Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 15

سورة محمد

مَثَلُ الۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ؕ فِیۡہَاۤ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ مَّآءٍ غَیۡرِ اٰسِنٍ ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ لَّبَنٍ لَّمۡ یَتَغَیَّرۡ طَعۡمُہٗ ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ خَمۡرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیۡنَ ۬ ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ عَسَلٍ مُّصَفًّی ؕ وَ لَہُمۡ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَ مَغۡفِرَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ؕ کَمَنۡ ہُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ وَ سُقُوۡا مَآءً حَمِیۡمًا فَقَطَّعَ اَمۡعَآءَہُمۡ ﴿۱۵﴾

Is the description of Paradise, which the righteous are promised, wherein are rivers of water unaltered, rivers of milk the taste of which never changes, rivers of wine delicious to those who drink, and rivers of purified honey, in which they will have from all [kinds of] fruits and forgiveness from their Lord, like [that of] those who abide eternally in the Fire and are given to drink scalding water that will sever their intestines?

اس جنت کی صفت جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے ، یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جو بد بو کرنے والا نہیں اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزہ نہیں بدلا اور شراب کی نہریں ہیں جن میں پینے والوں کے لئے بڑی لذت ہے اور نہریں ہیں شہد کی جو بہت صاف ہیں اور ان کے لئے وہا ں ہر قسم کے میوے ہیں اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے ، کیا یہ مثل اس کے ہیں جو ہمیشہ آگ میں رہنے والا ہے؟ اور جنہیں گرم کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ... The description of Paradise which is promised for those who have Taqwa... Ikrimah said, مَثَلُ الْجَنَّةِ (The description of Paradise), "This means its description." ... فِيهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاء غَيْرِ اسِنٍ ... In it are rivers of water that are not Asin, Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, Al-Hasan, and Qatadah all said, "It does not change." Qatadah, Ad-Dahhak, and Ata' Al-Khurasani all said, "It is not foul-smelling." The Arabs say Asin if its (water) scent changes. ... وَأَنْهَارٌ مِن لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ ... rivers of milk, the taste of which never changes, which means that the milk is of utmost whiteness, sweetness, and richness. It has been mentioned in a Hadith attributed to the Prophet, "Their milk did not come out of the udders of cattle." ... وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ ... rivers of wine delightful to those who drink it, which means that the wine does not have a bad taste or foul smell like that of the worldly life. Rather, it is good in its appearance, taste, smell, and effect, as Allah says, لااَ فِيهَا غَوْلٌ وَلااَ هُمْ عَنْهَا يُنزَفُونَ it (the wine) has no bad effects, nor does it cause intoxication. (37:47) and, لااَّ يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلااَ يُنزِفُونَ From which (the wine) they will have no headache, nor will they be intoxicated. (56:19) and, بَيْضَأءَ لَذَّةٍ لِّلشَّـرِبِينَ white, delicious to the drinkers. (37:46) It has been mentioned in a Hadith attributed to the Prophet, "Their wine was not pressed under men's feet." ... وَأَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى ... and rivers of refined honey; which means that the honey is of utmost purity and pleasant color, taste, and smell. It has been mentioned in a Hadith attributed to the Prophet, "Their honey did not come out of the bellies of bees." Imam Ahmad recorded from Hakim bin Mu`awiyah who narrated from his father that Allah's Messenger said, فِي الْجَنَّةِ بَحْرُ اللَّبَنِ وَبَحْرُ الْمَاءِ وَبَحْرُ الْعَسَلِ وَبَحْرُ الْخَمْرِ ثُمَّ تُشَقَّقُ الاَْنْهَارُ مِنْهَا بَعْد Verily, there is in Paradise a lake of milk, a lake of water, a lake of honey, and a lake of wine. The rivers then gush out of them. At-Tirmidhi reported this narration in his section of the Description of Paradise, and he said, "Hasan Sahih. In the Sahih, it is recorded that Allah's Messenger said, إِذَا سَأَلْتُمُ اللهَ تَعَالى فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَى الْجَنَّةِ وَمِنْهُ تُفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمن When you ask Allah, ask Him for Al-Firdaws, because it is the central and highest part of the Paradise, and from it gush the rivers of the Paradise and above it is the Throne of the Most Merciful. Allah says, ... وَلَهُمْ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ ... ...and therein for them are all kinds of fruits, ... This similar to His saying, يَدْعُونَ فِيهَا بِكلِّ فَـكِهَةٍ ءَامِنِينَ They will call in it for every kind of fruit in peace and security. (44:55) And His saying, فِيهِمَا مِن كُلِّ فَـكِهَةٍ زَوْجَانِ In them will be every kind of fruits in pairs. (55:52) Allah says ... وَمَغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ ... ...and forgiveness from their Lord. meaning, in addition to all of the above. Allah says, ... كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ ... Can this be likened to those who abide eternally in the Fire? meaning, `can those that We have described their position in the Paradise be like those who will abide eternally in the Fire?' They are not equal, and nor are those who will be in the high ranks (in the Paradise) and those who will be in the lowest depths (Hell). ... وَسُقُوا مَاء حَمِيمًا ... and are given to drink boiling water, meaning, extremely hot; so hot that it is unbearable. ... فَقَطَّعَ أَمْعَاءهُمْ that severs their intestines, meaning, that will cut their insides -- both bowels and intestines. We seek refuge in Allah from that.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 آسن کے معنی متغیر یعنی بدل جانے والا غیر آسن نہ بدلنے والا یعنی دنیا میں تو پانی کسی ایک جگہ کچھ دیر پڑا رہے تو اس کا رنگ متغیر ہوجاتا ہے اور اس کی بو اور ذائقے میں تبدیلی آجاتی ہے جس سے وہ مضر صحت ہوجاتا ہے جنت کے پانی کی یہ خوبی ہوگی کہ اس میں کوئی تغیر نہیں ہوگا یعنی اس کی بو اور ذائقے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جب پیو تازہ مفرح اور صحت افزا۔ جب دنیا کا پانی خراب ہوسکتا ہے تو شریعت نے اسی لیے پانی کی بابت کہا ہے کہ یہ پانی اس وقت تک پاک ہے جب تک اس کا رنگ یا بو نہ بدلے کیونکہ رنگ یا بو متغیر ہونے کی صورت میں پانی ناپاک ہوجائے گا۔ 15۔ 2 جس طرح دنیا میں وہ دودھ بعص دفعہ خراب ہوجاتا ہے جو گایوں بھینسوں اور بکریوں وغیرہ کے تھنوں سے نکلتا ہے جنت کا دودھ چونکہ اس طرح جانوروں کے تھنوں سے نہیں نکلے گا بلکہ اس کی نہریں ہوں گی اس لیے جس طرح وہ نہایت لذیذ ہوگا خراب ہونے سے بھی محفوظ ہوگا۔ 15۔ 3 دنیا میں جو شراب ملتی ہے وہ عام طور پر نہایت تلخ بدمزہ اور بدبودار ہوتی ہے علاوہ ازیں اسے پی کر انسان بالعموم حواس باختہ ہوجاتا ہے اول فول بکتا ہے اور اپنے جسم تک کا ہوش اسے نہیں رہتا جنت کی شراب دیکھنے میں حسین ذائقے میں اعلی اور نہایت خوشبودار ہوگی اور اسے پی کر کوئی انسان بہکے گا نہ کوئی گرانی محسوس کرے گا بلکہ ایسی لذت و فرحت محسوس کرے گا جس کا تصور اس دنیا میں ممکن نہیں جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ (وَعِنْدَهُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِيْنٌ) 37 ۔ الصافات :48) ۔ نہ اس سے چکر آئے گا نہ عقل جائے گی۔ 15۔ 4 یعنی شہد میں بالعموم جن چیزوں کی آمیزش کا امکان رہتا ہے جس کا مشاہدہ دنیا میں عام ہے جنت میں ایسا کوئی اندیشہ نہیں ہوگا بالکل صاف شفاف ہوگا کیونکہ یہ دنیا کی طرح مکھیوں سے حاصل کردہ نہیں ہوگا بلکہ اس کی بھی نہریں ہوں گی اسی لیے حدیث میں آتا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب بھی تم سوال کرو تو جنت الفردوس کی دعا کرو اس لیے کہ وہ جنت کا درمیانہ اور اعلی درجہ ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں اور اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے۔ صحیح بخاری۔ کتاب الجہاد۔ 15۔ 5 یعنی جن کو جنت میں وہ اعلٰی درجے نصیب ہونگے جو مذکور ہوئے کیا وہ ایسے جہنمیوں کے برابر ہیں جن کا یہ حال ہوگا ؟ ظاہر بات ہے ایسا نہیں ہوگا، بلکہ ایک درجات میں ہوگا اور دوسرا درکات (جہنم) میں۔ ایک نعمتوں میں دادو طرب و عیش لے رہا ہوگا، دوسرا عذاب جہنم کی سختیاں جھیل رہا ہوگا۔ ایک اللہ کا مہمان ہوگا جہاں انواع اقسام کی چیزیں اس کی تواضع اور اکرام کے لئے ہونگی اور دوسرا اللہ کا قیدی، جہاں اس کو کھانے کے لئے زقوم جیسا تلخ و کسیلہ کھانا اور پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی ملے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] جنت کے چار مشروبات کی صفات :۔ اس آیت میں جنت کے حالات بیان کرتے ہوئے پہلے چار مشروبات اور ان کی صفات کا ذکر فرمایا۔ پہلے نمبر پر پانی کی صفت یہ بیان فرمائی کہ غَیْرَ آسِنْ ہوگا۔ یعنی نہ وہ متعفن ہوگا نہ اس کا رنگ بدلا ہوگا اور نہ ذائقہ۔ دنیا میں پانی کے کھڑے ذخیروں کا عموماً رنگ ذائقہ اور بو تینوں چیزیں بدل جاتی ہیں اور بارش کے پانی میں گردوغبار مل جاتا ہے۔ اور دریاؤں کا پانی مٹی کی آمیزش سے گدلا ہوجاتا ہے۔ جنت میں پانی کے چشموں سے جو پانی جاری ہوگا وہ نہایت صاف ستھرا، نتھرا ہوا، بےرنگ، بےبو ہوگا۔ اس کا ذائقہ بھی میٹھا ہوگا بدلا ہوا نہ ہوگا۔ دوسرے نمبر پر دودھ کا ذکر فرمایا۔ دنیا میں جو دودھ جانوروں کے تھنوں سے نکلتا ہے۔ اس میں کچھ تو تھنوں کی آلائش کی آمیزش ہوجاتی ہے پھر اگر دودھ کچھ دیر پڑا رہے تو پھٹ جاتا ہے۔ اور اس کا ذائقہ ترش اور بدمزہ ہوجاتا ہے۔ جنت میں دودھ بھی پانی کی طرح چشموں سے رواں ہوگا اور اپنی اصلی حالت میں بدستور قائم رہے گا۔ اس کے ذائقہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ تیسرے نمبر پر شراب کا ذکر فرمایا۔ دنیا کی شراب کا ذائقہ تلخ، بوناگوار ہوتی ہے۔ حواس کو مختل کردیتی ہے اور بعض دفعہ سر چکرانے لگتا ہے۔ جنت میں شراب بھی چشموں کی صورت میں رواں ہوگی۔ وہ مذکورہ تمام عیوب سے پاک اور مزیدار ہوگی۔ چوتھے نمبر پر شہد کا ذکر فرمایا۔ جو شہد کی مکھی کے پیٹ سے نکلتا ہے۔ شہد کے چھتے میں موم اور س تھے کی آمیزش ہوتی ہے اور اوپر جھاگ ہوتا ہے۔ جنت میں شہد بھی چشموں سے نکل کر رواں ہوگا۔ نہایت صاف ستھرا اور ایسے عیوب سے پاک ہوگا۔ [١٧] مشروبات کے بعد پھر مختصراً ماکولات کا ذکر فرمایا کہ کھانے کے لیے انہیں ہر طرح کے بہترین اور مزیدار پھل مہیا کئے جائیں گے۔ اور اللہ کی سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ ان کی دنیا کی زندگی کی تمام کوتاہیوں پر پردہ ڈال دیا جائے گا۔ جو کسی کے ذہن میں نہ آسکیں گی۔ اور ایسی کوتاہیوں کو اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ [١٨] یعنی ایک طرف تو وہ شخص ہے جو جنت کی متذکرہ بالا نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اور دوسری طرف ایسا شخص ہے جو ہمیشہ کے لیے دوزخ کی آگ میں جل رہا ہے۔ کھانے کو اسے خاردار اور زہریلا تھوہر کا درخت ملے گا اور پینے کو سخت گرم کھولتا ہوا پانی۔ کیا ان دونوں کا انجام ایک جیسا ہے۔ ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) مثل الجنۃ التی وعد المثقون…:” مثل “ کا معنی یہاں حال یا صفت ہے۔ اس سے پہلے مومنوں کو جنتوں میں داخل کرنے کا ذکر فرمایا، جن کے تلے نہریں بہتی ہیں اور کفار کا ٹھکانہ آگ بیان فرمایا۔ اب اس جنت اور جہنم کا کچھ مزید حال بیان فرمایا، خصوصاً جنت کی نہروں کا، کیونکہ قرآن مجید میں اکثر جنت کے ساتھ اس کی نہروں کا ذکر بھی آتا ہے۔ اس آیت میں جنت کی چار قسم کی نہروں کا ذکر فرمایا ہے۔ واضح رہے کہ جنت کی تمام نہروں کا سرچشمہ عرش کے نیچے جنت الفردوس ہے ۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(فاذا سالتم اللہ فسلوہ الفردوس، فانہ اوسط الجنۃ واعلی الجنۃ، وفوقہ عرش الرحمٰن، ومنہ تفجر انھار الجنۃ) (بخاری، التوحید، باب :(و کان عرشہ علی المائ)…: ٨٣٢٣)” تو جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو، کیونکہ وہ جنت کا افضل اور جنت کا سب سے بلند مقام ہے اور اس سے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں “ اور معاویہ بن حیدہ قشیری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان فی الجنۃ بحر الماء وبحر العسل وبحر اللبن وبحر الخمر ثم تشقق الانھار بعد) (ترمذی، صفۃ الجنۃ، باب ما جاء فی صفۃ انھار الجنۃ :2581، وقال الترمذی و الالبانی صحیح)” جنت میں پانی کا سمندر ہے اور شہد کا سمندر ہے اور دودھ کا سمندر ہے اور شراب کا سمندر ہے، پھر بعد میں نہریں پھوٹتی ہیں۔ “ (٢) فیھا انھر من مآء غیر اسن :” اسن “ ” اسن باسن “ سے اسم فاعل ہے، جس طرح ” امن یامن “ سے ” امن “ اسم فاعل ہے۔ یہ بات ” ضرب “ اور ” نصر “ کے وزن پر بھی آتا ہے :” ای متغیر “ اللون والریح والطمع “” جس کا رنگ، بو اور ذائقہ بدلا ہوا ہو۔ “ یعنی جنت میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جو ایسا صاف ہے کہ اس کے ذائقے یا رن گیا بو میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، بخلاف دنیا کے پانی کے جو کچھ عرصہ گزرنے پر اپنے رنگ، ذائقہ اور بو کی صفائی کھو بیٹھتا ہے، اس پر کائی آجاتی ہے گرد و غبار کے ساتھ گندا ہوجاتا ہے اور اس میں پیدا ہونے والے جراثیم اور دوسری چیزیں اسے پینے کے قابل نہیں چھوڑتیں۔ (٣) وانھر من لئن لم یتغیر طعمہ : دنیا میں جانوروں کے تھنوں سے جو دودھ نکلتا ہے اس میں کچھ تو تھنوں کی آرائش کی آمیزش ہوجاتی ہے اور کچھ د ہونے والے کے ہاتھوں اور ماحول کے گرد و غبار کی، پھر اگر دودھ کچھ دیر پڑا رہے تو پھٹ جاتا ہے، اس کا ذائقہ ترش اور بدمزہ ہوجاتا ہے اور اس میں سے بدبو آنے لگتی ہے۔ جنت میں دودھ تھنوں سے نہیں نکلے گا بلکہ پانی کی طرح چشموں سے رواں ہوگا اور اپنی اصلی حالت میں بدستور قائم رہے گا، اس کے ذائقے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ (٤) وانھر من خیر لذۃ للشربین :” لدۃ “” لد “ کی مونث ہے، کیونکہ یہ ” خمر “ کی صفت ہے جو مونث سماعی ہے۔ ” لد “ اور ” لذیذ “ دونوں صفت مشبہ ہیں اور دونوں کا معنی ایک ہے۔ دنیا میں لوگ شراب صرف اس سرور کے لئے پیتے ہیں جو اس کے پینے سے حاصل ہوتا ہے اور وہ اس سرور کی خاطر شراب کی ان تمام قباحتوں کو بردشات کرتے ہیں جو اس میں پائی جاتی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں کہ وہ نہایت بدبو دار ہوتی ہے، تلخ اور بد ذائقہ ہوتی ہے۔ اس کے پینے سے آدمی عقل کھو بیٹھتا ہے، الٹیاں آتی ہیں اور جب نشہ ٹوٹتا ہے تو سر چکرانا اور درد شروع ہوجاتا ہے۔ جنت کی شراب میں دنیا کی شراب کی کوئی خرابی نہیں ہوگی، نہ درد سر، نہ چکر، نہ بدبو اور نہ ذائقے کی تلخی، بلکہ وہ نہایت لذیذ ہوگی اور فرحت و سرور لائے گی، عقل پر پردہ یا کوئی اور خرابی نہیں لائے گی۔ (٥) وانھر من عسل مصفی : دنیا کا شہد مکھی کے پیٹ سے نکلات ہے، اسے حاصل کرتے وقت مکھیوں اور اس کے بچوں کے کچھ اجزاء موم، گرد و غبار اور تنکے وغیرہ لازماً شامل ہوجاتا ہیں، پھر دیر تک پڑا رہنے سے کھٹا ہوجاتا ہے، اس میں خمیر پیدا ہوجاتا ہے۔ غرض اس کے پوری طرح صاف ہونے اور رہنے کی کوئی صورت ہی نہیں، جب کہ جنت کی نہروں کا شہد مکھیوں کے پیٹ کا مرہون منت نہیں بلکہ براہ راست شہد کے سمندر سے نکل کر ہر جنتی کے گھر پہنچتا ہے اور ہمیشہ نہایت صاف شفاف اور ہر قسم کی کدورت سے پاک رہتا ہے۔ صاحب احسن التفاسیر لکھتے ہیں :” اگرچہ جنت میں کھانے پینے، پہننے، برتنے کی جتنی چیزیں ہیں ان کے فقط نام دنیا کی چیزوں سے ملتے ہیں، لیکن جنت کی چیزوں اور دنیا کی چیزوں میں بڑا فرق ہے۔ مثلاً دنیا میں ایسا دودھ کہاں ہے جس کی ہمیشہ نہر بہتی ہو اور پھر دوسرے دن ہی وہ کھٹا نہ ہوجائے۔ وہ شہد کہاں ہے جس کی نہر بہتی ہو اور مکھیوں کی بھنکار اس میں جم جم کر نہ مرے اور ہوا سے خاک اور کوڑا کرکٹ اس پر نہ پڑے۔ وہ شراب کہاں ہے جس کی نہر ہو اور بدبو کے سبب اس نہر کے آس پاس کا راستہ کچھ دنوں میں بند نہ ہوجائے۔ “ (٦) ولھم فیھا من کل السموت : پینے کی چیزوں کے بعد کھانے کی چیزوں کا اختصار کے ساتھ ذکر فرمایا اور ان میں سے بھی اناج وغیرہ کے بجائے پھلوں کا ذکر فرمایا : کیونکہ جنت کے کھانے بھوک مٹانے کے لئے نہیں بلکہ محض لذت کے لئے ہوں گے، فرمایا :(ان لک الا تجوع فیھا ولا تعری) (طہ :118)” بیشک تیرے لئے یہ ہے کہ تو اس میں نہ بھوکا ہوگا، نہ ننگا ہوگا۔ “ اور لذت میں پھولوں کا مقام سب جانتے ہیں۔ (٧) ومغفرۃ من ربھم :” مغفر ١“ میں تنوین تعظیم کے لئے ہے، اس لئے ترجمہ ” بڑی یا عظیم مغفرت “ ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت یہ ہوگی کہ انہیں عظیم مغفرت سے نوازا جائے گا۔” غفر یغفر “ کا اصل معنی پردہ ڈالنا ہے یعنی جنت میں ان کے گناہوں پر ان کے رب کی طرف سے ایسا عظیم پردہ ڈالا جائے گا کہ ان کا ذکر تک ان کے سامنے نہیں آئے گا کہ وہ کہیں شرمندہ نہ ہوں۔ (٨) کمن ھو خالد فی النار : یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے جو پچھلی آیت :(افمن کان علی بینۃ من ربہ کمن زین لہ سوٓء عملہ واتبعوآ اھوآء ھم) سے سمجھ میں آرہا ہے :” ای افمن ھو من اھل ھذہ الجنۃ کمن ھو خالد فی النار “ ” یعنی تو کیا وہ شخص جو ان اوصاف والی جنت والوں میں سے ہے اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو ہمیشہ آگ میں رہنے والا ہے ؟ “ (٩) وسقوا مآء حمیماً : اور جنہیں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا۔ اس سے پہلے جملے ” کمن ھو خالد فی النار “ میں لفظ ” من “ کے مفرد ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ واحد کا صیغہ ” ھو “ استعمال ہوا ہے اور اس جملے میں ” من “ کے معنی کے عام ہونے کو محلوظ رکھتے ہوئے جمع کا صیغہ ” سقوا “ استعمال ہوا ہے۔ (١٠) فقطع امآء ھم :” قطع یقطع قطعاً “ (ف) کاٹنا۔ ” قطع یقطع تقطیعا “ (تفعیل) میں مبالغہ ہے، ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔ ” امعآء “ (معی “ کی جمع ہے جو اصل میں ” معی “ بروزن ” عنب “ ہے۔ یاء پر ضمہ ثقیل ہونے کی وجہ سے گرا دیا، یاء اور نون تنوین دو ساکن جمع ہونے کی وجہ سے یاء کو گرا دیا تو ” معی “ ہوگیا ، جس کا تثنیہ ” معیا “ اور ” معیین “ آتا ہے۔ اس جیسا ایک اور لفظ ” آناء “ ہے جو ” انی “ کی جمع ہے۔ ” آناء اللیل والنھار “”’ ن رات کی گھڑیاں “ یعنی جہنمیوں کو انتہا درجے کا گرم کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی انتڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ۝ ٠ ۭ فِيْہَآ اَنْہٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ۝ ٠ ۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُہٗ۝ ٠ ۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ۝ ٠ۥۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى۝ ٠ ۭ وَلَہُمْ فِيْہَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ۝ ٠ ۭ كَمَنْ ہُوَخَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوْا مَاۗءً حَمِـيْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَاۗءَہُمْ۝ ١٥ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے أسِن يقال : أَسِنَ الماء يَأْسَنُ ، وأَسَنَ يَأْسُنُ : إذا تغيّر ريحه تغيّراً منکراً ، وماء آسن، قال تعالی: مِنْ ماءٍ غَيْرِ آسِنٍ [ محمد/ 15] ، وأسن الرجل : مرض، من : أسن الماء، إذا غشي عليه قال الشاعر : يميد في الرّمح ميد المائح الأسن وقیل : تَأَسَّن الرجل إذا اعتلّ تشبيهاً به . ( ا س ن ) اسن الماء پانی کا سخت بدبودار ہو ہوجانا ماء اسن متغیر بدبودار پانی چناچہ فرمایا : ۔ من ماء غیر اسن (47 ۔ 15) اس پانی کی ( نہریں ہیں ) جو کبھی بدبودار نہیں ہوگا ۔ اسن الرجل پانی کی بدبو سے بیمار اور بیہوش ہونا شاعر نے کہا ہے (15) یعید فی لرمح میدالمائح الاسن نیز سے پر اس طرح تڑپنا ہے جیسے کنویں میں اترنے والا بیہوش آدمی تڑپ رہا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ تشبیہ کے طور تاسن الرجل محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بیمار پڑنے کے ہیں ۔ لبن اللَّبَنُ جمعه : أَلْبَانٌ. قال تعالی: وَأَنْهارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ [ محمد/ 15] ، وقال : مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَناً خالِصاً [ النحل/ 66] ، ولَابِنٌ: كثر عنده لبن، ولَبَنْتُهُ : سقیته إياه، وفرس مَلْبُونٌ ، وأَلْبَنَ فلان : كثر لبنه، فهو مُلْبِنٌ. وأَلْبَنَتِ الناقة فهي مُلْبِنٌ: إذا کثر لبنها، إمّا خلقة، وإمّا أن يترک في ضرعها حتی يكثر، والْمَلْبَنُ : ما يجعل فيه اللّبن، وأخوه بِلِبَانِ أمّه، قيل : ولا يقال : بلبن أمّه «1» . أي : لم يسمع ذلک من العرب، وکم لَبَنُ غنمک «2» أي : ذوات الدّرّ منها . واللُّبَانُ : الصّدر، واللُّبَانَةُ أصلها الحاجة إلى اللّبن، ثم استعمل في كلّ حاجة، وأمّا اللَّبِنُ الذي يبنی به فلیس من ذلک في شيء، الواحدة : لَبِنَةٌ ، يقال : لَبَّنَه يُلَبِّنُهُ «3» ، واللَّبَّانُ : ضاربه . ( ل ب ن ) اللبن ۔ دودھ ج البان ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْهارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ [ محمد/ 15] اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزہ نہیں بدلے گا ۔ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَناً خالِصاً [ النحل/ 66] من بین فرث ودم لبنا خالصا ۔ اور اس غذا سے جو نہ فضلہ بنی ہو اور نہ فون ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں ۔ لابن ۔ بہت دودھ والا ۔ لبنتہ میں نے اسے دودھ پلایا ۔ فرس ملنون ۔ دودھ سے پر ورش کیا ہوا گھوڑا ۔ البن فلان بہت سے دودھ کا مالک ہونا اور ایسے آدمی کو ملبن کہا جاتا ہے ۔ البنت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی بہت دودھ والی ہوگئی عام اس سے کہ طبعی طور پر ہو یا تھنوں میں دودھ چھوڑنے کی وجہ سے ہو ۔ الملبن دودھ دوہنے کا برتن اور ھو اخوہ بلبان امہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس کا ر ضاعی بھائی ہے اور اس محاورہ میں لبان امہ کی بجائے لبن امہ کہنا ۔ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ اہل عرب سے مسموع نہیں ہے کیونکہ یہ اہل عرب سے مسموع نہیں ہے ۔ کم لبن غنمک یعنی تیری بکریوں میں دودھ دودھ والی کتنی ہیں ۔ اللبان کے منعی صدر یعنی سینہ کے ہیں اور لبانۃ کے اصل معنی تو دودھ کی ضرورت کے ہیں مگر مطلق ضرورت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اللبن جس کے منعی عمارتی اینٹ کے ہیں اور اس کا واحد لبنۃ ہے اس کا لبن ( دودھ ) سے کوئی معنوی تعلق نہیں ہے اللبن ( اینٹ ) سے لبنہ ( یلبنہ کے معنی اینٹ سے مارنے کے ہیں اور اینٹ بنانے والے کو لبان کہا جاتا ہے ۔ تَّغْيِيرُ يقال علی وجهين : أحدهما : لتغيير صورة الشیء دون ذاته . يقال : غَيَّرْتُ داري : إذا بنیتها بناء غير الذي كان . والثاني : لتبدیله بغیره . نحو : غَيَّرْتُ غلامي ودابّتي : إذا أبدلتهما بغیرهما . نحو : إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بِأَنْفُسِهِمْ [ الرعد/ 11] ( غ ی ر ) تغییر تغییر کا لفظ بھی دوطرح استعمال ہوتا ہے ایک صرف کسی چیز کی صورت کو بدلنا جیسے غیرت داری یعنی میں نے اپنے گھر کی شکل و صورت بدل دی۔ دوم کسی دوسری چیز سے تبدیل کرلینا جیسے غیرت غلامی وداتبی ویعنی میں نے اپنا غلام یا جانور دوسرے سے تبدیل گرلیا ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بِأَنْفُسِهِمْ [ الرعد/ 11] خدا اس نعمت کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدلیں ۔ طعم الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا [ الأحزاب/ 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا [ المائدة/ 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام : «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ. ( ط ع م ) الطعم ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة/ 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔ خمر أصل الخمر : ستر الشیء، ويقال لما يستر به : خِمَار، لکن الخمار صار في التعارف اسما لما تغطّي به المرأة رأسها، وجمعه خُمُر، قال تعالی: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور/ 31] والخَمْر سمّيت لکونها خامرة لمقرّ العقل، وهو عند بعض الناس اسم لكلّ مسكر . وعند بعضهم اسم للمتخذ من العنب والتمر، لما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «الخمر من هاتین الشّجرتین : النّخلة والعنبة» ( خ م ر ) الخمر ( ن ) اصل میں خمر کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں اسی طرح خمار اصل میں ہر اس چیز کو کہاجاتا ہے جس سے کوئی چیز چھپائی جائے مگر عرف میں خمار کا لفظ صرف عورت کی اوڑھنی پر بولا جاتا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے سر کو چھپاتی ہے ۔ اس کی جمع خمر آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور/ 31] اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں ۔ کہاجاتا ہے ۔ الخمر ۔ شراب ۔ نشہ ۔ کیونکہ وہ عقل کو ڈہانپ لیتی ہے بعض لوگوں کے نزدیک ہر نشہ آور چیز پر خمر کا لفظ بولا جاتا ہے اور بعض کے نزدیک صرف اسی چیز کو خمر کہا جاتا ہے ۔ جو انگور یا کھجور سے بنائی گئ ہو ۔ کیونکہ ایک روایت میں ہے (122) الخمر من ھاتین الشجرتین التخلۃ و العنبۃ ( کہ خمر ( شراب حرام صرف وہی ہے جو ان دو درختوں یعنی انگور یا کھجور سے بنائی گئی ہو ۔ لذۃ۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ یعنی لذیذ۔ اس کا مذکر لذ آتا ہے۔ یا یہ مصدر ہے اور مضاف محذوف ہے ای ذات لذۃ ) لذت والی۔ یا بطور مبالغہ لذیذ کو لذت فرما دیا۔ یعنی سراسر لذت ہی لذت ، نہ اس کی بو ناگوار ہوگی جیسے دنیوی شراب کی ہوتی ہے نہ نشہ اور خمار ہوگا۔ ( تفسیر مظہری) ۔ شرب الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ ، يقال : شَرِبْتُهُ شَرْباً وشُرْباً. قال عزّ وجلّ : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي - إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» ، وقال : فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] ، والشِّرْبُ : النّصيب منه «5» قال تعالی: هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] ، وقال : كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] . والْمَشْرَبُ المصدر، واسم زمان الشّرب، ومکانه . قال تعالی: قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . والشَّرِيبُ : الْمُشَارِبُ والشَّرَابُ ، وسمّي الشّعر الذي علی الشّفة العلیا، والعرق الذي في باطن الحلق شاربا، وجمعه : شَوَارِبُ ، لتصوّرهما بصورة الشّاربین، قال الهذليّ في صفة عير : صخب الشّوارب لا يزال كأنه«1» وقوله تعالی: وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] ، قيل : هو من قولهم : أَشْرَبْتُ البعیر أي : شددت حبلا في عنقه، قال الشاعر : فأشربتها الأقران حتی وقصتها ... بقرح وقد ألقین کلّ جنین «2» فكأنّما شدّ في قلوبهم العجل لشغفهم، وقال بعضهم «3» : معناه : أُشْرِبَ في قلوبهم حبّ العجل، وذلک أنّ من عادتهم إذا أرادوا العبارة عن مخامرة حبّ ، أو بغض، استعاروا له اسم الشّراب، إذ هو أبلغ إنجاع في البدن «4» ، ولذلک قال الشاعر : تغلغل حيث لم يبلغ شَرَابٌ ... ولا حزن ولم يبلغ سرور «5» ولو قيل : حبّ العجل لم يكن له المبالغة، [ فإنّ في ذکر العجل تنبيها أنّ لفرط شغفهم به صارت صورة العجل في قلوبهم لا تنمحي ] «6» وفي مثل : أَشْرَبْتَنِي ما لم أشرب «7» ، أي : ادّعيت عليّ ما لم أفعل . ( ش ر ب ) الشراب کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» جو شخص اس میں سے پانی پے لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ چناچہ انہوں نے اس سے پی لیا ۔ نیز فرمایا : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] اور پیو گے بھی تو ایسے جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔ الشراب پانی کا حصہ پینے کی باری ۔ قرآن میں ہے هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] یہ اونٹنی ہے ( ایک دن ) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین تمہاری باری كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہیئے ۔ المشرب مصدر ) پانی پینا ( ظرف زمان یا مکان ) پانی پینے کی جگہ یا زمانہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرکے پانی پی لیا ۔ الشراب تم پیالہ یا شراب کو کہتے ہیں اور مونچھ کے بالوں اور حلق کی اندرونی رگ کو شارب کہا جاتا ہے گویا ان کو پینے والا تصور کیا گیا ہے اس کی جمع شوارب آتی ہے ۔ ھزلی نے گورخر کے متعلق کہا ہے ( الکامل ) ( 257 ) صخب الشوارب لا یزال کانہ اس کی مونچھیں سخت گویا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] اور ان ( کے کفر کے سبب ) بچھڑا ( گویا ) ان کے دلوں میں رچ گیا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ اشربت البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے گلے میں رسی باندھنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 258 ) واشرب تھا الاقران حتیٰ وقص تھا بقرح وقد القین کل جنین میں نے انہیں باہم باندھ لیا حتیٰ کہ قرح ( منڈی ) میں لا ڈالا اس حال میں کہ انہوں نے حمل گرا دیئے تھے ۔ تو آیت کے معنی یہ ہیں کہ گویا بچھڑا ان کے دلوں پر باندھ دیا گیا ہے ۔ اور بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پلادی گئی ہے کیونکہ عربی محاورہ میں جب کسی کی محبت یا بغض دل کے اندر سرایت کر جائے تو اس کے لئے لفظ شراب کو بطور استعارہ بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ بدن میں نہایت تیزی سے سرایت کرتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 259 ) تغلغل حیث لم یبلغ شرابہ ولا حزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں تک پہنچ گئی جہاں کہ نہ شراب اور نہ ہی حزن و سرور پہنچ سکتا ہے ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں اس قدر زیادہ نہیں تھی تو ہم کہیں گے کیوں نہیں ؟ عجل کا لفظ بول کر ان کی فرط محبت پر تنبیہ کی ہے کہ بچھڑے کی صورت ان کے دلوں میں اس طرح نقش ہوگئی تھی کہ محو نہیں ہوسکتی تھی مثل مشہور ہے ۔ اشربتنی ما لم اشرب یعنی تونے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ۔ عسل العَسَلُ : لُعَابُ النّحلِ. قال تعالی: مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى[ محمد/ 15] ، وكنّي عن الجماع بِالْعُسَيْلَةِ. قال عليه السلام : «حتّى تذوقي عُسَيْلَتَهُ ويَذُوقُ عُسَيْلَتَكَ» . والعَسَلَانُ : اهتزاز الرّمح، واهتزاز الأعضاء في العدو، وأكثر ما يستعمل في الذّئب . يقال : مَرَّ يَعْسِلُ ويَنْسِلُ ( ع س ل ) العسل شہد کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى[ محمد/ 15] صاف کردہ شہد کی اور کنایہ کے طور جماع کو عسیلہ کہا جاتا ہے حدیث میں ہے حتٰی تذودنی عسیلتہ ویذوق عسیلتک جب تک تم دونوں ایک دوسرے سے جماع کی لزت حاصل نہ کرلو ( اس وقت تک پہلے خاوند سے نکاح کی اجازت نہیں ہے العسلان نیز کا مضبوط ہونا دوڑتے وقت اعضاء کا ہلنا عام طور پر العسلان کا لفظ بھیڑیئے کی تیز روی کے لئے استعمال ہوتا ہے چناچہ کہاجاتا ہے : ۔ مر یعسل وینسل بھیڑیا تیزی سے دوڑتا ہوا گزرا ۔ صَّفِيُّ والصَّفِيَّةُ : ما يَصْطَفِيهِ الرّئيسُ لنفسه، قال الشاعر : لک المرباع منها والصَّفَايَا وقد يقالان للناقة الكثيرة اللّبن، والنّخلة الكثيرة الحمل، وأَصْفَتِ الدّجاجةُ : إذا انقطع بيضها كأنها صَفَتْ منه، وأَصْفَى الشاعرُ : إذا انقطع شعره تشبيها بذلک، من قولهم : أَصْفَى الحافرُ : إذا بلغ صَفًا، أي : صخرا منعه من الحفر، کقولهم : أكدى وأحجروالصَّفْوَانُ کالصَّفَا، الواحدةُ : صَفْوَانَةٌ ، قال تعالی: كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ [ البقرة/ 264] ، ويقال : يوم صَفْوَانٌ: صَافِي الشّمسِ ، شدید البرد الصفی والصفیۃ مال غنیمت کی وہ چیز جسے امیر اپنے لئے منتخب کرنے ( جمع صفایا ) شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (274) لک المریاع منھا والصفایا تمہارے لئے اس سے ربع اور منتخب کی ہوئی چیزیں ہیں ۔ نیز صفی وصفیۃ (1) بہت دودھ دینے والی اونٹنی (2) بہت پھلدار کھجور ۔ اصفت الدجاجۃ مرغی انڈے دینے سے رک گئی گویا وہ انڈوں سے خالص ہوگئی اس معنی کی مناسبت سے جب شاعر شعر کہنے سے رک جاے تو اس کی متعلق اصفی الشاعر کہاجاتا ہے اور یہ اصفی الحافر کے محاورہ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کنواں کھودنے والا صفا یعنی چٹان تک پہنچ گیا جس نے اسے آئندہ کھدائی سے روک دیا جیسا کہ اکدی واحجر کے محاورات اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اور الصفا کی طرح صفوان کے معنی بھی بڑا صاف اور چکنا پتھر کے ہیں اس کا واحد صفوانۃ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ [ البقرة/ 264] اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو ۔ یوم صفوان خنک دن میں سورج صاف ہو ( یعنی بادل اور غبارہ نہ ہو ) ثمر الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] ( ث م ر ) الثمر اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ سقی السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ : أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ( س ق ی ) السقی والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے حم الحمیم : الماء الشدید الحرارة، قال تعالی: وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ، إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] ، وقال تعالی: وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] ، وقال عزّ وجل : يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19] ، ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] ، هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] ، وقیل للماء الحارّ في خروجه من منبعه : حَمَّة، وروي : «العالم کالحمّة يأتيها البعداء ويزهد فيها القرباء» «6» ، وسمي العَرَق حمیما علی التشبيه، واستحمّ الفرس : عرق، وسمي الحمّام حمّاما، إمّا لأنه يعرّق، وإمّا لما فيه من الماء الحارّ ، واستحمّ فلان : دخل الحمّام، وقوله عزّ وجل : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] ، وقوله تعالی: وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] ، فهو القریب المشفق، فكأنّه الذي يحتدّ حماية لذويه، وقیل لخاصة الرّجل : حامّته، فقیل : الحامّة والعامّة، وذلک لما قلنا، ويدلّ علی ذلك أنه قيل للمشفقین من أقارب الإنسان حزانته أي : الذین يحزنون له، واحتمّ فلان لفلان : احتدّ وذلک أبلغ من اهتمّ لما فيه من معنی الاحتمام، وأحمّ الشّحم : أذابه، وصار کالحمیم، وقوله عزّ وجل : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] ، للحمیم، فهو يفعول من ذلك، وقیل : أصله الدخان الشدید السّواد ، وتسمیته إمّا لما فيه من فرط الحرارة، كما فسّره في قوله : لا بارِدٍ وَلا كَرِيمٍ [ الواقعة/ 44] ، أو لما تصوّر فيه من لفظ الحممة فقد قيل للأسود يحموم، وهو من لفظ الحممة، وإليه أشير بقوله : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ، وعبّر عن الموت بالحمام، کقولهم : حُمَّ كذا، أي : قدّر، والحُمَّى سمّيت بذلک إمّا لما فيها من الحرارة المفرطة، وعلی ذلک قوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الحمّى من فيح جهنّم» «4» ، وإمّا لما يعرض فيها من الحمیم، أي : العرق، وإمّا لکونها من أمارات الحِمَام، لقولهم : «الحمّى برید الموت» «5» ، وقیل : «باب الموت» ، وسمّي حمّى البعیر حُمَاماً «6» بضمة الحاء، فجعل لفظه من لفظ الحمام لما قيل : إنه قلّما يبرأ البعیر من الحمّى. وقیل : حَمَّمَ الفرخ «7» : إذا اسودّ جلده من الریش، وحمّم ( ح م م ) الحمیم کے معنی سخت گرم پانی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا ۔ إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] مگر گرم پانی اور یہی پیپ ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] اور جو کافر ہیں ان کے پینے کو نہایت گرم پانی ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19]( اور ) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی دالا جائیگا ۔ ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] پھر اس ( کھانے ) کے ساتھ ان کو گرم پانی ملا کردیا جائے گا ۔ هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] یہ گرم کھولتا ہوا پانی اور پیپ ( ہے ) اب اس کے مزے چکھیں ۔ اور گرم پانی کے چشمہ کو حمتہ کہا جاتا ہے ایک روایت میں ہے ۔ کہ عالم کی مثال گرم پانی کے چشمہ کی سی ہے جس ( میں نہانے ) کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں ( اور شفایاب ہوکر لوٹتے ہیں ) اور قرب و جوار کے لوگ اس سے بےرغبتی کرتے ہیں ( اس لئے اس کے فیض سے محروم رہتے ہیں ) اور تشبیہ کے طور پر پسینہ کو بھی حمیم کہا جاتا ہے اسی سے استحم الفرس کا محاورہ ہے جس کے معنی گھوڑے کے پسینہ پسینہ ہونے کے ہیں اور حمام کو حمام یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پسینہ آور ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ اس میں گرم پانی موجود رہتا ہے ۔ استحم فلان ۔ حمام میں داخل ہونا ۔ پھر مجازا قریبی رشتہ دار کو بھی حمیم کہا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی حمایت میں بھٹرک اٹھتا ہے اور کسی شخص کے اپنے خاص لوگوں کو حامتہ خاص وعام کا محاورہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] تو ( آج ) نہ کوئی ہمارا سفارش کرنے والا ہے اور نہ گرم جوش دوست نیز فرمایا ۔ وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] اور کوئی دوست کسیز دوست کا پر سان نہ ہوگا ۔ اور اس کی دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کے قریبی مہر بانوں کو حزانتہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ احتم فلان لفلان فلاں اس کے لئے غمگین ہوا یا اس کی حمایت کے لئے جوش میں آگیا ۔ اس میں باعتبار معنی اھم سے زیادہ زور پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوش اور گرمی کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ۔ احم الشحم چربی پگھلا ۔ یہاں تک کہ وہ گرم پانی کی طرح ہوجائے اور آیت کریمہ : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] اور سیاہ دھوئیں کے سایے میں ۔ میں یحموم حمیم سے یفعول کے وزن پر ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی سخت سیاہ دھوآں کے ہیں اور اسے یحموم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں شیت حرارت پائی جاتی ہے جیسا کہ بعد میں سے اس کی تفسیر کی ہے اور یا اس میں حممتہ یعنی کوئلے کی سی سیاہی کا تصور موجود ہے ۔ چناچہ سیاہ کو یحموم کہا جاتا ہے اور یہ حممتہ ( کوئلہ ) کے لفظ سے مشتق ہے چناچہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ان کے اوپر تو اگ کے سائبان ہوں گے اور نیچے ( ان ) کے فرش پونگے اور حمام بمعنی موت بھی آجاتا ہے جیسا کہ کسی امر کے مقدر ہونے پر حم کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور بخار کو الحمی کہنا یا تو اس لئے ہے کہ اس میں حرارت تیز ہوجاتی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا : کہ بخار جہنم کی شدت ست ہے اور یا بخار کو حمی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں پسینہ اترتا ہے اور یا اس لئے کہ یہ موت کی علامات میں سے ایک علامت ہے ۔ جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں الحمی بریدالموت ( کہ بخار موت کا پیغام پر ہے ) اور بعض اسے باب الموت یعنی موت کا دروازہ بھی کہتے ہیں اور اونٹوں کے بخار کو حمام کہا جاتا ہے یہ بھی حمام ( موت ) سے مشتق ہے کیونکہ اونٹ کو بخار ہوجائے تو وہ شازو نادر ہی شفایاب ہوتا ہے ۔ حمم الفرخ پرندے کے بچہ نے بال وپر نکال لئے کیونکہ اس سے اس کی جلد سیاہ ہوجاتی ہے ۔ حمم وجھہ اس کے چہرہ پر سبزہ نکل آیا یہ دونوں محاورے حممتہ سے موخوز ہیں ۔ اور حمحمت الفرس جس کے معنی گھوڑے کے ہنہنانے کے ہیں یہ اس باب سے نہیں ہے ۔ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا امعاء ہم ۔ مضاف مضاف الیہ۔ امعاء جمع ہے معی ومعی کی۔ بمعنی آنتیں امعاء مفعول ہے قطع کا۔ اور ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع من ہے جو کہ معنی جمع ہے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جس جنت کا کفر و شرک اور برائیوں سے بچنے والوں سے وعدہ کیا جاتا ہے اس کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں بہت سی نہریں تو ایسے پانی کی ہوں گی جس کے مزے اور خوشبو میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ اور بہت سی نہریں دودھ کی ہیں جن کا ذائقہ ذرا بدلہ نہ ہوگا کہ کچھ تلخی آجائے اور اس پر جھاگ آجائے جیسا کہ اونٹوں کے دودھ میں ہوتا ہے۔ اور بہت سی نہریں شراب کی ہیں جو پینے والوں کو بہت لذیذ معلوم ہوں گی کہ اس شراب کو کسی چیز سے نچوڑا نہیں گیا ہے اور بہت سی نہریں شہد کی ہیں جو بالکل صاف شفاف ہے کہ شہد کی مکھیوں کا وہ شہد نہیں ہوگا اور جنتیوں کے لیے جنت میں ہر قسم کے پھل ہوں گے اور دنیا میں ان کے رب کی طرف سے ان کے گناہوں کی بخشش ہوگی۔ کیا ایسے لوگ ان لوگوں جیسے ہوسکتے ہیں جو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے نہ وہاں موت آئے گی اور نہ وہ دوزخ سے نکالے ہی جائیں گے اور کھولتا ہوا پانی ان کو پینے کے لیے دیا جائے گا کہ وہ ان کی انتڑیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا جیسا کہ ابو جہل وغیرہ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ { مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ } ” مثال اس جنت کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے متقین سے۔ “ { فِیْہَآ اَنْہٰرٌ مِّنْ مَّآئٍ غَیْرِ اٰسِنٍ } ” اس میں نہریں ہیں پانی کی جس میں کوئی ُ بو نہیں۔ “ { وَاَنْہٰرٌ مِّنْ لَّـبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ } ” اور دودھ کی نہریں ہیں جس کا ذائقہ تبدیل نہیں ہوتا۔ “ { وَاَنْہٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ } ” اور ایسی شراب کی نہریں ہیں جو سراپالذت ہے پینے والوں کے لیے۔ “ { وَاَنْہٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی } ” اور نہریں ہیں صاف شفاف ّشہد کی۔ “ { وَلَہُمْ فِیْہَا مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ } ” اور (مزید برآں) ان کے لیے ہوں گے اس میں ہر قسم کے پھل اور مغفرت ہوگی ان کے رب کی طرف سے۔ “ تو بھلا وہ لوگ جو ان جنتوں کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے کیا وہ : { کَمَنْ ہُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوْا مَآئً حَمِیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَآئَ ہُمْ } ” اُن جیسے ہوسکتے ہیں جو ہمیشہ آگ میں رہنے والے ہیں اور انہیں پلایا جائے گا کھولتا ہوا پانی جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ کر رکھ دے گا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20 Literally, asia is the taste and colour of water which has changed, or which gives a bad smell. In the world the water of rivers and canals is generally muddy; its taste and colour change due to the mixture of sand and dust and of different kinds of vegetation in it, and it also gives off a kind of bad smell. Therefore, the quality of the water of the rivers and canals of Paradise will be that it will be pure and clear, without any adulteration. 21 In a Hadith directly reported from the Holy Prophet, it has been explained thus: "It will not be the milk squeezed from the teats of animals." That is, it willbe the milk which Allah will bring out in the form of springs from the earth and cause it to flow into canals; it will not be squeezed from the teats of animals and then made to flow into the canals of Paradise. About this natural milk it has been said: Its flavour will not have changed at all ;" that is, it will not give even the slightest offensive smell that is found in every kind of milk squeezed from the animal teats. 22 In another Hadith reported directly from the Holy Prophet, it has been explained, thus: ''This wine will not have been distilled from rotten fruit by beating and crushing it under feet," like the wine in the world, but AIIah will produce it also in the form of springs and cause it to flow into canals; then its quality will be that "it will be delightful for the drinkers"; that is, it will not be bitter and foul-smelling like the wines of the world, which cannot be drunk even by the most habitual drinker without showing some distaste. In Surah As-Saffa t, another quality of it has been described: "Neither will the drinker be harmed physically thereby nor become drunk." (v. 47) In Surah AI-Waqi'ah it has been said: "... which will neither cause them giddiness nor affect their sense." (v. 19) This shows that wine will not intoxicate, but will only give pleasure and delight. 23 In the Hadith it has been explained, thus: "The honey will not have been drawn from the bees' bellies," but it also will come out from springs and flow into canals; therefore, it will not have wax, and pieces of the honey-comb and legs of dead bees mixed in it, but it will be absolutely pure. 24 The mention of forgiveness from Allah after the blessings of Paradise can have two meanings: (1) That the greatest blessing by far will be that Allah will forgive them; and (2) that the errors and faults that they happened to commit in the world, will not even so much as be mentioned before them, but Allah will cover them up for ever so that they are not put to shame in Paradise.

