Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 14

سورة محمد

اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ کَمَنۡ زُیِّنَ لَہٗ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ ﴿۱۴﴾

So is he who is on clear evidence from his Lord like him to whom the evil of his work has been made attractive and they follow their [own] desires?

کیا پس وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل پر ہو اس شخص جیسا ہو سکتا ہے؟ جس کے لئے اس کا برا کام مزین کر دیا گیا ہو اور وہ اپنی نفسانی خواہشوں کا پیرو ہو؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Worshipper of the Truth and the Worshipper of Lust are not Equal Allah says: أَفَمَن كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ ... Can then he, who stands on clear evidence from his Lord... This means a person who is upon clear vision and certainty concerning Allah's commands and His religion, because of the guidance and knowledge that Allah has revealed in His Book, and because of the pure nature upon which Allah has created him. ... كَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءهُمْ (Can he) be likened to those for whom their evil deeds are beautified for them, while they follow their own lusts? which means that they cannot be equal. This is similar to Allah's saying, أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَأ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَى Can he who knows that what has been revealed unto you from your Lord is the truth be like him who is blind? (13:19) And, لااَ يَسْتَوِى أَصْحَـبُ النَّارِ وَأَصْحَـبُ الْجَنَّةِ أَصْحَـبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَأيِزُونَ Not equal are the people of the Fire and the people of Paradise. The People of Paradise will be the successful ones. (59:20) Description of Paradise and Its Rivers Allah then says:

دودھ پانی اور شہد کے سمندر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص دین اللہ میں یقین کے درجے تک پہنچ چکا ہو ، جسے بصیرت حاصل ہو چکی ہو فطرت صحیحہ کے ساتھ ساتھ ہدایت و علم بھی ہو وہ اور وہ شخص جو بد اعمالیوں کو نیک کاریاں سمجھ رہا ہو جو اپنی خواہش نفس کے پیچھے پڑا ہوا ہو ، یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے جیسے فرمان ہے آیت ( اَفَمَنْ يَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰى ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ 19۝ۙ ) 13- الرعد:19 ) یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ کی وحی کو حق ماننے والا اور ایک اندھا برابر ہو جائے اور ارشاد ہے آیت ( لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ 20؀ ) 59- الحشر:20 ) یعنی جہنمی اور جنتی برابر نہیں ہو سکتے جنتی کامیاب اور مراد کو پہنچے ہوئے ہیں ۔ پھر جنت کے اور اوصاف بیان فرماتا ہے کہ اس میں پانی کے چشمے ہیں جو کبھی بگڑتا نہیں ، متغیر نہیں ہوتا ، سڑتا نہیں ، نہ بدبو پیدا ہوتی ہے بہت صاف موتی جیسا ہے کوئی گدلا پن نہیں کوڑا کرکٹ نہیں ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں جنتی نہریں مشک کے پہاڑوں سے نکلتی ہیں اس میں پانی کے علاوہ دودھ کی نہریں بھی ہیں جن کا مزہ کبھی نہیں بدلتا بہت سفید بہت میٹھا اور نہایت صاف شفاف اور بامزہ پر ذائقہ ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ یہ دودھ جانوروں کے تھن سے نہیں نکلا ہوا بلکہ قدرتی ہے اور نہریں ہوں گی شراب صاف کی جو پینے والے کا دل خوش کر دیں دماغ کشادہ کر دیں ۔ جو شراب نہ تو بدبودار ہے نہ تلخی والی ہے نہ بد منظر ہے ۔ بلکہ دیکھنے میں بہت اچھی پینے میں بہت لذیذ نہایت خوشبودار جس سے نہ عقل میں فتور آئے نہ دماغ چکرائیں نہ منہ سے بدبو آئے نہ بک جھک لگے نہ سر میں درد ہو نہ چکر آئیں نہ بہکیں نہ بھٹکیں نہ نشہ چڑھے نہ عقل جائے حدیث میں ہے کہ یہ شراب بھی کسی کے ہاتھوں کی کشیدگی ہوئی نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے تیار ہوئی ہے ۔ خوش ذائقہ اور خوش رنگ ہے جنت میں شہد کی نہریں بھی ہیں جو بہت صاف ہے اور خوشبودار اور ذائقہ کا تو کہنا ہی کیا ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ یہ شہد بھی مکھیوں کے پیٹ سے نہیں مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ جنت میں دودھ پانی شہد اور شراب کے سمند رہیں جن میں سے ان کی نہریں اور چشمے جاری ہوتے ہیں یہ حدیث ترمذی شریف میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح فرماتے ہیں ۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے یہ نہریں جنت عدن سے نکلتی ہیں پھر ایک حوض میں آتی ہیں وہاں سے بذریعہ اور نہروں کے تمام جنتوں میں جاتی ہیں ایک اور صحیح حدیث میں ہے جب تم اللہ سے سوال کرو تو جنت الفردوس طلب کرو وہ سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ جنت ہے اسی سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں اور اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے ۔ طبرانی میں ہے حضرت لقیط بن عامر جب وفد میں آئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جنت میں کیا کچھ ہے ؟ آپ نے فرمایا صاف شہد کی نہریں اور بغیر نشے کے سر درد نہ کرنے والی شراب کی نہریں اور نہ بگڑنے والے دودھ کی نہریں اور خراب نہ ہونے والے شفاف پانی کی نہریں اور طرح طرح کے میوہ جات عجیب و غریب بےمثل و بالکل تازہ اور پاک صاف بیویاں جو صالحین کو ملیں گی اور خود بھی صالحات ہوں گی دنیا کی لذتوں کی طرح ان سے لذتیں اٹھائیں گے ہاں وہاں بال بچے نہ ہوں گے ۔ حضرت انس فرماتے ہیں یہ نہ خیال کرنا کہ جنت کی نہریں بھی دنیا کی نہروں کی طرح کھدی ہوئی زمین میں اور گڑھوں میں بہتی ہیں نہیں نہیں قسم اللہ کی وہ صاف زمین پر یکساں جاری ہیں ان کے کنارے کنارے لؤلؤ اور موتیوں کے خیمے ہیں ان کی مٹی مشک خالص ہے پھر فرماتا ہے وہاں ان کے لئے ہر طرح کے میوے اور پھل پھول ہیں ۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( يَدْعُوْنَ فِيْهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ اٰمِنِيْنَ 55؀ۙ ) 44- الدخان:55 ) ، یعنی وہاں نہایت امن و امان کے ساتھ وہ ہر قسم کے میوے منگوائیں گے اور کھائیں گے ایک اور آیت میں ہے ( فِيْهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجٰنِ 52۝ۚ ) 55- الرحمن:52 ) ، دونوں جنتوں میں ہر اک قسم کے میوؤں کے جوڑے ہیں ان تمام نعمتوں کے ساتھ یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ رب خوش ہے وہ اپنی مغفرت ان کے لئے حلال کر چکا ہے ۔ انہیں نواز چکا ہے اور ان سے راضی ہو چکا ہے اب کوئی کٹھکا ہی نہیں ۔ جنتوں کی یہ دھوم دھام اور نعمتوں کے بیان کے بعد فرماتا ہے کہ دوسری جانب جہنمیوں کی یہ حالت ہے کہ وہ جہنم کے درکات میں جل بھلس رہے ہیں اور وہاں سے چھٹکارے کی کوئی سبیل نہیں اور سخت پیاس کے موقعہ پر وہ کھولتا ہوا گرم پانی جو دراصل آگ ہی ہے لیکن بہ شکل پانی انہیں پینے کے لئے ملتا ہے کہ ایک گھونٹ اندر جاتے ہی آنتیں کٹ جاتی ہیں اللہ ہمیں پناہ میں رکھے ۔ پھر بھلا اس کا اس کا کیا میل ؟ کہاں جنتی کہاں جہنمی کہاں نعمت کہاں زحمت یہ دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14، 1 برے کام سے مراد شرک اور معصیت ہیں، مطلب وہی ہے جو پہلے بھی متعدد جگہ گزر چکا ہے کہ مومن و کافر، مشرک و موحد اور نیکوکار اور بدکار برابر نہیں ہوسکتے ایک کے لئے اللہ کے ہاں اجر وثواب اور جنت کی نعمتیں ہیں، جب کہ دوسرے کے لئے جہنم کا ہولناک عذاب۔ اگلی آیت میں دونوں کا انجام بیان کیا جا رہا ہے۔ پہلے اس جنت کی خوبیاں اور محاسن جس کا وعدہ متقین سے ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] واضح دلیل سے مراد وہ صاف ستھرا راستہ ہے جو وحی الٰہی کی روشنی میں پوری طرح نظر آرہا ہو۔ یعنی ایک شخص تو پورے علم اور یقین کے ساتھ روشنی میں اپنی زندگی کا سفر طے کررہا ہے۔ دوسرے کے پاس وہم و گمان کی تاریکیاں ہی تاریکیاں ہیں۔ وہ اپنے نفس کی خواہش کا پیروکار ہوتا ہے۔ اور دنیا کا زیادہ سے زیادہ مال کمانا ہی اس کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لیے جو بھی وہ جائز اور ناجائز ذرائع استعمال کرتا ہے سب اسے اچھے ہی نظر آتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ان دونوں آدمیوں کا طرز زندگی ایک جیسا ہوسکتا ہے ؟ یا ان دونوں کا انجام ایک ہی جیسا ہونا چاہئے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) افمن کان لعی بینۃ من ربہ …: اس آیت میں ممون و کافر کے درمیان ایک اور فرق بیان فرمایا ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ ایمان اور عمل صالح والوں کو جنت میں داخل فرمائے گا اور کفر کرنے والوں کا ٹھکانا آگ ہوگا۔” بینۃ من ربہ “ (اپنے رب کی طرف سے دلیل ) سے مراد ایک تو انسانی فطرت میں رکھی ہوئی اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی توحید ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب سے حاصل ہونے والی ہدایت اور علم ہے جس کی وجہ سے مومن کو اپنے حق پر ہونے کا پورا یقین ہوتا ہے۔ وہ زندہ رہتا ہے تو اس یقین کے ساتھ کہ میں حق پر ہوں اور دشمن کے مقابلے میں لڑتا اور شہید ہوتا ہے تو اسی یقین کے ساتھ۔ وہ جس راستے پر چل رہا ہے اس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے۔ فرمایا گیا یہ شخص اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کیلئے اس کے برے اعمال خوش نما بنا دیئے گئئے ہیں حتی کہ رسول اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالنا بھی اسے اچھا کام نظر آتا ہے اور وہ وحی اور ہدایت کے نور سے منہ موڑ کر کفر و شرک اور اندھا دھند اپنی خواہش کی پیروی کی راہ پر چل نکلا ہے جس سے اس کا نور فطرت بھی بجھ چکا ہے ؟ جواب ظاہر ہے کہ یہ دونوں ہرگز برابر نہیں ہوسکتے۔ تو ظاہر ہے کہ ان کا انجام بھی کسی صورت ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر بیان فرمائی ہے۔ دیکھیے سورة رعد (١٩) ، سورة ص (٢٨) اور سورة جاثیہ (٢١) ۔ (٢) احسن التفاسیر میں ہے :” حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جو لوگ خلاص اللہ کی عبادت کرتے ہیں ان کے پاس یہ سند (بینہ اور دلیل ) ہے کہ انسان کو اور انسان کی سب ضرورتوں کو اس طرح اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے تو لائق تعظیم و عبادت بھی وہی وحدہ لاشریک لہ ہے اور جو لوگ اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک کرتے ہیں ان کے پاس کوئی شرعی یا عقلی دلیل نہیں ہے۔ بت پرستی جیسی بری چیز کو شیطان نے ان کی نظر میں اچھا کر کے دکھا دیا ہے، اس لئے وہ لوگ اسی شیطانی وسوسے کے سبب اپنی خواہش پر چلتے ہیں۔ اسی کو ” واثبعوا اھوآء ھم “ فرمایا۔ “ (مختصراً ) (٣) ” کمن زین لہ سوء ٓ عملہ “ (اس کے لئے اس کے برے اعمال مزین کردیئے گئے) میں برے اعمال مزین کرنے والے کا ذکر مجہول رکھا ہے، کیونکہ آدمی کے لئے اس کے اعمال کو بد کو مزین کرنے والی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں جن میں اس کی خواہش نفس بھی ہے، انسانی اور جنی شیطان بھی اور اس کے اعمال بد کی نحوست بھی۔ فعل مجہول (مزین کردیئے گئے) میں مزین کرنے والی یہ سب اشیاء آجاتی ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰي بَيِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ كَمَنْ زُيِّنَ لَہٗ سُوْۗءُ عَمَلِہٖ وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَاۗءَہُمْ۝ ١٤ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) بَيِّنَة والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . ( ب ی ن ) البَيِّنَة کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تو جو ذات یعنی رسول اکرم اپنے پروردگار کے واضح اور صحیح رستہ پر ہوں تو کیا وہ ابو جہل وغیرہ کی طرح ہوسکتے ہیں جن کی بدعملی ان کو بہتر معلوم ہوتی ہے اور وہ بتوں کو پوجتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ { اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ } ” تو بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہے “ یعنی اس کی سرشت اور فطرت بھی نیک ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت اس کو دی ہے وہ اس ہدایت پر بھی قائم ہے۔ { کَمَنْ زُیِّنَ لَہٗ سُوْٓئُ عَمَلِہٖ وَاتَّبَعُوْْٓا اَہْوَآئَ ہُمْ } ” وہ اس شخص جیسا ہوجائے گا جس کے لیے اس کے ُ برے اعمال مزین ّکر دیے گئے ہیں ‘ اور انہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی ہے۔ “ ایسے لوگوں کو وہی کچھ نظر آتا ہے جو ان کی خواہشات کا آئینہ انہیں دکھاتا ہے اور ظاہر ہے یہ آئینہ تو کالے کرتوتوں کو بھی خوشنما بنا کر ہی دکھاتا ہے۔ اسی وجہ سے فرعون نے اہل مصر کی تہذیب و روایات کو مثالی { بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی } ( طٰہٰ ) قرار دیا تھا۔ آیت زیرمطالعہ میں جن دو کرداروں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں باہم کوئی مقابلہ یا موازنہ ہے ہی نہیں۔ ایک طرف اللہ کے وہ بندے ہیں جو اپنے رب کی طرف سے بینہ ّپر ہیں۔ یقینا وہ کامیاب ہونے والے لوگ ہیں۔ جبکہ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اپنے نفس کی غلامی اور اپنی خواہشات کی پیروی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ بہرحال ناکام و نامراد ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18 The Holy Prophet was sorely distressed on leaving Makkah. When he was compelled to emigrate, he had stood facing the city outside it and said: "O Makkah, you are the most beloved city in the sight of AIIah, and I have the greatest love for you out of all the cities of Allah; if the polytheists had not driven me out I would never have left you." About this it has been said: "After driving you out of the city the people of Makkah think that they have achieved a great success, whereas, in fact, they have hastened only their own ruin by this evil act." The style of the verse clearly indicates that it must have been sent, down close after the Hijrah. 19 That is, "How is it possible that when the Prophet and his followers have been guided by God to a clear and straight path and they have started following it in the light of full knowledge and vision, they should walk along, with those who are still persisting in their ways of ignorance, who regard their deviation as guidance and their evildoing as a praiseworthy thing, and who judge on the basis of their personal desires, and not by argument as to what is the truth and what is falsehood. Now, neither can the lives of these two groups be alike in this world nor can their end be alike in the Hereafter."

