپ کا جواب اسی آیت کی تفسیر تھا۔ چناچہ ہوا بھی ایسا ہی۔ ابو سفیان جب احد کے میدان کو چھوڑ کر کئی میل مکہ کی طرف جاچکا تو اسے خیال آیا کہ اس جنگ کا فیصلہ تو کچھ بھی نہ ہوا لہذا واپس جاکر مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کرکے اسے نتیجہ خیز بنانا چاہئے۔ لیکن اللہ نے مسلمانوں کی نصرت کا یہ سبب پیدا کردیا کہ مسلمان خود اس سے پہلے ہی ابو سفیان کے لشکر کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ جب ابو سفیان کو یہ صورت حال معلوم ہوئی تو اللہ نے کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور انہوں نے مکہ کی راہ لی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذلک بان اللہ مولی الذین امنوا…: یعنی کافروں پر ہلاک نازل کرنے کا باعث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا مددگار ہے اور کافروں کا کوئی مددگار نہیں جو انہیں ہلاکت سے بچا سکے۔ جب جنگ احدم میں ابوسفیان نے اپنی عارضی فتح پر مغرور ہو کر نعرہ لگایا :(ان لنا العزی ولا عزی لکم) (ہمارا مددگار عزیٰ ہے اور تمہارا کوئی بھی مددگار نہیں) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں یہ کہنے کا حکم دیا :(اللہ مولانا ولی مولی لکم) (بخاری، الجھاد، باب ما بکرہ من التازع…:3039)” اللہ ہمارا مددگار نہیں۔ “ یہ جواب اسی آیت سے ماخوذ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَأَنَّ الْكَافِرِ‌ينَ لَا مَوْلَىٰ لَهُمْ (As for the disbelievers, there is no supporter them. - 47:11). The word for |"mawla|" is used in several different senses. One of its meanings is |"protector|" or |"supporter|". This is the sense in which it is used here. Another sense of the word is |"owner/master|". In Qur&an [ 10:30] we come across: وَرُ‌دُّوا إِلَى اللَّـهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ |"They will be returned to Allah, their Master, the Truth|" (10:30). In this phrase, Allah is called the |"mawla|" of the infidels, that is, their Master / Owner because the mastership / ownership of Allah extends over all - the believers as well as the non-believers; without any exclusion.

(آیت) وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ ، لفظ مولیٰ بہت سے معانی کے لئے مستعمل ہوتا ہے ایک معنی کار ساز کے ہیں جو اس جگہ مراد ہیں اور ایک معنی مالک کے ہیں۔ قرآن میں دوسری جگہ کفار کے بارے میں آیا ہے (آیت) ردوا الی اللہ مولھم الحق، اس میں اللہ تعالیٰ کو کفار کے لئے بھی مولیٰ قرار دیا ہے کیونکہ مولیٰ کے معنی مالک کے ہیں اور مالکیت اللہ تعالیٰ کی عام ہے مومن کافر کوئی اس سے خارج نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَہُمْ۝ ١١ ۧ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ إِنَّ وأَنَ إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ [ التوبة/ 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة/ 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات . وأَنْ علی أربعة أوجه : الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت . والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق . والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص/ 6] أي : قالوا : امشوا . وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة/ 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان/ 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية/ 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر/ 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود/ 54] . والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد ( ان حرف ) ان وان ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ { إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ } ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ { إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ } ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔ ( ان ) یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا { فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ } ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ { وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ } ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ { إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ } ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا } ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا } ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) { إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ } ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) { إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ } ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) ولي والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١ { ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَا مَوْلٰی لَہُمْ } ” یہ اس لیے کہ اللہ مولیٰ (پشت پناہ ) ہے اہل ایمان کا اور یہ کہ کافروں کا کوئی مولیٰ ہے ہی نہیں۔ “ اسی آیت کے الفاظ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ نعرہ اخذ فرمایا تھا جس سے میدانِ اُحد میں کفار کے نعرے کا جواب دیا گیا تھا۔ میدانِ اُحد میں وقتی طور پر مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اس دوران رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ صحابہ (رض) کے ساتھ جبل احد پر تشریف لے گئے تھے۔ اس وقت ابو سفیان اور خالد بن ولید (بعد میں دونوں حضرات ایمان لا کر صحابہ (رض) میں شامل ہوئے) سمیت بہت سے سردارانِ قریش پہاڑ کے دامن میں موجود تھے۔ ان میں سے ابوسفیان نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو مخاطب کر کے ُ پر جوش انداز میں نعرہ بلند کیا تھا : اُعْلُ ھُبَل ، اُعْلُ ھُبَل ! (ہبل کی جے ! ) یعنی آج ہمارے بت ُ ہبل کا بول بالا ہوا ۔ - ۔ - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اس نعرے کا جواب ان الفاظ سے دیں : اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَل ! یعنی اللہ ہی سب سے بلند مرتبہ اور بزرگ و برتر ہے ‘ اسی کا بول بالا ہے ! اس کے جواب میں ابوسفیان نے ایک اور نعرہ لگایا : لَنَا الْعُزّٰی وَلا عُزّٰی لَکُمْ کہ ہمارے لیے توعزیٰ ّجیسی دیوی مدد کے لیے موجود ہے لیکن تمہاری تو کوئی عزیٰ ہی نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو اس کا جواب اس نعرے سے دینے کا حکم دیا : اَللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْکہ ہمارا مولیٰ (مدد گار ‘ پشت پناہ اور کارساز) تو اللہ ہے ‘ جبکہ تمہارا تو کوئی مولیٰ ہے ہی نہیں۔ (١)

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 After being wounded at Uhud when the Holy Prophet was resting in a hill pass with a few Companions, Abu Sufyan shouted: "We have 'Uzza and there is no 'Uzza for you." Thereupon the Holy Prophet told his Companions to respond, saying: "Our Protector and helper is Allah, and you have no protector and helper at alI. " This reply of the Holy Prophet was derived from this very verse.

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :16 جنگ احد میں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم زخمی ہو کر چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے ساتھ ایک گھاٹی میں ٹھیرے ہوئے تھے اس وقت ابوسفیان نے نعرہ لگایا : لنا عُزّیٰ وَلَا عُزّٰی لَکُمْ ۔ ہمارے پاس عزیٰ ہے اور تمہارا کوئی عزیٰ نہیں ہے ۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے فرمایا اسے جواب دو: اللہ مولانا ولا مولی لکم ۔ ہمارا حامی و ناصر اللہ ہے اور تمہارا حامی و ناصر کوئی نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب اسی آیت سے ماخوذ تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١۔ ١٢۔ سورة انعام میں اللہ تعالیٰ نے عام طور پر سب نیک و بد لوگوں کی قبض روح کا ذکر فرما کر اس کے بعد فرمایا ہے ثم ردوا الی اللہ مولاھم الحق جس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد نیک بد سب اللہ کے سامنے جائیں گے کیونکہ وہ سب کا مالک ہے اور ان آیتوں میں فرمایا ہے کہ ایمانداروں کا اللہ مولیٰ ہے اور کافروں کا مولیٰ نہیں ہے بعض مفسروں نے ان دونوں آیتوں کو ملا کر یہ شبہ پیدا کیا ہے کہ ان دونوں آیتوں کے معنوں میں مطابقت نہیں معلوم ہوتی کیونکہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کا مولیٰ ہے اور سورة انعام کی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایماندار اور کافر سب کا مولیٰ ہے اس شبہ کا جواب مفسروں نے یہ دیا ہے کہ سورة انعام میں حشر اور حساب اور کتاب کے ذکر کا موقع تھا اور قیامت میں حساب اللہ تعالیٰ نیک و بد سب سے لے گا اسی واسطے وہاں یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک نیک و بد کے حساب کا مالک ہے اور یہاں مدد کا موقع ہے اور کافروں کا کفر اللہ کو پسند نہیں اسی واسطے یہاں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فقط ایمانداروں کا مددگار ہے تفسیر قتادہ سے معلوم ہوا ہے کہ احد کی لڑائی میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی اس وقت مسلمانوں کی تسکین کے لئے یہ دونوں آیتیں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہیں تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کے رسول کے حکم کی نافرمانی تیر انداز لوگوں نے جو کی اسی سبب سے اس لڑائی میں شکست ہوگئی ہے اگر ایماندار اور اللہ کے رسول کی فرمانبرداری پر آئندہ یہ لوگ پورے قائم رہیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کا کارساز ہے ان کو اور لڑائیوں میں فتح نصیب کرے گا یہ تیر اندازوں کی نافرمانی کا قصہ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ احد کی لڑائی کے شروع ہونے سے پہلے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہاڑ کے ناکہ پر پچاس تیر انداز کو تعناحت کردیا تھا اور اس ناکہ کے قابو رکھنے کی بہت تاکید کردی تھی لیکن لڑائی کے شروع ہونے کے بعد تیر اندازوں نے وہ ناکہ چھوڑ دیا جس سے دشمنوں نے لشکر اسلام کی پشت پر سے بھی حملہ کردیا اور مسلمانوں کی شکست ہوگئی اوپر فرمانبردار اور نافرمان لوگوں کی دنیا کی مدد اور خفگی کا ذکر فرما کر آگے دونوں فریق کا عقبیٰ کا انجام بیان فرمایا کہ فرمانبردار لوگوں کے لئے عقبیٰ میں جنت ہے اور نافرمان لوگ چوپایوں کی طرح چند روز دنیا کی چیزوں کو برت لیں اور جو کچھ کھانا ہے کھا لیں پھر عقبیٰ میں ان کا انجام دوزخ ہے عقبیٰ کے منکر لوگوں کی مثال چوپایوں کی اس واسطے فرمائی کہ جس طرح چوپایوں کی زندگی کا مدار فقط دنیا کے کھانے پینے پر ہے وہی حال عقبیٰ کے منکر لوگوں کا ہے صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم میں انس (رض) بن مالک سے روایت ہے۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخ کے عذاب کا جو حال مجھ کو معلوم ہے اگر وہ حال لوگوں کو معلوم ہوجائے تو لوگوں کو ہنسی کم آئے اور ہر وقت ان کو رونے سے کام رہے۔ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جنت میں وہ وہ نعمتیں پیدا کی گئی ہیں جو نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں سے سنیں نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزر سکتا ہے ان حدیثوں سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ ان آیتوں یا اور آیتوں میں جنت اور دوزخ کا جو ذکر ہے اس کی پوری تفسیر طاقت انسانی سے باہر ہے۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٤٦ ج ٦۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب مرجع النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من الاحزاب ص ٥٩١ ج ٣ و باب این رکز النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرایۃ یوم الفتح ٢١٤ ج ٢ و باب وفدبی حنیفۃ و حدیث ثمامد بن اثال ص ٦٢٧ ج ٢۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٧٤ ج ٤۔ ) (٤ ؎ صحیح بخاری باب قصاص الظالم ص ٣٣ ج ١۔ ) (٥ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٧٤ ج ٤ بحوالہ ابن ابی حاتم۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب مایتقی من فتنۃ المال الخ ص ٩٥٢ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب قول النبی لو تعلمون ما اعلم الخ ٩٦ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری با ماجاء فی صفۃ الجنۃ وانھا مخلوقۃ ص ٤٦٠ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:11) ذلک : ای نصر المؤمنین وسوء عاقبۃ الکافرین۔ مسلمانوں کی فتح یابی اور کافروں کی زبوں حالی۔ بان اللہ ۔ ب سببیت کی ہے ان حرف تحقیق ہے اور حروف مشبہ بالفعل میں سے ہے۔ اللہ اسم ان اور منصوب بوجہ عمل ان ہے ۔ باقی جملہ خبر ہے ان کی۔ مولی الذین امنوا ۔ مولی مضاف، الذین امنوا صلہ وموصول مل کر مضاف الیہ ۔ ایمان والوں کا مولیٰ ۔ مولی اسم مفرد۔ موالی جمع، دوست، مددگار۔ کارساز۔ حمائتی ، آقا۔ ولی (حسب یحسب ) مصدر سے اسم فاعل واحد مذکر ہے اس کی جمع موالی ہے مولی اسم فاعل واسم مفعول ہر دو طرح مستعمل ہے نیز ملاحظہ ہو (44:41) ۔ متذکرۃ الصدر۔ ترجمہ ہوگا :۔ یہ اس لئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کارساز ہے (اور کافروں کا کوئی کارساز نہیں ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی انہوں نے اپنے لئے جو جھوٹے سہارے بنا رکھے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کے کسی کام نہیں آسکتے۔ غزوہ احد کے دن مسلمانوں کا نعرہ (اللہ مولانا ولا مولیٰ لکم) اسی آیت سے ماخوذ تھا (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذلک بان اللہ ۔۔۔۔۔ مولیٰ لھم (٤٧ : ١١) “ یہ اس لیے کہ ایمان لانے والوں کا حامی و ناصر اللہ ہے اور کافروں کا حامی و ناصر کوئی نہیں ”۔ جس کا آقا اللہ ہو اور وہ اس کا مددگار ہو تو وہ اس کے لئے کافی ہے۔ یہ شخص کسی کا محتاج نہ ہوگا ، ہر کسی سے بےنیاز ہوجائے گا۔ ایسے شخص پر اگر مشکل حالات بھی آتے ہیں تو اسے سمجھنا چاہئے کہ اس کی آزمائش ہو رہی ہے ۔ اور اس آزمائش کے بعد خیر ہی خیر ہے۔ یہ آزمائش اور یہ مشکلات اس لئے نہیں کہ اللہ نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے بھی نہیں کہ اللہ نے اپنے بندوں کی مدد کرنے کا جو وعدہ کیا ہے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔ بلکہ یہ ایک بندۂ مومن کی آزمائش ہوتی ہے۔ اور جس کا آقا اللہ نہ ہو تو اس کا کوئی آقا مراد ہوتا ہے اگرچہ وہ تمام جنوں اور تمام انسانوں کو آقا بنالے۔ آخر کار انسانوں پر بھروسہ کرنے والا نامراد ہوتا ہے اگرچہ دنیا کی تمام قوتیں اس کی حمایت پر مرکوز ہوں۔ اب ان لوگوں کے سازوسامان جنہوں نے ایمان قبول کیا اور ان لوگوں کے سازوسامان کے درمیان موازنہ کیا جاتا ہے جنہوں نے کفر کیا۔ یہ دونوں گروہ جو اس وقت باہم برسر پیکار ہیں ان کے درمیان فرق کیا ہے ؟ اور ان کے سازو سامان کے درمیان فرق کیا ہے ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا مولیٰ ہے ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ﴾ (یہ جو کچھ مذکور ہوا یعنی اہل ایمان کا جنت میں داخل ہونا اور اہل کفر کا دنیا و آخرت میں برباد ہونا اس وجہ سے ہے کہ اللہ ایمان والوں کا مولیٰ ہے یعنی ان کا ولی ہے مددگار ہے کارساز ہے) ﴿ وَ اَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ (رح) ٠٠١١ ﴾ (اور کافروں کا کوئی کارساز و مددگار نہیں)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) اس سلوک کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان اور ماننے والوں کا رفیق ہے اور اہل کفر اور نہ ماننے والوں کا کوئی رفیق اور مددگار نہیں۔ یعنی ولایت عامہ بمعنی مالک اور رب اگرچہ تمام بندوں کو حاصل ہے لیکن یہاں اس ولایت کا ذکر ہے جو کفر کے مقابلے میں دین حق کی حمایت اور نصرت سے تعلق رکھتی ہے یہاں اس ولایت کا اظہار ہے اور وہ مسلمانوں کو خصوصیت کے ساتھ حاصل ہے اور منکر اس سے محروم ہیں اور منکرین کا عارضی غلبہ اس کے منافی نہیں۔ فھو مولی المومنین والکافرین من جھتہ الاختراع والتصرف فیھم ومولی المومنین خاصۃ من جھتہ النصرۃ