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :20 اصل الفاظ ہیں مَاءٍ غیر اٰسنٍ ۔ آسِن اس پانی کو کہتے ہیں جس کا مزا اور رنگ بدلا ہوا ہو ، یا جس میں کسی طرح کی بو پیدا ہو گئی ہو ۔ دنیا میں دریاؤں اور نہروں کے پانی عموما گدلے ہوتے ہیں ان کے ساتھ ریت ، مٹی اور بسا اوقات طرح طرح کی نباتات کے مل جانے سے ان کا رنگ اور مزا بدل جاتا ہے ۔ اور کچھ نہ کچھ بو بھی ان میں پائی جاتی ہے ۔ اس لیے جنت کے دریاؤں اور نہروں کے پانی کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ وہ غیر آسن ہوگا ۔ یعنی وہ خلاص ، صاف ستھرا پانی ہوگا کسی قسم کی آمیزش اس میں ہوگی ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :21 حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ وہ جانوروں کے تھنوں سے نکلا ہوا دودھ نہ ہوگا ۔ یعنی اللہ تعالی یہ دودھ چشموں کی شکل میں زمین سے نکالے گا اور نہروں کی شکل میں سے بہا دے گا ۔ ایسا نہ ہوگا کہ جانوروں کے تھنوں سے اس کو نچوڑا جائے اور پھر جنت کی نہروں میں ڈال دیا جائے ۔ اس قدرتی دودھ کی تعریف میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہوگا یعنی اس کے اندر وہ ذرا سی بساند بھی نہ ہوگی جو جانور کے تھن سے نکلے ہوئے ہر دودھ میں ہوتی ہے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :22 حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ اس شراب کو انسانوں نے اپنے قدموں سے روند کر نہ نچوڑا ہو گا ۔ یعنی وہ دنیا کی شرابوں کی طرح پھلوں کو سڑا کر اور قدموں سے روند کر کشید کی ہوئی نہ ہوگی ، بلکہ اللہ تعالی اسے بھی چشموں کی شکل میں پیدا کرے گا اور نہروں کی شکل میں بہا دے گا ۔ پھر اس کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ پینے والوں کے لیے لذیذ ہو گی ، یعنی دنیا کی شرابوں کی طرح وہ تلخ اور بو دار نہ ہوگی جسے کوئی بڑے سے بڑا شراب کا رسیا بھی کچھ نہ کچھ منہ بنائے بغیر نہیں پی سکتا ۔ سورہ صافات میں اس کی مزید تعریف یہ کی گئی ہے کہ اس کے پینے سے نہ جسم کو کوئی ضرر ہوگا نہ عقل خراب ہوگی ( آیت 47 ) ، اور سورہ واقعہ میں فرمایا گیا ہے کہ اس سے نہ دورد سر لاحق ہوگا نہ آدمی بہکے گا ( آیت 19 ) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ شراب نشہ آور نہ ہوگی بلکہ محض لذت و سرور بخشنے والی ہوگی ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :23 حدیث مرفوع میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ وہ مکھیوں کے پیٹ سے نکلا ہوا شہد نہ ہوگا ۔ یعنی وہ بھی چشموں سے نکلے گا اور نہروں میں بہے گا ۔ اسی لیے اس کے اندر موم اور چھتے کے ٹکڑے اور مری ہوئی مکھیوں کی ٹانگیں ملی ہوئی نہ ہوں گی ، بلکہ وہ خالص شہد ہوگا ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :24 جنت کی ان نعمتوں کے بعد اللہ کی طرف سے مغفرت کا ذکر کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ان ساری نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے کہ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرما دے گا ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو کوتاہیاں ان سے ہوئی تھیں ان کا ذکر تک جنت میں کبھی ان کے سامنے نہ آئے گا بلکہ اللہ تعالی ان پر ہمیشہ کے لیے پردہ ڈال دے گا تاکہ جنت میں وہ شرمندہ نہ ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:15) مثل الجنۃ التی وعد المتقون۔ مبتداء فیھا انھر ۔۔ ومغفرۃ من ربہم : خبر۔ کمن ھو خالد فی النار۔ خبر جس کا مبتداء محذوف ہے ای امن ھو فی ھذا النعیم المقیم الدائم کمن ھو خالد فی النار۔ مثل الجنۃ مضاف مضاف الیہ۔ اس جنت کی مثال۔ اگر مثل مرفوع مذکور ہے اور اس کے بعد کمثل نہیں آیا۔ تو صرف آیت (2: 214) میں مشبہ یعنی تشبیہی قصہ مراد ہے۔ باقی آیات میں مثل کا معنی ہے صفت ۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر مثل کا اطلاق اس حال یا صفت یا قصہ پر ہونے لگا جس میں کوئی عجیب ندرت اور پرشکوہ عظمت ہو مثلاً للہ المثل الاعلی (66:10) اللہ کی عجیب شان عالی ہے۔ یا مثل الجنۃ التی ۔۔ (آیت زیر مطالعہ ) جنت کی عجیب نادر حالت اور صفت “ (لغات القرآن جلد پنجم ص 316) ۔ التی اسم موصول واحد مؤنث ، وعد المتقون (جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے) صلہ۔ موصول وصلہ مل کر الجنۃ کی صفت۔ یہ جملہ مبتدا ہے۔ ترجمہ :۔ جس جنت کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کی صفت (کیفیت ) یہ ہے ! فیھا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع الجنۃ ہے۔ غیر اسن ۔ اسن اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ سخت بدبودار، اسن واسون (باب ضرب ونصر) مصدر (پانی کا) سڑا ہوا ہونا۔ بدبودار ہونا۔ غیر اسن ۔ ایسا پانی جس کا مزہ اور بو کبھی نہ بگڑے۔ لم یتغیر۔ مضارع نفی حجد بلم۔ مجزوم بوجہ عمل لم ۔ صیغہ واحد مذکر غائب تغیر (تفعل) مصدر۔ کبھی نہ بگڑے۔ لذۃ۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ یعنی لذیذ۔ اس کا مذکر لذ آتا ہے۔ یا یہ مصدر ہے اور مضاف محذوف ہے ای ذات لذۃ ) لذت والی۔ یا بطور مبالغہ لذیذ کو لذت فرما دیا۔ یعنی سراسر لذت ہی لذت ، نہ اس کی بو ناگوار ہوگی جیسے دنیوی شراب کی ہوتی ہے نہ نشہ اور خمار ہوگا۔ (تفسیر مظہری) ۔ شربین ۔ اسم فاعل جمع مذکر ۔ شارب واحد۔ شرب (باب سمع) مصدر پینے والے۔ عسل مصفی ۔ موصوف وصفت، نہایت صاف شہد، جس میں نہ موم کی آمیزش ہوگی نہ کسی اور چیز کی۔ ولہم میں وائو عاطفہ ہے کمن ھو : میں ک تشبیہ کا ہے من موصولہ ہے۔ کمن ھو میں من لفظ کے لحاظ سے مفرد ہے اس لئے ھو ضمیر مفرد راجع کردی گئی ہے لیکن معنی کے لحاظ سے من جمع ہے اس لئے سقوا کی ضمیر جمع لوٹائی گئی ہے۔ خالد۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ خلود باب نصر۔ مصدر۔ ہمیشہ رہنے والا۔ سدا رہنے والا۔ کیا ایسے لوگ جو سدا رہنے والی نعمتوں میں رہنے والے ہیں ان جیسے ہوسکتے ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے ہیں۔ وسقوا۔ میں وائو حالیہ ہے۔ اور عاطفہ بھی ہوسکتی ہے۔ سقوا ماضی مجہول جمع مذکر غائب۔ سقی (باب ضرب) مصدر۔ ضمیر مفعول ما لم یسم فاعلہ، جمع مذکر غائب ان لوگوں کے لئے ہے جو ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنے والے ہوں گے۔ ان کو پلایا جائے گا۔ ماء جمیعا۔ موصوف صفت مل کر مفعول ثانی فعل سقوا کا۔ کھولتا ہوا پانی، حمیم سخت گرم پانی کو کہتے ہیں۔ اسی اعتبار سے قریبی دوست کو بھی حمیم کہتے ہیں کیونکہ اپنے دوست کی حمایت بہت جلدی گرمی پکڑتا ہے۔ فقطع ف عاطفہ ہے۔ قطع ماضی واحد مذکر غائب ۔ تقطیع (تفعیل ) مصدر۔ اس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ ضمیر فاعل ماء کی طرف راجع ہے۔ امعاء ہم ۔ مضاف مضاف الیہ۔ امعاء جمع ہے معی ومعی کی۔ بمعنی آنتیں امعاء مفعول ہے قطع کا۔ اور ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع من ہے جو کہ معنی جمع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی کھڑے رہنے یا کسی چیز کی ملاوٹ سے اس میں تغیر نہیں آیا انتہائی صاف شفاف اور شراییں ہے۔ 6 یعنی بالکل تازہ دودھ ہے اس کے مزے میں کوئی تغیر نہیں آیا۔ 7 یعنی دنیا کی شراب کی طرح نہیں ہے جو بدبو دار اور بدمزہ ہوتی ہے اور اس سے سکر آجاتا ہے۔ 8 یعنی موم اور ہر قسم کے میل کچیل سے صاف کیا ہوا شہد ہے۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا الم یجرج من بطون النحل وہ مکھیوں کے پیٹ سے نکلا۔ حضرت معاویہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” جنت میں دودھ پانی شہد اور شربا کے ایسے دریا میں جن سے ابھی تک نہیں نکالی گئیں۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ نہ بو میں، نہ رنگ میں، نہ مزے میں۔ 4۔ غرض یہ کہ جب ان کے اعمال میں تفاوت ہے تو ان کے مآل میں یہ تفاوت ہوگا، جس کا بیان اب کیا گیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ دنیا میں ہلاک کیے گئے ان کی ہلاکت کا سبب یہ تھا کہ وہ ہدایت پر چلنے کی بجائے اپنی خواہشات کے بندے بن چکے تھے جس وجہ سے ان کا دنیا میں برا انجام ہوا اور آخرت میں جہنم کی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ اس سورت میں مومنوں اور کفار کے درمیان موازنہ کیا جارہا ہے۔ ایک شخص ہے جو اپنے رب کی طرف سے ٹھوس اور واضح دلیل پر عمل پیرا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا وہ ہے جو اپنے جذبات اور خیالات کی پیروی کرتا ہے اور اس کے لیے شیطان نے اس کے برے اعمال کو فیشن بنا دیا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت اور دلیل پر عمل پیرا ہے اور اپنے رب کی نافرمانی سے بچنے والا ہے۔ اس کے لیے اس کے رب نے اس جنت کا وعدہ کیا ہے جس کی شان اور حال یہ ہے کہ اس میں چار قسم کی نہریں جاری ہوں گی۔ جنت میں داخل ہونے والوں کے لیے ہر قسم کے ثمرات ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے ان کے لیے بخشش کا اعلان ہوگا۔ ان کے مقابلے میں جس شخص نے اپنے جذبات اور خیالات کی پیروی کی اور برے اعمال کو اپنے لیے اچھا جانا اسے ہمیشہ کے لیے جہنم کی میں جھونکا جائے گا اور پینے کے لیے اسے کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ جو اس کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالے گا۔ جنت میں چلنے والی نہریں : 1 ۔ جنت کی نہروں میں ایک نہر صاف اور شفاف پانی سے لبریز ہوگی اور اس کے پانی کی لہریں آپس میں اٹکلیاں کررہی ہوں گی۔ اس نہر کا پانی اس قدر صاف اور شفاف ہوگا جس میں نہ مٹی ہوگی اور نہ ہی ریت کے ذرات ہوں گے۔ اس پانی کا نہ رنگ بدلے گا، نہ ذائقہ تبدیل ہوگا اور نہ ہی اس میں بوپیدا ہوگی۔ 2 ۔ جنت میں ایک نہر ایسی ہوگی جو دودھ سے لبالب ہوگی۔ اس میں ایسا دودھ ہوگا کہ جس کا رنگ چاند کی روشنی سے زیادہ روشن ہوگا۔ اس کے دودھ کا ذائقہ کبھی تبدیل نہیں ہوگا۔ جنتی اس سے دودھ کے جام بھریں گے اور آپس میں خوش گپیاں کرتے ہوئے ان سے لطف اندوز ہوں گے۔ 3 ۔ جنت میں بہنے والی تیسری نہر شراب سے بھر پور ہوگی۔ دیکھنے میں یہ شراب ہوگی لیکن یہ کسی اعتبار سے بھی دنیا کی شراب کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتی ہوگی۔ دنیا کی شراب میں کڑواہٹ، ترشی اور کچھ نہ کچھ نشہ ضرور ہوتا ہے جس سے انسان کی عقل میں فتور پیدا ہوتا ہے۔ اور اس کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جنت کی شراب اس قسم کی آلائشوں سے یکسر پاک ہوگی یہ ان لوگوں کو نصیب ہوگی جو دنیا میں شراب کو حرام سمجھتے تھے اور اس سے کلی طور پر اجتناب کیا کرتے تھے۔ ان کے مقابلے میں کفار اور مشرکین کو جہنم کی آگ میں داخل کیا جائے گا۔ جب وہ جہنم کی تلخی کی وجہ سے پانی طلب کریں گے تو انہیں پینے کے لیے انتہائی کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا جس سے ان کی آنتڑیاں کٹ کر رہ جائیں گی۔ 4 ۔ جنت کی نہر ایسے شہد سے بھری ہوگی جس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہوگی۔ یہ شہد اتنا صاف اور شفاف ہوگا جس میں پینے والے کو اپنا چہرہ نظر آئے گا۔ اس کی مٹھاس کے بارے میں کسی انسان کے پاس ایسے الفاظ نہیں کہ جس سے وہ اس کے ذائقے اور مٹھاس کی ترجمانی کرسکے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اللہ اور رسول پر ایمان لایا اس نے نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے۔ اسے جنت میں داخل کرنا اللہ پر حق ہے اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی جنم دھرتی میں بیٹھا رہا۔ صحابہ (رض) نے عرض کی اللہ کے رسول ! کیا ہم لوگوں کو خوشخبری نہ دیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں سو درجات بنائے ہیں ہر دو درجے کا درمیانی فاصلہ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ جتنا ہے جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ یہ جنت کا وسط اور اعلیٰ مقام ہے راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپررحمان کا عرش ہے اور وہاں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔ “ (رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر) مسائل ١۔ اپنے رب کی ہدایت پر چلنے والا اور اپنی خواہشات کے پیچھے لگنے والا برابر نہیں ہوسکتے۔ ٢۔ جو اپنی خواہشات کے پیچھے لگے گا وہ برباد ہوجائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے پاک پانی، شفاف دودھ، مزیدار شراب اور خالص شہد کی نہریں جاری کر رکھی ہیں۔ ٤۔ جنت کے مقابلے میں کفار اور مشرکین کو جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا اور انہیں پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ ٥۔ جنتی کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ جنتی پر ہمیشہ ہمیش راضی رہے گا۔ تفسیر بالقرآن جنتی کا انعام اور جہنمی کا انجام : ١۔ جب فرشتے پاکباز لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں تو انھیں سلام کہتے ہیں اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ (النحل : ٣٢) ٢۔ فرشتے کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو تم نے صبر کیا آخرت کا گھر بہت ہی بہتر ہے۔ (الرعد : ٢٤) ٣۔ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ آج تمہارے لیے داخلے کا دن ہے۔ (ق : ٣٤) ٤۔ فرشتے جب جنتی کے پاس جائیں گے تو انہیں سلام کہیں گے۔ (الزمر : ٨٩) ٥۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت کو قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٦۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ : ١٢) ٧۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب وہ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٨۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پئیں گے اور اس طرح پیئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں ؟ ان کے حالات ، طرز زندگی اور سمت سفر سب جدا ہیں۔ اس لیے ممکن نہیں کہ وہ ایک پیمانے کے مطابق ناپے اور تولے جاسکیں۔ اور دونوں کا ایک ہی انجام ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے درمیان فرق و امتیاز ہے۔ دونوں کا انجام بھی مختلف ہے۔ مثل الجنۃ التی ۔۔۔۔۔ حمیماً فقطع امعاء ھم (٤٧ : ١٥) “ پرہیز گار لوگوں کے لئے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی ، نتھرے ہوئے پانی کی ، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہوگا ، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لئے لذیذ ہوگی ، نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی۔ اس میں ان کے لئے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے بخشش۔ (کیا وہ شخص جس کے حصہ میں یہ جنت آنے والی ہے ) ان لوگوں کی طرح ہوسکتا ہے جو جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور جنہیں ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں تک کاٹ دے گا ؟ ”۔ جنت کی خوشیوں اور جہنم کے عذاب کی یہ نہایت ہی محسوس تصویر اور منظر قرآن کریم میں بار بار آتا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ کبھی معنوی اور مجرد خالص خوشیوں کا ذکر بھی آتا ہے۔ کئی جگہ اس قسم کی خوشیوں کا ذکر بھی ہے جن کے اندر حسبات کا حصہ کم ہے ۔ اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ وہ انسان کو خوب جانتا ہے۔ “ من خوب می ثناسم پیران پارسارا ”۔ اللہ کو معلوم ہے اور سب سے زیادہ معلوم ہے کہ انسان کے دلوں پر زیادہ اثر کس چیز کا ہوتا ہے ۔ ان کی تربیت کس طرح ممکن ہے۔ ان کے لئے کون سی نعمتیں بہتر ہیں اور ان کے لئے کون سی مناسب ہیں۔ پھر انسانوں کے بھی کئی مدارج ہیں ، نفوس انسانی کے بھی کئی رنگ ہیں۔ مختلف مزاج ہیں۔ یہ سب انسان ہیں۔ انسانیت میں برابر ہوتے ہوئے بھی رنگ ، مزاج اور خواہشات میں اختلاف ہے۔ اس لیے اللہ نے اپنے فضل و کرم اور انعامات میں بھی تنوع رکھا ہے۔ اور ہر کسی کو اس کی خواہش کے مطابق دیا ہے اور دے گا۔ وہ اپنے بندوں کو خوب جانتا ہے۔ انسانوں میں سے ایسے بھی ہیں جن کی اصلاح کے لئے نتھرے ہوئے پانی کی نہریں ، دودھ کی نہریں جن کا ذائقہ بدلا ہوا نہ ہو۔ عسل مصفی کی نہریں ، اور لذیذ شراب کی نہریں مناسب ہیں ، یہی ان کی خواہش ہے۔ پھر یہ لوگ اس قسم کے پھل کو پسند کرتے ہیں ، پھر رب کی مغفرت ، لہٰذا اللہ نے ایسے ہی لوگوں کی تربیت کے لئے ان کی خواہشات کے مطابق یہ انعامات رکھے ہیں۔ اور انہیں کے بارے میں ہے۔ لھم فبھا ما یشاءون “ یہی ان کے لئے مناسب ہیں۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ کی بندگی ان انعامات کے شکر کی وجہ سے کرتے ہیں جو لا تعداد ہیں ، بعض ایسے ہیں جو اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ کی بندگی کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں ، یا پھر وہ اس بات سے شرم محسوس کرتے ہیں کہ اللہ ان کو ایسی حالت میں دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔ ایسے لوگ اللہ کی بندگی پر جنت کی لالچ نہیں رکھتے۔ اور دوزخ کے ڈر سے نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو انعامات کی پرواہ نہیں ہوتی۔ نہ سزا کا خوف ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی تربیت اور جزاء کے لئے بھی اللہ نے ایک معیار رکھا ہے۔ ان الذین امنوا ۔۔۔۔۔ الرحمن ودا “ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں ان کے لئے خدائے رحمٰن محبت پیدا کردے گا ”۔ اور ان کو یہ یقین بھی ہوگا۔ فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر “ یہ سچائی کے مقام پر صاحب اقتدار بادشاہ کے پاس ” کرسی نشین ہوں گے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر نماز پڑھتے تھے کہ پاؤں مبارک سوچ جاتے تھے۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ آپ اس قدر عبادت کرتے ہیں حالانکہ آپ کے تو اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا “ عائشہ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ”۔ (مسلم) رابعہ عدویہ فرماتی ہیں ، اگر نہ جنت ہوتی اور نہ آگ ہوتی تو کیا کوئی اللہ کی عبادت نہ کرتا اور کوئی اللہ سے نہ ڈرتا ؟ انہی سے سفیان ثوری نے ان کے ایمان کی حقیقت پوچھی تو انہوں نے جواب دیا “ میں نے اللہ کی بندگی اس کی آگ کی ڈر کی وجہ سے نہیں کی اور نہ اس کی جنت کی لالچ کی وجہ سے کی کہ میں ایک برے مزدور کی طرح بن جاؤں کہ محض لالچ میں کام کروں ”۔ بہرحال انسانوں میں سے بعض کا یہ رنگ ہے اور بعض کا وہ رنگ۔ اور اللہ نے دونوں کے لئے مایشاؤن کے مطابق انعامات رکھے ہوئے ہیں۔ جو ان کے مزاج کے مطابق ہیں۔ اور جن سے ان کی تربیت ہوتی ہے۔ یہ بات نظر آتی ہے کہ قرآن نے مسلمانوں کی جوں جوں تربیت کی ، اس کی ساتھ ساتھ وسائل تربیت بھی زیادہ لطیف ہوتے گئے اور مسلمانوں کے بدلتے ہوئے ذوق کے مطابق تبدیل ہوتے رہے کیونکہ انسان اپنی تاریخ میں انسانیت کے مختلف مدارج پر رہا ہے۔ بہرحال جزاء کی بھی دو قسمیں ہیں۔ یہ نہریں قسما قسم کے پھلوں کے ساتھ اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی کے ساتھ اور دوسری قسم : کمن ھو خالد فی ۔۔۔۔۔ امعاء ھم (٤٧ : ١٥) “ ان لوگوں کی طرح جو جہنم میں رہیں گے اور جنہیں ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں تک کاٹ دے گا ”۔ عذاب کی یہ صورت نہایت ہی حسی اور سخت ہے۔ یہ صورت اس سورت کی فضا کے ساتھ بہت ہی مناسب ہے۔ یہ اس دنیا میں بھی اس قدر مگن ہے کہ ماسوائے کھانے پینے کے اس کے سامنے کوئی اور اونچا نصب العین نہیں ہے۔ فضا ایسی ہے کہ سامان معیشت بھی حسی ہے۔ اس قوم کا مزاج بھی جانوروں کی طرح حسیات ہی کو دیکھتا ہے۔ اس لیے ان کے لئے سزا بھی ایسی ہی سخت ہے۔ گرم ترین پانی ان کو اس طرح پلایا جائے گا کہ نہ صرف یہ کہ منہ جل جائے گا بلکہ آنتیں تک کٹ جائیں گی اور دنیا میں یہ لوگ تھے بھی جانوروں کی طرح سخت۔ کس طرح یہ لوگ ایمان والوں کی طرح ہو سکتے جو نہایت مہذب ہیں۔ یہاں یہ پہلا مطالعہ ختم ہوتا ہے۔ جو سورت شروع ہوتے ہی ان لوگوں پر ایک تنقیدی حملے کی شکل میں شروع ہوا تھا۔ اور یہ اس طرح جاری رہا جس طرح دو کیمپوں کے درمیان جنگ جاری ہوتی ہے۔ آخر تک یہ کشمکش سخت الفاظ میں ہوتی رہی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل جنت کے مشروبات طیبہ اور اہل نار کا مشروب ماء حمیم اس آیت میں بھی مومنین کے انعامات اور کافروں کی سزا بیان فرمائی ہے اول تو جنت کا حال بیان فرمایا ہے جس کا متقیوں سے وعدہ ہے جنت میں بہت سی نعمتیں ہیں ان میں نہریں بھی ہیں ارشاد فرمایا کہ جنت میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جو متغیر نہ ہوگا اور دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ بدلہ ہوا نہ ہوگا اور شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لیے سراپا لذت ہوگی اور بالکل صاف شہد کی نہریں ہیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے تیار فرمایا ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے سو جب تم اللہ سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ جنت کا سب سے افضل اور اعلیٰ درجہ ہے اور اسی کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے نہریں جاری ہیں۔ (صحیح البخاری ص ٣٩١) یہ حدیث حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے بھی مروی ہے اس میں یوں ہے : منھا تفجر انھار الجنة الاربعة یعنی جنت الفردوس سے چاروں نہریں جاری ہیں۔ ملا علی قاری (رح) ” مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح “ میں لکھتے ہیں یہی وہ چار نہریں ہیں جو قرآن مجید میں مذکور ہیں یعنی پانی اور دودھ اور شراب اور شہد کی نہریں حدیث شریف کے بیان سے یہ معلوم ہوا کہ جنت الفردوس سے چار نہریں نکلتی ہیں ان کا منبع اور مرکز جنت الفردوس ہے (پھر ان کی شاخیں پھوٹتی ہوئی دوسری جنتوں میں پہنچتی ہیں اس میں جو شراب کی نہریں بتائی ہیں ان کے ساتھ ﴿ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ﴾ بھی فرما دیا یعنی یہ بتادیا کہ یہ شراب سراپا لذت ہوگی اس کو پینے سے نشہ نہ آئے گا اور نہ کوئی تکلیف ہوگی۔ سورة الصافات میں فرمایا ﴿يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍۭۙ٠٠٤٥ بَيْضَآءَ لَذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَۚۖ٠٠٤٦ لَا فِيْهَا غَوْلٌ وَّ لَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُوْنَ ٠٠٤٧ ﴾ (ان کے پاس ایسا جام شراب لایا جائے گا جو بہتی ہوئی شراب سے بھرا جائے گا سفید ہوگی، پینے والوں کو لذیذ معلوم ہوگی، نہ اس میں درد ہوگا اور نہ اس سے عقل میں فتور آئے گا) اور سورة الواقعہ میں فرمایا ﴿يَطُوْفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَۙ٠٠١٧ بِاَكْوَابٍ وَّ اَبَارِيْقَ ١ۙ۬ وَ كَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍۙ٠٠١٨ لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا وَ لَا يُنْزِفُوْنَۙ٠٠١٩ ﴾ (ان کے پاس ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے یہ چیزیں لے کر آمد و رفت کیا کریں گے آبخورے اور آفتاب اور ایسا جام شراب جو بہتی ہوئی شراب سے بھرا جائے گا نہ اس سے ان کو درد سر ہوگا اور نہ اس سے عقل میں فتور آئے گا۔ ) ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جنت میں جو کچھ پینے پلانے کے لیے دیا جائے گا اس میں لذت ہی لذت ہوگی نہ عقل میں فتور آئے گا نہ نشہ ہوگا، نہروں کا تذکرہ فرمانے کے بعد فرمایا ﴿ وَ لَهُمْ فِيْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَ مَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ ﴾ اور ان کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہوگی۔ اس کے بعد فرمایا ﴿كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ ﴾ (الآیۃ) یہاں عبارت حذف ہے۔ یعنی من کان فی ھذا النعیم کمن ھو خالد فی النار جو شخص ان مذکورہ بالا نعمتوں میں ہوگا کیا ان لوگوں کی طرح ہوسکتا ہے جو ہمیشہ دوزخ کی آگ میں رہیں گے اور جنہیں کھولتا ہوا گرم پانی پلایا جائے جو ان کی آنتوں کو کاٹ ڈالے گا۔ حضرت ابو الدرداء (رض) رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخیوں کو اتنی زبردست بھوک لگا دی جائے گی جو اکیلی ہی اس عذاب کے برابر ہوگی جو ان کو بھوک کے علاوہ ہو رہا ہوگا لہٰذا وہ کھانے کے لیے فریاد کریں گے اس پر ان کو ضریع کا کھانا دیا جائے گا جو نہ موٹا کرے گا نہ بھوک دفع کرے گا۔ پھر دوبارہ کھانا طلب کریں گے تو ان کو ﴿ طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ ﴾ گلے میں اٹکنے والا کھانا دیا جائے گا جو گلوں میں اٹک جائے گا اس کے اتارنے کے لیے پینے کی چیز پیا کرتے تھے لہٰذا پینے کی چیز طلب کریں گے، چناچہ کھولتا ہوا پانی لوہے کے سنڈاسیوں کے ذریعہ ان کے سامنے کردیا جائے گا۔ وہ سنڈاسیاں جب ان کے چہروں کے قریب ہوں گی تو ان کے چہروں کو بھون ڈالیں گے پھر جب پانی پیٹوں میں پہنچے گا تو پیٹ کے اندر کی چیزوں (یعنی آنتوں وغیرہ) کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤۔ ٥ الترمذی) حضرت ابو امامہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ﴿ وَ يُسْقٰى مِنْ مَّآءٍ صَدِيْدٍۙ٠٠١٦﴾ کے بارے میں فرمایا کہ ماء صدید (پیپ کا پانی) جب دوزخی کے منہ کے قریب کیا جائے گا تو وہ اس سے نفرت کرے گا پھر اور قریب کیا جائے گا تو چہرے کو بھون ڈالے گا اور بالآخر پاخانے کے مقام سے باہر نکل جائے گا۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیات تلات فرمائی (اول آیت سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعنی) ﴿ وَ سُقُوْا مَآءً حَمِيْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَآءَهُمْ ٠٠١٥﴾ دوسری سورة کہف کی آیت یعنی ﴿ اِنْ يَّسْتَغِيْثُوْا۠ يُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوْهَ ١ؕ بِئْسَ الشَّرَابُ﴾ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٥٠٣ از ترمذی)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” مثل الجنۃ “ بشارت اخرویہ اور نعیم جنت کی صفت کا بیان ہے۔ متقی اور پرہیز گار لوگوں کیلئے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی صفت اور اس کی نعمتوں کا حال یہ ہے کہ اس میں بہنے والی پانی کی نہروں کا پانی ہمیشہ خوش رنگ اور خوش ذائقہ رہے گا اور اس کے رنگ و بو میں کبھی تبدیلی نہیں آئیگی۔ اسی طرح ایسے دودھ کی نہریں جاری ہوں گے جس کا مزہ کبھی نہیں بگڑے گا۔ حالانکہ دنیا کا دودھ تھوڑی دیر میں متغیر ہوجاتا ہے۔ جنت میں شراب کی بھی نہریں جاری ہوں گی لیکن دنیوی شرابوں کے برعکس جنت کی شراب نہایت لذیذ اور پر لطف ہوگی، بدبو، بد مزگی اور نشہ سے پاک ہوگی اور صاف شفاف شہد کی نہریں ہوں گی جو ہر قسم کے فضلات اور کثافت سے پاک صاف ہوگا۔ مشروبات کے علاوہ کھانے کیلئے ہر قسم کے پھل اور میوے ہوں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے گناہوں پر پردہ ڈال دیا جائیگا ان پر نہ مؤاخذہ ہوگا اور نہ کبھی ان سے ان کا ذکر ہی کیا جائیگا تاکہ وہ شرمسار نہ ہوں اور ان کے عیش و سکون میں فرق نہ آئے۔ ” کمن ھو خالد الخ “ یہ حال کفار و تخویف اکرو۔ ایک وہ شخص ہے جسے جنت میں مذکورہ بالا نعمتیں نصیب ہوں گی کیا ایسا سعادتمند انسان اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو ہمیشہ دوزخ میں رہے گا اور جسے وہاں پینے کے لیے سخت ترین گرم پانی دیا جائیگا جو پیتے ہی اس کی انتڑیاں ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) جس جنت کا اہل تقویٰ اور متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کی کیفیت اور اس کا حال یہ ہے کہ اس میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جس پانی کے رنگ وبو اور مزہ میں ذرا تغیر نہ ہوگا اور ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس دودھ کے ذائقہ میں تغیر نہ ہوگا اور ایسی شراب کی نہریں ہوں گی جو پینے والوں کے لئے بہت لذیذ اور مزے دار ہوگی اور ایسے شہد کی نہریں ہوں گی جو بالکل صاف اور خالص ہوگا اور ان اہل جنت کے لئے اس جنت میں ہر قسم کے پھل ہوں گے اور ان کے پروردگار کی جانب سے ان کے لئے بڑی مغفرت اور بخشش ہوگی کیا یہ اہل جنت کہیں ان کے برابر اور ان جیسے ہوسکتے ہیں جو ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہیں گے اور وہ سخت کھولتا ہوا پانی پلائے جائیں گے پس وہ کھولتا ہوا پانی ان کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور پارہ پارہ کردے گا۔ اوپر فریقین کے اعمال کا فرق بیان فرمایا تھا یہاں سے فریقین کے انجام کا ذکر فرمایا نہر کا پانی کبھی خراب نہ ہوگا دودھ کا مزہ کبھی نہ بگڑے گا شراب بہت مزیدار ہوگی شہد میں میل کچیل نہ ہوگا ہر قسم کے بہتر سے بہتر پھل کھانے کو ہوں گے مزید برآں حضرت حق تعالیٰ کی بخشش اور مغفرت ایک طرف یہ سازو سامان دوسری طرف سدا آگ میں رہنا کھولتا ہوا پانی پلایا جانا جو آنتوں اور انتڑیوں کے کاٹ کر ٹکڑے اڑادے ان دونوں حالتوں میں مساوات کہاں ہوسکتی ہے۔ پہلے اعمال کا ذکر تھا اب اس آیت میں اس کا پس منظر مذکور ہوا تسادی کی نفی فرمائی اور واقعی کہاں یہ بےکراں نعمتیں اور کہاں عذاب کی شدت دونوں میں کوئی نسبت نہیں۔ آگے منافقین کی حالت کا بیان ہے۔