Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 12

سورة محمد

اِنَّ اللّٰہَ یُدۡخِلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یَتَمَتَّعُوۡنَ وَ یَاۡکُلُوۡنَ کَمَا تَاۡکُلُ الۡاَنۡعَامُ وَ النَّارُ مَثۡوًی لَّہُمۡ ﴿۱۲﴾

Indeed, Allah will admit those who have believed and done righteous deeds to gardens beneath which rivers flow, but those who disbelieve enjoy themselves and eat as grazing livestock eat, and the Fire will be a residence for them.

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے انہیں اللہ تعالٰی یقیناً ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور جو لوگ کافر ہوئے وہ ( دنیا ہی کا ) فائدہ اٹھا رہے ہیں اور مثل چوپایوں کے کھا رہے ہیں ان کا ( اصل ) ٹھکانا جہنم ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَْنْهَارُ ... Verily, Allah will admit those who believe and do righteous good deeds into Gardens through which rivers flow. meaning, on the Day of Resurrection. ... وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الاْاَنْعَامُ .. Whereas those who disbelieve enjoy their life and eat as cattle eat. Which means that the disbelievers enjoy their worldly life and eat in it like animals, munching and gnawing (with greed). They have no concern other than that. Thus, it has been confirmed in the Sahih that the Messenger of Allah said, الْمُوْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعىً وَاحِدٍ وَالْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاء A believer eats with one intestine, and a disbeliever eats with seven intestines. Then Allah says, .... وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ but the Fire will be their abode. meaning, on the Day of their Reckoning. Allah then says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی جس طرح جانور کو پیٹ اور جنس کے تقاضے پورے کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہوتا۔ یہی حال کافروں کا ہے، ان کا مقصد زندگی بھی کھانے کے علاوہ کچھ نہیں، آخرت سے وہ بالکل غافل ہیں۔ اس ضمن میں کھڑے کھڑے کھانے کی ممانعت کا بھی اثبات ہوتا ہے، جس کا آجکل دعوتوں میں عام رواج ہے کیونکہ اس میں بھی جانوروں سے مشابہت ہے جسے کافروں کا شیوا بتلایا گیا ہے احادیث میں کھڑے کھڑے پانی پینے سے نہایت سختی سے منع فرمایا گیا، جس سے کھڑے کھڑے کھانے کی ممانعت بطریق اولیٰ ثابت ہوتی ہے اس لئے جانوروں کی طرح کھڑے ہو کر کھانے سے اجتناب کرنا نہایت ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] کافروں کا کھانا پینا حیوانوں کی طرح ہے :۔ اس جملہ کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح چوپایوں کو یہ تمیز نہیں کہ ان کا کھانا حلال ذرائع سے آیا ہے یا حرام ذرائع سے اسی طرح کافروں کو بھی یہ تمیز گوارا نہیں ہوتی۔ چوپائے جہاں سے بھی ملے کھالیتے ہیں انہیں اپنے بیگانے کی تمیز نہیں نیز کمزور جانور کو مار دھاڑ کر طاقتور جانور کمزوروں کا کھانا بھی خود کھا جاتے ہیں۔ یہی حال کافروں کا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جانوروں یا چوپایوں کا کھانا کھانے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بھوک دور کریں اور اپنی زندگی کو باقی رکھیں۔ کافروں کا بھی کھانے سے اتنا ہی مقصد ہوتا ہے۔ اس سے آگے وہ یہ نہیں سوچتے کہ اللہ نے ہمیں جو عقل اور تمیز چوپایوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ دی ہے آخر یہ کیوں دی گئی ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ان اللہ یدخل الذین اناللہ یدخل الذین امنوا…: دنیا میں پہلی قوموں پر آنے والے عذابوں کا اور ایمان والوں کی نصرت کا ذکر فرمانے کے بعد آخرت میں دونوں کا انجام ذکر فرمایا۔ چونکہ مومن اپنے ایمان اور عمل صالح کے تقاضوں کے پابند رہے، انہوں نے دنیا کی نعمتوں اور لذتوں سے فائدہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند رہ کر اٹھایا۔ وہی کھایا اور پہنا جو ان کے رب نے ان کے لئے حلال فرمایا، وہ تمام حرام کردہ اشیاء سے بچے۔ شراب ، ریشم اور سونے کے استعمال سے پرہیز کرتے رہے۔ زنا، چوری، دوسرے کا حق کھانے، غرض ہر معصیت سے اجتناب کیا۔ ان کی لذتیں اٹھانے کی بیشمار حسرتیں ان کے دل میں رہ گئیں اور انہوں نے یہاں ایک قیدی کی سی زندگی گزاری، جو صرف انہی سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو انہیں قید کرنے والا مہیا کرے۔ اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ انہیں عظیم الشان باغات میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہتی ہیں اور فرمائے گا کہ یہاں تمہارے دل کی ہر خواہش اور ہر طلب پوری ہوگی، بلکہ وہ کچھ ملے گا جو نہ تمہاری آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا خیال ہی آیا۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اور اکثر جگہ باغات اور نہروں ہی کا ذکر فرمایا ہے، اسلئے کہ دنیا کے مکانوں اور کوٹھیوں کا ایک حصہ گھر کے چمن پر مشتمل ہوتا ہے، اس لئے کہ پودوں، چشموں اور نہروں سے انسان کو فطری طور پر محبت ہے، مگر اصل مکان ان سے کہیں وسیع، خوبصورت اور قیمتی ہوتا ہے۔ طملب یہ ہے کہ ان مکانات اور ان میں موجود رہنے سہنے، کھانے پینے، بیوی بچوں اور دوسری بیشمار اشیاء کی عظمت و شوکت کا اندازہ ان باغوں اور نہروں سے لگا لو جو بطور چمن ان مکانوں کے ساتھ ہیں۔ (٢) والذین کفروا یتمتعون ویاکلون کما تاکل الانعام : ایمان والوں کے برعکس کفار کھانے پینے اور دنیا کی لذتیں اٹھانے میں کسی پابندی کی پرواہ نہیں کرتے، انہیں حلال و حرام اپنے یا دوسرے کے حق سے کوئی غرض نہیں، وہ خنزیر، مرد اور ہر حرام چیز کھاتے، شراب پیتے، زنا کرتے، غرض دل کا ہرارمان پورا کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مہیا نہ ہوسکنے کی وجہ سے وہ کسی لذت سے فائدہ نہ اٹھا سکیں ، کیونکہ دنیا میں ہر شخص کو اتنا ہی ملتا ہے جو مالک نے لکھ دیا ہے، مگر اپنی حسرتیں پوری کرنے میں وہ کوئی کسر باقی نہیں رہنے دیتے۔ دنیا ان کے لئے جنت ہے جہاں وہ ہر قید اور پابندی سے آزاد زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا حال ہو بہو جانوروں جیسا ہے جو کھانے پینے، رہنے سہنے اور اپنی جنش خواہش کی تکمیل میں کسی قید کے پابند نہیں ہیں، ان میں سے ہر طاقتور کمزور سے اس کا حق بھی چھین لیتا ہے۔ انہیں نہ عاقبت یاد ہے نہ باز پرس کی کوئی فکر ہے۔ (٣) والنار شوی لھم : چونکہ انہوں نے اپنے رب سے کفر کیا نہ ایمان لائے نہ عمل صالح کیا، نہ اس کے احاکم کی پابندی کی، اس لئے ان کا مستقل ٹھکانا آگ ہے ۔ (٤) بعض لوگ اس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ جانرو کھڑے ہو کر کھاتے پیتے ہیں، اس لئے کھڑے ہو کر کھانا پینا منع ہے، مگر اس مقصد کے لئے اس آیت کے بجائے احادیث سے استدلال کرنا چاہئیا ور اس مسئلے میں اتنی ہی سختی کرنی چاہیے جتنی احادیث سے ثابت ہے، کیونکہ ضرورت کے وقت سنت سے اس کی اجازت بھی ثابت ہے۔ (٥) چونکہ جانوروں کی ساری جدوجہد ہی کھانیپ ینے کے لئے ہوتی ہے اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی مشابہت سے بچنے کے لئے کم کھانے پر زور دیا ہے۔ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(المومن باکل فی معی واحد والکافر یا کل فی سبعۃ امعار) (بخاری، الاطمعۃ، باب المومن باکل فی معی واحد …: ٥٣٩٣)” مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ “ اور مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ماملاً ادمی وعاء شراً من بطن، بحسب ابن ادم اکلاث یقمن صلبہ ، فان کان لا محالۃ فثلث لطعامہ وثلث لشرابہ وثلث لنفسہ) (ترمذی، الزھد، باب ما جاء فی کراھیۃ کترۃ الاکل :2380، وقال الالبانی صحیح)” کسی آدمی نے پیٹ سے برا برتن نہیں بھرا۔ ابن آدم کو چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں۔ سو اگر کوئی چارہ نہیں تو تیسرا حصہ اس کے کھانے کے لئے، تیسرا اس کے پینے کے لئے اور تیسرا سانس کے لئے ہے۔ “ جس طرح شریعت نے ہر بات میں انسانی فطرت کا خیال رکھا ہے اسی طرح یہاں بھی اگر کبھی پیٹ بھر کر کھالے تو اس کی گنجائش ہے، جیسا کہ ابوہریرہ (رض) کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بار بار اصرار پر دودھ پینا ہے، حتیٰ کہ انہیں کہنا پڑا کہ اب میرے پیٹ میں اس کی گنجائش نہیں ۔ (دیکھیے بخاری، الرقاق، باب کیف کان عیش النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) …:6352)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Essential Characteristics of Paradise Verse sixteen mentions four kinds of favours and blessings in the next world, that is, rivers of pure water, rivers of milk of which the taste does not change, rivers of wine which gives delight and rivers of purified honey which will be given to the righteous in plenty. Worldly waters become polluted by getting mixed with earth, vegetation and other adulterating substances which make them stink. But in Paradise, there will be rivers having un-pollutable water. The river of pure, clean water that will not go bad in taste, smell or colour, (and will flow uninterruptedly without layers of dregs, scum or any other unpleasant- looking substances). Milk, in this world, is secreted by the mammary glands of female mammals, such as the cow&s udders or the breasts of the human female, and soon it starts to deteriorate. In Paradise it will flow in rivers and the Heavenly milk will never be spoilt. Its taste will be eternally delicious, relishing and delightful. Worldly wine has a foul smell and a bitter taste, (though the ones addict to it do not feel its bitterness, being accustomed to it). But the Heavenly wine will give endless delight to the drinker. In Surah As-St [ 37:47] the Qur’ an describes the Heavenly wine as لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنزَفُونَ intoxicated: |"which has no headache in it, nor from it will they be .|" Honey, in this world, is the secretion derived principally from the nectarines of flowers, from which it is extracted by bees in the form of nectar and deposited in their honey-sacs, where it undergoes a certain change prior to storage in the cells of the comb. When it is ripe, that is, it has become sufficiently thick by evaporation, it may now be extracted or thrown from the honey-comb by centrifugal force or by gravity. When it is so extracted, it needs to be clarified of the accompanying particles of wax, scum and other unwanted substances. However, the honey in Paradise will be pure and clean and will be available amply, as rivers of honey will flow uninterruptedly without layers of dregs, scum or any other unpleasant-looking substances. All four kinds of rivers - of water, milk, wine and honey - are used in their primary senses. There is no need to apply them unnecessarily in their figurative sense. However, it is obvious that the bounties of Paradise cannot be compared to things of this world. The taste and quality of the bounties of Paradise will be unique and can only be experienced in the gardens of Paradise.