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :19 یعنی آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اور اس کے پیروؤں کو جب خدا کی طرف سے ایک صاف اور سیدھا راستہ مل گیا ہے اور پوری بصیرت کی روشنی میں وہ اس پر قائم ہو چکے ہیں ، تو اب وہ ان لوگوں کے ساتھ چل سکیں جو اپنی پرانی جاہلیت کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں ، جو اپنی ضلالتوں کو ہدایت اور اپنی بدکرداریوں کو خوبی سمجھ رہے ہیں ، جو کسی دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ محض اپنی خواہشات کی بنا پر یہ فیصلے کرتے ہیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ۔ اب تو نہ اس دنیا میں ان دونوں گروہوں کی زندگی ایک جیسی ہو سکتی ہے اور نہ آخرت میں ان کا انجام یکساں ہو سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٤۔ ١٩۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جو لوگ خالص اللہ کی عبادت کرتے ہیں انکے پاس یہ سند ہے کہ انسان کو اور انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو اس طرح اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے جس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے تو لائق تعظیم و عبادت بھی وہی وحد لاشریک ہے اور جو لوگ اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک کرتے ہیں ان کے پاس شرعی یا عقلی کوئی سند نہیں ہے بت پرستی جیسی بری چیز کو شیطان نے ان کی نظر میں اچھا کر کے دکھا دیا ہے۔ اس لئے وہ لوگ اسی شیطانی وسوسوں پر چلتے ہیں۔ صحیح بخاری ٣ ؎ میں حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قوم نوح میں سے کچھ نیک لوگ مرگئے تھے جن کے مرنے کا رنج ان کے رشتہ داروں اور معتقدوں کو بہت تھا شیطان نے ان لوگوں کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ ان نیک لوگوں کی شکل کی مورتیں بنا کر رکھ لی جائیں تاکہ ان مورتوں کی آنکھوں کے سامنے رہنے سے ان نیک لوگوں کی آنکھوں کے سامنے سے اٹھ جانے کا رنج کم ہوجائے اور قوم کے لوگوں نے اس کے موافق عمل کیا اب ان لوگوں کی دو تین پشت کے بعد ان کی اولاد کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ یہ مورتیں نیک لوگوں کی ہیں جو کوئی ان مورتوں کی پوجا کرے گا تو وہ نیک لوگ اللہ کی بارگاہ میں اس کی سفارش کریں گے اس وسوسہ سے دنیا میں بتوں کی پوجا جاری ہوگئی برے کام کو جو شیطان لوگوں کو اچھا کرکے دکھاتا ہے اس حدیث سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ اس ملعون نے بت پرستی جیسے برے کام کو کس طرح اچھا کرکے لوگوں کو دکھایا جس سے لوگ اس ملعون کے دھوکے میں آگئے حاصل کلام یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک کرتے ہیں وہ شیطانی وسوسہ کے سبب سے اپنے دل کی خواہش پر چلتے ہیں اسی کو واتبعوا اھواء ھم فرمایا جن دو گروہ کا آیت میں ذکر تھا ان دونوں کے آخرت کے انجام کا آگے ذکر فرمایا کہ خالص اللہ کی عبادت کرنے والے گروہ کو جنت میں داخل کیا جائے گا جس میں دودھ شراب اور شہد کی نہریں بہتی ہوں گی اور فصل اور بےفصل کے میوے وہاں موجود ہوں گے اور ان نعمتوں کا حساب و کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بالکل معاف ہوگا اور دوسرے گروہ کا یہ حال بیان فرمایا کہ وہ لوگ ہمیشہ آگ میں جلیں گے اور پیاس کے وقت ایسا کھولتا ہوا پانی ان کو پلایا جائے گا جس سے ان کی انتڑیاں کٹ کٹ کر نکل پڑیں گی سورة الصافات میں گزر چکا ہے کہ پہلے ان لوگوں کو سینڈھ کا پھل کھلایا جائے گا پھر یہ کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا اس لئے یہاں مختصر طور پر دوزخیوں کے پانی کا ذکر فرمایا ان کے کھانے کا کچھ ذکر نہیں فرمایا صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے انس (رض) بن مالک کی روایت دوزخ کے عذاب کے باب ١ ؎ میں اور ابوہریرہ (رض) کی روایت جنت کی نعمتوں کے باب ٢ ؎ میں گزر چکی ہیں۔ جن کا حاصل یہ ہے کہ دوزخ کے عذاب اور جنت کی نعمتوں کی پوری تفسیر علمائے امت کے علم کی حد سے باہر ہے دنیا کی نہروں میں دنوں تک پانی رہے تو اس میں بو آنے لگتی ہے دنیا کا دودھ زیادہ رہنے سے کھٹا ہوجاتا ہے دنیا کی شراب میں تلخی ہوتی ہے دنیا کا شہد بغیر چھانے کے صاف نہیں ہوتا اس واسطے فرمایا کہ جنت کے پانی دودھ شراب اور شہد میں یہ باتیں نہ ہوں گی اب بت پرستوں کے ذکر کے بعد منافقوں کا ذکر فرمایا کہ وہ اگرچہ قرآن کی آیتوں کو سنتے ہیں اور جب اے رسول اللہ کے یہ لوگ تمہاری مجلس سے نکلتے ہیں تو جو لوگ قرآن کی آیتوں کو دھیان سے سنتے ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ ابھی اللہ کے رسول نے کون سی آیت پڑھی ہے پھر فرمایا بت پرستوں کی طرح یہ منافق لوگ بھی اللہ کے حکم پر نہیں چلتے بلکہ اپنے دل کی خواہش پر چلتے ہیں اس لئے ان کے دل پر مہر کی طرح زنگ لگ گیا ہے جس سے قرآن کی نصیحت کا ان کے دل پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد ترمذی ٣ ؎ نسائی وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس وقت کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر داغ پڑجاتا ہے پھر اگر اس گناہ کے بعد اس شخص نے خالص دل سے آئندہ کے لئے توبہ کرلی تو وہ گناہ معاف ہوجاتا ہے اور داغ دل پر سے جاتا رہتا ہے اور گناہ پر گناہ کرنے سے دل پر زنگ لگ جاتا ہے اب یہ تو ظاہر بات ہے کہ جو لوگ مرتے دم تک کفر و نفاق سے توبہ نہیں کرتے انکے دل پر کے زنگ کا کیا حال ہوگا اسی کو دل پر کی مہر فرمایا منافقوں کے ذکر کے بعد ایماندار لوگوں کا حال بیان فرمایا کہ قرآن کی نئی نئی نصیحت سے روز بروز ان کی ہدایت اور پرہیز گاری بڑھتی جاتی ہے آگے فرمایا جب یہ بت پرست اور منافق لوگ قرآن کی نصیحت کو نہیں مانتے تو ان کو دوسرے صور کا انتظار کرنا چاہئے جس کے پھونکے جاتے ہی قبروں سے نکل کر یہ لوگ حساب و کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ کے رو برو حاضر ہوجائیں گے اور قرآن کی نصیحت کے نہ ماننے کا خمیازہ بھگت لیں گے پھر فرمایا یہ وقت بھی اب کچھ دور نہیں کیونکہ بڑی نشانی قیامت کی نبی آخر الزمان کے نبی ہونے کی ہے جس کا ظہور ہوچکا اب نبی آخر الزمان کے بعد کوئی نبی نہیں جس کی نصیحت کو یہ لوگ مانیں گے اس لئے نبی آخر الزمان کی نصیحت کو جو لوگ نہیں مانتے ان کو دوسرے صور کا انتظار کرنا چاہئے لیکن جب وہ وقت آجائے گا پھر اس وقت کا پچھتاوا