Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 13

سورة محمد

وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ ہِیَ اَشَدُّ قُوَّۃً مِّنۡ قَرۡیَتِکَ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَتۡکَ ۚ اَہۡلَکۡنٰہُمۡ فَلَا نَاصِرَ لَہُمۡ ﴿۱۳﴾

And how many a city was stronger than your city [Makkah] which drove you out? We destroyed them; and there was no helper for them.

ہم نے کتنی بستیوں کو جو طاقت میں تیری اس بستی سے زیادہ تھیں جس سے تجھے نکالا گیا ہم نے انہیں ہلاک کر دیا ہے جن کا مددگار کوئی نہ اٹھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ هِيَ أَشَدُّ قُوَّةً مِّن قَرْيَتِكَ الَّتِي أَخْرَجَتْكَ ... And how many a town mightier than your town that has driven you out, (meaning, Makkah). ... أَهْلَكْنَاهُمْ فَلَ نَاصِرَ لَهُمْ We have destroyed, with none to help them! This is a great threat and severe warning to the people of Makkah because they rejected Allah's Messenger, who was the chief of the Messengers and the last of the Prophets. If Allah had destroyed the previous nations because of their denial of their Messengers, what then would those (people of Makkah) expect that Allah would do to them in the worldly life and the Hereafter And if the torment were to be lifted off some of them in this life by the blessing of the presence of the Messenger, the Prophet of Mercy, the torment will be stored for them in their next life, as Allah says, يُضَاعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ مَا كَانُواْ يَسْتَطِيعُونَ السَّمْعَ وَمَا كَانُواْ يُبْصِرُونَ Their torment will be doubled! They could not bear to hear (the preaching), and they used not to see (the truth). (11:20) Concerning Allah's saying, مِّن قَرْيَتِكَ الَّتِي أَخْرَجَتْكَ (than Your town that has driven you out), This means, `its people who have driven you (Muhammad) out from amongst them (the people of Makkah).' Ibn Abi Hatim recorded from Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, that when Allah's Messenger left Makkah (at the time of Hijrah -- migration), and he reached the cave and hid inside it, he looked back toward Makkah and said, أَنْتِ أَحَبُّ بِلَدِ اللهِ إِلَى اللهِ وَأَنْتِ أَحَبُّ بِلَدِ اللهِ إِلَيَّ وَلَوْلاَ أَنَّ الْمُشْرِكِينَ أَخْرَجُونِي لَمْ أَخْرُجْ مِنْك You are the most beloved to Allah among Allah's lands, and you are also the most beloved to me among Allah's lands. Were it not that the idolators have driven me out from you, I would never have left you. Ibn Abbas then said, "The worst of enemies is he who transgresses against Allah in His own sacred place, who kills a person who is not trying to kill him, or who kills because of Jahiliyyah vengeance. Allah then revealed to His Prophet, وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ هِيَ أَشَدُّ قُوَّةً مِّن قَرْيَتِكَ الَّتِي أَخْرَجَتْكَ أَهْلَكْنَاهُمْ فَلَ نَاصِرَ لَهُمْ And how many a town mightier than your town that has driven you out have We destroyed, with none to help them!"