خلاصہ تفسیر بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے (جنت کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی اور جو لوگ کافر ہیں وہ (دنیا میں) عیش کر رہے ہیں اور اس طرح (آخرت سے بےفکر ہو کر) کھاتے (پیتے) ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں (کہ وہ نہیں سوچتے کہ ہم کو کیوں کھلایا پلایا جاتا ہے اور ہمارے ذمہ اس کا کیا حق واجب ہے) اور جہنم ان لوگوں کا ٹھکانا ہے (اور اوپر جو کفار کے دنیا میں عیش کرنے کا ذکر ہوا اس سے آپ کے مخالفین کو دھوکہ نہ کھانا چاہئے، اور نہ آپ کو ان کی اس غفلت پر کچھ حزن و ملال ہونا چاہئے، جو ان کی مخالفت کا سبب بنی ہوئی ہے یہاں تک کہ انہوں نے آپ کو تنگ کر کے مکہ میں بھی نہیں رہنے دیا کیونکہ) بہت سی بستیاں ایسی تھیں جو قوت (جسم اور قوت مال وجاہ) میں آپ کی اس بستی سے بڑھی ہوئی تھیں جس کے رہنے والوں نے آپ کو گھر سے بےگھر کردیا کہ ہم نے ان کو (عذاب سے) ہلاک کردیا سو ان کا کوئی مددگار نہ ہوا (تو یہ بیچارے کیا چیز ہیں ان کو مغرور نہ ہونا چاہئے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ چاہیں ان کی صفائی کرسکتے ہیں اور آپ ان کے چند روزہ عیش سے معمول نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرر وقت پر ان کو بھی سزا دینے والے ہیں) تو جو لوگ اپنے پروردگار کے واضح (ثابت بالدلیل) راستہ پر ہوں کیا وہ ان شخصوں کی طرح ہو سکتے ہیں جن کی بدعملی ان کو بھلی معلوم ہوتی ہو اور جو اپنی نفسانی خواہشوں پر چلتے ہوں (یعنی جب ان دونوں فریق کے اعمال میں تفاوت ہے تو ان کے مال اور انجام میں بھی تفاوت ضروری ہے، اہل حق ثواب کے اور اہل باطل عقاب و عذاب کے مستحق ہیں جس کا بیان یہ ہے) جس جنت کا متقیوں سے وعدہ کیا جاتا ہے اس کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں بہت سی نہریں تو ایسے پانی کی ہیں جس میں ذرا تغیر نہیں ہوگا (نہ بو میں نہ رنگ میں نہ مزے میں) اور بہت سی نہریں دودھ کی ہیں جن کا ذائقہ ذرا بدلا ہوا نہ ہوگا، اور بہت سی نہریں ہیں شراب کی جو پینے والوں کو بہت لذیذ معلوم ہوں گی اور بہت سی نہریں ہیں شہد کی جو بالکل (میل کچیل سے پاک) صاف ہوگا اور ان کے لئے وہاں ہر قسم کے پھل ہوں گے اور (اس میں داخل ہونے سے پہلے) ان کے رب کی طرف سے (گنا ہونے کی) بخشش ہوگی کیا ایسے لوگ ان جیسے ہو سکتے ہیں جو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے، اور کھولتا ہوا پانی ان کو پینے کو دیا جاوے گا تو وہ ان کی انتڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا۔ معارف و مسائل چونکہ دنیا کا پانی کبھی رنگ میں، کبھی بو میں کبھی ذائقہ میں متغیر ہوجاتا ہے اسی طرح دنیا کا دودھ بگڑ جاتا ہے اسی طرح دنیا کی شراب بد مزہ و تلخ ہوتی ہے صرف بعض منافع کی خاطر پی جاتی ہے جیسے تمباکو کڑوا ہونے کے باوجود کھایا جاتا ہے پھر عادت پڑجاتی ہے۔ جنت کے پانی اور دودھ اور شراب کے بارے میں بتلا دیا گیا کہ وہ سب ان تغیرات اور بدمزدگی کی آفات سے خالی ہیں اور جنت کا دوسری مضرتوں اور مفاسد سے خالی ہونا سورة صافات کی آیت میں آیا ہے (آیت) لا ینھا غول ولاھم عنھا ینزفون، اسی طرح دنیا کے شہد میں موم اور میل کچیل ملا ہوتا ہے جنت کی نہر میں شہد کا پاک صاف ہونا بتلایا گیا۔ صحیح بات یہ ہے کہ انہار جنت کی چاروں قسمیں، پانی، دودھ، شراب، شہد اپنے حقیقی معنی میں ہیں بلاوجہ مجازی معنے لینے کی ضرورت نہیں، البتہ یہ بات کھلی ہوئی ہے کہ جنت کی چیزوں کو دنیا کی چیزوں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا وہاں کی ہر چیز کی لذت و کیفیت کچھ اور ہی ہوگی جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝ ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَتَمَتَّعُوْنَ وَيَاْكُلُوْنَ كَـمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّہُمْ۝ ١٢ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة «2» ، إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] . ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔ تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ متع الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] ، ( م ت ع ) المتوع کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ نعم ( جانور) [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . ( ن ع م ) نعام النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ ثوی الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم، ( ث و ی ) الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے حق تعالیٰ ان کو جنت کے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے درختوں اور محلات کے نیچے سے دودھ شہد پانی اور شراب کی نہریں بہتی ہوں گی۔ اور جو لوگ کافر ہیں وہ دنیا میں عیش کر رہے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کو بغیر کل کی فکر کیے ہوئے پورا کر رہے ہیں جیسا کہ چوپائے کھایا کرتے ہیں اور آخرت میں دوزخ ہی ان کا ٹھکانا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ { اِنَّ اللّٰہَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ } ” یقینا اللہ داخل کرے گا ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ان باغات میں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی۔ “ { وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَتَمَتَّعُوْنَ وَیَاْکُلُوْنَ کَمَا تَاْکُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًی لَّہُمْ } ” اور جو کافر ہیں وہ (دنیا میں) عیش کر رہے ہیں اور ایسے کھا رہے ہیں جیسے حیوانات کھاتے ہیں اور ان کا ٹھکانہ آگ ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 That is, "Just as an animal cats and does not think wherefrom the food it eats has come, who has created it, and what rights of the creator arc imposed on it for providing it with food, so are these people also eating and have no higher values or ideals beyond eating. "

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :17 یعنی جس طرح جانور کھاتا ہے اور کچھ نہیں سوچتا کہ یہ رزق کہاں سے آیا ہے ، کس کا پیدا کیا ہوا ہے ، اور اس رزق کے ساتھ میرے اوپر رازق کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں ، اسی طرح یہ لوگ بھی کھائے جا رہے ہیں ، چرنے چگنے سے آگے کسی چیز کی انہیں کوئی فکر نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:12) یتمتعون : مضارع جمع مذکر غائب، تمتع (تفعل) مصدر۔ وہ فائدہ حاصل کرتے ہیں (دنیا میں) وہ مزے اڑاتے ہیں۔ کما : ک حرف تشبیہ ہے اور ما مصدریہ سے مرکب ہے۔ جیسا کہ (کھاتے ہیں چوپائے) ۔ تاکل ۔ مضارع واحد مؤنث غائب الانعام چوپائے، مویشی، بھیڑ، بکری، گائے ، بھینس، اونٹ، مویشی کو اس وقت تک انعام نہیں کہا جاسکتا جب تک کہ ان میں اونٹ شامل نہ ہوں۔ یہ نعم کی جمع ہے۔ مثوی ظرف مکان مفرد۔ مثاوی جمع۔ ٹھکانہ، دراز مدت تک ٹھہرنے کا مقام قیام گاہ۔ فرودگاہ۔ ثوی یثوی ثواء ، ثوی (باب ضرب) مصدر، ٹھہرنا۔ قیام کرنا۔ اترنا۔ (قیام کے لئے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی جس طرح جانوروں کو کھانے پینے کے سوا کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی ان کافروں کو بھی اس کے سوا کوئی فکر نہیں سر سے پائوں تک دنیا میں غرق ہیں اور کبھی یہ نہیں سوچتے کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔ یوں بھی بسیار خوری کفار کی عادات میں سے ہے۔ حدیث میں ہے کہ ” مومن ایک آتن میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں۔ ‘ ‘(ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١٢ تا ١٩۔ اسرار ومعارف۔ اور اللہ تو ان لوگوں جو ایمان لائے اور احکام شریعت پر عمل کرتے رہے جنت میں داخل فرمائے گا جس میں نہریں جاری ہیں یعنی سدا آباد و شاداب ہے اور کفار کودیکھوتوجانوروں کی طرح سے پیٹ بھرنے لذتیں حاصل کرنے میں لگے ہیں یہ سوچے بغیر کہ جس کی نعمتیں کھا رہے ہیں اور جس کے جہان میں بستے ہیں جس نے کھانے کی توفیق عطا کی اس کا شکر بھی اداکرناچاہیے لہذا ان کاٹھکانہ آگ میں ہوگا اور وہ جہنم میں داخل کیے جائیں گے کفار مکہ نے عظمت الٰہی کو بھول کر آپ کی بات قبول نہ کی اور آپ کو تنگ کرکے ہجرت پہ مجبور کردیا انہیں یہ نہ بھولناچاہیے کہ ان سے کس قدر جوان ان حرکات کی وجہ سے ہلاک ہوچکے اور کوئی ان کی مدد نہ کرسکایہ بھی اپنی باری پہ ضرور اپنے کیے کا پھل پائیں گے بھلا جو انسان اللہ کی طرف سے واضح راستے پر ہو اور اللہ کی اطاعت میں سرگرم کوئی بدکار اس جیساتو نہیں ہوسکتا جس پر اللہ کا یہ عذاب ہو کر اسے برائی ہی بھلی لگنے لگی۔ اور اپنی خواہشات نفس کا پیروکار دونوں میں کس قدر فرق ہے کہ پہلی قسم کے لوگوں سے یعنی تقوی اختیار کرنے والوں سے جس جنت کا وعدہ کیا گیا وہ اللہ کی ایک عجیب و غریب نعمت ہے کہ اسمیں ہمیشہ تروتازہ پانی اور ہمیشہ کے لیے خوش ذائقہ دودھ اور بہترین ذائقہ اور لذت والے شراب اور شفاف شہد کی نہریں ہیں یعنی دنیا سے محض نام کی مشابہت ہے ورنہ وہاں کا پانی دودھ اور شہد خصوصیات اور ذائقے میں اثرات میں اس سے کروڑوں گنابہتر اور بالکل الگ ہے ۔ نیز ہر طرح کے پھیل خوبصورت باغوں میں سجے ہوئے ہیں اور سب سے بڑی نعمت پروردگار کی طرف سے بخشش ہے جو انہیں نصیب ہوگی کہ یہ لوگ وہاں سے کبھی نکالے نہ جائیں گے بھلاوہ لوگ ان کی برابری کرسکتے ہیں جنہیں ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہوگا اور پینے کا پانی تک ایسا کھولتا ہوا ہوگا حلق سے اترے گا تو انتڑیاں کاٹ دے گا ان بدبختوں میں ایسے منافق بھی ہیں کہ آپ کی خدمت میں تو بظاہر آپ کی باتوں پر بڑے متوجہ نظر آتے ہیں مگر جب مجلس سے باہرجاتے ہیں تو ان صحابہ کرام جو اہل علم ہیں یعنی آپ کے ارشادات جن کے لیے ذریعہ علم بنے کہتے ہیں کہ آپ نے ابھی ابھی کیا فرمایا تھا یعنی مذاق اڑاتے ہیں کہ ہم نے تو قابل توجہ نہیں سمجھا یہ ایسے لوگ ہیں جن کی برائی کے نتیجے میں اللہ نے ان کے دلوں پر مہر کردی اور اس کے نتیجے میں یہ خواہشات نفس کے پیروکار بن گئے ارشادات نبوی کا اعجاز۔ اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا ان کے لیے ہم آپ کے ارشادات عالیہ کو ایمان میں زیادتی کا سبب بنادیانیز انہیں ان ارشادات عالیہ سے علم بھی حاصل ہو اور توفیق عمل یعنی تقوی میں زیادتی بھی کہ ارشادات نبوی کا اعجاز یہ کہ صرف طریق کار کا پتہ ہی نہیں چلتا بلکہ اس کے ساتھ توفیق عمل اور خلوص بھی عطا ہوتا ہے یہی کیفیت شرف صحابیت کہلاتی ہے اور شیخ کی بات میں اس کی خوشبو ہونی چاہیے کہ سننے والے کو توفیق عمل بھی ارزاں ہو اور اس کی عملی زندگی میں تبدیلی آئے یہ لوگ کیا قیامت کا انتظار کر رہے ہیں کہ واقعی قیامت آجائے تو دیکھنے کے بعد ایمان قبول کریں گے وہ تو قبول کرنے کی فرصت نہ دے گی اور اچانک واقع ہوجائے گی اور جہاں تک اس کی نشانیوں کا تعلق ہے تو ان میں سے کچھ تو ظاہر ہوگئیں جیسے خود آپ کی بعثت اور شق قمر سوا نہیں بھی قبول کرنا چاہیے اگر قیامت واقع ہوگئی تو نصیحت حاصل کرنے کی فرصت نہ دے گی اور اسی طرح قیامت کے قائم ہونے سے قبل موت بھی چھوٹی قیامت ہے اور عندالموت بھی کافر کے لیے توبہ کا وقت گذرچکا ہوتاجب موت کی نشانیاں ظاہر ہوجائیں تو کافر کی توبہ قبول نہیں ہوتی جان لیجئے کہ اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ علم۔ یہاں واعلم فرمایا یعنی اس بات کا علم ہونا چاہیے تو علم سے مراد وہ بات جو بندے کا حال بن جائے ورنہ محض سن کر عمل نہ کرنا علم نہ ہوگا یہ محض خبر کے درجے میں ہوگا لہذا واعلم سے مراد دین پر کامل اور مکمل عمل ہوگا اس کے ساتھ اپنی خطاؤں کی بخشش طلب کیجئے۔ نبی کی خطا۔ انبیاء (علیہم السلام) خطاؤں سے پاک ہیں اور آپ تو امام الانبیاء ہیں انبیاء سے صرف اجتہاد ترک اولی کا صدور بعض اوقات ممکن ہے جو گناہ نہیں مگر ان کے بلند منصب کے باعث اسے بھی خطاکہہ دیا گیا اور مومنین سے جو خطائیں بتقاضائے بشریت سرزد ہوجاتی ہیں ان کے لیے بخشش طلب کیجئے سب خواتین وحضرات کے لیے کہ اللہ کریم تمہارے تمام احوال و کیفیات سے واقف ہے۔ علماء تفسیر فرماتے ہیں کہ اگر لا الہ الا اللہ اور استغفار کی تسبیحات کی جائیں تو دنیا سے رغبت کم ہوجاتی ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح آیات نمبر 12 تا 15 قرآن میں اصولی اور بنیادی بات یہ ارشاد فامائی گئی ہے کہ ہر وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول کا اطاعت گذار، فرماں بردار ‘ دین اور شریعت کی پابندی اور اپنی خواہش نفس کے خلاف چلنے والا ہے وہ نہ صرف دنیا میں کامیاب ترین آدمی ہے بلکہ آخرت کی تمام بھلائیاں بھی اسی کو عطا کی جائیں گی۔ اس کے برخلاف اللہ و رسول کا نافرمان ‘ کفر و شرک کے اندھیروں میں بھٹکنے والا ‘ بےحس اور بےعقل جانوروں کی طرح کھاپی کر زندگی گذارنے والا ‘ اپنے نفس اور بےجا خواہشتات کی غلامی کرنے والا نہ دنیا میں کامیاب ہے اور نہ آخرت میں بلکہ آخرت میں اس کا بدترین ٹھکانا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی اصولی بات کو زیر مطالعہ آیات میں ارشاد فرمایا ہے کہ جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد وہ تمام کام کئے جو اللہ اور اس کے رسول کے پسندیدہ ہیں تو ان کو ایسی جنتوں میں داخل کیا جائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی یعنی ہر طرف سرسبزی و شادابی کے منظر ہوں گے لیکن وہ لوگ جنہوں نے کفر و انکاری کی زندگی اختیار کرکے جانوروں کے جیسے بےحسی کے انداز اپنا لئے ہوں گے ان کا ٹھکانا جہنم اور اس کی آگ ہوگی۔ مکہ کے کفار جنہیں اپنی قبائلی زندگی اور اس کی سرداریوں پر بڑا ناز تھا اور معمولی سی دولت اور سرداریوں پر انہیں اس قدر فخر و غرور تھا کہ اپنے سوا سب کو حقیر و ذلیل سمجھتے تھے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ آج تمہیں جس طاقت وقوت پر ناز ہے تم سے پہلے ایسی زبردست قومیں گذری ہیں کہ جن کے پاس بیشمار مال و دولت کے ڈھیر تھے۔ وہ دنیا کی ترقی یا فتہ قومیں تھیں جن کی بلندو بالاعمارتیں ‘ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تجارتیں اور کاروبار اور عظیم سلطنتیں تھیں لیکن جب ان کی نافرمانیوں اور کفر و شرک کی وجہ سے ان پر اللہ کے قہر و غضب کا کوڑا برسایا گیا تو اس طرح صفحہ ہستی سے مٹادی گئیں کہ آج دنیا بھر میں ان کے کھنڈرات نشان عبرت بنے ہوئے ہیں۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار مکہ نے آپ کو جس بستی یعنی بیت اللہ کی سرزمین سے نکلنے پر مجبور کردیا تھا انہیں گذری ہوئی قوموں کے کھنڈرات کے آس پاس ‘ آتے جاتے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر وہ اللہ و رسول کی نافرمانیاں نہ کرتے تو آج بھی وہ دنیا میں عظیم قوتوں کے مالک ہوتے لیکن ان کی نافرمانیوں نے انہیں نشان عبرت و نصیحت بنادیا ہے۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ ایمان و صالح اور پاکیزہ زندگی گذارنے والے اور کفر و شرک کے اندھیروں میں بھٹکنے والے نافرمان اللہ کی نظر میں ایک جیسے نہیں ہیں۔ دونوں کا انجام یکساں نہیں ہے۔ یہ اللہ کے نظام عدل و انصاف کے خلاف ہے کہ وہ دونوں کے ساتھ ایک جیسا معاملہ کرے بلکہ نافرمانوں کے بدترین انجام کے مقابلے میں ایمان اور عمل صالح اختیار کرنے والوں کے لئے ایسی جنتوں کا وعدہ کیا گیا ہے جن میں ہر طرف خوشی و مسرت ‘ راحت و آرام ‘ سکون قلب و اطمینان ‘ عزت و سر بلندیاں ہوں گی۔ جن میں صاف ستھرے اور پاکیزہ کبھی نہ سڑنے اور بدلنے والے پانی کی نہریں ہوں گی۔ شراب کی ایسی نہریں بہادی جائیں گی جن میں اعلیٰ ترین شراب ہوگی جس کو پینے کے بعدنہ تو سر میں درد ہوگا اور نہ پینے والے کے قدم بہکیں گے۔ دودھ کی نہریں ہوں گی جن کا مزہ بھی تبدیل نہ ہوگا۔ صاف ستھرے شہد کی نہریں جو صاف ستھرا اور پاکیزہ شہد ہوگا۔ طرح طرح کے پھل ہوں گے جن کی لذت اور کیفیت کا اس دنیا میں اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ ان تمام چیزوں کے علاوہ دنیا میں ان اہل ایمان کے جو بھی کوتاہیاں ہوچکی ہیں وہ نہ صرف یہ کہ ان کو معاف کردی جائیں گی بلکہ ان کا ذکر تک نہ کیا جائے گا اور ان کے لئے سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ اہل جنت کو اللہ کا بےحجابانہ یعنی بغیر کسی ظاہری رکاوٹ کے دیدار نصیب ہوگا۔ ان خوش نصیب جنت والوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اللہ کے نافرمانوں کا انجام یہ ہوگا کہاں کو ایسی جہنم میں داخل کیا جائے گا جس میں انہیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہوگا۔ انہیں ایسا کھولتا ہوا پانی پینے کے لئے دیاجائے گا جس سے ان کی آنتوں کے ٹکڑے اڑجائیں گے اور ان کے لئے راحت و سکون کا کوئی سامان نہ ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ اس دنیا کی عارضی زندگی میں اپنی خواہشات کے غلام ہیں اور وہ دن رات صرف بےحس جانوروں جیسی زندگی گذارتے ہیں اور اسی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں جس طرف ان کی بےجا خواہشات ان کو دھکیلتی چلی جاتی ہیں تو وہ دنیا کے ناکامیاب اور آخرت کے اعتبار سے بد نصیب لوگ ہیں۔ اسی لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت عبد اللہ ابن عمر (رض) کی یہ روایت نقل کی گئی ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے “ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں بن سکتا جب تک اس کی ہر خواہش اور تمنا اس دین کے تابع نہ ہوجائے جسے میں لے کر آیا ہوں “۔ صحابہ کرام (رض) وہ پاکیزہ اور مقدس ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی کو اللہ کے اس دین کے تابع کرلیا تھا جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے تشریف لائے تھے۔ اس پر بعد کے نیک اور صالح بزرگ چلے اور آج ان کی زندگیاں ہمارے لئے مشعل راہ یہ دنیا میں بھی کامیاب رہے اور آخرت میں ان کا کیا اعلیٰ ترین مقام ہوگا اس کا تو اس دنیا میں رہتے ہوئے تصور بھی ممکن نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی صحابہ کرام (رض) اور بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے اور ان جیسی کامیابیاں عطا فرمائے۔ اور کفرو شرک ‘ بدعات و خرافات اور بےدینی کے ہر انداز سے محفوظ فرمائے ۔ آمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مسلمان دین پر قائم رہتے ہوئے منظم طریقے کے ساتھ کفار کا مقابلہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد ضرور کرتا ہے اور آخرت میں انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایمانداروں کے ساتھ بار بار وعدہ کیا ہے کہ اگر تم سچے دل کے ساتھ ایمان لاؤ اور اس کے بتلائے ہوئے صالح اعمال اختیار کرو تو تمہیں ایسی جنت میں داخل کیا جائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ یہاں تک کفار کا معاملہ ہے وہ اپنے رب کی نعمتیں کھاتے ہیں اور دنیا سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن آخر کار ان کا انجام جہنم کی آگ ہوگا اور یہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں جلتے رہیں گے۔ ہم نے اس سے پہلے کتنی ہی بستیاں تباہ کیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بستی مکہ سے طاقتور تھیں۔ جب ہم نے انہیں ہلاک کیا تو کوئی بھی ان کی مدد نہ کرسکا۔ اس فرمان میں کھلے الفاظ میں مکہ والوں کو انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر تم اپنی روش سے باز نہ آئے تو پہلے لوگوں کی طرح ہلاک اور برباد کر دئیے جاؤ گے پہلے کفار کا انجام بتلانے سے پہلے فرمایا ہے کہ یہ چوپاؤں کی طرح اللہ کی نعمتیں کھاتے اور استعمال کرتے ہیں لیکن ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ یہاں کفار کو چوپاؤں کے مشابہ قرار دیا گیا ہے کہ جس طرح چوپائے کھانے پینے اور رہنے سہنے سے آگے شعور نہیں رکھتے اسی طرح ہی کفار کی حالت ہے کہ وہ کھانے پینے اور رہنے سہنے سے بڑھ کر کچھ نہیں سوچتے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے کس لیے پیدا کیا ہے اور انہیں کون سے کام کرنے کا حکم دیا ہے اور کن کاموں سے منع کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ چوپاؤں سے بدتر ہیں۔ (وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ ) (الاعراف : ١٧٩) ” اور بلاشبہ ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ زیادہ بدتر اور غافل ہیں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ایماندار اور صالح کردار لوگوں کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ ٢۔ جنت میں نہریں اور آبشاریں جاری ہوں گی۔ ٣۔ کفار چوپاؤں کی طرح کھانے پینے سے آگے نہیں سوچتے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کفار کو جہنم کی آگ میں داخل کرے گا جو ان کے لیے بدترین ٹھکانہ ہوگا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے کئی بستیوں کو تباہ و برباد کیا جو مکہ والوں سے زیادہ طاقت رکھنے والے تھے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بستی کو تباہ کرتا ہے تو پھر ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن مومنوں کا مقام اور کفار کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ (الرعد : ٣٥) ٢۔ اللہ مومنوں کا دوست ہے۔ وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٥٧) ٣۔ صبر کرو متقین کا انجام بہتر ہے۔ (ہود : ٤٩) ٤۔ متقین کے لیے جنت ہے۔ (الحجر : ٤٥) ٥۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے۔ (القیامہ : ٢٢) ٦۔ مجرموں کے لیے جہنم ہے۔ (طٰہٰ : ٧٤) ٧۔ کفار کے چہرے کالے ہوں گے اور جنتی کے چہرے پرنور ہوں گے۔ (آل عمران : ١٠٦۔ ١٠٧) ٨۔ کفار کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی اور متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس : ٢٦۔ ٢٧) ٩۔ جو لوگ ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں وہ جہنمی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ : ٣٩) ١٠۔ جو لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں اور تکبر کرتے ہیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الاعراف : ٣٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے بعض اوقات اس زمین پر بھی بہت اچھا کھاتے پیتے ہیں لیکن اللہ مومنین کے اس حصے کے درمیان جو ان کی جنت کی صورت میں ملنے والا ہے اور کافروں کے اس تمام سروسامان کے درمیان موازنہ کرتا ہے جو ان کی اس دنیا اور آخرت دونوں میں ملنے والا ہے۔ مومنین کا حصہ رسدی یہ ہے کہ ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور ان کو یہ مقام عزت اللہ عطا کرے گا۔ لہٰذا مومنین کا یہ سازو سامان اور یہ اکرام بہت ہی بڑا ہے۔ یہ بارگاہ عزت میں ہے۔ یہ اللہ کے ہاں ان کا مقام ہے اور یہ ایمان وتقویٰ اور عمل و صلاح کی بنا پر ہے۔ یہ اونچی جنتوں میں اونچے رب تعالیٰ کی طرف سے بلند ایمان اور اعلیٰ اعمال کے بدلے ہوگا سب کچھ بلند ! اس کے مقابلے میں کافروں کا سازو سامان یوں ہے جس طرح مویشی چرچگ رہے ہیں۔ ویاکلون کما تاکل الانعام (٤٧ : ١٢) “ جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں ”۔ یہ ان کی بہت ہی خستہ اور گری ہوئی حالت ہے ، اس کے اندر انسانیت کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی نہیں ہے۔ اس میں یوں نظر آرہا ہے کہ کچھ حیوان ہیں جو منہ مار رہے ہیں اور حیوانی اور سخت قسم کی خوراک کھا رہے ہیں اور اس میں پاک و صاف اور اچھے اور برے کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ پس یہ ایک چارہ ہے جو یہ کھا رہے ہیں۔ اس کے لئے کوئی ضابطہ حلال و حرام نہیں۔ اس میں خدا کے خوف کی کوئی بات نہیں۔ نہ عدالت ضمیر سے کوئی پابندی عائد ہے۔ حیوانات کا خاصہ صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ کھائے اور پئے۔ اگرچہ کھانے پینے میں حیوانوں نے نہایت ہی اعلیٰ ذوق بنا لیا اور مختلف قسم کے استعمال کی اشیاء میں بہت ترقی کرلی ہو۔ جیسا کہ آج کل کے بہت سے نودولتے اس کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات مقصود نہیں ہے۔ اصل انسانی خصوصیت یہ ہے کہ انسان ایک ارادے کا مالک ہو ، اس کی زندگی گزارنے کی کچھ قدیریں ہوں ، اللہ کے ہاں جو طیب اور پاک خوراک ہو یعنی رزق حلال وہ اسے اختیار کرے۔ وہ ایسے ارادے کا مالک ہو جس کے اوپر انسانی شہوات کا دباؤ نہ ہو۔ اور نہ ہی وہ مقصد پیش نظر ہو کہ “ بابربعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ”۔ اور وہ اس زندگی کو مویشیوں کی طرح صرف دسترخوان ہی نہ سمجھتا ہو۔ اور عیش و عشرت ہی اس کے نزدیک زندگی نہ ہو۔ جو جائز و ناجائز کے حدود وقیود سے پاک ہو۔ بلکہ انسان اور حیوان کے درمیان تو فرق ہی یہ ہے کہ انسان ایک صاحب ارادہ مخلوق ہے۔ اس کا اس جہاں میں ایک خاص مقصد ہے اور ایک خاص شعور حیات ہے جو غیر مبہم اصولوں پر قائم ہے اور یہ اصول اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔ اگر انسان ان باتوں کو گم کر دے تو گویا اس نے مقام انسانیت کو گم کردیا ہے۔ اور وہ صرف حیوان رہ گیا ہے۔ کیونکہ انسانی خصوصیات میں سے اعلیٰ خصوصیات اس نے گم کردی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان کا انعام اور کفار کی بدحالی اس کے بعد اہل ایمان کا انعام اور کافروں کی طرز زندگی (دنیا میں) اور ان کا عذاب بیان فرمایا جو آخرت میں ان کے لیے تیار کیا گیا ہے فرمایا ﴿ اِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ١ؕ﴾ (بلاشبہ اللہ داخل فرمائے گا ایمان والوں کو اور جنہوں نے نیک عمل کیے ایسے باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی) ﴿ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَتَمَتَّعُوْنَ وَ يَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ (اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ نفع حاصل کرتے ہیں اور کھاتے ہیں جیسے چوپائے کھاتے ہیں یہ ان کا دنیاوی حال ہے) ﴿ وَ النَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ ٠٠١٢﴾ (اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے) اہل کفر کے سامنے دنیا ہی ہے اسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اس لیے کسی بھی طرح کی دنیاوی لذت اور دنیاوی طمع اور دنیاوی ترقی اور دنیاوی مال حاصل کرنے میں کوئی حیاء اور شرم انسانیت و مروت ان کے لیے رکاوٹ نہیں بنتی، جس طرح جانور اور چوپائے کھانے پینے میں ہر جگہ منہ مار لیتے ہیں اور جنسی لذت حاصل کرنے کے لیے سب کے سامنے سب کچھ کرلیتے ہیں، اسی طرح یہ دنیاوی لذتوں کے متوالے سب کچھ کر گزرتے ہیں یورپ اور امریکہ میں دیکھو قانونی طور پر عورت اور مرد کے میل ملاپ کے لیے نکاح کی شرط کو ختم کردیا ہے اور دوستانہ زندگی کا رواج پالیا ہے عورت اور مرد دوست (فرینڈ) بن کر گھومتے پھرتے ہیں کبھی اس سے جوڑ بیٹھ گیا کبھی دوسرے سے دوستی ہوگئی، پارکوں میں اور ہوٹلوں میں بلکہ سڑکوں پر مرد و عورت آپس میں لطف اندوز ہوتے ہیں حرام حلال کا شرم و حیا کا کوئی دھیان نہیں اور اب تو قانونی طور پر ان کی بعض حکومتوں نے مرد کا مرد سے استمتاع اور استلذاذ جائز قرار دے دیا ہے اب یہ لوگ یہاں تک اتر آئے کہ آدمیت اور انسانیت باقی نہ رہی تو کیا حرج ہے مزہ تو مل رہا ہے انسانیت اور شرافت کو دیکھیں تو بہت سی لذتوں سے محروم ہونا پڑتا ہے لہٰذا وہ ایسی انسانیت سے بھر پائے جس سے مزہ میں فرق آئے اور لذت کو بٹہ لگے، یہ یورپ اور امریکہ کے کافروں کے احساسات ہیں، ایشیاء والوں نے بھی ان کی راہ کو اختیار کرنا شروع کردیا ہے۔ جس طرح جنسی لذت کے لیے کافر لوگ دیوانے ہو رہے ہیں اسی طرح مال کمانے اور کھانے پینے میں جانوروں کی راہ اختیار کیے ہوئے ہیں حلال و حرام سے کوئی بحث نہیں جو ملا کھالیا جو چاہا کھالیا سور اور شراب تو ان کی روزانہ کی غذا ہے قرآن کریم میں ان کی اس دنیا والی زندگی کو ﴿يَتَمَتَّعُوْنَ وَ يَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ ﴾ سے تعبیر فرمایا اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اس مضمون کو سورة زمر میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ﴿قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيْلًا ١ۖۗ اِنَّكَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ ٠٠٨﴾ (آپ فرما دیجیے کہ تو اپنے کفر سے تھوڑا سا نفع حاصل کرلے بیشک تو دوزخ والوں میں سے ہے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” ان اللہ “ بشارت اخرویہ وہ بیان احوال مؤمنین۔ جو مؤمنین زیور عمل صالح سے آراستہ ہوں گے ان کو اللہ تعالیٰ جنت کے ایسے باغوں میں داخل فرمائے گا جن میں نہریں جاری ہوں گی ” والذین کفروا “ تخویف اخروی مع بیان احوال مشرکین۔ کفار آخرت سے ایسے غافل ہیں کہ ہر وقت دنیوی منافع حاصل کرنے اور عیش اڑانے میں مشغول ہیں اور چوپایوں کی طرف فکر آخرت اور انجام و عاقبت سے بیخبر ہو کر کھانے پینے میں منہمک رہتے ہیں۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ ” وکاین من قریۃ۔ الایۃ “ یہ مشرکین کے لیے تخویف دنیوی ہے اور ضمناً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ قریۃ سے مجازاً اہل قریہ مراد ہیں۔ بہت سی بستیاں جن میں سے ہر بستی والے آپ کی اس بستی (مکہ) والوں سے زیادہ طاقت ور تھے جنہوں نے آپ کو اس بستی سے نکالا ہے ہم نے ان کو ہلاک کردیا مگر ان کا کوئی یار و مددگار ان کی مدد کو نہ آیا۔ آپ گھبرائیں نہیں آخر کار ان سرکشوں کی بھی جڑ کاٹ دی جائیگی اور انجام کار غلبہ آپ ہی کو نصیب ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) بلا شبہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے اور نیک اعمال کے پابند رہے ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور وہ لوگ جو دین حق کے منکر اور کفر پیشہ ہیں وہ دنیا میں عیش کررہے ہیں اور اس طر ح دنیا میں بےفکر ہوکر کھاتے ہیں جیسے چوپائے کھایا کرتے ہیں اور ان منکروں کا آخری ٹھکانا جہنم ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جانور کا سا کھانا یعنی حرص سے اور مسلمان کھاویں رفع حاجت کو۔ خلاصہ : یہ ہے کہ اس آیت میں فریقین کا انجام مذکور ہے یعنی جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے پابند ہیں وہ جنت میں داخل ہوں گے جن کے پائیں نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ اور منکرین کی حالت بیان فرمائی کہ وہ دنیا میں عیش کررہے ہیں اور دنیوی زندگی سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں اور چونکہ آخرت کا یقین نہیں رکھتے اس لئے عبادت سے بےفکر ہوکر کھاتے ہیں جس طرح مویشی کھاتے ہیں کہ ان کہ نہ آخرت کی جوابدہی کا اندیشہ اور نہ عبادت کی فکر یہی حالت ان منکرین کی ہے اور ان کا انجام اور آخری ٹھکانا دوزخ کی آگ ہے۔ حضرت سعدی (رح) نے خوب فرمایا ہے۔ ؎ خوردن برائے زیستن وذکر کہ دن است تو معتقد آں کہ زیستن برائے خوردن است بس یہی فرق مومن اور منکر کے تمتع اور کھانے پینے میں ہے۔