کچھ کام نہ آئے گا۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم میں سہل (رض) بن سعد اور انس بن مالک سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دو انگلیاں کھڑی کرکے فرمایا جس طرح یہ دونوں انگلیاں پاس پاس ہیں اسی طرح میرا نبی ہونا اور قیامت کا آنا پاس پاس ہے اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ نبی آخر الزمان کا پیدا ہونا اور نبی ہونا قیامت کے قریب ہونے کی بڑی نشانی ہے صحیح حدیثوں میں قیامت کے قریب ہونے کی اور نشانیاں بھی اللہ کے رسول نے بیان فرمائی ہیں مثلاً علم دین کا کم ہوجانا شراب خواری اور بدکاری کا پھیلنا عورتوں کا زیادہ ہونا دونوں کا جلدی گزرنا امانت میں خیانت کا ہونا مینہ کا برسنا اور پیداوار کا پھر بھی کم ہونا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب ٹھہراکر امت کے لوگوں کو سمجایا کہ خالص اللہ کی عبادت پر ہر ایک کو قائم رہنا چاہئے اور یہ بھی فرمایا کہ امت کو سکھانے کے لئے تم اپنی بھول چوک کی بھی اللہ تعالیٰ سے معافی چاہا کرو امت کے مرد اور عورتوں کے حق میں بھی مغفرت کی دعا کیا کرو آخر کو فرمایا لوگوں کے نیک و بدعمل اور ان عملوں کے سبب سے ہر ایک کا جنت اور دوزخ کا ٹھکانہ اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے قیامت کے دن اسی کے موافق جزا و سزا کا فیصلہ ہوجائے گا۔ (٣ ؎ صحیح بخاری باب وداولا سواعا ولا یغوث و یعوق ونسرا ص ٧٣٢ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب صفۃ الجنتۃ اولنار ص ٩٧٠ ج ٢۔ ) (٢ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ٢٣١۔ ) (٣ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة ویل للمطففین ص ١٩١ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب بعثت انا والساعۃ کھاتین ص ٩٦٣ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:14) افمن کان ۔ ہمزہ استفہام انکاری کے لئے ہے ف کا عطف جملہ مقدرہ پر ہے۔ من موصولہ ہے۔ علی بینۃ ۔ بینۃ۔ کھلی دلیل۔ واضح دلالت کو بینہ کہتے ہیں۔ خواہ دلالت عقلی ہو یا محسوسہ۔ بینات جمع ہے۔ کمن کاف تشبیہ اور من موصولہ سے مرکب ہے اس شخص کی طرح جو کہ ۔۔ زین ۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب تزیین (تفعیل) مصدر۔ وہ سنوارا گیا اسے مزین کیا گیا۔ وہ اچھا کر کے دکھلایا گیا۔ سوء عملہ۔ سوء برائی۔ برا کام، گناہ۔ عیب۔ سوء ۔ ساء یسوء (باب نصر) مصدر سے اسم ہے۔ مضاف، عملہ مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ۔ اس کے عملوں کی برائی۔ اس کی بداعمالی۔ واتبعوا اھواء ہم ۔ وائو عاطفہ۔ اتبعوا ماضی جمع مذکر غائب۔ انہوں نے اتباع کیا۔ انہوں نے پیروی کی۔ اھواء ہم ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول اتبعوا کا۔ اھواء جمع ہے ھوی کی۔ خواہشیں۔ اتبعوا اور ۔۔ اھواء ہم : میں ضمیر جمع مذکر غائب من کے معنی کے اعتبار سے استعمال کی گئی ہے۔ من گو لفظاً واحد ہے۔ لیکن معنی یہاں بطور جمع مراد ہے۔ ترجمہ :۔ بھلا جو لوگ اپنے رب کے واضح راستے پر ہوں۔ کیا وہ ان اشخاص کی طرح ہوسکتے ہیں جنہیں (شیطان کی طرف سے ) ان کی بد اعمالیاں اچھی کر کے دکھائی گئی ہوں اور جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی (الجواب : لیسوا سواء ولا مماثلۃ بینھما ابدا (وہ ہرگز یکساں نہیں ہوسکتے اور ان میں کبھی بھی مماثلت نہیں ہوسکتی) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی شیطان نے انہیں بہکا دیا ہے اور کفر و شرک کو ان کی نظروں میں اچھا کر دکھایا ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں اور نہ اس کے صحیح ہونے پر دلیل لائی جاسکتی ہے۔ 4 اور اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت (قرآن و سنت سے) کوئی سروکار نہیں رکھتے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی جب اعمال میں تفاوت ہے تو مآل میں بھی تفاوت ہوگا۔ پس جس طرح اہل حق مستحق ثواب ہیں اہل باطل مستحق عقاب ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان اور اہل کفر برابر نہیں ہوسکتے پھر فرمایا ﴿ اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ ﴾ (الآیۃ) جو شخص اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوگا کیا اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کا برا عمل اس کے لیے مزین کردیا گیا ہے اس نے کفر کو اچھا سمجھا اور ایمان سے دور بھاگا اور جن لوگوں نے اپنی خواہشوں کا اتباع کیا یعنی توحید کو چھوڑا اور شرک اختیار کیا، یہ استفہام انکاری ہے مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان جن کے پاس ان کے رب کی طرف سے دلیل موجود ہے اور کافر لوگ جن کے برے اعمال کفر اور معاصی انہیں اچھے لگتے ہیں اور اپنی خواہشات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں یہ دونوں فریق مومن اور کافر برابر نہیں ہوسکتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ ” افمن کان “ بیان حال اہل ایمان و اہل طغیان۔ وہ مومن جس کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے ایک واضح بیان (قرآن) موجود ہے اور وہ اس کی روشنی میں چلتا اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے کیا وہ اس مشرک کے برابر ہوسکتا ہے جو کفر و شرک کو اچھا اور نیک کام سمجھتا ہو اور خواہشات نفسانیہ کی پیروی کرتا ہو، توحید اور حق کو جھٹلاتا ہو۔ استفہام انکاری ہے یعنی یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) کیا بھلا وہ شخص جو اپنے پروردگار کے صاف واضح اور سوجھی راہ پر ہو تو کیا وہ اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے اور اس جیسا ہوسکتا ہے جس کے لئے اس کا برا عمل خوش منظر کردیا گیا ہو اور اس کی بداعمالی اس کی نگاہ میں آراستہ کردی گئی ہو اور وہ لوگ اپنی نفسانی خواہشات پر چلتے ہوں۔ سو عمل کی تزیین پر کئی دفعہ بحث ہوچکی ہے یہ گمراہی کا ایک درجہ ہے جب انسان کی نظر میں اس کی بداعمالی اور اس کی بدکاری اچھی اور خوش نما معلوم ہونے لگے اور اس قسم کے لوگ اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہوں تو بھلا یہ اس شخص کی مانند ہوسکتے ہیں جو اپنے پروردگار کی روشن دلیل اور اس دلیل سے جو راستہ ثابت ہے وہ اس راستے پر قائم ہو تو اس کو اس قسم کے بدکار لوگوں سے کیا نسبت اور ان دونوں میں برابر کہاں ہوسکتی ہے یہ فرق بیان فرمایا مومن متقی اور منکر شقی کا۔