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] ہجرت کے وقت آپ کے الوداعی کلمات :۔ بظاہر کافروں نے آپ کو مکہ سے نکالا تھا۔ بلکہ انہوں نے تو سو اونٹ انعام بھی مقرر کیا تھا کہ جو شخص محمد کو پکڑ کرلے آئے اسے سو اونٹ انعام دیا جائے گا۔ لیکن چونکہ ان کافروں نے آپ کو ایذائیں اور دکھ پہنچا پہنچا کر وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے نکالنے کے اصل سبب کی طرف نسبت فرمائی۔ جیسا کہ خود بھی رسول اللہ جب مکہ سے نکلنے لگے تو نہایت حسرت سے مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے :&& مکہ تو اللہ کے نزدیک بڑی عزت والا اور محبوب ہے اور مجھے بھی بہت محبوب ہے اگر تیرے باشندے مجھے یہاں سے نکل جانے پر مجبور نہ کردیتے تو میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا && (ترمذی۔ ابو اب المناقب۔ باب فی فضل مکۃ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وکاین من قریۃھی اشد قوۃ…: اس کا عطف ” افلم یسیروا فی الارض فینظروا “ پر ہے، دریمان میں بات سے بات نکلتی گئی ہے، دوبارہ پھر وہی سلسلہ کلام شروع فرمایا ہے۔ اس میں کفار مکہ کے لئے وعید اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی ہے کہ اہل مکہ جنہوں نے آپ کو اپنی بستی سے نکلنے پر مجبور کردیا، اپنی قوت و شوکت پر مغرور نہ ہوں اور آپ ان کی قوت دیکھ کر دل برداشتہ نہ ہوں، ان بےچ اورں کی کیا حیثیت ہے۔ ان سے پہلے کتنی ہی بستیاں تھیں جو قوت میں ان سے کہیں زیادہ تھیں، ہم نے انہیں ہلاک کردیا، پھر ان کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔ دیکھیے سورة روم (٩، ١٠) اور سورة مومن (٢١) ۔ (٢) ” قریہ “ سے مراد قریہ والے ہیں، جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اپنے والد ماجد سے کہا :(وسئل القریۃ التی کنا فیھا والعیر التی اقبلنا فیھا) (یوسف : ٨٢)” اور اس بستی سے پوچھ لے جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے بھی جس میں ہم آئے ہیں۔ “ اس لئے آگے ” اھلکنا ھا “ کے بجائے ” اھلکنھم “ (ہم نے انہیں ہلاک کردیا) فرمایا یعنی اس بستی والوں کو ہلاک کردیا۔ پوری بستی کو نکالنے والا قرار دینے میں ناراضی کا اظہار ہے، کیونکہ کچھ نکالنے والے تھے اور کچھ خاموش رہ کر ان کا ساتھ دینے والے ، جیسا کہ قوم عاد کے متعلق فرمایا :(فکذبوہ فعقروھا) (الشمس :13)” تو انہوں نے اسے جھٹلا دیا، پس اس (اونٹنی) کی کونچیں کاٹ دیں۔ “ حالانکہ اونٹنی کو کاٹنے والا تو ایک ہی شخص تھا۔ (٣) اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تسلی اس لئے بھی دی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ مکہ سے نکلنے کا شدید رنج اور صدمہ تھا۔ عبداللہ بن عدی بن حمراء الزہری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” حزورہ “ مقام پر کھڑے ہوئے دیکھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(واللہ ! انک لخیر ارض اللہ واحب ارض اللہ الی اللہ ولو لا انی اخر جت منک ماخر جث) (ترمذی، المناقب، باب فی فضل مکۃ :3925، وقال الالبانی صحیح، )” اللہ کی قسم ! تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر ہے اور اللہ کی زمین میں سے اللہ کی ہاں سب سے زیادہ محبوب ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ مجھے تجھ سے نکال دیا گیا تو میں نہ نکلتا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَۃٍ ہِىَ اَشَدُّ قُوَّۃً مِّنْ قَرْيَتِكَ الَّتِيْٓ اَخْرَجَتْكَ۝ ٠ ۚ اَہْلَكْنٰہُمْ فَلَا نَاصِرَ لَہُمْ۝ ١٣ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور بہت سی بسیتوں والے جو طاقت و شوکت میں اس بستی یعنی مکہ والوں سے زیادہ تھے نہوں نے آپ کو مدینہ منورہ کی طرف نکال دیا سو ہم نے تکذیب کے وقت ان کو ہلاک کردیا، پھر عذاب الہی کے مقابلہ میں کوئی ان کا مددگار نہ ہوا۔ شان نزول : وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ (الخ) ابو یعلے نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ہجرت کے وقت غار کی جانب روانہ ہوئے تو مکہ مکرمہ کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ تو تمام شہروں میں مجھے سب سے زیادہ پیارا ہے۔ اور اگر تیرے رہنے والے مجھے نہ نکالتے تو میں نہ نکلتا۔ اس پر حق تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی یعنی بہت سی بستیاں ایسی ہیں جو قوت میں آپ کی اس بستی سے زیادہ تھیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ { وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ ہِیَ اَشَدُّ قُوَّۃً مِّنْ قَرْیَتِکَ الَّتِیْٓ اَخْرَجَتْکَ } ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) کتنی ہی ایسی بستیاں تھیں جو کہیں زیادہ قوت کی حامل تھیں آپ کی اس بستی سے جس نے آپ کو نکالا ہے۔ “ قریش نے اپنی طاقت کے زعم میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکل جانے پر مجبور تو کردیا ہے ‘ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان سے پہلے دنیا میں ان کے شہر سے کہیں بڑے بڑے شہر آباد تھے اور ان شہروں کے باسی ان سے کہیں بڑھ کر طاقت و شوکت کے حامل تھے مگر : { اَہْلَکْنٰہُمْ فَلَا نَاصِرَ لَہُمْ } ” انہیں ہم نے ہلاک کردیا ‘ پس ان کا کوئی مد دگارنہ ہوا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :18 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ سے نکلنے کا رنج تھا ۔ جب آپ ہجرت پر مجبور ہوئے تو شہر سے باہر نکل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف رخ کر کے فرمایا تھا مکہ ، تو دنیا کے تمام شہروں میں خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہے ، اور خدا کے تمام شہروں میں مجھے سب سے بڑھ کر تجھ سے محبت ہے ۔ اگر مشرکوں نے مجھے نہ نکالا تو میں تجھے چھوڑ کر کبھی نہ نکلتا ۔ اسی پر ارشاد ہوا ہے کہ اہل مکہ تمہیں نکال کر اپنی جگہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔ حالانکہ درحقیقت یہ حرکت کر کے انہوں نے اپنی شامت بلائی ہے ۔ آیت کا انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ ضرور ہجرت سے متصل ہی نازل ہوئی ہوگی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: مکہ مکرمہ کے کافروں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا گھر بار چھوڑ کر مکہ مکرمہ سے نکلنے پر جو مجبور کیا تھا، اس کی طرف اشارہ ہے، اور فرمایا جا رہا ہے کہ ان کی اس کارروائی سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ لوگ طاقتور ہونے کی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غالب آگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ طاقت ور قوموں کو ہلاک کرچکا ہے، ان کی تو ان کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ہے، اس لیے آخر کار غلبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو حاصل ہوگا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٣۔ مسند ٣ ؎ ابو یعلی موصلی میں حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ہجرت کے وقت جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے نکلے تو آپ نے مکہ کی طرف پھر کر دیکھا اور فرمایا کہ دنیا بھر کے شہروں سے زیادہ یہ شہر مجھ کو زیادہ پیارا اور عزیز ہے اگر قریش لوگ زبردستی مجھ کو اس شہر سے نکالتے تو میں ہرگز اس بستی سے نہ نکلتا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرما دیا کہ قریش سے زیادہ صاحب قوت صاحب شوکت قوموں کو اللہ تعالیٰ نے بڑی ذلت اور خواری سے ایک دم میں طرح طرح کے عذابوں سے ایسا ہلاک کردیا کہ کوئی ان لوگوں کی کچھ حمایت اور مدد نہ کے گا اگر یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز نہیں آئیں گے تو وہی ذلت و خواری گویا ان کے سر پر بھی سوار ہے چناچہ اللہ کے وعدہ کے موافق دس برس کے اندر وہی ہوا کہ جن بتوں کی حمایت میں ان بت پرستوں نے اللہ کے رسول کو اللہ کے گھر نکالا تھا وہ بت فتح مکہ کے وقت توڑے گئے بڑے بڑے بت پرست جنگ بدر میں گور و کفن نہایت ذلت و خواری سے مارے گئے بعض مفسروں نے یہ جو لکھا ہے کہ حجتہ الوداع کے وقت جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ چھوڑا تو آپ مکہ کی طرف دیکھ کر روئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اس شان نزول پر اکثر مفسرین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ حجتہ الوداع کے وقت تو مکہ فتح ہوچکا تھا پھر فتح کے بعد جس آئندہ کی تسکین کا اس آیت میں ذکر ہے اس کی ضرورت کیا تھی اور فتح مکہ اور مکہ میں اسلام پھیلنے کے بعد آنحضرت کو مکہ کے چھوڑنے کا رنج ہی کیا تھا غرض آیت کے مضمون سے پہلا ہی شان نزول صحیح ہے کیونکہ شان نزول سبب نزول کو کہتے ہیں اور سبب نزول آیت کے مضمون اور مطلب کے مخالف ممکن نہیں ہے علمائے مفسرین کے نزدیک سلف کا یہ مذہب مشہور ہے کہ ہجرت کے بعد خود مکہ میں بھی جو آیتیں نازل ہوئی ہیں وہ مدنی ہیں اس واسطے یہ آیت بھی مدنی کہلاتی ہے مشرکین مکہ میں کے بڑے بڑے سرکش بدر کی لڑائی میں جو مارے گئے اس کا قصہ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کی انس بن مالک کی روایت ہے اور بتوں کے توڑنے جانے کا قصہ صحیح بخاری کی ٢ ؎ عبد اللہ بن مسعود اور صحیح مسلم کی ابوہریرہ (رض) کی روایتوں سے اوپر گزر چکا ہے۔ ( ٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٧٥ ج ٤۔ ) ١ ؎ دیکھئے تفسیر ہذا جلد ہذا ص ٢٢٠ و ص ١٩٧۔ ) (٢ ؎ دیکھئے تفسیر ہذا جلد ہذا ص ٢٢٠ و ص ١٩٧۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:13) وکاین ۔ وائو عاطفہ ہے کاین اصل میں کای تھا۔ قرآنی اصطلاح میں تنوین کو بصورت نون لکھا گیا۔ کاین ہمیشہ خبری صورت میں مستعمل ہے، مبہم کثیر تعداد پر دلالت کرتا ہے۔ ابہام کو دور کرنے کے لئے اس کے لئے بطور تمیز کوئی لفظ مذکور ضرور ہوتا ہے۔ عموما ممیز لفظ من کے ساتھ آتا ہے۔ جیسے وکاین من نبی قاتل معہ ربیون کثیر (3:146) اور بکثرت پیغمبروں کی معیت میں بہت سے اللہ والوں نے (کافروں سے ) جہاد کیا۔ اس مثال میں کاین نے کثیر تعداد کو ظاہر کیا۔ لیکن کس کی یہ بات مبہم تھی جب اس کے بعد من نبی آیا۔ تو ابہام دور ہوگیا “ اور معلوم ہوگیا کہ وہ کثیر تعداد پیغمبروں کی تھی۔ کاین ہمیشہ آغاز کلام میں آتا ہے اس سے پہلے حرف جر نہیں آتا۔ اس کی خبر ہمیشہ مرکب ہوتی ہے مفرد کبھی نہیں ہوتی۔ قرآن مجید میں کاین ہر جگہ بصورت خبر آیا ہے۔ بہت، بکثرت، نیز ملاحظہ ہو (3:146) ۔ وکاین من قریۃ اور بہت سی بستیاں۔ ھی اشد قوۃ من قریتک التی اخرجتک ۔ ھی ضمیر واحد مؤنث غائب قریۃ کی طرف راجع ہے اشد اسم تفضیل کا صیغہ ہے۔ سخت تر، قوی تر، قوۃ اسم تمیز، (ازروئے قوت) قریتک ، تیری بستی، مضاف مضاف الیہ مل کر موصوف التی اسم موصول واحد مؤنث اخرجتک صلہ اپنے موصول کا ، صلہ اور موصول مل کر، صفت ہوئے اپنے موصوف کی۔ موصوف اور صفت مل کر مفصل علیہ۔ وہ بستیاں جو قوت میں آپ کی اس بستی سے جس نے آپ کو نکال دیا تھا بڑھ چڑھ کر تھیں قریۃ سے مراد اہل قریہ ہیں۔ مضاف کو حذف کردیا گیا اور مضاف الیہ پر مضاف کے احکام جاری کر دئیے گئے۔ التی اخرجتک : التی اسم موصول واحد مؤنث قریۃ کے لئے آیا ہے۔ اور اسی بناء پر اخرجت ماضی واحد مؤنث غائب کا صیغہ استعمال ہوا ہے مراد یہاں بستی کے رہنے والے ہیں جنہوں نے آپ کو وطن سے نکال دیا تھا۔ اھلکنہم : اھلکنا۔ ماضی جمع متکلم اھلاک افعال مصدر۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ ہم نے ان کو ہلاک کردیا۔ فلانا صر لہم۔ ناصر منصوب بوجہ عمل لا ہے، سو کوئی ان کا مددگار نہ ہوا۔ یہاں بستیون کی بجائے اہل بستی مذکور ہوئے ہیں۔ اس لئے جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 مطلب یہ ہے کہ ان کفار مکہ کی کیا ہستی ہے ہم نے ان سے کہیں زبردست قوموں کو تہس نہس کردیا اور وقت پڑنے پر کوئی ان کی مدد نہ کرسکا حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ہجرت کے موقع پر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے نکل کر غار ثور کے پاس آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کی طرف رخ کر کے فرمایا تو اللہ کے نزدیک سب سے پیارا شہر ہے اور مجھے بھی دوسرے شہروں سے زیادہ محبوب سے اگر مشرکوں کے مجھ تجھ سے نکالا نہ ہوتا تو میں تجھ سے ہرگز نہ نکلنا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ ایسی حالت میں ان کو مغرور نہ ہونا چاہئے کیونکہ ہم جب چاہیں ان کی بھی صفائی کرسکتے ہیں، اور نہ آپ محزون ہوں کیونکہ ہم ان کو بھی اشتراک علت کفر و مخالفت کی وجہ سے وقت پر سزا دینے والے ہیں اور یہ لوگ کہ اہل باطل ہیں بمقابلہ آپ کے اور جمیع اہل حق کے کیونکر قابل سزا نہ ہوں گے جبکہ اہل باطل محض نفس کی راہ پر ہیں اور اہل حق خدا کی راہ پر ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب ایک موازنہ ان بستیوں کے درمیان جو ہلاک ہوئیں اور اس بستی کے درمیان جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکال دیا۔ وکاین من قریۃ ۔۔۔۔۔۔۔ فلا ناصر لھم (٤٧ : ١٣) “ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، کتنی ہی بستیاں ایسی گزر چکی ہیں جو تمہاری اس بستی سے بہت زیادہ زور آور تھیں جس نے تمہیں نکال دیا ہے۔ انہیں ہم نے اس طرح ہلاک کردیا کہ کوئی ان کا بچانے والا نہ تھا ”۔ یہ وہ آیت ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان اس وقت نازل ہوئی جب آپ ہجرت کا سفر فرما رہے تھے اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے ۔ کیونکہ اپنا ملک ہمیشہ کے لئے چھوڑنا ایک مشکل کام ہے اور اس میں تسلی دی گئی کہ بظاہر تو یہ لوگ بڑے جبار نظر آتے ہیں ، دعوت اسلامی کی راہ روکے ہوئے ہیں ، اہل ایمان پر تشدد کرتے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے ان کو اپنے گھروں سے نکل جانے پر مجبور کردیا ہے اور وہ دولت ایماں لے کر جا رہے ہیں لیکن دراصل یہ جبار بہت ہی کمزور ہیں۔ ٭٭٭ اب دونوں فریقوں کے درمیان مزید موازنہ کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ مومنین کو جنتیں عطا کرے گا ، جہاں نہریں بہتی ہیں ، اس دنیا میں ان کو نصرت اور عزت بخشے گا ، اور کفار کا کوئی آقا نہیں ہے ، ان کا کوئی ناصر نہیں ہے وہ دنیا میں ہلاک ہوں گے اور آخرت میں خوار ہوں گے ، اور ہمیشہ جہنم میں ہوں گے۔ یہ کیوں ؟ افمن کان علی ۔۔۔۔۔ اھواء ھم (٤٧ : ١٤) “ بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف وصریح ہدایت پر ہو ، وہ ان لوگوں کی طرح ہوجائے جن کے لئے ان کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کے پیرو بن گئے ہیں ”۔ یہ ہے وہ فرق دونوں گروہوں کے درمیان ،۔۔۔۔ زندگی اور مقصد زندگی دونوں میں فرق ہے۔ جو اہل ایمان ہیں وہ : علی بینۃ من ربہ (٤٧ : ١٤) “ اپنے رب کی طرف سے صاف ہدایت پر ہیں ”۔ وہ حق کو جانتے ہیں اور انہوں نے اسے پہچان لیا ہے۔ وہ حق کے سرچشمے تک پہنچ گئے ہیں اور ان کے پاس جو حق آرہا ہے وہ اس پر جمے ہوئے ہیں۔ وہ کسی دھوکے میں ہیں اور نہ گمراہی میں۔ اور کفار ایک بڑے دھوکے میں پڑے ہیں۔ شیطان نے ان کو لیے ان کے برے اعمال خوشنما بنا دئیے ہیں۔ پھر ان کے اعمال کے بارے میں ان کو کوئی یقین بھی نہیں ہے کہ وہ کہاں سے ہدایات لیتے ہیں۔ واتبعوا اھواءھم (٤٧ : ١٤) “ وہ اپنی خواہشات کے پیروکار ہیں ”۔ کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ کوئی اصول نہیں ہے جس پر جائز و ناجائز کا تعین ہو ، اور کوئی روشنی ان کے پاس نہیں جس کے ذریعہ وہ حق و باطل کی تمیز کریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل مکہ کو تنبیہ اس کے بعد اہل مکہ کو تنبیہ فرمائی اس میں خطاب تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے کیونکہ آپ کو اس میں تسلی دی ہے اور سنانا منکرین کو بھی ہے تاکہ وہ عبرت حاصل کریں ارشاد فرمایا ﴿ وَ كَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ ﴾ اور کتنی ہی بستیاں تھیں جن کے رہنے والے آپ کی اس بستی کے رہنے والوں سے قوت میں زیادہ سخت تھے جس سے آپ کو نکال دیا گیا ہے ہم نے ان کو ہلاک کردیا کوئی بھی ان کا مددگار نہ تھا ان کو بھی اپنی قوت اور طاقت پر غرور کرنے کا کوئی مقام نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) اور اے پیغمبر کتنی ہی بستیاں ایسی تھیں جو آپ کی اس بستی سے جس کے باشندوں نے آپ کو جلاوطن اور گھر سے بےگھر کیا ہے قوت و طاقت اور زور میں بڑھی ہوئی تھیں ہم نے ان زور آور بستیوں کو ہلاک کرڈالا اور کوئی بھی ہلاک کرتے وقت ان کا مددگار نہ ہوا۔ یعنی بہت سی بستیاں جس کے رہنے والے باشندے ان مکہ والوں سے طاقت اور زور میں بہت زیادہ تھے جنہوں نے آپ کو آپ کے وطن سے نکالا ہے ہم نے ان بستیوں کے رہنے والوں کو ہلاک کرڈالا اور ہلاک ہوتے وقت ان کی کوئی مدد کرنے والا اور ان کو بچانے والا نہ ہوا تو یہ مکہ کے منکر کس گنتی اور شمار میں ہیں۔